عُشر کے مسائل

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عُشر کے مسائل
……متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن ﷾
مسلمان پر جو عبادات مقرر کی گئی ہیں ان میں سے بعض بدنی عبادات کہلاتی ہیں جیسے نماز ،روزہ، بعض مالی عبادات کہلاتی ہیں جیسے زکوٰۃ، عشر وغیرہ اور بعض دونوں کا مجموعہ ہیں جسے حج، جہاد وغیرہ۔
مالی عبادات میں زکوٰۃ کو ایک اہمیت حاصل ہے۔ جس طرح سونا، چاندی، مال تجارت اور مویشی وغیرہ پر زکوٰۃ ہوتی ہے کہ ان کا چالیسواں حصہ نکالنا فرض ہے، اسی طرح زمین کی بھی زکوٰۃ ہے جسے ”عشر “کہا جاتا ہے۔ عشر کے مستقل احکام شریعت میں بیان کیے گئے ہیں۔ بعض صورتوں میں پیداوار کا عشر یعنی دسواں حصہ واجب ہوتا ہے اور بعض میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ۔ لیکن فقہاء کے عرف میں دونوں کو ”عشر “ہی کہتے ہیں۔
عشر کا وجوب:
قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ کاارشادہے:
يَآأَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبَاتِ مَا كَسَبْتُمْ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ.
(البقرۃ: 267)
ترجمہ :اےایمان والو! اپنی کمائی میں سے پاکیزہ چیزیں خرچ کرواوراس (پیداوار)میں سے (بھی )جو ہم نے تمہارےلیے زمین سے پیداکی ہے۔
اس کے تحت علامہ آلوسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
يَعْنِيْ مِنَ الْحَبِّ وَالتَّمَرِ وَكُلِّ شَيْءٍ عَلَيْهِ زَكوٰةٌ
(روح المعانی: ج 2 ص: 39)
ترجمہ: اللہ کے فرمان﴿ وَمِمَّا أَخْرَجْنَا لَكُمْ مِنَ الْأَرْضِ﴾ سے مراد یہ ہے کہ اناج، کھجور اور ہر وہ چیزہے جس میں زمینی زکوٰۃ (یعنی عشر) واجب ہے (خدا کی راہ میں دو)
حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:
فِيْمَا سَقَتِ السَّمَاءُ وَالْعُيُونُ أَوْ كَانَ عَثَرِيًّا الْعُشْرُ وَمَا سُقِيَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشْرِ۔
(صحیح البخاری: باب العشرفیمایسقی من ماء السمآء، ج 1 ص: 201)
ترجمہ: جو کھیتی بارش کے پانی یاقدرتی چشمے کے پانی سے سیراب ہو یا خود بخود سیراب ہو (مثلاً نہر وغیرہ کے کنارے پر واقع ہو جس کی وجہ سے پانی دینے کی حاجت نہ ہو) تو اس میں سے عشر لیا جائے، اور جس کھیتی میں کنویں سے پانی لیا جائے تو اس میں سے نصف عشر لیا جائے۔
وجوب عشر کی شرائط:
1 مسلمان ہونا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عشر ایک عبادت ہے اور کافر عبادت کا اہل نہیں۔
2: زمین کا عشری ہونا۔ خراجی زمین پر عشر نہیں۔
3: زمین سے پیداوار کا ہونا۔ لہذا اگر کسی وجہ سے پیداوار نہیں ہوئی، مثلاً مالک نے کوتاہی برتی، یا اس نے کھیت کی خبر گیری نہیں کی، یا کسی آفت کے سبب فصل اُگی ہی نہیں تو بہر صورت عشر ساقط ہو جائے گا۔
4: پیداوار ایسی چیز ہو جس کو اگانے کا رواج ہو، اور لوگ عادۃً اسے کاشت کر کے اس سے نفع بھی اٹھاتے ہوں۔ لہذا خود رو گھاس یا بے کار قسم کے خود رو درخت اگر کسی زمین میں پیدا ہو جائیں تو ان میں عشر نہ ہوگا۔ اگر زمین میں بانس یا گھاس وغیرہ آمدن کی غرض سے لگایا گیا ہو تو اس میں عشر ہو گا، اگر خود بخود کوئی درخت اگا ہے تو اس میں نہیں ہو گا۔
