مطالعہ کی میز

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مطالعہ کی میز
…… مولانامحمدطارق نعمان گڑنگی
حضرت یوسف علیہ السلام کاخوفِ خدا:
زلیخانے حضرت یوسف علیہ السلام کے عشق میں مجبور ہوکریوسف علیہ السلام کادامن پکڑلیااوراپنی خوہش کااظہاراس قدرشدت سے کیاکہ آپ لرز اٹھے۔ زلیخاکے پاس سنگ مرمرکابت تھاجس کی وہ صبح وشام پوجاکیاکرتی تھی۔اس کی آرتی اتارتی،دریائے نیل کی سطح پہ تیرتے ہوئے اس کے چرنوں میں رکھتی اورعطر بھی چھڑکتی مگرجونہی اس نے حضرت یوسف کادامن پکڑاتوبت کوایک کپڑے سے ڈھانپ دیا۔مقصد یہ تھا کہ اس کامعبود بت اسے اس حالت میں نہ دیکھ سکے۔وہ بت سے حضرت یوسف کے ساتھ دست درازی کوچھپاناچاہتی تھی۔اس نازک صورتحال سے حضرت یوسف بہت رنجیدہ ہوئے ،سرپکڑ کر رہ گئے۔ زلیخاجذبات میں آپ کے پاؤں چومنے لگی اور کہنے لگی اتنے سنگدل نہ بنو،وقت اچھاہے ،اسے ضائع نہ کرو،میری دلی مراد پوری کرو۔
حضرت یوسف روپڑے اورفرمایا:اے ظالم!مجھ سے ایسی توقع نہ رکھ۔تجھے اس بت سے توشرم آتی ہے جسے تونے کپڑے سے ڈھانپ رکھاہے اورمجھے اپنے خداسے شرم آتی ہے جوپردوں کے پیچھے بھی دیکھتاہے۔
حضرت علیؓ کافرمان !عمرؓ جنتیوں کے چراغ ہیں:
جب مدائن فتح ہوا تو مال غنیمت کاڈھیر مسجدنبوی میں لگایا گیا توحضرت عمرؓنے سب سے پہلے ایک ایک ہزاردرہم حضرت حسن ؓاورحضرت حسین ؓکودیئے اور پھر حضرت عبداللہ بن عمرؓ کو پانچ سودرہم دیئے تو حضرت عبداللہ ؓ نے فرمایا کہ میں نے آپ کی قیادت میں غزوات میں حصہ لیاجب کہ اس وقت حسنین ؓبہت چھوٹے تھے لیکن آپ نے انہیں زیادہ رقم عطافرمائی ہے۔ فاروق اعظم ؓ کو یہ سن کر جلال آگیااور فرمایا کہ عبداللہ تم حسنین کے مقابلے میں اپنی بات پوچھتے ہو؟تو جاؤ ان کے باپ (حضرت علیؓ)جیساکوئی باپ لے آؤ۔ان کی ماں(حضرت فاطمہؓ)جیسی کوئی ماں لے آؤ۔ان کے نانا(تاجدارمدینہﷺ)جیساکوئی نانالے آؤ۔ان کی نانی( حضرت خدیجہؓ)جیسی کوئی نانی لے آؤ۔ان کے چچا(حضرت جعفرؓ)جیساکوئی چچالے آؤ۔ان کی پھوپھی (حضرت ام ہانیؓ)جیسی کوئی پھوپھی لے آؤ۔ان کے ماموں(حضرت ابراہیمؓ ؓ)جیساماموں لے آؤ۔خداکی قسم!عمرپرتم ان جیساایک رشتہ بھی نہ لاسکو گے۔جب یہ سارا واقعہ حضرت علی ؓ تک پہنچاتو حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ عمر جنتیوں کاچراغ ہے۔جب یہ بات سیدناعمرؓ ؓتک پہنچی تو عمر ؓ بےقرارہوگئے اورحضرت علی ؓ سے فرمایا کہ علی میرے بھائی یہ بات مجھے لکھ کے دے دو۔حضرت علی ؓ نے لکھا کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے انہوں نے جبرائیل سے انہوں نے اللہ سے سناکہ عمرجنت کے چراغ ہیں۔حضرت عمر ؓ نے وصیت فرمائی کہ میں مروں تو یہ تحریر میرے کفن میں رکھ دینااور ان کے وصال کے بعد اس وصیت پر عمل کیاگیا۔ اس واقعہ سے معلوم ہواکہ وہ حضرات ایک دوسرے کابہت احترام بھی کرتے تھے اور خیال بھی رکھتے تھے۔اور ایک دوسرے کے مناقب بھی بیان کرتے تھے۔
