سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
بستان المحدثین:
 
مولانا محمد اکمل راجنپوری حفظہ اللہ
بستان المحدثین کے تحت ان صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تذکرہ خیر کیا جاتا رہا جنہوں نے حدیث کے حفظ و اشاعت میں کارہائے نمایاں سرانجام دیں۔”فقیہ“ کے سال نو کے آغاز پر اس سلسلہ کو وسعت دیتے ہوئے اب حضرات تابعین عظام رحمہم اللہ کا ذکر خیر اور ان کے حالات و واقعات کو پیش کیا جا رہا ہے۔
تابعی اس شخص کو کہا جاتا ہے جس نے ایمان کی حالت میں کسی صحابی رضی اللہ عنہ کی زیارت کی ہو۔
تابعین کاطبقہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا فیض یافتہ ہے۔قرآن و سنت کے علوم ان سے لے کر امت میں منتقل کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے اپنے کلام مقدس اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے فرامین مبارکہ میں ان کے فضائل بیان فرمائے ہیں۔ارشاد خداوندی ہے:
وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِيْنَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ۔
[التوبہ :100]
مہاجرین وانصار میں سے جن لوگوں نے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی اور جن لوگوں نے خوش دلی کے ساتھ ان کا اتباع کیا، اللہ تعالیٰ ان سے خوش اور راضی ہے اور وہ اللہ سے خوش ہیں۔
گویا کہ اللہ تعالیٰ نے مہاجرین اور انصار کے ساتھ انہیں بھی اپنی رضا کے سرٹیفکیٹ سے سرفراز فرمایا اور یہی تابعین حضرات اس آیت کا مصداق ہیں جو عمل میں مہاجرین وانصار صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل کے تابع اور زمانہ کے اعتبار سے ان کے بعد تھے۔ اسی لیے عرف عام میں انہیں ”تابعی“کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ احادیث نبویہ میں ان کے بڑےفضائل ومناقب بیان کیے گئے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:
خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
[مسلم کتاب الفضائل]
کہ سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے ہیں( یعنی صحابہ کرام) پھر جو ان کے زمانے کے قریب ہیں ( یعنی تابعین) پھر جو ان کے زمانے کے قریب ہیں (یعنی تبع تابعین)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ایک جماعت جہاد کرے گی تو اس سے پوچھا جائے گا :
فيكم من رأى من صحب رسول الله صلى الله عليه وسلم فيقولون نعم فيفتح لهم
[مسلم کتاب الفضائل]
کہ تم میں کوئی ہے جس نے اس شخص کو دیکھا ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہا ہو ؟تو وہ کہیں گے ہاں تو [ان کی برکت سے]فتح دی جائے گی۔
فضائل وکمالات کے حاملین حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی علمی،عملی اور اخلاقی وراثت کو امت تک پہنچانے والے تابعین کا ذکر خیر کیا جا رہا ہے۔ ان میں ایک اہم شخصیت سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ ہیں۔ ذیل میں ان کا تعارف اوار علمی کارنامے پیش خدمت ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامی الکریم
نام ونسب:
سیدنا ابومحمد سعید بن مسیب بن حزن قرشی مخزومی رحمہ اللہ جلیل القدر تابعی اور ان باکمال نفوس قدسیہ میں سے تھے جو اپنے علم وعمل کے اعتبار سے اتنے بلند بالا مقام پر فیض تھے کہ دنیائے اسلام کے پیشواء ومقتداء مانے جاتے تھے۔ آپ کے والد سیدنا مسیب اور دادا سیدنا حزن رضی اللہ عنہما دونوں صحابی تھے،فتح مکہ کے دن مشرف باسلام ہوئےتھے۔
