اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اے خانہ بر انداز چمن کچھ تو ادھر بھی!!
بنت مولانا عبدالمجید
( جامعہ بنوریہ ، کراچی)
وجودِ زن سے ہے تصویرِ کائنات

میں رنگ

اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز

درون

شرف میں ثریا سے بڑھ کہ مشتِ

خاک اس کی

کہ ہر شرف ہے اسی درج کا درّ

مکنون

بلا شبہ اسلام ہی دنیا میں وہ واحد مذہب ہے جس نے حیات ِانسانی کے کسی گوشے کو تشنہ نہیں چھوڑا بلکہ ہر جگہ مکمل رہنمائی کی ہے ،عبادت ہو یا سیاست ،شادی ہو یا غم ،مرنا ہو یا جینا ،معاشرتی نظام ہو یا ازدواجی زندگی غرضیکہ ہر جگہ وہ ایک ایسی یکتا و منفرد حیثیت رکھتا ہے۔ جس سے دیگر ادیان و مذاہب تہی دامن ہیں۔
اسلام نے اس سر زمین پر قدم رکھتے ہی دم توڑتے ہوئے معاشرے میں ایسی روح پھونکی جس سے رشتہ انسانیت وقرابت کو وہ حقوق حاصل ہوئے جن سے وہ عرصہ ٔ دراز سے محروم تھے یہ بات اتنی واضح اور عام فہم ہے کہ اس کے لئے کسی فنی دقیقہ رسی ،فلسفیانہ موشگافی اور علمی نکتہ وآفرینی کی ضرورت نہیں ہے۔
اسلام نے والدین کا رشتہ بنایا تو اس میں سامان جنت رکھ دیا ،اولاد کے رشتے میں آنکھوں کی ٹھنڈک سمودی ،زوجین کے رشتہ کو باعث راحت وسکون بنادیا اور مرد وعورت دونوں کو ہی دوسرے حقوق اور اپنے فرائض واضح سمجھادیے جن کی رعایت رکھنے سے ان کی حیات جنت نما ہوجائے۔
یہ حقیقت تو عیاں ہے کہ آج خاندانی زندگیوں کا شیرازہ بکھر گیا ہے دلوں میں نفرتیں اور دوریاں ہونے کی وجہ سے گھر ٹوٹ رہے ہیں ،ہر گھر میں تباہی کی آ گ لگی ہے۔
کہیں صنف نازک کی بے صبری اور ناسمجھی ہے تو کہیں مرد کا غصہ انتہا کو پہنچا ہے ،کبھی ذرا سی بات پر عورتیں ناراض ہوکر چل دیتی ہیں اور کبھی مرد بلا وجہ حرفِ آخر کافیصلہ کردیتے ہیں ،کہیں تھوڑی سی معاشی تنگی آجانے سے مردکی زندگی چکرا رہی ہے اور کہیں عورتوں سے نمک تیز ہوجانے پر مرد انہیں پیٹ رہے ہیں۔ یہ ٹھیک ہوگا کہ خواتین کے بے جا مطالبات اور خانگی بد ذوقی وبے قاعدگی حدّ انتہا کو پہنچ چکی ہے لیکن مردوں کی گھروں میں عدم توجہی اور جذباتی فیصلوں سے انکار درست نہیں۔
اسلام ایک اعتدال پسند مذہب ہے ، لہٰذا یہ بھی درست نہیں کہ خاندانی تباہی کا ذمہ دار مرد ہی کو ٹھہرا دیا جائے اور نہ ہی یہ الزام صنف نازک کے سر سجتا ہے ، کیونکہ یہ تو واضح ہے کے اسلام نے اگر مرد کو گھر کا حاکم بنایا ہے تو عورت کو بھی د ل کی ملکہ بنایا ہے اور دونوں کو ہی باہمی حقوق دیے ہیں۔
میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر مردوں سے فرمایا ہے۔
’’اتقوا اللہ فی النسآء واستوصوا بھم خیراً ‘‘
کہ عورتوں کے بارے میں اللہ سے ڈرو اور ان کے ساتھ بہترین سلوک کرو وہیں عورتوں سے بھی فرمایا ہے
لو کنتُ اٰمر لأحد أن یسجد لأحد لأمرتُ النسآء أن یسجدن لأزواجھنّ
کہ اگر میں کسی انسان کو سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو عورتوں سے کہتا کہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں۔
جس طرح شوہر کو خوش رکھنا عبادت ہے اسی طرح بیوی کو خوش رکھنا بھی باعث اجر اور صدقہ ہے ،جہاں میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ جو عورت پانچوں وقت کی نماز پڑھتی رہے اور رمضان کے مہینے کے روزے رکھے ،اپنی عزت کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی تابعداری کرے تو اس کو اختیار ہے کہ جس دروازے سے چاہے جنت میں داخل ہو جائے وہیں مردوں سے بھی فرمارہے ہیں ’’وخیارکم خیارکم نسآئکم‘‘ تم میں بہترین وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے حق میں بہترین ہیں۔ اگر عورتوں کے لئے یہ فرمان مقام عبرت ہے کہ جس عورت کا شوہر اس سے ناخوش ہو اسکی نماز قبول نہیں ہوتی وہاں مردوں کے لئے یہ فرمان بھی مقام عبرت ہے کہ گھٹیا شخص وہ ہے جو عورتوں پر غالب آجائے۔
یاد رکھیے !! بہترین گھر وہ ہے جہاں محبت ورعایت ہو کیونکہ عمارتیں تو اینٹوں سے بن جایا کرتی ہے لیکن گھر دلوں سے بنا کرتے ہیں ،مرد کی ایک مسکراہٹ سلگتی آگ کو ٹھنڈا کرسکتی ہے اور عورت کی خندہ پیشانی مرد کو برد بار بنا سکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ کامیاب زندگی خود بخود وجود میں نہیں آتی بلکہ اس کے لئے مرد و عورت دونوں کو ہی جدو جہد کرنی پڑتی ہے تب کہیں جاکر ہنستا مسکراتا گھرانا وجود میں آتا ہے۔ زندگی کی گاڑی ایک پہیے سے نہیں دو پہیوں کی درستگی سے ہی چل سکتی ہے۔
قسمت لالہ گل اب بھی بدل

سکتی ہے

جو نیت اچھی ہو گلشن کے

نگہبانوں کی ]]]