علماءکی توہین کرنے والے کاانجام:
مجاہدختم نبوت جرا ت وبہادری کے عظیم سپوت اسلام کے عظیم سپاہی مولانا قاضی محمدعبداللہ خالد مرحوم نے ایک عجیب واقعہ سنایاکہ دارالعلوم دیوبند میں ایک مرتبہ رات کوعشاءکی نماز کے بعدسات آدمی بیٹھے اورکچھ عجیب وغریب گفتگو شروع کر دی ،درمیان میں علماءکرام کابھی ذکر آگیا ان میں ایک نے کہاکچھ علماءیوں بیان کرتے ہیں کچھ یوں کرتے ہیں وہاں دیوبند میں ایک مدرس تھے مولانا محبوب الٰہی واقعی وہ محبوب الٰہی تھے ان کے ہاتھ کی کچھ انگلیاں اندر کوتھیں اس نے ان کامذاق کرتے ہوئے ہاتھ لہراکر اشارہ کیاکہ کچھ یوں کرتے ہیں بس پھراچانک اٹھے اوررات کو گھروں کوچلے گئے رات کوساتوں آدمیوں کورحمت کائنات ﷺ خواب میں آئے اور سخت غصے میں ہیں ،اورفرمارہے ہیں میرے محبوب الٰہی کی توہین کی جائے ،میرے محبوب الٰہی کی توہین کی جائے۔ دوسری طرف بانی دارالعلوم دیوبند مولانامحمدقاسم نانوتوی ؒ دامن پھیلارہے ہیں اورفرمارہے ہیں ان کومعاف کردیاجائے آپ ﷺ نے آخر میں چھ کومعاف کردیااورساتویں کے بارے میں فرمایااس کے لیے معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے صبح کی نماز میں چھ آدمی آئے انہوں نے اپنے خواب بھی سنائے اورمعافی بھی مانگی اورآنسوبرسات کی طرح برسائے ،ساتواں جورات کومسجد میں مزے لے لے کر باتیں کر رہاتھامعلوم ہوکہ موت نے اسے اپنالقمہ بنالیاہے ،جسم سوج گیااسی حالت میں دفنادیاگیا،علماءکی توہین کی توجان سے ہاتھ دھوگیا۔
مؤمن اورمنافق کاپہلادن قبر میں:
حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا:بندہ جب اپنی قبر میں رکھ دیاجاتاہے ،اوراس کے ساتھی (یعنی اس کے جنازہ کے ساتھ آنے والے)واپس چل دیتے ہیں اور(ابھی وہ اتنے قریب ہوتے ہیں کہ)ان کی جوتیوں کی آواز وہ سن رہاہوتاہے ،اتنے میں اس کے پاس دوفرشتے آتے ہیں ،وہ اس کوبٹھاتے ہیں۔ پھراس سے پوچھتے ہیں :تم اس شخص محمدﷺکے بارے میں کیاکہتے تھے؟جومؤمن ہوتاہے وہ کہتاہے کہ میں گواہی دیتاہوں کہ وہ اللہ کے بندے اوراس کے رسول ہیں۔ (یہ جواب سن کر)اس سے کہاجاتاہے کہ (ایمان نہ لانے کی وجہ سے ) دوزخ میں تمہاری جوجگہ ہوتی اس کودیکھ لو،اب اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلہ میں تمہیں جنت میں جگہ دی ہے (دوزخ اورجنت کے دونوں مقام اس کے سامنے کردئیے جاتے ہیں )چنانچہ وہ دونوں کوایک ساتھ دیکھتاہے۔ اور جومنافق اورکافر ہوتاہے تواسی طرح(مرنے کے بعد)اس سے بھی(رسول اللہ ﷺ کے بارے میں)پوچھاجاتاہے کہ اس شخص کے بارے میں تم کیاکہتے تھے؟وہ منافق اورکافر کہتاہے کہ میں ان کے بارے میں خودتوکچھ جانتانہیں ،دوسرے لوگ جوکہاکرتے تھے وہی میں بھی کہتاتھا (اس کے اس جواب پر)اس کوکہاجاتاہے کہ تونے نہ تاخود جانااورنہ ہی (جاننے والوں کی)پیروی کی۔(پھرسزاکے طورپر)لوہے کے ہتھوڑوں سے اسے ماراجاتاہے جس سے وہ اس طرح چیختاہے کہ انسا ن وجنات کے علاوہ اس کے آس پاس کی ہرچیزاس کاچیخناسنتی ہے۔(رواہ البخاری،باب ماجاءفی عذاب القبر)
رب کی رحمت رب کے غضب پہ غالب:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا:جب اللہ نے مخلوق کوپیداکیاتواپنے پاس موجود اپنی کتاب میں لکھ دیا:میری رحمت میرے غصہ پرغالب ہوگی۔ حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کوفرماتے ہوئے سنا:اللہ نے رحمت کے سواجزاءبنائے پھر ان میں سے ننانوے حصوں کواپنے پاس رکھااورزمین میں صرف ایک حصہ نازل کیا۔پس اسی وجہ سے مخلوق ایک دوسرے کے ساتھ رحم کرتی ہے۔ یہاں تک کہ جانور اپنے بچہ سے اپنے پاؤں کو ہٹا دیتاہے ،اسے تکلیف تکلیف پہنچنے کے خوف کی وجہ سے۔
حضرت ابوہریرہ نبی کریم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا اللہ کے لیے سورحمتیں ہیں ،ان میں سے ایک (رحمت )جنات،انسانوں،چوپاؤں اورکیڑے مکوڑوں کے لیے نازل کی۔ جس کی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں اوراسی وجہ سے وہ ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اوراسی وجہ سے وحشی جانور اپنے بچہ پر شفقت کرتاہے اوراللہ نے ننانوے رحمتیں بچاکر رکھی ہیں جن سے قیامت کے دن اپنے بندوں پہ رحمت فرمائے گا۔
آغاشورش بھٹوکے قدموں میں گرپڑے :
1974ءکی تحریک ختم نبوت کی روح رواں مولانا تاج محمود اورآغاشورش کاشمیری ایک دن ذوالفقار علی بھٹوسے ملنے کے لیے گئے تو جب بھٹومرحوم سے ملاقات ہوئی تو بھٹوصاحب نے نے آغاشورش کاشمیری سے پوچھاکہ آغا!کیاحال ہے ؟
آغاصاحب نے جواب دیا”جس دھرتی پرمحمدکریم ﷺ کی نبوت محفوظ نہ ہوہمارااس ملک میں کیاحال ہونا ہے “وہ اپنے جذبات کوقابو نہ رکھ سکے اور بھٹومرحوم کے قدموں میں گر گئے اورکہاہمیں آپ سے کوئی کام نہیں بجز اس کے کہ آپ آقاکے دشمنوں قادیانیوں کوغیر مسلم اقلیت قراردے دو۔بھٹوخود کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعدمیری جسم میں ایک کیفیت پیداہوئی اور تھرتھری سی پیداہوئی اور میرے پاس اس کے علاوہ کوئی جواب نہیں تھاکہ میں مرزائیوں کواقلیت قراردوں۔
