کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
جدید مسائل:
………مفتی رئیس احمد
کریڈٹ کارڈ کا شرعی حکم(3)
اس کا خلاصہ یہ ہے کہ اس کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ کریڈٹ کارڈ استعمال کرنے والے کا ہے یعنی جو کریڈٹ کارڈ لیتا ہے اور بازار میں جا کر اس سے خریداری کرتا ہے اور بعد میں بل ادا کرتا ہے اس میں اگر اس بات کا پورا اطمینان کر لیا جائے کہ بل کی ادئیگی تیس دن سے پہلے پہلے ہو جائے تاکہ اس پر سود نہ لگے ، تو اس میں کوئی خرابی نہیں یہ جائز ہے۔
بالخصوص بہتر اور محتاط طریقہ یہ ہے کہ پہلے سے بینک کے پاس کچھ رقم رکھوا دیں تاکہ جب بل آئے تو وہ خود بخود آپ کے اکائونٹ سے وصول کر لیں اور اس بات کا خدشہ ہی نہ رہے کہ تیس دن گزر جائیں ، ادائیگی نہ اور سود لگ جائے اگر اس طرح کر لیا جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔
بعض لوگ کہتے ہیں کہ سالانہ فیس سود ہے لیکن یہ سود نہیں ہے بلکہ در حقیقت اس نے جو کارڈ آپ کو ایشو کیا ہےاس کی اپنی بھی کچھ قیمت ہوتی ہے۔

پھر اس کو بھیجنے کی

پھر ہر مہینہ حساب و کتاب رکھنے کی

ہر مہینہ آپ کو بل بھیجنے کی

اور آپ کے تاجر سے رابطہ رکھنے کی یہ ساری اجرتیں ہیں اور یہ اجر مثل ہے سالانہ فیس سود کے زمرے میں نہیں آتی۔
یا یہ کہ وہ جو پیسے دینے والی مشین لگی ہوئی ہے وہ لگانا بھی آسان کام نہیں جگہ جگہ وہ مشین نصب کرنے پر بھی بھاری اخراجات آتے ہیں ان اخراجات کو ان معمولی فیس کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے اور اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
یہی وجہ ہے کہ وہ فیس نکالی جانے والی رقم کے تناسب سے گھٹتی بڑھتی نہیں ہے ایک متعین چیز ہوتی ہے جو ادا کردی اسی طرح یہاں 75 ڈالر ہیں اگر آپ سال میں ایک لاکھ کی خریداری کریں تب بھی 75 ڈالر ہے اور دس ڈالر کی خریداری کریں تب بھی 75 ڈالر ہیں تو اس کا خریداری کی قیمت سے کوئی رابطہ ہی نہیں ہوتا۔ جب اس کا اس سے تعلق ہی نہیں ہےتو لہذا وہ جائز ہیں۔
عام طور سے تاجر کا مسئلہ تردد کا ہوتا ہے کہ تاجر سے جو کمیشن لیا جاتا ہے جو کریڈٹ کارڈ کااصل آمدنی کا ذریعہ ہے اس کے بارے میں شبہ ہوتا ہے کہ ایسا تو نہیں کہ بل آف ایکسیچنج کو ڈسکاؤنٹ کریں۔
تو اس کی فقہی تخریج یہ ہے کہ اس کے ذریعے تاجر کو اچھے اچھے گاہک فراہم کیے جاتے ہیں اگر اس کے پاس یہ سہولت نہ ہوتو لوگ اس کے پاس خریداری کے لیے نہیں آئیں گے۔
تو اس کو بہتر سے بہتر گاہک فراہم کرنے کی سہولت دی جارہی ہے یہ بعینہ سمسرۃ تو نہیں ہے لیکن سمسرۃ کے مشابہ ہے لہٰذا ا س کی اجرت کو سود نہیں کہا جاتا۔
اس کی تخریج میری نظر میں یہ ہے کہ یہ سمسرۃ کے مشابہ عمل کی اجرت ہے کہ وہ اس کے پاس اچھے گاہک لے کر آتا ہے۔ نیز تاجر کے لیے کچھ دوسری خدمات بھی فراہم کرتا ہے مثلاً مشین وغیرہ۔
اس لیے اس کی بھی گنجائش معلوم ہوتی ہے البتہ تاخیر کی صورت میں جو زیادہ رقم وصول کی جاتی ہے اس کے جواز کا کوئی راستہ نہیں ہے۔