دینِ اکبری کا فلمی کرد

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
دینِ اکبری کا فلمی کردار
ابن عبداللہ
”وحی‘‘ اور ”ہوائے نفس‘‘ کا تصادم ابتدائے آفرینش سے ہوتا آیا ہے۔ خیر اور شر کی جنگ محض اتفاق نہیں، باقاعدہ منصوبہ خداوندی ہے۔ باطل کی سرشت ہی یہ نہیں ہے کہ وہ حق کے وجود کو برداشت کر پائے۔ حق اگر اصل شکل میں موجود ہو تو باطل کے لئے کسی ”پیغامِ اجل‘‘سے کم نہیں۔ البتہ باطل کو حق کے غلاف میں پیش کیا جائے تو اس کا ’’عرصہ حیات“بڑھانے کے لئے اس سے زیادہ کارگر نسخہ اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ باطل کو اگر زندہ رکھناہے تو یہ’’تلبیس“ بہرحال ناگزیر ہے۔
’گلوبلائزیشن‘ کے موجودہ دور میں اسی تلبیس کا سہارا لیتے ہوئے اسلام کے بنیادی عقائدپر ’وحدت ادیان اور احترام انسانیت ‘کے خوشنما لیبل کے ساتھ ضرب لگانے کی کوشش جاری ہے۔ دیگر مذاہب کے معاملے میں تو انہیں کوئی خاص دشواری پیش نہیں آرہی ، مگرمصیبت یہ ہے کہ اسلام اپنے سوا کسی بھی مذہب سے مداہنت کا روادار نہیں۔ اس کی بنیادی تعلیمات ہی میں کچھ ایسی ’شدت‘ہے کہ اس پر ایمان رکھتے ہوئے آپ ’کفر‘کےلئے اپنے دل میں ’نرم گوشہ‘نہیں رکھ سکتے۔ چنانچہ ’حل‘ یہ نکالا گیا کہ ’اخلاقیات‘ کے نام سے ایک نئے مذہب کی داغ بیل ڈالی جائے، جس کے ذریعے مذاہب کے امتیاز (بلکہ کفر اور اسلام کے امتیاز) کو ختم کیا جا سکے۔
ہمارا المیہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے اسلام کی حقیقت سے کوسوں دور ہیں اور یہی وہ چیز ہے جو جاہلیت کے لئے کسی نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ خوبصورت الفاظ تو محض دل کو لبھانے کے لئے ہوتے ہیں، مگر پس پردہ ان کا اصل ہدف مسلم خطوں میں ابھرتی ہوئی اسلامی بیداری کو ’احترام مذاہب‘ کے نام پر کچل دینا ہے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ ’مذہب‘ کو آپ اپنی انفرادی زندگی تک محدود رکھئے۔ اسے اتنی زحمت نہ دیجئے کہ یہ معاشرہ میں آ کر حق اور باطل میں فرق کرنا شروع کر دے۔ آپ اپنے ’مذہب‘ پر چلتے رہئے اور دوسروں کو ان کے ’مذہب‘پر چلنے دیجئے۔ کسی کے سر آنے کی آخر ضرورت ہی کیا ہے۔”اپنا عقیدہ چھوڑو نہیں اور دوسروں کے عقیدے کو چھیڑو نہیں“ اس سے زیادہ انصاف پر مبنی بات بھلا کیاہو سکتی ہے؟!
