حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا شعر پڑھنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي صِفَةِ كَلاَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الشِّعْرِ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے شعر پڑھنے اور پڑھانے کے بیان میں
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ قَالَ : حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنِ الْمِقْدَامِ بْنِ شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : قِيلَ لَهَا : هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَمَثَّلُ بِشَيْءٍ مِنَ الشِّعْرِ؟ قَالَتْ : كَانَ يَتَمَثَّلُ بِشِعْرِ ابْنِ رَوَاحَةَ ، وَيَتَمَثَّلُ بِقَوْلِهِ : وَيَأْتِيكَ بِالأَخْبَارِ مَنْ لَّمْ تُزَوَّدِ.
ترجمہ: حضرت ام المؤمنین (میری امی)عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ان سےکسی نےپوچھاکہ کیاحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کسی کاشعر بھی پڑھا کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا: ہاں آپ کبھی حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کا شعر بطورتمثل کے پڑھا کرتے تھے اور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اس کلام کو بھی پڑھاکرتے تھے:
”وَيَأْتِيكَ بِالأَخْبَارِ مَنْ لَمْ تُزَوَّدِ“
[ترجمہ:تیرے پاس کبھی ایساشخص بھی خبریں لاتاہےجس کوتونےکوئی معاوضہ ادانہیں کیا]
زبدۃ:
حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ تومشہورصحابی ہیں۔ غزوہ موتہ میں شہید ہوئے ہیں۔ جو مصرع آپ صلی اللہ علیہ و سلم پڑھا کرتے تھے وہ عرب کےمشہورطرفہ بن عبدکاہے۔
اس کامکمل شعر یوں ہے:

سَتُبْدِیْ لَکَ الْاَیَّامُ مَاکُنْتَ

جَاہِلًا

وَيَأْتِيكَ بِالأَخْبَارِ مَنْ لَّمْ تُزَوَّدِ

ترجمہ: تیرےپاس زمانہ عنقریب ایسی خبریں لائےگاجس سےتوجاہل ہےاور تجھے ایساشخص خبریں دے گاجس کوتونےزادِ راہ نہیں دیا۔
بعض علماء کہتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مثال بیان فرمائی ہےکہ بلا کسی اجرت کے گھربیٹھے بیٹھےآپ لوگوں کوجنت اور جہنم کی خبریں، گزشتہ انبیاءعلیہم السلام اور قوموں کےحالات اور تمام احکام سنارہاہوں مگر اے کافرو! تم کس قدرظالم ہوکہ قدر نہیں کرتے۔
حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایاکہ سب سے سچا کلمہ جو کسی شاعر نےکہاہےوہ لبیدکایہ کلمہ ہے:
اَلَاکُلُّ شَئٍی مَاخَلَااللہُ بَاطِلٗ
آگاہ ہوجاؤ! کہ اللہ کے سوادنیاکی ہر چیز فانی ہے۔
(پھر آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: )قریب تھا کہ امیہ بن ابی الصلت مسلمان ہوجاتا۔
زبدہ:
لبید بن ربیعہ عرب کے بہت بڑے شاعر تھے۔ نوے سال زمانہ جاہلیت کے گزارے۔ اللہ تعالیٰ نے ایمان کی توفیق دی۔ پچاس سال زندہ رہ کر اسلام کی خدمت کی۔ ایک سو چالیس کی عمر میں وفات پائی۔ اسلام لانے کے بعدشعر کہناچھوڑ دیے تھے اور فرماتے تھے کہ میری شاعری کے بجائے سورہ بقرہ ہی کافی ہے۔
ان کامکمل شعر یوں ہے:

أَلَا كُلُّ شَيْئٍ مَا خَلَا اللّهُ بَاطِلُ وَكُلُّ نَعِيْمٍ لَّا مَحالَةَ زَائِلُ

(جمع الوسائل: ج2 ص430)
[خبردار! دنیاکی ہرچیزسوائے اللہ کے فانی ہے اور دنیاکی ہرنعمت ختم ہونے والی ہے]
دنیاکی نعمتیں دھوکے اور حسرت کے سوا کچھ نہیں ہیں اور انسان عنقریب اس فانی جہان سے کوچ کرجائےگا۔
دوسرا شاعر امیہ بن ابی الصلت طائف کارہنے والاتھا۔ مختلف مذاہب کا مطالعہ رکھتا تھا توحید اور قیامت کاقائل تھا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان کیاتویہ حسد میں آگیااور کہنے لگاکہ نبوت کاحقدار تومیں تھا۔اس کا کلام نہایت اچھا تھا۔ اس لیے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ قریب تھاکہ امیہ بن ابی الصلت اسلام لے آتا۔مگر اس پر بدبختی غالب آگئی۔ اس کاایک شعر ہے: لَکَ الْحَمْدُ وَالنَّعْمَآءُ وَالْفَضْلُ رَبَّنَا فَلَاشَیْئَ اَعْلٰی مِنْکَ حَمْدًا وَلَامَجْدًا
ترجمہ: اے ہمارے رب! آپ ہی کے لیے سب تعریفیں، سب نعمتیں، سب فضیلتیں ہیں، آپ سے زیادہ کوئی تعریف کے قابل نہیں اور نہ ہی بڑائی کےلائق۔
حضرت شریدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے سواری پر بیٹھاہواتھا۔ میں نے آپ کوامیہ کے سوشعر سنائے۔آپ ہرشعر پرفرماتے : ”اور سناؤ!“ اور آخر میں فرمایاکہ قریب تھاکہ امیہ اسلام لے آتا۔
حدیث: حضرت جندب بن سفیان بجلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی انگلی پر پتھر سے چوٹ لگ گئی جس کی وجہ سے انگلی مبارک سے خون نکل پڑا۔ اس پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شعر پڑھا:
هَلْ أَنْتِ إِلَّا إِصْبَعٌ دَمِيْتِ وَفِىْ سَبِيْلِ اللهِ مَا لَقِيْتِ
ترجمہ: توایک انگلی ہی ہےجوخون آلودہوگئی ہے اور تجھےیہ تکلیف بھی تو اللہ کے راستے میں ہی آئی ہے۔
زبدۃ:
اکثر محدثین علماء کی رائے کے مطابق یہ قصہ غزوہ احد کاہے،اگرچہ بعض غزوہ خندق اور بعض ہجرت سے بھی پہلے کابتاتے ہیں۔ اس شعر کے بارے میں علامہ واقدی علیہ الرحمۃ کی رائے یہ ہےکہ یہ شاعرِعرب ولید بن ولیدکا شعر ہےاور ابن ابی الدنیا کی رائے کے مطابق یہ شعر حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کاہے۔ اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے۔ یہ دونوں کابھی ہوسکتاہے۔
بعض حضرات کہتے ہیں کہ یہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا شعر ہے۔ اگر ایسا ہو تو اس پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتاکہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”وَمَا عَلَّمْنَاهُ الشِّعْرَ وَمَا يَنْبَغِي لَهُ“
[سورۃ یٰسین: 69]
کہ ہم نےآپ کو شعر کہنا سکھایا ہےاور نہ ہی آپ کےمناسب ہے۔
کیونکہ ایک آدھ شعر کہنےسےآدمی شاعر نہیں ہوجاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ”شعر“ اس کلام کو کہتے ہیں جوبالقصدہواور جو کلام بلاارادہ قافیہ بندی کے ساتھ زبان پرجاری ہو جائے اسے شعر نہیں کہتے۔
حدیث: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کسی نے پوچھا: اے ابوعمارہ! کیا آپ لوگ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کوجنگ حنین میں چھوڑ کربھاگ گئے تھے؟ تو حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نےفرمایا: نہیں! حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے پشت نہیں پھیری بلکہ فوج میں سےبعض جلدبازوں نے (جن میں اکثر قبیلہ بنوسلیم اور مکہ کےنومسلم نوجوان تھے) قبیلہ ہوازن کے تیروں کی وجہ سے منہ پھیر لیا تھا۔ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خچر پرسوارتھے اور حضرت ابوسفیان بن الحارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ نے خچر کی لگام پکڑرکھی تھی۔ آپ اس وقت یہ فرمارہے تھے:
أَنَا النَّبِيُّ لَا كَذِبْ ..... أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبْ
میں بلاشک وشبہ نبی ہوں اور عبدالمطلب کی اولاد میں سے ہوں۔
زبدۃ:
1: یہ واقعہ سن 8ہجری کاہے۔ اس سخت ترین اور اچانک حملہ کےموقع پر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خلفاءِ راشدین سمیت تقریباًایک سوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم ثابت قدم رہےاور باقی لوگ وقتی طور پرمنتشر ہوگئےمگر جب بعدمیں حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پرآواز دی توسارے حضرات واپس لوٹے او ردوبارہ دشمن پر کودپڑےاور اللہ تعالیٰ نے فتح عطافرمائی۔
2: اس موقع پرحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنےداداعبدالمطلب کی طرف نسبت فرمائی کہ میں عبدالمطلب کابیٹاہوں۔ اس کی وجہ بعض محدثین یہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے والدکاانتقال زمانہ حمل میں ہی ہوگیاتھا، اس لیے آپ ابن عبد المطلب کے نام سے ہی مشہور تھے۔ بعض فرماتے ہیں کہ آپ کےغلبہ کی اطلاع قریش مکہ کوآپ کے دادانے دی تھی۔ گویا اب تصدیق کا وقت تھا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ مکہ کے سردار تھےاور بہت مشہور تھے۔ ان کی شہرت کی وجہ سےآپ نے اپنی نسبت ان کی طرف کردی۔
