مسلمان“ کی ضرورت ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
”مسلمان“ کی ضرورت ہے !!
…………محمد صفتین احمد
کئی سال پہلے میں جس آفس میں جاب کرتا تھا وہاں کا ماحول کافی ویسٹرن تھا۔ لڑکے لڑکیاں بہت فرینک تھے اور ہر ایک کے کمپیوٹر کے ساتھ سپیکرز اٹیچڈ تھے، آپس میں گہری دوستیاں بھی تھیں ، اکٹھے ٹی پارٹیاں اور گپ شپ کا بھی خوب ماحول ہوتا تھا ، چنانچہ ہال میں ہر وقت وہاں کے لڑکے لڑکیوں کے قہقہوں اور میوزک کے آوازیں گونجا کرتیں تھیں۔
ایک دن ہمارے ایک بہت بڑے کلائینٹ کا ایک نیا پراجیکٹ شروع ہوا جس کے لئے ہمیں عارضی بنیادوں پر ایک مکینیکل انجینئر کی ضرورت پڑی جو ہماری کمپنی کی ایک دوسری برانچ میں جاب کرتا تھا، چنانچہ اس کو تین ماہ کیلئے ہمارے آفس ٹرانسفر کردیا گیا۔
اس کی عمر تقریباً تیس بتیس سال تھی، انجینئرنگ یونیورسٹی سے بہت اچھے نمبروں سےاس نے ٹاپ کیاتھا اور گفتگو سے بہت پڑھا لکھا اور لائق فائق لگتا تھا۔ ان سب باتوں کے باوجود ہم سب لوگوں کو اس کا ہمارے درمیان آنا اچھا نہیں لگا کیونکہ اس کی مٹھی بھر لمبی داڑھی تھی اور وہ ایک مذہبی قسم کا نوجوان لگتا تھا۔
ہم سب نے فیصلہ کیا کہ اس کو اگنور کریں گے اور اپنی روٹین جاری رکھیں گے چنانچہ ہم نے مخلوط دوستیاں موسیقی ، موج مستی ، گانا بجانا ،میوزک اور دوسری ایکٹیویٹیز جاری رکھیں۔
لیکن مسئٰلہ یہ ہوا کہ جب بھی نماز کا وقت ہوتا، وہ اٹھ کر ہر ایک کے پاس آتا، اسے نماز کی دعوت دیتا اور وضو کر کے وہیں ہال میں نماز پڑھنا شروع کردیتا جس کی وجہ سے مجبوراً ہمیں میوزک بند کرنا پڑجاتا۔
آہستہ آہستہ ہم اس کے ساتھ گھلنا ملنا شروع ہوئے۔ وہ ایک انتہائی قابل شخص ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ملنسار بھی تھا۔ جس کسی کو بھی کوئی پرابلم پیش آتی، وہ خود اٹھ کر اس کی مدد کرتا، حتی کہ وہ اپنے سے جونئیر کولیگز کیلئے کچن سے چائے اور پانی بھی لے آتا۔
ایک مہینے کے اندر اندر وہ سب کا بہت اچھا دوست بن گیا جس کی وجہ سے ہم سب نے میوزک بلند آواز میں سننے کی بجائے ہیڈ فونز سے سننا شروع کردیا تاکہ اس کے جذبات مجروح نہ ہوں۔ اب کچھ لوگوں نے اس کے ساتھ باجماعت نماز بھی پڑھنی شروع کردی تھی۔
تین ماہ بعد ہم سب لوگ باجماعت نماز پڑھنا شروع کرچکے تھے اور ہم نے اپنے کمپیوٹروں سے سپیکر اتاردیے تھے۔ کئی لوگوں نے ڈاڑھیاں بھی رکھنی شروع کردیں تھیں۔ہمارے آفس کی خواتین نے بھی حجاب پہننا شروع کردیا تھا۔ گانے بجانے ، موج مستی ، بیہودہ گوئی ، بدنظری اور دیگر خرافات ہم سے دور چلی گئی تھیں۔
جب وہ اپنا پراجیکٹ ختم کرکے ہمارے آفس سے جارہا تھا تو ہم میں سے ہر شخص اداس تھا۔ ہم نے اسے بہت کنونس کرنے کی کوشش کی کہ وہ ہمارے آفس کو جوائن کرلے لیکن وہ نہ مانا۔ ہم نے اسے دھمکی بھی دی کہ اگر وہ چلا گیا تو ہم پھر سے میوزک سننا شروع کردیں گے اور نمازیں نہیں پڑھیں گے لیکن وہ صرف مسکرا کر رہ گیا۔ اسے یقین تھا کہ یہ صرف دھمکی ہے۔
آج کسی نے پوچھا تھا کہ سچا مسلمان کون ہوتا ہے تو میرے دماغ میں فوراً اسی انجینئر کا خیال آیا، جو اپنے عمل سے ہم سب کو گناہوں سے نکال کر اچھے راستے پر لگا گیا۔ ہمیں ایسے مسلمانوں کی ضرورت ہےبلکہ اشد ضرورت ہے۔