فضائل اعمال اور اعتراضات کا علمی جائزہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط نمبر:2
فضائل اعمال اور اعتراضات کا علمی جائزہ
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
چند اصولی باتیں:
1: ان رسائل ﴿فضائل اعمال ﴾کولکھنے کا مقصد لوگوں میں دینی شعور پیدا کرنا اور لوگوں کو یقین وعمل والی زندگی کا راستہ دکھلانا تھا۔
2: حضرت شیخ الحدیث رحمۃ اللہ علیہ نے عوام الناس کو سامنے رکھ کر یہ رسائل لکھے ہیں۔
3: ان کتبِ فضائل میں اسلامی احکامات ، عقائد،حلال وحرام سے بحث کا ارادہ نہیں کیا گیا بلکہ اللہ تعالیٰ کا خوف ،جنت کا شوق، قبرو آخرت کی ہولناکی، نیک کاموں پراجروانعام اوربرے کاموں پراللہ تعالیٰ کا عذاب، سابقہ اقوام کے سبق آمیز اورعبرت ناک واقعات،صحابہ،صحابیات اوراولیاءامت کے قابل تقلید اور قابل رشک عملی زندگی کے پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے جن کو پڑھ کر دل میں عبادت کاولولہ اور عمل کا شوق بڑھتا ہے۔
4: چونکہ حضرت الشیخ رحمہ اللہ نے عوام الناس کو سامنے رکھ کر یہ رسائل لکھے ہیں اس لیے حدیث کی اصطلاحات جو کہ صرف علماء کرام کے جاننے کی چیز ہے، کو ذکر نہیں کیا گیا اور نہ ہی عوام الناس میں اس کا تذکرہ فائدہ مند تھا۔
5: شیخ الحدیث رحمہ اللہ جب بھی کسی چیز کا بیان شروع کرتے ہیں تو سب سے پہلے آیاتِ قرآنیہ ذکر فرماکر اس کے ذیل میں فائدے کے عنوان سے اس کی معتبر تفسیر ذکر فرماتے ہیں۔
6: اس کے بعد اس بات سے متعلق احادیث صحیحہ کا انتخاب فر ماتے ہیں۔ ہاں اگرصحیح احادیث اس بارے میں نہ مل رہی ہوں تو دیگر جلیل القدر محدثین کے اسلوب کے مطابق ضعیف احادیث لے آتے ہیں۔
7: حضرت الشیخ رحمہ اللہ چونکہ بر صغیر کے جلیل القد ر، راسخ العلم اور نامور عالم دین تھے اور علم حدیث و علم اصول حدیث سے بھی آشنا ﴿واقف﴾ تھے، اس لیے جب بھی ضعیف حدیث ذکر کرتے ہیں تو اکثر مقامات پر اس حدیث کے دیگر مؤیدات اور متابعات یعنی ملتی جلتی چند اور بھی احادیث ذکر کرتے ہیں تاکہ حدیث کے ضعف میں کمی آئے اور وہ” حسن “ درجہ کو پہنچ جائے۔
8: شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ کا اپنے ان تمام رسائلِ ”فضائل اعمال“ میں یہ طریقہ رہا ہے کہ اگر کوئی ایسی حدیث آجائے جس پر محدثین کا آپس میں دلائل کی بنیاد پر کچھ اختلاف ہو تو مصنف حدیث کے صحیح ہونے کو تر جیح دے کر ذکر فر ماتے ہیں۔
9: شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں اسناد اور رجال پر بحث ذکر نہیں کی کیونکہ یہ کتاب عوام الناس کی رعایت رکھ کرتالیف کی گئی تھی اور عوام جن کو وضو اور طہارت کے بنیادی مسائل سے بھی آگاہی نہیں ہوتی، ان کو علمِ اصولِ حدیث کی بحثوں میں الجھانا فائدہ مند نہیں۔
10: شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا رحمہ اللہ نے اپنی کتاب میں انبیاء کرام علیہم السلام اور ان کے معجزات ، صحابہ و صحابیات،تابعین ،اولیاءاللہ اور مشائخ صوفیاء کی حکایات و واقعات اوران کی کرامات بھی ذکر کی ہیں۔اس لیے معجزہ اور کرامت کو سمجھ لینااور اس کے بعد ان کی شرعی حیثیت کاجاننا بھی ضروری ہے۔ اس لیے بنیادی طور پر دو باتوں کو سمجھ لینا چاہیے:
1. معجزہ کسے کہتے ہیں ؟
2. معجزے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
معجزہ کسے کہتے ہیں ؟
علامہ علی بن محمد بن علی الجرجانی فرماتے ہیں۔
اَمْرٌخَارِقٌ لِّلْعَادَۃِ مِنْ قِبَلِ شَخْصٍ مُقَارِنٍ لِّدَعْوَی النُّبُوَّۃِ۔
(کتاب التعریفات ص129، وکذا فی النبراس)
ترجمہ: وہ خلاف عادت کام جوایسے شخص سے ظاہر ہوجودعویٔ نبوت کرتاہو‘اسے معجزہ کہتے ہیں۔
علامہ نسفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ۔
