اسلام کا اقتصادی نظام

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اسلام کا اقتصادی نظام
اور غیر اسلامی نظریے
………مفتی محمد عارف باللہ ﷾
اقتصادی نظام اور اس کی راہ میں پیش آمدہ مشکلات کا حل جو اسلام نے پیش کیا ہے اس کو جاننے سے پہلے ذہن میں اسلامی معیشت و اقتصاد کا تصور واضح ہونا اور یہ بات معلوم ہونی از حد ضروری ہے کہ اسلامی اقتصاد و معیشت کس چیز کا نام ہے؟ اس کی کیا بنیادی خصوصیات ہیں؟ وہ کس طرح دوسری معیشتوں سے ممتاز ہے؟ کیونکہ جب تک یہ بات واضح نہ ہوگی اس وقت تک اقتصادی مسائل پر بحث و تحقیق اور ان کا کوئی حل منطقی طور پر درست نہیں ہوگا۔
اسلام ایک مکمل نظام زندگی ہے:
اسلامی معیشت یا بالفاظ دیگر ’’اسلام کے اقتصادی نظام‘‘ کے حوالے سے سب سے پہلی بات جو ذہن نشیں رہنی چاہئے وہ یہ ہے کہ اسلام درحقیقت ’’کیپٹل ازم‘‘ (سرمایہ دارانہ نظام) ’’یا سوشلزم‘‘ (اشتراکیت) کی طرح ایک ’’معاشی نظام‘‘ نہیں ہے، مجموعۂ قوانین اسلام ’’قرآن وسنت‘‘ میں وہ بنیادی تصورات تو ہیں جن پر بنیاد رکھ کر ایک معیشت و اقتصاد کی تعمیر کی جاسکتی ہے لیکن معیشت کے ایسے نظریات موجود نہیں ہیں جو ’’آدم ستھ‘‘ ’’مارشل‘‘ اور دوسرے ماہرین معاشیات کی کتابوں میں موجود ہیں ،کیونکہ اسلام اپنی ذات اور اصل میں معاشی نظام نہیں بلکہ وہ ایک نظام زندگی ہے ،جس کا ایک چھوٹا سا شعبہ معیشت و اقتصاد بھی ہے۔
اصل منزل تو آخرت کی ہے:
اسلام نے اگرچہ اقتصاد و معیشت کو اہمیت دی ہے، دنیاوی منافع کو قرآن میں ’’فضل‘‘ اور ’’خیر‘‘ کہا گیا ہے، رسول اکرم ﷺ نے حلال طریقے سے رز ق کے حصول کو طلب کسب الحلال فریضۃ بعد الفریضۃ (کنز العمال) فرما کر دوسرے درجہ کا اہم فریضہ قرار دیا ہے اور بے شک معیشت و اقتصاد اسلامی تعلیمات کا ایک بہت اہم شعبہ ہے جیسا کہ اس کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’فقہ اسلامی‘‘ کی کسی بھی کتاب کو چار حصوں میں تقسیم کیا جائے تو اس کے دو حصے معیشت سے متعلق ہی ہوں گے۔ لیکن یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے کہ اسلام نے اسے مقصد زندگی قرار نہیں دیاہے، اور دوسرے معاشی نظاموں کی طرح انسانی زندگی کا بنیادی مسئلہ معیشت کو ہی نہیں بنایاہے، بلکہ اسلام نے یہ نظریہ پیش کیا ہےکہ انسان دنیا کو ایک عبوری دور سمجھے اور ساری کوششوں، ساری توانائیوں اور ساری جدوجہد کا محور دنیاوی زندگی کی معیشت کو ہی نہ بنائے؛ کیونکہ اس دنیا کے بعد ایک دوسری ابدی اور سرمدی زندگی آخرت کی شکل میں آنے والی ہے جس کی فلاح و بہبودگی درحقیقت انسان کا سب سے بنیادی مسئلہ ہے۔
اسلام رہبانیت کا مخالف ہے:
اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انسان صرف آخرت کی سوچ لے کر بیٹھ جائے، معیشت کو غیر کار آمد فضول سمجھنے لگے، اور زندگی بہتر بنانے کی سعی کو ناجائز سمجھ بیٹھے، اس لئے کہ دین محمدی کے بے شمار امتیازات میں سے ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے یہ تعلیم دی ہے کہ انسان معیشت اور اقتصاد کو اختیار کرے ،اس سے فائدہ اٹھائے، اپنی زندگی کو بہتر سے بہتر بنائے، لیکن نہ تو معیشت کو آخری مقصد زندگی اور بنیادی مطمح نظر قرار دے اور نہ ہی اس کے حدود سے تجاوز کرے۔
معیشت اور اقتصاد کا مفہوم، ضرورت اور بنیادی مسائل:
معیشت اور اقتصاد کے حوالے سے اسلام کے نقطۂ نظر کی مختصر توضیح کے بعد یہ جاننا لازم ہے کہ معیشت و اقتصاد کے بنیادی مسائل کیا ہیں ؟جن کے حل کرنے میں کیپل ازم، سوشلزم اور اسلام کا نظریہ ایک دوسرے سے ٹکراتا ہے اور جسے حل کرنے میں ہر ایک طبقہ نے ایک الگ طریقہ اپنایا ہے، اور ساتھ ہی معیشت و اقتصاد کا حقیقی مفہوم بھی ذہن و دماغ میں رکھنا ضروری ہے کہ اقتصاد کوانگریزی اصطلاح میں اکنامکس (Econmics) کہتے ہیں۔ اور اس کے معنی و مفہوم یہ ہےکہ انسان اپنی ضرورت کو کفایت کے ساتھ پورا کرلے، کفایت کا تصور اکنامکس اور اقتصاد ہر ایک میں موجود ہے۔ لہذا اقتصاد کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی ضروریات بلکہ خواہشات غیر متناہی ہیں اور ان ضروریات اور خواہشات کو پورا کرنے کے لئے وسائل کم اور محدود ہیں۔اسی وجہ سے علم معاشیات اور اقتصادیات کی ضرورت درپیش ہوئی کہ کس طرح دونوں کے درمیان مطابقت پیدا کرکے کفایت کے ساتھ ضروریات اور خواہشات پوری ہوسکیں اور یہی درحقیقت علم معاشیات کا موضوع ہے اور اسی نقطۂ نظر سے کسی معیشت کو جن مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے وہ چار بنیادی مسائل ہیں، جن کو ہر ایک نے الگ الگ انداز میں حل کرنے کی کوشش کی یہ اور بات ہے کہ کامیابی صرف اسلام کو ملی اور کیپٹل ازم اور سوشلزم افراط و تفریط کا شکار ہوکر رہ گئے۔
(۱) ترجیحات کا تعین:
ترجیحات کا تعین معیشت و اقتصاد کا ایک اہم مسئلہ ہے، اس لئے کہ انسانی خواہشات اور ضروریات غیر متناہی، بے انتہاء اور غیر محدود ہیں اور ان کی تکمیل کے وسائل محدود اور متناہی ہیں تو اب کون سی خواہشات اور ضروریات کو مقدم کیا جائے اور کون سی خواہشات اور ضروریات کو مؤخر۔
(۲) وسائل کی تخصیص:
وہ وسائل جو ہمارے پاس موجود ہیں ان کو کس کام میں کس مقدار میں لگایا جائے ،مثلاً ہمارے پاس زمین بھی ہے، کارخانے بھی ہیں اوردیگر انسانی وسائل بھی ہیں اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ کتنی زمین پر گندم اگائیں، کتنی زمین پر روئی اگائیں اور کتنی زمین پر چاول کی کھیتی کریں، یعنی کون سے وسیلے کو کس کام کے لئے کس مقدار میں مخصوص کیا جائے۔
(۳) آمدنی کی تقسیم::
جب پید اورہوتو اس پیداوار کو کس طرح گھر، معاشرہ اور سوسائٹی میں تقسیم کیا جائے۔
(۴) ترقی:
چوتھا مسئلہ جس کو معاشیات کی اصطلاح میں (Development) ’’ترقی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ہماری جو اقتصادی سرگرمیاں ہیں ان کو کس طرح ترقی دی جائے تاکہ مزید ترقی نصیب ہو۔ یہ وہ چار اسباب معیشت ہیں جن کو ہر ایک نے اپنے طور پر حل کیا ہے۔
’’سرمایہ دارنہ نظام ‘‘ کا نظریہ:
چنانچہ ’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ یعنی کیپل ازم نے ان مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک راستہ اختیار کیا اور ایک جادو کی چھڑی بنائی کہ ہر انسان کو زیادہ سے زیادہ منافع کمانے کیلئے آزاد چھوڑ دیا جائے، پھر جب ہر شخص منافع کمانے کی فکر کرے گا اور جدوجہد کرے گا تو یہ چاروں مسائل خود بخود حل ہو جائیں گے، یعنی سرمایہ دارانہ نظام نے اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے بنیادی اصول یہ بنایا کہ ’’انفرادی ملکیت ہو‘‘ حکومت کی کوئی مداخلت نہ ہو ’’اور انسان کے اپنے ذاتی منافع کو ایک محرک طور پر استعمال کیا جائے اور معاشی سرگرمیوں میں تیزی لانے کے لئے اس کی ترغیب دی جائے‘‘۔
