تذکرۃ المحدثین

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تذکرۃ المحدثین:
……مفتی شبیر احمد حنفی ﷾
امام معمر بن راشد الازدی البصری
نام و نسب:
نام ”معمر“ اور کنیت ”ابو عروہ“تھی۔ والد گرامی کا نام ”راشد“ تھا۔ سلسلہ نسب یوں ہے:
أبو عروة معمر بن أبي عمرو راشد بن ابی راشد الأزدي البصري•
(شذرات الذہب: ج1 ص383)
تقریباً تمام محدثین نے آپ کے والد کی کنیت ”ابو عمرو“ جبکہ علامہ سمعانی (ت562ھ) نے ”ابو عمر“ لکھی ہے۔ واللہ اعلم
(الانساب: ج5 ص315)
نسبت الازدی الحدانی:
مؤرخین نے آپ کی نسبت ”الازدی الحدانی“ لکھی ہے۔ اس کا پسِ منظر یہ ہے کہ آپ بصرہ کے ایک شخص عبد السلام بن عبد القدوس الازدی الحدانی کے غلام تھے۔ موصوف عبد السلام کو خود عبد الرحمٰن بن قیس الازدی سے نسبتِ ولاء حاصل تھی۔
(تہذیب الکمال: ج10 ص20)
عبد الرحمٰن بن قیس کا تعلق قبیلہ ”ازد“ کی ایک شاخ ”حدان“ سے تھا۔ اس نسبت ”الحدانی“ کے متعلق امام ابو الحسن الجزری (م630ھ) لکھتے ہیں:
هذه النسبةُ إلى حدان وهم بطن من الأزد…… وقد يُنسب إلى محلةٍ بالبصرة يقال لها حدان نَزَلَها هذا البطنُ فنُسِبَتْ إليهم•
(اللباب فی تہذیب ا لانساب: ج1 ص347)
ترجمہ: ”حدانی“ ازد قبیلہ کی ایک شاخ ”حدان“ کی طرف نسبت کی وجہ سے کہا جاتا ہے۔ بصرہ میں ایک محلہ کو بھی اسی نسبت کی وجہ سے”حدانی“ کہا جاتا ہے کیونکہ اس میں یہ شاخ (حدان) آ کر آباد ہوئی تھی۔
اسی بالواسطہ نسبت کی وجہ سے معمر بھی ”الازدی الحدانی“ مشہور ہوئے۔
ولادت با سعادت:
آپ سن 95ھ یا 96ھ میں بصرہ میں پیدا ہوئے۔
(السیر: ج6ص3)
تحصیل علم:
بچپن کا زمانہ بصرہ میں گزرا۔ غلامی کی زندگی اور آقاؤں کے رحم و کرم پر پلنے والا آدمی علم کی طرف بھی متوجہ ہو اور اس کے حصول کے لیے ہمہ وقت تیار بھی رہے، یہ وصف ابن راشد میں کوٹ کوٹ کر بھرا تھا۔ خداداد صلاحیتوں اور فطری استعداد نے بچپن میں ہی آپ کو طلب علم کا خوگر بنا دیا۔ امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ (ت241ھ) فرماتے ہیں:
كان من أَطلَبِ أهل زمانه للعلم•
(تہذیب التہذیب: ج6 ص363)
کہ معمر اپنے عہد کے علماء میں سب سے زیادہ علم حاصل کرنے والے تھے۔
آپ کا اپنا بیان ہے:
خرجتُ وأنا غلامٌ إلى جنازة الحسَنِ ، وطلبتُ العلم سنةَ مات الحسَنُ .
