اسلام کا عالمی مالیاتی نظام

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
اسلام کا عالمی مالیاتی نظام
……محمد شارب﷾
اسلام محنت کشوں کے حقوق کاضامن ہے۔یہ وہ واحدمذہب ہے جومحنت کشوں کے حقوق کے تحفظ کاداعی ہے۔ مذہب اسلام چاہتاہے کہ نہ کسی کے ساتھ ظلم ہواورنہ کوئی کسی پرظلم کرے۔سودخواری توحرص وطمع،بخل اورظلم کامجموعہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سودکاتذکرہ زکوۃ وخیرات کے مقابلہ میں کیاہے۔سودمیں ظلم کاعنصربھی شامل ہے کیونکہ سودخوار سوددرسودکے ذریعہ لوگوں کوان کی محنتوں سے محروم کردیتاہے اسی لئے سودکی ممانعت کے موقعہ پراللہ تعالیٰ نے خاص طورپرارشادفرمایا لاتظلمون ولاتُظلمون۔نہ تم کسی پرظلم کرواورنہ تم پرظلم کیاجائے گا۔ مطلب یہ ہواکہ تم نے جتنادیاہے اس سے زیادہ لینایہ توتمہاراظلم ہے اورجتناتم نے دیاہے اتناتم کونہ ملے۔تویہ تم پرظلم ہے۔
عرب کے سرمایہ داربنیادی طورپریہودی تھے۔ سودکی لعنت عر ب قوم کی گردن میں یہودیوں کے ذریعہ پڑی تھی۔ اس لئے یہودیوں پرنعمتوں کے دروازے کو بندکرنے کے جواسباب بیان کئے گئے ہیں ،ان میں سے ایک یہ بھی ہے۔واخذھم الربوٰ وقدنھوعنہ واکلھم اموال الناس بالباطل مفہوم: ہم نے حرام کردیاان نعمتوں کوجوان کے لئے حلال کی گئیں تھیں ان کے سودلینے کے سبب سے حالانکہ وہ اس سے روکے گئے تھے اورلوگوں کے مال کونارواطورپرکھانے کی وجہ سے عرب کی سرزمین پراسلام کاچراغ روشن ہواتواس نے اس لعنت پرروک لگائی۔فرمایا
الذین یاکلون الربوٰ لایقومون الاکمایقوم الذی یتخبطہ الشیطٰن من المس۔ذالک بانھم قالواانماالبیع مثل الربوٰ اواحل اللہ البیع وحرم الربوٰ فمن جاء ہٗ موعظۃ من ربہ فانتھیٰ فلہ ماسلف وامرہٗ الی اللہ ومن عادفاولٰئک اصحٰب النارھم فیھاخٰلدون۔یمحق اللہ الربوٰویربی الصدقٰت واللہ لایحب کل کفار اثیم۔
جو سود کھاتے ہیں وہ ایسے اٹھیں گے جیسے وہ شخص جسے شیطان نے لپٹ کرحواس کھودیئے ہوں۔یہ اس لئے کہ انہوں نے کہاکہ خریدوفروخت کامعاملہ سودہی کی طرح ہے اوراللہ نے بیع کوحلال اورسودکوحرام قراردیاہے توجس کے پاس اس کے رب کی نصیحت پہونچی وہ بازرہاتواس کاہے جوپہلے دیاگیااوراس کامعاملہ خداکے سپرد ہے اور جوپھرایساکرے تووہ دوزخی ہے وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔خدا سود کو مٹاتا اور صدقہ وخیرات کوبڑھاتاہے اوراللہ کسی ناشکرا گنہگارکوپسندنہیں کرتا۔
