علماءاور مشائخ کی نظرمیں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی﷫
علماءاور مشائخ کی نظرمیں!!
……نعمان محمد امین ﷾
اپنی کم علمی ، لکھنے کے ہنر سے ناواقفیت اورالفاظ کے چناؤ سے نا بلد ہونے کے باوجودآج جس شخصیت کے لیے قلم اٹھایا ہے جو تاریخ اسلامی کوہ بلند و بالا پہاڑ ہے جس نے کم سے کم بر صغیر پاک و ہند میں اسلام کو اس کی اصل صورت میں قائم رکھا۔ جس طرح اللہ رب العزت نے پہاڑ اس لیے بنائے ہیں کہ وہ زمین کو تھامے رہیں، اسی طرح اللہ رب العزت نے حجۃ الاسلام بانی دارالعلوم دیوبند حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ کو بھی اسلام کو اس خطے میں جمانے کے لیے بھیجا تھا۔
اپنی زندگی کے پچاس سال پورے کرنے سے پہلے ہی اللہ رب العزت نے حجۃ الاسلام سے کتنے ہی اہم کام لیے ، جن میں انگریز سامراج کے خلاف جہاد، اسلام پر اعتراضات کرنے والے ہندو پنڈتوں اور عیسائی پادریوں سے مناظرے، دار العلوم دیوبند جیسی عظیم وعالی شان درس گاہ کا قیام ، اس کے علاوہ حضرت کی قیمتی تصانیف جو ردِّرفض، رد بدعات، ردِ غیر مقلدیت کے علاوہ قرآن و حدیث کے بے شمار اسرار و رموز کو کھولنے والی تحریرات بھی ہیں آپ ہی کی خدمات کا حصہ ہیں۔
اتنی کم عمر میں دین اسلام کی اتنی خدمات پر علامہ اقبال مرحوم کے یہ اشعار ذہن میں آجاتے ہیں:
یہ غازی ، یہ تیرے پر اسرار بندے
 
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوق

خدائی

دونیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
 
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت

سے رائی

حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی خدمات اور ان کی بلند پایہ شخصیت کے بارے میں اپنے اور پرائے جن علما و مشائخ نے جو کچھ کہا ، جو میرے بہت ہی محدود مطالعے میں ہے وہ ان سطور میں درج کررہا ہوں، کہ یہ خراجِ عقیدت ہے حجۃ الاسلام ، قاسم العلوم والخیرات ، الامام محمد قاسم النانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کو۔
مرشد الہندحاجی امداداللہ مہاجر مکی:

شیخ المشائخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ جو حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ کے بھی شیخ ہیں اپنے مرید حضرت حجۃ الاسلام رحمہ اللہ کے بارے میں اپنے متعلقین سے فرماتے ہیں : ”جو شخص اس فقیر سے محبت و عقیدت و ارادت رکھے، مولوی رشید احمد سلمہ گنگوہی اور مولوی محمد قاسم سلمہ نانوتوی کو کہ تمام کمالات ظاہری و باطنی ان میں موجود ہیں، راقم کی جگہ سمجھے بلکہ مجھ سے فائق المدارج جانے، اگر چہ ظاہری معاملہ برعکس ہوگیا کہ میں ان کی جگہ اور وہ میری جگہ ہوگئے، اور ان کی صحبت کو غنیمت سمجھے کہ اس زمانے میں ایسے آدمی نایاب ہیں۔“
)ضیاءالقلوب ،ص:100(
ایک شیخ کا اپنے مرید کے بارے میں یہ کہنا کہ انہیں میری جگہ ہونا چاہیے تھا یعنی وہ میرے شیخ ہوتے اور اس زمانے میں ایسے آدمی نایاب ہیں، یہ حضرت حجۃ الاسلام کے مرتبےاور مقام کو واضح کرتا ہے۔

حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے:”اگر حق تعالیٰ مجھ سے دریافت کرے گا کہ امداد اللہ کیا لائے؟ تو میں قاسم اور رشید کو پیش کردوں گا کہ یہ لے کر حاضر ہوا ہوں۔“
)معارف الاکابر،ص:235(

حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا:” حق تعالیٰ اپنے بندوں کو جو اصطلاحی عالم نہیں ہوتے ایک لسان عطا فرماتے ہیں، چنانچہ حضرت شمس تبریزی رحمہ اللہ کو مولانا رومی لسان عطا ہوئے تھے، جنہوں نے حضرت شمس تبریزی رحمہ اللہ کے علوم کو کھول کھول کر بیان فرمادیا ، اسی طرح مجھے مولوی قاسم صاحب لسان عطا ہوئے ہیں۔“
)قصص الاکابر،ص:75، امداد المشتاق،ص:16(

حضرت حاجی صاحب کی مجلس میں شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کاتذکرہ ہو رہا تھا اور ان کے مناقب بیان ہو رہے تھے، حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے حضرت حجۃ الاسلام کی طرف اشارہ کر کے فرمایا:”مولانا اسماعیل رحمہ اللہ تو تھے ہی، کوئی ہمارے اسماعیل کو بھی دیکھے۔“
)ارواحِ ثلاثہ،ص:204(

حضرت حجۃ الاسلام کے والد کے خط کے جواب حضرت حاجی صاحب نے لکھا:”شکر کریں کہ خداتعالیٰ نے تمہیں ایک ولی کامل بیٹا عطا فرمایا ہے۔“
)انوار قاسمی،ص:201(

حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی رحمہ اللہ جب پہلی بار حج پر گئے تھے اور وہاں حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی تھی تو حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ نے حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا تھا:” ایسے لوگ کبھی پہلے زمانے میں ہوا کرتے تھے۔“
)انوارِ قاسمی،ص:550(
ایک شیخ کا اپنے مرید کے بارے میں ایسے کلمات اد کرنا، اس مرید کی قدر و منزلت کو واضح کرتاہے۔
مفتی صدرالدین رحمہ اللہ:
ان کا شمار حضرت کے اساتذہ میں ہوتاہے۔ ایک موقع پر مفتی صدر الدین نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے بارے میں فرمایا تھا:”قاسم بہت ذہین آدمی ہے، اپنی ذہانت سے قابو میں نہیں آتا۔“
)سوانح قاسمی، جلد1ص266(
مولانا محمدامین احسن گیلانی رحمہ اللہ:
یہ غالباً حضرت کے ہم عصر علما میں سے تھے اور مولانا مناظر احسن گیلانی کے جدِّ امجد تھے، وہ حضرت حجۃ الاسلام رحمہ اللہ کی تقریر کے متعلق فرمایا کرتے تھے:” مولانا محمد قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی زبانِ مبارک پر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ روح القدس کی تقریر ہو رہی ہے۔“
)سوانح قاسمی جلد1، ص392(
شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ:
حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اپنے استاذ حجۃ الاسلام رحمہ اللہ کے درس سے متعلق فرماتے ہیں:
”جب استاذ رحمہ اللہ (حضرت نانوتوی رحمہ اللہ) سے کوئی بات پوچھی جاتی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ اس مسئلے کے تمام دلائل اکرام ہاتھ جوڑے ہوئے حضرت کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔“
)سوانح قاسمی، ج1،ص:343(
یہ تو وہ چند باتیں تھیں جو حضرت حجۃ الاسلام رحمہ اللہ کے متعلق اپنوں نے کہیں، پرائے حضرت کے متعلق کیا رائے رکھتے تھے، اس کا بھی یہاں تذکرہ ضروری ہے۔
حکیم برکات احمد خیر آبادی:
حکیم برکات احمد خیر آبادی اپنے صاحب زادے حکیم محمد احمد برکاتی سے فرماتے ہیں:”مجھے ان (حضرت اقدس نانوتوی رحمہ اللہ) سے ملانے کے لیے (والد صاحب حکیم دائم علی خیر آبادی) دیوبند لے گئے جب ہم پہنچے تو (حضرت اقدس مولانا نانوتوی رحمہ اللہ) چھتہ کی مسجد میں سو رہے تھے مگر اس حالت میں بھی ان کا دل ذاکر تھا اور ذکر بھی بالجہر کر رہاتھا۔“
)سوانح حکیم سید برکات احمد ص:185، از حکیم محمود احمد برکاتی خیر آبادی(
