عشر کے مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
فقہ المسائل:
عشر کے مسائل
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ
مسلمان پر جو عبادات مقرر کی گئی ہیں ان میں سے بعض بدنی عبادات کہلاتی ہیں جیسے نماز ،روزہ، بعض مالی عبادات کہلاتی ہیں جیسے زکوٰۃ، عشر وغیرہ اور بعض دونوں کا مجموعہ ہیں جسے حج، جہاد وغیرہ۔
مالی عبادات میں زکوٰۃ کو ایک اہمیت حاصل ہے۔ جس طرح سونا، چاندی، مال تجارت اور مویشی وغیرہ پر زکوٰۃ ہوتی ہے کہ ان کا چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے، اسی طرح زمین کی بھی زکوٰۃ ہے جسے ”عشر “کہا جاتا ہے۔ عشر کے مستقل احکام شریعت میں بیان کیے گئے ہیں۔ بعض صورتوں میں پیداوار کا عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہوتا ہے اور بعض میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ۔ لیکن فقہاء کے عرف میں دونوں کو ”عشر “ہی کہتے ہیں۔
عشر کا وجوب:
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے۔
يَآأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ.
(البقرۃ: 267)
ترجمہ :اےایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرواوراس (پیداوار)میں سے (بھی )جو ہم نے تمہارےلیے زمین سے پیداکی ہے۔
اس کے تحت علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
يَعْنِيْ مِنَ الْحَبِّ وَالتَّمَرِ وَكُلِّ شَيْءٍ عَلَيْهِ زَكوٰةٌ
(روح المعانی: ج 2 ص: 39)
ترجمہ: اللہ کے فرمان
﴿ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ﴾
سے مراد یہ ہے کہ اناج، کھجور اور ہر وہ چیزہے جس میں زمینی زکوٰۃ (یعنی عشر) واجب ہے (خدا کی راہ میں دو)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
فِيْمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ
(صحیح البخاری: باب العشرفیمایسقی من ماء السمآء، ج 1 ص: 201)
ترجمہ: جو کھیتی بارش کے پانی یاقدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بخود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے کی حاجت نہ ہو) تو اس میں سے عشر لیا جائے، اور جس کھیتی میں کنویں سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عشر لیا جائے۔
وجوب عشر کی شرائط:
پہلی شرط: مسلمان ہونا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشر ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔
دوسری شرط:زمین کا عشری ہونا۔ خراجی زمین پر عشر نہیں۔
تیسری شرط:زمین سے پیداوار کا ہونا۔ لہذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبر گیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اُگی ہی نہیں تو بہر صورت عشر ساقط ہو جائے گا۔
چوتھی شرط: پیداوار ایسی چیز ہو جس کو اگانے کا رواج ہو، اور لوگ عادۃً اسے کاشت کر کے اس سے نفع بھی اٹھاتے ہوں۔ لہذا خود رو گھاس یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عشر نہ ہوگا۔ اگر زمین میں بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عشر ہو گا، اگر خود بخود کوئی درخت اگا ہے تو اس میں نہیں ہو گا۔
(بدائع الصنائع: ج 2، کتاب الزکوٰۃ)
فائدہ:
عشر اور عام احکام شریعت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دیگر احکام شریعت میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہوتا ہے لیکن زمین پر عشر کے وجوب میں یہ دونوں چیزیں شرط نہیں، لہذا زمین کا مالک اگر بچہ یا مجنون ہو تو بھی اس زمین کی پیداوار میں عشر واجب ہو گا اور ان دونوں کے اولیاء پر اس کا ادا کرنا فرض ہو گا۔ بخلاف زکوٰۃ کے کہ زکوٰۃ بچہ اور مجنون کے مال میں واجب نہیں ہوتی۔
عمومی مسائل:
1: عشر کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عشر ادا کیا جائے۔
(بدائع الصنائع: ج 2، کتاب الزکوٰۃ)
2: عشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور ترکاریوں میں بھی واجب ہے۔
3: اگر کسی درخت سے سال میں ایک مرتبہ سے زائد مرتبہ پھل حاصل ہوتا ہو تو جتنی مرتبہ پھل حاصل ہو گاتو ہر مرتبہ اس پر عشر واجب ہو گا۔
4: اگرکوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کےبعددوبارہ اگ آتی ہوتوجتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اس کاعشرواجب ہوگا۔
5: اگرفصل، پھل یاسبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی جائے یاتوڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اسی کاعشراداکرتےجائیں۔
6: جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عشر واجب ہوتا ہے جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی ترکاری، پھل وغیرہ اور جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بلکہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم کا بھوسہ، مکئی کا بھوسہ، چاول کا بھوسہ یا خود بخود اگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کے لیے یا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارہ وغیرہ کے لیے تو ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔
7: اگر کھیتی مثلاً گندم، مکئی، جو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کے لیے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چونکہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اس لیے ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔
8: کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کے ساتھ کوئِ دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عشر واجب ہے کیونکہ یہاں ان چیزوں کی پیداوار مقصود ہوتی ہے۔
9: زمین میں خود رو درخت پیدا ہو جائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عشر واجب نہ ہو گا۔ ہاں اگر ان کو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عشر واجب ہو گا۔
10: درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عشر واجب نہیں۔ اسی طرح مختلف سبزیوں اور پھلوں کےبیج جوصرف کھیتی کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا دوائی کے کام آتے ہیں (غذائی اجناس کےطورپرنہیں ہوتے) جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ کے بیج تو ان پر بھی عشر واجب ہے۔
11: عشری زمین سےاگرشہدنکالا جائےتواس پربھی عشرواجب ہے، شہد کے عشر میں ہر حال میں دسواں حصہ واجب ہے خواہ اس پرکتنےہی اخراجات آئیں، یہ اخراجات اس سے نکالےنہیں جائیں گے۔
12: گھرکےصحن وغیرہ میں ترکاری یادرخت لگائےجائیں توان سے حاصل ہونےوالی پیداوارپرعشرنہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں مکان کے تابع ہیں اورمکان پرعشرنہیں لہذا ان چیزوں پر بھی عشر نہیں۔
13: کسی نےاپنےرہائشی مکان کومسمارکرکے اسے مستقل باغ سےتبدیل کردیاتو چونکہ اب اس کی حیثیت باغ کی ہے اس لیےاس باغ میں آنے والےپھلوں پر عشر واجب ہوگا۔
14: عشری زمین اگر مزارعت پر دی جائے (عموماً زمین زمیندار کی اور محنت، بیج، ہل وغیرہ کاشتکار کے ذمے ہوتا ہے اور پیداوار میں دونوں کا حصہ ہوتا ہے) اس صورت میں زمیندار اور کاشتکار دونوں پر اپنے اپنے حصے کی پیداوار کا عشر واجب ہے
(بدائع الصنائع: ج 2، کتاب الزکوٰۃ)
15: عشری زمین ٹھیکے پر دی جائے تو اس صورت میں بہت سارے اہل علم حضرات کا فتوٰی یہ ہے کہ پیداوار کا عشر کرائے دار پر ہے، زمین کے مالک پر نہیں۔
امداد الفتاوٰی: ج2، فصل فی العشر والخراج وغیرہ
16: ریشم پرعشرواجب نہیں۔
مقدارِ واجب:
1: جس زمین میں سیراب کرنے والے پانی پر کچھ محنت یا خرچ نہیں کرنا پڑتا، مثلاً بارش کا پانی، قدرتی چشمہ یا نہری پانی جو مفت ملتا ہے، سے زمین سیراب ہوتی ہے تو اس میں بطور عشر پیداوار کا دسواں حصہ واجب ہے، اور اگر پانی پر محنت یا خرچ کرنا پڑتا ہے جیسے کنویں یا ٹیوب ویل کا پانی یا نہری پانی جس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے تو اس صورت میں پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے۔
2: اگر کوئی زمین دونوں قسم کے پانی سے سیراب ہو مثلاً کچھ بارش کے پانی سے اور کچھ ٹیوب ویل یا کنویں سے پانی سے تو اس میں اکثر کا اعتبار کیا جائے گا۔ چانچہ اگر زیادہ سیرابی بارش کے پانی سے ہوئی ہے تو دسواں حصہ اور اگر زیادہ سیرابی ٹیوب ویل یا کنویں کے پانی سے ہوئی ہے تو بیسواں حصہ واجب ہو گا۔
3: اگر کسی زمین کی آب پاشی دونوں طریقوں مثلاً بارش کے پانی اور کنویں کے پانی سے برابر برابر ہو تو پیداوار کے نصف حصہ میں دسواں حصہ اور دوسرے نصف میں بیسواں حصہ واجب ہو گا۔
4: زمین کوکاشت کےقابل بنانےسےلےکر فصل پکنےتک جتنےاخراجات ہوتےہیں مثلاً ہل چلانا، زمین کو جڑی بوٹیوں سےخالی کرنا،بیج ڈالنا، پانی دینا، کھاد ڈالنا، اسپرےکرنا۔ ان اخراجات کوعشرکی ادائیگی سےنہیں نکالا کیاجائےگا۔ بلکہ اخرجات نکالےبغیر زمین کی کل پیداوارپرعشرواجب ہوگا۔
(بدائع الصنائع ، ج 2 کتاب الزکوٰۃ)
5: فصل پکنےکےبعد ہونے والے اخراجات کوبھی نہیں نکالا جائے گا۔ اس لیے کٹائی کی اجرت، تھریشروغیرہ کاخرچہ بھی نکالے بغیرعشر ادا کیاجائےگا۔
6: اگرپیداوارکامالک مقروض ہےتوبھی اس پرعشرواجب ہوگا،قرض کو پیداوار سے نہیں نکالاجائےگا۔
(بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ)
عشر کے مصارف:
عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی ایسامسلمان جس پر نہ زکوٰۃ واجب ہو اور نہ ہی ضروریاتِ خوردونوش، لباس و رہائش سے زائد اتنی نقد رقم، ضرورت سے زائد کپڑے، فرنیچر وغیرہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو جائے تو ایسا شخص زکوٰۃ و عشر کا مستحق ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرح عشرکی ادائیگی کیلئے بھی غریب کومالک بناناشرط ہے۔
(بدائع الصنائع، ج 2 فصل، وامابیان رکن ھذاالنوع)
عشرپیداوارکی جنس سے دیناضروری نہیں بلکہ اس کی قیمت سےبھی اداکیاجاسکتاہے۔ (ردالمحتار)