عرض مصنف

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
عرض مصنف
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم
جون 2000ء کی بات ہے جب میں 25 سالہ قیدی ہونے کی حیثیت سے سنٹرل جیل بہاولپور میں قیدِ تنہائی کاٹ رہا تھا اور سوائے تلاوتِ قرآنِ کریم اور بعض دینی کتب جن میں حضرت امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کی ”احیاء العلوم“ سر فہرست تھی، کے مطالعہ کے علاوہ کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ بعض دفعہ تو یومیہ ایک قرآن کریم کی تلاوت کا معمول بھی رہا۔
پھر دل میں داعیہ پیدا ہوا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک پر بھی محنت ہونی چاہیے۔ ایک حدیث ذہن میں تھی:
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ حَفِظَ عَلٰى أُمَّتِيْ أَربَعِيْنَ حَدِيْثًا مِّنْ أَمْرِ دِيْنِهَا بَعَثَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقِيْهًا عَالِمًا.
(کتاب العلل للدارقطنی: ج6ص33، س959)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری امت کے دینی امور کے متعلق چالیس حدیثیں یاد کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسےفقیہ و عالم حضرات کی صفوں میں شامل فرما کر اٹھائے گا۔
لہذا بنامِ خدا زادالطالبین جو کہ مولانا محمد صادق جمالپوری (مدرسہ جامعہ مدنیہ بہاولپور) نے شفقت فرماتے ہوئے دیگر کتب کے ساتھ روانہ فرمائی تھی، کے آخر سے”الباب الثانی فی الواقعات والقصص وفیہ اربعون قصۃ“ کو مکمل حفظ کر لیا۔ پھرمزید شوق ہوا تو زاد الطالبین ہی سے ”ذکر بعض المغیبات التی اخبر النبی بھا وظھرت بعد وفاتہ صلوات اللہ وسلامہ علیہ“ جو کہ پچیس احادیث پر مشتمل ہے، کو حفظ کیا۔ مزید حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور شوق بڑھا تو عزیزم بھائی شعیب احمد گھمن سے ”خصائل نبوی شرح شمائل ترمذی“ منگوائی اور بنامِ خدا اس سے شمائل ترمذی کی احادیث کو حفظ کرنا شروع کیا جو کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے مکمل تقریباً چار سو احادیث سنداًومتناً صرف چالیس روز میں حفط کر لیں۔ ابھی یہ سلسلہ حفظ جاری تھا کہ بہاولپور سے اڈیالہ جیل راولپنڈی چالان چلا گیا، لہذا شمائل کی کچھ احادیث بہاولپور میں اور کچھ راولپنڈی میں حفظ کیں۔ یہ سلسلہ چلتا رہا کہ پھر قرآن کریم پر توجہ ہوگئی اور اوقات کو تقسیم کر کے کچھ وقت تلاوت، کچھ ذکر اللہ، کچھ ترجمہ و تفسیر اور باقی حصہ کتب کے مطالعہ میں مصروف ہو گیا اور روزانہ مغرب کی نماز کے بعد درسِ حدیث کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ پھر انہی احادیث کا درس بھی مغرب کی نماز کے بعد دیا۔ اسی طرح جیل کے حالات بدلتے رہے جن کی تفصیل مفید ہے نہ ہی مناسب۔
ٹھیک ایک سال بعد جون 2001ء کو دوبارہ انہی احادیث کو تازہ کرنے کے لیے سوائے تلاوت، ذکراللہ کے باقی اوقات کو حدیث شریف کے لیے خاص کر دیا اور ساتھ ساتھ شمائل ترمذی کی شروحات کا مطالعہ بھی رہا تو دل میں ایک خیال بار بار اٹھتا رہا کہ اگر اس کی آسان اور مختصر شرح لکھ دی جائے تو شاید عام لوگوں کے لیے بہت مفید ثابت ہو۔
لہٰذا اپنے مالک کریم سے استخارہ اور مخلص دوستوں سے مشورہ کرنے کے بعد 14 ربیع الثانی 1422ھ بمطابق 7جولائی 2001ء بروز ہفتہ کو روزہ کی حالت میں اس کتاب ”زبدۃ الشمائل“ کو شروع کیا جو کہ محض اللہ تعالیٰ کے فضل اور مخلص دوستوں کی دعاؤں سے 26 ربیع الثانی 1422ھ بمطابق 19 جولائی بروز جمعرات کو مکمل ہو گئی۔ وللہ الحمد والشکر والمنۃ.
