ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء: آخری قسط
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا
مولانا محمد عاطف معاویہ حفظہ اللہ
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا شمار فقہاء میں ہوتا ہے۔ قرآن سنت سے استنباط اور روز مرہ کے پیش آمدہ مسائل کا حل پیش کرنے میں کمال درجہ کی صلاحیت سے بہرہ ور تھیں۔ ان کے اجتہادات و استنباطات کا تذکرہ چل رہا ہے، اسی سلسلے کی کڑی درج ذیل مسائل بھی ہیں جو کہ پیش خدمت ہیں۔
عورت کا باجماعت نمازاداکرنے کے لئے مسجد آنا:
حضرت آدم علیہ السلام سے لیکر حضرت عیسی علیہ السلام تک جتنے انبیاء کرام علیہم السلام اس دنیا میں تشریف لائے ہرنبی کی شریعت میں فحاشی،عریانی اوربدکاری کوغلط سمجھاگیا۔ اسلام چونکہ ایک کامل و مکمل ضابطہ حیات ہے، اس لئے اسلام میں صرف جرائم ہی نہیں بلکہ جرائم کے اسباب وذرائع کوبھی حرام قراردیاگیا۔ اگرشرک حرام ہے توشرک کا سبب بننے والی تصویر بھی حرام۔ خود حدیث مبارک میں وارد ہے:
اَ لْحَلَالُ بَيِّنٌ وَالْحَرَامُ بَيِّنٌ وَبَيْنَهُمَا مُشَبَّهَاتٌ لَا يَعْلَمُهَا كَثِيرٌ مِنْ النَّاسِ فَمَنْ اتَّقَى الْمُشَبَّهَاتِ اسْتَبْرَأَ لِدِينِهِ وَعِرْضِهِ وَمَنْ وَقَعَ فِي الشُّبُهَاتِ كَرَاعٍ يَرْعَى حَوْلَ الْحِمَى يُوشِكُ أَنْ يُوَاقِعَهُ.
صحیح البخاری: باب فضل من استبرأ لدينہ
ترجمہ: حلال ظاہر ہے اور حرام (بھی ظاہر ہے) اور دونوں کے درمیان میں شبہ کی چیزیں ہیں کہ جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے، پس جو شخص شبہ کی چیزوں سے بچے اس نے اپنے دین اور اپنی آبرو کو بچالیا اور جو شخص شبہوں (کی چیزوں) میں مبتلا ہوجائے (اس کی مثال ایسی ہے) جیسے کہ جانور شاہی چراگاہ کے قریب چر رہا ہو جس کے متعلق اندیشہ ہوتا ہے کہ ایک دن اس کے اندر بھی داخل ہو جائے۔
یعنی اسلام میں حرام کے ساتھ ساتھ ان امورسے بچنا بھی ضروری ہے جوبعدمیں حرام کا مرتکب بنادیں۔ اسی وجہ سے شریعت مطہرہ نے جہاں زناء و بدکاری سے روکا ہے وہاں اس کے اسباب(بدنظری وغیرہ)سے بھی بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:
فَالْعَيْنَانِ زِنَاهُمَا النَّظَرُ، وَالأُذُنَانِ زِنَاهُمَا الاِسْتِمَاعُ، وَاللِّسَانُ زِنَاهُ الْكَلاَمُ، وَالْيَدُ زِنَاهَا الْبَطْشُ، وَالرِّجْلُ زِنَاهَا الْخُطَى.