آؤ میرے ساتھ جنت چلو:
حضرت خواجہ خان محمد رحمہ اللہ کے انتقال پرملال کے بعد گوجرانوالہ کے ایک شخص کوخواب میں ان کی زیارت ہوئی اورپوچھاحضرت جی سنائیے؟توحضرت خواجہ خان محمدؒ فرماتے ہیں کہ جب میں قبر میں اتاراگیاتومحمدﷺ تشریف لائے اورفرمایاخواجہ خان محمد!تم نے ساری زندگی میری ختم نبوت کاکام کیاہے آؤ میرے ساتھ جنت میں چلو۔تومیں آج کل آقاکے پاس جنت میں ہوں۔۔
ابلیس زمیں پر:
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے ایک مرتبہ ارشاد فرمایاکہ جب ابلیس زمیں پہ اُتاراجانے لگاتواس نے اللہ تعالیٰ سے عرض کیااے پروردگا!تومجھے زمین پربھیج رہاہے اورراندہ درگاہ کررہاہے توزمین پرمیرے لیے کوئی گھربھی بنادیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا!کہ تیراگھر حمام ہے،اس نے عرض کیامیرے لیے کوئی بیٹھک (مجلس کی جگہ)بھی بنادیں،اللہ نے فرمایا!بازارتیری بیٹھک ہیں۔عرض کیامیرے لیے کوئی کھانابھی مقررفرمادیں،فرمایا!تیراکھاناہروہ چیزہے جس پرمیرانام نہ لیاجائے۔ عرض کیامیرے لیے کوئی پینے کی چیزبھی مقرر فرما دیں، فرمایا!ہرنشہ آورچیزتیرامشروب ہے۔عرض کیامجھے اپنی طرف بلانے کاکوئی ذریعہ بھی عنایت فرمادیں،فرمایا!باجے تاشے تیرے منادی ہیں۔عرض کیامیرے لیے قرآن کی طرح کوئی باربارپڑھنے والی چیزبھی بنادیں،فرمایا!گندے شعرتیرے پڑھنے کی چیزہیں۔عرض کیاکچھ لکھنے کے لیے بھی دے دیں،فرمایا!جسم میں گودناتیری لکھائی ہے۔عرض کیامیرے لیے کوئی کلام بھی مقررفرمادیں،فرمایا!جھوٹ تیراکلام ہے۔ عرض کیامیرے لیے جال بھی بنادیں،فرمایا!عورتیں تیراجال ہیں۔
)جامع الاحادیث ج 2 ص58(
مچھلی کی اطاعت:
ایک روزابراہیم بن ادہم ؒسمندر کے کنارے بیٹھے اپناکُرتہ سی رہے تھے کسی نے ان سے کہا:آ پ نے خواہ مخواہ بادشاہی چھوڑدی،تاج وتخت کوترک کردیااور یہ محنت ومشقت برداشت کرلی۔آپؒ نے فرمایا!وہ بادشاہی نہیں تھی وبال تھا،گردن کاپھندہ تھاجومیں نے اتار نیچے پھینکاہے ،بادشاہی اورحکمرانی تووہ ہے جواللہ پاک نے مجھے اب عطاکی ہے لوتم بھی دیکھوکہ مجھے کیسی حکمرانی رب نے عطاکی ہے یہ کہہ کر آپ ؒ نے اپنی سوئی پانی میں پھینک دی اورکہامیری سوئی لادو!فوراًایک مچھلی نے پانی سے سر باہر نکالااس نے اپنے منہ میں وہ سوئی پکڑی ہوئی تھی جسے آپ ؒ نے پانی میں پھینکاتھا۔پھر آپ ؒ نے اس شخص کوفرمایاپہلے میراحکم صرف بنی آدم پہ چلتاتھالیکن اب سمندر کی مچھلیاں بھی میراکہامانتی ہیں ،پس جوبھی اللہ پاک کی اطاعت وفرمانبرداری کرتاہے ”دنیاکی ہرمخلوق اس کی فرمانبرداری کرنے لگ جاتی ہے“
