حج ……ایک عاشقانہ سفر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حج ……ایک عاشقانہ سفر!!!
………مولانا خورشید عالم﷾
حج کی فرضیت:
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک ہےجن پر اسلام کی بنیاد ہے۔ حج کی فرضیت قرآن کریم، حدیث شریف اور اجماع امت سے ایسے ہی ثابت ہے جیسا کہ نماز، روزہ اور زکوٰۃ کی فرضیت ثابت ہے؛ اس لیے جو شخص حج کی فرضیت کا انکار کرے، وہ کافر ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
"وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا وَمَنْ كَفَرَ فَإِنَّ اللَّهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ"
(سورہ آل عمران، آیت: 97)
ترجمہ : "اور اللہ کے واسطے لوگوں کے ذمہ اس مکان کا حج کرنا ہے، یعنی اس شخص کے جو کہ طاقت رکھے وہاں تک کی سبیل کی اور جو شخص منکر ہو؛ تو اللہ تعالی تمام جہاں والوں سے غنی ہیں۔"
یہ آیت کریمہ حج کی فرضیت کے حوالے سے نصّ قطعی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پانچوں ارکان کو ایک حدیث شریف میں بیان فرمایا ہے۔
"بُنِيَ الإِسْلاَمُ عَلَى خَمْسٍ: شَهَادَةِ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلَّا اللّهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّهِ، وَإِقَامِ الصَّلاَةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، وَالحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ."
(بخاری شریف)
ترجمہ: "اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں، نماز قائم کرنا ، زکاۃ دینا، حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔"
ایک عاشقانہ سفر:
انسانی طبیعت یہ تقاضہ کرتی ہے کہ انسان اپنے وطن، اہل و عیال ، دوست و رشتہ داراور مال و دولت سے انسیت ومحبت رکھے اور ان کے قریب رہے۔ جب آدمی حج کے لیے جاتا ہے؛ تو اسے اپنے وطن اور بیوی و بچے اور رشتے دار و اقارب کو چھوڑ کر اور مال و دولت خرچ کرکے جانا پڑتا ہے۔ یہ سب اس لیے کرنا پڑتا ہے کہ حج کی ادائیگی شریعت کا حکم ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شریعت نے حج کے حوالے سے بہت ہی رغبت دلائی ہے، انسان کوکعبہ مشرفہ کے حج و زیارت پر ابھارا، مہبط وحی و رسالت کی دیدار کا شوق بھی دلایا ہے اور سب سے بڑھ کر شریعت نے حج کا اتنا اجر و ثواب متعین فرمایا ہے کہ سفر حج ایک عاشقانہ سفر بن جاتا ہے۔ ذیل کے سطور میں، حج کےاجر و ثواب احادیث شریفہ کی روشنی میں، ملاحظہ فرمائیے!
حج انتہائی نیک عمل ہے:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:
سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الأَعْمَالِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: "إِيمَانٌ بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ" قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: "جِهَادٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ" قِيلَ: ثُمَّ مَاذَا؟ قَالَ: "حَجٌّ مَبْرُورٌ."
(بخاری شریف(
ترجمہ : (ایک بار)نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سے اعمال اچھے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : "اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ " پوچھا گيا پھر کون؟ فرمایا : "اللہ کے راستے میں جہاد کرنا۔" پوچھا گیاپھر کون؟ ارشاد فرمایا: " حج مبرور۔"
حج مبرور کیا ہے؟