(بدائع الصنائع: ج 2، کتاب الزکوٰۃ)
فائدہ:
عشر اور عام احکام شریعت میں ایک فرق یہ بھی ہے کہ دیگر احکام شریعت میں عاقل اور بالغ ہونا بھی شرط ہوتا ہے لیکن زمین پر عشر کے وجوب میں یہ دونوں چیزیں شرط نہیں، لہذا زمین کا مالک اگر بچہ یا مجنون ہو تو بھی اس زمین کی پیداوار میں عشر واجب ہو گا اور ان دونوں کے اولیاء پر اس کا ادا کرنا فرض ہو گا۔ بخلاف زکوٰۃ کے کہ زکوٰۃ بچہ اور مجنون کے مال میں واجب نہیں ہوتی۔
عمومی مسائل:
1: عشر کے لیے ضابطہ یہ ہے کہ جتنی پیداوار حاصل ہو چاہے کم ہو یا زیادہ، اس کا عشر ادا کیا جائے۔
(بدائع الصنائع: ج 2، کتاب الزکوٰۃ)
2: عشر جس طرح کھیتی میں واجب ہوتا ہے اسی طرح پھل اور ترکاریوں میں بھی واجب ہے۔
3: اگر کسی درخت سے سال میں ایک مرتبہ سے زائد مرتبہ پھل حاصل ہوتا ہو تو جتنی مرتبہ پھل حاصل ہو گاتو ہر مرتبہ اس پر عشر واجب ہو گا۔
4: اگرکوئی سبزی ایسی ہو جو ایک مرتبہ کاٹنے کےبعددوبارہ اگ آتی ہوتوجتنی مرتبہ اسے کاٹیں گے ہر مرتبہ اس کاعشرواجب ہوگا۔
5: اگرفصل، پھل یاسبزی تھوڑی تھوڑی کرکے کاٹی جائے یاتوڑی جائے تو اس صورت میں جتنی مقدار کاٹتے یا توڑتے جائیں اسی کاعشراداکرتےجائیں۔
6: جن چیزوں کی پیداوار مقصود ہو تو ان میں عشر واجب ہوتا ہے جیسے کپاس، گندم، چاول، چنا، مکئی، سبزی ترکاری، پھل وغیرہ اور جن چیزوں کی پیداوار مقصود نہ ہو بلکہ پیداوار کے ساتھ ضمنی طور پر حاصل ہوتی ہوں جیسے گندم کا بھوسہ، مکئی کا بھوسہ، چاول کا بھوسہ یا خود بخود اگ آتی ہوں جیسے گھاس وغیرہ تو اصولاً ان میں عشر واجب نہیں لیکن اگر اس قسم کی چیزوں کی پیداوار مقصود ہو خواہ بیچنے کے لیے یا ذاتی استعمال یا جانوروں کے چارہ وغیرہ کے لیے تو ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔
7: اگر کھیتی مثلاً گندم، مکئی، جو وغیرہ کو جانوروں کے چارے کے حصول کے لیے بویا جائے اور پختہ ہونے سے پہلے ہی کاٹ لی جائیں تو چونکہ ان چیزوں سے بھی پیداوار مقصود ہوتی ہے اس لیے ان میں بھی عشر واجب ہو گا۔
8: کسی بڑی فصل مثلاً گندم، گنا وغیرہ کے ساتھ کوئی دوسری فصل بھی ضمناً شامل کر دی جیسے لوبیا، چنے وغیرہ تو اس پر بھی عشر واجب ہے کیونکہ یہاں ان چیزوں کی پیداوار مقصود ہوتی ہے۔
9: زمین میں خود رو درخت پیدا ہو جائیں تو ان میں اور حاصل شدہ لکڑی میں عشر واجب نہ ہو گا۔ ہاں اگر ان کو لکڑی کے حصول کی غرض سے لگایا جائے تو ان پر بھی عشر واجب ہو گا۔
10: درخت سے نکلنے والی چیزوں مثلاً گوند وغیرہ پر عشر واجب نہیں۔ اسی طرح مختلف سبزیوں اور پھلوں کےبیج جوصرف کھیتی کے لیے استعمال ہوتے ہیں یا دوائی کے کام آتے ہیں (غذائی اجناس کےطورپرنہیں ہوتے) جیسے خربوزہ، تربوز وغیرہ کے بیج تو ان پر بھی عشر واجب ہے۔
11: عشری زمین سےاگرشہدنکالا جائےتواس پربھی عشرواجب ہے، شہد کے عشر میں ہر حال میں دسواں حصہ واجب ہے خواہ اس پرکتنےہی اخراجات آئیں، یہ اخراجات اس سے نکالےنہیں جائیں گے۔
12: گھرکےصحن وغیرہ میں ترکاری یادرخت لگائےجائیں توان سے حاصل ہونےوالی پیداوارپرعشرنہیں، وجہ یہ ہے کہ یہ چیزیں مکان کے تابع ہیں اورمکان پرعشرنہیں لہذا ان چیزوں پر بھی عشر نہیں۔
