حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری مبارک شکل و صورت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي خَلْقِ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ظاہری مبارک شکل و صورت کے بیان میں
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدَةَ الضَّبِّيُّ الْبَصْرِيُّ ، وَعَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، وَأَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ وَهُوَ ابْنُ أَبِي حَلِيمَةَ ، وَالْمَعْنَى وَاحِدٌ ، قَالُوا : حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى غُفْرَةَ قَالَ : حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ بْنُ مُحَمَّدٍ مِنْ وُلْدِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ قَالَ : كَانَ عَلِيٌّ إِذَا وَصَفَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَمْ يَكُنْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالطَّوِيلِ الْمُمَغَّطِ ، وَلاَ بِالْقَصِيرِ الْمُتَرَدِّدِ ، وَكَانَ رَبْعَةً مِّنَ الْقَوْمِ ، لَمْ يَكُنْ بِالْجَعْدِ الْقَطَطِ ، وَلاَ بِالسَّبْطِ ، كَانَ جَعْدًا رَجِلاً ، وَلَمْ يَكُنْ بِالْمُطَهَّمِ وَلاَ بِالْمُكَلْثَمِ ، وَكَانَ فِي وَجْهِهٖ تَدْوِيْرٌ أَبْيَضُ مُشَرَبٌ ، أَدْعَجُ الْعَيْنَيْنِ ، أَهْدَبُ الأَشْفَارِ ، جَلِيلُ الْمُشَاشِ وَالْكَتَدِ ، أَجْرَدُ ذُو مَسْرُبَةٍ ، شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ ، إِذَا مَشَى تَقَلَّعَ كَأَنَّمَا يَنْحَطُّ فِي صَبَبٍ ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ مَعًا ، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ ، وَهُوَ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ ، أَجْوَدُ النَّاسِ صَدْرًا ، وَأَصْدَقُ النَّاسِ لَهْجَةً ، وَأَلْيَنُهُمْ عَرِيْكَةً ، وَأَكْرَمُهُمْ عِشْرَةً ، مَنْ رَآهُ بَدَاهَةً هَابَهُ ، وَمَنْ خَالَطَهُ مَعْرِفَةً أَحَبَّهُ ، يَقُولُ نَاعِتُهُ : لَمْ أَرَ قَبْلَهُ وَلاَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ: حضرت علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ دراز قد نہ تھے اور نہ ہی بالکل پست قد تھے بلکہ لوگوں میں درمیانہ قد والے تھے، آپ کے بال مبارک بالکل گھنگھریالے تھے اور نہ ہی بالکل سیدھے تھے بلکہ قدرے گھنگھریالے تھے،جسم مبارک زیادہ موٹا نہ تھا، چہرہ مبارک بالکل گول نہ تھا بلکہ کسی قدر اس میں گولائی تھی (یعنی زیادہ لمبا تھا نہ زیادہ گول) رنگ مبارک سفید سرخی مائل تھا، آنکھیں مبارک سیا ہ، پلکیں دراز تھیں، جوڑوں کی ہڈیاں موٹی تھیں، کندھے مبارک مضبوط تھے، جسم مبارک پر زیادہ بال نہ تھے اور سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی لکیر تھی اور پاؤں پُر گوشت تھے، جب آپ چلتے تو قدم مبارک قوت سے اٹھا اٹھا کر رکھتےگویا کہ ڈھلوان کی طرف اتر رہے ہیں، جب کسی طرف توجہ فرماتے تو پورےبدن کےساتھ توجہ فرماتے، دونوں کندھوں کے درمیان مہرِ نبوت تھی اور آپ خاتم النبیین تھے، سب سے زیادہ سخی دل والے اور سچی زبان والے، سب سے زیادہ نرم طبیعت والے، سب سے زیادہ شریف اور معزز خاندان والے تھے، جو شخص اچانک آپ کو دیکھتا تو مرعوب ہو جاتا اور جس شخص کی آپ سے جان پہچان ہو جاتی اور آپ سے میل جول رکھتا تو وہ آپ کو محبوب بنا لیتا، آپ کے اوصاف بیان کرنے والا کہتا کہ میں نےآپ جیساآپ سے پہلے کوئی دیکھااورنہ ہی آپ کے بعد۔
حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيْعٍ قَالَ : حَدَّثَنَا جُمَيْعُ بْنُ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمٰنِ الْعِجْلِيُّ إِمْلاَءً عَلَيْنَا مِنْ كِتَابِهِ قَالَ : أَخْبَرَنِي رَجُلٌ مِّنْ بَنِي تَمِيمٍ مِنْ وُلْدِ أَبِي هَالَةَ زَوْجِ خَدِيجَةَ ، يُكَنّٰى أَبَا عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ ابْنٍ لِّأَبِيْ هَالَةَ ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ قَالَ : سَأَلْتُ خَالِي هِنْدَ بْنَ أَبِي هَالَةَ ، وَكَانَ وَصَّافًا ، عَنْ حِلْيَةِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، وَأَنَا أَشْتَهِيْ أَنْ يَّصِفَ لِي مِنْهَا شَيْئًا أَتَعَلَّقُ بِهِ ، فَقَالَ : كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَخْمًا مُفَخَّمًا ، يَتَلَأْلَأُ وَجْهُهُ تَلَأْلُؤَ الْقَمَرِ لَيْلَةَ الْبَدْرِ ، أَطْوَلُ مِنَ الْمَرْبُوعِ ، وَأَقْصَرُ مِنَ الْمُشَذَّبِ ، عَظِيمُ الْهَامَةِ ، رَجِلُ الشَّعْرِ ، إِنِ انْفَرَقَتْ عَقِيقَتُهُ فَرَّقَهَا ، وَإِلَّا فَلاَ يُجَاوِزُ شَعْرُهُ شَحْمَةَ أُذُنَيْهِ إِذَا هُوَ وَفَّرَهُ ، أَزْهَرُ اللَّوْنِ ، وَاسِعُ الْجَبِينِ ، أَزَجُّ الْحَوَاجِبِ سَوَابِغَ مِنْ غَيْرِ قَرْنٍ ، بَيْنَهُمَا عِرْقٌ يُدِرُّهُ الْغَضَبُ ، أَقْنَى الْعِرْنَيْنِ ، لَهُ نُورٌ يَعْلُوهُ ، يَحْسَبُهُ مَنْ لَّمْ يَتَأَمَّلْهُ أَشَمَّ ، كَثُّ اللِّحْيَةِ ، سَهْلُ الْخدَّيْنِ ، ضَلِيعُ الْفَمِ ، مُفْلَّجُ الأَسْنَانِ ، دَقِيقُ الْمَسْرُبَةِ ، كَأَنَّ عُنُقَهُ جِيدُ دُمْيَةٍ فِي صَفَاءِ الْفِضَّةِ ، مُعْتَدِلُ الْخَلْقِ ، بَادِنٌ مُّتَمَاسِكٌ ، سَوَاءُ الْبَطْنِ وَالصَّدْرِ ، عَرِيضُ الصَّدْرِ ، بَعِيدُ مَا بَيْنَ الْمَنْكِبَيْنِ ، ضَخْمُ الْكَرَادِيسِ ، أَنْوَرُ الْمُتَجَرِّدِ ، مَوْصُولُ مَا بَيْنَ اللُّبَّةِ وَالسُّرَّةِ بِشَعْرٍ يَّجْرِي كَالْخَطِّ ، عَارِي الثَّدْيَيْنِ وَالْبَطْنِ مِمَّا سِوَى ذَلِكَ ، أَشْعَرُ الذِّرَاعَيْنِ وَالْمَنْكِبَيْنِ وَأَعَالِي الصَّدْرِ ، طَوِيلُ الزَّنَدَيْنِ ، رَحْبُ الرَّاحَةِ ، شَثْنُ الْكَفَّيْنِ وَالْقَدَمَيْنِ ، سَائِلُ الأَطْرَافِ - أَوْ قَالَ : شَائِلُ الأَطْرَافِ - خَمْصَانُ الأَخْمَصَيْنِ ، مَسِيحُ الْقَدَمَيْنِ ، يَنْبُو عَنْهُمَا الْمَاءُ ، إِذَا زَالَ زَالَ قَلْعًا ، يَخْطُوْ تَكَفِّيًا ، وَيَمْشِي هَوْنًا ، ذَرِيعُ الْمِشْيَةِ ، إِذَا مَشٰى كَاَنَّمَا يَنْحَطُّ مِنْ صَبَبٍ ، وَإِذَا الْتَفَتَ الْتَفَتَ جَمِيعًا ، خَافِضُ الطَّرْفِ ، نَظَرُهُ إِلَى الأَرْضِ أَطْوَلُ مِنْ نَظَرِهِ إِلَى السَّمَاءِ ، جُلُّ نَظَرِهِ الْمُلاَحَظَةُ ، يَسُوْقُ أَصْحَابَهُ وَيَبْدَأُ مَنْ لَقِيَ بِالسَّلاَمِ.
ترجمہ: حضرت حسن بن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتےہیں میں نے اپنے ماموں ہندبن ابی ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک کے بارےمیں سوال کیا، وہ آپ کا حلیہ مبارک بہت زیادہ بیان کیا کرتے تھے اور میں چاہتا تھاکہ وہ میرے سامنے بھی اس میں سےکچھ بیان کریں تاکہ میں اس کے ساتھ اپنا تعلق قائم کر سکوں۔ چنانچہ انہوں نے بیان کیا کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات و صفات کے اعتبار سے عظیم تھے اور دوسروں کی نگاہ میں عظیم مرتبہ والے تھے، آپ کا چہرہ مبارک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا تھا، آپ درمیانہ قد سے ذرا لمبے اور لمبے قد سے ذرا پست قد تھے (یعنی آپ کا قد درمیانہ تھا) آپ کا سر مبارک اعتدال کے ساتھ بڑا تھا، بال مبارک قدرے گھنگھریالے تھے ، سر مبارک میں اتفاقاً مانگ نکل آتی تو نکال لیتے وگرنہ خود مانگ نکالنے کا اہتمام نہ فرماتے تھے (یعنی زیادہ تکلف نہ فرماتے تھے ) جس زمانہ میں بال مبارک زیادہ لمبے ہوتے تو کان کی لو سے تجاوز کر جاتے، رنگ مبارک خوبصورت چمک دار تھا، پیشانی مبارک کشادہ تھی، ابرو مبارک باریک خم دار گنجان تھے، دونوں ابرو جدا جدا تھے، ایک دوسرے سے ملے ہوئے نہ تھے، دونوں کے درمیان باریک رگ تھی جو غصہ کے وقت ابھر آتی تھی، ناک مبارک بلندی مائل تھی، اس پر ایک نوردار چمک تھی، جو شخص غور سے نہ دیکھتا تو وہ آپ کی ناک کو اونچا سمجھتا تھا، ڈاڑھی مبارک گھنی، رخسار مبارک ہموار، دہن مبارک کشادہ تھا (یعنی منہ مبارک تنگ نہ تھا) سامنےکے دانتوں میں قدرے کشادگی تھی، سینہ مبارک سے ناف مبارک تک بالوں کی ایک لمبی لکیر تھی، گردن مبارک خوبصورتی میں مورتی کی گردن کی طرح اور صفائی اور چمک میں چاندنی کی طرح تھی، معتدل جسم، پُرگوشت گٹھا ہوا بدن مبارک، پیٹ اور سینہ مبارک برابر تھے، سینہ مبارک کشادہ تھا، دونوں کندھوں کے درمیان قدرے فاصلہ تھا، اعضاء کے جوڑوں کی ہڈیاں بڑی اور مضبوط تھیں، جسم مبارک کا کپڑوں سے خالی حصہ بڑا چمکدار اور نورانی تھا، ایک باریک لکیر کے سوا چھاتی مبارک اور پیٹ مبارک پر بال نہیں تھے، دونوں بازؤوں، کندھوں اور سینےکے بالائی حصہ پر بال تھے، دونوں کلائیاں لمبی اور ہتھیلیاں کشادہ تھیں، دونوں ہاتھ اور پاؤں پر گوشت تھے، ہاتھ اور پاؤں مبارک کی انگلیاں مناسب لمبی تھیں، تلوے قدرے گہرے تھے اور قدم ہموار تھے کہ ان پر پانی ڈالو تو وہ بہہ جائے، جب آپ چلتے تو قدم اٹھا کر چلتے، جب قدم رکھتے تو جھک کر، جب آپ چلتے تو وقار کے ساتھ آپ کی چال مبارک تیز تھی، جب چلتے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ڈھلوان میں