وہ حج جس کے دوران کوئی گناہ کا ارتکاب نہیں ہوا ہو۔

وہ حج جو اللہ کے یہاں مقبول ہو۔

جس میں کوئی ریا اور شہرت مقصود نہ ہو اور جس میں کوئی فسق و فجور نہ ہو۔

وہ حج جس سے لوٹنے کے بعدگناہ کی تکرار نہ ہو اور نیکی کا رجحان بڑھ جائے۔

وہ حج جس کے بعد آدمی دنیا سے بے رغبت ہوجائے اور آخرت کے سلسلہ میں دل چسپی دکھا ئے۔
حج مبرور کی فضیلت:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
العُمْرَةُ إِلَى العُمْرَةِ كَفَّارَةٌ لِمَا بَيْنَهُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَيْسَ لَهُ جَزَاءٌ إِلَّا الجَنَّةُ۔
[بخاری شریف، حدیث: 1773، مسلم شریف، حدیث: 437 - (1349)]
ترجمہ: "ایک عمرہ دوسرے عمرہ تک ان( گناہوں)کا کفارہ ہے،جو ان دونوں کے درمیان ہوئے ہوں، اور حج مبرور کا بدلہ صرف جنت ہے۔"
حج پچھلے سارے گناہوں کو مٹادیتا ہے:
ابن شِماسہ فرماتے ہیں کہ ہم حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، جب کہ وہ قریب المرگ تھے۔ وہ کافی دیر تک روئے، پھر انہوں نے اپنا چہرہ دیوار کی طرف کرلیا۔ اس پر ان کے صاحبزادے نے چند سوالات کیے۔ پھر انہوں نے (اپنے اسلام قبول کرنے کی کہانی سناتے ہوئے) فرمایا: جب اللہ نے میرے قلب کو نور ایمان سے منور کرنا چاہا؛ تو میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرہوا اورعرض کیا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا داہنا دست (مبارک )پھیلائے، تاکہ میں بیعت کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھیلایا۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے عمرو! تجھے کیا ہوا؟ میں نے کہا: میری ایک شرط ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری کیا شرط ہے؟ میں نے کہا: میری مغفرت کردی جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
"أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟ وَأَنَّ الْهِجْرَةَ تَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهَا؟ وَأَنَّ الْحَجَّ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ؟"
[مسلم شریف، رقم الحدیث: 192 - (121)]
ترجمہ: "کیا تمہیں نہیں معلوم کہ اسلام (قبول کرنا) پہلے (کے تمام گناہوں) کو مٹا دیتا ہے؟ ہجرت گزشتہ گناہوں کو مٹادیتی ہے اور حج پہلے(کے کیے ہوئے گناہوں) کو مٹا دیتا ہے۔ "
ایک حدیث میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مَنْ حَجَّ لِلَّهِ فَلَمْ يَرْفُثْ، وَلَمْ يَفْسُقْ، رَجَعَ كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ."
(بخاری شریف، حدیث نمبر: 1521)
ترجمہ: "جس شخص نے اللہ کے لیے حج کیا اور اس نے (اس دوران) فحش کلامی یا جماع اور گناہ نہیں کیا؛ تو وہ (حج کے بعد گناہوں سے پاک ہوکر اپنے گھراس طرح) لوٹا، جیسا کہ اس کی ماں نے اسے آج ہی جنا ہو۔"
"رفَث" کا معنی جماع، ہم بستری اور جو کچھ بھی شوہر و بیوی کے درمیان حالت جماع میں ہوتا ہے، جیسے بوس و کنار وغیرہ کے ہیں۔ ابو عبیدہ نے فرمایا: "رفَث" کا مطلب "فحش کلامی" ہے۔ پھر کنایۃ جماع اور متعلقات جماع کے معنی میں استعمال ہونے لگا۔
(الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 22/275(
مسئلہ: حالت احرام میں جماع کرنا فقہاء کرام کے نزدیک اتفاقی طور پر حرام ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے:
فَمَنْ فَرَضَ فِيهِنَّ الْحَجَّ فَلاَ رَفَثَ وَلاَ فُسُوقَ وَلاَ جِدَال فِي الْحَجِّ
(سورہ بقرہ، آیت: 197)
ترجمہ: " سو جو شخص ان میں حج مقرر کرے، تو پھر نہ کوئی فحش بات ہے اور نہ کوئی بے حکمی ہے اور نہ کسی قسم کا نزاع زیبا ہے۔"
مسئلہ: اگر کسی نے حالت احرام میں عمدا (جان بوجھ کر) جماع کیا ہو؛ تو اس کا حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا۔ اگر کسی نے حالت نسیان(بھول ) میں جماع کیا ہو؛ تو حنفیہ، مالکیہ اور حنابلہ کے نزدیک اس صورت میں بھی حج فاسد ہوجائے گا اور قضاء و کفارہ لازم ہوگا؛ لیکن شافعیہ کے نزدیک حج فاسد نہیں ہوگا؛ بل کہ صرف کفارہ لازم ہوگا۔
(الموسوعہ الفقہیہ الکویتیہ 22/276-277(
" فِسْق" سے مراد معاصی و گناہ ہے۔ "كَيَوْمِ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" کی شرح کرتے ہوئے علامہ ابن حجرعسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : "کسی گناہ کے بغیر، اس کا ظاہری مطلب صغائر و کبائر (چھوٹے اور بڑے): سارے گناہوں کا معاف کیا جانا ہے۔"
(فتح الباری 3/382-383(
فقرا ور گناہ کو مٹانے والے اعمال:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"أَدِيمُوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ، فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الْفَقْرَ وَالذَّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيدِ."
(المعجم الاوسط، حدیث: 3814)
ترجمہ : "حج اور عمرہ پر دوام برتو؛ کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو ختم کرتے ہیں ، جیسا کہ دھونکنی لوہا سے زنگ کو دور کردیتی ہے۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حج اور عمرہ ایک ساتھ کیا کرو؛ کیوں کہ یہ دونوں فقر اور گناہوں کو مٹاتے ہیں جیسا کہ بھٹی لوہا ، سونا اور چاندی سے زنگ ختم کردیتی ہے اور حج مبرور کا ثواب جنت ہی ہے۔"
(ترمذی شریف)
برائے حج خرچ کرنے کی فضیلت:
ابو زہیررضی اللہ عنہ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
"النَّفَقَةُ فِي الْحَجِّ كَالنَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ بِسَبْعِ مِائَةِ ضِعْفٍ."
(مسند احمد، حدیث: 23000، شعب الایمان، حدیث: 3829)
ترجمہ : "حج میں خرچ کرنا اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی طرح، (جس کا ثواب) سات سو گنا تک ہے "۔
حاجیوں کی دعائیں:
ابن عمررضی اللہ عنہمافرماتے ہیں:
"الْحَاجُّ وَالْمُعْتَمِرُ وَفْدُ اللهِ تَعَالَى يُعْطِيهِمْ مَسْأَلَتَهُمْ، وَيَسْتَجِيبُ دُعَاءَهُمْ، وَيَقْبَلُ شَفَاعَتَهُمْ، وَيُضَاعِفُ لَهُمْ أَلْفَ أَلْفَ ضِعْفٍ." (اخبار مکۃ للفاکہی، حدیث: 902)
ترجمہ : "حج اور عمرہ کرنے والے اللہ تعالی کےمہمان ہیں، اللہ تعالی ان کی مانگ ان کو عطا فرماتے ہیں، ان کی دعاؤں کو قبول کرتے ہیں، ان کی شفارش قبول کرتے ہیں اور ان کے لیے ہزار ہزار گنا تک ثواب بڑھایا جاتا ہے"۔
حج کرنے میں جلدی کیجیے:
ابن عباس رضی اللہ عنہماروایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "حج –یعنی فرض حج– میں جلدی کرو؛ کیوں کہ تم میں کوئی یہ نہیں جانتا کہ اسے کیا عذر پیش آنے والاہے۔"
(مسند احمد، حدیث: 2867)
حج نہ کرنے پر وعید:
حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
"مَنْ مَلَكَ زَادًا وَرَاحِلَةً تُبَلِّغُهُ إِلَى بَيْتِ اللَّهِ وَلَمْ يَحُجَّ فَلَا عَلَيْهِ أَنْ يَمُوتَ يَهُودِيًّا، أَوْ نَصْرَانِيًّا، وَذَلِكَ أَنَّ اللَّهَ يَقُولُ فِي كِتَابِهِ: "وَلِلَّهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ البَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا".
[آل عمران: 97] (ترمذی شریف، حدیث نمبر: 812)
ترجمہ: "جو شخص اتنے توشہ اور سواری کا مالک ہو جائے، جو اسے بیت اللہ تک پہنچادے، اس کے باوجود وہ حج نہ کرے؛ تو اس کے لیے کوئی ذمے داری نہیں ہے کہ وہ یہودی ہونے کی حالت میں مرے یا نصرانی ، اور یہ اس وجہ سے کہ اللہ تعالی اپنی کتاب میں فرماتا ہے: "اور اللہ کا حق ہے لوگوں پر حج کرنا، اس گھر کا جو شخص قدرت رکھتا ہو اس کی طرف راہ چلنے کی۔"
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: "میں نے ارادہ کیا کہ کچھ لوگوں کوان شہروں میں بھیجوں، پھر وہ ان لوگوں کی تحقیق کریں کہ جنہوں نے استطاعت کے باوجود حج نہیں کیا، پھر وہ ان لوگوں پر ٹیکس لاگو کریں؛ (کیوں کہ) وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں۔"
(السنۃ لابی بکر بن الخلال 5/44)
حرف آخر:
حج کے اجر و ثواب جو احادیث مبارکہ کی روشنی میں لکھے گئے ہیں، وہ کسی بھی مسلمان کو حج و عمرہ کا شوق دلانے کے لیے کافی ہیں۔ جن مسلمانوں کو اللہ تعالی نے مال و دولت سے نوازا ہے، ان کو چاہیے کہ خود کو حج و عمرہ کے عظیم ثواب سے محروم نہ کریں؛ کیوں کہ ہم ہمہ دم نیکیوں کے حصول اور گناہوں و سیئات سے مغفرت کے سخت محتاج ہیں۔ یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے۔ یہ کاغذ کی ایک ناؤ ہے، جہاں تک پہنچ جائے یہ ایک غنیمت ہے۔ آپ کی یہ ڈیڑھ دن کی زندگی چلی گئی؛ تو پھر کبھی واپس نہیں آئے گی۔ پھر حج کرنے میں تاخیرکیوں ؟؟