13: کسی نےاپنےرہائشی مکان کومسمارکرکے اسے مستقل باغ سےتبدیل کردیاتو چونکہ اب اس کی حیثیت باغ کی ہے اس لیےاس باغ میں آنے والےپھلوں پر عشر واجب ہوگا۔
14: عشری زمین اگر مزارعت پر دی جائے (عموماً زمین زمیندار کی اور محنت، بیج، ہل وغیرہ کاشتکار کے ذمے ہوتا ہے اور پیداوار میں دونوں کا حصہ ہوتا ہے) اس صورت میں زمیندار اور کاشتکار دونوں پر اپنے اپنے حصے کی پیداوار کا عشر واجب ہے۔
(بدائع الصنائع: ج 2، کتاب الزکوٰۃ)
15: عشری زمین ٹھیکے پر دی جائے تو اس صورت میں بہت سارے اہل علم حضرات کا فتوٰی یہ ہے کہ پیداوار کا عشر کرائے دار پر ہے، زمین کے مالک پر نہیں۔
)امداد الفتاوٰی: ج2، فصل فی العشر والخراج وغیرہ(
16: ریشم پرعشرواجب نہیں۔
مقدارِ واجب:
1: جس زمین میں سیراب کرنے والے پانی پر کچھ محنت یا خرچ نہیں کرنا پڑتا، مثلاً بارش کا پانی، قدرتی چشمہ یا نہری پانی جو مفت ملتا ہے، سے زمین سیراب ہوتی ہے تو اس میں بطور عشر پیداوار کا دسواں حصہ واجب ہے، اور اگر پانی پر محنت یا خرچ کرنا پڑتا ہے جیسے کنویں یا ٹیوب ویل کا پانی یا نہری پانی جس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے تو اس صورت میں پیداوار کا بیسواں حصہ واجب ہے۔
2: اگر کوئی زمین دونوں قسم کے پانی سے سیراب ہو مثلاً کچھ بارش کے پانی سے اور کچھ ٹیوب ویل یا کنویں سے پانی سے تو اس میں اکثر کا اعتبار کیا جائے گا۔ چنانچہ اگر زیادہ سیرابی بارش کے پانی سے ہوئی ہے تو دسواں حصہ اور اگر زیادہ سیرابی ٹیوب ویل یا کنویں کے پانی سے ہوئی ہے تو بیسواں حصہ واجب ہو گا۔
3: اگر کسی زمین کی آب پاشی دونوں طریقوں مثلاً بارش کے پانی اور کنویں کے پانی سے برابر برابر ہو تو پیداوار کے نصف حصہ میں دسواں حصہ اور دوسرے نصف میں بیسواں حصہ واجب ہو گا۔
4: زمین کوکاشت کےقابل بنانےسےلےکرفصل پکنےتک جتنےاخراجات ہوتےہیں، مثلاً: ہل چلانا، زمین کو جڑی بوٹیوں سےخالی کرنا،بیج ڈالنا، پانی دینا، کھاد ڈالنا، اسپرےکرنا۔ ان اخراجات کوعشرکی ادائیگی سےنہیں نکالا کیاجائےگا۔ بلکہ اخرجات نکالےبغیر زمین کی کل پیداوارپرعشرواجب ہوگا۔
(بدائع الصنائع ، ج 2 کتاب الزکوٰۃ)
5: فصل پکنےکےبعد ہونے والے اخراجات کوبھی نہیں نکالا جائے گا۔ اس لیے کٹائی کی اجرت، تھریشروغیرہ کاخرچہ بھی نکالے بغیرعشر ادا کیاجائےگا۔
6: اگرپیداوارکامالک مقروض ہےتوبھی اس پرعشرواجب ہوگا،قرض کو پیداوار سے نہیں نکالاجائےگا۔
(بدائع الصنائع، کتاب الزکوٰۃ)
عشر کے مصارف:
عشر کے مصارف وہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں، یعنی ایسامسلمان جس پر نہ زکوٰۃ واجب ہو اور نہ ہی ضروریاتِ خوردونوش، لباس و رہائش سے زائد اتنی نقد رقم، ضرورت سے زائد کپڑے، فرنیچر وغیرہ ہو جس کی قیمت ساڑھے باون تولے چاندی کے برابر ہو جائے تو ایسا شخص زکوٰۃ و عشر کا مستحق ہے۔زکوٰۃ کی ادائیگی کی طرح عشرکی ادائیگی کیلئے بھی غریب کومالک بناناشرط ہے۔
(بدائع الصنائع، ج 2 فصل، وامابیان رکن ھذاالنوع)
عشرپیداوارکی جنس سے دیناضروری نہیں بلکہ اس کی قیمت سےبھی اداکیاجاسکتاہے۔
(ردالمحتار)
 