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص4)
کہ میں اس وقت لڑکا تھا جب حسن بصری کے جنازہ میں شریک ہوا تھا، میں نے علم حاصل کرنا اسی سال شروع کیا تھا جس سال حسن بصری کی وفات کا سانحہ پیش آیا تھا۔
امام حسن بصری کی وفات سن 110ھ میں ہوئی تھی۔ اس حساب سے امام معمر نے 14 یا 15 سال کی عمر میں تحصیل علم کی ابتداء کی تھی۔
طلب حدیث کے لیے بصرہ میں امام قتادہ (ت118ھ) کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کیے۔ اس وقت آپ کی عمر 14 سال تھی۔ اس کم سنی کے باوجود جو کچھ آپ نے اپنے شیخ سے حاصل کیا تھا وہ آخر عمر تک مستحضر رہا۔ آپ کا اپنا بیان ہے:
سمعتُ مِنْ قتادۃَ ولی اربعَ عشرۃَ سنۃً فما سمعتُہ اذ ذاک کانہ مکتوب فی صدری•
(تذکرۃ الحفاظ:ج1 ص142)
کہ میں نے امام قتادہ سے چودہ سال کی عمر میں حدیث کا سماع کیا تھا اوران سے میں نے اس وقت جو کچھ سنا تھا وہ گویا میرے قلب پر نقش ہوگیا تھا۔
امام معمر نے حجاز کا سفر بھی کیا جہاں بڑے بڑے جبال علم سے حدیث نبوی کا سماع کیا خصوصاً ”رصافہ“ میں حاضر ہو کر محدث وقت امام محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبداللہ ابن شہاب زہری (ت125ھ) سے سماع کیا۔ عبد الواحد بن زیاد نے ایک بار معمر سے پوچھا کہ آپ نے امام زہری سے حدیث کیسے سنی؟ آپ نے جواب دیا:
كنتُ مملوكًا لقومٍ من طاحيةٍ فبَعَثُوْنِی بِبَزٍّ أَبِيعُه، فقدِمتُ المدينةَ، فنزلتُ دارًا ، فرأيتُ شيخًا والناسُ يَعرِضون عليه العلمَ، فعَرَضتُ معهم.
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص142)
کہ میں طاحیہ قبیلے کے بعض لوگوں کا غلام تھا۔ انہوں نے مجھے روئی سے بنے کپڑے دیے کہ میں انہیں بیچ کر آؤں۔ میں مدینہ میں آیا اور ایک مکان پر رہائش اختیار کی۔ وہاں میں نے ایک شیخ (امام زہری) کو دیکھا کہ لوگ ان کے ارد گرد جمع ہیں اور ان پر عرض حدیث کر رہے ہیں تو میں نے بھی (ان کے ساتھ مل کر) عرض حدیث کی۔
عرض حدیث بھی روایت حدیث کا ایک طریقہ ہے جس میں شاگرد اپنے شیخ کے سامنے حدیث پڑھتا ہے اور استاذ حدیث سن کر اجازت دیتا ہے۔
علم کے ساتھ لگاؤ کا نتیجہ تھا کہ حصولِ علم کی خاطر یمن کی طرف سفر کرنے میں اوّلیت کا سہرا آپ کے سر ہے۔ اس وقت صحابی رسول حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے چشمہ فیض سے سیراب ہونے والے خصوصی شاگرد حضرت ہمام بن منبہ (ت131ھ) کے علم کا ڈنکا بج رہا تھا۔ ان کی علمی مجالس میں ”قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم“ کے زمزموں سے امام معمر پوری طرح مستفید ہوئے۔
(العبر فی خبر من غبر:ج1 ص115)
یمن میں مستقل رہائش:
جیسا کہ ابھی ذکر کیا گیا ہے کہ امام معمر کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ آپ پہلے محدث ہیں جنہوں نے یمن کے اکابر شیوخ سے اکتساب فیض کے لیے یمن کا رخ کیا۔ جب فارغ ہو کر اپنے مالوف وطن واپس جانے لگے تو اہلِ صنعاء جو آپ کے علم و فضل، حسنِ اخلاق اور زہد و تقویٰ کے نہ صرف یہ کہ معترف تھے بلکہ بے حد متاثر بھی تھے، آپ کو چھوڑنے پر راضی نہ ہوئے۔ اسی دوران ایک شخص نے اہلِ صنعاء کو بڑی دلچسپ رائے دی۔ علامہ ذہبی (ت748ھ) کی زبانی سنیئے:
فقال لہم رجل: قَیِّدُوہ فزَوَّجُوہ•
(سیر اعلام النبلاء: ج6ص5)
اس آدمی نے کہا: ان کو روکنے کی ترکیب یہ ہے کہ ان کو یہاں قید کر دیں (یعنی ان کا عقد یہیں کر دیں) چنانچہ ان لوگوں نے آپ کا نکاح وہیں کر دیا۔
اس طرح یمن ہی آپ کا وطنِ ثانی بن گیا۔
اہلِ علم کی نظر میں:
امام معمر بن راشد نے تحصیل علم میں جس محنت کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنایا تھا اس کے نتیجہ میں آپ کندن بن گئے تھے، آسمان دنیا نے دیکھا کہ زبانِ خلق نے آپ کو ”عالم الیمن“ کے لقب سے نوازا۔
(شذرات الذہب: ج1 ص383)
سلاطین علم و فن آپ کی تعریف میں رطب اللسان نظر آئے۔ چند حضرات کی آراء درج ذیل ہیں:
[۱]: عبد الملک ابن جریج (ت150ھ)اپنے تلامذہ سے فرمایا کرتے تھے:
علیکُم بمعمرٍ فانہ لم یبقَ فی زمانہ اَعْلَمُ منہ•
(تذکرۃ الحفاظ:ج1 ص142)
کہ معمر کے فیضِ صحبت سے مستفید ہوا کروکیونکہ ان کے زمانہ میں ان سے بڑا کوئی عالم نہیں رہا۔
[۲]:امام علی بن المدینی (ت234ھ) فرماتے ہیں:
جُمِعَ لِمعمرٍ من الإسناد ما لم يُجْمَعْ لأحدٍ من أصحابه : أيوبُ وقتادةُ بالبصرةِ ، وأبو إسحاقَ والأعمشُ بالكوفةِ ، والزهريُّ وعمرُو بن دينارٍ بالحجازِ، ويحيى بنُ أبي كثيرٍ .
