تذکرۃ الفقہاء

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
تذکرۃ الفقہاء:
……مولانا محمدعاطف معاویہ﷾
امام ابراہیم بن یزید النخعی رحمہ اللہ
ایک مرتبہ ھشام بن عبد الملک نے عطاء بن سائب سے مختلف شہروں کے مجتھدین وفقہاء کے متعلق سوال کرتے ہوئے پوچھا فمن فقيه أهل الكوفة؟اھل کوفہ کے فقیہ کون ہیں تو انہوں نے جواب دیا ابراھیم نخعی
)الطبقات السنیہ فی تراجم الحنفیہ ج1ص43(
آپ کا نام ابراھیم کنیت ابو عمرا ن ہے نسب نامہ یہ ہے
ابراهيم بن يزيد بن قيس بن الاسود بن عمرو بن ربيعة بن ذهل النخعي أبوعمران الكوفي الفقيه
)تھذیب التھذیب ج1ص155(
با کمال صحبت :
کہتے ہیں گھر کاماحول انسان کی زندگی پر گہرا اثر چھوڑتا ہے اگر اس لحاظ سے آپ کے گھرانہ کو دیکھا جائے تو وہ علم و عمل کا گہوارہ تھا آپ کو وقت کے دو عظیم بزرگ ،اپنے وقت کے محدث وفقیہ یعنی حضرت علقمہ اورحضرت اسودرحمھما اللہ کی صحبت نصیب ہوئی ان میں ایک آپ کے چچا اور دوسرے ماموں تھے گویا ان حضرات نے امام ابراہیم کی جسمانی اور روحانی پرورش کرکے آپ کو علم کی دنیا میں اس مقام تک پہنچایا کہ دنیا ہمیشہ آپ کو یاد کرے گی۔
اسی طرح حضرت علقمہ اورحضرت اسود کی صحبت کی برکت سے امام ابراہیم کو اس عہد کی بڑی بڑی ممتاز ہستیوں سے ملنے کا اتفاق ہوتا تھا؛چنانچہ بچپن میں وہ حضرت عائشہؓ کی خدمت میں آتے جاتے تھے،ابو معشرفرماتے ہیں کہ امام ابراہیم نخعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض ازواج یعنی حضرت عائشہ کی خدمت میں حاضرہوتے رہتے تھےاس پر ایوب نےتعجب کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے؟انہوں نے جواب دیا کہ بچپن میں اپنے چچا اورماموں علقمہ اوراسود کے ساتھ حج کو جاتے تھےاور وہ دونوں ام المومنین حضرت عائشہ سے عقیدت کی وجہ سے اُن کی علمی مجلس میں آتےرہتے تھے۔
)الطبقات الکبریٰ ج6ص270(
اگرچہ حضرت عائشہ سےامام ابراہیم کا سماع ثابت نہیں ہے،لیکن ان کی جیسی برگزیدہ ہستیوں کی مجلس میں شریک ہوجانا ہی حصولِ برکت وسعادت کے لیے کافی تھا۔
علمی فضل وکمال :
اہل علم وعمل کے فیضِ صحبت نے امام ابراہیم کا دامن دولتِ علم سے مالا مال کردیا تھا اوروہ اپنے عہد کے ممتاز ترین علماء میں شمار ہوتے تھے بلکہ اگر یوں کہاجائے کہ آپ حضرت علقمہ اور حضرت اسود کے واسطہ سے سیدناعبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے علمی وارث بنے تو بہتر ہوگا۔
امام نووی فرماتے ہیں
" وأجمعوا على توثيقه وجلالته وبراعته فى الفقه"
ان کی توثیق جلالت اورفقہی کمال پر سب کا اتفاق ہے۔
[تھذیب الاسماء ج1ص142(>
سیدنا سعیدبن جبیر کے پاس جب کوئی فتویٰ پوچھنےکےلیے آتا تو اس سے فرماتے "أتستفتوني وفيكم إبراهيم"ابراہیم کی موجودگی میں مجھ سےپوچھتےہو؟
)الطبقات الکبریٰ ج6ص270(
حضرت ابووائل کے پاس جب کوئی سائل آکر مسئلہ پوچھتا تو اسے فرماتے
ائت إبراهيم فسله ثم ائتني فأخبرني ما قال لك"
ابراہیم کے پاس جاؤ ان سے مسئلہ دریافت کرو اوروہ جو جواب دیں مجھے بھی بتانا۔
چند فقہی مسائل :
1: اہل السنت والجماعت احناف کے نزدیک جس طرح اذان میں کلمات دودو مرتبہ اداکئے جاتے ہیں اسی طرح اقامت میں بھی کلمات دودومرتبہ اداکرنے چاہئے اس پر کئی احادیث بطور دلیل کے موجود ہیں حضرت امام ابراھیم نخعی کا موقف بھی اس مسئلہ میں یہی تھا۔
"عَنِ الْحَكَمِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ لاَ تَدَعُ أَنْ تُثَنِّيَ الإِقَامَةَ"
)مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص206 رقم الحدیث 2153(
کلمات اقامت کو دومرتبہ کہنا کبھی مت چھوڑنا۔
2: دلائل صحیحہ وقویہ سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز فجر اسفار میں ادا کرنا افضل ہے۔ امام نخعی رحمہ اللہ کے بقول اس مسئلہ پر صحابہ کرام کا اجماع ہے ۔
"عَنْ حَمَّادٍ عَنْ إبْرَاهِيم قَالَ مَا أَجْمَعَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم عَلَى شَيْءٍ مَا أَجْمَعُوا عَلَى التَّنْوِيرِ بِالْفَجْر"
)مصنف ابن ابی شیبہ ج1ص322 رقم الحدیث 3275 (
فجر کی نمازروشنی میں اداکرنے پر صحابہ کا مضبوط ترین اجماع ہے۔
3: شریعت مطہرہ میں امامت کی شرائط میں سے ایک شرط امام کا بالغ ہونا بھی ہے نابالغ کی امامت درست نہیں حضرت امام ابراھیم نخعی نابالغ کی امامت کو مکروہ فرماتے ہیں ۔
" عن مغيرة عن إبراهيم أنه كره أن يؤم الغلام حتى يحتلم"
)مصنف عبد الرزاق ج 2ص398رقم الحدیث 3846(