قارئین کو شاید ہوگا کہ پوپ جان پال نے 1997میں بادشاہی مسجدکا دورہ کرتے وقت یہی DOSE دیتے ہوئے کہا تھا کہ ”مسلمان اور مسیحی دونوں ’خدائے واحد‘ایمان رکھتے ہیں“۔ یہ بات تو وہ خود بھی اچھی طرح جانتے تھے کہ مسلمانوں کے توحید خالص پر مبنی ’خدائے واحد‘ کے عقیدے کو مسیحی حضرات کے’توحید فی التثلیث‘ کے من گھڑت عقیدے سے دور کا بھی واسطہ نہیں۔ مگر چونکہ ’ضرورت ایجاد کی ماں ہے‘ لہٰذا ساتھ میں موجود حکمران طبقہ کو طفلانہ تسلی دینے کی خاطر یہ سب کہہ ڈالاگا۔
’ایک میں تین‘ اور ’تین میں ایک‘ کا فلسفہ عام افراد تو چھوڑیئے خو د عیسائیوں کے لئے درد سر بنا ہوا ہے۔ سادہ لوح مسلمانوں کے سامنے تو یہ حضرات بڑے شاطرانہ انداز میں اس چیستان کو ’متَشابہات‘ کا رنگ دینے کی کوشش کرتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ ’عقیدہ تثلیث‘ کی کوئی متفقہ تشریح آج تک’روح القدس‘ سے رہنمائی پانے کا دعویٰ کرنے والی ’لا خطاکلیسا‘ بھی نہ کر سکی۔
عصر حاضر کی جاہلیت عیاری میں کہیں زیادہ ہے اوریہ خوب جانتے ہیں معاملہ ہے کہ ان کے ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ اسلام کے خلاف جتنے جتن کر لیں ، انجام بہرحال اسلام ہی کے حق میں نکل آتا ہے۔سہل ترین چیز جو روبہ عمل میں لائی جاسکتی تھی، وہ آراء و خواہشات کا پیوندہے جسے اسلام کے ساتھ نتھی کر دیا جاسکے۔ اسلامی احکامات کا ’جدید ایڈیشن یا تفسیر نو ‘ اسی مقصد کا حصہ ہے ، اور اس ’ خدمت‘ کے لئے طاقتور ترین ہتھیار ظاہر ہے کہ ’میڈیا‘ کے علاوہ اور کیا ہوسکتا ہے۔ عوام کی ذہن سازی (Brain Washing) کرنی ہو تو اس کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ دین اکبری کی’ سوغات ‘کی تقسیم کا کام اس جاہلی میڈیا نے اپنے سر لے لیا ہے۔ لالی ووڈ ہو یا بالی ووڈ، ایجنڈا دونوں کا ایک ہی ہے۔ بادشاہ اکبر کے دو کاسہ پردازوں (ملا دو پیازہ اور بیربل) کی طرح لالی ووڈاور بالی ووڈنے اب دین اکبری کے ’مبلغین ‘ کاروپ دھار لیا ہے۔ دونوں کے ’فرائض‘میں عجیب مماثلت آپ کو نظر آئے گی۔ مگر اسلام کو جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کے لئے چونکہ کچھ’نئے‘ مفہومات کی ضرورت پڑتی ہے ، لہٰذا اس کا انتظام مخصوص افکارو نظریات کو پروان چڑھا کر کیا جا رہا ہے۔
ایسی ہی ایک کاوش پرمبنی فلم ’خدا کے لئے‘ تقریباً تین سال قبل ریلیز کی گئی تھی۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ قرآن و حدیث سے ’استدلال‘ کرنے کی زحمت کن کن ’خاصان خدا ‘ سے لی گئی ،مگر یہ حقیقت ہے کہ جن موضوعات کو اس فلم میں زیر بحث لایا گیا ہے وہ وہی ہیں جو جدت پسند طبقات کے ہاں ’اصول دین‘ کی طرح بیان کئے جاتے ہیں۔ مذہبی قیود سے جان خلاصی چاہنے والوں کے لئے یہ ’ چشمہ صافی‘ مہیا کر دیا گیا ہے، اب انہیں ان حضرات کا شکر گزار ہونا چاہئے۔
مناسب معلوم ہوتاہے کہ فلم کا مختصر سا خاکہ پیش کر دیا جائے تاکہ مسلم نوجوانوں کو دیئے جانے والے اس Slow Poison کی حقیقت سمجھنے میں الجھن نہ ہو۔سرمد اور منصور نامی دو بھائی پروفیشنل گائیک تھے۔ ان کا ایک اور ساتھی شیر شاہ جو پہلے انھی کی طرح ایک گائیک تھا کسی مولانا طاہری( جنہیں جہادی تحریک کے رہنما کی حیثیت سے پیش کیا گیاہے)کی تبلیغ سے متاثرہو کر اپنے فن سے توبہ کرلیتا ہے۔ جذبہ خیرخواہی کے تحت وہ اپنے دوست سرمد کی ملاقات بھی مولانا سے کرواتا ہے۔ جس کے نتیجے میں سرمد بھی تائب ہو جاتا ہے۔ سرمد کی چچا زاد بہن MARY(جو کہ ایک غیر مسلم سے نکاح کی خواہشمند ہوتی ہے) کو زبردستی کسی مسلمان کی زوجیت میں دے دیا جاتا ہے۔ Mary اپنے ساتھ ہونے والی اس زیادتی کو عدالت میں چیلنج کردیتی ہے۔اب معاملہ چونکہ ’دین‘ کا آن پڑا ، لہٰذا ضروری تھا کہ کسی ایسے’ صاحب علم‘ سے رہنمائی لی جائے جس سے خواہشات نفس پر بھی آنچ نہ آئے اور ’اسلام‘ کا بھرم بھی رہ سکے۔ اس مقصد کی تکمیل کے لئے عدالت میں ایک ’باریش ‘ مفتی صاحب کو مدعو کیا گیا تاکہ ان کے دلائل جدت پسندی کے لئے ’آب حیات‘ کا کام دے سکیں۔
جدت پسندی کے داعی مفتی صاحب کو ’باریش‘ دکھانے میں کیا مصلحت کار فرما تھی ، اس کا جواب آپ کو’عقل سلیم‘ بخوبی دے سکتی ہے!!!
