تقلیدکے چودہ سو سال

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تقلیدکے چودہ سو سال

مولانا عبدالرحمن سندھی
تقلید ایک فطری چیز ہے ، دنیا کے جملہ انتظامی امور اس اعتماد پر چلتے ہیں، سب لوگ ہر ایک فن میں اس کی مہارت حاصل کریں، یہ ناممکن ہے۔ نہ سارے ڈاکٹر بن سکتے ہیں، نہ انجینیر، نہ تاجر ،نہ بیرسٹر۔ اسی طرح دین کا پورا علم اور کتاب وسنت کا پورا احاطہ ہرمسلمان کو میسر ہو، یہ بات نا ممکن ہے۔ اس لیے اللہ رب العزت نے اس پیش آنے والی مشکل کو ایک اصول کے ذریعے حل کرنے کی تعلیم دی ہے، ارشاد فرمایا
فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ۔
)سورۃالنحل:آیت43(
ترجمہ: تم اہل ذکر سے پوچھ لیاکرو اگر تم جانتے نہیں۔
پہلے دور میں خیر ہی خیر تھی ، ہرطرف خیر غالب تھی،دین پر رضا الہٰی کے لیے عمل پیرا ہوتے تھے اور حسبِ ضرورت اہل علم سے پوچھ کر عمل کر لیتے تھے لیکن بعد میں ایسے لوگ بھی آئے جو اپنی خواہش، تسکینِ نفس اور اپنی سہولت کی راہ تلاش کرنے لگے تو اس سے پوری دینی زندگی میں بگاڑ کا زبردست خطرہ تھا، اس لیے اس نازک موڑ پر علمائے حق آگے بڑھے اور انہوں نے اختلاف اور گمراہی سے بچانے کے لیے ایسے کام[تقلید] کی حمایت کی جس سے خواہش پرستی کو روکا جا سکتا ہے۔
یہ بات تو بالکل بجا ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک مشکل بھی پیش آئی وہ یہ کہ چونکہ فروعی مسائل میں مجتہدین کا دلائل کی بنیاد پر اختلاف ہوتا ہے ایک مجتہد کسی مسئلہ میں یہ فتویٰ دیتا ہے کہ فلاں کام جائز ہے اس کی گنجائش موجود ہے۔ جبکہ دوسرے مجتہد کا اجتہاد اس طرف ہوتا ہے کہ یہ کام ناجائز ہے۔ اس کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ عام آدمی اس موقع پر دونوں مجتہدین کی بات پر بیک وقت عمل نہیں کر سکتا۔ پھر کیا کیا جائے ؟ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ کسی ایک معین مجتہد کی پیروی کی جائے ورنہ شریعت پر عمل مشکل ہوجاتا ہے۔ انسانی فطرت ہے کہ وہ تن آسانی تلاش کرتا ہے ، اگر کسی ایک امام کی بات نہ مانی جائے تو وہ ایسے مجتہد کے قول لینے کی طرف جائے گا جس میں اسے اپنی تن آسانی نظر آئے اور یہ چیز ”تن آسانی“ کہلائے گی ، دین کی اتباع نہیں کہلائے گی۔ اس نقطہ نظر سے” تقلید شخصی“ضروری سمجھی جانے لگی، چوتھی صدی میں تقلیدشخصی پر اجماع ہوگیا اور صرف مذاہب اربعہ باقی رہے تو ان کی پیروی سوادِ اعظم کی پیروی شمار ہوتی تھی اور تقلید سے نکلنا سوادِ اعظم سے نکلنا شمار ہوتاتھا۔ آپ کے سامنے صدی وار حوالے پیش کرتے ہیں جن سے پتہ چلتاہے کہ تقلید شخصی ضروری ہے اور اس سے نکلنا گمراہی ہے۔
تقلید ………پہلی صدی میں :
حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
