گرلز کا لج کا بدلتا ہوا کلچر

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
گرلز کا لج کا بدلتا ہوا کلچر
شوکت حیات گوندل
زمانہ جہالت میں کائنات کی سب سے بد ترین شئے عورت کو سمجھا جاتا تھا عورت کو اس معاشرے میں حقارت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا مگر ظہور اسلام کے بعد عورت کو وہ اعلیٰ مقام ملا کہ اللہ تعالیٰ نے جنت کو اس کے قدموں میں ڈال دیا اور وہی عورت جس کو پیدا ہوتے ہی زندہ دفن کر دیا جاتا تھا اس کی پرورش پر جنت کی بشارت سنائی وہی عورت جس کاوجود نحوست کی علامت اور قباحت کانشان تھا اسلام نے اس کو فرش سے اٹھا کر عرش پر بٹھا دیا اتنی عزت دی کہ اس کو سر کا تاج بنا دیا۔
مگر صد افسوس!
اسلام نے جس پستی سے عورت کو نکالا تھا آج اسلامی تعلیمات سے بغاوت کر کے عورت دوبارہ اسی راستے کی طرف گامزن ہے آزادی کا نعرہ لگا کر عورت بربادی کی طرف جا رہی ہے یہ آزادی نہیں بلکہ عورت کی سوچ کا فریب ہے۔
اس عمل میں جہاں دوسرے عوامل کار فرما ہیں ان سب میں اہم کردار ہمارے تعلیمی اداروں کا ہے جو تعلیمی سر گرمیوں کے ساتھ ساتھ ان بچیوں کے ذہن میں مغربی ثقافت کا زہر بھر رہے ہیں۔
شکایت ہے مجھے یارب خدا وندان مکتب سے

سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

تعلیمی نصاب میں آئے دن تبدیلیاں کر کے بچیوں کے ذہن سے اسلامی تشخص کو مٹایا جا رہا ہے وہی پرائیوٹ تعلیمی ادارے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنے پر اتر آئے ہیں۔
سکول و کالجز کے اندر ماہانہ اور سالانہ تقریبات منعقد کی جاتی ہیں جن میں فلمی گانوں پر بچیوں کا ڈانس عام معمول بن چکا ہے۔
ثقافتی رقص کے نام پر بچیوں سے بے ہودہ قسم کا ناچ گانا کروایا جاتا ہے تعلیمی اداروں کے اندر انٹرنیٹ والا فون استعمال کرنے پر کوئی روک ٹوک نہی ہے سکول و کالجز سے تفریحی مقامات پر جانے والے ٹرپ شہروں سے دور جنگلوں میں جا کر موسیقی کی محفلیں سجاتے ہیں۔
سکولوں میں یونیفارم کے لیے بغیر بازو کے قمیض اور تنگ پاجاموں کے ساتھ ساتھ لڑکیوں اور لڑکوں کا تعلیمی اداروں کے اندر اختلاط ہماری آنے والی نسل کے دل و دماغ سے شرم و حیا کے سارے پردے اتار دے گا۔
کو ایجوکیشن کے نام پر بے شرمی کا ایک طوفان برپا کر دیا گیا ہے ہمارے کہنے کا مقصد یہ نہیں کہ تمام تعلیمی ادارے ایسے ہیں مگر اس بات میں کوئی شک نہی کہ اب اکثر ادارے اسی روش پر چل رہے ہیں۔
ان باتوں سے یہ نتیجہ اخذ کرنا کہ تمام بے شرمی کی جڑ صرف تعلیمی ادارے ہیں تو اندازہ بالکل غلط ہو گا۔
جہاں تعلیمی اداروں کے فرائض ہیں وہی ہماری بھی کچھ ذمہ داریاں ہیں چاہے ہم والدین ہیں یا کسی دوسرے عہدے یا رشتے پر فائض ہیں یہ ہم سب کا فرض ہے کہ آنے والی نسل کو اس بے راہ روی سے بچائیں۔
سکول و کالجز کے نزدیکی مقامات پر موجود دکانوں اور ماحول پر نظر رکھیں بچیوں کو گھر کے دروازے سے سکول کے گیٹ تک چھوڑنے کا کام خود سر انجام دینے کی کوشش کریں۔
اگر ضروری سمجھیں تو بچیوں کو صرف سادہ موبائل دیں اگر موبائل ضروری نہیں تو کبھی بھی ان کو یہ سہولت فراہم نہ کریں۔
تعلیمی ادارے کا انتخاب کرنے سے پہلے اس کے اساتذہ تعلیمی نصاب اور سوشل سرگرمیوں کے بارے میں مکمل تحقیق ضرور کریں۔
سکول کی تقاریب میں خود شامل ہونے کی کوشش کریں تاکہ بچیوں کو کسی قسم کی غیر اخلاقی حرکت کے لیے مجبور نہ کیا جا سکے اور تقریب کی تصاویر کو صرف محفوظ ہاتھوں تک محدود رکھیں تا کہ سوشل میڈیا تک نہ پہنچ سکیں۔طلبہ و طالبات کو خود بھی چاہیے کہ وہ اپنے مقام کو پہچانیں اور اپنی اقدار کا خیال رکھیں۔
کسی دردمند نے
کبھی اےنوجواں مسلم تدبر بھی کیا تو نے
وہ کیا گردوں تھا تو جس کا ہے اک ٹوٹا ہوا تارہ
تجھے اس قوم نے پالا ہے آغوش محبت میں

کچل ڈالا تھا جس نے پاؤں میں تاج سردارا

یہ ہم سب کا فرض ہے کہ اپنی اخلاقی نظریاتی مذہبی معاشرتی سماجی اور جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
اہل خرد کے لیے اشارہ کافی ہے باقی تمام امور آپ کے سامنے ہیں آئے روز ہونے والے واقعات کسی بڑی تباہی کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتے ہیں اس لیے ہم کو اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنا فریضہ ادا کرنے کی کوشش کرنی ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمارے ملک کو حقیقی معنوں میں اسلامی جمہوری بنائے اور اس میں پھیلتی ہوئی فرنگی تہذیب سے ہماری اور ہماری نسلوں کی حفاظت فرمائے۔