حضرت مولانا معین الدین اجمیری رحمہ اللہ:
مولانا معین الدین اجمیری رحمہ اللہ سےمولانامحمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ،مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ،مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ،مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ اور شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا:”یہ حضرات مسلمان اور مسلمانوں کے پیشوا ہیں۔“
(براة الابرار،ص:209(
جب مولوی احمد رضا صاحب بریلوی نے علمائے دیوبند خصوصاً مندرجہ بالا پانچ بزرگوں پر کفر کا فتوی لگایا تو مولانا محمد عبدالرؤف خان جگن پوری رحمہ اللہ نے 1931ءمیں پورے ہندوستان میں علما اور مشایخ سے فتویٰ طلب کیا کہ کیا حقیقتاً یہ پانچ بزرگ کافر ہیں تو اس کے جواب میں علمائے دیوبند کے حق میں 140فتاویٰ اور ان پر 616علماءاور مشایخ کی تصدیقات کےساتھ ان تمام فتاویٰ جات کو 1934ءمیں ”برأة الابرار عن مکائد الاشرار“ ملقب بہ ”قہر آسمانی بر فرقہ رضا خانی“ کے نام سے چھاپ دیا گیا تھا۔ یہ تمام فتاویٰ جات 2012میں تحفظ نظریات دیوبند اکادمی نے دوبارہ چھاپ کر اس نایاب کتاب کو منظر عام پر لے آئی ہے۔
خواجہ قمر الدین سیالوی:
خواجہ قمر الدین سیالوی فرماتے ہیں:
”میں نے تحذیر الناس کو دیکھا ہے، مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو اعلیٰ درجے کا مسلمان سمجھتا ہوں، مجھے فخر ہے کہ میری حدیث کی سند میں ان (مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ) کا نام موجود ہے ، خاتم النبیین کے معنی بیان کرتے ہوئے جہاں مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا دماغ پہنچا ہے، وہاں تک معترضین کی سمجھ نہیں گئی، قضیہ فرضیہ کو قضیہ واقعیہ حقیقیہ سمجھ لیا گیا ہے۔“
)ڈھول کی آواز،ص :117(
مولوی دیدار علی شاہ:
مولوی دیدار علی شاہ لکھتے ہیں:
”مولانا و استاذنا رئیس المحدثین مولانا محمد قاسم صاحب )نانوتوی( مغفور حضرت مولانا احمد علی صاحب مرحوم و مغفور محدث سہارن پوری کے فتوی اجوبہ سوالات خمسہ کی نقل زمانِ طالب علمی میں کی ہوئی احقر کے پاس موجود ہے۔“
)رسالہ تحقیق المسائل،ص:31(
سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی:
مولانا محمد سعید صاحب مری والے بیان فرماتے ہیں :
” میں حضرت پیر صاحب گولڑوی رحمہ اللہ کی خدمت میں حاضر تھا، ایک شخص آیا اور اس نے دریافت کیا: آپ مولوی قاسم صاحب کے متعلق کیاخیال رکھتے ہیں؟ حضرت پیر صاحب نے جواباً فرمایا: تم حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق پوچھتے ہو؟ سائل نے عرض کیا : جی ہاں، انہی کے متعلق۔ حضرت پیر صاحب نے فرمایا: وہ حق کی صفت علم کے مظہر اتم تھے۔“
) اسوہ اکابر، ص27(
حافظ محمد حسین مراد آبادی:
حافظ محمد حسین مراد آبادی رحمہ اللہ؛ حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے ہم عصر تھے اور آپ نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کو بہت قریب سے دیکھا ہے ، وہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں:
”حضرت حاجی (مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ) خانہ خدا اور زائر روضہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں، قصبہ نانوتہ کے اکابر صدیقی شیوخ سے ہیں۔ عالم ، متقی و ربانی و حقانی اور واقفِ اسرار، شریعت و طریقت ہیں۔“