ان اہل المدینۃ سالوا ابن عباس رضی اللہ عنہما عن امراۃ طافت ثم حاضت ؟ قال لھم تنفر قالوا لا ناخذ بقولک و ندع قول زید۔
) صحیح البخاری ج 1 ص 237(
ترجمہ : مدینہ منورہ کے باسیوں نے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایسی عورت کے بارے میں سوال کیا جسے طواف)وداع ( کرتے ہوئے حیض آگیا ؟ انہوں نے کہا کہ بس وہ چلی جائے۔ اہل مدینہ کہنے لگے کہ ہم آپ کے اس فرمان کی وجہ سے حضرت زید ) بن ثابت رضی اللہ عنہ (کی بات کو نہیں چھوڑ سکتے۔
تقلید ……… دوسری صدی میں :
امام ابویوسف رحمہ اللہ )المتوفیٰ 179ھ(فرماتے ہیں:
علی العامی الاقتداء بالفقہاء لعدم الاھتداء فی حقہ الی معرفۃ الاحادیث
) الکفایہ شرح ہدایہ کتاب الصوم (
ترجمہ : عام آدمی پر فقہاء کی اقتداء )تقلید ( واجب ہے اس لیے کہ وہ احادیث کی چھان پھٹک کی صلاحیت نہیں رکھتا۔
تقلید ……… تیسری صدی میں :
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ [م241ھ]کے بارے میں منقول ہے:
ويأمر العامي بأن يستفتى إسحاق وأبا عبيد وأبا ثور وأبا مصعب وينهى العلماء من أصحابه كأبى داود وعثمان بن سعيد وإبراهيم الحربي وأبى بكر الأثرم وأبي زرعة وأبى حاتم السجستاني ومسلم وغيرهم أن يقلدوا أحدا من العلماء ويقول عليكم بالأصل بالكتاب والسنة۔
[الفتاوى الكبرى لابن تیمیۃ: ج5 ص98، كتاب مسائل منثورة،رقم المسئلۃ:20]
ترجمہ : امام احمد رحمہ اللہ عام لوگوں کو امام اسحاق امام ابوعبید امام ابوثور اور امام ابو مصعب رحمہم اللہ سے مسائل دریافت کرنے کا حکم دیتے تھے اور اپنے اصحاب میں سے جو علماء تھے مثلا امام ابوداود،عثمان بن سعید،ابراہیم الحربی ،ابوبکر الاثرم، ابوزرعہ، ابوحاتم سجستانی اور امام مسلم رحمہم اللہ وغیرہ ان کو کسی کی تقلید کرنے سے روکتے تھے اور ان سے فرماتے تھے کہ تم پر اصل کتاب وسنت کی طرف رجوع کرنا واجب ہے۔
فائدہ: امام رحمہ اللہ کے قول میں جہاں عام آدمی کے لیے تقلید کا وجوب ثابت ہو رہا ہے وہاں ان لوگوں کا یہ شبہ بھی زائل ہوجاتاہے جو کہتے ہیں کہ ائمہ اربعہ نے اپنی تقلید سے تو روکا ہے پھر ان کی تقلید کیوں؟جواب واضح ہے کہ جن مجتہدین نے تقلید سے منع کیا ہے تو انہوں نے اپنے شاگردوں اوراجتہاد کی صلاحیت سے بہرہ ور ، احادیث وفقہ کے ماہر افراد ہوں ،رہے عام لوگ تو ان پر تو یہ خود تقلید واجب فرما رہے ہیں،پھر ان کا قول لے کر عدم وجوب تقلید پر دلیل پکڑنا حیرت کا موجب ہے۔
تقلید ……… چوتھی صدی میں :
امام ابوبکر جصاص رحمہ اللہ )المتوفیٰ 370ھ(فرماتے ہیں :
وفی ھذہ الآیۃ دلالۃ علی وجوب القول بالقیاس واجتہاد الرائی فی احکام الحوادث …ومنہا ان العامی علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث
