عالم ِ اسلام کا مد ّ و جزر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
عالم ِ اسلام کا مد ّ و جزر
محمد مبشر بدر
قوموں کے عروج اور ترقی کے مراحل تدریجاً طے ہوتے ہیں پر رو بہ زوال ہوتے کچھ دیر نہیں لگتی، جیسے کوئی شخص مشقت اور تکلیف جھیل کر پہاڑ پر چڑھ جا ئے تو کا فی وقت صرف ہوگا لیکن اگر وہ جذبات سے مغلوب ہو کرخودکشی کی غرض سے چھلانگ لگا دے تو زمین پر گرتے کوئی دیر نہیں لگے گی۔ قوموں کی ترقی کا سفرکتنا ہی کٹھن اورپر صعوبت کیوں نہ ہو لیکن زوال اور گراوٹ کی رفتاراتنی ہی تیز ہوتی ہے۔
اسلام نے معاشرے میں بہت زیادہ مقبولیت حاصل کی، انسانوں کے بنائے ہوئے فرسودہ قوانین اور مذاہبِ باطلہ کے ظالمانہ اصولوں کی گرم دھوپ سے انسانیت کو نکال کر اسلام کے عادلانہ نظام کی ٹھنڈی چھاؤںمیں داخل کیا۔ظلم،جہالت ،فساد اور سفّاکیت کے عین عروج کے زمانہ میں مکّہ کی پتھریلی اور بے آب و گیاہ چٹانوں سے رشد و ہدایت کا آفتاب نمودار ہوا،اپنے پرائے سب دشمن بن گئے،اس کے با وجود مخالفین کے تیر و ترکش کی پرواہ کیے بنا اپنا مشن جاری رکھا۔ بدر، احد،حنین اور تبوک جیسی پُر خار گھاٹیاںراہ میں رکاوٹ بن کر آئیں انہیں عزم و ہمت اوربلند حوصلے کے ساتھ عبور کیا۔اقتصادی اور سوشل بائیکاٹ کیاگیا اسے حق کے مقابلے میں برداشت کیا۔ قتل کے منصوبے بنائے گئے سب ناکام رہے حتیٰ کہ گھر بار، وطن اور سامان چھوڑنے پرمجبور کردیا گیا۔ اللہ کی رضا کی خاطر سب کچھ گوارا کر لیا۔طائف سے لے کر تبوک تک پیچھا کیا گیا مگر دعوت کی رفتار میں کمی نہیں آنے دی۔ لوگ ملتے گئے اور یوں ایک بہت بڑا قافلہ بنتا چلا گیا۔کئی معرکوں میں اسلامی لشکر کو نمایاں کامیابی حاصل ہوئی۔مکّہ فتح ہوا اور یوں تدریجاً ترقی کے مراحل طے ہوتے گئے۔ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے زمانے میں فتوحات کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ قیصر و کسریٰ کے تخت و تاج مسلمانوں کے زیر نگیں آ گئے۔ عہد ِ فاروقی میں اسلامی حکومت کا رقبہ تقریباً ساڑھے بائیس لاکھ مربع میل، عہدِ عثمانی میں تقریباً تینتیس لاکھ مربع میل اور سیدنا امیر معاویہ ؓ کے دور میں تقریباً چونسٹھ لاکھ مربع میل تک پہنچ گیا۔ ان میں سے بیشتر خطے بغیر تلوار چلائے قبضہ میں آئے۔
جب ایک بار اسلامی عساکر نے فارس اور روم کے دو محاذوں کی طرف پیش قدمی کی تو ان کے قدم بڑھتے چلے گئے۔اسی دوران یرموک اور قادسیہ کے فیصلہ کن معرکوں میں مسلمانوں کی فتوحات نے شام، فلسطین، عراق اور فارس کے دروازے مسلمانوں کے لیے کھول دیے۔پھر مسلمان ایک طرف سیستان، خراسان، آرمینیا اور آذربائجان میں داخل ہوئے تو دوسری طرف مصرو نوبیہ، طرابلس اور افریقہ فتح کرتے ہوئے بحر اوقیانوس کے ساحل (مراکش) تک جا پہنچے اور پہلی صدی ہجری ختم ہونے میں ابھی سات سال باقی تھے جب اسلام کے پرچم مشرق میں ماوراءالنھر، سندھ اور ملتان سے لے کر مغرب میں جزیرہ نمائے آئی بیریا(اندلس و پرتگال) اور جنوبی فرانس تک لہرا رہے تھے۔ ترکان ِ عثمانی ساتویں ہجری کے اواخر میں درّہ دانیال پار کر کے یورپ میں دریائے ڈینوب تک پہنچ گئے اور بلغاریہ، مقدونیہ، البانیہ،کوسوو، یونانی جزائر، سربیا اور رومانیہ میں اسلام کا پرچم لہرانے لگا۔ اس سے نصف صدی بعد سلطان محمد فاتح نے قسطنطنیہ فتح کر کے ڈیڑھ ہزار سال سے قائم رومی سلطنت کا خاتمہ کر دیا ، حتیٰ کہ سلطنتِ عثمانیہ دنیا کی سب سے بڑی سلطنت بن گئی۔
