شکایت لگاؤں گا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شکایت لگاؤں گا !!!
حافظ سمیع اللہ طاہر
وہ رو رہی تھی اس کی آنکھوں میں شدت غم کے آنسوؤں سمندر کی روانی کی طرح بہہ رہےتھے اس چہرے سے ستاروں کی چمک ہی ماند پڑ چکی تھی۔۔۔۔ ٹانگوں میں غم سے جان نکل چکی تھی۔۔۔۔ وہ آتے ہی اپنے بیگ کو ٹیبل پر رکھتے ہوئے اپنے کمر میں داخل ہوگئی۔۔۔ اس چیخوں سے کمرہ کیا گھر بھی گونج اٹھا۔ وہ اخبار کے تر اشے کو اپنے دونوں ہاتھوں سے چہر ے پر رکھ کر رونا دھونا شروع کردیا۔۔۔ اتنے میں ”امی“ چھوٹی بہن بھی کمرے میں داخل ہو گئیں۔۔۔ آخر بیٹا آج سکول سے آتے ہی اتنی چیخ وپکار خیریت تو ہے نا؟ امی نے پوچھا لیکن اس طرف سے کوئی جواب نہ مل سکا۔
پریشانی کے عالم میں امی نے دوسری مرتبہ پھر پوچھا۔ حالت غم اور آنسوں کی بارش میں اس نے مم۔۔۔۔مم۔۔۔ امی یہ۔۔۔۔ یہ۔۔۔۔۔ اخبار پڑھیں۔۔۔۔۔اس کے ہاتھوں میں پکڑا ہوا اخبار امی جی کی طرف بڑھا دیا۔۔۔ امی تو الف سے ب نہیں جانتی تھی اس میں کیا لکھا ہوا ہے؟ امی نے پوچھا۔
مم۔۔۔ مم امی اس میں انسانی درندوں کا معصوم مسلمانوں پر ظلم وجبر کی ایک دل خراش کہانی ہے جسے پڑھ کر آج کے مسلمان کی غیرت کہاں جا ڈوبی ہے۔؟
خدیجہ کے ہاتھ سے اخبار کا تراشہ جلدی سے اس کی چھوٹی بہن نے پکڑ کر پڑھنا شروع کر دیا۔ یہ تو نومبر 2013ء کا شائع ہونے والا ایک اخبار تھا اس پر ایک تصویر ایک عجیب منظر پیش کر رہی تھی۔ سمجھ سے بالا تر تھا کہ یہ ”غزہ“ کا کوئی منظر ہے یا قیامت کا صغریٰ کا کوئی لمحہ ہے ؟ کسی ہسپتال کے ایک سٹریچر میں ایک معصوم فلسطینی بچہ خون میں لت پت تھا۔ معصوم چہرے پر پانچ گولیوں کے نشانات تھے وہ اپنی زندگی کی آخری سانسیں پوری کر رہا تھا اس کی نگاہیں آنسوؤں بہاتی اور اس کا سر سہلاتی اپنی ماں کے چہرے پر تھی۔ زخمی ہاتھوں پر لگے خون نے ماں کے چہرے اور سکارف کو بھی سرخ کر ڈالا۔ ماں کا بس نہیں چل رہا تھا کہ کسی طرح اپنی جان سے عزیز لخت جگر کو خود میں سمو لے۔ یقیناً وہ کبھی ماتھا چومتی ہوگی تو کبھی اپنے جگر گوشے کو سینے سے لگا کر پیار کرتی ہوگی۔
اخبار میں لکھی ہوئی (تصویر) وہ تمام مناظر دکھانے کو تو قاصر تھی مگر میں جانتی تھی کہ یہ ماں کی محبت کیسے کیسے مناظر پیش کرتی ہوگی۔۔ ماں کا جگر گوشہ وہ پیارا فلسطینی بچہ جو ابھی ایک کلی تھی کھلنے سے پہلے ہی مسلا گیا۔ وہ اتنی پیاری سی ممتا کو روتا ہوا چھوڑ کر اس ظالم دنیا کی وحشتوں سے جلد ہی آزادی حاصل کر گیا۔ایک دن پھر اسرائیلی درندوں کے طیاروں نے ایک بار پھر”غزہ“ پر بارود کی بارش برسانا شروع کر دی۔۔۔۔ ظالم یہودیوں نے نہ صرف حماس کے ہیڈ کوارٹر پر حملے کیے بلکہ بے گناہ شہریوں اورننھی ننھی کلیوں کو بھی مسلنا شروع کر دیا۔ یہاں ایک سوال جنم لیتا ہے کہ آخر اسرائیلی درندے فلسطینی بچوں سے اس قدر کیوں خوفزدہ ہوتے ہیں کہ وہ معصوم بچوں کے سکولوں پر بمباری کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے؟ایک رپورٹ کے مطابق ان یہودیوں نے اب تک سینکڑوں اسکولز پر بمباری کر کے مکمل یا جزوی طور پر تباہ کر دیے ان میں پڑھنے والے ہزاروں بچے تعلیم جیسی بنیادی ضرورت سے محروم ہوگئے۔ اسی قدر فلسطینی بچوں کے ہمت وحوصلوں کی کہانی بھی قدیم ہے وہ بچے بھی اپنے بڑوں کےنقش قدم پر چلتے ہوئے ہاتھوں میں پتھر تھامے ہوئے اپنے دشمن کو للکارتے ہیں۔ کب کوئی اسرائیلی فوجی درندہ نظر آئے اور یہ ننھے مجاہدین اس پر پتھروں کی بارش کر دیں۔ ان ننھے ہاتھوں سے کئے ہوئے حملوں میں اب تک ہزاروں اسرائیلی فو جی درندے جہنم واصل ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی تما م تر قوانین کو پاش پاش کر کے بچوں سے خوف زدہ ہوکر ان کو نشانہ بنانے سے باز نہیں آتے۔۔۔ ایک رپورٹ کے مطابق اب تک تقریباً 1800 معصوم بچے شہید ہو چکے ہیں۔ جب کہ ان حالیہ حملوں میں درجنوں بچوں کو ماؤں کے سامنے شہید کر دیاجاتا ہے۔ درندوں کی ظلم کی داستان یقیناً بہت افسوس ناک ہے لیکن ہمیں سوچنا ہوگا کہ اس صورت حال میں ہمیں کیا کردار ادا کرنا چاہے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اور جسم کے ایک حصہ میں تکلیف آئے تو تمام بدن کو تکلیف ہوتی ہے مذکورہ بالا حدیث مبارکہ سے ہم کو سبق حاصل کرنا ہوگا۔ ہمیں ان معصوم فلسطینی بچوں کو درد محسوس کرنا ہوگا۔ اگر ان درد محسوس ہوتا ہے تو ہم ان کے درد کا مداوا کیسے کر سکتے ہیں؟ ان کے زخموں پر مرہم کیسے رکھ سکتے ہیں؟
یہ افسوس ناک داستان سن کو خدیجہ کی والدہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کے سمندر جاری ہوگئے۔۔۔ ہمیں ایسی ظالمانہ داستان سن کر ان کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہیے۔ زیادہ سے زیادہ سے ان کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھنا چاہے۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ کے حضور ا ن کی بھلائی اور ظلم سے نجات کے لیے رو رو کر دعائیں کرنی چاہیے تاکہ اللہ ان فلسطینی ماؤں بہنوں اور بچوں کو غاصب اور ظالم اسرائیلی درندوں سے نجات دے۔ ہم ان معصوم فلسطینوں کی مدد کے لیے قدم بقدم مالی مدد لے لیے اپنی پاکٹ منی میں سے کچھ رقم ان کے فنڈ میں جمع کروائیں۔
یاد رکھیں !جب تک ہم ان کی اعانت نہیں کریں گے۔ اور دنیا بھر میں بسنے والے تمام مسلمانوں کی حفاظت و سلامتی کے لیے دعاؤں اور ممکنہ کوششوں کی سعی نہیں کریں گے۔ تب تک اخبارات پر ایسے بچوں کی تصویرں آئے دن یونہی چھپتی رہیں گی۔ میری آنکھوں کے سامنے وہ تین سالہ بچہ بھی ہے جو یہ کہتے ہوئے دنیا کی بندشوں سے آزاد ہوگیا کہ” مجھے کیوں مارتے ہو میں تمہاری اللہ میاں کو شکایت لگاؤں گا۔“