. )احکام القرآن للجصاص ج 2 ص 305(
ترجمہ : یہ آیت اس بات پر دلالت کر رہی ہے کہ نئے پیش آمدہ مسائل میں قیاس اور اجتہاد پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور اسی آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پیش آمدہ مسائل میں غیر مجتہد پر مجتہد کی تقلید واجب ہے۔
تقلید ………پانچویں صدی میں :
خطیب بغدادی رحمہ اللہ) المتوفی 463ھ (لکھتے ہیں:
لومنعنا التقلید فی ہذہ المسائل التی ہی من فروع الدین لاحتاج کل احد ان یتعلم ذالک وفی ایجاب ذالک قطع عن المعایش وہلاک الحرث والماشیۃ فوجب ان یسقط۔
) الفقیہ والمتفقہ ج 2 ص 62(
اگر ہم ان فروعی مسائل میں عوام کو تقلید سے روکیں تو پھر ہر کسی پر پورے دین کی تعلیم ضروری ہوجائےگی اسےہر کسی کے لیے ضروری ٹھہرانے میں دیگر امور معاش ،کھیتی باڑی اور مال مواشی سب برباد ہوجائیں گے۔[یعنی لوگوں کو تقلید کے اس فطری حق سے محروم کرنے میں پوری دنیا کے انتظامی امور میں خلل واقع ہوگا۔]
تقلید ……… چھٹی صدی میں :
امام غزالی رحمہ اللہ) المتوفی 505ھ (لکھتے ہیں:
وانما حق العوام ان یو منوا ویسلموا ویشتغلوا بعبادتہم ومعایشہم ویترکوا العلم للعلماء۔
)احیاء علوم الدین ج 3 ص 35(
ترجمہ: دین کی بات عوام کے ذمہ صرف یہ ہے کہ ایمان لائیں ،اسلام قبول کریں، عبادات میں مشغول رہیں اور اپنے اپنے کارو بار میں لگے رہیں علم اور تحقیق کے مسائل علما کے لیے چھوڑیں۔
عوام اگر مسائل کی تحقیق میں پڑیں اور فیصلہ خود کرنے لگیں اس کے لیے امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
وقع فی الکفر من حیث لایدری کمن یرکب لجۃ البحر وہو لایعرف السیاحۃ۔
) احیاء علوم الدین ج 3 ص 35(
ترجمہ: وہ کفر کے خطرہ میں ہے اس طرح کہ وہ جانتانہیں، یہ ایسے ہے جیسے کوئی شخص جو تیراکی نہ جانتا ہو اور دریا کے بھنور میں کود پڑے۔
تقلید ………ساتویں صدی میں :
حضرت امام رازی رحمہ اللہ) المتوفی 606ھ (فرماتے ہیں:
ان العامی یجب علیہ تقلید العلماء فی احکام الحوادث۔
)تفسیر کبیر ج 3 ص 372(
ترجمہ: عام آدمی پر روز مرہ پیش آنے والے مسائل میں علماء کی تقلید واجب ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ) المتوفی 676ھ (فرماتے ہیں:
لوجاز اتباع ای مذہب شاء لافضی الی ان یلتقط رخص المذاہب متبعا ہواہ۔۔۔۔۔ فعلی ہذا یلزمہ ان یجتہد فی اختیار مذہب یقلدہ علی التعین۔
)المجموع شرح المہذب ج 1 ص 91(
ترجمہ: اگر یہ جائز ہو کہ انسان جس فقہ کی چاہے پیروی کرے تو بات یہاں تک پہنچے گی کہ وہ اپنی نفسانی خواہش کے مطابق تمام مذاہب کی آسانیاں چنےگا۔ اس لیے ہرشخص پرلازم ہے کہ ایک معین مذہب چن لے اور اس کی تقلیدکرے۔
تقلید ………آٹھویں صدی میں :
