کیا مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کیا مذہب اور سائنس میں ٹکراؤ ہے؟
………مولانا محمدمبشربدر﷾
زمانہ کے تغیر کے ساتھ دنیا بھی ترقی کرتے کرتے آج ایسے دور میں داخل ہوچکی ہے جسے ٹیکنالوجی اور جدید سائنس کا دور کہا جاتا ہے۔ نت نئی ایجادات نے انسانی عقلوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ایسی ایسی چیزیں وجود میں آگئی ہیں جن کا پچھلے ادوار میں تصور بھی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ بھلا کس نے سوچا تھا کہ انسان بھی ہوا میں اڑے گا، برق رفتاری سے ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک ملک سے دوسرے ملک تک ایئر کنڈیشنڈ گاڑیوں میں چند ساعتوں کے اندر پُر سکون سفر کر لے گا ، مصنوعی ٹھنڈک پیدا کرکے اشیائے خوردو نوش کو دیر پا محفوظ رکھ سکے گا ، کپڑوں کی بنائی سے لے کر برتنوں کی صناعت تک کے لیے مشینوں سے خدمت لی جائے گی ، گھروں میں لکڑیاں جلانے کی مشقت کے بجائے گیس سے کھانا پکایا جائے گا ، بجلی کی توانائی سے بڑے بڑے کام لیے جائیں گے اور علاج معالجے کے لیے اعلی ادویات و جراحی کے آلات وجود میں آجائیں گے۔
بلاشبہ ان ایجادات کے پیچھے انسانی سہولت کار فرما تھی تاکہ زیادہ سے زیادہ انسانوں کو مشقت سے بچاکرآسانی فراہم کی جائے ،جس کا سہراانسانی عقل کے سر بندھتا ہے ، جواللہ رب العزت نے انسان کو ودیعت فرمائی اوراشیاء میں خواص پیدا فرماکر انسانی عقل کی اس طرف رہنمائی فرمائی ، تاکہ وہ اشیاء کے خواص کو ڈھونڈ کر انہیں اپنے استعمال کے لیے کار آمد بنائیں۔ لیکن سائنس دانوں نے جتنا زندگی کوتیز ، پرتعیش اور آرام دہ بنانے کی کوشش کی وہ اتنا ہی پژمردہ اور مضمحل ہوتی چلی گئی۔ وہ بند کمروں میں بیٹھ کر جتنا انسانیت کی بھلائی اور سہولت کو سوچ کر نت نئی ایجادات کے لیے تجربے کرتے گئے اتنا انسانی روح بے چینی و بے قراری کی طرف سفر کرتی چلی گئی۔لوگ اس کی وجہ دریافت کرتے ہیں کہ آخر ایسا کیوں ہے ؟۔اس کی بنیادی وجہ ہمارا مادہ پرستانہ نظریۂ حیات ہے ، جس نے جسمِ انسانی کو تو راحت بخش اسباب فراہم کر دیئے لیکن روح کی تشنگی کو سیراب کرنے سے قاصر رہا۔ انسان مادیت کی دلدل میں پھنس کر روح کی آسودگی کو ترس رہا ہے۔ روح کی آسودگی کے بغیر سب کچھ ہونے کے باوجود انسان خود کو تنہا محسوس کرتا ہے۔
اگر ہم روح کی اس بے قراری و بے چینی کا علاج ڈھونڈیں تو لامحالہ اس کا مداوا سوائے مذہب کے اور کسی کے پاس نہیں۔ ایک مذہب ہی ہے جو انسان کی روح کو وہ سرور و اطمینان دے سکتا ہے جو دولت و اسباب کے انبار نہیں دے سکتے۔ انسان کی موجودہ ذہنی و روحانی کشمکش کی بنیادی وجہ خود غرضی ہے جو مادیت پرستی کی کوکھ سے جنم لیتی ہے۔ فرانس کا ملحد فلسفی رینان Renon اپنی ایک کتاب 'The History of Religions' میں خود اس بات کا اعتراف کرتا ہے کہ ’’مادیت ایک فریب اور دھوکہ کے سوا کچھ نہیں۔ لہٰذا ہمیں لا محالہ مذہب کی اہمیت کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔‘‘
