نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط نمبر1:
……مولانا عبدالغفار حسین، انڈیا
نماز میں ہاتھ کہاں باندھیں؟؟
نماز اللہ رب العزت کے دربارمیں حاضری ہے ،اس ہیبت و جبروت والے رب کے سامنے کھڑے ہونے کا تقاضہ یہ ہےکہ نمازی بندہ محض بن جائے اور پورے ادب واحترام کا لحاظ رکھے چنانچہ فرمان خداوندی ہے
وقوموا للہ قانتین اس آیت کی تفسیر میں امام مجاہد ؒ فرماتے ہیں:ومن القنوت الرکوع والخشوع وغض البصر وخفض الجناح من رھبة اللہ عزوجل فکانت العلماءاذا قام احدھم ھاب الرحمن ان یشد نظرہ الی شیءاو یلتفت او یقلب الحصا او یعبث بشیءاو یحدث نفسہ بشیءالا ناسیا مادام فی صلاتہ۔
(الزھد والرقائق لابن المبارک بسند صحیح ،باب فضل ذکر اللہ(
قنوت کہتے ہیں کہ نمازی اللہ کی ہیبت سے اپنے وجو د کو جھکادے ،اپنا دل خوف خدا سے معمور کرے اوراپنی نگاہیں نیچی رکھے، علماء(صحابہ ) جب نماز کےلئے کھڑے ہوتے رحمٰن کی ہیبت کی وجہ سے نہ اپنی نگاہ کسی چیز کی طرف اٹھاتے ،نہ اِدھر اُدھر متوجہ ہوتے ،نہ کنکریوں کو الٹ پُلٹ کرتے ،نہ کسی چیز سے کھیلتے اور نہ ان کا دل دنیا میں اٹکتا الا یہ کہ بھول ہوجائے۔
اسی کا تقاضا ہےکہ نمازی کے ہاتھ دوران نماز بندھے ہوئے ہوں جیسے ایک بادشاہ کے سامنے درباری ہاتھ باندھے کھڑا ہو تا ہے کیونکہ ہاتھ باندھنا خشوع کے زیادہ قریب ہے اور بے کار کاموں میں مشغول ہونے سے روکتا ہے۔
قال العلماء ، والحکمة فی وضع احداھما علی الاخری انہ اقرب الی الخشوع ومنعھا من العبث۔
(شرح نووی علی صحیح مسلم ،باب وضع یدہ الیمنی علی الیسری بعد تکبیرة الاحرام(
ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونے میں بھی ادب اور خشوع ہونا بہت ضروری ہے اسی لئے حضور ﷺ نے ہاتھ باندھنے کا طریقہ بھی بتادیا ہے وہ طریقہ یہ ہے۔
سیدھا ہاتھ اوپر ہو اور الٹا ہاتھ نیچے ہو :

عن سہل الساعدی ؓ کان الناس یومرون ان یضع الرجل الید الیمنی علی ذراعہ الیسری فی الصلوة۔

(صحیح بخاری (

عن وائل بن حجرؓ ان النبی ﷺ ثم وضع یدہ الیمنی علی یدہ الیسری۔
(صحیح مسلم (
سیدھے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو پکڑا جائے :

حدثنا علی بن عبد العزیز -ابو نعیم -موسی بن عمیر العنبری عن علقمة عن ابیہ وائل بن حجر ان النبی ﷺ کان اذا قام فی الصلاة قبض شمالہ بیمینہ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ، والبیہقی بھذا السند فی سنن الصغیر والسنن الکبریٰ (

ہارون بن اسحاق الھمدانی- ابن فضیل عن عاصم بن کلیب عن ابیہ عن وائل بن حجرقال :کنت فیمن اتی النبی ﷺ فقلت لانظرن الی صلاة رسول اللہ ﷺکیف یصلی فرایتہ حین کبر رفع یدیہ حتی حاذتا اذنیہ ثم ضرب بیمینہ علی شمالہ فامسکہ۔
(صحیح ابن خزیمۃ،باب وضع بطن الکف الیمنیٰ علی کف الیسریٰ والرسغ والساعد(
ہاتھ باندھنے کا طریقہ:
سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ پر اس طرح ہو کہ سیدھا ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے پہنچے پر ہو اورسیدھے ہاتھ کا کچھ حصہ بائیں ہاتھ کی پشت اور کلائی پربھی ہو۔

محمد بن یحی - معاویہ بن عمرو- زائدة - عاصم بن کلیب اخبرنی ابی ان وائل بن حجر اخبرہ قال :قلت لانظرن الی رسول اللہ ﷺ کیف یصلی ؟قال فنظرت الیہ فقام وکبر ورفع یدیہ حتی حاذتا اذنیہ ثم وضع یدہ الیمنی علی ظہر کفہ الیسری والرسغ والساعد۔
(صحیح ابن خزیمۃ،باب وضع بطن الکف الیمنیٰ… ورواہ احمد و ابو داؤد وابن حبان بھذا السند وسندہ صحیح (

وکیع -عبدالسلام بن شداد الحریری ابو طالوت-غزوان بن جریر الضبی عن ابیہ قال کان علی ؓ اذا قام الی الصلوة وضع یمینہ علی رسغ یسارہ۔
(رواہ البخاری تعلیقا ،باب استعانۃ الید فی الصلوة ،وابن ابی شیبۃ، باب وضع الیمین، وسند المصنف صحیح (
خلاصہ یہ کہ دوران نماز سیدھے ہاتھ سے بائیں ہاتھ کو اس طرح پکڑا جائے کہ سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی بائیں ہاتھ کے پہنچے پر ہو،اور سیدھے ہاتھ کی ہتھیلی کا کچھ حصہ بائیں ہاتھ کی ہتھیلی کے پشت پر ہو ،اور سیدھے ہاتھ کا کچھ حصہ بائیں ہاتھ کی کلائی پر بھی ہو ،اب یہ صورت جتنی آسانی اور بے تکلفی کے ساتھ ناف کے نیچے یا ناف پر یا ناف کے کچھ اوپر ہاتھ باندھنے میں پائی جاسکتی ہے اتنی آسانی اور بے تکلفی سینے پر ہاتھ باندھنے میں نہیں پائی جاسکتی ، اور شریعت کوئی حکم تکلف کے ساتھ ادا کرنے کو نہیں کہتی کیونکہ شریعت میں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔
حدثنا سلیمان بن حرب ،حدثنا حماد بن زیدعن ثابت عن انس قال کنا عند عمر فقال نھینا عن التکلف
(صحیح بخار ی با ب ما یکرہ من کثرة السوال والتکلف)
خلیفہ راشد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہمیں تکلف سے منع کیا گیا ہے۔ اسی لئے نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا سنت ہے۔
دلیل نمبر1:
حدثنا وکیع ،عن موسی بن عمیر عن علقمة بن وائل عن ابیہ وائل بن حجر ؓقال رایت البنی ﷺوضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوة تحت السرة۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ تحت حدیث بتحقیق الشیخ محمد العوامۃ (
حضرت وائل ؓ فرماتے ہیں:” میں نے حضور ﷺ کو دیکھا کہ آپ ﷺ نے اپنا دایاں ہاتھ بائیں کے اوپر ناف کے نیچے رکھا “
یہ حدیث بالکل صحیح ہے سند کے تمام راوی مضبوط و معتبر ہیں۔