المعجزہ ھی امر یظاھر بخلاف العادۃ علیٰ ید مدعی النبوۃ عند تحدی المنکرین علیٰ وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ
(شرح العقائد للنسفی:ص146)
ترجمہ :یعنی معجزہ وہ امر ہے جو خلاف معمول اور عادت جاریہ کے خلاف ایسے شخص کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو اپنے دعویٰ نبوت میں سچا ہواور ایسے وقت میں ظاہر ہو کہ جب وہ منکرین کو اس کی مثل لانے کا چیلنج دے اور وہ نہ لاسکیں یعنی اس سے عاجز آجائیں۔
چند معجزات؛ آیاتِ قرانیہ کی روشنی میں
حضرت صالح علیہ السلام کا معجزہ :
وَیٰقَوْمِ ہٰذِہٖ نَاقَۃُ اللّٰہِ لَکُمْ آیَۃً۔
(سورۃ ھود:64)
ترجمہ: اے قوم ! یہ اونٹنی ہے اللہ کی تمہارے لیے نشانی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا معجزہ:
قُلْنَا يَا نَارُ كُونِي بَرْدًا وَسَلَامًا عَلَى إِبْرَاهِيمَ۔
(سورۃ الانبیاء:69)
ترجمہ :ہم نے کہا: اے آگ ابراہیم پر ٹھنڈی ہوجا اور سلامتی والی بن جا۔
حضرت داؤد علیہ السلام کا معجزہ:
يَا جِبَالُ أَوِّبِي مَعَهُ وَالطَّيْرَ وَأَلَنَّا لَهُ الْحَدِيدَ۔
(سورۃ سبا:10)
ترجمہ : ”اےپہاڑو! تم بھی تسبیح میں ان کے ہم آواز بن جاؤ اور اے پرندو! تم بھی۔“ اور ہم نے ان کے لیے لوہے کو بھی نرم کر دیا تھا۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ:
یَآاَیُّھَاالنَّاسُ عُلِّمْنَامَنْطِقَ الطَّیْرِ۔
(سورۃ النمل:16)
ترجمہ:اے لوگو ! ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی ہے۔
حضرت سلیمان علیہ السلام کا معجزہ:
فَسَخَّرْنَا لَهُ الرِّيحَ۔
(سورۃ ص: 36)
ترجمہ: ہم نے اس کے لیے (یعنی سلیمان علیہ السلام کے لیے) ہوا کو تابع کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ :
فَاَلْقٰھَافَاِذَاھِیَ حَیَّۃٌ تَسْعٰی۔
(طہٰ:20)
ترجمہ:تواس (عصا)کوڈال دیاتووہ اسی وقت سانپ بن کردوڑپڑا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام کا معجزہ:
وَاضْمُمْ یَدَکَ اِلٰی جَنَاحِکَ تَخْرُجُ بَیْضَآئً ِّمنْ غَیْرِسُوْئٍ آیَۃً اُخْرَیٰ۔
(طہ:۲۲)
ترجمہ:اورملالے اپناہاتھ اپنی بغل سے کہ نکلے سفید ہوکربلاعیب‘ نشانی ہے دوسری۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے مختلف معجزات:
اِنِّیْ اَخْلُقُ لَکُمْ مِّنَ الطِّیْنِ کَھَیْئَۃِ الطَّیْرِفَاَنْفُخُ فِیْہِ فَیَکُوْنُ طَیْرًابِاِذْنِ اللّٰہِ وَ اُبْرِیئُ الْاَکْمَہَ وَالْاَبْرَصَ وَاُحْیِ الْمَوْتٰی بِاِذْنِ اللّٰہِ۔
(اٰل عمران:۴۹)
ترجمہ: میں بنادیتاہوں تم کوگارے سے پرندے کی شکل پھراس میں پھو نک مارتاہوں تووہ اڑتاہواجانوربن جاتاہے اللہ کے حکم سے ‘اوراچھاکرتاہوں مادرزاد اندھے کو اور کوڑھی کو اور جلاتاہوں مردے کواللہ کے حکم سے۔
اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بے شمار معجزات آیات ِقرآنیہ سے ثابت ہیں، ان میں سب سے بڑا معجزہ۔۔۔ زندہ معجزہ۔۔۔قرآن کریم ہے، جس کی مثل لانے سے دنیا آج تک عاجز ہے اور ان شاء اللہ رہے گی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
وَاِنْ کُنْتُمْ فِیْ رَیْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا فَاْتُوْا بِسُوْرَۃٍ مِّنْ مِّثْلِہٖ وَادْعُوْا شُھَدَآئَ کُمْ مِّن دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ۔
(سورۃ البقرہ:24)
ترجمہ:اگر تمہیں اس قرآن میں جوہم نے اپنے بندے پرنازل کیا‘شک ہے تواس جیسی ایک چھوٹی سی سورت بناکرلاؤاوراپنے مددگاروں کوبلالواللہ کے علاوہ ‘اگرتم سچے ہو۔
معجزے کی شرعی حیثیت :
معجزات پر ایمان لانا ضروری ہے خاص طور پر جو معجزات دلائل قطعیہ سے ثابت ہیں ان کا انکار (نہ ماننا) کفر ہے اور جو معجزات دلائل قطعیہ سے ثابت نہیں ان کا انکار کرنا گمراہی وضلالت ہے۔
(کشف الاسرار شرح اصول بزدوی ج 3 ص 694)
جاری ہے