) انوار العارفین،ص 524(
حضرت مولانا سید عبدالحی رحمہ اللہ:
حضرت مولانا سید عبدالحی والد ماجد مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:
”آپ (مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ) بہت ہی زیادہ زاہد اور عبادت گزار تھے، ذکر اور مراقبہ کا بھی بہت ہی کثرت سے اہتمام کرتے تھے اور علما و فقہا کے علامتی لباس یعنی عمامہ اور جبہ وغیرہ سے پرہیز کرتے تاکہ آپ لوگوں پر مخفی رہیں۔ اس زمانے میں آپ نہ کوئی فتوی دیتے، نہ ہی کوئی وعظ کہتے بلکہ صرف اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے ذکر اور مراقبے میں زیادہ سے زیادہ مشغول رہتے، یہاں تک کہ ان کی برکت سے آپ پر حقائق و معارف کے دروازے کھل گئے۔“
)اقتباس الاعلام (
مولانا فقیر محمد صاحب جہلمی رحمہ اللہ:
مولانا فقیر محمد جہلمی رحمہ اللہ نے 1880ءمیں ”حدائق الحنفیہ“ نامی کتاب لکھی، جس میں انہوں نے حنفی علما اور فقہا کا تذکرہ کیا ہے ، انہی علما کی فہرست میں آپ نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا ذکر نہایت حقیقت پسندانہ کیاہے ، حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا تذکرہ کرتے وقت یہ الفاظ بھی آپ کے مضمون کا حصہ تھے:”علامہ عصر، فہامہ دہر، فاضل متبحر، مناظر، مباحث، حسن التقریر، ذہین، معقولات کے گویا پتلے تھے۔ آپ لڑکپن ہی سے ذہین، طباع، بلند ہمت، تیز ، وسیع حوصلہ، جفاکش ، جری تھے۔“
(حدائق الحنفیہ،ص492(
حافظ عبدالرحمن حیرت:
حافظ عبدالرحمن حیرت اپنی کتاب ”سفینۂرحمانی“1884ءسن طباعت میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:”بیشۂ فضل و کمال کے شیر، گل زارِ عشقِ الٰہی کی خوش بو، شبستان، طریقت و شریعت کی شمع، آسمانِ حقیقت و معرفت کے خورشید، عالم کامل اور جود و سخا میں رشکِ حاتم، جناب حضرت مولوی محمد قاسم صاحب (اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو منور فرمائے) قصبہ نانوتہ کے برگزیدہ علما و فضلاءمیں سے تھے، طرح طرح کے علوم کی منزلیں اور قسم قسم فنون کے رموز اور ان کے نشیب وفراز انہوں نے اپنی خداداد ہمت و استعداد سے کامل طور پر طے کیےتھے، انہیں کان علوم اور مخزن فنون کہنا چاہیے،ان کی توصیف میں منشی فکر و خیال جو بھی لکھے بجا ہے اور ان کی تعریف جس قدر بھی کی جائے زیبا ہے۔“
)سفینۂ رحمانی،ص:119(
مرزا آفتاب بیگ:
مرزا آفتاب بیگ دہلوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”تحفۃ الابرار“ سن طباعت 1957ءمیں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں :
” آپ (مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ) رؤسائے شیوخ صدیقی قصبہ نانوتہ کے ہیں۔آپ کو اجازت ہر چہار طریقہ معروف کی حضرت حاجی محمد امداد اللہ سے تھی اور سند حدیث کی حضرت شاہ عبدالغنی مجددی رحمۃ اللہ علیہ سے تھی۔ محققانہ و عارفانہ کلام حقائق و معارف آپ کا تھا۔ اثباتِ وجودی رطب اللسان تھے، توحیدی شہودی سے بھی انکار نہیں رکھتے تھے۔“
مولانا مشتاق احمد انبیھٹوی:
مولانامشتاق احمد انبیھٹوی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”انوار العاشقین“ میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:” مولانا محمد قاسم صاحب رحمہ اللہ نے اپنی تمام عمر میں جہاں تک ہمیں معلوم ہے، بوجہ کسر نفسی اور کمال تواضع کے کسی کو اپنا خلیفہ نہیں بنایا تھا۔ بیعت بھی حضرت قبلۂعالم حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کی طرف نیابۃً کرتے تھے۔ حضرت حاجی صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے عشق اور محبت میں فنا تھے۔“