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص5)
کہ معمر کو (ایسی عمدہ) اسناد کا شرف حاصل تھا جو آپ کے معاصرین میں سے کسی کو نہ تھا۔ چنانچہ بصرہ میں امام ایوب سختیانی اور امام قتادہ، کوفہ میں ابو اسحاق السبیعی اور امام اعمش، حجاز میں امام زہری اور امام عمرو بن دینار جیسے اساتذہ اور امام یحیٰ بن کثیر جیسے شیوخ آپ کو میسر آئے۔
[۳]: امام احمد بن حنبل (ت241ھ) فرماتے ہیں:
ما أضُمُّ أحدًا إلىٰ معمرٍ إلا وجدتُ معمرًا أطلبَ للحديثِ منه ، هو أولُ من رَحَلَ إلى اليمن .
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص4)
کہ میں نے جس شخص کا بھی معمر سے تقابل کیا طلبِ حدیث میں معمر کو اس سے زیادہ مگن پایا، یہ پہلے آدمی ہیں جنہوں نے حصولِ علم کے لیے یمن کا سفر کیا۔
علم حدیث میں خدمات:
علم حدیث اوراس کے متعلقہ فنون میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا،ہزاروں حدیثیں سند متن سمیت آپ کے دماغ میں محفوظ تھیں۔ صاحبِ مصنَّف امام عبدالرزاق صنعانی (ت211ھ) کا بیان ہے:
کتبتُ عن معمرٍ عشرۃَ آلافِ حدیثٍ•
(تذکرۃ الحفاظ: ج1 ص142)
کہ میں نے امام معمرسے دس ہزار حدیثیں لکھی ہیں۔
کسی کی علمی خدمات کا پتا اس کے شیوخ اور شاگردوں سے چلتا ہے۔ اگر شیوخ عالی درجہ کے اور شاگرد بھی عظیم الشان مرتبہ کے ہوں تو اس سے اس محدث کی جلالت شان کا اندازہ خوب لگایا جا سکتا ہے۔ امام معمر کے شیوخِ حدیث کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اکثر ان میں اکابر تابعین اورجید تبع تابعین ہیں۔ چنانچہ امام یافعی (ت768ھ) اور حافظ ابن حجر عسقلانی (ت852ھ) نے آپ کے اساتذہ کی جو فہرست دی ہے ان میں امام ابن شہاب زہری، ہشام بن عروہ، قتادہ بن دعامہ،عمرو بن دینار،یحییٰ بن کثیر،ہمام بن منبہ ،ثابت البنانی، عاصم الاحول، ابو اسحاق السبیعی ،ایوب السختیانی ،زید بن اسلم، صالح بن کیسان، عبداللہ بن طاؤس،سماک بن الفضل، اسماعیل بن علیہ، محمد بن المنکدر رحمہم اللہ کے نام خصوصیت کےساتھ قابلِ ذکر ہیں۔ اورخود معمر کے چشمہ فیض سے مستفید ہونے والوں میں سفیان ثوری،عبداللہ بن مبارک، غندر ، عبدالرزاق بن ہمام،سفیان بن عیینہ، ہشام بن یوسف، یزید بن زریع،سعیدبن ابی عروبہ، ابن جریج، شعبہ بن الحجاج،عیسیٰ بن یونس، معتمر بن سلیمان، محمد بن ثور اورعبداللہ بن معاذ جیسے اصحاب فن کے نام نمایاں ہیں۔
یہاں یہ ذکر کرنا نہایت بجا معلوم ہوتا ہے کہ معمر کے شیوخ میں سے یحییٰ بن کثیر، ابو اسحاق سبیعی،ایوب سختیانی اورعمروبن دینار رحمہم اللہ نے بھی تبحر علم وفن کے باوجود خود معمر سے روایت کی ہے،جو معمر کے علو مرتبت اوربلندی شان کی واضح دلیل ہے۔
(مرأۃ الجنان : ج1 ص323 ، تہذیب التہذیب: ج6 ص363)
علامہ ذہبی (ت748ھ) لکھتے ہیں:
معمر کی احادیث کتبِ ستہ، مسند احمد اور امام طبرانی کی معاجم میں کثرت سے پائی جاتی ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص7)
تعدیل و توثیق:
ائمہ جرح وتعدیل سے آپ کی تعدیل و توثیق ثابت ہے۔ چند حضرات کی آراء پیشِ خدمت ہیں:
 امام يحيٰ بن معين (ت233ھ):
أثبت من رویٰ عن الزهري مالك بن أنس ومعمر ثم عقيل و الاوزاعی و یونس.