اس کتاب کا مطالعہ کرنے والے حضرات چندباتوں کا خیال فرمائیں:
1: یہ کتاب خالص عوام الناس کے لیے ہے، اس لیے اس میں عوامی زبان ہی استعمال کی گئی ہے۔ پوری کتاب میں شاید ہی کوئی ایسا مقام آیاہو جہاں کوئی اصطلاحی لفظ استعمال کیا گیا ہو۔
2: ہر باب کے تحت کہیں ایک، کہیں دو یا زیادہ احادیث سند اور عربی الفاظ کے ساتھ نقل کردی ہیں اور باقی جس قدر احادیث لکھی ہیں بغیر عربی الفاظ کے محض ان کا ترجمہ ہی لکھا ہے۔
3: ایک دو باب چھوڑ دیے ہیں کیونکہ ان کی احادیث باقی ابواب میں آگئی ہیں۔
4: تقریباً ہر باب میں کچھ احادیث اس وجہ سے چھوڑ دی گئی ہیں ان کا مضمون دوسری احادیث میں آگیا ہے۔
5: بعض ابواب میں بعض احادیث کو کسی فائدہ کی وجہ سے آگے اور پیچھے بھی کر دیا گیا ہے یعنی امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کی ترتیب کو بدل دیا گیا ہے۔ عام مصنفین کا طرز یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی باب کی متعلقہ باتیں شروع میں ذکر فرمادیتے ہیں اور بعد میں احادیث کو ذکر فرمادیتے ہیں مگر میں نے اس کے بر عکس ہر باب کے تحت پہلے احادیث ذکر کی ہیں پھر اس باب کا خلاصہ ”زبدہ “ کے نام سے ذکر کیا ہے۔
6: بسا اوقات بعض احادیث کے نیچے ان احادیث کے متعلقہ ضروری باتوں کو الگ الگ بھی ذکر کیا گیاہےاور”زبدہ “کے نام سے پورے باب کا خلاصہ الگ بھی ذکر کیا ہے۔
7: میں نے پوری کوشش کی ہے کہ کتاب مختصر سے مختصر ہو تاکہ ہر آدمی بآسانی اس سے فائدہ اٹھا سکے اور اسی اختصار کے پیش نظر ہر حدیث یا باب کے نیچے محض انہی باتوں کی وضاحت تحریر کی ہے جن کی وجہ سے حضرت امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ کسی حدیث کو لائے ہیں اگرچہ احادیث سے بہت سے مسائل نکلتے ہوں یا ان میں کئی واقعات کی طرف اشارہ ہو۔
ہاں البتہ بعض جگہوں پر کسی صحابی رضی اللہ عنہ کے حالات یا کسی مسئلہ پر کچھ تھوڑی سی تفصیل آئی ہے، وہ بھی اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ذکر کی ہے کہ یہ قارئین کے لیے بہت مفید ثابت ہو گی۔
میں آخر میں بہت زیادہ شکریہ ادا کرتا ہوں عزیزم شعیب احمد گھمن اور عزیزم خبیب احمد گھمن کا جن کےمہیا کردہ وسائل سے ہی یہ کتاب ”زبدۃ الشمائل“ پایہ تکمیل تک پہنچی۔ اللہ تعالیٰ ان حضرات کو اپنی شایانِ شان اجر عطا فرمائے۔ انہوں نے میری ضروریات کا خیال رکھا۔ اللہ تعالیٰ ان کو دنیاو آخرت کی خوشیاں عطا فرمائے اور دارین کی ضرورتیں پوری فرمائے۔ آمین
میں نےاس کتاب میں پابندی سےجوخوشبواستعمال کی ہےوہ میرے عزیز دوست اور میرے بھائی مولانا عابد جمشید رانا کی عطا کردہ تھی۔ اللہ تعالیٰ ان کو اپنے فضل سے جنت کی خوشبوئیں نصیب کرے، ان کے علم وعمل میں ترقی عطا فرمائے۔ آمین۔ محتاجِ دعا
محمد الیاس گھمن
چکی نمبر4، سیل نمبر 3 اڈیالہ جیل راولپنڈی
26 ربیع الثانی 1422ہجری، 19 جولائی 2001 ء