سخاوت کے بادشاہ:
حضرت امام حسن ؓ اورحضرت امام حسین ؓ اورحضرت عبداللہ بن جعفر ؓ حج کے ارادے سے مکہ مکرمہ کوروانہ ہوئے۔ یہ تینوں اہل قافلہ سے آگے نکل گئے اور ان کاسامان سفرقافلہ میں پیچھے رِہ گیا،راستہ میں انہیں بھوک لگی دیکھاکہ قریب ہی ایک چھوٹی سی بستی ہے ،تینوں بستی میں آئے۔ ایک بُڑھیاملی۔ فرمایاہمیں پیاس لگی ہے کچھ پینے کے لیے ہوتولاؤ۔“
بڑھیانے کہا:آپ تشریف رکھیں ،میں ابھی دودھ لاتی ہوں۔ “
اس بڑھیاکے پاس ایک بکری تھی اس نے اس کادودھ نکالااور پیش کردیا،ان صاحبان نے دودھ پی لیا،پھرفرمایا،کچھ کھانے کوہے؟
بڑھیانے کہاں ہاں :اسی بکری کوذبح کرلو۔“
انہوں نے بکری کوذبح کیا،بڑھیانے گوشت پکاکر انہیں کھلادیا۔اس کے بعد تینوں حضرات روانہ ہوگئے۔ بڑھیاکاخاود جب گھر آیاتوخفاہواکہ تونے بکری ایسے لوگوں کوکھلادی جنہیں توپہچانتی بھی نہیں کہ وہ کون ہیں۔
کچھ عرصہ بعد یہ دونوں محنت مزدوری کے لیے مدینہ منورہ کوگئے۔ ایک دن حضرت امام حسن ؓ نے اس بڑھیاکوبازار میں دیکھاتوپہچان گئے کہ یہ وہی بڑھیاہے جس نے ان کی میزبانی کی تھی۔ آپ اس کوبڑی شفقت کے ساتھ اپنے مکان پر لائے اسے کھاناکھلایا،پھر فرمایا:ہم وہی ہیں جن کوتونے بکری کادودھ پلایااورپھر سے بکری کا گوشت کھلایاتھا،آج ہم تیرے اس احسان کابدلہ دیناچاہتے ہیں۔ “یہ فرماکرآپ نے اسے ایک ہزار اشرفیاں اورایک ہزاربکریاں عنایت فرمائیں ،پھرآپ ؓ نے بڑھیا کو حضرت امام حسین ؓ کے پاس بھیجاامام حسین ؓ نے بھی بڑھیاکوایک ہزاراشرفیاں اور ایک ہزار بکریاں عنایت فرمائیں۔
پھر آپ نے اسے حضرت امام جعفرؓ کے پاس بھیجاانہوں نے فرمایاکہ اگر توان دونوں کے پاس جانے سے پہلے میرے پاس آجاتی تومیں تمہیں اس قدرمال دیتا کہ وہ دونوں صاحبان نہ دے سکتے۔ “یہ فرماکرآپ نے بڑھیاکودوہزاراشرفیاں اور دو ہزاربکریاں عنایت کیں۔ اس قدردادودہش پاکر بڑھیابے حد مسرور ہوئی جواس کے خواب وخیال میں بھی نہ تھاکہ جن مسافروں کواس نے ایک بکری کاگوشت کھلایاتھاوہ اس قدرعالی مقام اورسخاوت کے بادشاہ ہونگے۔
درخت چل پڑے:
حضرت عبداللہ بن عمرؓ نے فرمایاکہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک سفر میں تھے۔ایک اعرابی آپ کے پا س آیا،آپ نے اس کواسلام کی دعوت دی اس اعرابی نے سوال کیاکہ کیاآپ کی نبوت پرکوئی گواہ بھی ہے ؟آپ نے ارشاد فرمایاکہ ہاں یہ درخت جومیدان کے کنارے پر ہے میری نبوت کی گواہی دے گا، چنانچہ آپ نے اس درخت کوبلایااوروہ فوراًہی زمین چیرتاہوااپنی جگہ سے چل کر بارگاہ اقدس میں حاضر ہوگیااوراس نے باآوازِبلندتین مرتبہ آپ کی نبوت کی گواہی دی پھرآپ نے اس کواشارہ فرمایاتووہ درخت زمین میں چلتاہوااپنی جگہ پرچلاگیا۔