(تہذيب الكمال: ج10 ص22)
زہری سے روایت کرنے والوں میں اعلیٰ مقام کے امام مالک بن انس اور امام معمر ہیں، پھر امام اوزاعی اور امام یونس ہیں۔
ایک مقام پر فرمایا:ثقة.
(تہذيب التہذيب:ج6 ص364)
معمر ثقہ آدمی ہے۔
امام احمد بن حنبل (ت241ھ):
كان من أطلَبِ أهلِ زمانِه للعلمِ.
(تہذيب الكمال: ج10ص22)
معمر اپنے عہد کے علماء میں سب سے زیادہ علم حاصل کرنے والے تھے۔
 امام ابو الحسن عجلی (ت261ھ):
ثقة رجل صالح•
(معرفۃ الثقات للعجلى:ج1 ص435)
معمر ثقہ اور نیک آدمی تھے۔
امام عمرو بن علی الفلاس (ت294ھ):
معمر من أصدق الناس.
(التكميل في الجرح والتعديل:ج1 ص112)
معمر سچے لوگوں میں سے تھے۔
 امام ابو عبد الرحمٰن نسائی (ت303ھ):
معمر الثقة المأمون.
(التكميل في الجرح والتعديل:ج1 ص112)
معمر ثقہ اور مامون ہیں۔
 امام ابو حاتم الرازی (ت307ھ):
صالح الحديث.
(ميزان الاعتدال:ج4ص362)
آپ صالح الحدیث ہیں۔
 امام عبد الکریم سمعانی (ت562ھ):
كان من ثقات العلماء.
(الأنساب:ج5ص315)
آپ کا شمارثقہ علماء میں ہوتا ہے۔
 علامہ شمس الدین ذہبی (ت748ھ):
الإمام الحجة، الحافظ، شيخ الإسلام.
(تذكرة الحفاظ:ج1 ص142)
معمر امام، حجت، حافظ اور شیخ الاسلام تھے۔
 علامہ خیر الدین زركلی (ت1396ھ):
فقيه، حافظ للحديث، متقن، ثقة.
(الأعلام:ج7 ص272)
آپ فقیہ، حدیث کے حافظ، پختہ کا ر اور ثقہ تھے۔
تنبیہہ:
مذکورہ حوالہ جات سے امام معمر کی تعدیل و توثیق ثابت ہوتی ہے، لیکن بایں ہمہ جب آپ یمن سے بصرہ اپنی والدہ سے ملنے آئے تھے تو وہاں احادیث اپنے حافظے سے بیان کیں، کتاب آپ کے پاس موجود نہ تھی۔ اس لیے محققین کے ہاں ان احادیث میں اغلاط پائی جاتی ہیں۔ علامہ ذہبی لکھتے ہیں:
ومع كون معمر ثقة ثبتا، فله أوهام، لا سيما لما قدم البصرة لزيارة أمه، فإنه لم يكن معه كتبه، فحدث من حفظه، فوقع للبصريين عنه أغاليط، وحديث هشام وعبد الرزاق عنه أصح، لانهم أخذوا عنه من كتبه•
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص7)
ترجمہ: معمر اگرچہ ثقہ ہیں لیکن روایت حدیث میں ان کے اوہام ہیں، خاص طور پر جب آپ بصرہ اپنی والدہ سے ملنے آئے تو آپ کے پاس اپنی کتب موجود نہ تھیں، آپ نے احادیث اپنے حافظے سے بیان کیں، اس سے اہلِ بصرہ کو آپ کی روایات میں کافی اغلاط کا سامنا کرنا پڑا، البتہ امام ہشام اور امام عبد الرزاق نے جو روایات آپ سے لی ہیں وہ اصح ہیں کیونکہ انہوں نے آپ کی کتب کے ذریعےآپ سے روایات لی ہیں۔
اس لیے آپ کی ان احادیث کی تحقیق و تفتیش ضروری ہے جو اہلِ بصرہ سے مروی ہوتی ہیں۔ قرائنِ صحت اور دیگرمؤیدات اگر موجود ہوں جو ان روایات کی صحت پر دال ہوں تو ان روایات کو لیا جاسکے گا۔