اتر رہے ہیں، جب آپ کسی کی طرف توجہ فرماتے تو کامل توجہ فرماتے، آپ کی نظر مبارک نیچی رہتی، آپ کی نگاہ بہ نسبت آسمان کے زمین کی طرف زیادہ رہتی تھی یعنی اکثر زمین کی طرف دیکھتے (اگرچہ بسا اوقات وحی کے انتظار میں آسمان کی طرف بھی نظر اٹھا تے تھے ) آپ کی عادت مبارک گوشہ چشم سے دیکھنےکی تھی، غایت شرم وحیا سے آنکھ بھر کر نہیں دیکھتے تھے، چلنے میں صحابہ رضی اللہ عنہم کو آگے رکھتے اور خود پیچھے رہتے، جس سے ملتے سلام کرنے میں خود پہل فرماتے تھے۔
حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْثَرُ بْنُ الْقَاسِمِ ، عَنْ أَشْعَثَ ، يَعْنِي ابْنَ سَوَارٍ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ سَمُرَةَ قَالَ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي لَيْلَةٍ إِضْحَيَانٍ ، وَعَلَيْهِ حُلَّةٌ حَمْرَاءُ ، فَجَعَلْتُ أَنْظُرُ إِلَيْهِ وَإِلَى الْقَمَرِ ، فَلَهُوَ عِنْدِي أَحْسَنُ مِنَ الْقَمَرِ.
ترجمہ: حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو چاندنی رات میں دیکھا،آپ اس وقت سرخ لباس زیب تن فرمائے ہوئے تھے،میں کبھی چاند کو دیکھتا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو، بالآخر میں اس نتیجہ پر پہنچاکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم چاند سے کہیں زیادہ خوبصورت ہیں۔
زبدۃ:
اس باب کےتحت چند ایک باتیں قابلِ ملاحظہ ہیں:
1: بعض روایات میں آپ کے سرخ لباس زیب تن فرمانے کا ذکرہے۔ اس سلسلہ میں گزارش ہے کہ مرد کے لیے سرخ زعفرانی رنگ تو مکروہ تحریمی ہےاور ویسے سرخ رنگ کا استعمال جائز ہےمگر زیادہ شوخ ہونے کی وجہ سے نا پسندیدہ ہے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جو سرخ لباس زیب تن فرما رکھا تھا اس کے بارے میں بعض محدثین کی رائے یہ ہے کہ یہ سرخ دھاری دار تھا ،نہ کہ خالص گہرا سرخ رنگ کا۔
2: اس باب کی ایک روایت میں ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے (خواب میں یا معراج کی رات) بعض حضرات انبیاءعلیہم السلام کو دیکھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام چھریرے اور پتلے بدن والے تھے جیسا کہ شنوءہ قبیلہ کے لوگ ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت عروہ بن مسعود کے مشابہ تھے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کودیکھا تو وہ میرے ہی زیادہ مشابہ تھے، حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بھی دیکھا وہ حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کے زیادہ مشابہ تھے۔
اس روایت کا مقصد یہ تھا کہ اگر کوئی شخص اپنے جدِ اعلیٰ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو دیکھنا چاہے تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لے۔
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایڑی مبارک اور آنکھ مبارک کا تذکرہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یوں ہے:
كَانَ أَشْكَلَ الْعَيْنِ.