) انوار العاشقین، ص:88(
مولانا حافظ شاہ محمد سراج الیقین:
آپ اپنی کتاب ”شمس العارفین“ سن طباعت 1333ھ میں حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے متعلق لکھتے ہیں:
”جس شخص نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کی تقریر سنی ہوگی یاتحریر دیکھی ہوگی وہ سمجھ سکتا ہے کہ کس معدن سے یہ علوم اور اسرار و حقائق آرہے ہیں، آپ صاحبِ تصانیف عالیہ ہیں اور آپ کے مناظروں کی تقریریں بھی چھپی ہیں، جن میں عجیب و غریب تحقیقاتِ علمیہ اور نکات عجیبہ اور مضامین رفیعہ پائے جاتے ہیں، درحقیقت ایسا فاضل متبحر اور عالم محقق اس زمانے میں کوئی نہیں گزرا، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اس پایہ کے لوگ کہیں صدیوں کے بعدہوتے ہیں۔ آپ نہایت پاکیزہ اخلاق اور منکسر المزاج تھے اور لباس نہایت سادہ اور معمولی موٹا استعمال فرماتے تھے۔ اور صفتِ قناعت بھی بہ درجۂکمال آپ میں موجود تھی، ہمیشہ معمولی تنخواہ پر بسر فرمائی اور بڑی بڑی تنخواہوں کی نوکریوں کو پسند نہیں فرمایا۔ مدرسہ عالیہ دیوبند میں عرصہ تک آپ کا درس تدریس اور بے انتہاءفیض جاری رہا۔ اکابر علما آپ کے شاگرد ہیں۔“
(شمس العارفین،ص:46(
سر سید احمد خان:
حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کی وفات پر سر سید احمد خان نے ایک طویل تعزیتی مضمون لکھا، جن میں یہ الفاط بھی شامل تھے:
”اس زمانے میں سب لوگ تسلیم کرتے ہیں اور شاید وہ لوگ بھی جو ان سے بعض مسائل میں اختلاف کرتے تھے، تسلیم کرتے ہوں گے کہ مولوی محمد قاسم اس دنیا میں بے مثل شخص تھے، ان کا پایہ اس زمانے میں شاید معلومات علمی میں شاہ عبدالعزیز سے کچھ کم ہو اِلاّ اور تمام باتوں میں ان سے بڑھ کر تھا۔ مسکینی اور نیکی اور سادہ مزاجی میں اگر ان کا پایہ مولوی اسحاق صاحب سے بڑھ کر نہ تھاتو کم بھی نہ تھا، در حقیقت فرشتہ سیرت اور ملکوتی خصلت کے شخص تھے اور ایسے شخص کے وجود سے زمانے کا خالی ہوجانا، ان لوگوں کے لیے جو ان کے بعد زندہ ہیں، نہایت رنج اور افسوس کا باعث ہے۔“
)علی گڑھ گزٹ، 24 اپریل 1880ء(
مولوی رحمٰن علی:
مولوی رحمٰن علی اپنی کتاب ”تذکرہ علمائے ہند“ جو انہوں نے 1891ءمیں لکھی، حضرت مولانامحمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں: ”مولوی محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ بن شیخ اسد علی بن غلام شاہ بن محمد بخش بن علاءالدین بن محمد فتح بن محمد مفتی بن عبدالسمیع بن مولوی محمد ہاشم نانوتوی،1248ھ/1832ءمیں پیدا ہوئے، ان کا تاریخی نام خورشید حسین ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جدت طبع اور جودت ذہن ( ذکاوت، ذہانت ، لیاقت) فطری طور سے ودیعت( سپرد کرنا، حوالے کرنا) فرمایا تھا۔“
شاہ محمدجمیل الرحمن قادری چشتی نظامی رحمہ اللہ:
آپ اپنی کتاب ”تذکرہ وصال الجمیل“ جو آپ نے 1343ھ میں تالیف فرمائی، اس کتاب میں آپ نے حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے”: مولانائے موصوف عالم فاضل اور مشہور مناظر ہونے کے علاوہ نہایت عابد، زاہد، قانع، متوکل ، نہایت خلیق واقع ہوئے تھے۔ عربی ، فارسی نظم و نثر بے تکان لکھتے بولتے تھے، سیدھے سادے اتنے تھے کہ آپ کی وجع طرح پر علمیت کا گمان بھی نہ ہوتا تھا۔“
