سلمان فارسی کے اسلام لانے کا ایمان افروز واقعہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
سلمان فارسی کے اسلام لانے کا ایمان افروز واقعہ
معظمہ کنول
نام ونسب:
نسبی تعلق اصفہان کے آب الملک کے خاندان سے تھا، مجوسی نام مابہ تھا، اسلام کے بعد سلمان رکھا گیا اور بارگاہِ نبوت سے سلمان الخیرلقب ملا، ابوعبداللہ، کنیت ہے، سلسلۂ نسب یہ ہے: مابہ ابن بوذخشان بن مورسلان بن یہوذان بن فیروز ابن سہرک۔
قبل اسلام:
حضرت سلمان کے والد اصفہان کے جی نامی قریہ کے باشندہ اور وہاں کے زمیندار وکاشتکار تھے، ان کوحضرت سلمان سے اس قدر محبت تھی کہ ان کولڑکیوں کی طرح گھر کی چاردیواری سے نکلنے نہ دیتے تھے، آتشکدہ کی دیکھ بھال ان ہی کے متعلق رکھی تھی؛ چونکہ مذہبی جذبہ سلمان میں ابتداء سے تھا، اس لیے جب تک آتش پرست رہے اس وقت تک آتش پرستی میں سخت غلورہا اور نہایت سخت مجاہدات کیے، شب وروز آگ کی نگرانی میں مشغول رہتے تھے؛ حتی کہ ان کا شمار ان پجاریوں میں ہوگیا تھا جوکسی وقت آگ کوبجھنے نہ دیتے تھے۔
مجوسیت سے نفرت اور عیسویت کا میلان:
زمین ہی ان کے باپ کے معاش کا ذریعہ تھی؛ اس لیے زراعت کی نگرانی وہ بذاتِ خود کرتا تھا، ایک دن وہ گھر کی مرمت میں مشغولیت کی وجہ سے کھیت پرخود نہ جاسکا اور اس کی دیکھ بھال کے لیے سلمان کوبھیج دیا، ان کورستہ میں ایک گرجا ملا، اس وقت اس میں عبادت ہورہی تھی، نماز کی آوازیں سن کر دیکھنے کے لیے گرجے میں چلے گئے، نماز کے نظارہ سے ان کے دل پرخاص اثر ہوا اور مزید حالات کی جستجو ہوئی، عیسائیوں کا طریقہ عبادت اس قدر بھایا کہ بے ساختہ زبان سے نکل آیا کہ یہ مذہب ہمارے مذہب سے بہتر ہے؛ چنانچہ کھیتوں کا خیال چھوڑ کے اسی میں محو ہوگئے، عبادت ختم ہونے کے بعد عیسائیوں سے پوچھا کہ اس مذہب کا سرچشمہ کہاں ہے؛ انہوں نے کہاکہ شام میں، پتہ پوچھ کرگھرواپس آئے، باپ نے پوچھا کہ اب تک کہاں رہے؟ جواب دیا کہ کچھ لوگ گرجے میں عبادت کررہے تھے، مجھ کوان کا طریقہ ایسا بھلا معلوم ہوا کہ غروب آفتاب تک وہیں رہا، باپ نے کہا: وہ مذہب تمہارے مذہب کا پاسنگ بھی نہیں، جواب دیا، بخدا! وہ مذہب ہمارے مذہب سے کہیں برتر ہے، اس جواب سے ان کے باپ کوخطرہ پیدا ہوگیا کہ کہیں یہ خیال تبدیل مذہب کی صورت میں نہ ظاہر ہو، اس لیے بیڑیاں پہناکر مقید کردیا؛ مگران کے دل میں تلاشِ حق کی تڑپ تھی، اس لیے عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام کے تاجر آئیں تومجھ کواطلاع دینا؛ چنانچہ جب وہ آئے تواُن کوخبر کردی؛ انھوں نے کہا کہ جب وہ واپس ہوں تومجھے بتلانا؛ چنانچہ جب کاروانِ تجارت واپس لوٹنے لگا، ان کوخبر کی گئی، یہ بیڑیوں کی قید سے نکل کران کے ساتھ ہوگئے، شام پہنچ کردریافت کیا کہ یہاں سب سے بڑا مذہبی شخص کون ہے؟ لوگوں نے وہاں کے پادری کا پتہ دیا، اس سے جاکر کہا کہ مجھ کوتمہارا مذہب بہت پسند ہے، اس لیے میں چاہتا ہوں کہ تمہارے پاس رہ کرمذہبی تعلیم حاصل کروں اور مجھ کواس مذہب میں داخل کرو۔
تبدیل مذہب:
چنانچہ وہ مجوسیت کے آتشکدے سے نکل کرآسمانی باپ کی بادشاہت کی پناہ میں آگئے؛ مگریہ پادری بہت بدکردار اور بداخلاق تھا، لوگوں کوصدقہ کرنے کی تلقین کرتا اور جب اس کے قبضہ میں آجاتا توفقراء اور مساکین کودینے کی بجائے خود لے لیتا؛ حتی کہ سونے اور چاندی کے سات مٹکے اس کے پاس جمع ہوگئے، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ اس کی حرص اور آزکودیکھ کرپیچ وتاب کھاتے تھے؛ مگرزبان سے کچھ نہ کہہ سکتے تھے، اتفاق سے وہ مرگیا، عیسائی شان وشوکت سے اس کی تجہیز وتکفین کرنے کوجمع ہوگئے، اس وقت انھوں نے سارا اعمالنامہ ان لوگوں کے سامنے کھول کررکھ دیا؛ انہوں نے ان کولے جاکر اس کے اندوختہ کے پاس کھڑا کردیا، تلاشی لی گئی توواقعی سات مٹکے سونے چاندی سے بھرے ہوئے برآمد ہوئے، عیسائیوں نے اس کی سزا میں دفن کرنے کے بجائے اس کی نعش کوصلیب پرلٹکاکر سنگ سار کیا، اس کی جگہ دوسرا پادری مقرر ہوا، یہ بڑا عابد وزاہد اور تارک الدنیا تھا، شب وروز عبادتِ الہٰی میں مشغول رہتا، سلمان اس سے بہت مانوس ہوگئے اور دلی محبت کرنے لگے اور آخرتک اس کی صحبت سے فیض یاب ہوتے رہے، جب اُس کی موت کا وقت قریب آیا تواس سے کہا کہ میں آپ کے پاس عرصہ تک نہایت لطف ومحبت کے ساتھ رہا، اب آپ کا وقت آخر ہے، اس لیے آئندہ کے لیے مجھ کوکیا ہدایت ہوتی ہے، اس نے کہا کہ میرے علم میں کوئی ایسا عیسائی نہیں ہے جومذہب عیسوی کا سچا پیروہو، سچے لوگ مرکھپ گئے اور موجودہ عیسائیوں نے مذہب کوبہت کچھ بدل دیا ہے؛ بلکہ بہت سے اصول توسرے سے چھوڑ ہی دیے ہیں، ہاں موصل میں فلاں شخص ہے جودین حق کا سچا پیرو ہے تم جاکر اس سے ملاقات کرنا۔
