میں نے اپنے بچوں کو پڑھانا ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
میں نے اپنے بچوں کو پڑھانا ہے
مولانا محمد کلیم اللہ حنفی
ٹک ٹک ٹک…… میں نے دروازے پر دستک دی۔
اندر سے معصوم کلی کی چٹکتی ہوئی آواز آئی: امی امی……… بابا آگیا ہے۔
پھر وہ بھاگتی ہوئی آئی اور دورازہ کھول کر میرے ساتھ لپٹ گئی۔ اور توتلے انداز میں کہنے لگی :
بابا …بابا۔۔۔ میں نے میں نے قاعدہ ختم کر لیا ہے۔ بابا… بابا آج میں چھٹی کے وقت واپس آئی ہوں۔ یہ کہہ کر ہنستی ہوئی ماں کے پاس چلی گئی۔
کیابتاؤں اس سکون کا ؟؟ کیسے احساس دلاؤں اس کیفیت کا ؟ اس دلی خوشی کو الفاظ کا لباس کیسے پہناؤں ؟ دل کو شاید زندگی میں پہلی بار اتنی بڑی خوشی ملی۔ میری اولاد …… میری لخت جگر…..میری آنکھوں کی ٹھنڈک…… خدا کا نور حاصل کرنے لگی ہے۔ اُس ازلی و ابدی لاریب و لاشک انقلابی دستوری روحانی کتاب اور اللہ کے کلام کو سیکھنے لگی ہے۔ خدائی امانت کو اپنے سینے میں سمانے چلی ہے جسے بلند قامت مضبوط پہاڑ بھی نہ اٹھا سکیں۔
_____________________________________
یہ اتوار کا دن تھا۔۔ صبح ساڑھے سات بجے ………مدرسے کے یونیفارم میں وہ بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ ایک ہاتھ میں ابتدائی قاعدہ اٹھائے دوسرے ہاتھ سے اپنے بابا کی انگلی پکڑے مدرسے کی طرف چلی آ رہی تھی۔ جہاں اسے تعلیم بھی ملنی ہے اور تربیت بھی ملنی ہے۔ جہاں اس کی زندگی بھی بننی ہے اور آخرت بھی سنورنی ہے۔ جہاں دین بھی ملنا ہے اور دنیا بھی۔ جہاں اس کا حال بھی اچھا اور مستقبل بھی تابناک ہونا ہے۔ میں سوچوں میں غلطاں کشاں کشاں مدرسے کی طرف جا رہا تھا۔
آج بچے سکول میں جاتے نہیں نظر آرہے تھے۔ پھر ذہن میںِ آیا کہ اوہ آج اتوار ہے اور اسکولوں میں چھٹی ہے۔ مجھے اسکولوں کی اہمیت افادیت اور ضرورت سے ہرگز انکار نہیں۔ لیکن چند باتیں میرے دل کے دریچے پر دستک دے رہی ہیں۔
1: یورپ سے لے کر برصغیر پاک و ہند کے آخری مشرقی کنارے تک اور وہاں سے ہمارے ان دیہاتوں تک مغربی سوچ ، غلامانہ ذہنیت اور فرنگی تہذیب ہمارے دماغوں پر فرماں روائی کر رہی ہے۔ حصول علم کا مقصد جہالت کا خاتمہ کم نوکری کی تلاش زیادہ ہے۔ مجھے اس سوچ پر شکوہ ہے۔ جب یہ سوچ ہمارے معاشرے کے ہر کچے پکے مکان میں پروان چڑھ رہی ہو تو بھلا تعلیم کے نتائج کیسے مرتب ہو سکتے ہیں ؟ ؟ علم کے حصول کا بنیادی مقصد انسانیت کے قدریں اجاگر کرنا ہونا چاہیے۔
2: اسلام ہماری بنیاد ہے۔ ایمانیات اور اسلامی احکامات ہماری شناخت ہے۔ مشرقی تہذیب و کلچر ہماری پہچان ہے۔ لیکن ہمارے عصری اداروں میں دی جانے والی تعلیم میں ان کی کیا حیثیت باقی رہ گئی ہے۔
ہمارے بچوں کو twinkle twinkle little star یاد ہے۔ لیکن آسمانی کتابوں اور فرشتوں کا علم نہیں۔ خلفائے راشدین کے کارناموں سے تو کجا ناموں سے بھی واقفیت نہیں۔ جب ہماری آنے والے نسل نو کو اپنے حقیقی پیشوائوں کا سرے سے پتہ ہی نہیں ہوگا تو وہ کل کو ان جیسی زندگی کیسے گزاریں گے۔ ؟