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ سفر میں ایک منزل پرحضوراکرم ﷺ استنجاءفرمانے کے لیے میدان میں تشریف لے گئے مگر کہیں کوئی آڑکی جگہ نظرنہیں آئی،ہاں البتہ اس میدان میں دودرخت نظر آئے جوایک دوسرے سے کافی دوری پر تھے آپ ﷺ نے ایک درخت کی شاخ پکڑکر چلنے کاحکم دیاتووہ درخت اس طرح آپ کے ساتھ چلنے لگاجس طرح مہاروالااونٹ مہارپکڑنے والے کے ساتھ چلنے لگتاہے۔ پھر آپ نے دوسرے درخت کی ٹہنی تھام کر اس کوبھی چلنے کااشارہ فرمایاوہ بھی چل پڑااوردونوں درخت ایک دوسرے سے مل گئے اورآپ نے اس کی آڑ میں اپنی حاجت رفع فرمالی اس کے بعد آپ نے حکم دیاتووہ دونوں درخت زمین چیرتے ہوئے چل پڑے اوراپنی اپنی جگہ پہنچ کر جاکھڑے ہوئے۔
(زرقانی ج 5ص128تا132)
دینی عزت پہ فخر:
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ قبیلہ اوس اورخزرج ایک دوسرے پہ فخرکرنے لگے۔اوس نے کہاکہ ہم میں سے وہ صحابی ہیں جن کوفرشتوں نے غسل دیاتھاوہ حضرت حنظلہ بن راہب ہیں اورہم میں سے وہ صحابی بھی ہیں جن کی( موت کی)وجہ سے عرش بھی ہل گیاتھااوروہ سعدبن معاذؓ ہیں اورہم میں سے وہ صحابی بھی ہیں جن کی لاش کی حفاظت شہد کی مکھیوں کے ایک غول نے کی تھی اور وہ حضرت عاصم بن ثابت بن ابی افلح ؓ ہیں اورہم میں سے وہ صحابی بھی ہیں جن کی اکیلے کی گواہی دوآدمیوں کی گواہی کے برابر قرار دی گئی ہے اوروہ حضرت خزیمہ بن ثابت ہیں اس پر قبیلہ خزرج نے کہاکہ ہم میں سے چارآدمی ایسے ہیں جنہوں نے حضورﷺکے زمانہ میں مکمل قرآن حفظ کرنے کی سعادت حاصل کی جوان کے علاوہ کسی اورکوحاصل نہ ہوسکی اوروہ (چارحضرات)یہ ہیں:(1)حضرت زید بن ثابتؓ (2)حضرت ابی بن کعب (3)حضرت معاذبن جبلؓ (4)حضرت ابوزیدؓ
دکھلاوے کاعلم اوراس کاانجام:
علم حاصل کرنے والوں کویہ بھی جانناچاہیے کہ جس طرح اس علم کی فضیلت ہے اسی طرح اس کی ناقدری کرنااور اسے دکھلاوے کے طور پہ پیش کرنابھی باعث زحمت ہے کیوں کہ لاتعداد احادیث مبارکہ ہمیں نظرآتی ہیں جن میں واضع طور پہ انجام موجود ہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایاجس علم کے ذریعے اللہ تعالیٰ کی رضاتلاش کی جاتی ہے ایسے علم کوجس نے دنیاکاکچھ بھی سامان ملنے کے لیے حاصل کیاتویہ شخص جنت کی خوشبوبھی نہ پائے گا(رواہ احمدوابوداؤد)