نرم گفتار
8 مارچ بروز اتوار مرکز اہل السنت والجماعت میں ششماہی امتحانات کے نتائج اور تقسیم انعامات کی پروقار تقریب منعقد ہوئی، متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن حفظہ اللہ کی دعوت پر جامعہ اسلامیہ امدادیہ فیصل آباد کے مہتمم مفتی محمد طیب دام اللہ ظلہ اپنی گوناگوں مصروفیات کے باعث بروقت تشریف لائےاور مرکز اہل السنت کے پوزیشن ہولڈرز طلباء میں انعامات تقسیم کیے بعد ازاں طلباء ، اساتذہ ، عملہ اور اراکین ادارہ کو مختصر نصائح ارشاد فرمائیں۔ افادۂِ عام کی غرض سے پیش خدمت ہیں۔ ادارہ
الحمدللہ !الحمد للہ وکفیٰ والصلوٰۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ۔ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم : وَقُل لِّعِبَادِي يَقُولُوا الَّتِي هِيَ أَحْسَنُ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا . صدق اللہ العظیم
اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم
اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم
اللھم صلی علی سیدنا ومولانا محمد وعلی آل سیدنا ومولانا محمد وبارک وسلم
حضرات علماء کرام اور عزیز طلباء! آپ کے ادارے میں آنے کی تمنا تھی اور جہاں آدمی کو جانے کی تمنا ہو اور وہاں کی دعوت دی جائے تو آدمی اس کو بغیر سوچے سمجھے قبول کرلیتا ہے اور میں بھی اسی شوق و جذبے کے ساتھ یہاں پر حاضر ہوا ہوں اور مولانا محمد الیاس گھمن صاحب کی دعوت کو میں نے قبول کیا۔ یہ انعامات کے تقسیم کرنے کا موقع ہے اور امتحانات کے بعد انعامات تقسیم کیے جاتے ہیں تاکہ ان طلباء کی حوصلہ افزائی ہو جنہوں نے محنت کی ہے اور اعلیٰ نمبرز حاصل کیے ہیں اور ان طلباء کو شوق پیدا ہو جنہوں نے اعلیٰ نمبر حاصل نہیں کیے لیکن محنت کرتے تو اعلیٰ نمبر ضرور حاصل کرتے تو یہ انعام کی تقریب اور یہ مجلس انعام لینے والوں کے لیے بھی ہوتی ہے اور جو باقی طلباء ہیں ان کے لیے بھی۔
نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنا یہ مطلوب ہے اور قرآن کریم میں اس کا حکم ہے: فاستبقوا الخیرات نیکی اور اچھائی کے کاموں میں ایک دوسرے سے آگے بڑھو۔
عزیز طلباء! آپ کا ایک امتحان تو وہ ہے جو اساتذہ لیتے ہیں یا جن کو وہ ممتحن منتخب کرتے ہیں اور ایک امتحان آپ کا وہ ہے جب آپ مدرسے سے تعلیم حاصل کر کے گھر جاتے ہیں