عدالت میں کئے گئے سوال و جواب کی ایک جھلک ذیل کی سطور میں ملاحظہ فرمائیں:
سوال: کیا شرعی نقطہ نظر سے ایک مسلمان لڑکی کا نکاح غیر مذہب میں کیا جاسکتا ہے؟
جواب : اہل کتاب سے تو ہو سکتا ہے مگر نہ ہو تو بہتر ہے۔ وضاحت طلبی پر ارشاد ہوتا ہے کہ ’نا پسندیدہ ‘ ہے۔
بات جاری رکھتے ہوئے فرمایا: ”نا پسندیدہ‘ تو شراب بھی ہے، جھوٹ بولنا بھی ہے۔ مگر ہم شراب پینے والے اور جھوٹ بولنے والے کو دائرہ اسلام سے تو خارج نہیں کر سکتے“۔کاش کہ موصوف بالبداہت فرما دیتے کہ ہم کفر اور شرک کے باوجود بھی کسی کو دائرہ اسلام سے خارج نہیں کر سکتے توان کی مہربانی ہوتی! ! زبان سے پڑھا گیا ’کلمہ‘ ہر طرح کے کفر کے علی الرغم انسان کو تا حیات ’مسلمان‘ ہی رکھتا ہے !!!
رہی بات ’ناپسندیدہ‘ ہونے کی، تو مفتی صاحب کی دی ہوئی مثالوں(شراب اور جھوٹ) سے بہر حال اتنا تو واضح ہے کہ وہ کس درجہ کے’نا پسندیدہ ‘ فعل سے بحث کر رہے ہیں!! اس فعل کے ارتکاب کی بنا پر اسلام سے خارج کر دینے کا واقعہ حقائق کی دنیا میں ہماری نظر سے تو نہیں گزرا، البتہ اگر کسی نے اس طرح کا ’فتویٰ ‘جاری بھی کیا ہو تو عین ممکن ہے کہ وہ فلمی تھیٹر میں پایا جانا والا ہی کوئی علم سے بے بہرہ’مفتی‘ ہوگا۔
سوال: آپ اس بات کو Appreciate کیوں نہیں کرتے کہ مولانا طاہری نے ایک ناچنے گانے والے،Jeans پہننے والے مغرب زدہ نوجوان کو اسلامی حلیہ میں ڈھال کر ’عاشق رسول‘ بنا دیا؟
(یہ نکتہ ذہن نشین رہے کہ خط کشیدہ مسائل ہی کو مذکورہ فلم میں نمایاں کیا گیا ہے)
جواب: (سرد آہ بھر کر ) ’اسلامی حلیہ اور گانا بجانا یعنی موسیقی‘
کہتے ہیں: ’اسلامی حلیہ اور موسیقی دونوں اہم موضوع چھیڑے ہیں“۔ (اہم ہونے کی وجہ ظاہر ہے کہ امت کے لئے دل سوزی نہیں بلکہ نفس امارہ کی تسکین کی مذموم کاوش ہے)موسیقی پر دلائل دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’حضور کا سب سے بڑا معجزہ قرآن شریف ہے۔ موسیٰ کو اس قابل بنایا کہ لاٹھی سے دریاکے دو ٹکڑے کر دیں، عیسیٰ کو ایسی طاقت دی کہ مردے کو دوبارہ زندہ کر دیں اور داود کو کیا دیا؟ ’موسیقی‘۔زبور اٹھا کر دیکھئے ، یہ تک لکھا ہے کہ کن راگوں اور کن سازوں پہ گا کہ حضرت داود علیہ السّلام نے خدا کی حمدوثنا بیان کی۔
مزید ارشاد ہوتا ہے ”کیا یہ ممکن ہے کہ خداوند کریم اپنی تعریف سننے کے لئے ایک حرام چیز کا انتخاب کرے“سازوں کی جو تفصیل زبور میں دی گئی ہے اگر وہ انسانی قطع و برید سے پاک ہے تو اس میں کیا اشکا ل ہے کہ ایک حکم پچھلی شریعتوں میں کچھ اور رہا ہو مگر اسلامی شریعت نے اس کے بر خلاف حکم دیاہو۔