’’سرمایہ دارانہ نظام‘‘ کی خرابیاں:
لیکن اہل خرد اچھی طرح جانتے ہیں کہ یہ نظام اگرچہ نظریاتی طور پر ایک معقول فلسفہ ہے ، لیکن یہ نظریہ مسائل کو صحیح طریقہ پر حل نہ کرسکا، بلکہ اس سے بے شمار خرابیاں وجود میں آئیں، کوئی اخلاقی قدر ایسی باقی نہ رہی جو اس بات کا خیال کرے کہ معاشرے کو کون سی چیز مفید ہوگی اور کون سی چیز معاشرے کو موت کے گھا ٹ اتاردے گی، ساتھ ہی معاشرے میں دولت کی گردش ناہموار ہوتی چلی گئی۔ سرمایہ داروں نے سود، قمار، سٹہ اور اکتناز کے ذریعے چاروں طرف ہاتھ مار کر روپیہ اپنے دامن میں سمیٹا، دولت کے بل بوتے پر پورے بازاروں کے حکمراں بن بیٹھے، قیمتوں کو مصنوعی طور پر چڑھایا اور بڑھایا گیا، غیر ضروری بلکہ مضر اشیاء کو زبردستی ٹھونسا گیا اور مزدوروں اور کسانوں پر یہ نظام ظلم و ستم کا پہاڑ بن کر ٹوٹا۔
اشتراکیت میں ان کا حل:
اب ’’اشتراکیت‘‘ میدان میں آئی اور سرمایہ دارانہ نظام کی مخالفت کرتے ہوئے اس نے ایک الگ نظریہ لوگوں کے سامنے پیش کیا اور مسائل کو حل کرنے کے لئے ایک نئی راہ کا دروازہ کھولا کہ سارے وسائل اور پیدا وار انفرادی ملکیت میں رکھنے کے بجائے اجتماعی ملکیت میں لائے جائیں یعنی سارے وسائل اور پیداوار حکومت کی تحویل میں دے دیئے جائیں‘‘۔
اشتراکیت کی خرابیاں:
سچ یہ ہے کہ یہ بھی مرض کے اسباب کی تشخیص ٹھنڈے دل و دماغ سے نہ کرسکی، اس سے چھوٹے سرمایہ دار بے شک ختم ہوگئے، لیکن ان کی جگہ ایک بڑا سرمایہ دار وجود میں آیا اور اس سے پیداوار کا تھوڑا اور اقل قلیل حصہ محنت کش عوام کے ہاتھ آیا، باقی تمام دولت اور پیداوار کو حکمراں جماعت نے اپنے گھروں میں جمع کرلیا۔
الحاصل معیشت و اقتصاد کے حوالے سے انسانی مشکلات کا حل نہ اس کے پاس تھانہ اس کے پاس وہ اگر افراط تھی تو یہ تفریط، مزدور کسان اگر سرمایہ دارانہ نظام میں مظلوم و مقہور تھے، تو اشتراکی نظام میں بھی وہ کچھ کم بے بس نہیں۔
اسلام کا اقتصادی نظام اور احکام:
اس کے برعکس اسلام نے سرمایہ اداری اور اشتراکیت کے بیچ سے عدل و مساوات کے سیدھے راستہ کو اختیار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ دنیا کی ہر چیز خواہ وہ زمین ہویا کار خانہ روپے ہوں یا سونے چاندی ان سب کا مالک اللہ ہے، اصل ملکیت اسی کی ہے لله مافی السموات وما فی الارض (القرآن) ہاں وہ اپنی ملکیت اپنے بندوں کو نفع اٹھانے کے لئے اس شرط پر دیتا ہے کہ وہ اس کے استعمال میں اس کی مرضی کے پابند ہوں اور مال و دولت کے نشہ میں مست ہوکر دوسروں کا خون نہ چوسیں بلکہ دوسروں کے ساتھ حسن سلوک کریں ارشاد ربانی ہے:
وَابْتَغِ فِيْمَآ اٰتٰىكَ اللّٰهُ الدَّارَ الْاٰخِرَةَ وَلَا تَنْسَ نَصِيْبَكَ مِنَ الدُّنْيَا وَاَحْسِنْ كَمَآ اَحْسَنَ اللّٰهُ اِلَيْكَ وَلَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِي الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِيْنَ۔
(سورۃقصص :77)
’’ تجھ کو خدا نے جتنا دے رکھا ہے اس میں عالم آخرت کی بھی جستجو کیا کر اور دنیا سے اپنا حصہ (آخرت میں لے جانا) فراموش مت کر اور جس طرح الله تعالیٰ نے تیرے ساتھ احسان کیا ہے تو بھی (بندوں کے ساتھ) احسان کیا کر اور دنیا میں فساد کا خواہاں مت ہو ،بے شک الله تعالیٰ اہل فساد کو پسند نہیں کرتا‘‘
