مسلمان اتنا ”سادہ “ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مسلمان اتنا ”سادہ “ہے ؟
متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن
ہرگزرتی سانس کے ساتھ حیات مستعار کٹتی چلی جا رہی ہے وقت کم سے کم ہوتا جا رہا ہے اور ہم ہیں کہ ہنوز اس سے غافل۔ ہمیں اپنے احوال پر غور کرنا ہوگا۔ ماضی پرفخر کم اور حال و مستقبل کی فکر زیادہ کرنی ہوگی ، ہماری لاپرواہی میں بیتی زندگی کی ساعتیں ہم سے شکوہ کناں بھی ہیں اور ہمیں دعوت فکر بھی دی رہی ہیں کہ باقی ماندہ وقت کو غنیمت جانو ، جو ہوچکا اس پر توبہ و استغفار اور آئندہ کے لیے محتاط زندگی اختیار کرو۔ ہماری ذاتی زندگی سے لے کر گھریلو زندگی تک اور گھریلو زندگی سے لے کر ہر شخص کی اجتماعی زندگی تک خالق دو جہاں کے احکام اور محبوب دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات دھیرے دھیرے نہیں بلکہ بڑی تیزی سے مٹتے جا رہے ہیں۔
شیطان مردود خوش اور رحمان و رحیم ناراض ہیں، یہ ہمارے حالات میں فساد اور بگاڑ میں وہ پوشیدہ امر ہے جسے ہم جان بوجھ کر سوچنا ہی نہیں چاہتے اس کو کبھی حکومت کے سرمنڈھتے ہیں اور کبھی فلاں طبقے پر اور کبھی فلاں طبقے پر۔
اگر ہم خلاق لم یزل کے احکامات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق صدق دل سے عمل پیرا ہوجائیں۔ تو یادرکھیے غلامی کی دبیز چادر چاک ہوگی مسلمان اپنی نئی آن نئی شان سے نظر آئے گا۔ پھر مسلمان؛ تقسیم شدہ حدود میں محدود نہیں رہے گا بلکہ بقول اقبال مرحوم
چین و عرب ہمارا ، ہندوستاں

ہمارا

مسلم ہیں ہم ، وطن ہے سارا

جہاں ہمارا

لیکن اس )ذہنی (غلامی سے نکلنے کے لیے ضروری ہوگا کہ ہم پختہ ارادہ کریں کہ غیروں کے کلچر ، ان کی تہذیب وتمدن ، ان کے طور طریقے اور ان کی مشابہت چھوڑ کر اسلام کی روشنی سے مستفید ہوں۔
محض باتوں باتوں سے کام نہیں بنتے بلکہ اس کی عملی مشق کرنا ہوگی ، آج کا مسلمان تھیوری(Theory)زیادہ پیش کرتا ہے اورپریکٹیکل (Practical) کم۔ ہروقت یہود و نصاریٰ کی مذمت زیادہ کرتا ہے انہیں اسلام ، پیغمبر اسلام اور اہل اسلام کا دشمن گردانتا ہے لیکن ان کے طرزِ زندگی کو عملاً چھوڑتا بھی نہیں ، غیروں کے خود ساختہ قوانین کو معاشرے پر ظلم بھی سمجھتا ہے لیکن عملاً اسلامی قانون کے نفاذ کے لیے کوشش بھی نہیں کرتا۔ غیروں کے بے ہودہ کلچر کو نقصان دہ بھی سمجھتا ہے لیکن عملاً اپنے کلچر کو بھی انہیں کے رنگ میں رنگ رہا ہے ، غیروں کے مادر پدر آزاد بود وباش کو معاشرے کی بربادی کا ذمہ بھی قرار دیتا ہے لیکن عملاً اسی بود وباش کو اپنے لیے باعث عزت اور فخر بھی سمجھتا ہے۔
اس سے ذرا آگے آئیں خود کو” سنی“ بھی کہتا ہے لیکن عملاً ایسی ایسی بدعات کا مرتکب ہو رہا ہے کہ الاماں الاماں۔ خصوصاً پاکستان کے باسیوں کو اچھی طرح یاد ہوگا کہ ربیع الاول کےابتدائی 12 دن محرم الحرام کےابتدائی 10 دنوں سے جیسے تعداد میں زیادہ تھے اس طرح خرافات میں بھی کم نہ تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ”جشنِ میلاد“ کی آڑ میں کون سا وہ لچر اور فضول کام ہے جو نام نہاد ” سنی قوم “ نے نہ کیا ہو ؟ ہماری بات کو طنز نہ سمجھا جائے بلکہ سنجیدہ طبقہ اس پر غیر جانب دار ہو کر اپنے ضمیر کی آواز کو سمجھے۔اس سارے پس منظر میں آپ کو کیا لگتا ہے کہ جان بوجھ کر حقائق سے نظریں چرائی جا رہی ہیں۔ یا واقعی مسلمان اتنا ”سادہ “ہے ؟