حضرت شاہ عبدالرحیم سہارن پوری رحمہ اللہ:
مولانا محمد امیر باز خان رحمہ اللہ”شہادات امیریہ“ میں فرماتے ہیں:
”خبر حسرت اثر مولانا و استاذنا مولوی محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ صاحب کی آئی تو حضرت (شاہ عبدالرحیم سہارن پوری رحمہ اللہ) نے آب دیدہ ہو کر فرمایا کہ آج میری پشت دو صدموں سے ٹوٹی ہے۔ایک مرگ مولوی محمد قاسم کی ہے ، دوم رحلت مولوی احمد علی صاحب (سہارن پوری) سے۔ یہ دونوں بزرگ وار بے ریا، متبع شریعت، مفیض اکمل تھے، مجھ کو ان کے باعث بری تقویت تھی۔ اب میں تنہا رہ گیا۔“
)شہادات امیریہ علی مکشوفات رحیمیہ،ص14(
حضرت شاہ فضل الرحمن گنج مراد آبادی رحمہ اللہ:
حضرت گنج مراد آبادی رحمہ اللہ کے خلیفہ مولانا شاہ تجمل حسین بہاری رحمہ اللہ اپنی تالیف ”کمالاتِ رحمانی“ میں لکھتے ہیں:
”اب بیعت کا جو عزم ہوا مجھ کو ( مولانا شاہ تجمل حسین بہاری رحمہ اللہ)عقیدت اور غلامی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے تھی۔آپ کو (حضرت گنج مراد آبادی رحمہ اللہ) کوکشف سے معلوم ہوا ، آپ نے حضرت مولانا کی تعریف کی کہ اس کم سنی میں ان کو ولایت حاصل ہوگئی۔“
مولانا محبوب الرسول جہلمی:
حضرت مولانا محمد قاسم صاحب کو میں اولیاء سے سمجھتا ہوں ، وہ اللہ تعالیٰ کی آیت تھے،اسلام اور علم کی جو ان سے اللہ تعالیٰ نے خدمت لی ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔“
(ڈھول کی آواز ،ص:117(
پیر محمد کرم شاہ الازہری بھیروی:
”حضرت قاسم العلوم رحمہ اللہ کی تصنیف لطیف مسمی بہ تحذیر الناس کو متعدد بار غور و تامل سے پڑھا اور ہر بار نیا لطف اور سرور حاصل ہوا۔ علما حق کے نزدیک حقیقت محمدیہ علی صاحبہا الف الف تحیہ و سلام متشابہات میں سے ہے اور اس کی صحیح معرفت انسانی حیطۂ امکان سے خارج ہے ، لیکن جہاں تک فکر انسانی کا تعلق ہے حضرت مولانا قدس سرہ کی یہ نادر تحقیق کئی شپرہ چشموں کے لیے سرمۂ بصیرت کا کام دے سکتی ہے۔ رہے فریفتہ گان حسن مصطفوی تو ان بے قرار دلوں اور بے تاب نگاہوں کی وارفتگیوں میں اضافہ کا ہزار سامان اس تحذیر الناس میں موجود ہے۔ آپ نے اپنے علمی ، دقیق اور محققانہ انداز میں یہ واضح کرنے کی سعی فرمائی ہے کہ ہر قسم کا کمال علمی ہو یا عملی، حسی ہو یا معنوی، ظاہری ہو یا باطنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا ذاتی کمال ہے۔ “
)ڈھول کی آواز،ص: 128(
علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ :
علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ نے ندوة العلماءکے ایک سالانہ جلسے میں کہا تھا:”عربی کے بیسیوں مدرسے کانپور میں قائم ہیں وہ کس نے قائم کئے ہیں؟ سوداگروں نے ، دنیاداروں نے،۔۔ کسی عالم نے نہیں قائم کئے۔ سوائے مدرسہ دیوبند کے، جس پر ہم فخر کرتے ہیں جس کو مولانا قاسم مرحوم نے قائم کیا تھا۔علاوہ اس کے مدرسہ کسی عالم نے قائم نہیں کیا۔“
)رپوٹ سالانہ ندوة العلماء 1912 ، ص :109 (
مولانا غلام رسول مہر:
مولانا غلام رسول مہر حجتہ الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ یوں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