موصل کا سفر:
اس پادری کی موت کے بعد حق کی جستجو میں وہ موصل پہنچے اور تلاش کرکے اس سے ملے اور اپنا واقعہ بیان کیا کہ فلاں پادری نے مجھ کوہدایت کی تھی کہ آپ کے یہاں ابھی تک حق کا سرچشمہ اُبلتا ہے اور میں آپ سے مل کراپنی تشنگی فرو کرنا چاہتا ہوں، اس نے ان کوٹھہرالیا پہلے پادری کی رائے کے مطابق یہ پادری درحقیقت بڑا متقی اور پاکباز تھا، اس لیے انھوں نے اس کے پاس مستقل قیام کرلیا؛ مگرتھوڑے دنوں کے بعد اسکا وقت بھی آگیا، آئندہ کے متعلق حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اس سے بھی وصیت کی خواہش کی، اس نے نصیبین میں ایک شخص کا پتہ بتایا۔
نصیبین کا سفر:
چنانچہ اس کی موت کے بعد آپ نصیبین پہنچے اور اس پادری سے ملکر دوسرے پادری کی وصیت بتلائی، یہ اسقف بھی پہلے دونوں اسقفوں کی طرح بڑا عابد اور زاہد تھا، سلمان یہاں مقیم ہوکر اس سے روحانی تسکین حاصل کرنے لگے، ابھی کچھ ہی دن اس کی صحبت سے فیض اُٹھایا تھا کہ اس کا وقت بھی آخر ہوگیا، حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نےگذشتہ اسقفوں کی طرح اس سے بھی آئیندہ کے متعلق مشورہ طلب کیا، اس نے عموریہ میں گوہرمقصود کا پتہ دیا۔
عموریہ کا سفر:
چنانچہ اس کی موت کے بعد انھوں نے عموریہ کا سفر کیا اور وہاں کے اسقف سے مل کرپیام سنایا اور اس کے پاس مقیم ہوگئے، کچھ بکریاں خریدلیں، اس سے مادی غذا حاصل کرتے تھے اور صبروشکر کے ساتھ روحانی غذا اسقف سے حاصل کرنے لگے، جب اس کا پیمانۂ حیات بھی لبریز ہوگیا توحضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے اپنی سرگذشت سنائی کہ اتنے مراتب طے کرتا ہوا آپ کے پاس پہنچا تھا، آپ بھی آخرت کا سفر کرنے کوآمادہ ہیں، اس لیے میرا کوئی سامان کرتے جائیے، اس نے کہا: بیٹا میں تمہارے لیے کیا سامان کروں؟ آج دنیا میں کوئی شخص ایسا باقی نہیں ہے کہ جس سے ملنے کا میں تمھیں مشورہ دوں؛ البتہ اب اس نبی کے ظہور کا زمانہ قریب ہے، جوریگستانِ عرب سے اُٹھ کردینِ ابراہیم علیہ السلام کوزندہ کرے گا اور کھجوروں والی زمین کی طرف ہجرت کریگا، اس کے علامات یہ ہیں کہ وہ ہدیہ قبول کریگا؛ لیکن صدقہ کواپنے لیے حرام سمجھے گا، اس کے دونوں شانوں کے درمیان مہرِنبوت ہوگی؛ اگرتم اس سے مل سکوتوضرور ملنا۔
اسقف کی بشارت اور عرب کا سفر:
اس پادری کے مرنے کے بعد کچھ عرصہ تک عموریہ میں رہے، کچھ دنوں بعد بنوکلب کے تاجر ادھر سے گذرے، آپ نے ان سے کہا کہ اگرتم مجھ کوعرب پہنچادو تومیں اپنی گائیں اور بکریاں تمھاری نذر کردونگا، وہ لوگ تیار ہوگئے
غلامی:
لیکن ان عربوں نے وادی القریٰ میں پہنچ کران کودھوکا دیا اور ایک یہودی کے ہاتھ غلام بناکر فروخت کرڈالا، کھجور کے درخت نظر آئے توآس بندھی کہ شاید یہی وہ منزلِ مقصود ہے جس کا اسقف نے پتہ دیا تھا، تھوڑے دن قیام کیا تویہ اُمید بھی منقطع ہوگئی، آقا کا چچازاد بھائی مدینہ سے ملنے آیا، اس نے سلمان رضی اللہ عنہ کواس کے ہاتھ بیچ دیا۔
غلامی اور مدینہ کا سفر:
وہ اپنے ساتھ ان کومدینہ لے چلا اور سلمان غلامی درغلامی کی رسوائی سہتے ہوئے مدینہ پہنچے؛ مگرہاتفِ غیب تسکین دے رہا تھا کہ یہ غلامی نہیں ہے۔
درحقیقت اس غلامی پرجومقصود وعالم کے آستانے تک پہنچانے کا ذریعہ بن جائے ہزاروں آزادیاں قربان ہیں، جوں جوں محبوب کی منزل قریب آتی جاتی تھی کشش بڑھتی جاتی تھی اور آثار وعلامات بتاتے تھے کہ شاہد مقصود کی جلوہ گاہ یہی ہے، اب ان کوپورا یقین ہوگیا اور دیدار جمال کی آرزو میں یہاں دن کاٹنے لگے؛ اس وقت آفتاب رسالت مکہ پرتوافگن ہوچکا تھا؛ لیکن جوروستم کے بالدوں میں چھپا تھا، سلمان رضی اللہ عنہ کوآقا کی خدمت سے اتنا وقت نہ ملتا کہ خود اس کا پتہ لگاتے، آخر انتظار کرتے کرتے وہ روزِ مسعود بھی آگیا کہ مکہ کا آفتاب عالم تاب مدینہ کے افق پرطلوع ہوا، حرمان نصیب سلمان کی شپ ہجر تمام ہوئی اور صبح اُمید کا اُجالا پھیلا، یعنی سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ تشریف لائے، سلمان کھجور کے درخت پرچڑھے ہوئے کچھ درست کررہے تھےاور آقا نیچے بیٹھے ہوئے تھے کہ اس کے چچازاد بھائی نے آکر کہا کہ خدا بنی قیلہ کوغارت کرے، سب کے سب قبا میں ایک شخص کے پاس جمع ہیں، جومکہ سے آیا ہے، یہ لوگ اس کونبی سمجھتے ہیں، سلمان کے کانوں تک اس خب رکا پہنچنا تھا کہ یارئے ضبط باقی نہ رہا، صبروشکیب کا دامن چھوٹ گیا، بدن میں سنسناہٹ پیدا ہوگئی اور قریب تھا کہ کھجور کے درخت سے فرشِ زمین پرآجائیں؛ اسی مدہوشی کے عالم میں جلد ازجلد درخت سے نیچے اُترے اور بدحواسی میں بے تحاشا پوچھنے لگے، تم کیا کہتے ہو؟ آقا نے اس سوال پرگھونسا مار کرڈانٹا کہ تم کواس سے کیا غرض، تم اپنا کام کرو، اس وقت سلمان خاموش ہوگئے؛ لیکن اب صبر کسے تھا کھانے کی کچھ چیزیں پاس تھیں ان کے لے کردربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ میں نے سنا ہے کہ آپ خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اور کچھ غریب الدیار اور اہلِ حاجت آپ کے ساتھ ہیں، میرے پاس یہ چیزیں صدقہ کے لیے رکھی تھیں، آپ لوگوں سے زیادہ ان کے مستحق کون ہوسکتے ہیں؟ اس کوقبول فرمائیے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں کوکھانے کا حکم دیا؛ مگرخود نوش نہ فرمایا؛ اس طرح سے سلمان رضی اللہ عنہ کونبوت کی ایک علامت کا مشاہدہ ہوگیا کہ نبی صدقہ نہیں قبول کرتا، دوسرے دن پھرہدیہ لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ کل آپ نے صدقہ کی چیزیں نہیں نوش فرمائی تھیں، آج یہ ہدیہ قبول فرمائیے، آپ نے قبول فرمایا، خود بھی نوش کیا اور دوسروں کوبھی دیا، اس طرح سے دوسری نشانی یعنی مہرنبوت کی بھی زیارت کی اور باچشم پرنم آپ کی طرف بوسہ دینے کوجھکے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سامنے آؤ! وہ سامنے آئے اور اپنی ساری سرگذشت سنائی؛ پھرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دلچسپ داستان اپنے تمام اصحاب کوسنوائی۔
اسلام:
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ جب اپنا گوہرمقصود پاچکے تواس دولت کواپنے دل کے خزانے میں رکھ کرآقا کے گھرواپس آئے، اتنے مرحلوں کے بعد وہ دین سے ہم آغوش ہوئے۔
آزادی:
غلامی کی مشغولیت کے باعث فرائضِ مذہبی ادا نہ کرسکتے تھے؛ اسی وجہ سے غزوۂ بدرواُحد میں شریک نہ ہوسکے، اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ اپنے آقا کومعاوضہ دے کرآزادی حاصل کرلو، تین سوکھجور کے درخت اور چالیس اوقیہ سونے پرمعاملہ طے ہوا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے سفارش فرمائی کہ اپنے بھائی کی مدد کرو، سب نے حسب حیثیت کھجور کے درخت دیے، اس طریقہ سے تین سودرخت ان کومل گئے اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد سے ان کوبٹھایا اور زمین وغیرہ ہموار کرکے ایک شرط پوری کردی، اب سونے کی ادائیگی باقی رہ گئی اس کا سامان بھی خدا نے کردیا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کوکسی غزوہ میں مرغی کے بیضہ کے برابر سونا مل گیا، آپ نے سلمان کودے دیا، یہ وزن میں ٹھیک چالیس اُوقیہ تھا، اس سے گلوخلاصی حاصل کی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہنے لگے
(قبل ازاسلام سے آزادی تک کے کل حالات مسنداحمد بن حنبل:۵/۴۱ تا ۴۴، سے ماخوذ ہیں)۔
مواخات:
غلامی سے آزادی کے بعد مسلمانوں کے ساتھ مستقل اقامت اخیار کی، اس وقت بالکل غریب الدیار تھے، کوئی شناسا نہ تھا، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے مکی مہاجرین کی طرح ان سے اور ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مواخاۃ کرادی۔
(بخاری:۲/۸۹۸، مواخاۃ کے معنی بھائی چارہ کے ہیں)
غزوات:
بدر واحد کی لڑائیاں ان کی غلامی کے زمانہ میں ختم ہوچکی تھیں، آزادی کے بعد پہلا غزوۂ خندق پیش آیا، اس میں انھوں نے اپنے حسن تدبیر سے دونوں لڑائیوں کی تلافی کردی، غزوۂ خندق میں تمام عرب کا ٹڈی دل مسلمانوں کے خلاف امنڈ آیا تھا کہ ان کا کامل استیصال کردے، حملہ خود مدینہ پرتھا، جس کے چاروں طرف نہ قلعہ تھا، نہ فصیل تھی اور مقابلہ بھی سخت تھا، ایک طفر کفار کی تعداد ریگستانِ عرب کے ذروں کے برابر تھی اور دوسری طرف مٹھی بھرمسلمان تھے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام مسلمانوں سے مشورہ کیا، سلمان فارسی رضی اللہ عنہ چونکہ ایران کی صف آرائیاں دیکھے ہوئے تھے، اس لیے جنگی اصولوں سے اچھی طرح واقف تھے؛ چنانچہ انہوں نے مشورہ دیا کہ اس انبوہ کا کھلے میدان مقابلہ کرنا اچھا نہیں ہے؛ بلکہ مدینہ کے چاروں طرف خندقیں کھودکرشہر کومحفوظ کردینا چاہیے، یہ تدبیر مسلمانوں کوبہت پسند آئی اور اسی پرعمل کیا گیا۔
(ابن سعد:۲/۴۸)
خندق کی کھودائی میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی بہ نفسِ نفیس شریک ہوئے تھے اور مٹی ڈھوتے ڈھوتے شکم مبارک مٹی سے اٹ گیا تھا اور رجزیہ اشعار زبانِ مبارک پرجاری تھے (بخاری، کتاب المغازی، غزوۂ خندق) ذیقعدہ سنہ۵ھ میں طرفین میں جنگ شروع ہوئی، عربوں کواس طریقۂ جنگ سے واقفیت نہ تھی وہ آئے توتھے کہ مدینہ کی اینٹ سے اینٹ بجادیں گے؛ مگریہاں آکردیکھا کہ ان کے اور مدینہ کے بیچ میں خندق کی فصیل حائل ہے، وہ ۲۲/دن تک مسلسل محاصرہ کیے پڑے رہے؛ مگرشہر تک پہنچنا ان کونصیب نہ ہوا اور آخرکار ناکام واپس پھرگئے، غزوۂ خنق کے علاوہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ تمام لڑائیوں میں مسلمانوں کے دوش بدوش شریک رہے (مسندابن حنبل:۵/۴۴) اور غزوۂ خندق کے بعد سے کوئی عزوہ ایسا نہیں ہوا جس میں شریک ہوکر دادِ شجاعت نہ دی ہو۔
(اُسد الغابہ:۲۳۳۰)
عہدِ صدیقی اور عراق:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ عرصہ تک مدینہ میں رہے، عہد صدیقی کے آخر یاعہد فاروقی کی ابتداء میں انہوں نے عراق کی اور ان کے اسلامی بھائی ابودرداء رضی اللہ عنہ نے شام کی سکونت اختیار کرلی؛ یہاں کی اقامت کے بعد ابودرداء رضی اللہ عنہ کوخدا نے مال اور اولاد کی حیثیت سے بہت نوازا؛ انہوں نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کوخط لکھا کہ تم سے جدا ہونے کے بعد خدا نے مجھ کومال ودولت اور اہل وعیال سے سرفراز کیا اور ارضِ مقدس کی سکونت کا شرف بخشا، انھوں نے جواب دیا کہ یادرکھو! مال ودولت اور اولاد کی کثرت میں کوئی خیر نہیں ہے؛ بلکہ خیر اس میں ہے کہ تمہارا حلم زیادہ ہو اور تمہارا علم تم کونفع پہنچائے، محض ارضِ مقدس کا قیام کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکتا جب تک کہ تمہارا عمل اس قابل نہ ہو اور عمل بھی اس طرح کا ہو کہ گویا خدا تم کودیکھ رہا ہے اور تم اپنے کومردہ سمجھو۔
(اسدالغابہ:۲/۲۳)
عہد فاروقی:
ایران کی فوج کشی میں مجاہدانہ شریک ہوئے اور چونکہ خود ایرانی تھے اس لیے فتوحات میں بہت قیمتی امداد پہنچائی؛ مگراصول اسلام کوہمیشہ پیشِ نظر رکھا، ایک ایرانی قصر کے محاصرہ کے وقت جارحانہ حملے کے پہلے محصورین کوسمجھادیا کہ میں بھی تمہارا ہم قوم تھا؛ لیکن خدا نے مجھ کواسلام سے نوازا، تم لوگ عربوں کی اطاعت گزاری سے کسی طرح نہیں بچ سکتے، تم کوسمجھائے دیتا ہوں کہ اگرتم اسلام لاکر ہجرت کرکے ہم میں مل جاؤ توتم کواہلِ عرب کے حقوق دیئے جائیں گے اور جوقانون ان کے لیے ہے وہی تم پرجاری کیا جائے گا اور اگراسلام نہیں قبول کرتے اور صرف جزیہ منظور کرتے ہوتوذمیوں کے حقوق تم کوملیں گے اور ان کا قانون تم پرنافذ کیا جائے گا، تین دن تک برابر تبلیغ کا فرض ادا کرتے رہے، جب کوئی اثر نہ ہوا توحملہ کا حکم دے دیا اور مسلمانوں نے قصرِ مذکور بزورِ شمشیر فتح کرلیا۔
(مسنداحمد بن حنبل:۵/۴۴۱)
فتح جلولا میں بھی شریک تھے اور وہاں مشک کی ایک تھیلی ان کے ہاتھ آئی تھی (ابن سعد:۴/۶۶) جس کواپنی زندگی کے آخری لمحات میں کام میں لائے۔
گورنری:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں مدائن کی حکومت پرسرفراز ہوئے، اس کی تفصیلات آئیندہ اخلاق وعادات میں آئیں گی؛ چونکہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ مقربین بارگاہِ نبوی میں سے تھے؛ اسی لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ ان کا بہت احترام کرتے تھے، ایک دفعہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے، اس وقت آپ ایک گدے پرٹیک لگائے بیٹھے تھے، سلمان رضی اللہ عنہ کودیکھ کر گذا ان کی طرف بڑھادیا۔
(مستدرک حاکم:۳/۵۹۹)
علالت:
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بیمار پڑے، سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ عیادت کوگئے تورونے لگے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: ابوعبداللہ رونے کا کون سامقام ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تم سے خوش خوش دنیا سے اُٹھے، تم ان سے خوضِ کوثر پرملوگے، بچھڑے ہوئے ساتھیوں سے ملاقات ہوگی، کہا: خدا کی قسم میں موت سے نہیں گھبراتا اور نہ دنیا کی حرض باقی ہے، رونا یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے عہد کیا تھا کہ ہمارا دنیاوی سازوسامان ایک مسافر کے زادِ راہ سے زیادہ نہ ہو؛ حالانکہ میرے گرد اس قدر سانپ (اسباب) جمع ہیں، سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کل سامان جس کوسانپ سے تعبیر کیا تھا، ایک بڑے پیالے، ایک لگن اور ایک تسلہ سے زیادہ نہ تھا، اس کے بعد سعد رضی اللہ عنہ نے خواہش کی کہ مجھ کوکچھ نصیحت کیجئے، فرمایا:کسی کام کا قصد کرتے وقت، فیصلہ کرتے وقت اور تقسیم کرتے وقت خدا کویاد رکھاکرو (ابن سعد:۴/۵،۶) اس بیماری کے دوران میں اور احباب نے بھی نصیحت اور وصیت کی خواہش کی، فرمایا: تم میں سے جس سے ہوسکے اس کی کوشش کرے کہ وہ حج، عمرہ، جہاد، یاقرآن پڑھتے ہوئے جان دے دے اور فق وفجور اور خیانت کی حالت میں نہ مرے۔