انسانی روح مذہب کا تقاضہ کرتی ہے جسے مادیت کے مقابلے میں روحانیت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، کیوں کہ سائنسی ایجادات اور مادی اسباب انسان کی روح کی تشنگی دور نہیں کرسکتے۔ روح کا بے قرار ہونا مذہب کی سب سے وزنی اور ٹھوس دلیل ہے۔انسان مادی اعتبار سے خواہ کتنا ہی ترقی کرجائے اس کا روحانی وجود اس سے سکونِ قلب کی طلب پیدا کرکے اسے اپنے وجود کا احساس دلاتا رہتا ہے۔ سائنس انسان کی مادی زندگی کو پرسکون بناتی ہے جو کائنات کی اشیاء میں غور و فکر کر کے اسے انسانی مفاد کے لیے بروئے کار لانے کا نام ہے ، سائنس بول کر آپ سائنسی ایجادات بھی مراد لے سکتے ہیں ، لیکن سائنس بذاتِ خود ایک فکر کا نام ہے، جو گزشتہ زمانے میں حاصل ہونے والی اپنی ابتدائی ترقی و کامیابیوں کے زعم میں چند داخلی و خارجی امور کے سبب مذہب و تصورِ خدا سے ٹکرا گئی تھی۔ لیکن اب ہر سطح پر یہ بات مسلم ہوچکی ہے کہ مذہب اور سائنس کا الگ الگ میدان ہے ، یہ آپس میں متعارض و متصادم نہیں ہیں۔
سائنس کا مذہبی امور میں کوئی دخل نہیں ہے جب کہ مذہب کا سائنسی معاملات میں تعمیری اور مثبت دخل ضرور ہے۔ جو عرصہ دراز کےمسلسل تجربوں اور مشاہدوں سے ثابت ہوچکا ہے۔ لہٰذا دونوں میں ٹکراؤ اور تصادم کی کیفیت کا پیدا ہوجانا ناممکن ہے ، چنانچہ فیلڈ مارشل سمٹس۔ فلسفہ کی بلند پایہ کتاب ہولزم (Holism) کا مصنف کہتا ہے : ’’ صداقت کی مخلصانہ جستجو اور نظم و حسن کے ذوق کے اعتبار سے سائنس مذہب اور فن کے اوصاف سےحصہ لیتی ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ شاید سائنس ہمارے اس عہد کے لیے خدا کی ہستی کی واضح ترین نقاب کشائی ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نوعِ انسانی کو جو کارہائے نمایاں سرانجام دینے ہیں، ان میں سے ایک یہ ہوگا کہ وہ سائنس کو اخلاقی قدروں کے ساتھ ملحق کرے گی اور اس طرح سے اس بڑے خطرے کا ازالہ کرے گی جو ہمارے مستقبل کو درپیش ہے‘‘۔
سائنس کے نظریات ظنی ہوتے ہیں ، ان کو یقین کا درجہ نہیں دیا جاسکتا ، چونکہ ان کا وجود مشاہدات اور تجربات کی بنا پر ہوتا ہے اس لیے یہ آئے روز بدلتے رہتے ہیں،جب کہ مذہبی نظریات قطعی ہوتے ہیں جن میں تبدیلی کا امکان نہیں ہوتا ، اس لیے سائنس سے مذہب کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔کیوں کہ ایک ظنی اور تبدیل ہونے والی چیز ایک قطعی اور مستقل چیز کے ثبوت کے لیے دلیل نہیں بن سکتی ، بالفرض اگر ہم آج سائنس کو مذہب کی دلیل بنا لیں لیکن جب کل کو سائنس کا نظریہ تبدیل ہوگا تواس سے مذہب کے اس نظریئے کا غلط ہونا لازم آجائے گا جسے کل تک ہم مستقل اور غیر مبدل مان رہے تھے۔
مذہب ( اگر یہاں مذہب کے بجائے قرآن کہا جائے تو زیادہ بہتر ہے ) خدا کا نازل کردہ ہوتا ہے ، جسے خدا انسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے تشکیل دیتا ہے اس لیے اس کے نظریات میں تبدیلی ممکن نہیں جب کہ سائنسی نظریات انسانوں کے تجربات و مشاہدات کی روشنی میں وجود پاتے ہیں۔ اس لیے یہ بدلتے رہتے ہیں۔
سائنس کے نظریات اور مفروضات حتمی نہیں ہوتے بلکہ علم کی ترقی کے ساتھ ان میں ترمیم و اضافہ یاان کے بالکل بدل جانے کا امکان موجود رہتا ہے۔سائنس کے سامنے جب کسی مسئلے پر کافی مواد جمع ہوجاتا ہے اور اس سے کسی حقیقت تک پہنچنے کا گماں ہوتا ہے تو قیاس یا مفروضہ جنم لیتا ہے۔
پھر جب بہت سے سائنسدان اس پر بہت سے ثبوت دیکھ کر اسے تسلیم کرلیتے ہیں تو اسے تھیوری کا نام دیا جاتا ہے۔ پھر جب طویل عرصے تک اس کے ثبوت دنیا میں پہنچتے رہتے ہیں اور اکثر سائنسدان اس سے اتفاق کرلیتے ہیں تو اسے قانون کا درجہ دیا جاتا ہے۔ پھر یہ قانون اس درجے کا نہیں ہوتا جسے حتمی کہا جاسکے اور اس میں کسی قسم کی تبدیلی کےامکان کو مسترد کردیا جائے ، بلکہ بہت دفعہ دیکھا گیا ہے کہ ایک قانون کو بعد کی تھیوری نے بدل کر رکھ دیا۔
لہٰذا ایک مسلمان کے شایان نہیں کہ وہ قرآن کے یقینی نصوص کو انسان کے غیر یقینی نظریات پر محمول کرے۔