اپنی برادری میں جاتے ہیں

اپنے والدین سے معاملات کرتے ہیں

اپنے بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ

یا نکاح کے بعد اپنی بیوی سے معاملات کرتے ہیں

اپنے بچوں سے معاملات کرتے ہیں

ملنے جلنے والوں کے ساتھ معاملات کرتے ہیں۔
یہاں اساتذہ کرام آپ کا امتحان لیتے ہیں تو امتحان میں آپ کی علمی استعداد کو دیکھتے ہیں کہ آپ کی علمی استعداد کیا ہے؟ اور جو آپ کو پڑھایا گیا ہے آپ نے اس کو کس حد تک سمجھا ہے؟ اور کس حد تک یاد کیا ہے۔
لیکن جب آپ معاشرے میں جاتے ہیں تو کوئی آپ سے یہ نہیں پوچھے گا کہ” قضیہ شرطیہ“ کیا ہوتا ہے؟ اور ”متصلہ و منفصلہ“ کیا ہوتا ہے ؟اور مناطقہ کے ہاں اشیاء کی تعریف کیا ہے؟ جنس کیا ہے؟ نوع کیا ہے ؟اور فصل کیا ہے ؟یہ چیزیں نہیں پوچھی جاتیں وہاں علم نہیں دیکھا جاتا وہاں یہ دیکھا جاتا ہے کہ یہ مدرسے میں رہ کر آیا ہے اور دن رات اساتذہ کی نگرانی میں گزار کر آیا ہے اور یہ ہمارے ماحول سے نکل کر گیا تھا اور یہ اس ماحول سے ڈھل کر دوبارہ ہمارے ماحول میں لوٹ آیا ہے اس کی زندگی میں کیا اثرات پڑے ہیں؟
اس لیے جیسے جیسے آپ اپنے علم میں بہتری لانے کی کوشش کرتے ہیں اسی طرح عمل میں اور لوگوں کے ساتھ برتاؤ میں خوب آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
انا اعلمکم باللہ واتقاکم باللہ .
دونوں باتیں ایک جگہ ارشاد فرمائی ہیں، میں تم میں سے سب سے زیادہ علم رکھنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ تقوی رکھنے والا بھی ہوں۔ تو جہاں انسان کے اندر علم ہونا چاہیے تو وہاں تقوی بھی ہونا چاہیے تو عالم ہونا علمی کمال اور اتقٰی ہونا عملی کمال ہے۔ ہمارے معاشرے میں جن چیزوں سے ہمیں واسطہ پڑتا ہے ان میں سے ایک اہم چیز زبان ہے زبان کے بارے میں قرآن میں بھی تاکید ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات بھی میں بھی تاکیدات ہیں کہ انسان کو زبان احتیاط اور سوچ سمجھ کر استعمال کرنی چاہیے اور زبان میں نرمی اور مٹھاس ہونی چاہیے۔ انسان کی گفتگو کا انداز اچھا ہونا چاہیے اس وقت جو میں نے آپ کے سامنے آیت مبارکہ تلاوت کی ہے اس آیت میں بھی حق تعالیٰ شانہ نے یہ حکم اور اس کا زبردست فائدہ ارشاد فرمایا ہے یقولوا اللتی ھی احسن جب زبان سے کوئی بات نکالنی ہو تو اچھی بات نکالنی چاہیے اور حسن نہیں کیا بلکہ باتوں میں سوچ کر جو سب سے اچھی بات ہو وہ بات نکالنی چاہیے۔
ہمارے دیہاتی ماحول میں گالیاں بھی ہوتی ہیں اور پہلے جو لوگ ہوتے تھے ان میں گالم گلوچ لڑائی کے وقت ہوتی تھی اور آج جو ہمارا ماحول ہے اس میں فحش گفتگو ہوتی ہے، بری باتیں ہوتی ہیں اور عالم و دین دار آدمی کی زبان پر گالی تو نہیں ہوتی مگر زبان میں سختی آجاتی ہے اور نا مناسب جملے آجاتے ہیں ایسے جملے کہ سننے والے کا دل پھٹ جائے،کڑوی کسیلی باتیں، لڑنے کی باتیں اور طعنے کی باتیں اور یہ ہمارے ماحول میں عام طور پر رائج ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ دوسرے کے ساتھ استہزاء کا برتاؤ اور تمسخر کا برتاؤ اور یہ ساری چیزیں جو ہماری زبان