(ابن سعد:۴/۵،۶)
وقت آخر آیا تواپنی بیوی سے وہی مشک کی تھیلی منگائی اور اپنے ہاتھ سے پانی میں گھول کراپنے چاروں طرف چھڑکوایا اور سب کواپنے پاس سے ہٹادیا، لوگ تنہا چھوڑ کرہٹ گئے، تھوڑی دیر کے بعد پھرگئے تودیکھا کہ مرغ روح قفسِ خاکی سے پرواز کرچکا تھا۔
فضل وکمال:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے دن کا بڑاحصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں گزرتا تھا، اس لیے قدرۃ آپ علوم ومعارفِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے کافی بہرہ ورہوئے، حضرت علی رضی اللہ عنہ سے آپ کے مبلغ علم کے متعلق پوچھا گیا توفرمایا: ان کوعلم اوّل اور علم آخر سب کا علم تھا اور وہ خود ایسا دریاتھے جوپایابی سے نآشنا رہا، وہ ہمارے اہلِ بیت میں تھے، دوسری روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ وہ علم وحکمت میں لقمانِ حکیم کے باربر تھے (ابن سعد:۴/۶۶) علم اوّل سے مراد کتب سابقہ کا علم اور علم آخر سے مقصود آخری کتاب الہٰی یعنی قرآن کا علم ہے اور اہلِ بیت سے ہونا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے قربت واختصاص کی بناپر اور اس لیے کہ عربوں میں ان کا کوئی خاندان نہ تھا، آپ نے ان کویہ شرف بخشا کہ اعزازاً اپنے اہلِ بیت میں داخل کرلیا۔
حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جوخود بھی بہت بڑے عالم اور صاحب کمال صحابی تھےان کے کمال علم کے معترف تھے؛ چنانچہ ایک مرتبہ اپنے ایک شاگرد سے کہا کہ چار آدمیوں سے علم حاصل کرنا، ان میں ایک سلمان رضی اللہ عنہ کا نام بھی تھا (ابن سعد:۴/۶۱) ایک موقع پر خود زبانِ نبوت نے ان کے علم وفضل کی ان الفاظ میں تصدیق کی ہے کہ سلمان رضی اللہ عنہ علم سے لبریز ہیں (ابن سعد:۴/۶۱) صاحب اسدالغابہ لکھتے ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ فضلائے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین میں تھے۔
(اسدالغابہ:۲/۳۳۱)
آپ کی کوششوں سے حدیث کا کافی حصہ اشاعت پذیر ہوا، آپ کی کوششوں سے حدیث کا کافی حصہ اشاعت پذیر ہوا، آپ کے مرویات کی تعداد ۶۰/ہے، ان میں سے تین حدیثیں متفق علیہ ہیں، ان کے علاوہ ایک میں مسلم اور تین میں بخاری منفرد ہیں۔
(تہذیب الکمال:۱۴۷)
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ، ابوالطفیل رضی اللہ عنہ، ابن عباس رضی اللہ عنہ، اوس بن مالک اور ابن عجرہ وغیرہ آپ کے زمرۂ تلامذہ میں ہیں۔
گوحضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ علم اوّل اور آخر کے امین تھے؛ تاہم حدیث بیان کرنے میں بہت محتاط تھے، اس لیے ان کی مرویات کی تعداد ۶۰/سے زیادہ متجاوز نہ ہوئیں، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن میں لوگوں سے ایسی باتیں بیان کرتے تھے جوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے غصہ کی حالت میں کسی سے فرمائی تھیں لوگ اس کی تصدیق کے لیے حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، آپ نے صرف اس قدر جواب دیا کہ حذیفہ رضی اللہ خود زیادہ اچھا جانتے ہیں، لوگوں نے حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے آکر کہا کہ ہم نے آپ کی بیان کردہ حدیث سلمان رضی اللہ عنہ کوسنائی وہ اس کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ تردید، حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے آکر سلمان رضی اللہ عنہ سے کہا کہ جوکچھ تم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا اس کی تصدیق کیوں نہیں کرتے، فرمایا بعض اوقات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کوکچھ غصہ میں کہہ دیتے تھے اور بعض اوقات خوش ہوکر کچھ فرمادیتے تھے، معلوم ہوتا ہے کہ تم اس قسم کی باتوں کوبیان کرکے کسی کوکسی کا دوست اور کسی کوکسی کا دشمن بنادوگے، کیا تمہیں معلوم نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ خداوند غصہ کی حالت میں اگرکسی کے متعلق کوئی برا کلمہ نکل جائے تواس کوبھی اس کے حق میں خیر کردینا، پھران سے کہا کہ تم اس قسم کی باتوں سے باز آؤ نہیں تومیں عمر رضی اللہ عنہ کوآگاہ کردونگا۔
(مسنداحمد بن حنبل:۵/۴۱)
چونکہ وہ اسلام کے قبل عرصہ تک نصرانی رہ چکے تھے اس لیے عیسائی مذہب کے متعلق بھی کافی معلومات رکھتے تھے، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ سلمان رضی اللہ عنہ دوکتابوں کا علم رکھتے ہیں، کلام اللہ کا اور انجیل کا، مذہب عیسوی کے مسائل محض پادریوں کی زبانی نہیں سنے تھے؛ بلکہ خود انجیل کا مطالعہ کیا تھا؛ چنانچہ ایک مرتبہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے توراۃ میں دیکھا ہے کہ کھانے کے بعد وضو کرنے سے برکت ہوتی ہے۔