سبت ، جہاد اور طہارت وغیرہ سے متعلق جتنے سخت احکامات توریت میں پائے جاتے ہیں اسلامی شریعت میں کہیں اس ’تشدد‘ کا ذکر تک موجود ہے؟ توریت کی کتاب ’خروج‘ اور ’احبار‘کی سرسری ورق گردانی کر جائیں، کیا شریعت محمدی میں یہ تمام احکامات من و عن پائے جاتے ہیں؟ ان تمام مسائل میں احکامات کی تبدیلی ممکن ہے تو آلات سازکے بارے میں حکم کا بدل جانا نا ممکن کیوں نظر آتا ہے؟ تحریف شدہ آسمانی صحف کی ہر بات اگر حرف آخر مانی جانے لگے تو نہ جانے انبیاء کرام علیہم السّلام کی معصوم شخصیات پر لگائے گئے شرمناک الزامات کی کیا توجیہہ پیش کی جائے گی۔ (اس سلسلے میں کتب احادیث سے کئے گئے غلط استدلال سے ہم صرف ِ نظر کرتے ہیں کہ تفصیل کا یہ موقع نہیں)
بہر حال عدالتی کاروائی کے بعد سرمد اپنی’ انتہا پسندی ‘کا اعتراف اور ماقبل کی زندگی کی ’پارسائی‘ ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:”اس عدالتی کاروائی نے مجھے یاد دلایا ہے کہ میں پہلے بھی برا مسلمان نہیں تھا۔ جھوٹ نہیں بولتا تھا، چور نہیں تھا، اور شراب، جوا۔ سب سے دور تھا۔ کسی کو دھوکہ نہیں دیتا تھا، کسی کا حق نہیں مارتا تھا۔ ماں باپ بہت خوش تھے مجھ سے“( لبوں پہ مسکراہٹ لاتے ہوئے) ”تیرہ سال کی عمر میں قرآن شریف ختم کیا تھا“ ”بس ایک کمی تھی مجھ میں، وہ یہ کہ میں نماز نہیں پڑھتا تھا، “ (اور اب روتے ہوئے)”لیکن۔ اسلام کے نام پر۔ ایک نہیں، دو نہیں، مجھ سے اتنے سارے ایسے کام کروا لیے گئے جو یا تو غلط تھے یا ضروری نہیں تھے۔ جو ظلم میں نے Maryکے ساتھ کر دیا ہے اس کا احساس مجھے کبھی زندہ نہیں رہنے دے گا“۔
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
ایک اچٹتی نظر اب حال ہی میں ریلیز ہونے والی ایک اور فلم ”مائی نیم از خان“ (My Name Is Khan) پر بھی ڈال لیجئے۔ یہ دراصل ”خداکے لیے“ میں دی جانے والی نظری بنیادوں کی ایک عملی تفسیر ہے۔ ”خدا کے لیے“ میں جو مبہم الفاظ چھوڑ دیے گئے تھے ان پر نقطے ڈالتی ہے۔ اس فلم کے مرکزی کردار (شاہ رخ خان) اپنی حقیقی زندگی میں وحدت ادیان کے قائل، مشرک عورت سے شادی کے مرتکب، قرآن اور وید دونوں کو’ یکساں‘ لائق احترام سمجھنے والی شخصیت ہیں۔ مذکورہ فلم میں انہیں کوئی نفسیاتی بیماری کا شکار دکھایا گیا ہے۔ بچپن کی کچھ یادیں اس کے ذہن میں تازہ ہوتی ہیں جب ہندو مسلم فسادات وہ اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھا کرتا تھااور اکثر کچھ نفرت آمیز جملے سنا کرتا تھا۔