سے نکلتی ہیں جو کہ اللہ رب العزت کو سخت ناپسند ہیں تو ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ زبان سے بات نکالو تو اچھی؛ بری بات کبھی زبان سے نہ نکالو اور یہ بات حق تعالیٰ شانہ نے اتنے اہتمام سے کی ہے کہ درمیان میں واسطہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لائے کہ یہ بات آپ ان سے کہہ دیجیے! حق تعالیٰ شانہ کا حکم ہمارے لیے بہت بڑا حکم ہے اور پھر نبی سے کہلوائے کہ آپ ان سے کہہ دیجیے پھر اللہ تعالیٰ نے اس بات کے فرمانے میں ایک بہت ہی اچھا انداز اختیار فرمایا ہے ایک نبی سے کہلوایا اور پھر پیار والا انداز اختیار فرمایا یہ نہیں فرمایا کہ لوگوں سے کہو ،نہ یہ فرمایا کہ ایمان والوں سے کہو۔ یہ بھی نہیں فرمایا کہ مسلمانوں سے کہو بلکہ فرمایا کہ میرے بندوں سے کہو کہ زبان سے اچھی بات نکالو! زبان سے غلط بات کبھی بھی نہ نکالو اور پھر فرمایا
۔ إِنَّ الشَّيْطَانَ يَنزَغُ بَيْنَهُمْ ۚ إِنَّ الشَّيْطَانَ كَانَ لِلْإِنسَانِ عَدُوًّا مُّبِينًا
اور انسان پر شیطان دونوں طرف سے حملہ آور ہوتا ہے ایک یہ کہ انسان کو اللہ کی اطاعت سے ہٹانا اللہ کے فرائض سے ہٹانا اور معاصی کو مزین کر کے انسان سامنے پیش کرنا جن کاموں سے اللہ نے منع فرمایا ہے ان کاموں کو مزین کر کے پیش کرے۔
آج کی دنیا اللہ کی نافرمانی میں لگی ہوئی ہے اس لیے کہ شیطان نے ان کے لیے مزین کردی ہے۔ گانا سننا اس کے لیے مزین کردیا ہے حالانکہ ان کو پتہ نہیں ہے کہ جن لذتوں میں وہ پڑے ہوئے ہیں آنکھ کی لذت، کان کی لذت ،اللہ تعالی نے لذت گانوں میں نہیں بلکہ اپنے دین کے کاموں میں رکھی ہے آج لوگ لذت حاصل کرتے ہیں گانا سن کے، موسیقی سن کے ،اگر تلاوت سنیں، نعتیں سنیں تو اس سے لذت حاصل ہوگی۔
گانے میں کیا رکھا ہے؟ موسیقی میں کیا رکھا ہے؟ کچھ نہیں رکھا ہوا۔ آپ دیکھ لیجیے کہ یہ گانا گانے والے اپنے گانے کے ساتھ ساتھ موسیقی کو شامل کرتے ہیں اور بات پھر بھی بنتی نہیں اور گانا صحیح سجتا نہیں اس لیے ان کا گانا زیادہ سے زیادہ 5 منٹ کا 7منٹ کایا 10 منٹ کا۔ بس اس سے زیادہ نہیں ورنہ سننے والے اکتاہٹ کا شکار ہو جاتے ہیں۔ گانے میں آواز اور موسیقی دونوں چیزیں جب ملتی ہیں تو گانے میں جان آتی ہے ہمارے نعت خوان جب نعت پڑھتے ہیں تو کیا حال ہوتا ہے گھنٹہ گھنٹہ پڑھتا ہے رہتا ہے اور مجمع داد دے رہا ہوتا ہے کوئی موسیقی نہیں ہوگی کوئی سرنگی نہیں ہوتی کوئی طبلہ نہیں بج رہا ہوتا اور گانے والے بغیر موسیقی کے گھنٹہ لوگوں کو بٹھا کر دکھائیں! نہیں بٹھاسکتے۔ تو معلوم ہوا کہ اللہ رب العزت نے جو لذت رکھی ہوئی ہے وہ دینی کاموں میں رکھی ہوئی ہے۔