یعنی آپ کی آنکھ کی سفیدی میں سرخ ڈوریاں تھی جو کہ حسن کی علامت ہے۔
مَنْهُوسَ الْعَقِبِ.
اور ایڑی مبارک پر گوشت کم تھا یعنی زیادہ گوشت نہ تھا۔
4: جو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو اچانک دیکھتا تو اس پر رعب طاری ہو جاتا۔ رعب دراصل ان مخصوص چیزوں میں سے تھا جو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا ہوئی تھیں۔ اس کی ظاہری وجہ تو یہ ہے کہ حسن و جمال میں فطری طور پر رعب ہوتا ہے اورمزید جب اس کے ساتھ کمالات بھی شامل ہوجائیں تو کیا کہنا، اور باطنی وجہ امام ابن قیم علیہ الرحمۃ نے یہ بیان فرمائی ہےکہ کسی انسان میں ہیبت اس وقت ہوتی ہے جب دل اللہ کی عظمت ، جلال اور محبت سے لبریز ہوتا ہے، تو ایسے دل پر تسکین نازل ہوتی ہے، دل کے اندر نورانیت پیدا ہو جاتی ہےاور اللہ تعالیٰ ایسے دل والے پرہیبت کی چادر ڈال دیتا ہے اور اسے ایک خاص قسم کا وقار حاصل ہو جاتا ہے اور یہی وقار لوگوں کے دلوں پر اثر انداز ہوتا ہے۔ اسی کا نام رعب اور ہیبت ہے مگر جو شخص حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسلسل میل جول رکھتا تو وہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےاخلاق کریمانہ سے متاثر ہو کر آپ کو محبوب بنالیتا اور قربِ مسلسل تو اُنس پیدا کر ہی دیتا ہے۔
5: سفر میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ رضی اللہ عنہ کے پیچھے چلنا پسماندگان اور ضعفاءکی خبر گیری کی وجہ سے ہوتا تھا اور حضر میں تواضع اور عاجزی کی وجہ سے ہوتا تھا۔
6: اس بات کے آخر میں امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ایک خاص بات حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے یہ نقل فرمائی ہے کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دندان مبارک قدرے کشادہ تھے یعنی ان میں کسی قدرفاصلہ تھا:
اِذَا تَکَلَّمَ رُاِیَ کَالنُّوْرِ یَخْرُجُ مِنْ بَیْنِ ثَنَایَاہُ.
کہ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو فرماتے تھے تو دندان مبارک کے درمیان سے ایک نور سا نکلتا دکھائی دیتا تھا۔
محدثین نے اس کے دو مطلب بیان فرمائے ہیں:
۱: ․․․ حقیقۃً نور حسی طور پر نظر نہ آتا تھا البتہ وہ کلام نورانی ہوتا تھا۔
۲:․․․ علامہ منادی علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ کوئی چیز حسی طور پر نکلتی دکھائی دیتی تھی جو کہ نورانی ہوتی تھی اور یہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا معجزہ تھا۔
7: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک بالوں کی کیفیت تو بیان ہو گئی ہے البتہ مقدار وغیرہ اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک کا تذکرہ آگے مستقل آرہا ہے،اس لیے ان احادیث کو یہاں قصدا چھوڑ دیا گیا ہے۔