چند احادیث مبارکہ کی ایمان افروز تشریح

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
خزائن السنن:
چند احادیث مبارکہ کی ایمان افروز تشریح
مفتی شبیر احمد حنفی
فرمان رسول صلی اللہ علیہ و سلم ہمارے لیے مشعل راہ ہیں، ان کو سمجھنا، ان پر عمل کرنا اور دوسروں تک پہنچانا دین کی ایک عظیم خدمت بھی ہے اورعمل کا ایک بہترین باب بھی۔ عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم نے اپنے عالی ذوق پر کئی احادیث کی تشریح فرمائی ہے۔ ہم چند احادیث مع تشریح ہدیہ قارئین کرتے ہیں۔
حدیث نمبر1:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
(سننُ الترمذی،کتابُ الدعوات)
عارف باﷲ حضرت اقدس مولانا شاہ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم نے اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے فرمایا:
حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے شبِ قدر میں پڑھنے کے لیے یہ دعا سکھائی:
اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّیْ
.
آپ نے پہلے اللہ تعالیٰ کی ثناء و تعریف فرمائی کیونکہ”ثَنَائُ الْکَرِیْمِ دُعَائٌ“ کریم کی تعریف کرنا اس سے مانگنا ہے اور جو چیز کریم سے لینی ہوتی ہے اسی صفت کی تعریف کرتے ہیں۔ چونکہ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کو اُمت کو معافی دلوانی تھی اس لیے اللہ تعالیٰ کی صفتِ عفو کا واسطہ دیا؛ اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ کَرِیْمٌ ای اِنَّکَ اَنْتَ کَثِیْرُ الْعَفْوِ. اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں اور کریم کیوں فرمایا؟ تاکہ اُمت کے گنہگار بندے بھی محروم نہ رہیں کیونکہ کریم کے معنی ہیں: اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِدُوْنِ الْاِسْتِحْقَاقِ وَالْمِنَّۃِ.کریم وہ ہے جو نالائقوں پر بھی فضل فرما دے اگرچہ استحقاق نہ بنتا ہو، تو کریم فرما کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے گنہگاروں کو مایوسی سے بچا لیا کہ تم مانگو، تمہارا پالا کریم مالک سے ہے جو بدونِ استحقاق اپنے نالائقوں کو بھی عطا فرماتا ہے۔ تُحِبُّ الْعَفْوَ کی شرح ہے کہ اَنْتَ تُحِبُّ ظُھُوْرَ صِفَۃِ الْعَفْوِ عَلٰی عِبَادِکَ. اپنے بندوں کو معاف کرنا یہ عمل آپ کو بہت محبوب ہے، فَاعْفُ عَنِّیْ. پس ہم کو معاف کردیجئے، اپنا محبوب عمل ہم گنہگاروں پر جاری فرما کر ہمارا بیڑا پار کر دیجئے۔
کعبہ شریف میں جا کر یہ دعا مانگنے کا بہترین موقع ہے کہ اے اللہ! ہم اپنے اپنے ملکوں سے آئے ہیں آپ کو کریم جان کر۔ ہر آدمی جب بادشاہ کے پاس جاتا ہے تو کوئی تحفہ لے کر جاتا ہے اپنے اپنے ملکوں سے ،آپ کے پاس ہم اپنے گناہوں پر ندامت اور توبہ و استغفار اور طلب معافی کی درخواست کا تحفہ لائے ہیں تاکہ آپ ہم کو معاف کر کے اپنی صفتِ عفو کا ہم پر ظہور فرما کر اپنا محبوب عمل ہم پر جاری فرما دیں، کیونکہ ہم نالائقوں کے پاس آپ کے لائق اس سے بہتر کوئی تحفہ نہیں مگر یہ تحفہ ہم نے آپ کے رسول سرورِ عالم سید الانبیاء صلی اﷲ علیہ وسلم سے سیکھا جن سے زیادہ آپ کا کوئی مزاج شناس نہیں۔ (فیوضِ ربانی، صفحہ ۸۲۔۸۳)
حدیث نمبر2:
وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ وَالْمُتَجَا لِسِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ
(مؤطا مالک،کتابُ الجامع،باب ماجآء فی المتحابین فی اﷲ)
ترجمہ: میری محبت ان لوگوں کے لیے واجب ہوجاتی ہے جو میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں اور میری محبت میں آپس میں مل بیٹھتے ہیں اور میرے لیے آپس میں ایک دوسرے کی زیارت کرتے ہیں اور میری وجہ سے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔
عارف باﷲ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا:
یہ اللہ والی محبت اتنی بڑی نعمت ہے کہ حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
: وَجَبَتْ مَحَبَّتِیْ لِلْمُتَحَابِّیْنَ فِیَّ.
جو لوگ میری وجہ سے آپس میں محبت کرتے ہیں، میری محبت ان کے لیے واجب ہو جاتی ہے، یعنی احساناََ اپنے ذمہ واجب کر لیتا ہوں۔ میں ان سے محبت کرنے لگتا ہوں، جس کی برکت سے وہ مجھ سے محبت کرنے لگتے ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ صرف قلبی محبت پر اکتفا نہ کرو جسم کو بھی اللہ والوں کے پاس لے جاؤ کیونکہ قلب چل نہیں سکتا، قالب کے ذریعہ جائے گا۔ لہٰذا فرمایا: وَالْمُتَجَا لِسِیْنَ فِیَّ. اپنے قلب کو قالب کی سواری پر لے جاؤ اور اللہ والوں کے پاس جا کر بیٹھو، اس کے بعدوَالْمُتَزَاوِرِیْنَ فِیَّ فرمایا اور ایک دوسرے کی زیارت کرتے رہو، وہیں نہ رہ جاؤ کہ بال بچوں کو اور ذریعۂ معاش و تجارت کو چھوڑ دو اور اس کے بعد وَالْمُتَبَاذِلِیْنَ فِیَّ ہے کہ یہ بندے ایک دوسرے پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ نہیں کہ جان لے لینا لیکن مال کی بات نہ کرنا۔ گر جاں طلبی مضایقہ نیست ور زر طلبی سخن درین ست۔ لہٰذا ایک دوسرے پر خرچ بھی کرو۔ صوفیاء کو اللہ نے یہ نعمت بھی عطا فرمائی ہے کہ ایک دوسرے پر خرچ بھی کرتے ہیں۔ (فیوضِ ربانی، ص:۱۰)