(مسنداحمد بن حنبل:۵/۴۱)
عام حالات میں تقرب بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اس مخصصوص زمرے میں تھے جس کوبارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں خاص تقرب حاصل تھا، مخصوص صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ کم لوگ ایسے تھے جوبارگاہِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کی پذیرائی میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی ہمسری کرسکتے ہوں، غزوۂ خندق کے موقع پرجب مہاجرین اور انصار علیحدہ علیحدہ جمع ہوئے تومہاجرین کہتے تھے کہ سلمان رضی اللہ عنہ ہمارے زمرہ میں ہیں، انصار کہتے تھے کہ ہماری جماعت میں ہیں، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سلمان رضی اللہ عنہ ہمارے اہلِ بیت میں ہیں (مستدرک حاکم:۳/۵۹۸)ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ کی شب کی تنہائی کی صحبت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اتنی لمبی ہوتی تھی کہ ہم لوگوں (ازواج رضی اللہ عنھن) کوخطرہ پیدا ہوگیا تھا کہ کہیں ہماری باری کی رات بھی اس نشست میں نہ گزرجائے، انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ جنت تین آدمیوں کی مشتاق ہے، علی رضی اللہ عنہ، عمار رضی اللہ عنہ اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی (جامع ترمذی، مناقب سلمان) آپ کے تقرب کی آخری مثال یہ ہے کہ ایک موقع پرآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ جیسے فدائی اسلام اور جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ سے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور ان کے بعض رفقاء کے بارے میں رنجیدہ ہوگئے، اس کا واقعہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ ابوسفیان رضی اللہ عنہ (جواُس وقت تک ایمان نہیں لائے تھے) چند آدمیوں کے ساتھ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ، حضرت بلال رضی اللہ عنہ، اور حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس سے گزرے، ان تینوں بزرگوں نے کہا کہ خدا کی کوئی تلوار خدا کے دشمن (ابوسفیان) کے گردن پرنہیں پڑی، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم لوگ سردارِ قریش کے متعلق زبان سے ایسا کلمہ نکالتے ہو اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آکر واقعہ بیان کیا، آپ نے فرمایا کہ شادی تم نے ان لوگوں کوناراض کردیا؛ اگرتم نے ان لوگوں کونارا ضکیا توگویا خدا کوناراض کیا، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بہت نادم ہوئے اور آکر ان بزرگوں سے معذرت کی۔
(مسلم:۲/۳۶۲،مصر)
اخلاق وعادات:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ میں مذہبی جذبہ کی شدت فطری تھی، جس طرح آتش پرستی کے زمانے میں سخت آتش پرست اور نصرانیت کے زمانہ میں سخت عابد وزاہد نصرانی تھے؛ اسی طرح مشرف بہ اسلام ہونے کے بعد السام کا مکمل ترین نمونہ بن گئے، ان کے اصل فضل وکمال کا میدان یہی ہے۔
زہد وتقویٰ:
ان کا زہد وورع اس حد تک پہنچ گیا تھا کہ جس کے بعد رہبانیت کی حد شروع ہوجاتی ہے، اس کی ادنی مثال یہ ہے کہ عمربھر گھر نہیں بنایا، جہاں کہیں دیواریادرخت کا سایہ ملتا پڑے رہتے، ایک شخص نے اجازت چاہی کہ میں آپ کے لیے مکان بنادوں؟ فرمایا: مجھ کواس کی حاجت نہیں، وہ پیہم اصرار کرتا رہا، یہ برابر انکار کرتے رہے، آخر میں اس نے کہا کہ آپ کی مرضی کے مطابق بناؤنگا، فرمایا: وہ کیسا؟ عرض کیا کہ اتنا مختصر کہ کھڑے ہوں توسرچھت سے مل جائے اور اگرلیٹیں توپیر دیواروں سے لگیں، فرمایا خیر اس میں کوئی مضائقہ نہیں؛ چنانچہ اس نے ایک جھونپڑی بنادی۔
(استیعاب:۲/۵۷۶)
اس زہد کا اثر زندگی کے ہرشعبہ میں نمایاں تھا، مزخرفاتِ دنیاوی کوکبھی پاس نہ آنے دیا وفات کے وقت گھر کا پورا اثاثہ بیس بائیس درہم سے زیادہ کا نہ تھا، بستر میں معمولی سابچھونا تھا اور دواینٹیں جن کا تکیہ بناتے تھے، اس پربھی روتے تھے اور فرماتے تھے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ انسان کا سازوسامان ایک مسافر سے زیادہ نہ ہونا چاہیے اور میرا یہ حال ہے (مسنداحمد بن حنبل: ۵/۴۳۸،۴۳۹) یہ حالت زندگی کے ہردَور میں قائم رہی، جب امارت کے عہدے پرممتاز تھے، اُس وقت بھی کوئی فرق نہ آیا، حسن بیان کرتے ہیں کہ سلمان رضی اللہ عنہ جب پانچ ہزار تنخواہ پاتے تھے اور تیس ہزار نفوس پرحکومت کرتے تھے، اس وقت بھی صرف ان کے پاس ایک عبا تھی جس میں لکڑیاں جمع کرتے تھے، اس کا آدھا حصہ بچھاتے تھے اور آدھا اوڑھتے تھے (ابن سعد:۴/۶۲) زہد وورع کا یہ حال تھا کہ خادم کوگوشت کی بوٹیاں گن کردیا کرتے تھے کہ مبادا اس کی طرف سے کوئی سوءِظن نہ پیدا ہو۔
