اسلام میں خواتین کا تقدس

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلام میں خواتین کا تقدس
محمد سفیان اقبال ،دین پوری
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے ایک جگہ پر جہاد کے لیے قدم بڑھایا آگے دشمن تھے انہوں نے سوچا کہ ہم ان کو کسی طرح ان کے دین کے راستے سے ہٹائیں چنانچہ انہوں نے اپنی عورتوں سے کہا کہ بے پردہ ہوکر گلیوں میں نکل آئیں تاکہ ان کی نگاہیں ادھر ادھر اٹھیں، اس طرح ان کے ساتھ اللہ کی جو مدد ہے وہ ختم ہوجائے گی جب حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو انہوں نے بلند آواز سے اعلان کیا۔ قل للمومنین یغضوا من ابصارہم ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہیں کو نیچا رکھیں۔
یہ اعلان سن کر لشکر اسلام کے سپاہیوں نے اپنی نگاہوں کو اس طرح نیچے کرلیا کہ کسی کی نگاہ کسی غیر عورت پر نہ پڑی۔ حتی کہ لشکر کے لوگ جب لوٹ کر آئے تو ان سے کسی نے پوچھا کہ بتاؤ کہ وہاں کے مکانوں کی بلندی کیسی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ جب امیر لشکر نے نظریں جھکانے کا حکم دیا تو ہم نے مکانوں کی اونچائی کی طرف دھیان ہی نہیں دیا۔
شریعت میں پسندیدہ عورت کون؟
عورت کی صفات میں سے سب سے بہتر صفت کے بارے میں ایک مرتبہ صحابہ میں بات چل رہی تھی کوئی کچھ کہہ رہے تھے اسی دوران حضرت علی رضی اللہ عنہ اٹھ کر گھر تشریف لے گئے وہاں پہنچ کر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا سے بات ہوئی ان کو بھی بتایا کہ آج تو مسجد میں اس عنوان پر گفتگو ہورہی تھی انہوں نے فرمایا کہ میں بتاؤں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عورت کون ہے؟ فرمایا بتائیں انہوں نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے پسندیدہ عورت وہ ہے جو نہ خود کسی نامحرم کی طرف دیکھے اور نہ کوئی غیر محرم اس کو دیکھ سکے یعنی اتنی حیا والی ہو کہ اس کی اپنی نگاہیں بھی نامحرم پر نہ پڑیں اور اتنی پردہ دار ہو کہ غیر محرم بھی اس کو نہ دیکھ سکے جب انہوں نے یہ بتایا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ مسجد میں تشریف لائے اور عرض کیا اے اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وسلم فاطمہ نے اللہ کی پسندیدہ عورت کی دو صفتیں بتائیں تو جب انہوں نے یہ صفتیں بیان کیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا فاطمۃ بضعۃ منی فاطمہ تو میرے دل کا ایک ٹکڑا ہے۔ تو معلوم ہوا کہ جو عورت خود پردہ دار ہوغیر محرم اس کو نہ دیکھ سکے اور خود بھی غیر محرم کو نہ دیکھنے والی ہو یہ عورت اللہ رب العزت کی پسندیدہ عورت ہے۔
اہل اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں ایک عورت یمن سے چلی اور مدینہ طیبہ میں اکیلی آئی، اس نے مہینوں کا سفر کیا۔ وہ رات کو بھی کہیں ٹھہرتی ہوگی، اس کے پاس مال بھی تھا۔ اسے جان اور اپنی عزت ناموس کا بھی خطرہ تھا، حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کو پتہ چلا تو آپ نے ان کو بلوایا، پہلے یہ پوچھا کہ اکیلی کیوں آئی ہو؟ اس نے کوئی عذر پیش کیا، پھر آپ رضی اللہ عنہ نے ایک سوال پوچھا کہ بتاؤ تم جوان العمر عورت ہو تم نے اکیلے سفر کیا آبادیوں سے بھی گذری ،ویرانوں سے بھی گذری ،تمہیں جان و مال اور عزت آبرو کا بھی خطرہ تھا، یہ بتاؤ کہ تم نے یمن سے مدینہ تک لوگوں کو کیسے پایا؟ اس نے جواب دیا کہ اے امیر المومنین میں یمن سے چلی اور مدینہ تک پہنچی اور میں نے راستہ میں سب لوگوں کو ایسے پایا کہ جیسا یہ سب کے سب ایک ماں باپ کی اولاد ہوتے ہیں ان سب کی نگاہیں اتنی پاکیزہ تھیں کہ جوان العمر عورت سینکڑوں میل سفر کرتی تھی اور اسے اپنی عزت و آبرو کا کوئی خطرہ نہیں ہواکرتاتھا۔