کان کی لذت دینی کاموں میں رکھی ہے مگر شیطان بھڑکا تا ہے ایک شیطان کی محنت ہوتی ہے کہ مخلوق کو اللہ سےدور کرے اور دوسری محنت ہوتی ہے کہ بندوں کو آپس میں لڑائیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ شیطان نے اپنا تخت سمندر پر لگایا ہوا ہوتا ہے اور وہاں سے وہ اپنے کارندوں کو بھیجتا ہے،وہ واپس آکر ساری روداد سناتے ہیں شیطان ان کی باتیں سن کر کہتا ہے آپ نے کچھ نہیں کیا۔ حتی کہ جب کوئی یہ کہتا ہے میں نے دو میاں بیوی میں جھگڑا ڈلوایا ہے اور جھگڑا اتنی حد تک پہنچاہے کہ میاں نے بیوی کو طلاق دے دی۔ تو حدیث شریف میں آتا ہے کہ شیطان بہت خوش ہوجاتا ہے اور شاباش دیتا ہے اور کہتا ہے کہ تو نے بہت اچھا کام کیا ہے پھر کھڑا ہو کر اس کو اپنے سینے سے چپکا دیتا ہے اورداد دیتا ہے۔ کیوں؟ اس لیے کہ انسان کی آپس میں لڑائی کراتا ہے اور اس لڑائی کااور شیطان کی محنت کا سب سے اہم ترین ذریعہ وہ زبان کا استعمال ہے۔ اس لیے جب ہم مدرسے میں پڑھتے ہیں تو ہمیں اپنا عمل کا جائزہ لینا ہے کہ ہم مدرسے سے پڑھ کر چلتے جائیں اور ہم ویسے کے ویسے رہ جائیں ہماری زندگی میں کوئی تبدیل نہ ہو علماء فرماتے ہیں کہ زبان کی حفاظت گو یاد دین کی حفاظت ہے۔
حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ ایسا عمل بتادیجیے کہ جو مجھے جنت میں لے جائے اور جہنم سے دور کرے۔
حضرت معاذ مدینہ میں رہنے والے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے معاذ کیا میں تمہیں خیر کے دروازے نہ بتاؤں جیسے آدمی دروازےسے اندر داخل ہوتا ہے تو پھر مکان باغات جو بھی چیز ہوتی ہے دروازے سے داخل ہو نے کے بعد سب چیزیں مل جاتی ہیں تو تین چیزیں ارشاد فرمائی فرمایا الصوم جنۃ روزہ ڈھال ہے، اور صدقہ خطاؤں کو بجھاتا ہے اور اسی طرح سے تیسری چیز فرمائی کہ رات کے آخری حصے یا درمیانی حصے میں نماز پڑھنا۔
اس کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ کو فرمایا کیا میں تمہیں دین کا سر اور دین کی چوٹی نہ بتاؤں؟ تو حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیوں نہیں ضرور بتائیں، دین کا سر اسلام اور دین کی مضبوطی وہ نماز اور دین کی چوٹی وہ جہاد ہے۔ اور بھی باتیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمائیں۔
آخر میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا میں آپ کو اس سارے دین کی خلاصہ نہ بتاؤں تو حضرت معاذ نے فرمایا ضرور بتائیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زبان کو پکڑا اور فرمایا کہ اس کو کنٹرول میں رکھو، اس کو احتیاط میں رکھو یا ایہا الذین آمنوا قولا سدیدا زبان سے درست بات کہو فائدہ کیا ہوگا، یصلح لکم اعمالکم ویغفرلکم ذنوبکم تمہارے اعمال درست ہوں گے اور تمہاری خطائیں معاف ہوں گی۔ نتیجہ کیا ہوگا ومن یطع اللہ ورسولہ فقد فاز فوزا عظیما اس لیے میری آپ سے درخواست ہے کہ

زبان سے درست بات کرو

غصے سے بات نہ کرو

سخت بات زبان سے نہ نکالو
اگر کسی کی بات برداشت نہیں ہوتی اور غصہ آتا ہے اور زبان کنٹرول نہیں ہوتی تو اس سے دور ہوجاؤ۔جب تک غصہ ٹھنڈا نہیں ہوتا قریب ہی نہ آؤ تاکہ بات کرنے کی نوبت ہی نہ آئے۔

آپس کے معاملات

گھروں کے معاملات

والدین کے معاملات

عزیزوں کے معاملات میں
اپنی زبان کو ٹھیک کرو، یہ اہم ترین شیطان کے حملے سے بچاؤ کا ایک ذریعہ ہے جس نے اپنی زبان ٹھیک کرلی وہ شیطان کے حملے سے محفوظ رہے گا۔ اللہ تعالی ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین