حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا رات کوقصے سنانا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
بَابُ مَا جَاءَ فِي كَلاَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ
فِي السَّمَرِ
باب: حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کوقصے سننے اور سنانے کےبیان میں
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ صَبَّاحٍ الْبَزَّارُ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو عَقِيل نِ الثَّقَفِيُّ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَقِيلٍ ، عَنْ مُّجَالِدٍ ، عَنِ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ مَّسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ : حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ نِسَاءَهُ حَدِيثًا ، فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ : كَاَنَّ الْحَدِيثَ حَدِيثُ خُرَافَةَ فَقَالَ : أَتَدْرُوْنَ مَا خُرَافَةُ؟ إِنَّ خُرَافَةَ كَانَ رَجُلاً مِنْ عُذْرَةَ ، أَسَرَتْهُ الْجِنُّ فِي الْجَاهِلِيَّةِ فَمَكَثَ فِيهِمْ دَهْرًا ، ثُمَّ رَدُّوهُ إِلَى الإِنْسِ فَكَانَ يُحَدِّثُ النَّاسَ بِمَا رَأَى فِيهِمْ مِنَ الأَعَاجِيبِ ، فَقَالَ النَّاسُ : حَدِيثُ خُرَافَةَ.
ترجمہ: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک رات حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھر والوں کوایک قصہ سنایاتوایک زوجہ محترمہ نے کہاکہ یہ توخُرافہ کی بات معلوم ہوتی ہے۔تو حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جانتی بھی ہوکہ خرافہ کااصل قصہ کیا ہے؟خُرافہ بنوعُذرہ قبیلہ کا آدمی تھااور جنات اس کو اٹھا کرلے گئے تھے۔ پھر وہ عرصہ تک جنات میں رہا۔ بعد میں وہ جنات خرافہ کوواپس لوگوں میں چھوڑ گئےتوخرافہ نے جوعجیب وغریب قصے جنات میں دیکھے تھےوہ لوگوں میں بیان کرتا تھا۔ اس کےبعدسےیہ مشہور ہوگیاکہ جب بھی لوگ عجیب بات دیکھتے تولوگ کہتےکہ یہ توخُرافہ کاقصہ ہے۔
زبدۃ:
زمانہ جاہلیت میں جنات کا نہایت غلبہ تھااور لوگوں کوبہت ستاتے تھے۔ ان سےباتیں کرتے تھے۔اٹھاکرلےجاتےتھے۔عورتوں سے صحبت تک کیاکرتے تھے۔ اسلام کے بعدان کازور ٹوٹ گیا۔
خُرافہ کاقبیلہ بنوعُذرہ یمن کاقبیلہ تھاجس کے بارے میں مشہور ہےکہ اس قبیلہ کی عورتیں بہت حسین وجمیل تھیں۔
حدیث: حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ایک مرتبہ گیارہ عورتیں ایک جگہ اکٹھی بیٹھ گئیں اور آپس میں پختہ وعدہ کیاکہ وہ اپنے خاوندو ں کی حالت کوسچ سچ بیان کریں گی، کوئی بات نہیں چھپائیں گی۔
پہلی عورت نے کہاکہ میراخاوندلاغر اونٹ کاگوشت ہےاور وہ گوشت بھی سخت دشوار گزارپہاڑ کی چوٹی پر ہے، نہ پہاڑ کاراستہ آسان ہےکہ وہاں چڑھناممکن ہواور نہ ہی گوشت عمدہ ہےکہ اس کو ضرور حاصل کیاجائے۔
زبدۃ:
اس عورت نے خاوندکی برائی بیان کی ہےکہ میراخاوندنکما،بدمزاج اور بداخلاق ہے،اس کو آسانی کےساتھ پالینے میں بھی کوئی فائدہ نہیں چہ جائیکہ اس کو مشقت کےساتھ حاصل کیاجائے۔