یعنی اللہ نے انسان کو اشتراکیت کی طرح انفرادی ملکیت سے محروم نہیں کیا بلکہ سرمایہ داری کی طرح انفرادی ملکیت عطا کی، لیکن سرمایہ داری کی طرح اسے خود مختار نہ بنایا کہ وہ جیسے چاہے کرتا پھرے، بلکہ اپنی مرضی کا پابند بنایا ،ساتھ ہی سرمایہ دارانہ نظام کی تمام خرابیوں کے اسباب و عوامل سود، قمار، سٹہ اور اکتناز کو حرام قرار دیا اور اعلان کردیا:
اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا
(سورۃ بقرۃ: 275)
’’اللہ نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سود کو حرام‘‘
دوسری جگہ اعلان کیا:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنْصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ۔
(سورۃالمائدۃ: ۹۰)
’’اے ایمان والو بات یہی ہے کہ شراب اور جوا اور بت وغیرہ اور قرعہ کے تیر یہ سب گندی باتیں شیطانی کام ہیں سو ان سے بالکل الگ رہو تاکہ تم کو فلاح ہو ‘‘
اور ہر اس چیز سے منع کردیا جس سے معاشرہ کا نقصان ہو اور ایک شخص دھن جمع کرتا ہو چنانچہ ’’بیع جلب ‘‘اور’’ بیع حاضر لباد‘‘ کو اسی خطرہ کے پیش نظر ممنوع قراردیا۔
(بخاری: احمد)
اسی معاشرہ کے نقصان کے پیش نظر احتکار کو ناجائز قرار دیا اور اعلان کردیا
الجالب مرزوق و المحتکر ملعون
۔
( ابن ماجہ)
’’دوسرے شہر سے مال لانے والے کو رزق (اور روزی میں برکت و نفع) دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا ملعون ہے‘‘
یہی نہیں بلکہ ناجائز آمدنی پر پابندی لگانے کے علاوہ ’’اکتناز‘‘ سے روکتے ہوئے غریبوں تک دولت پہنچانے کے لئے سرمایہ داروں پر زکوۃ جیسے بہت سے اخراجات اسلام نے واجب کردیئے اور یہ بھی نہیں کہ اسے ان کی طرف سے احسان سمجھا جائے کہ سرمایہ دار غریبوں کو اپنے اس احسان کے ذریعہ دبائیں اور عاردلائیں بلکہ اسے ’’حق واجب‘‘ قرار دیا، جسے بزورقانون وصول کیا جاسکتا ہے۔ نیز اسلام نے غریبوں کی رعایت کرتے ہوئے زکوۃ کے علاوہ عشر، خراج، صدقات، کفارات، نفقات، وصیت اور میراث کے ذریعہ مالداروں کے تالاب سے غریبوں کے کھیتوں کی طرف مختلف نہریں جاری کردیں تاکہ پورا معاشرہ سرسبز و شاداب رہے اور آیت قرآنی (وابتغوامن فضل الله)اور(کلوامن الطیبات واعملوا صالحا) کے ذریعہ حلال آمدنی کے حصول پر توجہ دلاتے ہوئے اس کو صحیح مصرف اور اللہ کی راہ میں یعنی غریبوں پر خرچ کرنے کی تاکید بھی کردی ،چنانچہ قرآن و حدیث کو دیکھئے ان کی تعلیمات ’’انفاق فی سبیل اللہ‘‘ سے بھری پڑی ہیں بلکہ اللہ کی راہ میں ضرورت سے زائد خرچ کرنے کی ترغیب دی ہے۔
غرض ایک طرف سرمایہ داری کی ناجائز آمدنی اور اشتراکیت کے ظلم و جور کو ختم کرکے اور دوسری طرف اس کے اخرجات میں اضافہ کرکے اسلام نے دولت کے بہاؤ کا رخ عام معاشرہ کی طرف پھیر دیا تاکہ خوشحالی ہی خوشحالی نظر آئے، معاشرہ سے غربت دور ہو انسان چین و سکون کے ساتھ زندگی بسر کرے نہ امیر غریبوں کا خون چوسیں اور نہ ہی غرباء ’’بقاء حیات‘‘ اور ’’سدرمق‘‘ کے لئے ’’قوت لایموت‘‘ کو ترسیں۔ یہ ہے اسلام کا اتقصادی نظام کہ جس نے اسے اپنایا ترقی کرتا ہی چلاگیا اور جس نے اس کے علاوہ کوئی دوسری راہ تلاش کی ابدی تنزلی اسکا مقدر بن گئی۔