شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضاءکا حکم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شریعت اسلامیہ میں نماز کی قضاءکا حکم
……مولانا مفتی محمدنجیب قاسمی﷾
علماءامت کا اتفاق ہے کہ فرض نماز جان بوجھ کر چھوڑنا بہت بڑا گناہ ہے۔ شریعت اسلامیہ میں زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہر نماز وقت پر ادا کرنے کا اہتمام کرے اور اگر کبھی کوئی نماز وقت پر ادا نہ کرسکے تو اسے پہلی فرصت میں پڑھنی چاہئے۔ ہماری اور ہمارے علماءکی یہ ذمہ داری ہے کہ ہم اس بات کی کوشش وفکر کریں کہ امت مسلمہ کا ہر ہر فرد وقت پر نماز کی ادائیگی کرنے والا بن جائے اور ہماری نمازیں خشوع وخضوع کے ساتھ ادا ہوں، کیونکہ اسی میں ہماری اور تمام انسانوں کی اخروی کامیابی مضمر ہے جیساکہ خالق کائنات نے سورة المومنون میں بیان فرمایا ہے۔
نماز بالکلیہ نہ پڑھنے والوں یا صرف جمعہ وعیدین یا کبھی کبھی پڑھنے والوں کا قرآن وحدیث کی روشنی میں شرعی حکم کیا ہے، سعودی عرب کے مشہور عالم دین شیخ محمد بن صالح العثیمن ؒنے اپنی کتاب حکم تارک الصلاة میں فقہاءوعلماءکی مختلف آراءتحریر کی ہیں :
حضرت امام احمد ابن حنبل ؒ فرماتے ہیں کہ ایسا شخص کافر ہے اور ملت اسلامیہ سے نکل جاتا ہے۔ اس کی سزا یہ ہے کہ اگر توبہ کرکے نماز کی پابندی نہ کرے تو اس کو قتل کردیا جائے۔
حضرت امام مالکؒ اور حضرت امام شافعی ؒ کہتے ہیں کہ نماز کو چھوڑنے والا کافر تو نہیں، البتہ اس کو قتل کیا جائے گا۔
حضرت امام ابوحنیفہ ؒ فرماتے ہیں کہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، البتہ حاکم وقت اس کو جیل میں ڈال دے گا اور وہ جیل ہی میں رہے گا یہاں تک کہ توبہ کرکے نماز شروع کردے یا پھر وہیں مرجائے۔
قرآن وحدیث میں وارد نماز کی وقت پر ادائیگی کی خصوصی تاکید کے باوجود بعض مرتبہ نماز فوت ہوجاتی ہے، کبھی بھول سے، کبھی کوئی عذر لاحق ہونے کی بنا پر اور کبھی محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے۔ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں جمہور فقہاءوعلماءومحدثین ومفسرین کا اتفاق ہے کہ تمام فوت شدہ نماز کی قضا کرنی چاہئے۔ حضور اکرم ﷺ نے متعدد مرتبہ ارشاد فرمایا کہ اگر نماز وقت پر ادا نہ کرسکیں تو بعد میں اس کو پڑھیں، اختصار کے مدنظر صحیح بخاری وصحیح مسلم میں وارد ایک حدیث ذکر کررہا ہوں:
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص نماز کو بھول جائے تو جب اس کو یاد آئے فوراً پڑھ لے، اس کا سوائے اس کے کوئی کفارہ نہیں۔ اللہ کا ارشاد ہے نماز قائم کرو میری یاد کے واسطے۔
(صحیح بخاری وصحیح مسلم)
بعض روایات میں اس حدیث کے الفاظ اس طرح وارد ہوئے ہیں: جو شخص نماز کو بھول جائے یا اس کو چھوڑ کر سوجائے ، اس کا کفارہ یہ ہے کہ جب یاد آئے اسے پڑھے۔ حدیث کی مشہور کتاب جامع الترمذی میں ہے کہ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سے جو بھی نماز کو بھول جائے یا اس سے سو جائے تو وہ جب بھی یاد آئے اس کو پڑھ لے۔
نوٹ : تاخیر سے سونے کی عادت بناکر فجر کی نماز کے وقت سوتے رہنا گناہ کبیرہ ہے۔ دیگر احادیث کی روشنی میں اس حدیث میں سوتے رہنے سے مراد یہ ہے کہ نماز وقت پر پڑھنے کے اسباب اختیار کئے مگر کسی دن اتفاق سے آنکھ نہ کھل سکی۔
حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام نے بعض نمازیں وقت کے نکلنے کے بعد ادا فرمائی ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ صحابہ کرام کے ساتھ غزوہ خیبر سے واپس ہورہے تھے، رات میں چلتے چلتے جب نیند کا غلبہ ہوا تو آپ ﷺ نے رات کے اخیر حصہ میں ایک جگہ قیام فرمایااور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو نگہبانی کے لئے متعین فرماکر آپ ﷺ لیٹ گئے اور صحابہ بھی سو گئے۔ جب صبح قریب ہوئی تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ (تھکان کی وجہ سے) اپنی سواری سے ٹیک لگاکر بیٹھ گئے ، پس آپ پر نیند غالب ہوئی اور وہ بھی سو گئے اور سب حضرات ایسے سوئے کہ طلوع آفتاب تک نہ اللہ کے رسول ﷺ کی آنکھ کھلی اور نہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی، نہ کسی اور صحابی کی۔جب سورج طلوع ہوا اور اس کی شعاعیں ان حضرات پر پڑیں تو سب سے پہلے رسول اللہ ﷺ بیدار ہوئے اور گھبراکر حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اٹھایا۔ پھر صحابہ کرام کو آگے چلنے کا حکم دیا، صحابہ کرام اپنی سواریاں لے کر آگے بڑھے اور ایک جگہ حضور اکرم ﷺ نے وضو کیا اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو اقامت کہنے کا حکم دیا۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے اقامت کہی اور آپ ﷺ نے نماز پڑھائی۔ جب نماز سے فارغ ہوئے تو فرمایا جو نماز کو بھول جائے اس کو چاہئے کہ وہ یاد آنے پر اس کو پڑھ لے۔
(صحیح مسلم(
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ غزوہ خندق کے دن آئے اور کفار قریش کو برا بھلا کہنے لگے اور عرض کیا یا رسول اللہ! میں اب تک عصر نہ پڑھ سکا حتی کہ سورج غروب ہونے کو ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ میں نے بھی عصر نہیں پڑھی ہے۔ اللہ کے رسول نے وضو فرمایا ، ہم نے بھی وضو فرمایا اور پھر غروب آفتاب کے بعد آپ ﷺ نے پہلے عصر پڑھی پھر اس کے بعد مغرب ادا فرمائی۔
(صحیح بخاری)
بعض احادیث میں مذکور ہے کہ اس موقع پر آپ ﷺ کی ایک سے زیادہ نمازیں فوت ہوئی تھیں اور آپ ﷺ نے انہیں وقت نکلنے کے بعد پڑھا۔
مذکورہ بالا احادیث سے واضح ہوا کہ اگر ایک یا ایک سے زیادہ نماز فوت ہوجائے تو فوت شدہ نمازوں کا پڑھنا لازم وضروری ہے۔
تفصیلات کیلئے امام نوویؒ کی صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح شرح مسلم اور ابن حجر عسقلانی ؒ کی صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح فتح الباری کا مطالعہ کریں۔
ہاں اس بھول یا عذر کی بناءپر وقت پر ادا نہ کی گئی نماز کو ادا یا قضاءکا ٹائٹل دینے میں علماءکی آراءمختلف ہیں۔ بھول یا عذر کی وجہ سے وقت پر نماز ادا نہ کرنے پر کوئی گناہ نہیں ہوگا ان شاءاللہ۔ لیکن اگر کوئی شخص جان بوجھ کر نماز کو ترک کردے تو یہ بڑا گناہ ہے اس کے لئے توبہ ضروری ہے۔ توبہ کے ساتھ جمہور علماءکی رائے ہے کہ اس کو نماز کی قضا بھی کرنی ہوگی۔ حضرت امام ابوحنیفہؒ، حضرت امام مالکؒ، حضرت امام شافعیؒ اور حضرت امام احمد بن حنبل ؒ کی حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے کہ قصداً وعمداً نماز چھوڑنے پر بھی نماز کی قضاءکرنی ہوگی۔ شیخ ابو بکر الزرعی (۱۹۶ھ۔۱۵۷ھ) نے اپنی کتاب (الصلاة وحکم تارکھا) میں تحریر کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ نے کہا کہ اس شخص پر بھی نماز کی قضا واجب ہے جو قصداً نماز کو چھوڑدے مگر قضاءسے نماز چھوڑنے کا گناہ ختم نہ ہوگا بلکہ اسے نماز کی قضاءکے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی۔
علامہ قرطبیؒ (متوفی ۱۷۶ھ) نے اپنی مشہور ومعروف تفسیر (الجامع لاحکام القرآن ج ۱ ص ۸۷۱) میں ےہی تحریر کیا ہے کہ جمہور علماءاس پر متفق ہیں کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے شخص پر قضاءواجب ہے، اگرچہ وہ گناہ گار بھی ہے۔
علامہ ابن تیمیہ ؒ نے بھی اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امام ابوحنیفہؒ، امام مالکؒ، امام شافعیؒ اور امام احمد بن حنبل ؒ کے نزدیک جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والے پر قضاءواجب ہے۔
غرضیکہ اگر کسی شخص کی ایک یا متعدد نمازیں قصداً وعمداً چھوٹ جائیں تو اللہ تعالیٰ سے معافی کے ساتھ فوت شدہ نمازوں کی قضاءکرنی ضروری ہے، کیونکہ جمہور علماءحتی کہ چاروں ائمہ نے حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی کہا ہے، صرف زمانہ قدیم میں جناب داود ظاہری اور موجودہ زمانہ میں غیر مقلدین نے اختلاف کیا ہے۔ اور جن بعض علماءنے نماز کے جان بوجھ کر ترک کرنے پر نماز کی قضاءکے واجب نہ ہونے کا جو فیصلہ فرمایا ہے وہ اصل میں اس بنیاد پر ہے کہ ان کے نقطہ نظر میں جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر ہوجاتا ہے۔ اب جب کافر ہوگیا تو نماز کی قضاءکا معاملہ ہی نہیں رہا، لیکن جمہور علماءکی رائے ہے کہ جان بوجھ کر نماز چھوڑنے والا شخص کافر نہیں بلکہ فاسق یعنی گناہ گار ہے اور یہی قول زیادہ صحیح ہے ورنہ عصر حاضر میں امت مسلمہ کی ایک بڑی تعداد دائرہ اسلام سے خارج ہوجائے گی۔
صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے اور ریاض الصالحین کے مصنف امام نووی ؒ نے شرح مسلم میں تحریر کیا ہے کہ علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ جو شخص نماز کو عمداً ترک کردے اس پر قضاءلازم ہے۔ بعض علماءنے مخالفت کی ہے مگر بعض علماءکی یہ رائے اجماع کے خلاف ہونے کے ساتھ دلیل کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔ نیز انہوں نے تحریر کیا ہے کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ بلا عذر چھوٹی ہوئی نماز کی قضاءواجب نہیں، اور انہوں نے یہ خیال وگمان کیا کہ نماز کا چھوڑنا اس سے بڑا گناہ ہے کہ قضاءکرنے کی وجہ سے اس کے وبال سے نکل جائے، مگر یہ قول کے قائل کی غلطی وجہالت ہے۔
(شرح مسلم(
علامہ عبد الحی حنفی لکھنوی ؒ (جنہوں نے صرف 40 سال کی عمر پائی اور تقریباً80 کتابیں تحریر فرمائیں، جن کی علمی صلاحیتوں کو تمام مکاتب فکر نے تسلیم کیا ہے ) تحریر کرتے ہیں کہ بعض اہل ظاہر سب سے الگ ہوگئے اور کہا کہ اپنے وقت میں نماز کو جان بوجھ کر چھوڑنے والے پر ضروری نہیں کہ دوسرے وقت میں اس کو ادا کرے۔
(التعلیق الممجد علی موطا للامام محمدص ۷۲۱)