دوسری عورت نے کہا کہ میں اپنے خاوند کاتذکرہ نہیں کرتی کیونکہ اگر میں نے بیان کرنا شروع کیاتومجھے ڈرہے کہ میں ادھورانہ چھوڑسکوں گی اور اس کے ظاہروپوشیدہ عیب بیان کروں گی۔
زبدۃ:
معلوم ہوتاہے کہ اس عورت کا خاوندسراپاعیب تھا۔
تیسری عورتنےکہا: میراخاوند بہت ہی بے تکا لمباہے (اور بداخلاق ایسا ہے کہ) اگر میں بول پڑوں توطلاق کاخطرہ اور اگر چپ رہوں تودرمیان میں ہی لٹکی رہوں۔
زبدۃ:
کہتے ہیں کہ زیادہ لمباہونا بے وقوفی کی علامت ہےیعنی میراخاوندبےوقوف ہےاور بداخلاق بھی کہ کوئی چیز مانگ بیٹھوں توطلاق دےدےگا، اگر نہ مانگوں اور چپ رہوں تو میراخیال نہیں کرتا۔ اب میں درمیان میں لٹکی ہوں، نہ توشادی شدہ عورتوں میں شمار ہوں، نہ ہی کنواریوں میں کہ کسی اور خاوندکا بندوبست کرسکوں۔
چوتھی عورت نے کہا: میرا خاوند تہامہ کی رات کی طرح معتدل ہے،نہ زیادہ گرم نہ زیادہ ٹھنڈا، نہ ہی کوئی خوف والی بات ہےاور نہ ہی تنگ دل ہے۔
زبدۃ:
یعنی نہ ہی معمولی معمولی بات پر طیش میں آتاہےاور نہ یہ کہ بڑے سے بڑے حادثہ پر بھی بےحس ہو، نہ اس کے پاس رہنے سے خوف ہوتاہےکہ ناراض ہو گیا توکیابنے گا؟ اور نہ ہی ساتھ رہنے سے دل تنگ ہوکر اکتاجاتاہے۔ مکہ مکرمہ کے گردونواح کو”تہامہ“ کہتے ہیں۔ اس کا موسم رات کو ہمیشہ معتدل ہی رہتاہے،خواہ دن کوگرمی ہی کیوں نہ ہو،اس عورت کانام مہد بنت ابی ہرومہ بتلایاجاتاہے۔
پانچویں عورت نے کہاکہ میراخاوندجب گھر میں داخل ہوتاہےتوچیتابن جاتاہےاور باہر نکلتاہےتوشیر بن جاتاہے،جوکچھ گھر میں ہوتاہےاس کی تحقیقات نہیں کرتا۔
زبدۃ:
اس عورت نے اپنے خاوند کی قدرے تعریف اور قدرے مذمت بیان کی ہے کہ گھر میں آتاہے توچیتابن جاتاہےاور چیتے کی تین خصلتیں مشہور ہیں:
(1) کثرت سے جماع کرنا، (2) کثرت سے سونا اور (3)غافل رہنا
مطلب یہ کہ جب گھر آتاہےتوصحبت بہت کرتا ہے، خوب سوتاہےاور گھریلومعاملات میں لاپرواہی کرتاہےاور گھر سے باہر شیر ہوتا یعنی شیر کی طرح اس کا خوب رعب ہے۔اس کے سامنے کوئی دم نہیں مار سکتااور گھریلو معاملات کی تحقیق نہیں کرتا کہ کیاپکایا؟ کیاکھایا؟ اور کیالیا؟اور کیادیا؟ یہ سب ہماری صوابدید پر ہوتا ہے۔
چھٹی عورت نے کہاکہ میراخاوند کھاتاہےتوسب کچھ چٹ کرجاتاہےاور جب پیتا ہے تو سب چڑھاجاتاہے،جب لیٹتاہےتواکیلاہی کپڑے میں لیٹ جاتاہےاور کسی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا کہ اس کا حال معلوم کرسکے۔
زبدۃ:
اس عورت کے بیان میں تعریف بھی ہوسکتی ہےاور مذمت بھی۔ مذمت تو ترجمہ سے ظاہر ہےاور اگر تعریف ہوتومطلب یہ ہےکہ اس کے گھر میں وسعت ہے ہر قسم کے کھانے کھاتاہے،تمام قسم کے مشروبات پیتاہے،بے فکر ہوکر سوتا ہے، کسی کے کپڑے میں ہاتھ ڈال کرکسی اور کوپریشان نہیں کرتااور کسی کی طرف ہاتھ نہیں بڑھاتا یعنی وہ نہ گالی گلوچ کرتاہےاور نہ کسی کی عزت پر حملہ کرتاہے۔