حضرت کعب بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایاکہ جس نے اس لیے علم حاصل کیاکہ عالموں سے مقابلہ کرے یاجاہلوں سے جھگڑاکرے یالوگوں کواپنی طرف جھکادےاللہ تعالیٰ ایسے شخص کودوزخ میں داخل کریں گے۔علماءکرام سے ہم نے یہ سناہے کہ علم حاصل کرنامشکل بھی ہے اور آسان بھی لیکن علم حاسل کر کے اسے ہضم کرناانتہائی مشکل ہے سب سے اہم بات جودیکھی جاتی ہے وہ یہ کہ لوگ اب علم حاصل کرنے میں دینی مسائل سیکھنے اورپوچھنے میں شرم محسوس کرتے ہیں ایسانہیں ہوناچاہیے۔ حضرت مجاہدؒنے فرمایاکہ
لایتعلم العلم مستحی ولامتکبر۔۔۔
شرمیلاآدمی اور متکبر شخص علم حاصل نہیں کرسکتا
علم کے بغیر فتویٰ دینااورعلم چھپانا درست نہیں :
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی جس کااسے علم ہے پھراس نے اس کوچھپایا(یعنی سائل کونہ بتایا)توقیامت کے روز اس کے منہ میں آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ جس کوبغیرعلم کے فتویٰ دیاگیا(اوراس نے اس پر عمل کرکے غلط کام کرلیا)تواس کاگناہ اس پر ہوگاجس نے فتویٰ دیااورجس نے کسی کام کے سلسلے میں اپنے بھائی کوایسامشورہ دے دیاجس کے متعلق وہ جانتاہے کہ بہتری اس کے علاوہ دوسرے مشورہ میں ہے تو اس نے اپنے بھائی کی خیانت کی
(رواہ ابوداؤد)
اسم ِ محمدﷺ سے محبت:
اسم محمدﷺ پیارابھی ہے۔ علم کا بھارابھی ہے۔ اس سے محبت کرنے اور عقیدت رکھنے والے کابیڑاپارہے۔ اوراس نام اقدس میں نفرت کرنے والاراندہ درگاہ ہے ،خسروپرویزنے میرے محبوب ﷺکامکتوب پھاڑااسم محمد دولخت کیا خدا تعالیٰ نے اس کی سلطنت اورحکومت کے ٹکڑے کر دیے۔
بنی اسرائیل کے ایک بدکاراورسیاہ کار کاواقعہ تاریخ کے صفحات پر موجودہے۔جب اس کا انتقال ہواتولوگوں نے اسے بدکاراورگناہ گار ہونے کے ناطے بستی سے باہر اس کی نعش کوگندگی میں پھینک دیا۔حضرت موسیٰ کواللہ پاک نے بذریعہ وحی حکم دیاکہ اُسے پاک صاف کرکے اعزازواکرام سے دفن کیاجائے۔ حضرت موسیٰ بارگاہ خداوندی میں ملتجی ہوئے کہ پروردگارعالم وہ توسیاہ کارتھا۔مرنے والے کی زندگی گناہوں اوربداعمالیوں میں گزری مرنے والاتیرانافرمان تھاپھراس کے ساتھ یہ رحم وکرم کامعاملہ کیسا؟مولاکریم نے فرمایاموسیٰ!بے شک مرنے والابدکار تھااس کانامہ اعمال نیکیوں سے خالی تھا۔بے شک وہ بخشش کے لائق نہ تھا۔بے شک وہ میرے رحم وکرم کامستحق نہ تھا،بے شک وہ اس اکرام کے قابل نہ تھالیکن اس کے ایک عمل نے مجھے فیصلہ بدلنے پہ مجبور کردیاہے۔ ایک روز اس نے تورایت کھولی پڑھتے پڑھتے میرے محبوب ﷺ کانامِ نامی اسم ِ گرامی پڑھاتواس نے بے اختیار چوم لیاتھا۔اس عمل کے باعث ہی اس کی بخشش ومغفرت کااعلان کرتاہوں۔
زبان کاٹ دی جائے:
ایک دفعہ ایک بادشاہ نے کمہار کے گدھوں کوایک قطار میں چلتے دیکھا، کمہارکوبلایااورپوچھایہ کس طرح سیدھے چلتے ہیں۔ کمہار نے کہاکہ جولائن توڑتاہے اس کوسزادیتاہوں۔بادشاہ بولامیرے ملک میں امن وامان ٹھیک کرسکتے ہو؟
کمہار نے حامی بھر لی اوربادشاہ کے ساتھ چل پڑا۔دارالحکومت پہنچتے ہی عدالت لگالی ،چورکامقدمہ آیاتوچورکوہاتھ کاٹنے کی سزادی ،جلاد نے وزیراعظم کی طرف اشارہ کیاکیونکہ چورکووزیراعظم کی سرپرستی حاصل تھی،کمہارنے پھر حکم دیاکہ چور کاہاتھ کاٹاجائے۔ وزیراعظم سمجھاکہ شایدجج کوپیغام کی صحیح سمجھ نہیں آئی وہ آگے بڑھا اورجج (کمہار)کوکہاکہ یہ اپناآدمی ہے۔کمہارنے بطورجج فیصلہ کااعلان کیا چور کا ہاتھ کاٹاجائے اوروزیراعظم کی زبان کاٹ دی جائے۔ فیصلے پہ عمل درآمدہوگیاآگ وخون کی لپیٹ میں آئے ہوئے ملک میں امن قائم ہوگیا
اس واقعہ سے یہ معلوم ہواکہ جوہمارے ملک میں امن نظر نہیں آتااس کی اصل وجہ یہی ہے کہ مجرم کوبڑے آدمی کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے تب مجرم اپنے جرم میں پکاہوتاہے اورایک سے ایک بڑ ی واردات کر تانظر آتاہے ،لاتعدادواقعات ہماری آنکھوں کے سامنے ہیں کہ دن کے اجالے میں جرم کرتے ہوئے لوگ پکڑے گئے رات کے اندھیرے میں وہ دوباردندناتے ہوئے پھردکھائی دیے۔
دفاع مصطفیٰ کرنے والی بہادرصحابیہ:
انصاری صحابیہ ام عمارہ ؓنے جنگ احد میں مردوں کی طرح ثابت قدمی اوربے باکی کامظاہرہ کیاسعدبن ربیع کی صاحبزادی ام سعد نے ام عمارہ ؓ سے ان کے کارناموں کے بارے میں دریافت کیا،انہوں نے تفصیل بیان کرتے ہوئے فرمایاکہ احدکے دن صبح ہی سے مجاہدین کی خدمت کے لیے میدان میں پہنچ گئی تھی،ایک موقع ایسابھی آیاکہ جب لوگ افراتفری میں بھاگنے لگے اس وقت میں رسول اللہ ص کے قریب پہنچ کرآپ ﷺ کے دفاع میں تیراورتلوار چانے لگی یہانتک کہ دشمن کی تلوارکاایک وارمیرے کندھے پرلگاجس سے کندھازخمی ہوگیاتھا،ام سعد کہتی ہیں کہ میں نے ان کے کندھے پززخموں کے بہت سارے نشان دیکھے ام عمارہ ؓ کہتی ہیں کہ یہ وارابن قمیئہ نے کیاتھاوہ مسلمانوںکی شکست دیکھ کرآپ ﷺ پرحملہ کرنے کے لیے قریب آیااس وقت میں اورمصعب بن عمیرؓاورچنددوسرے اصحاب نے اس کاجم کر مقابلہ کیا،میں نے بھی اس پر بہت وار کیے لیکن وہ دودوزرہیں پہناہواتھااس نیک دل اوربہادر صحابیہ کے بارے میں خودرسول اللہ ﷺ نے فرمایا!دائیں بائیں جس طرف میں نے دیکھاام عمارہؓ کومیں نے اپنی مدافعت میں لڑتے ہوئے پایااس دن کی جرا ت وثابت قدمی کودیکھ کرآپ ﷺ نے فرمایاکہ آج ام عمارہ کی ثابت قدمی فلاں فلاں سے بہتر رہی ہے۔
(طبقات ابن سعد311)