الموافقہ بین الحدیث والفقہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع
 
علامہ خالد محمود
پی- ایچ- ڈی لندن
علم حدیث ایک فنکار کے پیرائے میں:
علم حدیث میں اشتغال ایک بڑی نعمت ہے، حدیث پر اس اعتبار سے نظر کہ یہ کس کس سند سے آئی ہے اور اس پہلو سے اس پر نظر کرنا کہ یہ مقاصدِ شریعت کی تکمیل میں کہاں تک مفید ہے؟ یہ دو بالکل علیحدہ علیحدہ موضوع ہیں۔ دوسرے پہلو سے حدیث پر غور کرنے والے فقہا ہوتے ہیں،ان کا علم حدیث میں اشتغال ایک حافظ حدیث کی حیثیت سے نہیں ہوتا، یہ اس پر مقاصد شریعت ایک پہرے دار کی حیثیت کی نظر کرتے ہیں۔ مقاصد شریعت پر اطلاع اور ان کے استنباط و استخراج کاملکہ یہ علم کی وہ دولت ہے جس سے فقہا محدثین سے ممتاز ہوتے ہیں۔اس درجہ کے لوگ زیادہ روایت کرنا پسند نہیں کرتے۔ وہ اسے ایک فن سمجھتے ہیں۔ امام سفیان الثوری161ھ اپنے دور کے عام اہل حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں:
آج کل حدیث پڑھنا موت کی تیاری کے لیے نہیں ہے بلکہ اس کو دل بہلاوے اور مشغلہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔
تذکرہ ج1ص173
اس پر حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: میں کہتا ہوں بخدا امام سفیان نے صحیح کہا ہے، حدیث کا علم حاصل کرنا اور حدیث کو طلب کرنا حدیث سے ایک الگ چیز ہے، کیونکہ طلب حدیث کا اطلاق کچھ زائد امور پربھی ہوتا ہے جو نفس حدیث سےمختلف ہوتے ہیں۔ ان میں چند ایک یہ ہیں جن میں حدیث کا علم حاصل کرنے والے خصوصی دلچسپی لیتے ہیں :
1:عمدہ کلام لکھنا
2:عالی سندوں کے حصول کی کوشش کرنا
3:زیادہ سے زیادہ اساتذہ کا تلمذ چاہنا
4:مختلف القاب سے ملقب ہونے پر خوش ہونا
5:عمر طویل کی خواہش تاکہ کثیر تعداد لوگوں تک احادیث کی روایت کی جاسکے۔
6:اور بعض امور میں منفر د رہنے کی محبت
تویہ تمام چیزیں نفسانی اغراض کا پتہ دیتی ہیں، انہیں اعمال ربانی سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا۔
تذکرہ ج1ص174
اس امت میں فقہا ء محدثین پر کیوں چھائے رہے؟یہ محض اس لیے کہ وہ مقاصد شریعت کے ساتھ ساتھ چلے ہیں اور الفاظ کے نام وغور کی کچھ خواہش نہ رہی ہے۔
علامہ ذہبی رحمہ اللہ یہ بھی کہتے ہیں:
خدا کی قسم صحابہ رضی اللہ عنہ اور تابعین کو ان علوم (علم منطق،جدلیات وغیرہ)سے کوئی سروکار نہ تھا اور نہ امام اوزاعی ،سفیان ثوری،امام مالک،امام ابوحنیفہ، امام ابوذئب اور امام شعبہ ان میں سے کسی علم کو قابل التفات سمجھتے تھے۔
ائمہ اربعہ نے علم حدیث میں ایک فنکار کا پیرایا اختیار نہیں کیا اور نہ امام احمد کے سوا کسی نے کثرت حدیث سے روایت کی ہے۔ان کی نظر کثرت نقل پر نہیں مقاصد شریعت پر رہتی تھی اور انہیں سے علماء مجتہد بنے۔علامہ شاطبی لکھتے ہیں:
انما تحصیل درجۃ الاجتہاد لمن اتصف بوصفین؛احدھما فہم مقاصد الشریعۃ علی کمالہا والثانی من الاستنباط۔
الموافقات ج1ص24
ترجمہ: اجتہاد کا درجہ اسے ہی ملا جو ان دو وصفوں سے موصوف ہوا ،ایک مقاصد شریعت کو پورے کمال سے سمجھ پانا اور دوسرا اپنے اندر ملکہ استنباط رکھنا(اس سے مسائل کا استخراج کیا جاسکے)۔
مجتہدین گو اپنی جگہ محدث بھی ہوتے ہیں لیکن علم حدیث میں ان کی نظر مقاصد شریعت پر ہوتی ہے۔کثرت طرق ،تعدد اسناد، سند عالی اور حفظ کی شہرت ان کےسامنے نہیں ہوتی۔حضرت امام احمد رحمہ اللہ اس لحاظ سے دوہری منقبت کے لائق ہے کہ باوجود کثرت روایت کے محدثین کے ان اقوال سے جن کی نشاندہی علامہ ذہبی نے کی ہے یکسر کنارہ کش رہے۔وہ محدث ہونے کے باوجود کامل مجتہد بھی تھے اور مقاصد شریعت پر ان کی گرفت بھی بڑی مضبوط تھی۔