اس حدیث پر سب سے بڑا اعتراض و سوال یہ ہے کہ مصنف ابن ابی شیبہ کا جو نسخہ ہندوستان میں تھا اس میں تحت السرة (ناف کے نیچے )کا لفظ نہیں تھا جب یہی نسخہ پاکستان میں مولانا نور محمد عثمانی ؒ کے مکتبہ ادارة القرآن والعلوم الاسلامیہ سے چھپا تو اس میں تحت السرة (ناف کے نیچے )کے الفاظ زیادہ تھے ،پھر کیا تھا ؟ ایسا شو ربرپا ہوا کہ اللہ کی پناہ ! اس کے ناشر کومتعصب کہا گیا، بددیانت کے لقب سے نوازا گیا بلکہ حد سے گذرتے ہوئے خیانت کرنے والا اور نبی ﷺ پر جھوٹ باندھنے والا کہا گیا۔ جبکہ واقعہ یہ ہے کہ جب مولانا علیہ الرحمۃ نے ہندوستانی نسخہ کو چھاپنے کا ارادہ کیا اور اس کی تحقیق شروع ہوئی تو معلوم ہوا کہ ہندوستانی نسخہ میں آٹھ ہزار سے زیادہ غلطیاں ہیں تو مولانا علیہ الرحمۃ نے مصنف ابن ابی شیبہ کے دوسر ے نسخے تلاش کرنے شروع کئے پھردوسرے نسخے مل جانے پرجہاں ہندوستانی نسخے کی ہزاروں اغلاط کی اصلاح کی گئی وہیں دوسرے نسخوں میں موجود ہونے کی وجہ سے تحت السرة کا لفظ بھی بڑھادیاگیا لہذا اب یہ خاص ہندوستانی نسخے کی اشاعت نہیں ہوئی بلکہ کئی نسخوں کو سامنے رکھتے ہو ایک نیا نسخہ تیا ر کیا گیا جیسا کہ اسی طریقے پر آج کئی کتابیں شائع ہوگئیں ہیں ،لہذا یہ سوال ہی غلط ہےکہ ہندوستانی نسخہ میں یہ لفظ نہیں تھا تو یہاں کیسے آگیا ؟
نیز ایک کتاب کے کئی نسخے ہوتے ہیں جیسا کہ سنن ابو داؤد کے کئی نسخے ہیں ایک نسخہ ابن داسہ کا اور ایک ابن اعرابی کا ،اور کوئی حدیث کسی ایک نسخے میں ہے دوسرے میں نہیں ہے ،جیسا کہ تحت السرة کی دو حدیثیں ابن اعرابی کے نسخے میں ہیں ابن داسہ کے نسخے میں نہیں ہیں ،اب ایک آدمی کوئی ایک نسخہ دیکھے اور اسے وہ حدیث وہاں نہ ملے تو وہ یہ تو کہہ سکتا ہے کہ مجھے یہ حدیث نہیں ملی ، مگر یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ اس حدیث کاوجود ہی نہیں ہے ؟ آپ کو نہیں ملی تو کسی کو بھی نہیں مل سکتی ؟ ےا آپ کو اس حدیث کانہ ملنا ہر ایک کے لئے حجت ہے ؟ بہر حال ! پرہم نے اس ہندوستانی نسخے کا حوالہ نہیں دیا ہے تاکہ اعتراض ہی ختم ہوجائے بلکہ ہم نے بیروت سے شائع ہونے والے شیخ محمد عوامہ کے نسخے حوالہ دیا ہے،شیخ نے یہ نسخہ دس نسخوں کو سامنے رکھتے ہوئے تیار کیا ہے ، مصنف ابن ابی شیبہ کا یہ نسخہ شیخ عوامہ کی تحقیق کے ساتھ تین کتب خانے وا لوں نے مل کرچھاپاہے۔
1: دارالقبلۃ للثقافۃ الاسلامیۃ، یہ کتب خانہ سعودیہ عرب کے سب سے بڑے شہر جدہ میں واقع ہے۔
2: موسسۃ علوم القرآن ،یہ کتب خانہ ملک شام کی راجدھانی دمشق میں شارع مسلم البارودی پر واقع خولی وصلاحی بلڈنگ میں واقع ہے۔
3: دار قرطبہ ،یہ کتب خانہ ملک لبنان کے شہر بیروت(جسے کتابوں کاشہرکہا جاتا ہے) میں ہے۔
اس نسخہ میں شیخ عوامہ نے بھی تحت السرة کا لفظ زیادہ کیا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں ،شیخ فرماتے ہیں کہ مجھے تحت السرة کے الفاظ دو نسخوں میں ملے۔
1: مولانا عابد سندھی ؒ کا نسخہ : یہ نسخہ پہلے مدینہ منورہ کے مکتبہ محمودیہ میں تھا اور اب ترکی کے توپ قبو سرائے میں ہے ،یہ نسخہ شیخ عابد سندھی ؒ نے اپنے لئے شیخ محسن الزراقی کے ہاتھوں لکھوایا تھا،اس نسخہ میں یہ حدیث تحت السرة کی زیادتی کے ساتھ ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ شیخ عابد سندھی ؒ نے”طوالع الانوار علی الدر المختار“ میں لکھا ہے
