استوانہ حنانہ….مسجد نبوی کا ایک ستون

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
استوانہ حنانہ….مسجد نبوی کا ایک ستون
ناصر محمود ،چکوال
صحیح بخاری میں حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ
نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن خطبہ کے وقت ایک درخت یا کھجور کے تنے کے پاس کھڑے ہوتے تھے۔ ایک انصاری نے پیش کش کی : اے اللہ کے رسول !کیاہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر نہ بنادیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جیسے آپ کی مرضی۔انصاری عورت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایک منبر بنوا دیا۔ جمعہ کا دن آیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر تشریف فرماہوئے تو وہ تنا بچے کی طرح چیخ چیخ کررونے لگا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے اترے اوراس تنے کو آغوش میں لے لیاتووہ اس بچے کی طرح ہچکیاں لینے لگاجسے بہلا کر چپ کرایاجارہاہو۔ تنے کارونا ، فراق رسول صلی اللہ علیہ وسلم اورذکر اللہ سے محرومی کی بناپر تھاجسے وہ پہلے قریب سے سنا کرتاتھا۔
(صحیح بخاری :2095(
یہ ستون رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جدائی کے غم میں اس طرح رویا جیسے اونٹ کا بچہ اپنی ماں کے کھو جانے پر روتا ہے - اونٹ کے بچے کے اس طرح رونے کو عربی میں ' حنانہ ' کہتے ہیں - اس رونے کی آواز صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی سنی مگر وہ حیران تھے کہ یہ آواز کہاں سے آ رہی ہے - رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے جب اس کھجور کے تنے پر شفقت سے ہاتھ رکھا اور وعدہ فرمایا کہ وہ جنت میں ان کے ساتھ ہو گا تو اسے قرار آیا –
اس ستون کو ' استوانہ مخلقۂ ' بھی کہا جاتا ہے - اس کے وجہ یہ ہے کہ اس مبارک مقام پر ایک مرتبہ کسی شخص نے لا علمی میں تھوک دیا تھا اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے اس عمل کو ناپسند فرمایا تھا اس کے بعد خطبے کے اس تنے کو صاف کر کے بے انتہا خوشبو لگائی گئی جس کی وجہ سے اسے ' استوانہ مخلقۂ ' بھی کہا جاتا ہے - عربی میں ' مخلقۂ ' خوشبو کو کہتے ہیں - یہ ستون مسجد نبوی کے ' ریاض الجنۃ ' میں محراب رسول صلی الله علیہ وسلم سے لگا ہوا ہے۔
یہ ستون آج بھی مسجد نبوی میں اسی نام سے موجود ہے جو محبت رسول کی یاد دلاتا ہے۔ کجھور کی ایک لکڑی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قدر محبت تھی لیکن ہم ان کے امتی کہلانے والے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر کتنا عمل پیرا ہیں۔
ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔ صبح وشام غلامی رسول کا نعرہ لگانا بھی ہمارا ایمان ہے لیکن اس سے پہلے غلامی کی حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے۔ غلام اپنی مرضی ، خواہشات کو آقا کے حکم پر قربان کردیتا ہے۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا ہماری بھی یہی کیفیت ہے ؟؟
اگر یہی کیفیت ہے تو اس پر اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے ورنہ فکر پیدا کرنی چاہیے اور پختہ عزم کے ساتھ اپنی زندگی کو صحیح معنوں میں غلامی رسول کے قالب میں ڈھالنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ کیونکہ مسلمان کے لیے دنیا و آخرت کی ہر قسم کی کامیابیاں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک تعلیمات ، آپ کی مبارک سنتوں پر چلنے میں ہے۔ اللہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی غلامی نصیب فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم