حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہنسنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي ضَحِكِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےہنسنےکےبیان میں
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ قَالَ : أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغِيرَةِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ جَزْءٍ ، أَنَّهُ قَالَ : مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَكْثَرَ تَبَسُّمًا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن حارث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےزیادہ مسکرانے والا کوئی نہیں دیکھا۔
حدیث: حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں ایسےشخص کوجانتاہوں جوسب سے پہلے جنت میں جائےگااور اس شخص کوبھی جانتاہوں جوسب سے آخر میں دوزخ سے نکالاجائےگا۔پھر آپ نے ارشاد فرمایا: قیامت کےدن ایک شخص حق تعالیٰ کےدربارمیں پیش کیاجائےگا اور حکم ہو گا کہ اس کےچھوٹےچھوٹے گناہ اس پر پیش کیےجائیں اور اس کے بڑے بڑے گناہ ظاہر نہ کیےجائیں۔ پھر اس سے پوچھاجائےگاکہ کیاتونےفلاں فلاں روزیہ چھوٹے چھوٹے گناہ کیےہیں؟ وہ اپنے گناہوں کااقرارکرے گا، اس وقت انکار کی گنجائش نہ ہوگی۔ وہ شخص دل میں نہایت خوفزدہ ہوگا کہ یہ توچھوٹے گناہ ہیں، میرے بڑے گناہوں کا کیابنے گا؟ اسی دوران حکم ہوگاکہ اس کے ہر چھوٹے گناہ کے بدلہ میں اس کو ایک نیکی دےدو۔ وہ شخص یہ حکم سنتے ہی بول اٹھے گا کہ ابھی تومیرے بہت سے گناہ باقی ہیں جو یہاں نظر نہیں آرہے۔
اس کے بعدحضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کایہ جملہ نقل کرنے کے بعد اتنا ہنسے کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ (یعنی کچھ دیر پہلے تو ڈر رہا تھا اور اب کس قدر خوش ہوکراپنے گناہوں کو خود ظاہر کررہاہے۔)
حدیث: حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب سےمیں نے اسلام قبول کیاحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حاضر خدمت ہونے سے کبھی نہیں روکااور آپ مجھےجب بھی دیکھتے توہنستے تھے۔
ایک روایت میں ہے کہ مسکراتے تھے۔
حدیث: حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: میں اس شخص کوپہچانتاہوں جوسب سے آخر میں دوزخ سے نکلے گا اور وہ آدمی گھسٹتا ہوا نکلے گا،اس کوحکم ہوگاکہ جاؤ جنت میں داخل ہوجاؤ! وہ جنت میں داخل ہونے کے لیے جائے گا تو دیکھے گاکہ تمام لوگوں نےاپنی اپنی جگہ ٹھکانہ پکڑا ہوا ہے (یعنی جنت میں جگہ نہیں ہے)۔
وہ واپس آئے گااور اللہ تعالیٰ سے صورت حال عرض کرے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گاکہ تجھے دنیاکاوہ زمانہ یادہےجس میں تم رہا کرتے تھے(یعنی دنیا کتنی فراخ اور کشادہ تھی) وہ عرض کرے گا:جی ہاں یاد ہے۔ حکم ہوگا کہ اب تم کچھ تمناؤں کا اظہار کرو! چنانچہ جو اس کا دل چاہے گا وہ اپنی ان خواہشات کا اظہار کرے گا۔پھر اس کو کہا جائے گا کہ جن چیزوں کی تم نے آرزو کی ہے وہ بھی تم کو دیا اور پوری دنیاسے دس گنا مزید زیادہ بھی تم کو دیا۔ وہ شخص کہے گا: یااللہ! آپ توبادشاہ ہیں، آپ بھی میرے ساتھ مذاق کرتے ہیں۔
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھاکہ اس موقع پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس قدر ہنسےکہ آپ کےدندان مبارک ظاہر ہوگئے۔ (حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کایہ ہنسناحق تعالیٰ کے انعام واکرام کی زیادتی کی بناء پر تھاکہ یہ انعام تو اس شخص پر ہےجو سب سے زیادہ گنہگار ہےتبھی تو سب کے آخر میں جہنم سے نکالا گیا ہے۔ جب اس کایہ حال ہےتومتقی اورپرہیزگاروں پرکیاکیاانعامات ہوں گے؟!)
حدیث:
حضرت علی بن ربیعہ فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس سواری لائی گئی توآپ نے رکاب میں پاؤں رکھتے ہوئے”بسم اللہ“ کہا اور جب سوار ہو چکے تو”الحمدللہ“ کہاپھر یہ دعاپڑھی:
سُبْحَانَ الَّذِيْ سَخَّرَ لَنَا هٰذَا وَمَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنِيْنَ․وَإِنَّا إِلٰى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ.