سعید کی ولادت باسعادت:
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کی ولادت باسعادت حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تیسرے سال ہوئی۔
[سیر اعلام النبلاء ج4ص438،تذکرۃ الحفاظ مترجم ج3ص62]
فضل وکمال:
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ ایسے دور میں پیدا ہوئے کہ ابھی عہد رسالت کی بہار کو گزرے ہوئے کوئی زیادہ عرصہ نہیں ہوا تھا۔ مدینۃ الرسول کے گلی کوچے امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صحبت یافتگانوں اور جانثاروں سے کھچاکھچ بھرے ہوئے تھے،اکثراکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم علوم نبوی کی تشہیر وتبلیغ کیسے مسند اشاعت پر جلوہ افروزتھے۔ادھر اللہ تعالیٰ نے ابن مسیب رحمہ اللہ کی فطرت میں حصول علم کا ذوق ودیعت رکھ دیا تھا۔ انہوں نے اس موقع و وقت کو غنیمت جانا اور ان اکابرین سے بھرپور استفادہ کیا۔گویا کہ آپ کو اسی ذوق اور جستجو نے اکابرین کے علم وعمل کا بحر بیکراں بنا دیا۔ بالاتفاق آپ اپنےزمانے کے علمی واخلاقی فضائل وکمالات کے جامع اور گوہر نایاب تھے۔اسی بات کا اقرار آپ کے ہمعصر اہل علم نے بھی کیا۔
چند اساتذہ کرام کے اسمائے گرامی:
آپ رحمہ اللہ جن حضرات کے چشمہ سے سیراب ہوئے اور ان کے علوم کو اپنے اندر سمویا، ان میں سے چند جامع کمالات شخصیات کے اسمائے گرامی یہ ہیں:
حضرت عثمان غنی ،حضرت علی المرتضیٰ ،حضرت زید بن ثابت،حضرت ابوہریرہ، حضرت سعد بن ابی وقاص،حضرت ابوموسیٰ اشعری، حضرت عائشہ،حضرت ابن عمر،حضرت عبداللہ بن عمرو،حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم اجمعین۔
[سیر اعلام النبلاء ج4ص435]
ان حضرات کی شاگردی، صحبت اور تربیت نے آپ کو علم وعمل کا مجمع البحرین بنادیا تھا۔آپ اپنے وقت کے بلند پایہ محدث، صف اول کے فقیہ اور بہترین معبر تھے۔
ذوق حدیث :
سیدنا سعید بن مسیب رحمہ اللہ کو حدیث نبوی کا خاص ذوق تھا۔ خود بیان کرتے ہیں.
إن كنت لاسير الايام والليالي في طلب الحديث الواحد
[سیر اعلام النبلاء ج4ص437،تذکرۃ الحفاظ مترجم ج3ص63]
کہ میں نے ایک حدیث کے حصول کے لیے کئی کئی دن اور راتوں کا سفر کیا ہے۔
ایک طرف آپ کا یہ ذوق وشوق تھا، تو دوسری طرف آپ کا مقام ولادت شہر رسول صلی اللہ علیہ و سلم تھا جو حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم معمور تھا جو علم حدیث کے اساطین تھے،عموماً آپ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد سے علم حدیث حاصل کیا ، لیکن زیادہ تر استفادہ آپ نے اپنے خسر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کیا۔ چنانچہ آپ کی مرویات کا زیادہ تر حصہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ کی احادیث پر مشتمل ہے۔
[تہذیب التہذیب ج4ص84،تہذیب الاسماء ج1ص220]
اللہ تعالیٰ نے آپ کو قوت حافظہ سے نوازا تھا۔ ایک مرتبہ جو بات کانوں میں پڑ جاتی تھی، وہ ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجاتی تھی۔
[طبقات ابن سعد ج5ص90]
ہم عصراہل علم کا اعتراف کمال:
تمام ہم عصرعلماء آپ کے کمال حفظ حدیث کے معترف تھے۔چنانچہ امام مکحول رحمہ اللہ جو خود بہت بڑے محدث ہیں ،فرماتے ہیں:میں نے علم کی تلاش میں ساری دنیا کا سفر کیالیکن سعید بن مسیب رحمہ اللہ جیسے کوئی عالم نہیں ملے۔
[تہذیب الاسماء ج1ص220]
فقیہ شام امام مکحول رحمہ اللہ کو جب ابن مسیب کے انتقال کی اطلاع ملی تو فرمایا :اب سب لوگ علم میں برابر ہوگئے۔
[تذکرۃ الحفاظ ج3ص63]
امام زین العابدین بن علی بن حسین فرماتے ہیں: سعید بن مسیب گزشتہ آثار کے سب سے بڑے واقف کار تھے۔
[سیراعلما النبلاء ج4ص438]
امام علی بن مدینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں تابعین کی جماعت میں سعید بن مسیب رحمہ اللہ سے زیادہ وسیع العلم کسی کونہیں جانتا۔ میرے نزدیک آپ رحمہ اللہ سب تابعین سے زیادہ جلیل القدر ہیں۔
[سیر اعلام النبلاء ج4ص437،تہذیب الاسماء ج1ص220]
شہاب بن عباد العصری فرماتے ہیں کہ میں حج کے بعد مدینہ میں آیا اور ان سے مدینہ کے سب سے بڑے عالم کا پوچھا کہ وہ کون ہیں؟تو انہوں نے جواب دیا کہ مدینہ کے بڑے عالم سعید بن مسیب رحمہ اللہ ہیں۔ [سیراعلام النبلاء ج4ص438]
امام قتادہ ،امام مکحول،اور امام زہری رحمہم اللہ وغیرہ فرماتے ہیں کہ ہم نے سعید بن مسیب سے بڑا عالم نہیں دیکھا [سیر اعلام النبلاء ج4ص437]
مرویات کا مقام:
حضرات محدثین اور ماہرین فن کے نزدیک آپ کی مرویات کا مقام بہت بلند ہے۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ و دیگر ائمہ فرماتے ہیں کہ آپ کی مرسلات بھی صحاح کے مرتبے کی ہیں۔
امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ فرماتے تھےکہ سعید رحمہ اللہ کی مرسلات ہمارے نزدیک حسن درجے کی ہیں۔
[تہذیب التہذیب ج4ص86]
امام یحییٰ بن معین رحمہ اللہ آپ کی مراسیل کو امام حسن بصری رحمہ اللہ کی مراسیل پر ترجیح دیتے تھے۔
[تہذیب التہذیب ج4ص86]
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کا احترام:
آپ رحمہ اللہ احادیث رسول کا بیماری کی حالت میں بھی بہت ادب واحترام کرتے تھے۔ ایک مرتبہ بیماری کی حالت میں کسی شخص نے آپ سے ایک حدیث پوچھی، آپ لیٹے ہوئے تھے، اٹھ کر بیٹھ گئے۔سائل کہنے لگا کہ میں چاہتا تھا کہ آپ کو زحمت نہ ہو تو آپ نے فرمایا کہ میں لیٹے لیٹے حدیث رسول بیان کرنا مکروہ سمجھتاہوں۔
[مختصر صفوۃ الصفوۃ ص13]
فقہ میں مقام:
اللہ تعالیٰ نے آپ کو فقاہت عطا فرمائی تھی۔آپ رحمہ اللہ مدینہ کے سات فقہاء میں سے تھے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: ابن مسیب ہو واللہ احد المفتین۔ [سیراعلام النبلاء ج4ص438،تہذیب التہذیب ج4ص86]
واللہ! ابن مسیب مفتیوں میں سےایک ہیں۔
امام قدامہ بن موسی فرماتے ہیں:کان ابن مسیب یفتی والصحابۃ احیاء
[سیراعلام النبلاء ج4ص438]
کہ حضرت سعید بن مسیب صحابہ کرام کی زندگی میں فتویٰ دیتے تھے۔
امام سلیمان بن موسیٰ فرماتے ہیں :سعید بن مسیب افقہ التابعین۔
[تہذیب الاسماء ج1ص220]
کہ تابعین میں سب سے بڑے فقیہ تھے۔
چند مشہور تلامذہ:
آپ کے تلامذہ میں سالم بن عبداللہ،یحییٰ بن سعید انصاری،قتادہ،عمرو بن دینار،زہری،ابوجعفر محمد باقر بن علی،داود بن ابی ہند،میمون بن مہران،عطا خراسانی،عمرو بن شعیب رحمہم اللہ وغیرہ شامل ہیں۔
[تہذیب التہذیب ج4ص85، سیراعلام النبلاء ج4ص436]
وفات: 94ھ میں آپ کا انتقال ہوا۔[سیراعلام النبلاء ج4ص436]