ساتویں عورت نے کہاکہ میراخاوندصحبت سے عاجز اور بےوقوف ہے،دنیاکی ہر بیماری اس میں ہے(جب ناراض ہو) تو بداخلاق ایسا کہ سرپھوڑ دےیا ہاتھ ٹانگ توڑ دے یا دونوں ہی کر گزرے۔
زبدۃ:
اس نے اپنے خاوندکی خوب مذمت کی ہے۔
آٹھویں عورت نے کہاکہ میراخاوندخرگوش کی طرح نرم ہےاور زعفران کی خوشبوکی طرح مہکتاہے۔
زبدۃ:
اس عورت نے اپنے خاوند کی تعریف کی ہے اور خوب کی ہے۔
نویں عورت نے کہامیراخاوند بلند ستونوں والا، بڑی راکھ والا،لمبے قد والا،مجلس کے قریب والاہے۔ اس عورت کانام ناشرہ بنت اوس ہے۔
زبدۃ:
اس عورت نے خاوند کی چار صفتیں بیان کی ہیں؛
[۱]: بلند ستونوں والاہے یعنی بڑی بڑی کوٹھیوں کا مالک ہے۔
[۲]: بڑی راکھ والاہےیعنی مہمان نواز ہےکہ کھانا اس کے گھربہت پکتاہےاس لیے راکھ بھی بہت زیادہ ہوتی ہے۔
[۳]: لمبے قد والاہےیعنی مردوں میں مناسب لمبے قدکاہوناحسن کی علامت ہے۔
[۴]: مجلس کے قریب والاہےیعنی دارالمشورہ کے قریب اس کاگھر ہے۔ ایک مطلب تو یہ ہے کہ لوگ اس سے بہت زیادہ مشورہ کرتے ہیں، اس لیے گھر ہی مشورہ کی جگہ کے قریب ہےتاکہ آنے میں دیر نہ ہو، جب ضرورت پڑی فوراًبلالیا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ چونکہ مشورہ کے لیے لوگ جمع ہوتے ہیں اور ان کے کھانے کا بندوبست کرنا پڑتا ہے تواس نے گھر قریب ہی بنایاہواہےتاکہ کھانا جب چاہیں آ سکے۔
دسویں عورت نے کہا کہ میراخاوندمالک ہےاور مالک کاکیاحال بیان کروں! مالک ان سب خاوندوں سے بہتر ہےجن کاذکر ان عورتوں نے کیاہے۔اس کے اونٹ باہر چرنے کے لیے بہت کم جاتے ہیں، اکثر گھر کے قریب بیٹھے رہتے ہیں، جب وہ باجے کی آواز سنتے ہیں تو یقین کرلیتے ہیں کہ ان کے ذبح ہونے کاوقت قریب آگیاہے۔
زبدۃ:
اس عورت کا نام کبشہ بنت مالک ہے۔اس نے بھی خاوند کی تعریف کی ہےیعنی میرے خاوند کے ہاں مہمانداری بہت کثرت سے ہوتی ہے،اس لیے اونٹ چرنے کے لیے نہیں جاتے بلکہ گھر کے قریب بیٹھے رہتے ہیں تاکہ جب ضرورت پڑے تو فوراًذبح کیا جاسکےاور جب کوئی مہمان آتاہےتویہ اس کی خوشی میں پہلے شراب کباب اور باجے کابندوبست کرتاہے۔ باجے کی آواز سنتےہی اونٹ سمجھ جاتے ہیں کہ اب ان کی باری ہے۔
گیارہویں عورت نے کہاکہ میرا خاوند ابوزرع ہےاور ابوزرع کی کیا تعریف کروں کہ وہ کیساآدمی تھا؟! اس نےمیرے کانوں کوزیوروں سے بھردیااور کھلاکھلاکرمیرے بازؤوں کوچربی سےپر کردیا۔ مجھے اتناخوش رکھتا تھا کہ میں اپنے آپ کوبھی بہت اچھی لگنے لگی تھی۔ وہ مجھے ایسے گھر سے لایاجن کے پاس چند بکریاں تھیں اور بہت مشقت میں تھےاور مجھے ایسے لوگوں میں لےآیاجن کے پاس گھوڑے، اونٹ اور کھیتی کے لیے بیل اور کسان بھی تھے۔ خوش اخلاق ایساکہ میری کسی بات پربرا نہ مناتا۔ میں دن چڑھے صبح تک سوتی رہتی ، کوئی نہ جگاتااور کھانے پینےمیں ایسی فراخی کہ خوب سیر ہوکرچھوڑدیتی۔