3: انگریزی ، ریاضی ، سوشل سٹڈی ، سائنس کو مدارس میں شامل نصاب کرنے پر بہت زور دیا جاتا ہے۔ وقت کی ضرورت بتایا جاتا ہے۔ ترقی کا پہلا زینہ قرار دیا جاتا ہے۔ زندگی کو اس کے بغیر ادھورا کہا جاتا ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم ہے۔ ارباب مدارس نے ان کو شامل نصاب بھی کیا ہے۔ لیکن عجب ماجرا ہے کہ اسلامی ملک کے عصری تعلیمی اداروں سے ڈگریاں حاصل کرنے والے جدید تعلیم یافتہ اشرافیہ طبقے کو سربراہوں کو دیکھ کر سورۃ اخلاص بھی نہ پڑھی جا سکے تو آپ خود بتائیےاب ہم کیا سمجھیں؟؟ کیا اسکولوں میں اسلام پر توجہ دی جا رہی ہوگی۔ ؟؟
4: آج جن مدارس کوایک خاص سازش کے تحت شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ان کی تاریخ بتلاتی ہے کہ ارباب مدارس نے قوم سے ایک وعدہ کیاتھا وہ معاشرے کو حافظ ، قاری ، موذن ، امام ،معلم ، مبلغ، داعی اورمفتی مہیا کریں گے۔
آپ جائزہ لے لیں آج ہر مسجد کے لیے آپ کو موذن ، امام ، حافظ ، قاری۔ قرآن و سنت کی تعلیم دینے والا معلم مل جائے گا۔
روزمرہ کے دینی مسائل کے حل کے لیے آپ کو مفتی مل جائے گا۔
دین اسلام کو گھر گھر پہنچانے کے لیے مبلغ اور داعی مل جائے گا۔
روحانیت کا فیض بانٹنے اور معاشرے کو اخلاقی بالیدگی دینے والا پیر اور خانقاہ کا شیخ مل جائے گا۔
اسی طرح عصری تعلیمی اداروں نےبھی قوم کو انجینیر ، وکیل ، جج ، ڈاکٹردینے کا عزم کیا تھا۔ لیکن آج ہمیں اچھے انجینئر باہر سے کیوں منگوانے پڑتے ہیں ؟
اپنے ڈاکٹروں کے ہوتے ہوئے ہمیں علاج کے لیے لندن اور دیگر ممالک کا سفر کیوں کرنا پڑتا ہے ؟
وکیل بننے کے لیے ہمارے نوجوان باہر کا رخ کیوں کرتے ہیں ؟
اور ہمارے عصری تعلیمی اداروں میں مخلوط نظام کے ذریعےحیا باختگی کا طوفان بلا خیز کیوں ہمارے کلچر کو بہا کر لے جا رہا ہے ؟؟
5: مدارس اسلامیہ میں محض کتابوں کے حروف سے شناسائی کرا کر اساتذہ اپنے فرائض منصبی سے سبکدوش نہیں ہوجاتے بلکہ تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی و روحانی تربیت میں اپنا بھرپور کردار ادا کرتے ہیں۔
اسی کا نتیجہ ہے کہ مدارس والے تنخواہیں بڑھانے کے لیے بھوک ہڑتالیں ، دھرنے ، احتجاج نہیں کرتے۔ بلکہ محب وطن سنجیدہ اور باوقار معزز شہری بن کر زندگی بسر کرتے ہیں۔
_____________________________________
خیر بات کہیں اور چل نکلی ………
وہ روز صبح اٹھتی ہے۔ اس کی ماں اسے مدرسے جانے کی تیاری کراتی ہے۔ وہ روز یونیفارم میں قاعدہ اٹھائے بابا کی انگلی پکڑے قرآن پڑھنے جاتی ہے۔ اللہ اسے علم کے حصول کے لیے قبول فرمائے ، اس راہ کی ساری مشکلات کو دور فرمائے ،روز قیامت قرآن کریم کو اس کا سفارشی بنائے۔ اور اللہ کریم اس کی بدولت بروز محشر ساری انسانیت کے سامنے ہمارے سروں پر تاج سجا کر ہمارا سر فخر سے بلند کرے۔ آمین