امام ابن تیمیہ الحرانی رحمہ اللہ )المتوفی 728ھ (لکھتے ہیں
یکونون فی وقت یقلدون من یفسدہ وفی وقت یقلدون من یصححہ بحسب الغرض والہویٰ ومثل لایجوز باتفاق الائمۃ۔
) فتاویٰ کبری ج 2 ص 285(
ترجمہ: لوگ غرض وخواہش کی خاطر کسی وقت ایک امام کی تقلید کریں جو ایک عمل کو فاسد قرار دیتاہو اور کسی وقت دوسرے امام کی تقلید کریں جو اسے صحیح قرار دیتاہو یہ باتفاق ائمہ جائز نہیں۔
تقلید ………نویں صدی میں :
علامہ ابن خلدون رحمہ اللہ )المتوفی 808 ھ (لکھتے ہیں:
ولما عاق عن الوصول الی رتبۃ الاجتہاد ولما خشی من اسناد ذالک الی غیر اہلہ ومن لایوثق برایہ ولابدینہ فصرحوا بالعجز والاعراز وردوا الناس الی تقلید ہولاء کل من اختص بہ من المقلدین وحظروا ان یتداول تقلید ہم لما فیہ من التلاعب ولم یبق الا نقل مذاہبہم۔
)مقدمہ ابن خلدون باب 6 فصل 7 ص 448 مصر(
ترجمہ: جب مرتبہ اجتہاد تک پہنچنا رک گیا اور اس کا بھی خطرہ تھا کہ اجتہاد نا اہلوں اور ان لوگوں کے قبضہ میں چلاجائےگا جن کی رائے اور دین پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا بڑے بڑے علماء نے اجتہاد سے عجز اور درماندگی کا اعلان کردیا اور لوگوں کو ان چاروں ائمہ کی تقلید پر لگادیا ہر شخص جس کی وہ تقلیدکرتاہے اس کے ساتھ رہے۔
اور لوگوں کو اس سے خبردار کیا کہ وہ ائمہ کی تقلید بدل بدل کر نہ کریں یہ تو دین سے کھیلنا ہوجائے گا اس کے سواکوئی صورت ہی نہیں کہ انہی ائمہ اربعہ کے مذاہب آگے نقل کیے جائیں۔
علامہ ابن الہمام الاسکندری رحمہ اللہ ) المتوفی 861ھ (فرماتے ہیں:
ان مثل ہذہ الالتزامات لکف الناس عن تتبع الرخص۔
)فتح القدیر ج 1 ص 211(
ترجمہ: اس قسم کے التزامات {کہ انسان ایک مذہب کی پیروی کریں} اس لیے نہیں کہ لوگ مختلف مذاہب سے {خواہش نفس کے مطابق} آسانیاں تلاش کرنے سے باز رہیں۔
تقلید ……… دسویں صدی میں :
علامہ ابن نجیم حنفی رحمہ اللہ (المتوفیٰ970ھ) فرماتے ہیں:
أَخَذَ الْعَامِّيُّ في كل مَسْأَلَةٍ بِقَوْلِ مُجْتَهِدٍ
(البحر الرائق: ج6 ص290)
ترجمہ: عام آدمی ہر مسئلہ میں اپنے مجتہد کے قول پر عمل کرے گا۔
تقلید ………گیارہویں صدی میں :
شارح بخاری علامہ علاؤالدین )المتوفی 1088ھ( صاحب درالمختار لکھتے ہیں:
ان الحکم والفتیا بالقول المرجوح جہل وخرق للاجماع وان الحکم الملفق باطل بالاجماع۔
)درمختار بحاشیہ شامی ج 1 ص 69(
ترجمہ: فقہاء میں سے کسی قول مرجوح کو لینا اور اس پر قضاء اور فتوی دینا ایک جہالت اور اجماع امت کی مخالفت کے سوا کچھ نہیں کبھی ایک امام کی بات لینا اور کبھی دوسرے کی یہ تلفیق کاانداز بالاجماع باطل ہے۔
بارہویں صدی اور تقلید:
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ)المتوفی 1176ھ( لکھتے ہیں:
وجب علیہ ان یقلد لمذہب ابی حنیفۃ ویحرم علیہ ان یخرج من مذہبہ۔
)الانصاف ص 53(
ترجمہ: ہندوستان اور ماوراء النہر میں رہنے والوں کے لیے} واجب ہے کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کریں اور ان پر حرام ہے کہ آپ کے مذہب کی پروی سے نکلیں۔
تقلید ………تیرہویں صدی میں :
علامہ عبدالعزیز فرہاروی رحمہ اللہ [1239] فرماتے ہیں :
ثم من لم یکن مجتہدا وجب علیہ اتباع المجتہد لقولہ تعالیٰ:Ī فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَĨ و لاجماع السلف علی ذلک وھذا الاتباع یسمیّٰ تقلیدا۔
(نبراس شرح شرح العقائدص72 )
ترجمہ: جو مجتہد نہیں ہے اس پر مجتہد کی اتباع کرنا واجب ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: اہل ِ ذکر سے پوچھ لو اگر تم لوگ خود نہیں جانتے۔ نیز اس لیے بھی واجب ہے کہ اس پر سلف صالحین کا اجماع ہے اور اسی اتباع کا نا م”تقلید“ ہے۔
تقلید ………چودہویں صدی میں :
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ )المتوفیٰ 1362 ھ( رقم طراز ہیں :
اس وقت ائمہ اربعہ کے مذاہب ہی میں تقلید منحصر ہے اور تقلید شخصی واجب ہے اور تلفیق [ خواہشات نفس کی وجہ سے کبھی کسی امام کے قول کو لینا اور کبھی کسی امام کے قول کو لینا ] باطل ہے۔
) ہدیہ اھل حدیث ص 26(
چودہ صدیوں کی شہادت ہم نے آپ کے سامنے رکھ دی ہے یہ پوری امت کی متفقہ آواز ہے۔ حنفی ہوں یا شافعی، مالکی ہوں یا حنبلی ان کے سرکردہ علماء نے چوتھی صدی سے لے کر چودھویں صدی تک ائمہ کی تقلید شخصی کو تحفظ دین کی واحد صورت قرار دیا اور اس سے نکلنے میں الحاد اور گمراہی کے وہ سیاہ بادل دیکھنے میں آئے کہ الامان والحفیظ جب تیرہویں صدی کے بعد برٹش انڈیا میں اس قلعے میں پہلا شگاف لگا تو دنیا نے دیکھا کہ دین میں آزادی فکر پیداہونے کے جو خطرناک نتائج علماء نے بیان کیے تھے وہ سامنے آکر رہے۔اور آج مسلمانوں کی جو خطرناک فرقہ وارانہ حالت ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ دینا دیکھ چکی ہے کہ انکار فقہ نے انکار حدیث کی راہیں نکالیں اب فرقہ انکار حدیث اسی طرح مسلمانوں کو انکار قرآن کی دہلیز پرلارہا ہے۔
اس لیے ہمیں آج غور و فکر سے کام لینا ہوگا کہ جس کام کو ساری امت کرتی چلی آرہی ہو اور دین کا تحفظ اور بقا اسی میں بتلا رہی ہو، مشاہدہ اور تجربہ بھی اس کا موید ہو ، گمراہی و ضلالت سے حفاظت کا ذریعہ بھی ہو اور اعمال کرنے میں آسانی بھی اسی میں ہو تو آخر کیونکر اس سے منہ موڑا جا رہا ہے۔ کون لوگ ہیں جو دنیا کی اتنی بڑی حقیقت کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہیں وہ ہمارے اردگرد تو نہیں اور ہمیں راہ راست سے ورغلانے کے لیے شکوک و شبہات تو نہیں پھیلا رہے؟اگر ہیں تو ان سے بچیے !!!