ابوزرع کی ماں کی کیابات ہے! اس کے بڑے بڑے برتن تھے،گھر بڑا وسیع اور کشادہ تھا۔ابوزرع کے بیٹے کے کیا کہنے؟ وہ ایسا چھریرے اور پھرتیلے بدن والا تھا کہ پسلی ایسی جیسے سونتی ہوئی تلوار اور ایسا کم خوراک کہ بکری کا ایک پایہ ہی اس کو کافی ہوجاتا۔ ابوزرع کی بیٹی کی بھی کیابات ہے! ماں باپ کی فرمانبردار بھاری جسم والی (عربوں کےہاں عورت کاموٹاہوناحسن کی علامت ہے) ایسی موٹی تازی کہ سوکن اس سےجلتی تھی۔ ابوزرع کی باندی بھی بڑی باکمال تھی، گھر کی بات کبھی باہر جاکر نہ پھیلاتی، کھانے کی معمولی سی چیز بھی بغیر اجازت خرچ نہ کرتی تھی، گھر کوبھی بڑاصاف شفاف رکھتی تھی۔
ہماراوقت بہت اچھاگزر رہاتھاکہ ایک دن ابوزرع صبح ایسے وقت گھر سے نکلا جب دودھ کے برتن بلوئے جارہے تھے۔راستہ میں ایک عورت ملی جس کے نیچے اس کے دوچیتے کی طرح کے بچےاناروں (یعنی پستانوں )سے کھیل رہے تھے۔پس ابوزرعہ نے مجھے طلاق دے کر اس کے ساتھ نکاح کرلیااور میں نے بھی اس کےبعدایک ایسے شخص سے نکاح کرلیا جوکہ سردار تھا، عمدہ گھوڑے پرسوار ہوکرخطی نیزا پکڑتا تھا، بڑا شاہسوار تھا، مجھے اس نےبے شمار نعمتیں دیں، ہرقسم کے جانوروں کاجوڑاجوڑادیااور کہاکہ ام زرع! خوب کھاؤپیئواور اپنے گھر والوں کو بھی پہنچاؤ۔ ام زرع کہتی ہیں: اگر میں اس دوسرے خاوند کی دی ہوئی ساری چیزوں کو بھی جمع کرلوں توبھی ابوزرع کے ایک برتن کو نہیں پہنچ سکتیں۔
حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ اس کے بعدحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے حق میں ایساہوں جیسا ابوزرع ام زرع کے حق میں۔
زبدۃ:
1: ان روایات سے پتا چلتا ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قصہ بیان ہوااور حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سماعت بھی فرمایا۔ بعض روایات سےحضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےقصہ بیان کرنابھی ثابت ہے۔ لہٰذا اس سے قصہ سننے اور سنانے کاجواز بھی نکلتاہے۔ مگر قصہ گوئی کے لیے شرط یہ ہےکہ قصہ ایسا نہ ہو جس سے اخلاق تباہ ہوں،اس سے فرائض کی ادائیگی میں کوتاہی ہو،اس میں کسی کی غیبت ہوبلکہ اہلِ خانہ کے سامنےکوئی قصہ ان کی دل جوئی کے لیے بیان کرنا تو بہت ہی اچھی بات ہے۔
2: اس آخری اور دوسری روایت میں چونکہ ام زرع کے قصہ کی تفصیل ہے لہذا اس روایت کانام ”حدیث ام زرع“ پڑگیاہے۔مگر اس پر ایک اعتراض یہ ہوتا ہےکہ اس میں توعورتوں نے اپنے خاوندوں کے عیب بیان کیےتھےاور یہ توسراسر غیبت ہے پھر حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے سن لیے؟ اس کاآسان سا جواب یہ ہے کہ کسی ایسےغیر معروف شخص کے حالات کوبیان کرناجس کو لوگ نہ جانتے ہوں یہ غیبت میں داخل نہیں۔
3: اس روایت کے آخر میں ہےکہ حضرت پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام المؤمنین(میری امی) عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایاکہ میں تمہارے لیے ایسے ہوں جیسے ابوزرع ام زرع کے لیے۔ مگر روایات میں یہ اضافہ بھی ہےکہ ”مگر میں تجھے طلاق نہ دوں گا“ حضرت ام المؤمنین(میری امی)عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا: حضرت! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، ابوزرع کی کیاحقیقت ہے؟! آپ تواس سے بہت بڑھ کر ہیں!!