”ومما لا یماری فی الاحتجاج بہ ما اخرجہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہ حدثنا وکیع ،عن موسی بن عمیر عن علقمة بن وائل عن ابیہ وائل بن حجر ؓقال رایت البنی ﷺوضع یمینہ علی شمالہ فی الصلوة تحت السرة،ورجالہ کلھم ثقات اثبات“
اس کا قلمی نسخہ راقم کے پاس محفوظ ہے۔
2: شیخ مصطفی الزبیدی کا نسخہ : یہ نسخہ پہلے قاہرہ میں تھا اور اب تیونس میں ہے اس کے لکھنے والے شیخ یوسف بن عبد اللطیف حرانی حنبلی ہیں اس کی ایک فوٹو کاپی سعودی عرب کی راجدھانی ریاض کی امام محمد بن سعود یونیورسٹی میں ہے ریاض ہی سے شیخ عوامہ نے اس کی فوٹو کاپی حاصل کی ہے ،اسی نسخے سے امام قاسم بن قطلوبغا علیہ الرحمۃ نے اس حدیث کومع سند و متن کے اپنی کتاب ”التعریف والاخبار بتخریج احادیث الاختیار“ میں ذکر کرکے فرمایا” ھذا اسنا د جید“۔
اس کا قلمی نسخہ ہمارے پاس محفوظ ہے اور بوقت ضرورت پیش بھی کیا جا سکتا ہے۔ اب اس کے بعد بھی اگر کسی کو اطمینان نہ ہو تو ہم کیا کرسکتے ہیں ؟
دلیل نمبر2:

حدثنا محمد بن القاسم،حدثنا ابو کریب ،حدثنا حفص بن غیاث عن عبد الرحمن بن اسحاق عن النعمان بن سعد عن علی ؓ

(سنن الدارقطنی ،باب فی اخذ الشمال(

اخبرنا ابوبکر بن الحارث ،انباناعلی بن عمر الحافظ حدثنا محمد بن القاسم ،حدثنا ابو کریب حدثنا حفص بن غیاث عن عبدالرحمن بن اسحاق عن النعمان بن سعد عن علی ؓ(السنن الکبری للبیہقی،باب فی اخذ الشمال(
قال ” ان من سنة الصلوة وضع الیمین علی الشمال تحت السرة “
حضرت علی ؓ نے فرمایا:”بیشک نماز کی سنت یہ ہے کہ سیدھا ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے “
اس پر اکثر محدثین نے کلام کیا ہے اور اس کو عبدالرحمن بن اسحاق کی وجہ سے ضعیف کہا ہے چنانچہ علامہ نووی ؒ فرماتے ہیں:
واما حدیث علی انہ قال من السنة فی الصلاة وضع الاکف علی الاکف تحت السرة ضعیف متفق علی تضعیفہ رواہ البیہقی والدار قطنی من روایۃ ابی شیبۃ عبد الرحمن بن اسحاق الواسطی وہو ضعیف بالاتفاق
(شرح نووی علی صحیح مسلم تحت حدیث مذکور )
یہ حدیث بالاتفاق ضعیف ہے عبدالرحمٰن بن اسحاق کے بالاتفاق ضعیف ہونے کی وجہ سے۔
عبدالرحمن بن اسحاق کوفی کا تعارف :
نام عبدالرحمن ،والد کا نام اسحاق ،کوفہ کے رہنے والے ہیں ان کی کنیت ابو شیبہ اور لقب واسطی ہے اور یہ نعمان بن سعد تابعی ؒ کے بھانجے ہیں ،حضرات محدثین نے ان پر بہت کلام کیا ہے۔
امام یحی بن معین رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عبدالرحمن متروک
( میزان الاعتدال)
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں : عبدالرحمن منکر
( میزان الاعتدال(
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : فیہ نظر
( التاریخ الکبیر (
