مجرم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">مجرم

ظہور الٰہی جنجوعہ
اس کی شادی میں تاخیر کیوں ہوتی رہی ؟وہ لڑکی کیوں رضامندی کا اظہار نہیں کرتی تھی۔ یہ اپنی کس بات پر اڑا رہا ؟اس ساری داستان میں کون مجرم تھا ؟ اس کا جرم کیا تھا ؟ اس کو جرم کی سزا کیا ملی ؟آئیے پڑھتے ہیں ظہور الہٰی کی اس تحریر میں
میں نیول فورس کراچی میں تھا اور میری منگنی ماموں کی بیٹی کے ساتھ ہو چکی تھی اور میرے ماموں فوج میں کرنل تھے۔ اسی دوران کراچی میں ایک بزرگ کے ساتھ میرا کچھ تعلق بن گیا۔ ان کی صحبت کی وجہ سے مجھ میں باطنی اور ظاہری بہت سی تبدیلی آنی شروع ہو گئی اور اس تبدیلی کا ظاہری اثر یہ ہوا کہ میں نے ڈاڑھی رکھ لی۔ اس کے بعد جب شادی کرانے کیلئے میں چھٹی پر گھر گیا تو گھر والے سب ناراض ہوئے کہ ڈاڑھی کیوں رکھی ہے؟ ابھی تم جوان ہو اور تمہاری شادی کرنی ہے لہٰذا ڈاڑھی کو کٹا دو تو میں نے کہا کہ میں نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم رکھی ہے اب یہ نہیں کٹا سکتا۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ تمہارا ماموں اپنی بچی کی شادی نہیں کرے گا جب تک ڈاڑھی نہیں کٹاؤ گے۔ میں نے کہا کہ میں نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت رکھی ہے اس لیے یہ نہیں کٹ سکتی، چاہے شادی ہو یانہ ہو۔
ادھر ماموں کو معلوم ہوا تو ماموں نے بھی ڈاڑھی کٹانے کی قید لگا دی کہ جب تک ڈاڑھی نہیں کٹاؤ گے میں اپنی بچی کی شادی تمہارے ساتھ نہیں کروں گا۔ آخر میں شادی کرائے بغیر چھٹی گزار کر واپس ڈیوٹی پر کراچی آگیا۔ شادی لیٹ سے لیٹ ہوتی گئی۔ آخر لڑکی نے اپنے باپ سے کہا کہ آپ میری شادی کرا دیں۔ ڈاڑھی میں خود کٹوا دوں گی، یہ چیز آپ میرے اوپر چھوڑ دیں۔ گھر والوں نے شادی کے دن مقر ر کرکے مجھے اطلاع کر دی۔
میں چھٹی لے کر گھر چلا گیا اور مقررہ تاریخ پر میری شادی ہو گئی۔ شادی کے چند دنوں کے بعد ایک رات میں سویا ہوا تھا کہ میری بیوی نے میری والدہ سے کہا کہ غلام رسول کی سوتے میں ایک طرف سے ڈاڑھی کاٹ دیتے ہیں پھر خود ہی ساری صاف کر دے گا، آپ والدہ ہیں آپ کو کچھ نہیں کہے گا اور اگر میں کاٹوں کی تو مجھ سے ناراض ہو گا۔ میری والدہ اُس کی باتوں میں آگئی اور اس طرح میری والدہ کو باتوں میں پھسلا کر میری ایک طرف سے ڈاڑھی کاٹ دی گئی، جب میں سو کر اٹھا اور آئینہ کے سامنے گیا تو دیکھا کہ میری ڈاڑھی ایک طرف سے کٹی ہوئی ہے۔ مجھے دیکھ کر بہت دلی رنج اور صدمہ ہوا۔ پوچھنے پر پتہ چلا کہ والدہ صاحبہ نے ایسا کیا ہے، والدہ کا سن کر میں خاموش ہو گیا کہ رب العزت کا حکم ہے کہ والدین کو اُف بھی نہ کہو اور اب والدہ کو کیا کہوں؟ یہ سوچ کر خاموش ہو گیا اور معاملہ اللہ پر چھوڑ دیا، باقی ڈاڑھی کو برابر کر لیا اور چھٹی کے بقایا دن خاموشی سے گزار کر واپس کراچی آگیا۔
ڈاڑھی آہستہ آہستہ پھر بڑی ہو گئی، کراچی سے میں گھر والوں کی خیر خیریت معلوم کرنے کیلئے خط لکھتا رہا مگر گھر سے نہ ہی بیوی کی طرف سے اور نہ والدہ کی طرف سے کوئی جواب آتا۔ آخر 6ماہ کے انتظار کے بعد میں چھٹی لے کر گھر گیا تو دیکھا کہ بیوی یرقان سے بیمار ہو کر بالکل سوکھ چکی ہے اور والدہ بھی بیمار اور ایک ہاتھ کو کوڑھ ہو چکا ہے اور گوشت اتر کر ہاتھ کی ہڈیاں نظر آرہی ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بیوی اور والدہ دونوں رونا شروع ہو گئیں اور بیوی قدموں میں گر کر معافی مانگنے لگیں اور والدہ میرے گلے لگ کررونے اور معافی مانگنے لگیں۔ میں نے کہا آخر بات کیا ہے ؟مجھے کچھ بتاؤ تو سہی ؟ کہنے لگیں کہ پہلے آپ ہمیں معاف کریں، پھر بتائیں گے۔ میں نے کہا کس بات کی معافی، آخر ہوا کیا ہے؟ کہنے لگیں پہلے معاف کریں۔ میں نے کہا کہ معاف کیا۔ والدہ نے کہا کہ بیٹا میں نے اسی ہاتھ سے آپ کی ڈاڑھی کاٹی تھی جس دن ڈاڑھی کاٹی تھی، اسی دن سے اس ہاتھ میں تکلیف شروع ہو گئی تھی۔ اور اب یہ حالت ہے، بیوی نے کہا میں نے ڈاڑھی کٹوائی تھی۔ اس کی مجھے یہ سزا ملی ہے کہ میں یرقان کی مریضہ ہو کر مرنے کے قریب پہنچ چکی ہوں۔ آپ ہمیں اللہ کیلئے معاف کر دیں۔
میں نے والدہ صاحبہ اور بیوی دونوں کو کہا کہ اصل میں آپ میرے مجرم نہیں ہیں بلکہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مجرم ہیں۔ آپ نے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کی تھی، اس لیے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سچے دل سے معافی مانگیں، میں نے تو معاف کر ہی دیا ہے۔ والدہ اور بیوی دونوں نے اللہ سے رو رو کر سچے دل سے معافی مانگی۔ تو اس کے بعد بغیر دوائی و علاج کے والدہ صاحب اور میری بیوی دونوں ہی خود بخود ٹھیک ہونا شروع ہو گئیں اور آہستہ آہستہ صحت مند ہو گئیں۔