یہ اسلام اور اہل اسلام کا عروج تھا جو تدریجاً ترقی کے تمام مراحل طے کر رہاتھا۔یہاں کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ مسلمانوں کی اس جہانگیری میں ہوسِ اقتدار کا بہت بڑا دخل تھاکیوں کہ محض اقتدار کی بھوک سے اتنی فتوحات ممکن ہی نہیں۔ خاص طور پر روم و فارس جیسی سپر پاور طاقتوں سے بے سروسامان محدود مسلمانوں کا بیک وقت ٹکرانا اور لاکھوں کی فوج کی صفوں کو الٹ دینا محض اقتدار کے نشے کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ قرآنِ مجید کا مومنین سے کیے ہوئے وعدے کا ثمرہ اور نتیجہ تھا۔ چنانچہ فرمایا”اور غالب تم ہی رہو گے اگر تم مومن رہے“۔ ایک دوسری جگہ فرمایا گیاہے ” تم میں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک عمل کرتے ہیں ان سے اللہ نے وعدہ کیاہے کہ انہیں زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح ان سے پہلے لوگوں کو بنایا تھا“۔
ان آیاتِ مبارکہ میں مسلمانوں کے عروج و زوال کا سبب معلوم ہوتا ہے کہ جب تک مسلمان ایمان اور اعمالِ صالحہ پرجمے رہے تب تک تمام عالم ان کے لیے مسخر ہوگیا۔ متعدد اقوام ان کے اعمال و اخلاق، عدل و انصاف سے متاثرہو کر حلقہ بگوشِ اسلام ہو گئیں،لیکن جب اعمال و اخلاق میں ضعف اور ایمان و ایقان میں تزلزل پیدا ہوا ،تو آنِ واحد میں پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔ پھر عیش کوشی و عیش پوشی کی ایسی لت پڑ ی کہ اپنا مقصد ِ حقیقی(قوموں کو ظالمانہ و جابرانہ نظام سے نجات دلانااور ان تک دعوت ِ حق پہنچانا) بھول گئے،تیر وسناں سے تعلق توڑ کر طاؤس و رباب میں ایسے مگن ہو ئے کہ کچھ ہوش نہ رہا۔ جب کچھ ہوش آیا تو خلافت ِ عثمانیہ کا سقوط ہو چکاتھا،قبلہ اوّل چھن چکا تھا ، اندلس اور غرناطہ ہاتھ سے نکل چکے تھے، صہیونی اور صلیبی فوجیں بعض اسلامی ممالک پر قابض اور بعض کے گرد گھیرا تنگ کر رہی تھیں، ہندوستان سے سلطنت مغلیہ کا خاتمہ ہوچکا تھا،حرمین شریفین میں امریکی فوجیں اتر چکی تھیں،عراق اور افغانستان کھنڈرات میں تبدیل کیے جا چکے تھے۔ باطل ایک نئے روپ میں ظاہر ہوچکا تھا۔ وہ مسلمانوں کے دلوںمیں بیٹھی اپنے خلاف نفرت کو محبت میں تبدیل کرنے اور انہیں قرآن اور نظریہ جہادسے دور کرنے کے لیے نیا انگریزی تعلیمی نصاب مسلم ممالک کے تعلیمی اداروں میں میں رائج کر کے ان اداروں سے اپنے ہمنواؤں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کر چکا تھا۔اب وہ کعبے کے پاسبانوں کے رخ کلیسا کی طرف موڑنے میں ہمہ تن متوجّہ ہے۔ غزہ کے گھروں سے اٹھنے والے دھویں سے کچھ وقت کے لیے امت مسلمہ کی آنکھ کھلی پھر بند ہوگئی۔قرآ ن کے جلائے جانے پر وقتی طور پر بیدار ہوئی پھر خاموش ہوگئی۔ رسولِ اکرم ﷺ کی توہین میں کارٹون اور خاکے شائع کیے گئے پھر آنکھ کھلی ، امت مسلمہ سڑکوں پر نکل آئی ، خوب احتجاج کیا، پھر گھروں میں جا کر سو گئی۔ اسی طرح کی بزدلی کا مظاہرہ عافیہ صدیقی کی گرفتاری اور سزا پر کیاگیا،لیکن اب سوائے احتجاج کے اور کچھ نہیں بچا۔امت مسلمہ اپنے برے اعمال اور مغرب کی اندھی تقلید کی وجہ سے مغلوب اور مقہور ہوچکی ہے۔ اسلامی فوجیں اورحکومتیں امریکی اشاروں پر ناچ رہی ہیں۔ امت کا شیرازہ بکھر چکا ہے۔ اب کہیں سے کوئی اسلامی آواز بلند ہوتی ہے تو اسے بزورِ بازو دبا دیا جاتا ہے۔ ہمارے مسلم سپہ سالاروں اور فاتحین نے کتنی قربانیوں کے بعد کفریہ نظام کا خاتمہ کر کے امن و سلامتی والے نظام سے ظلم کی چکی میں پسی ہوئی انسانیت کو حیات نو بخشی۔ لیکن ہم نے اپنے ہی ہاتھوں سے اپنی تہذیب و ثقافت کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اب حالت اس شخص کی سی ہے جسے رسیوں سے باندھ کرزمین پر ڈال دیا گیا ہو اور اس کے منہ میں کپڑا ٹھونس دیا گیا ہو تاکہ وہ اپنے حق میں بول سکے اور نہ ہی کوئی حرکت کر سکے۔
یہ ہے امت مسلمہ کی داستان عروج و زوال کہ کتنی قربانیاں دینے اور تکلیفیں سہنے کے بعد ترقی کی اوجِ ثریّاتک پہنچے اورپھر تھوڑے ہی عرصے میں اپنی شامت ِ اعمال کے نتیجے میں تنزلی کی اتھاہ گہرائیوں میں جا گرے۔یہ عالم ِ اسلام کا مد ّ و جزر ہے۔ ہمیں اپنے عروج و زوال کے اسباب تلاش کر کے اپنی کوتاہیوں کا تدارک کرنا چاہیے اوراسلام کی نشاة ثانیہ کے لیے بھر پور کوشش کرنی چاہیے تاکہ ہم اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکیں۔