تقوٰی و استغناء:
۱: محدث عبد الرزاق صنعانی (ت211ھ) کہتے ہیں کہ معمر کو گھر میں میوہ پیش کیا گیا۔ آپ نے تناول فرمایا۔ کھانے کےبعد آپ نے پوچھا کہ یہ کہاں سے آیا تھا؟ گھر والوں نے بتایا کہ فلاں نوحہ کرنے والی عورت کی طرف سے آیا ہے۔ آپ نے فوراً قے کر کے اسے نکال دیا۔
(سیر اعلام النبلاء: ج6 ص6)
۲: ایک بار والی یمن نےانہیں کچھ سونا بطورِ ہدیہ بھیجا، معمر نے اسے فوراً واپس کردیا۔صرف یہی نہیں بلکہ اپنی شریک حیات کو سختی سے تنبیہ بھی فرمادی کہ اگر تم نے کسی کو یہ بات بتائی،تو میرا اور تمہارا اکٹھے رہنا مشکل ہو جائے گا۔
(ایضاً)
اس واقعہ میں جہاں آپ کی شانِ استغناء نمایاں ہوتی ہے وہیں عملِ خیر کےاخفاء کا عالم بھی واضح ہوتا ہے جو آپ کے زاہد و متقی ہونے کی دلیل ہے۔
وفات حسرت آیات:
رمضان المبارک 153ھ میں علم وعمل کا آفتاب غروب ہوگیا۔
(العبر فی خبر من غبر: ج1 ص115)
بوقتِ وفات عمر مبارک 58 سال تھی۔
(تہذیب التہذیب:ج6 ص364)
مؤلفات:
آپ سے روایت کرنے والے شاگردوں نے آپ کی سینکڑوں روایات اپنی کتب میں جمع فرمائی ہیں، لیکن بایں ہمہ آپ نے خود بھی میدان تالیف کو خالی نہ چھوڑا بلکہ شاگردوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ تالیفات بھی یادگار چھوڑی ہیں۔
[۱]: کتاب المغازی
علامہ ابن ندیم نے اس کا تذکرہ آپ کی تصنیف کے طور پر کیا ہے۔
(الفہرست: ج1 ص123)
ویکیپیڈیاکی معلومات کے مطابق اس کتاب کو بعض محققین نے امریکہ سے شائع کیا ہے۔ اس کے منہج اور اسلوب کو بیان کرتے ہوئے یہ محققین رقمطراز ہیں:
”معمر نے اس کتاب کو اس طرز پر نہیں لکھا جس طرز کو ان کے معاصر علماء نے اپنایا تھا بلکہ انہوں نے اسے محدثین کے طرز پر لکھا ہے جو ترتیبِ کتاب میں موضوع کے اعتبار سے روایات لاتے ہیں۔“
(تطور کتابۃ السیرۃ النبویۃ: ج1 ص79)
[۲]: الجامع للسنن:اس کتاب کا تذکرہ علامہ کتانی اور علامہ عبد الحئی العکری نے کیا ہے۔
(الرسالۃ المستطرفۃ للکتانی: ج1 ص9، شذرات الذہب: ج1 ص235)
علامہ ذہبی فرماتے ہیں کہ معمر کی اس کتاب ”الجامع“ کے تین اجزاء مجھے ملے ہیں۔
(سیر اعلام النبلاء: ج 6ص7)
آج کل مصنف عبد الرزاق کے آخر میں یہ کتاب ”الجامع“ ملحق ہو کر شائع ہو رہی ہے جو آخر کتاب تک جاتی ہے لیکن ”المصنف“ کے محقق نے اس جانب کوئی اشارہ نہیں کیا البتہ احادیث سے شغف رکھنے والا آدمی اس آخری جزء کے مطالعہ کے بعد اس بات کو بخوبی جان سکتا ہے کہ یہ امام معمر کی ”الجامع“ ہی ہے۔