رہبانیت سے اجتناب:
اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ وہ اسلام کی تعلیم کے خلاف رہبانیت کی طرف مائل تھے، مذہبی تشدد کے ساتھ ساتھ دنیاوی حقوق کا بھی پورا پورا لحاظ رکھتے تھے اور دوسروں کوبھی اس کی تلقین کرتے تھے، ا ن کے اسلامی بھائی حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ بڑے عابد وزاہد تھےرات بھر نماز پڑھتے تھے اور دن بھرروزہ رکھتے تھے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ان سے ملنے ان کے گھرجایا کرتے تھے، ایک مرتبہ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیوی کوبہت خراب حالت میں دیکھا، پوچھا تم نے کیا صورت بنارکھی ہے؛ انھوں نے کہا کس کے لیے بناؤ سنگار کروں، تمہارے بھائی کوتودنیا کی ضرورت باقی نہیں رہی ہے، حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ جب گھر آئے توبڑے تپاک سے ملے اور کھانا منگوایا؛ مگرخود معذرت کی کہ میں روزے سے ہوں، فرمایا جب تک تم نہ کھاؤ گے میں نہ کھاؤنگا۔
پھررات کوحضرت سلمان رضی اللہ عنہ ان کے پاس ہی لیٹے اور ان کودیکھتے ہی رہے، جب وہ عبادت کواُٹھے توروک کرفرمایا کہ تم پرتمہارے رب، تمہاری آنکھ اور تمہاری بیوی سب کا حق ہے، روزوں کے ساتھ افطار اور شب بیداری کے ساتھ سونا بھی ضروری ہے، اس کے بعد دونوں نے یہ معاملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پیش کیا، آپ نے ابودرداء رضی اللہ عنہ کومخاطب کرکے فرمایا کہ سلمان رضی اللہ عنہ تم سے زیادہ مذہب کے واقف کار ہیں۔
(استیعاب:۳/۵۷۲)
سادگی:
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کی تصویر حیات میں تکلف کے آب ورنگ کے بجائے سادگی بہت غالب تھی جوہرزمانہ میں یکساں قائم رہی، مدائن کی امارت کے زمانہ میں جب کہ شان وشوکت اور خدم وحشم وغیرہ تمام لوازم ان کے لیے مہیا ہوسکتے تھے، اس وقت بھی ان کی سادگی میں کوئی فرق نہیں آیا، لباس میں ایک عبا اور ایک اونچا پائجامہ ہوتا تھا؛ چونکہ ان کے سرکے بال گھنے اور کان لمبے لمبے تھے اس لی اس ایرانی ہیئت کودیکھ کرلوگ، گرگ آمد، گرگ آمد کہتے، ایک مرتبہ اسی امارت کے زمانہ میں اس شان وشوکت سے نکلے کہ سواری میں بلازین کا گدھا تھا، لباس میں ایک تنگ اور چھوٹی قمیض تھی، جوسواری پرسے کسی وجہ سے اُٹھ گئی تھی، جس سے گھٹنے بھی نہ چھپتے تھے، ٹانگیں کھلی ہوئی تھیں، لڑکے اس ہیئت کذائی میں دیکھ کران کے پیچھے لگ گئے، لوگوں نے یہ طوفانِ بدتمیزی دیکھا توڈانٹ کران کوہٹایا کہ امیر کا پیچھا کیوں کرتے ہو، ایک دستہ فوج کی سرداری سپرد ہوئی، فوجی امارت کی شان وشوکت کا توکیا ذکر یہاں معمولی سپاہی کی بھی وضع نہ تھی؛ چنانچہ فوجی نوجوان دیکھ کرہنستے اور کہتے کہ یہی امیر ہیں؟ حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی والدہ فرماتی ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ مدائن سے شام آئے، اس وقت وہاں کے گورنر تھے؛ مگراپنی سادگی کی وجہ سے معمولی لباس اور ابترحالت میں تھے، ان سے کہا گیا کہ آپ نے اپنے کواس قدر ابترکیوں بنارکھا ہے؟ آپ نے فرمایا کہ آرام وراحت توصرف آخرت کے لیے ہے۔
ابوقلابہ راوی ہیں کہ ایک شخص حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے یہاں گیا، دیکھا توبیٹھے آٹا گوندھ رہے ہیں، پوچھا خادم کہاں ہے؟ کہا کام سے بھیجا ہے، مجھ کویہ اچھا نہیں معلوم ہوتا کہ دودو کاموں کابار اس پرڈالوں؛ اس غیرمعمولی سادگی کی وجہ سے لوگوں کوان پراکثر مزدور کا دھوکا ہوجایا کرتا تھا، ایک مرتبہ ایک عبسی نے جانور کے لیے چارہ خریدا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کھڑے تھے ان سے کہا کہ اس کوگھر تک پہنچادو، وہ اُٹھاکر لے چلے، راستہ میں لوگوں نے دیکھا توکہنے لگے لائیے ہم پہنچادیں، یہ حال دیکھ کرعبسی نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں، وہ سن کربہت نادم ہوا اور کہا کہ آپ تکلیف نہ کیجئے، آپ نے فرمایا اس میں مجھے نیت کا ثواب ملتا ہے، اب میں اس بوجھ کوبغیر پہنچائے ہوئے نیچے نہیں رکھ سکتا۔
فیاضی:
فیاضی اور انفاق فی سبیل اللہ بھی آپ کا نمایاں وصف تھا، جوکچھ آپ کوتنخواہ ملتی تھی وہ کل کی کل مستحقین میں تقسیم کردیتے تھے اور خود چٹائی بن کرمعاش پیدا کرتے تھے اور چٹائی کی آمدنی کا بھی ایک تہائی اصل سرمایہ کے لے رکھ لیتے تھے، ایک تہائی بال بچوں پرخرچ کرتے اور ایک تہائی خیرات کرتے تھے، ارباب علم کے بڑے قدردان تھے، جب کوئی رقم ہاتھ آجاتی توحدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے شائقین کوبلاکرکھلادیتے تھے۔
(ابن سعد:۴/۶۴)
صدقات سے اجتناب:
صدقات سے بہت سخت پرہیز کرتے تھے؛ اگرکسی چیز میں صدقہ کا ادنی شائبہ ہوتا تواس سے بھی احتراز کرتے، ایک غلام نے خواہش کی کہ مجھ کومکاتب بنادیجے، فرمایا تمہارے پاس کچھ ہے، کہا میں لوگوں سے مانگ کرادا کردونگا، فرمایا تم مجھ کولوگوں کے ہاتھ کا دھوون کھلانا چاہتے ہو (حالانکہ اس کا مانگنا ان کے لیے صدقہ نہ رہ جاتا)۔
(ابن سعد:۴/۶۴)
حلیہ:
آپ رضی اللہ عنہ کے بال گھنے، کان لمبے اور دراز قامت تھے۔
زریں اقوال
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے بہت سے حکیمانہ جملے اور زریں اقوال کتب احادیث میں منقول ہیں، ان میں سے چند جواہر ریزے ہم یہاں نقل کرتے ہیں:
ایک مرتبہ دجلہ کے کنارے جانے کا اتفاق ہوا، ایک شاگرد بھی ساتھ تھا، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا کہ گھوڑے کوپانی پلالاؤ، اس نے حکم کی تعمیل کی، آپ نے فرمایا خوب اچھی طرح پلاؤ، جب وہ سیراب ہوگیا توشاگرد سے مخاطب ہوکر حضرت سلمان رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا اس جانور کے پانی پینے سے دجلہ میں کوئی کمی واقع ہوئی؟ اس نے کہا جی نہیں؛ پھرآپ نے فرمایا کہ علم کی مثال بھی ایسی ہی ہے، اس میں سے جتنا بھی خرچ کیا جائے گھٹتا نہیں چاہیے کہ علم نافع طلب کرو، آپ نے فرمایا کہ علم بہت ہے اور عمر تھوڑی توبقدر علم دین اسے حاصل کرلو اور ساری دنیا کے علوم کے پیچھے نہ پڑو۔
فرمایا مؤمن کی مثال ایک مریض کی ہے اور اس کے پاس طبیب موجود ہے جومرض اور اس کے علاج سے بخوبی واقف ہے، مریض کوجب کوئی ایسی چیز کی خواہش ہوتی ہے جو اس کے لیئے مضر ہوتی ہے تووہ اس کوروکتا ہے؛ اسی طرح وہ برابر اس کی دیکھ بھال کرتا رہتا ہے؛ یہاں تک کہ وہ بالکل تندرست ہوجاتا ہے؛ اسی طرح مؤمن کی خواہشات بھی بہت ہوتی ہیں؛ مگراللہ تعالیٰ اس کوبری اور مضرخواہشات سے بچاتا رہتا ہے؛ تآنکہ اسے موت آجاتی ہے اور وہ جنت کی تمام نعمتوں سے بہرہ ور ہوتا ہے؛ اگروہ پہلے بازنہ رکھا گیا ہوتا تواس کویہ نعمتیں کیسے ملتیں۔
ابودرداء رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ ان کولکھا کہ آپ ارض مقدس (غالباً بیت المقدس) میں چلے آئیے، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان کوجواب میں لکھا کہ کوئی زمین انسان کومقدس نہیں بناتی؛ بلکہ اس کوخود اس کا عمل مقدس اور متبرک بناتا ہے؛ پھرآپ نے لکھا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تم کسی جگہ کے قاضی بنادیے گئے ہو تواگرتمہارے فیصلوں سے لوگوں میں انصاف ہوتوبہت اچھا ہے اور اگرتم مصنوعی قاضی ہوتوپھرایسا نہ ہوکہ اپنے فیصلوں سے تمھیں دوزخ میں جانا پڑے، یحیی بن سعید بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد ابودرداء رضی اللہ عنہ کا یہ حال ہوگیا کہ جب دوآدمیوں میں فیصلہ کرتے اور فریقین واپس جانے لگتے توان کی طرف ایک نظر ڈالتے اور ان سے فرماتے کہ واقعی میں مصنوعی قاضی ہوں، واپس آؤ اور پھرمجھ سے اپنا مقدمہ بیان کرو، شاید فیصلہ میں غلطی ہوگئی ہو۔
فرماتے ہیں کہ مجھے تین آدمیوں پربڑا تعجب ہوتا ہے، ایک وہ جودنیا کی طلب میں پڑا ہوا ہے اور موت اسے طلب کررہی ہے، دوسرا وہ جوموت سے غافل ہے؛ حالانکہ موت اس سے غافل نہیں ہے، تیسرا وہ جوقہقہے مارکر ہنستا ہے اور نہیں سمجھتا کہ اللہ تعالیٰ اس سے راضی ہے یاناراض، فرمایا تین چیزیں مجھے اس قدر غمگین کرتی ہیں کہ میں رودیتا ہوں، ایک توآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب کی جدائی، دوسری عذاب قبر، تیسری قیامت کا خطرہ۔آپ کے پاس ایک شخص آیا اور اس نے آپ سے نصیحت کی خواہش ظاہر کی، آپ نے فرمایا: بولونہیں، اس نے کہا کہ لوگوں میں رہ کریہ کیسے ممکن ہے، آپ نے فرمایا کہ اگربولو توصحیح اور مناسب بات کہو، اس نے کہا کہ کچھ اور ارشاد ہو، فرمایا کہ غصہ نہ کرو، اس نے کہا کہ میں غصہ میں قابو سے باہر ہوجاتا ہوں، فرمایا کہ اپنے ہاتھ اور زبان کوقابو میں رکھو، اس نے کہا اور ارشاد فرمائیے، فرمایا : لوگوں سے ملوجلو نہیں، اس نے کہا یہ کیسے ممکن ہے؟ فرمایا اگرملتے جلتے ہوتوپھر بات میں سچائی سے کام لو اور امانت ادا کردیا کرو۔