غور فرمائیں کہ جب حضور اکرم ﷺ نے بھولنے والے یا سونے والے پر بھی فوت شدہ نماز کی قضاءکو لازم کیا ہے، حالانکہ یہ دونوں گناہ گار نہیں ہیں تو جان بوجھ کر قضاءکرنے والے پر بدرجہ اولیٰ نماز قضاءہونی چاہئے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ (اپنے والدین کو اف نہ کہو) تو اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جب والدین کو (اف) کہنا بھی جائز نہیں تو ان کو مارنا پیٹنا یا گالی دینا اور بھی برا اور سخت گناہ ہوگا۔ اسی طرح جب بھولنے اور سوجانے پر قضاءلازم کی گئی تو عمداً ترک نماز پر قضاءاور بھی زیادہ ضروری ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ ایک شخص نے یا ایک عورت نے اللہ کے رسول سے عرض کیا کہ میری ماں کا انتقال ہوگیا اور اس پر ایک ماہ کے روزے رہ گئے ہیں تو کیا میں ان کی قضاءکروں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو اس کو ادا کرتا؟ اس نے کہا کہ ہاں میں ادا کرتا۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ کا قرض زیادہ مستحق ہے کہ اس کی ادائیگی کی جائے۔ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد روزوں کی قضاءکے بارے میں ہے۔ اور ظاہر ہے کہ روزہ اور نماز میں فرض ہونے کے لحاظ سے کوئی فرق نہیں بلکہ قرآن وحدیث میں نماز پڑھنے کی تاکید سب سے زیادہ وارد ہوئی ہے۔ لہذا جب روزے کی قضاءہے تو نماز کی بھی قضاءہونی چاہئے۔
نیز پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اگر کوئی شخص جان بوجھ کر رمضان کا روزہ ترک کردے تو اس کی قضاءضروری ہے، اسی طرح اگر کسی شخص نے استطاعت کے باوجود حج ادا نہیں کیا تو اس کے مرنے پر اس کے وارثین پر لازم ہے کہ وراثت کی تقسیم سے قبل اس کے ترکہ میں سے حج بدل کا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح اگر کسی شخص نے قصداً متعدد سالوں سے زکوٰة ادا نہیں کی اور اب اللہ تعالیٰ نے ہدایت دی ہے تو اسے گزشتہ سالوں کی زکوٰة ادا کرنی ہوگی۔
خلاصہ کلام یہ کہ1400 سال سے جمہور فقہاءوعلماءومحدثین ومفسرین کی یہی رائے ہے کہ نماز کے فوت ہونے پر اس کی قضاءکرنی ضروری ہے خواہ بھول جانے یا سوجانے کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا جان بوجھ کر نماز چھوڑی گئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ۔ مشہور ومعروف چاروں ائمہ کی بھی حضور اکرم ﷺکے اقوال وافعال کی روشنی میں یہی رائے ہے۔بھول جانے یا سوجانے کی صورت میں گناہ گار نہیں ہوگا مگر قضاءکرنی ہوگی اور قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاءکے ساتھ اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی ہوگی۔
جن علماءنے فرمایا ہے کہ قصداً نماز ترک کرنے والا کافر ہوجاتا ہے جیسا کہ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبدالعزیز بن باز ؒکا موقف ہے، تو ان کا یہ قول کہ جان بوجھ کر چھوڑی گئی نماز کی قضاءنہیں ہے کسی حد تک سمجھ میں آتا ہے اگرچہ قصداً نماز چھوڑنے والے پر کافر ہونے کا فتویٰ لگانا جمہور علماءکے قول کے خلاف ہے۔ مگر وہ حضرات جو جمہور علماءکے قول کے مطابق تارک صلاة پر کافر ہونے کا فتویٰ تو صادر نہیں فرماتے مگر قصداً نماز ترک کرنے پر نماز کی قضاءکے ضروری نہ ہونے کا فیصلہ فرماتے ہیں تو ان کی یہ رائے جمہور علماءکے قول کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ غیر منطقی اور دلائل کے اعتبار سے باطل بھی ہے جیسا کہ مشہور ومعروف محدث امام نووی ؒ نے تحریر کیا ہے۔ نیز احتیاط کا تقاضا بھی یہی ہے کہ فرض نماز کی قضاءکو واجب قرار دیا جائے تاکہ کل آخرت میں کسی طرح کی کوئی ذلت اٹھانی نہ پڑے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائے گا۔ اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہو گا، اور اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا۔ (ترمذی، ابوداود، مسند احمد(
جب ہم نے یہ تسلیم کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے نماز فرض کی ہے اور قصداً نماز چھوڑنے والا کافر نہیں، بلکہ فاسق وفاجر ہے تو قصداً نماز چھوڑنے پر قضاءکے واجب نہ قرار دینے کی بات سمجھ میں نہیں آتی۔ مثلاً اگر کسی شخص نے زنا کیا یا چوری کی تو اسے اللہ تعالیٰ سے معافی بھی مانگنی ہوگی اور اگر اس کا جرم شرعی عدالت میں ثابت ہوجاتا ہے تو اس پر حد بھی جاری ہوگی۔ یعنی اسے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ دنیاوی سزا بھی بھگتنی ہوگی۔ اسی طرح قصداً نماز چھوڑنے والے کو اللہ تبارک وتعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ نماز کی قضاءبھی کرنی ہوگی۔
غرضیکہ حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں یہ بات واضح ہے کہ ہر نماز کو وقت پر ادا کرنا چاہئے، ہاں خدا نخواستہ اگر کوئی نماز چھوٹ جائے تو پہلی فرصت میں اس کی قضاءکرنی چاہئے خواہ بھول کی وجہ سے یا سونے کی وجہ سے یا کسی عذر کی وجہ سے نماز فوت ہوئی ہو یا محض لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نماز ترک ہوئی ہو، ایک نماز فوت ہوئی ہو یا ایک سے زیادہ یا چند سالوں کی۔
حضور اکرم ﷺ اور صحابہ کرام کے زمانہ میں یہ تصور بھی نہیں تھا کہ کوئی مسلمان جان بوجھ کر کئی دنوں تک نماز نہ پڑھے۔ خیرالقرون میں ایک واقعہ بھی قصداً چند ایام نماز ترک کرنے کا پیش نہیں آیابلکہ اس زمانہ میں تو منافقین کو بھی نماز چھوڑنے کی ہمت نہیں تھی۔ اگر لاپرواہی اور غفلت کی وجہ سے نمازیں ترک ہوئی ہیں تو سب سے قبل اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنی چاہئے اور توبہ واستغفار کا سلسلہ موت تک جاری رکھ کر فوت شدہ نمازوں کی قضاءکرنی چاہئے خواہ وہ فوت شدہ نمازوں کو ایک وقت میں ادا کرے یا اپنی سہولت کے اعتبار سے ہر نماز کے ساتھ قضاءکرتا رہے۔ علماءکرام نے تحریر کیا ہے کہ ایسے شخص کے لئے بہتر ہے کہ وہ نوافل کا اہتمام نہ کرکے فوت شدہ نمازوں کی قضاءکرے۔ یہی 1400سالوں سے جمہور فقہاءوعلماءومحدثین ومفسرین کی حضور اکرم ﷺ کے اقوال وافعال کی روشنی میں رائے ہے اور عصر حاضر میں مشرق سے مغرب تک اکثر وبیشتر علماءکرام کی یہی رائے ہے اور یہی قول احتیاط پر مبنی ہے کہ نمازوں کو چھوڑنے کا سخت گناہ ہے حتی کہ علماءکرام نے فرمایا ہے کہ زنا کرنے، چوری کرنے اور شراب پینے سے بھی بڑا گناہ نماز کا ترک کرنا ہے۔ لہذا فوت شدہ نمازوں پر اللہ تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ ان کی قضاءبھی کرنی چاہئے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ ہمیں نمازوں کو ان کے اوقات پر پڑھنے والا بنائے اور ایک وقت کی نماز بھی ہماری فوت نہ ہو۔