آیت کریمہ میں قیامت کے دن سودخوارکابدحواس ہوکراٹھنااس کی دنیاوی بدحواسی کی تمثیل ہے۔دنیامیں سودخواروں کاجوحال ہوتاہے کہ وہ یہی ہوتا ہے کہ وہ دوسروں کے مال ودولت کوچھیننے اوراپنی دولت کوناجائزطریقہ سے بڑھانے میں ایسے مشغول رہتے ہیں کہ انہیں کسی کارخیرکاخیال ہی نہیں رہتاتوقیامت کے دن بھی وہ ایسے ہی بدحواس اٹھیں گے۔ساتھ ہی قرآن مجیدنے اس نظریہ پربھی مہمیز لگائی ہے کہ سودکی بدولت دولت میں زیادتی ہوجاتی ہے۔اخیرمیں اللہ تعالیٰ نے سودخواروں کوناشکراگنہگارقراردیاہے کیونکہ خدانے جودولت ان کودی تھی اس کا تقاضا یہ تھاکہ اس سے وہ کارخیرکرتے مگرانہوں نے اس کی بجائے غریبوں کولوٹاہے جونعمت کی ناشکری ہے اوراس کاغلط استعمال ہے۔
یہودیوں کی دیکھادیکھی عربوں میں کچھ ایسے سرمایہ دارتھے جو سودکا کاروبارکرنے لگے،حضرت عباس اوربنوعمرواوران کے مقروض وغیرہ مسلمان ہوئے تو مسلمان قرض داروں نے مقروض سے جب سودکامطالبہ کیاتویہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔
یاایھاالذین آمنوااتقواللہ وذروامابقی من الربوٰ ان کنتم مومنین۔ فان لم تفعلوافاذنوبحرب من اللہ ورسولہ وان تبتم فلکم رؤس اموالکم لاتظلمون ولاتظلمون۔وان کان ذوعسرۃ فنظرۃ الیٰ مسیرۃ وان تصدقوا خیر لکم ان کنتم تعلمون واتقوایوماترجعون فیہ الی اللہ ثم توفیٰ کل نفس ماکسبت وھم لایظلمون۔
ان آیتوں میں یہ بتایاگیاہے کہ ایک دن آئے گاجب سب خداکے سامنے کھڑے کئے جائیں گے۔ اورجس نے کسی کامال ناحق کھایاہوگااس کاحساب ہوگاتواگرتم نے نیکی کی ہوگی اورمقروضوں کومعاف کیاہوگاتوخداکے یہاں پوراپورامل جائے گا۔
عہدجاہلیت میں دوچیزیں نسلاََبعدنسل جاری رہتی تھیں۔ایک قتل کاانتقام اوردوسراسود۔عرب میں اپنے آباؤاجدادکے قتل کے انتقام کاسلسلہ کئی نسلوں تک جاری رہتا۔اسی طرح سودکی لعنت بھی کئی نسلوں تک گلے میں پڑی رہتی۔
حجۃ الوداع کے موقع پرجب امت کے ایک عظیم اجتماع کوآپ ﷺنے آخری پیغام دیا اور رہنمااصول بتائے۔ اس موقع پرجان کی عظمت اورسودکی مذمت کوواضح طورپربیان فرمایا۔حجۃ الوداع میں زبانِ نبوت سے آخری پیغام سنایا جا رہا ہے،رہنمااصول بتائے جارہے ہیں،عرب کے باطل رسوم ورواج اورنہ ختم ہونے والی لڑائیوں کاسلسلہ توڑا جا رہاہے۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ ذاتی نظیراورعملی مثال بھی ہر قدم پرپیش کی جارہی ہے۔ اس وقت ارشادہوتاہے۔آج عرب کے تمام انتقامی خون باطل کئے گئے اورسب سے پہلے میں اپنے خاندان کاخون معاف کرتاہوں،ایامِ جاہلیت کے تمام سودی لین دین اورکاروبارآج ختم کئے گئے اورسب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبدالمطلب کا سودمعاف کرتاہوں۔