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ان کی یاد داشت کے بارے میں بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔
( سنن الترمذی باب ما جاءفی قول المعروف (
یہاں تک کہ علامہ ابن جوزیؒ نے ان کی حدیث کو موضوع کہا ہے۔
(القول المسدد۳۳(
اسی لئے علامہ نووی ؒنے متفقہ طور پر ضعیف قرار دیاہے۔
( شرح صحیح مسلم (
یہاں یہ بھی ذہن نشین رہے کہ
امام ترمذیؒ نے ان کی ایک حدیث کواسی سند کے ساتھ حسن کہا ہے۔
( سنن الترمذی،باب ماجاءفی صوم المحرم (
امام حاکم رحمہ اللہ نے بھی اپنی مستدرک میں ان کی ایک حدیث کو اسی سندکے ساتھ صحیح کہا ہے۔
( مستدرک حاکم(
امام ابن خزیمہ ؒ نے بھی ان کی ایک حدیث کواسی سند کے ساتھ صحیح کہا ہے۔
( صحیح ابن خزیمۃ،باب ما اعد اللہ (
امام بخاری ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے ان کی حدیث میں غور کیا تو ان کی حدیث مقارب یعنی صحیح کے قریب ہے۔
( العلل الکبیر للترمذی(
کیا عبدالرحمن بن اسحاق متروک ہیں ؟
1: علامہ ابن جوزی ؒ نے دعوی کیا کہ مسند احمد میں موضوع روایتیں بھی ہیں چنانچہ انہوں نے مسند کی کئی روایتوں کو موضوع قرار دیاہے ان میں سے ایک روایت کو عبد الرحمن بن اسحاق کی وجہ سے موضوع کہا فرماتے ہیں
ھذا الحدیث(ان فی الجنۃ لسوقاً )لایصح والمتھم فیہ عبد الرحمن بن اسحاق وھو ابو شیبۃ الواسطی ،قال احمد : لیس بشیء،منکر الحدیث وقال یحی متروک
حافظ ابن حجر ؒنے علامہ ابن جوزی ؒ کے جواب میں ایک کتاب ”القول المسدد“ لکھی اس کتاب میں حافظ نے ثابت کیا ہے کہ علامہ ابن جوزی ؒ نے مسند کی جن حدیثوں کوموضوع کہا ہے ان کا کہنا غلط ہے چنانچہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے عبدالرحمن کی روایت کا جواب دیتے ہوئے فرمایا
:قلت قد اخرجہ من طریقہ الترمذی وقال غریب،وحسن لہ غیرہ مع قولہ انہ تکلم فیہ من قبل حفظہ وصحح الحاکم من طریقہ حدیثاًغیرھذا، واخرج ابن خزیمۃ فی الصیام من صحیحہ آخر لکن قال ان صح الحدیث ولکن فی القلب من عبد الرحمن شیء.
( القول المسدد (
2: امام ابوداؤد ؒ نے اپنی کتاب سنن ابو داؤد شریف لکھ لینے کے بعد مکہ والوں کو خط لکھا کہ میں نے ان ان اصول کو سامنے رکھتے ہوئے سنن ابی داؤد لکھی ہے اس خط میں امام ابو داؤد لکھتے ہیں کہ میں نے اپنی اس کتاب میں کسی متروک راوی سے روایت ذکر نہیں کی ہے۔ ولیس فی کتاب السنن الذی صنفتہ عن رجل متروک الحدیث شیء (رسالۃ ابی داؤد الی اہل مکۃ)عبد الرحمن سنن ابو داؤد کے راوی ہیں اگر یہ متروک ہوتے تو امام ابو داؤد ان کی روایت ہی نہیں لاتے۔تو معلوم ہوا کہ عبد الرحمن متروک راوی نہیں ہیں نہ امام ابوداؤد کے نزدیک اور نہ حافظ ابن حجر ؒ کے نزدیک۔
کیا عبدالرحمن بن اسحاق منکرہیں ؟
امام ابو داؤدؒ آگے لکھتے ہیں:” اگر کوئی منکر راوی آگیا ہو تو میں نے بیان کردیا ہے کہ یہ راوی منکر ہے
واذا کان فیہ حدیث منکر بینت انہ منکر.