حدیث: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم عمرۃ القضاکے موقع پرمکہ میں داخل ہوئےتوحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ آپ کےآگے آگے چل رہے تھے اور یہ اشعار پڑھ رہے تھے:
خَلُّوْا بَنِي الْكُفَّارِ عَنْ سَبِيْلِهٖ اَلْيَوْمَ نَضْرِبْكُمُ عَلٰى تَنْزِيْلِهٖ ضَرْبًا يُزِيْلُ الْهَامَ عَنْ مَّقِيْلِهٖ وَيُذْهِلُ الْخَلِيْلَ عَنْ خَلِيْلِهٖ
ترجمہ: اےکفار کے بیٹو!حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کاراستہ چھوڑدو!آج ہم تم کواللہ تعالیٰ کے نازل کردہ حکم کے مطابق ایساماریں گے کہ کھوپڑیوں کوتن سے جداکردیں گےاور دوست کودوست بھول جائے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اے عبداللہ بن رواحہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنےاور وہ بھی حرم کی سر زمین پرشعر پڑھتے ہو؟! اس پرحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! اس کوچھوڑدو (یعنی شعرپڑھنے دو) کفار پریہ شعر تیروں سے زیادہ اثرکررہےہیں۔
زبدۃ:
1: سن 6 ہجری میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرہ کاارادہ فرمایا۔ کفار نےحدیبیہ کےمقام پرروک لیا۔ اس وقت جن شرائط کےتحت صلح ہوئی ان میں سے ایک شرط یہ بھی تھی کہ اس سال مسلمان واپس چلے جائیں اور آئندہ سال آکر عمرہ ادا کریں۔ تواب سن 7 ہجری میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم اسی عمرہ کی قضاکی غرض سےمکہ تشریف لائے تھے۔تویہ واقعہ سن 7ہجری عمرۃالقضاکاہے۔
2: میدان جنگ میں اشعار کہناجس سے مسلمانوں کے حوصلے بلند ہوں یاکفار کے حوصلے پست ہوں یہ لسانی جہاد میں داخل ہے۔ حضرت کعب رضی اللہ عنہ نے حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیاکہ حق تعالیٰ شانہ نے قرآن کریم میں شعر کی مذمت فرمائی ہےتوحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: مؤمن تلوار سے بھی جہاد کرتاہےاور زبان سے بھی، اور یہ زبانی جہاد بھی ایساہی ہےکہ گویاتم تیر برسا رہے ہو۔
حدیث:
حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں سوسے زیادہ مرتبہ بیٹھاہوں جن میں صحابہ رضی اللہ عنہم اشعار پڑھتے تھےاور زمانہ جاہلیت کے قصے بھی نقل کرتے تھے۔حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم (ان کوروکتے نہ تھے) بلکہ خاموشی سے سنتے تھےاورکبھی کبھار (ان کے مسکرانے کی بات پر) مسکراتے بھی تھے۔
زبدۃ:
اس روایت سے معلوم ہوتاہےکہ اگرچہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم خود توشعر نہیں کہتے تھےکیونکہ یہ آپ کی شان کےمناسب نہ تھے،البتہ آپ نے صحابہ رضی اللہ عنہم کوکبھی روکابھی نہیں ہے۔ لہٰذاشعروشاعری بذات خودکوئی بری چیز نہیں ہے۔
حدیث:
حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے لیے مسجدمیں منبرمبارک رکھوایاکرتے تاکہ وہ اس پرکھڑےہوکرحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں فخریہ شعر پڑھیں یاحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے دفاع کریں (یعنی کفار کے اعتراضات کے جواب دیں) حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:اللہ تعالیٰ روح القدس کےذریعہ حسان کی مددفرمائیں جب تک یہ دین کی مددکرتے رہیں۔
زبدۃ:
1: حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ روح القدس سے ملاء اعلیٰ کی پوری جماعت مرادہےجن میں حضرت جبرائیل علیہ السلام بھی شامل ہیں۔
2: ”شعر“ ایسے کلام کوکہتے ہیں جوقصدو ارادہ کےساتھ مقفّٰی اور موزون بنایا گیا ہو۔ شعر کے بارے میں بعض روایات سے مذمت اور بعض سے تعریف ثابت ہے۔ مگر خلاصہ سب روایات کایہ ہےکہ شعر کی ذات میں کوئی بھلائی ہےنہ ہی برائی، مضمون صحیح اور مفید ہوتوشعر اچھی چیزہےاور مضمون جھوٹ یاغیر مفید ہوتوشعر بری چیز ہے۔توجوحکم مضمون کاہےوہی حکم شعر کابھی ہےلیکن بہتر ہونے کی صورت میں بھی اس میں انہماک اور کثرت سے مشغولی ممنوع ہے۔
3: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں اپنی زبان مبارک سے قصداً کوئی شعر نہیں کہاکیونکہ یہ ایک ایساعلم ہےجوکہ آپ کی شان کےمناسب نہیں ہے۔ البتہ آپ نے دوسروں کے اشعاربطورِ شہادت اور دلیل کےاپنی زبان مبارک سےبعض اوقات ادافرمائے ہیں۔ آپ کسی شاعر کامکمل شعر یااس کاایک حصہ بعض اوقات ذکر فرمادیتے تھےجیساکہ گزشتہ روایات میں گزراہے۔