ان الفاظ کا اس کے ذہن پر خاص اثر پڑا۔ ایک دن اس کی ماں اسے اپنے پاس بٹھا کر کاغذ پر ایک خاکہ کچھ یوں بناتی ہے کہ صفحے کے اوپری حصہ پربائیں طرف رضوان اور دائیں طرف ایک ایسے شخص کا خاکہ جس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہے، پھر اسی طرح صفحے کے نچلے حصے پر بائیں طرف رضوان اور دائیں طرف ایک ایسے آدمی کا خاکہ جس کے ہاتھ میں لالی پاپ ہے۔ اب اس کی ماں اس کے سامنے یہ سوال رکھتی ہے کہ ان دونوں (لالی پاپ دینے والے اور لاٹھی بردار)میں سے ہندو کون ہے اور مسلمان کون؟ وہ جواب دیتا ہے کہ دونوں ایک جیسے ہی نظر آ رہے ہیں۔ یہ جواب سن کر اس کی ماں اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اسے شاباش دیتی ہے اور کہتی ہے”ایک بات یاد رکھنا بیٹا، اس دنیا میں صرف دو قسم کے انسان ہیں، اچھے انسان جو اچھا کام کرتے ہیں اور برے جو برا۔ بس یہی فرق ہے انسانوں میں، اور کوئی نہیں؟“
باقی ساری فلم میں اپنی ماں کا کفر اٹھائے اور اس کا پرچار کرنے والا ایک نہایت ’امانت دار‘، ’ہمدرد‘، ’رحمدل‘ ،’عبادت گزار‘اور ذہین آدمی دکھایا گیا ہے تاکہ اچھائی کے ان پیوندوں کے ساتھ وہ اپنے کندھوں پہ لدا کفر آسانی سے لوگوں تک پہنچا سکے۔ ’رحم دلی ‘ کا عالم دیکھئے کہ موصوف موبائل فون تک استعمال نہیں کرتے کیونکہ آئین سٹائین کے مطابق موبائل فون جن لہروں کے ذریعے پیغام رسانی کرتے ہیں ان سے شہد کی مکھیاں مر جاتی ہیں۔
کیا دین شعیب منصور اور شاہ رخ خان سے سمجھنا ہوگا؟؟
اسلام کی تفہیم کے لئے سلف صالحین کے منہج اور اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کی اب کوئی ضرورت نہیں۔ ’تحقیق‘ کا ذوق رکھنے والے حضرات اس مقصد کے لئے اب سینما گھروں کا رخ بھی کر سکتے ہیں۔ اس ’شجر‘ سے نکلنے والے ’ثمر‘ کا اندازہ قارئین خود کر لیں۔
نیکی کی جن صورتوں (اخلاقیات، انسانیت، محبت اور رواداری ) کو لہک لہک کر بیان کیاجاتا ہے کیا دنیا کا کوئی مذہب اس کے بر خلاف تعلیم دیتا ہے؟؟ آخر وہ کون سی چیز ہے جو اسلام اور ان ادیان ِ باطلہ کے درمیان ایک فصیل کھڑی کر دیتی ہے؟ مسلمان بھی ’صالح اعمال‘ انجام دے رہا ہو اور غیر مسلم بھی تو بھلا آخر اس ’مسلمان‘ کی ضرورت ہی کیا تھی۔ کیا وجہ ہے کہ ایک مسلم کوتو بالآخر جنت کی خوشخبری دی جاتی ہے مگر مشرک کے لئے ابدالآباد جہنم کی بشارت ہے۔ مسلمان کا وجودظاہر ہے کسی خاص مقصد کے لئے ہے ورنہ اہل کتاب اس ’آسامی‘ کو بآسانی پر کر سکتے تھے۔