”بزرگان دیوبند میں سے جن مقدس ہستیوں کو اولین درجہ احترام و اعزاز حاصل ہے، وہ حضرت حاجی امداد اللہ تھانوی، حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی ہیں رحمۃ اللہ تعالی علیہم۔ ان کے اسماءگرامی اس سر زمین کے آسمانوں پر ان درخشاں ستاروں کی طرح روشن ہیں، جو تاریکی کے وقت صحراؤں میں مسافروں اور سمندر میں ملاحوں کو راستہ بتاتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں علم و ہدایت کے مشعل بردار تھے، جب اس دنیا سے رخصت ہوئے تو اپنے پیچھے پاکیزہ عملی نمونے چھوڑ گئے۔ خصوصاََ حضرت مولانا محمدقاسم اور حضرت مولانا رشید احمد کی تو ایک یادگار دارالعلوم دیوبند ایسی ہے جوتقریباََ ایک صدی سے اس وسیع سرزمین میں دینی علوم کے قیام و بقا کا ایک بہت بڑا سرچشمہ رہی ہے۔ اس کی آغوش میں سینکڑوں ایسی مقدس ہستیوں نے تربیت پائی جن کے کارنامے دین و سیاست دونوں کے دوائر میں قابل فخر ہیں۔“
)1857 کے مجاہد ، ص163 (
سائیں توکل شاہ انبالوی رحمہ اللہ :
مولانا مشتاق احمد چشتی انبیٹھوی مؤلف ”انوار العاشقین“ فرماتے ہیں: ”حضرت عارف باللہ شیخی توکل شاہ صاحب مجددی رحمۃ اللہ علیہ نے عاجز سے فرمایا تھا کہ میں نے ایک دفعہ خواب دیکھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے جارہے ہیں،مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تو جہاں پائے مبارک حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑتا ہے وہاں دیکھ کر پاؤں رکھتے ہیں، میں بے اختیار بھاگا ہوں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچوں، چنانچہ میں آگے ہوگیا۔“
(انوار العاشقین،ص:88(
یہ چند باتیں حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمۃ اللہ علیہ کے متعلق ان کے ہم عصر اور بعد کے علما اور مشایخ کی ہیں۔ جن میں ان حضرات کے بھی نام شامل ہیں، جن کے عقیدت مند آج حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کے خلاف زہر اگلتے نہیں تھکتے۔
آخر میں اپنی بات حدیث قدسی پر ختم کرنا چاہوں گا۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”جب اللہ کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو پکارتا ہے، جبرئیل علیہ السلام کو اور یہ فرماتا ہے کہ بے شک اللہ نے فلاں کو دوست رکھا ہے سو تو بھی اس کو دوست رکھ، تو جبرائیل علیہ السلام اس سے محبت رکھتے ہیں۔ پھر جبرئیل علیہ السلام آسمانوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ فلاں بندے سے محبت کرتا ہے، سو تم بھی اس سے محبت کرو، تو آسمان والے اس شخص سے محبت کرنے لگتے ہیں، پھر اس محبوب بندے کی قبولیت زمین پر اتاری جاتی ہے، یعنی زمین کے نیک لوگ اس کو مقبول جانتے ہیں اور اس سے محبت رکھتے ہیں اور جب اللہ کسی سے ناراض ہوتا ہے تو بھی اس طرح کرتا ہے یعنی اس کا الٹ۔“
)مؤطا امام مالک، ج1،حدیث نمبر:1641(
اپنے بہت ہی محدود مطالعے پر چند حوالے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے محبت کرنے والے اور مقبول جاننے والے علما و مشائخ کے، ورنہ سچ تو یہ ہے کہ حجۃ الاسلام مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے چاہنے والوں کی تعداد بلا مبالغہ لاکھوں میں ہے۔
اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ اپنے اس محبوب بندے کے چاہنے والوں میں ہمارا شمار کر کے ہماری بخشش کا پروانہ جاری کردے۔
آمین یارب العالمین بجاہ النبی الامی الکریم