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے تابع کردیااور ہم تو اس کو قابو نہ کرسکتے تھے اور ہم نے اپنے پروردگار ہی کی طرف لوٹ کرجاناہے۔
پھر تین دفعہ الحمد للہ اور تین دفعہ اللہ اکبر کہا، پھر یہ دعامانگی:
سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ فَاغْفِرْلِیْ فَاِنَّہُ لَایَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّااَنْتَ.
ترجمہ: تیری ذات ہرعیب سےپاک ہے،تو مجھے معاف فرمادےکیونکہ تیرے علاوہ میرے گناہوں کوکوئی بھی معاف نہیں کرسکتا۔
پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ ہنس پڑے۔ حضر ت علی بن ربیعہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا:اے امیر المؤمنین! آپ ہنسے کیوں ہیں؟ توحضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوایسےہی کرتے دیکھاجیسے میں نے خود کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہنسے تھے تو میں نےعرض کیا تھا: اےاللہ کےرسول! آپ کیوں ہنسے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ و سلم نےفرمایا: جب بندہ یہ کہتاہےکہ یااللہ میرے گناہ معاف فرما دے، کیونکہ بندہ جانتا ہے کہ میرے گناہ اللہ کے سوا کوئی نہیں بخش سکتا تو اللہ تعالیٰ اس بندےکی اس بات پربہت خوش ہوتے ہیں۔
حدیث: حضرت عامر بن سعد سے روایت ہےکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نےجنگِ خندق کےموقع پرحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوہنستے ہوئے دیکھا حتیٰ کہ آپ کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے۔عامر کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا: آپ صلی اللہ علیہ و سلم کس بات پر ہنسے تھے؟ توانہوں نےفرمایا: کافروں میں سےایک شخص کے پاس ڈھال تھی اور سعد اگرچہ بڑے تیر اندازتھےمگر وہ کافر شخص اپنی ڈھال کوادھر ادھر کرکے ڈھال کے ذریعہ اپنی پیشانی کابچاؤ کرلیتاتھا۔
سعد نے (ایک موقع دیکھ کر) اپنے ترکش سے تیر نکالا اور کمان میں چڑھایا۔ پھر جونہی اس کافر نےاپنا سر اس ڈھال سے اوپر اٹھایا تو سعد رضی اللہ عنہ نے فوراًتیر چلایا۔اب یہ تیر خطا نہ ہوا بلکہ سیدھا اس شخص کی پیشانی پر لگا تو وہ شخص الٹ گیا،اس کی ٹانگیں اوپر کواٹھ گئیں، پس حضر ت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے حتی کہ آپ کے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔عامر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھاکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کس بات پر ہنسے تھے؟ تو انہوں نے کہاکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سعد رضی اللہ عنہ کے اس عمل پر ہنسے تھے جو انہوں نے اس مشرک کے ساتھ کیا۔ (یعنی حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کی چالاکی اور پھر اس کی سزا چکھ لینے کی وجہ سےہنسےتھے)۔
2: ہنسی کی تین قسمیں ہیں:
(۱): تبسم... یعنی مسکرانا۔اس میں آدمی کامنہ توکسی قدر کھلتاہےمگر ہنسی کی آواز نہیں آتی۔
(۲):ضحک... یعنی ہنسنا۔اس میں انسان منہ کھول کر ہنستاہے، اس میں آوازبھی نکلتی ہے لیکن ہنسی کی آوازذراکمزور ہوتی ہے۔
(۳):قہقہہ... اس میں آدمی پورامنہ کھول کر ہنستاہے اور آواز بھی خو ب نکلتی ہے۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہنسی کی صرف پہلی ہی دوقسمیں ثابت ہیں، تیسری قسم ثابت نہیں کیونکہ یہ اعلیٰ درجہ کی غفلت کی علامت ہے۔اگر ہنسی کی بات ہوتوہنسی آجانافطری اورطبعی بات ہےمگر اس کی بھی ایک حد ہے۔ ہر وقت ہنسی اور مذاق توویسے ہی دل کومردہ کردیتی ہے۔احادیث میں اس کی ممانعت آئی ہے۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم باوجود طبعی غم کےاپنےصحابہ رضی اللہ عنہم کی دلداری کے لیے خندہ پیشانی اور تبسم فرمایاکرتے تھے۔ یہ کمال اور اعلیٰ درجہ کے اخلاق ہیں کہ دل میں غم ہونےکےباوجودہم نشینوں کی رعایت کرتے ہوئےچہرے پرمسکراہٹ اختیارکرنا۔ بسااوقات کسی مسکرانےیاہنسنےوالی بات پہ طبعی طورپربھی مسکراپڑتے تھے۔