اللہ کی کتاب انسانیت کی تقسیم ’ایمان‘ کی بنیاد پر ہی تو کرتی ہے۔ مگر یہاں عبادت اللہ کی ہو یا غیر اللہ کی، سب ثانوی چیزیں ہیں۔ توحید اور شرک کے فاصلوں کو جتنا پاٹنے کی کوشش کریں جاہلیت کا کام اتنا ہی آسان ہو جاتا ہے۔ انہیں اس امر کا بخوبی اندازہ ہے کہ ایک صالح اسلامی تحریک اول ترین کام یہی کرتی ہے کہ توحید اور شرک کی بنیاد پر معاشروں کو polarize کر دیا جائے، بس اس polarization کی دیر ہوتی ہے کہ جاہلیت اپنی موت آپ ہی مرنا شروع کر دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جاہلیت ایسی کسی بھی تقسیم کے امکانات معدوم سے معدوم تر کردینا چاہتی ہے۔
درست کہ نرمی اور سختی ’دعوت‘ کے مستقل باب کی حیثیت رکھتے ہیں۔ مگر ہم دیکھتے ہیں کہ جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منکرین حق کی ایذا رسانیوں پر یہ تلقین کی گئی :فاصبر علی ما یقولون۔جو کچھ یہ کہہ رہے ہیں آپ اس پر صبر کیجئے۔ وہیں قرآن نے اتمام حجت کے طور پرسیدنا ابراہیم علیہ السّلام کی ذات کو اہل ایمان کے لئے اسوہ قرار دیا۔ جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا تھا:اب ہمارے اور تمہارے درمیان ہمیشہ کے لئے دشمنی اور بغض کی ابتدا ہو چکی ہے جب تک کہ تم ایک الله پر ایمان نہیں لے آتے۔
فکر ارجاء یقینا ان کے لئے من و سلویٰ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ایک مرتبہ کلمہ طیبہ پڑھ لینے کے بعد آپ ہمیشہ ہمیشہ کے لیےpatented مسلمان ہیں اورآپ کے جملہ حقوق دائمی طور پر محفوظ ہوچکے ہیں، اب آپ کی زندگی جو مرضی رخ پکڑے جہاں مرضی سجدے کریں، جہاں چاہیں محبتیں نچھاور کریں، جس کی چاہیں اطاعت میں خود کو دے ڈالیں، جس کے ساتھ چاہیں تعلق بنائیں، جہاں سے چاہیں توڑ ڈالیں، اسلامی شریعت کے ایک بھی حکم پر ساری زندگی عمل نہ کریں، چاہیں تو اس کے ساتھ برسر جنگ ہی کیوں نہ ہو جائیں، اللہ کے حلال کو حرام اور حرام کو حلال تک کہہ ڈالیں۔ آپ کے ایمان کو بہر حال کوئی خطرہ نہیں ، جنت تو بس بنی ہی آپ کے لیے ہے، ہاں! کبھی خود زبان سے ہی اسلام کا انکارکرنے کی غلطی نہ کیجیے گا، باقی آپ پوری طرح محفوظ ہیں۔ دین محمدکے ساتھ اس سے بڑا مذاق بھی کوئی ہو سکتا ہے!!! اسلام میں ’دخول‘ کا ایک طریقہ کار ہے تو یقیناً ’خروج‘ کا بھی ایک معین راستہ ضرور ہوگا، مگر اس ’غم‘ سے نجات دلا دینے کا کافی و شافی انتظام اکبری مذہب نے کردیا ہے۔
دین اکبری کی رو سے اخلاقیات اور Ritualsکا پیکیج آپ کی انفرادی زندگی کے حوالہ سے ہے، البتہ اجتماعی زندگی میں آپ کو جاہلیت کی متعین کردہ راہ پر ہی چلنا ہوگا، بصورت دیگر ’گمراہی ‘ مقدرہے۔ انبیاء کرام علیہم السّلام اس نسخہ کیمیا کو استعمال کر لیتے تو ان کا کام کہیں آسان ہو جاتا۔ مگر نہ جانے کیوں انہوں نے قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے، تکلیف اٹھانے اور ہجرت اور بالآخر جہاد جیسے اقدامات کو ہی اپنا مطمح نظر بنایا۔