صحیح مسلم: باب قدر على بن آدم حظہ من الزنا وغيره
ترجمہ: آنکھوں کا زنا دیکھنا ہے اور کانوں کا زنا سننا ہے اور زبان کا زنا گفتگو کرنا ہے اور ہاتھوں کا زنا پکڑنا ہے اور پاؤں کا زنا چلنا ہے۔
کسی غیرمحرم کودیکھنا اگرچہ زنانہیں مگرچونکہ یہ زنا کا سبب بن سکتا ہے اس لئے اس کو بھی زناکہاگیا۔اسی زنا کا دروازہ بند کرنے کے لئے پردہ کے احکام نازل ہوئےاورعورت کو بغیرضرورت کے باپردہ گھرسے نکلنے سے بھی روکاگیا، کیونکہ بغیرپردہ کے نکلنا بدکاری کاسبب قریب ہے اورباپردہ نکلنا سبب بعید۔شریعت میں سبب قریب (ترک پردہ) ہرحال میں حرام ہے اورسبب بعید(باپردہ نکلنے) میں تھوڑی سی تفصیل ہے کہ اگرمعاشرہ پاک صاف ہو، لوگ اچھے ہوں، برائی کاخطرہ نہ ہوتوباپردہ نکلنے کی گنجائش ہے اوراگرمعاشرہ گندگی سے آلودہ ہو، باپردہ نکلنے میں بھی فتنہ کا اندیشہ ہوتو پھر نکلناناجائزہے۔
حضورعلیہ السلام کے دورمیں باپردہ نکلنے میں فتنہ کا اندیشہ نہ ہونے کے برابر تھا اوراحکامات کی تعلیم کازمانہ تھا اس لئے چندشرائط کے ساتھ عورت کومسجدمیں آنے کی اجازت تھی۔ (مثلاپردہ کااہتمام، ترک خوشبو، ترک زینت، مردوں کے ساتھ اختلاط نہ ہو نا وغیرہ)
ان شرائط کی پابندی کے ساتھ ساتھ حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے عورت کے گھر کو بہترین مسجدقراردیا۔فرمان نبوی ہے: خَيْرُ مَسَاجِدِ النِّسَاءِ قَعْرُ بِيُوتِهِنَّ۔
صحیح ابن خزیمۃ: رقم الحدیث1683
آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کے بعدحالات تبدیل ہوئے، فتنہ کا اندیشہ بڑھا ،عورت کاباپردہ نکلنا بھی خطرہ سے خالی نہ تھا ،تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجتہادی نگاہ نے حالات کی تبدیلی کوبھانپ لیا اور اس کے متعلق یہ حکم فرمایا :
لَوْ أَدْرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِي إِسْرَائِيلَ قُلْتُ لِعَمْرَةَ أَوَمُنِعْنَ قَالَتْ نَعَمْ۔
صحیح البخاری: باب خروج النساء الی المساجد
ترجمہ: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان حالات کو دیکھ لیتے جو عورتوں نے پیدا کر رکھے ہیں، تو ضرور انہیں مسجد جانے سے منع کر دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کر دیا گیا تھا۔
سیدہ کے اس فرمان کو نقل کرکے علامہ عینی فرماتے ہیں :
لو شاهدت عائشة رضي الله تعالى عنهما ما أحدث نساء هذا الزمان من أنواع البدع والمنكرات لكانت أشد إنكارا
عمدۃ القاری للعینی : 4/649
ترجمہ: اگر امی عائشہ رضی اللہ عنہا ہمارے زمانہ کی عورتوں کے حالات دیکھتیں توانکار میں مزیدسختی آجاتی۔
قارئین کرام! اس حدیث مبارک سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی اجتہادی صلاحیت واضح ہوتی ہے، کیونکہ فقیہ احکام شرعیہ کے ساتھ ساتھ زمانہ اوراہل زمانہ کے حالات بھی دیکھتا ہے اوراسی کے مطابق مسائل بتاتا ہے۔ جس طرح حضور صلی اللہ علیہ و سلم کے مبارک زمانہ میں پورامہینہ باجماعت تراویح کا اہتمام نہ تھا، سیدنافاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے دور میں اس کا اہتمام کروایا، کیونکہ حالات بدل رہے تھے۔ بعینہ اسی طرح امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے زمانہ کی تبدیلی کےمطابق امت مسلمہ کوحکم ِشرعی سے آگاہ کیا۔
وفات :
رمضان المبارک 58ھ میں امت مسلمہ کی یہ عظیم محسنہ اپنے خالق حقیقی سے جاملیں۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ نماز وتر کے بعد سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا۔ حضرت عروہ،حضرت عبداللہ بن زبیر،حضرت قاسم بن محمد،حضرت عبداللہ بن محمداور حضرت عبداللہ بن عبدالرحمٰن نے قبر میں اتارا۔آپ کی وفات پر سارے مسلمان غمزدہ تھے۔
ایک آدمی سے کسی نے سوال کیا: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی وفات پہ لوگوں کی کیا حالت تھی؟ جواب دینے والے نے جواب دیا: جس جس کی وہ ماں تھی وہ سب غمزدہ تھے۔
الطبقات الکبریٰ لابن سعد ج8ص61،62