عہدجاہلیت میں رباکی صورت یہ تھی کہ غریب کسان اگلی پیداوارکی ادائیگی کے وعدے پرسرمایہ داروں سے قرض لیتے اورپھروعدے کے مطابق اداکرنہ پاتے تو وہ سرمایہ داراپنی مدت بڑھادیتے اوران سے جنس کی مقدارمیں زیادتی کامطالبہ کرتے۔اسی طرح مقداربڑھتی جاتی یہاں تک کہ سود، اصل سے کئی گنازیادہ ہوجاتا فرمایا یایھاالذین آمنوالاتاکلواالربوٰ۔۔۔ الخ۔ اے ایمان والو!اصل سے دوگنا چوگناسودمت کھاؤاورخداسے ڈروتاکہ تم فلاح پاؤاوراس آگ سے بچوجومنکروں کے لئے تیارکی گئی ہے۔اس آیت کریمہ میں تصریح ہے کہ سودخواری کی سزاجہنم ہے اور وہ جہنم جوکافروں کے لئے تیارکی گئی ہے۔
آ پ ﷺنے اپنے ایک خواب میں سودخواروں کوبڑی عبرت ناک اندازمیں دیکھاہے۔بخاری شریف کی روایت ہے کہ فرمایاآپﷺنے کہ میں نے دیکھاکہ خون کی ایک نہرہے اس میں ایک آدمی تیررہاہے اورایک دوسر اہاتھ میں پتھرلئے کنارہ پرکھڑاہے۔پہلاآدمی تھک کرجب کنارہ پرآناچاہتاہے تودوسراشخص اس طرح تاک کرپتھرمارتاہے کہ اس کامنہ کھل جاتاہے اوراوروہ پتھرلقمہ بن کراس کے پیٹ میں چلاجاتاہے۔وہ پتھرکھاکرپھرپیچھے لوٹ جاتاہے جبرئیل نے بتایاکہ یہ پہلاشخص سودخوارہے۔ سزاکی مماثلت ظاہرہے کہ لوگ اپناخون پسینہ ایک کرکے محنت سے جوروزی پیداکرتے ہیں،سودخوارآسانی سے اس پرقبضہ کرلیتاہے تووہ انسان کے خون میں تڑپتاہے جولقمہ بن کراس کے پیٹ میں جاتاہے وہ وہ دولت ہے جس کو سودسے جمع کرتاہے۔ابوداؤشریف کی روایت کے مطابق آپﷺنے سودکھانے والے، کھلانے والے،گواہی دینے والے اوراس کے دستاویزلکھنے والے سب پرلعنت فرمائی ہے۔یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ سودکارجحان خودامت مسلمہ میں بڑھتا جا رہا ہے۔جس کے مذہب نے اتنی سخت وعیدیں سنائی ہیں۔آج اس کے ماننے والے اس سودکو الگ الگ نام دے سے اس حرام خوری میں مبتلاہیں۔اتنی سخت تنبیہ کے باوجود حلال وحرام کی تمیزختم ہورہی ہے۔ مختلف طرح کےالگ الگ اصطلاحوں اورناموں کے ساتھ اس حرام خوری کی لت لگ رہی ہے اوربرائی کونیانام دے کراورنیاعنوان لگا کراس لعنت میں لوگ گرفتارہورہے ہیں۔اس طرح یہ حرام لقمہ ان کے پیٹ میں جاتاہے اورانہیں احساس بھی نہیں ہوتا۔
دوسری طرف قابل اطمینان پہلویہ ہے کہ ترقی یافتہ کہی جانے والی دنیابھی سودی نظام سے تنگ آکراب اسلامی تعلیم کی طرف راغب ہورہی ہے۔اقتصادی بحران کے بعدپوری دنیامیں اسلامی بینک کاری کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے۔ اسلامی بینک کاری سے مرادایسامالیاتی نظام ہے کہ جس میں شریعت کے اصولوں کی پاسداری کی جائے۔ دوسرے الفاظ میں سودسے پاک بینک کاری کانظام ہو۔اگرچہ اسلامی حلقوں میں شرعی اصولوں کی بنیادپربینک کاری کے نظام کی ضرورت توہمیشہ سے محسوس کی جاتی رہی ہے مگرگذشتہ صدی عیسوی کی چھٹی دہائی میں جب مغربی مالیاتی نظام میں خامیاں ظاہرہونی شروع ہوئیں تواس کے متباد ل نظام کی تلا ش شروع کی گئی۔ چنانچہ اس متبادل نظام یعنی اسلامی بینک کاری کاپہلاتجربہ1966میں مصرکے ایک شہرمیں سوشل بینک کے قیام کی صورت میں ہوامگر1983کاسال بجا طور پر دنیا بھرمیں اسلامی بینک کاری کے وجودمیں آنے کاسال قراردیاجاسکتاہے۔امریکہ میں جہاں نائن الیون کے بعداسلامی بینک کاری کے شعبے کوبندکردیاگیاتھامگراب وہاں کے سرمایہ داربھی اس طرف متوجہ ہورہے ہیں چنانچہ2009میں امریکہ میں پندرہ اسلامی مالیاتی ادارے قائم ہوئے تھے اوراب وہاں200سے زائداسلامی بینک کام کررہے ہیں۔خودعیسائی فرقہ کیتھولک کے سابق پوپ بینیڈکٹ کے حوالہ سے مقامی اخبارایل اوسرورومانونے لکھاہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کواسلامی بینکنگ نظام کے ذریعہ حل کیاجاسکتاہے۔ پوپ نے مغربی بینکوں کواسلامی بینکنگ نظام کے اپنانے کامشورہ ایسے وقت میں دیاہے کہ جب پوری دنیااقتصادی بحران سے دوچارہے اخبارلکھتاہے کہ اسلامی بینکنگ نظام کی اساس جن اخلاقی بنیادوں پررکھی گئی ہے اس کو بااختیارکرکے ہی بینک اوراس کے صارفین کے درمیان حائل دوریاں دورکی جاسکتی ہیں نیزمالیاتی اداروں کی کارکردگی کوبھی بہتربنایاجاسکتاہے۔
چین جودنیاکی سب سے تیزی سے ترقی یافتہ معیشت ہے وہ مغربی مالیاتی نظام کے بحران کودیکھتے ہوئے اوربلاسودبینک کاری کی افادیت کومحسوس کرتے ہوئے اسلامی فائننس سسٹم میں داخل ہونے کی کوشش کررہاہے۔اس مقصدکیلئے اس نے اسلامی بینک کولائسنس جاری کئے ہیں۔دنیاکے75سے زائدممالک میں اب 1500کے قریب اسلامی بینکوں اورمالیاتی اداروں کانیٹ ورک ہے جوتین اعشاریہ ایک بلین ڈالرسے زائداثاثے رکھتے ہیں۔مغربی ممالک میں خودلندن اسلامی فائننس کا ایک بڑامرکزبنتاجارہاہے۔ یہ تفصیلات اس لئے بیان کیں تاکہ یہ واضح ہوسکے کہ اسلامی غیرسودی نظام کتنامفیدہے۔ یہ اسلامی تعلیمات کااعجازہی ہے کہ سودکے بڑھتے رجحان کے بعدآخردنیانے اس حقیقت کوکس طرح تسلیم کرلیاہے کہ ابدی مذہب نے جس لعنت کوچودہ سوبرس قبل ہی مستردکیاتھا،ترقی یافتہ ممالک آج اس کے اعتراف پر مجبوراوراس سودی نظام سے چھٹکاراپانے کے لئے بے تاب ہیں۔ اقتصادی بحران کے بعد دنیا کوعافیت اسی اسلامی تعلیم کی پناہ گاہ میں نظرآتی ہے۔ اورپوری دنیااسلامی تعلیم کے سامنے سرنگوں ہے-