جو علم حدیث مقاصد شریعت کی تکمیل کرے وہ جملہ مجتہدین کو بخوبی حاصل رہا ہے۔وہ مجتہد ہی کیا جس کے پاس حدیث کا ضروری علم موجود نہ ہو۔رہے کثرت طرق تو نہ ان پر شریعت کا مدار ہے ،نہ ان میں اجتہاد کا انحصار،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ اور امام شافعی رحمہ اللہ مجتہد ہوئے ہیں۔امت میں کبھی کوئی اختلافی شخصیت نہیں رہے۔پوری امت نے انہیں بالاتفاق علمی درجہ میں کامل مجتہد مانا ہے اور یہ درجہ علم حدیث پر پورے تمکن کے بغیر کسی کو نہیں مل سکتا۔
علامہ شاطبی لکھتے ہیں:
وکان متمکنا من الاطلاع علی مقاصدہا کما قالوا فی الشافعی وابی حنیفۃ فی علم الحدیث۔
الموافقات ج1ص108
ترجمہ: مگر مقاصد شریعت پر پختہ اطلاع رکھتاہو جیسا کہ امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کے علم حدیث کے بارے میں علماء کی رائے متفقہ ہے۔
علماء اسلام کی اس متفقہ رائے کی روشنی میں حضرت امام شافعی اور حضرت امام ابوحنیفہ کے علم حدیث کے بارے میں ہرگز کوئی شبہ نہیں کیا جاسکتا اور ان حضرات کے بارے میں کوئی ایسا تصور ہرگز راہ نہیں پاسکتا جس کے تحت ان ائمہ کبار کی نظر مقاصد شریعت پر کمزور نظر آئے۔یہ حضرات دینی علم کے کسی پیرائے میں شبہ کا شکار نہیں ہیں، ان کے مرتبہ امامت پر ہمیشہ سے پوری امت کا اجماع رہا ہے، ان کے اجہادی مسائل سے کسی کو اختلاف ہو تو ہو لیکن ان کے مقام اجتہاد میں کسی صاحب علم کو کبھی کوئی اختلاف نہیں رہا۔
محدثین اور فقہاء کی مختلف ذمہ داریاں:
حضرت مولانا کرامت علی جونپوری 1269ھ خلیفہ حضرت سید احمد شہید وشاگرد حضرت مولانا احمد اللہ الصدیقی شاگرد شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی اپنے وقت کے ایک بڑے مصلح اور داعی تھے اور بنگال کے حق میں خدا کی کھلی رحمت تھے اور تاثیر وہدایت میں آیۃ من آیات اللہ (خدا کی ایک نشانی)تھے۔آپ اپنے رسالہ ”حجت قاطعہ“ میں لکھتے ہیں:فقہاء دین کے حاکم ہیں، دین کے معاملے میں حکم دینے کا ان کو اختیار ہے اور محدث لوگ دین کے چوکیدار ہیں، دین کی امانت کو یعنی حدیث کو حفاظت کے ساتھ رکھ کر اس کے لائق لوگوں کے پاس بجنسہ پہنچا دیتے ہیں ان کو حکم دینے کا اختیار مطلق نہیں ہوتا۔۔۔اس قاعدے کے صحیح ہونے پر امت کا اجماع ہے، کیونکہ کسی نے اس قاعدے کا انکار نہیں کیا اور سارے فقہاء اور محدثین اور مفسرین ومتکلمین وصوفیہ فقہ پر عمل کرتے ہوئے چلے آئے ہیں اور فقہ پر عمل کرنے کی تاکید سب نے کی ہے۔چنانچہ الاشباہ والنظائرمیں لکھا ہے کہ بزازی نے اپنی کتاب میں ان چار چیزوں کا ذکر کیا ہے، سو ان سب چار چیزوں کے بیان کے بعد امام بخاری نے کہا :پھر اگر طاقت نہ رکھے ان سب مشکل بوجھ کے اٹھانے کی تو اس پر واجب ہے فقہ کا اختیار کرنا، جس کا سیکھنا ممکن ہے اپنے گھر بیٹھے بیٹھے اور فقہ سیکھنے میں نہ تو دور و دراز سفر کرنے کا محتاج ہے نہ ملک ملک پھرنے کا اور نہ جہاز ،کشتی پر سوار ہو کے دریا کی سیر کا،اور باوجود اس آسانی کے فقہ جو ہے سو پھل اور مقصودِ اصلی حدیث کا ہے اور فقیہ کا ثواب اور اس کی عزت محدث کے ثواب سے اور اس کی عزت سے کم نہیں یہاں تک بخاری کی بات ختم ہوئی۔ سو اس بات سے فقہ کا مرتبہ اور بلندی دریافت کرو۔
حجت قاطعہ ص101،102مشمولہ ذخیرہ کرامت حصہ اول طبع 1344ھ کانپور