(رسالۃ ابی داؤد الی اہل مکۃ (
امام ابو داؤد سنن میں ان کی روایت بھی لائے اور ان کو منکر بھی نہیں کہا اگر منکر ہوتے تو بیان کر د یتے کہ عبدالرحمن کی یہ حدیث منکر ہے نیزکسی راوی کو منکر کہنے کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ وہ راوی ضعیف ہے اور نہ یہ مطلب ہوتا ہے کہ اس کی تمام روایتیں منکر ہوتی ہیں بلکہ ایک خاص سند کی روایتیں منکر ہوتی ہیں:
وقال الذھبی فی المیزان فی ترجمة عبداللہ بن معاویہ الزبیری قولھم منکر الحدیث لا یعنون بہ ان کل ما رواہ منکر بل اذا روی الرجل جملة وبعض ذلک مناکیر فھو منکر الحدیث وما کل من روی المناکیر یضعف۔
(الرفع والتکمیل (
اور امام احمد ؒ نے عبدالرحمن کی تمام حدیثوں کو منکر نہیں کہا جیسا کہ خیانت کرتے ہوئے بعض ہمارے اہل حدیث احباب کی کتابوں میں لکھا گےا ہے بلکہ امام احمد رحمہ اللہ نے عبدالرحمن عن النعمان بن سعد عن مغیرة بن شعبة والی سندکی حدیثوں کو منکر کہا
وعبدالرحمن ھو الذی یروی عن النعمان بن سعد عن المغیرة بن شعبة عن النبی ﷺ احادیث مناکیر۔
(موسوعۃ اقوال الامام احمد فی رجال الحدیث)
معلوم ہوا کہ یہ حدیث منکر نہیں کیونکہ یہ روایت حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ہے۔
امام بخاریؒ کا ”فیہ نظر“:
امام بخاری ؒ کسی راوی کے بارے میں فیہ نظر کہتے ہیں تو اس کیا مراد ہوتا ہے ؟ اس بارے میں خود امام بخاری ؒ کی صراحت نہیں اس لئے بعد میں آنے والوں میں اختلاف ہوگیا کہ یہ سخت جرح ہے یا ہلکی ؟
چنانچہ بعض حضرات کہتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں امام بخاریؒ فیہ نظرکہتے ہیں وہ راوی متروک ہوتاہے
وقال العراقی فی شرح الفیة الحدیث فلان فیہ نظر وفلان سکتوا عنہ ھاتان العبارتان یقولھما البخاری فیمن ترکوا حدیثہ.
(الرفع والتکمیل (
بعض محدثین کا کہنا یہ ہےکہ کی یہ جرح ہلکی ہے
ان قول البخاری” فیہ نظر “جرح غیر شدید.
(التعریف باوھام من قسم السنن (
صحیح بات یہ ہے کہ یہ جرح سخت نہیں ہلکی ہے کیوں کہ عام طور پریہ ہوتا ہے کہ جس راوی کے بارے امام بخاریؒ فیہ نظر کہتے ہیں اس کے بارے میں تعریف اور تعدیل کے الفاظ بھی کہہ دیتے ہیں،جیسے اسی عبدالرحمن کے بارے میں فرمایا فیہ نظر کہ اس راوی میں غور وفکر کی ضرورت ہے اور انہی عبدالرحمن کے بارے جب امام ترمذی ؒ نے امام بخاری ؒ سے پوچھا تو فرمایا کہ عبدالرحمن کو ضعیف کہا جاتا ہے ،میں نے عبدالرحمن کی حدیث میں غور کیا تومعلوم ہوا کہ ان کی حدیث مقارب یعنی صحیح کے قریب ہے
سالت محمداً عن ھذا الحدیث(اللھم بارک لامتی فی بکورھا ) فقال یضعف عبدالرحمن ونظرت فی حدیثہ فاذاحدیثہ مقارب۔
(العلل الکبیر للترمذی)
یہ کیسے ہو سکتاہے کہ ایک راوی امام بخاری کے نزدیک متروک بھی ہو اور اسی راوی کی حدیث کو امام بخاری مقارب بھی کہیں ؟ معلوم ہوا کہ فیہ نظر کا مطلب متروک نہیں بلکہ یہ ہے کہ اس راوی میں غور وفکر کی ضرورت ہے اس طرح آپ خوب اچھی طرح محسو س کریں گے کہ امام بخاری ؒ کی دونوں باتوں میں کوئی تضاد و ٹکراؤ نہیں ہے۔
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ جس کسی نے بھی عبد الرحمٰن پر کلام کیا ہے اس نے اس کی کوئی وجہ بیان نہیں کی ہے جیسے اگر عبدالرحمن متروک ہیں تو کیوں ؟ ان کے بارے میں قلب و نظر میں کھٹک ہے ، تو کیوں ؟ ضعیف ہیں تو کیوں ؟ اس قسم کی جرح کو جرح غیر مفسرّ کہا جاتا ہے یعنی ایسی جرح جس کی کوئی وجہ بیان نہ کی گئی ہو اور جرح غیر مفسر کا کوئی اعتبا ر نہیں ہوتا ،جرح وہی قابل قبول ہوتی ہے جس کی وجہ بھی بیان کی گئی ہو جس کو جرح مفسر کہاجاتا ہے۔
یقبل التعدیل من غیر ذکر سببہ علی الصحیح المشہور،ولا یقبل الجرح الا مبین السبب؛ لانہ یحصل بامر واحد ولا یشق ذکرہ۔ وذکر الخطیب انہ مذھب الائمة من حفاظ الحدیث کالشیخین وغیرھما، و لذلک احتج البخاری بجماعة سبق من غیرہ الجرح لھم کعکرمة و عمرو بن مرزوق،واحتج مسلم بسوید بن سعید وجماعة اشتھر الطعن فیھم ، و ھکذا فعل ابو داؤد ،وذلک دال علی انھم ذھبوا الی ان الجرح لا یثبت الا اذا فسر سببہ ،ویدل علی ذلک ایضاً انہ ربما استفسر الجارح فذکر مالیس بجرح .
