محدثین؛ فقہاء کو اپنے سے آگے رکھتے تھے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
آثار التشریع:
محدثین؛ فقہاء کو اپنے سے آگے رکھتے تھے
علامہ خالد محمودمدظلہ
پی- ایچ- ڈی لندن
محدثین اپنے آپ کو حامل فقہ سمجھتے اور فقہاء کو اپنے سے آگے کے درجہ میں رکھتے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد۔
” رُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ غَيْرُ فَقِيهٍ“
ہر وقت ان کے پیش نظر تھا کہ راوی حدیث ہونا اور بات ہے اور فقیہ ہونا اور بات ہے۔
[1]دیکھئے حضرت علامہ شعبی رحمہ اللہ م100ھ کس انکساری سے کہتے ہیں۔
اِنَّا لَسْنَا بِالْفُقَهَاءِ وَلٰكِنَّا سَمِعْنَا الْحَدِيْثَ فَرَوَيْنَاهُ الْفُقَهَاءَ
[تذکرۃ الحفاظ: ج1ص179اردو]
ترجمہ:ہم فقہاء نہیں ہیں، ہم حدیث سنتے ہیں اور آگے بیان کردیتے ہیں۔
[2]حضرت اعمش رحمہ اللہ م148ھ کس عظیم درجہ کے محدث ہیں؛ دیکھئے آپ فقہاء کی کتنی قدر کرتے تھے؟
يا معشر الفقهاء أنتم الأطباء ونحن الصيادلة
[نشر العرف ص129]
ترجمہ:اے گروہ فقہاء ! طبیب تم ہو،ہم تو صرف دوائیں لگائے بیٹھے ہیں۔
[3]حضرت امام سفیان الثوری رحمہ اللہ م161ھ کس درجے کے محدث ہیں، یہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ سے معلوم کیجیے۔ آپ نامور فقیہ اور سید الحفاظ ہیں، آپ سے عبداللہ بن مبارک ،یحییٰ القطان ،ابن وہب ،وکیع رحمہم اللہ اور دوسرے بہت سے لوگوں نے علم حدیث حاصل کیا۔امام شعبہ،یحییٰ بن معین اور محدثین کی ایک جماعت نے آپ کو ”امیر المومنین فی الحدیث“ کا خطاب دیا ہے۔عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں نے ایک ہزار ایک سو شیوخ سے علم حاصل کیا؛ ان میں ایک بھی سفیان ثوری رحمہ اللہ سے افضل نہیں پایا۔
[تذکرۃ الحفاظ ج1ص173اردو]
آپ فقیہ کو کیا مقام دیتے ہیں یہ ان سے سنیے۔
لو أن فقيها على رأس جبل لكان هو الجماعة.
[شرح السنۃ ج1ص279]
ترجمہ:ایک فقہ جاننے والا پہاڑ کی چوٹی پر بیٹھا ہو تو وہ اکیلا ایک بڑی طاقت ہے۔
محدثین نے عرمان المقری اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ م110ھ کا ایک مکالمہ نقل کیا ہے۔ پہلے عمران نے کہا۔
لیس ہکذا یقول الفقہاء
یعنی فقہاء اس طرح نہیں کہتے۔
[4]اس پر حضرت حسن بصری رحمہ اللہ نےکہا۔
ویحک ورایت انت فقیہا؟
[سنن دارمی ج1ص279]
ترجمہ:تیر ی برباری! کیا تو نے کبھی کوئی فقیہ دیکھا ہے؟
اس سے پتہ چلتاہے کہ اس دور میں فقہاء کتنی عزت سے دیکھے جاتے تھے۔
[5]حضرت ابن شہاب زہری رحمہ اللہ م124ھ کس مرتبے کے محدث ہیں، یہ بات کسی بھی صاحب علم سے مخفی نہیں۔ آپ کایہ ارشاد ملاحظہ فرمائیے:
ماعبداللہ بمثل الفقہ
[شرح السنۃ البغوی ج1ص279]
ترجمہ:اللہ کی عبادت کا بہترین پیرایہ دین میں تفقہ ہے۔
[6]حضرت امام وکیع بن الجراح رحمہ اللہ م197ھ لکھتے ہیں۔
حدیث یتداولہ الفقہاء خیر من ان یتداولہ الشیوخ
[معرفت علوم الحدیث ص11]
ترجمہ:حدیث فقہاء کے ہاتھ لگے اس سے بہتر ہے کہ وہ شیخ الحدیث کے ہاتھ لگے۔
[7]مشہور محدث ابن ابی شیبہ رحمہ اللہ م235ھ تاویل الاحادیث میں فقہاء کو ہی عالم سمجھتے ہیں، آپ نے ”المصنف“ میں یہ باب باندھا ہے۔
ما حفِظت فِيمن عَبَّر مِن الفقهاءِ۔
[المصنف ج6ص183]
ترجمہ:جو فقہاء سمجھے گئے ہیں، میں نے ان میں سے کیا کچھ لیا ہے۔
[8]حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ م279ھ فقیہ کی عظمت کا اقرار ان الفاظ میں کرتے ہیں۔
وكذلك قال الفقهاء وهم أعلم بمعاني الحديث
[جامع ترمذی ج1ص118]
ترجمہ:اور اسی طرح فقہاء نے کہا ہے اور وہ حدیث کے معنوں کو زیادہ بہتر جاننے والے ہیں۔
[9]امام ابوداؤد رحمہ اللہ م175ھ کو دیکھئے، کس شرح صدر سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بارے میں فرماتے ہیں:رحم اللہ ابا حنیفۃ کان اماما
[الانتفاء ص، تذکرہ ج5ص160]
ترجمہ:اللہ تعالیٰ ابوحنیفہ رحمہ اللہ پر رحم فرمائے ،آپ بےشک امام تھے۔
[10]حضرت عبدالرحمان ابن الجوزی رحمہ اللہ م597ھ محدث جلیل کو کون نہیں جانتا، آپ فقہاء کو کیا مقام دیتے ہیں؛ ملاحظہ کیجیے:
اعلم ان فی الحدیث دقائق وآفات لایعرفہا الا العلماء الفقہاء
[دفع شبہ التشبیہ ص26]
ترجمہ:جان لو کہ حدیث میں کئی باریکیاں اور پیچیدگیاں لپٹی ہیں جنہیں وہ علماء ہی پہچان سکتے ہیں جو فقہاء ہوں۔
[11]علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ م852ھ کی محدثانہ شان کس سے چھپی ہوگی، آپ بھی فقہاء کو یہی اونچا مقام دیتے ہیں:
فان علم الحلال والحرام انما یتلقی من الفقہاء
[فتح الباری ج9ص31]
ترجمہ:حلال وحرام کا علم فقہاء ہی سے لیا جاسکتاہے۔
حضرت امام ابن ماجہ رحمہ اللہ م273ھ اور امام دارمی رحمہ اللہ م255ھ دونوں حضرات امام احمد رحمہ اللہ کے مذہب پر چلتے تھے۔
[دیکھئے الانصاف]
اور فقیہ کے سائے میں چلنا ان کے ہاں عیب نہ سمجھا جاتا تھا۔یہ دونوں امام حدیث تھے مگر حنبلی مذہب رکھتے تھے۔ محدث ہونا انہیں کسی امام فقہ کی پیروی سے نہ روکتا تھا۔امام عبدالرحمان نسائی رحمہ اللہ م303ھ کو لیجیے، انہوں نے مناسک حج پر فقہ کی ایک کتاب لکھی ہے۔ یہ انہوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کے مذہب پر ترتیب دی ہے۔ نواب صدیق حسن خان نے بھی آپ کو ”شافعی المذہب“ لکھا ہے۔
[ابجد العلوم ص81]
امام ابوجعفر الطحاوی رحمہ اللہ م321ھ نے معانی الآثار اور مشکل الآثار جیسی عظیم کتابیں حدیث پر لکھی ہیں، مگر آپ حنفی المذہب تھے۔
[دیکھیے لسان المیزان ج1ص276]
مولانا مبارک پوری لکھتے ہیں: آپ حنفی تھے۔
[دیکھئے مقدمہ تحفۃ الاحوذی ص92]
آپ کئی مقامات پر حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف بھی کرتے ہیں، آپ مجتہد فی المسائل تھے۔ اتنے بڑے محدث ہوکر کس طرح امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سائے میں چلے ہیں۔
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ م256ھ بہت سے مسائل میں شافعی المذہب ہیں لیکن کئی مقامات پر انہوں نے امام شافعی رحمہ اللہ کی مخالفت بھی کی ہےکہ آپ ایک درجے میں مجتہد ہیں۔ آپ کی فقہ آپ کے تراجم ابواب میں ہے ،فقہ کی عظمت آپ کے ذہن میں کتنی تھی؟ اس کا پتہ آپ کی اس روایت سے چلتاہےجو آپ نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے "کونوا ربانین "کی تفسیر میں نقل کی ہے: {كُونُوا رَبَّانِيِّينَ}حُلَمَاءَ فُقَهَاءَ
[صحیح بخاری ج1ص16]
ترجمہ:تم ہوجاؤ حکمت کے حاملین علم کے جانشین اور فقہ کے خوشہ چین۔
[آثار التشریع ج1ص134تا137]