حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاح مبارک

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ مِزَاحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
باب:حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاح مبارک اور دل لگی کے بیان میں
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلاَنَ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ شَرِيكٍ ، عَنْ عَاصِمِ نِ الأَحْوَلِ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ : يَا ذَا الْأُذُنَيْنِ.
قَالَ مَحْمُودٌ : قَالَ أَبُو أُسَامَةَ : يَعْنِي يُمَازِحُهُ.
ترجمہ:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ان کو (یعنی حضرت انس بن مالک کو) ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اےدوکانوں والے۔
زبدۃ:
کان سب کےدوہی ہوتےہیں مگرممکن ہےکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے کان جسم کےلحاظ سےکسی قدر بڑے ہوں یا چھوٹے یا بہت تیز ہوں کہ بات دور سے سن لیتے ہوں۔
حدیث:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہی سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ساتھ میل جول میں مزاح بھی فرمایا کرتے تھے۔ چنانچہ آپ میرے چھوٹےبھائی سے فرماتے: اےابوعمیر! تمہارا نغیر کدھر ہے؟!
حضرت انس رضی اللہ عنہ کے چھوٹے بھائی نےایک چھوٹا سا پرندہ ”نغیر“ نامی پال رکھا تھا جس کی چونچ سرخ تھی۔ نغیر کاترجمہ بعض حضرات نے ”لال“ کیا ہے اور بعض نے”بلبل“ کیا ہے۔ یہ پرندہ مرگیا توحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے خوش طبعی اور دل لگی کے طور پرفرمایا: اےابوعمیر! تمہارانغیر کدھر ہے؟
حدیث:
حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ کسی شخص نےحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے سواری کے لیے جانور طلب کیاتوآپ نے فرمایا: تمہیں اونٹنی کابچہ دیں گے۔ اس شخص نے عرض کیاکہ حضرت! میں اونٹنی کابچہ لےکرکیاکروں گا؟ تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بڑااونٹ بھی تواونٹنی کابچہ ہی ہوتاہے۔
زبدۃ:
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے تویہ بات مزاح کے طور پرارشاد فرمائی تھی مگر محدثین فرماتے ہیں کہ اس میں اس طرف اشارہ بھی نکلتاہےکہ آدمی دوسرے کی بات خوب غوروفکرسےسنے، جلدبازی نہ کرے۔
حدیث:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص دیہات کا رہنے والاتھاجس کانام ”زاہر“ تھا،وہ جب حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتاتودیہات کاتحفہ پیش کرتا اور جب وہ مدینہ منورہ سے واپس جانے لگتا تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کوکوئی تحفہ عنایت فرما دیتے۔ ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ زاہرہمارادیہات ہےاور ہم اس کے شہر ہیں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت فرماتے تھے۔ یہ صاحب کچھ زیادہ خوش شکل نہیں تھے۔ایک دفعہ وہ اپناسامان فروخت کررہاتھاکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےپیچھے سے آکرکولی بھرلی (یعنی اس کی آنکھوں پر ہاتھ رکھ لیااور اس کواپنے ساتھ ملا لیا) تاکہ وہ آپ کونہ دیکھ سکے۔تووہ کہنے لگا: کون ہو؟مجھے چھوڑدو۔ مگر جب اس نےپہچان لیاتواپنی کمرکوبڑے اہتمام سےحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےسینہ مبارک کےساتھ ملنےلگا۔پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس غلام کوکون خریدےگا؟ اس نےکہا: حضرت! میں توکھوٹاغلام ہوں۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تواللہ نزدیک توکھوٹانہیں ہےیاحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تواللہ کےہاں بڑاقیمتی ہے۔
زبدۃ:
اس حدیث مباک میں اگرچہ ظاہری طور پرتومزاح ہے مگر اس میں بھی بڑی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔ دیکھیں! یہ شخص غلام نہ تھامگر چونکہ تجارت کی مشغولی میں اس قدر منہمک تھا، توجہ الی اللہ نہ تھی تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سمجھایاکہ اللہ تعالیٰ سے توجہ ہٹا کرخواہشات کے غلام نہ بنو۔مگر بعد میں جب اسی شخص کا حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تلبس یعنی اتصال نصیب ہوگیاتوحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ تواللہ تعالیٰ کے ہاں بہت قیمتی ہے۔
ظاہر ہے جس کو ایمان کی حالت میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بدن مبارک دیکھنے کی سعادت نصیب ہوگئی تو دنیابھر کےولی اس کی جوتی کامقابلہ نہیں کرسکتے اور جس کوحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی اس قدر محبت اور اتنا اتصال نصیب حاصل ہواس کی خوش قسمتی اور سعادت مندی پردوجہان قربان ہوں۔
حدیث:
حضرت حسن بصری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں ایک بوڑھی عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا: حضرت! دعافرمادیں کہ اللہ تعالیٰ مجھے جنت میں داخل فرماویں۔ تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
يَا أُمَّ فُلَانٍ ، إِنَّ الْجَنَّةَ لاَ تَدْخُلُهَا عَجُوْزٌ․
بوڑھی عورت جنت میں داخل نہ ہوگی۔
وہ عورت روتی ہوئی واپس لوٹنے لگی توحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ اس کوکہہ دوکہ جنت میں بڑھاپے کی حالت میں نہ جائے گی بلکہ اللہ تعالیٰ جنتی عورتوں کو نوعمر کنواریاں بنادیں گےاور اللہ تعالیٰ نے آیت پاک ﴿إِنَّا أَنْشَأْنَاهُنَّ إِنْشَاءً فَجَعَلْنَاهُنَّ أَبْكَارًا عُرُبًا أَتْرَابًا﴾ میں اسی مضمون کوبیان فرمایاہے [آیت کا مفہوم یہ ہے: ہم نےان عورتوں کوایسابنایاہےکہ وہ کنواریاں ہی رہیں گی یعنی صحبت کے بعد کنواریاں بن جائیں گی]
زبدۃ:
خوش طبعی اور مزاح کرنا جائز بلکہ سنت ہےمگر اس کے لیے کچھ شرائط ہیں:
[۱]: پہلی شرط یہ ہے مزاح کثرت کےساتھ نہ ہو ورنہ اس سے وقار ختم ہو جاتا ہے اور دل میں سختی پیدا ہو جاتی ہے۔ کثرتِ مزاح اللہ تعالیٰ کےذکرسےروک دیتاہے اور فرائض میں کوتاہی کا سبب بنتاہے۔
[۲]: دوسری شرط یہ ہےکہ یہ ایذائے مسلم کاسبب نہ ہو۔
[۳]: تیسری شرط یہ ہے کہ اس میں صاف اور صریح جھوٹ نہ ہوجیساکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہےکہ صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا: حضرت! آپ ہم سےمزاح بھی فرماتے ہیں! توحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں ہاں مگرمیں کبھی غلط بات نہیں کرتا۔
حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاذاتی وقاراتنابڑھاہواتھا کہ ایک مہینہ کی مسافت سے آدمی پر آپ کارعب چھاجاتا تھا۔ تواگر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم مزاح اور تبسم کا اہتمام نہ فرماتے توآپ کےصحابہ رضی اللہ عنہم آپ سے استفاد ہ نہ کرسکتے۔ اس لیے مزاح حضر ت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک خاص ضرورت تھی۔