(تدریب الراوی)
اب ان تمام ائمہ کی باتوں میں غور کیا جائے تو صرف امام ترمذی ؒ نے ہی عبد الرحمن پر جرح کی وجہ بیان کی ہے، یہی وجہ ہے کہ امام ترمذی ؒ نے ان کی کسی بھی حدیث پر ضعیف ہونے کا حکم نہیں لگایا ہے۔ لہذا باقی ائمہ کی جرحیں قابل قبول نہیں رہیں ،اب صرف امام ترمذی ؒ کی جرح کی بات کرتے ہیں۔
آمدم بر سر مطلب : امام ترمذیؒ فرماتے ہیں کہ عبدالرحمن کی یاد داشت کے بارے میں بعض محدثین نے کلام کیا ہے۔
وقدتکلم بعض اہل الحدیث فی عبد الرحمن ھذا من قبل حفظہ۔
( سنن الترمذی باب ما جاءفی قول المعروف)
اور ایک مقام پر فرماتے ہیں:
وعبدالرحمن بن اسحاق القرشی مدنی وھو اثبت من ہذا۔
( سنن الترمذی باب ما جاءفی صفة الجنة)
عبدالرحمٰن قریشی مدنی ان سے زیادہ مضبوط حافظے والے ہیں یعنی عبدالرحمٰن کوفی عبدالرحمٰن مدنی کے مقابلہ میں کم حافظہ والے ہیں، اور اسی سے ملتی جلتی بات حافظ بزار ؒ کہتے ہیں کہ ان کی حدیث کسی اچھے حافظہ والے کی حدیث نہیں ہے
ولیس حدیثہ حدیث حافظ
(مسندالبزار (
لیکن یہ جرح ہمارے مطلب میں مخل نہیں ہے کیونکہ جس حدیث کے راوی میں حفظ ویاد داشت کی کمی ہو وہ حدیث محدثین کے یہاں ضعیف نہیں بلکہ حسن ہوتی ہے ،کیونکہ
حسن : وہ حدیث ہے جس کاراوی معتبر ہو لیکن اس میں ضبط (یاد داشت)تام ومکمل نہ ہو،حدیث حسن کی یہی سب سے اچھی تعریف ہے۔
فان خف الضبط فالحسن لذاتہ ،فکان الحسن عند ابن حجر ھو الصحیح اذا خف ضبط راویہ ،ای قل ضبطہ وھو خیر ما عرف بہ الحسن ف© تعریفہ المختار ھو ما اتصل سندہ بنقل عدل الذی خف ضبطہ عن مثلہ الی منتھاہ من غیر شذوذ ولا علة۔
(تیسیر مصطلح الحدیث (
بہرحال جب عبدالرحمن کوفی میں حفظ و یاد داشت کی کمی کے علاوہ اور کوئی علت نہیں تو ان کی حدیث حسن ہے چنانچہ امام ترمذیؒ کا ان کی حدیث پر حسن کا حکم لگانا اور امام بخاری ؒ کا ان کی حدیث کو مقارب یعنی صحیح کے قریب کہنا اور ابن خزیمہ رحمہ اللہ کا ان کی روایت کو اپنی صحیح میں ذکر کرکے صحیح کہنا بلکہ درست ہے۔
معلوم ہوا کہ نماز میں ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے والی روایت بھی حسن
ہے ومن ادعی غیرھذا فعلیہ البیان مع البرھان۔
………)جاری ہے (