فقہ حنفی پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
فقہ حنفی پر اعتراضات کا تحقیقی جائزہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اب آئیے قرآن مجید سے ٹکرانے والے احناف کے ان کے مسائل کی طرف۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص23
طالب الرحمن نے اپنے خیال کے مطابق فقہ حنفی کے صرف دس (10) مسائل ایسے نقل کیے ہیں جو قرآن پاک کے خلاف ہیں۔ ص23 سے لے کر ص35 تک یہ مسائل ذکر کیے ہیں۔
قارئین کرام میں حیران ہوں کہ طالب الرحمن کی اس نئی تحقیق پر کہ ان دس میں سے ایک بھی مسئلہ ایسا نہیں وہ پیش کر سکے جو نیا ہو یا ان کی اپنی تحقیق ہو۔ یہ سب مسائل پہلے غیر مقلد پیش کر چکے ہیں اور ہمارے اکابر ان کے جواب دے کر فارغ بھی ہو چکے ہیں۔ طالب الرحمن نے ان کو پھر دوبارہ نئے نام سے پیش کیا ہے۔ اس لیے ہم ان تمام اعتراضات کو مکمل نقل کرکے جواب بھی دے رہے ہیں تاکہ طالب الرحمن یہ خیال نہ کرے کہ میرے اعتراضات کا جواب نہیں دیا۔
ملاحظہ:
ہم پہلے طالب الرحمن کی پوری عبارت نقل کریں گے، پھر اس کا جواب دیں گے تاکہ قارئین پر ان اعتراضات کی پوری حقیقت واضح ہوجائے اور غیر مقلدین کے دام تزویر میں پھنسنے سے بچ جائیں۔
اعتراض نمبر1: قصاص لینے کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اسلام اور قتل کی سزا
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی ... وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَّاْ اُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ
البقرہ:178۔179
اے ایمان والو! تم پر قتل میں قصاص فرض کیا گیا ہے… اور اے عقل مندو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے تاکہ تم پرہیز گار بن جاؤ۔“
ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
وَکَتَبْنَا عَلَیْہِمْ فِیْہَا اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ … وَمَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الظَّالِمُوْنَ
المائدہ:45
اور ہم نے ان پر فرض کیا تھا کہ بے شک جان کے بدلے جان ہے… اور جو اﷲ تعالیٰ کے اتارے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہیں کرتا وہی لوگ ظالم ہیں۔“
فقہ حنفی اور قتل کی سزا
اس مسئلے میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے اقوال قاتل کو سزا نہ دینے پر مبنی ہیں ملاحظہ فرمائیے۔
صاحبِ ہدایہ لکھتے ہیں:
1۔ ومن غرق صبیًا او بالغًا فی البحر فلا قصاص عند ابی حنیفۃ
ہدایہ اخیرین ص562
جس نے کسی بچے یا بالغ کو دریا میں ڈبو دیا تو اس پر امام ابوحنیفہ کے نزدیک قصاص نہیں ہے۔
2۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
واذا سقٰی رجلا سمّا فمات من ذلک فان أو جرہ ایجارا علی کُرہ منہ أو ناولہ ثم أکرہہ علی شُربہ حتی شَرب أو ناولہ من غیر اکراہ علیہ فان أو جرہ أو ناولہ و أکرہہ علی شربہ فلا قصاص علیہ وعلی عاقلتہ الدیۃ
6/6
اگر کسی نے کسی شخص کو زبردستی زہر پینے پر مجبور کیا اور اس سے اس کی موت واقع ہو گئی تو اس پر قصاص نہیں ہے اور اس کے قبیلے والوں پر دیت ہو گی۔
3۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ولو أن رجلا اخذ رجلا فقیدہ وحبسہ فی بیت حتی مات جوعًا فقال محمد رحمہ اﷲ تعالٰی أوجعہ عقوبۃ والدیۃ علی عاقلتہ والفتوی علی قول ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی انہ لا شیء علیہ
اگر کسی نے کسی کو قید کر کے بھوکا مار دیا تو امام محمد رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اسے مارا پیٹا جائے گا اور اس کے قبیلے والوں پر دیت ہو گی لیکن فتویٰ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول پر ہے کہ اس پر کچھ بھی سزا نہیں۔
4۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
قال أبو حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی فی رجل قمط رجلا فطرحہ قدام سبع فقتلہ السبع لم یکن علی الذی فعل ذلک قود ولا دیۃ لکنہ یعزز ویضرب ویحبس حتی یتوب
6/6
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کو باندھ کر درندے کے آگے ڈال دیا اس نے اس آدمی کو مار ڈالا تو ایسا کرنے والے پر کوئی جرمانہ یا دیت نہیں البتہ اسے تعزیراً مارا اور قید کیا جائے گا حتی کہ وہ توبہ کر لے (تو اس کی معافی ہو گی(۔
5۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ولو ان رجلا ادخل رجلا فی بیت و ادخل معہ سبعا و اغلق علیہما الباب فاخذ الرجل السبع فقلتہ لم یقتل بہ ولا شیء علیہ و کذا لو نھشتہ حیّۃٌ او لسعتہ عقربٌ لم یکن فیہ شیء ادخل الحیۃ والعقرب معہ او کانتا فی البیت و لو فعل ذلک بصبی فعلیہ الدیۃ۔
6/6
اگر کسی شخص نے کسی شخص کو ایک گھر میں داخل کر دیا اور اس کے ساتھ درندوں کو بھی داخل کر کے گھر کا دروازہ بند کر دیا اور درندوں نے اس آدمی کو پھاڑ کھایا تو ایسا کرنے والے کو قتل نہیں کریں گے اور اس پر کوئی سزا نہیں۔ اسی طرح اگر ایسے گھر میں سانپ یا بچھو کسی شخص کو ڈس لے تو جس نے اسے ایسے گھر میں قید کیا تھا اس پر کوئی حد نہیں چاہے اس نے خود گھر میں سانپ اور بچھو داخل کیے یا پہلے سے گھر میں موجود تھے اگر بچے کے ساتھ یہ حرکت کرے تو صرف اس پر دیت ہو گی۔
حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے زہر کھلانے والی عورت کو صحابی کے فوت ہو جانے کی وجہ سے قتل کروا دیا جیسا کہ اس روایت میں ہے۔
عن ابی ہریرۃ کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم یاکل الہدیۃ ولا یاکل الصدقۃ فاہدت لہ یہودیۃ بخیبر شاۃ مصلیۃ سمتھا فاکل رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم منہا واکل القوم فقال ارفعوا ایدیکم فانھا اخبرتنی انہا مسمومۃ فمات بشر بن البراء بن معروف الانصاری فارسل الی الیہودیۃ ما حملک علی الذی صنعت؟ قالت ان کنت نبیا لم یضرک الذی صنعت وان کنت ملکا ارحت الناس منک فأمر بھا رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم فقتلت ثم قال فی وجعہ الذی مات فیہ مازلت اجد من الاکلۃ التی اکلت بخیبر فہذا او ان قطعت ابہری۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ہدیہ تناول فرماتے تھے لیکن صدقہ نہیں کھاتے تھے۔ ایک یہودن نے خیبر میں آپ کو ایک زہر آلود بکری ہدیہ بھیجی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام اور آپ کے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے اسے تناول فرمایا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کھانے سے اپنے ہاتھ روک لو کیونکہ بکری نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ وہ زہر آلود ہے۔ حضرت بشر رضی اللہ تعالی عنہ کھانے کی وجہ سے وفات پا گئے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے یہودیہ کو بلایا اور پوچھا اس کام پر تجھے کس چیز نے اکسایا؟ وہ کہنے لگی میں نے یہ اس لیے کیا کہ اگر آپ نبی ہوں گے تو آپ کو کوئی نقصان نہ ہو گا اور اگر آپ بادشاہ ہیں تو لوگوں کی آپ سے جان چھوٹ جائے گی۔ آپ نے اس یہودیہ کو قتل کرنے کا حکم دیا اور جس بیماری میں آپ فوت ہوئے آپ نے اس موقع پر فرمایا کہ خیبر کے موقع پر زہر آلود کھانے کی تکلیف میں ہمیشہ محسوس کرتا رہا اب میری شہ رگ اس سے کٹ رہی ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن وحدیث کا نچوڑ ہے ص23 تا 26
پہلے اعتراض کا جواب
قارئین کرام! طالب الرحمن نے قرآن پاک کی جو پہلی آیت نقل کی ہے وہ مکمل نقل نہیں فرمائی اگر مکمل نقل فرما دیتے تو مسئلہ قصاص کی اچھی طرح وضاحت ہو جاتی۔ آپ نے پہلے سورہ بقرہ کی آیت نمبر 178 کا کچھ حصہ نقل کیا ہے یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ سے فِی الْقَتْلٰی تک جب کہ آیت عَذَابٌ اَلِیْمٌ پر ختم ہو تی ہے۔ پھر آپ نے آیت نمبر 179 نقل فرما دی ہے۔ درمیان سے آیت نمبر 178 کا زیادہ تر حصہ نکال دیا، یہ کیوں کیا؟ فقہ کی کتابوں کے فوٹوسٹیٹ سے کتاب بھر دی ہے مگر قرآن کی آیت نقل کرنے کے لیے آپ کے پاس جگہ نہیں تھی۔ اگر آیت نمبر179 بھی نقل کرنی تھی تو آیت 178 مکمل کرنے کے بعد پھر اس کو نقل کر دیتے۔
آیت کا کچھ حصہ نکالنے کی وجہ
آیت کا کچھ حصہ نکالنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ اس آیت میں اﷲ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرمائی تھیں۔ طالب الرحمن صاحب نے ایک کا ذکر کیا اور دو کا ذکر کرنا نہیں چاہتے تھے اس لیے نکال دیا۔ پہلی بات تھی قتل کے بدلے قتل یعنی قصاص لینا۔ دوسری بات تھی قصاص معاف کرنا اور تیسری تھی دیت وصول کرنا جیسا کہ اسی آیت میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ
”پھر جس کو معاف کیا جائے اس کے بھائی کی طرف سے کچھ بھی تو تابعداری کرنی چاہیے موافق دستور کے۔“
اس مکمل آیت میں تین مسئلوں کا ذکر ہے۔جیسا کہ خود غیر مقلدین کے مفسر مولانا صلاح الدین یوسف نے نقل کیا ہے۔ لکھتے ہیں:
”یہ تخفیف اور رحمت (یعنی قصاص و معافی یا دیت، تین صورتیں) اﷲ تعالیٰ کی طرف سے خاص تم پر ہوئی ہیں۔“
تفسیر احسن البیان ص71 حاشیہ نمبر2 مطبوعہ سعودی عرب
جب اﷲ تعالیٰ نے تین باتیں ارشاد فرما دیں تو جو شخص ان میں سے کسی بات پر بھی عمل کر لیتا ہے وہ قرآن پر ہی عمل کر رہا ہے۔ بہت سے احکام ایسے ہیں جن میں دیت نافذ ہوتی ہے۔ اور بعض احکام ایسے ہیں کہ اگر کوئی کسی مجرم کو معاف کر دے تو پھر بھی اس کی سزا ختم ہو جاتی ہے اور معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ اس کو ہر حال میں قتل ہی کرنا ہے۔ وارث قصاص ہی لینا چاہیں تو قصاص بھی لے سکتے ہیں۔ طالب الرحمن نے صرف قصاص والی بات اس لیے نقل کی ہے کہ شریعت کی رو سے بہت سے ایسے جرائم ہیں جن میں دیت نافذ کی جاتی ہے۔ طالب الرحمن یہ بتانا چاہتا ہے کہ قرآن میں تو قصاص کا حکم ہے اور فقہ حنفی دیت بتاتی ہے۔
طالب الرحمن نے لکھا ہے کہ حنفی قرآن کا حکم نہیں مانتے یعنی قصاص کو نہیں مانتے۔یہ بالکل سفید جھوٹ ہے حنفی یا کوئی بھی شخص جو قصاص کو نہیں مانتا وہ پکا کافر ہے۔
فقہ حنفی میں قصاص کا حکم
1 … قدوری میں ہے:
قتل کی پانچ قسمیں ہیں۔ (1)قتل عمد (2)قتل شبہ عمد (3)قتل خطا (4)قتل شبہ خطا (5)قتل سبب۔ قتل عمد وہ ہے کہ کوئی شخص کسی کو عمداً کسی ہتھیار سے مار ڈالے یا کسی ایسی چیز سے جو ٹکڑے کرنے میں مثل ہتھیار کے ہو جیسے دھار دار قینچی یا پتھر یا آگ۔ اس کی سزا گنہگاری اور قصاص ہے۔
اشراق نوری اردو ترجمہ قدوری،ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص299، کتاب الجنایات
2… کنز الدقائق میں ہے:
قتل عمد کی سزا (جو ان چار صورتوں میں سے پہلی صورت ہے) اور قتل عمد اسے کہتے ہیں کہ جان بوجھ کر کسی ہتھیار سے یا ایسی چیز سے مار ڈالے جو (بدن کے) اعضا جدا کر سکے مثلاً دھار دار لکڑی ہو یا پتھر ہو یا بانس کی کھپچی ہو (ان سے مار دے) یا آگ میں جلا دے (تو ان سب صورتوں کا حکم) یہ ہے کہ قاتل گنہگار ہوتا ہے اور قصاص (یعنی بدلہ میں مار ڈالنا) معین لازم آتا ہے (یعنی قاتل مقتول کے بدلے میں مارا جائے گا(۔
احسن المسائل اردو ترجمہ کنز الدقائق ص386
3 … کنز الدقائق میں کچھ آگے لکھا ہے:
ایسے شخص کا قصداً خون کرنے سےکہ جس کا خون کرنا ہمیشہ کو حرام ہو قصاص (یعنی خون کا بدلہ خون) واجب ہو جاتا ہے۔ اگر کوئی آزاد آدمی دوسرے آزاد کو یا غلام کو جان سے مار دے تو ان کے بدلہ میں وہ بھی جان ہی سے مارا جائے گا۔
احسن المسائل اردو ترجمہ کنز الدقائق ص387
4 … شرح وقایہ میں ہے:
قتل عمد کے سبب سے قاتل گنہگار ہوتا ہے اور اس پر قصاص واجب ہوتا ہے۔
شرح وقایہ کتاب الجنایات
اس عبارت کی شرح کرتے ہوئے مولانا عطاء محمد اچکزئی حنفی لکھتے ہیں:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ قصاص قتل عمد میں متعین ہے کیونکہ اﷲ جل شانہ فرماتے ہیں کتب علیکم القصاص فی القتلی۔ البقرۃ 178 تم پر قصاص (فرض کر دیا گیا) لکھا گیا ہے مقتولین میں۔ اسی طرح حدیث میں آیا ہے العمد قود (رواہ ابن ابی شیبہ و دار قطنی) قتل عمد کا موجب قصاص ہے۔
اشرف الوقایہ اردو شرح وقایہ کتاب الجنایات ص243
5… ہدایہ میں ہے:
قدوری نے فرمایا اور قصاص واجب ہے اﷲ تعالیٰ کے فرمان کتب علیکم القصاص فی القتلی کی وجہ سے۔ مگر قصاص عمدیت کے وصف کے ساتھ مقید ہے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے فرمان کی وجہ سے۔ العمد قود (عمد قصاص ہے) یعنی عمد کا موجب و حکم قصاص ہے اور اس لیے کہ عمدیت کی وجہ سے جنایت کامل ہو جاتی ہے اور زجر کی حکمت عمدیت پر پوری ہو جاتی ہے اور آخری درجہ کی عقوبت (سزا) کے لیے قصاص کے علاوہ کوئی چیز مشروع نہیں ہے۔
اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے مولانا مفتی محمد یوسف حنفی تاؤلوی استاذ دار العلوم دیوبند لکھتے ہیں:
گناہ کے ساتھ ساتھ قتل عمد میں قصاص بھی واجب ہوتا ہے کیونکہ قرآن کی یہ آیت کتب علیکم القصاص فی القتلی وجوب قصاص پر دال ہے۔
اشرف الہدایہ ترجمہ شرح اردو ہدایہ اخرین جلد نمبر15 ص5 کتاب الجنایات
6 … فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
جنایت کی دو قسمیں ہیں ایک موجب قصاص ہے وہ جنایت عمد ہے۔
فتاویٰ عالمگیری اردو جلد نمبر9 ص294 کتاب الجنایات
7… در مختار میں ہے:
اور موجب قتل عمد کا عین قصاص ہے بلا لزوم مال۔
در مختار اردو ترجمہ جلد نمبر4 کتاب الجنایات ص349
8 … مفتی محمد شفیع حنفی دیوبندی لکھتے ہیں:
اسی لیے اصطلاح شرح میں قصاص کہا جاتا ہے قتل کرنے اور زخم لگانے کی اس سزا کو جس میں مساوات اور مماثلت کی رعایت کی گئی ہو۔
مسئلہ: قتل عمد وہ کہ ارادہ کر کے کسی کو آہنی ہتھیار سے یا ایسی چیز سے جس سے گوشت پوست کٹ کر خون بہہ سکے قتل کیا جائے۔ قصاص یعنی جان کے بدلے جان لینا، ایسے ہی قتل کے جرم کے ساتھ مخصوص ہے۔
مسئلہ: ایسے قتل میں جیسے آزاد آدمی آزاد کے عوض میں قتل کیا جاتا ہے ایسے ہی غلام کے عوض میں بھی اور جس طرح عورت کے عوض میں عورت ماری جاتی ہے اسی طرح مرد بھی عوت کے مقابلہ میں قتل کیا جاتا ہے۔
تفسیر معارف القرآن جلد اول ص435
9… مولانا مفتی عزیز الرحمن بجنوری شاگرد مولانا حسین احمد مدنی، مدیر رسالہ مدینہ بجنور لکھتے ہیں:
سنت شریفہ اور قانون جرم و سزا
اسلام کے نزدیک قتل انسان قتل عالم کے مترادف ہے اس سے خونریزی کی بنیاد پڑ جاتی ہے اور ایک ایسی آگ بھڑک اٹھتی ہے جو برسہا برس ٹھنڈی نہیں ہوتی اس لیے اس کی روک تھام میں بہت شدت سے کام لیا گیا ہے۔ قرآن شریف میں ارشاد ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالاُنثَی بِالاُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَاَدَائٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ اَلِیْمٌ وَلَکُمْ فِی الْقِصَاصِ حَیَاۃٌ یَّا اُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُونَ
سورۃ البقرۃ، 179،178
ایمان والو! تمہارے اوپر مقتول کے بارے میں خون کا بدلہ خون فرض کیا جاتا ہے اس طرح کہ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، اگر قاتل کو اس کے مقتول بھائی کے قصاص میں کچھ معاف کر دیا جائے تو دستور کے مطابق پیروی کرو اور بھلائی کے ساتھ ادائیگی کرو یہ تمہارے رب کی جانب سے آسانی اور رحمت ہے اور اس کے بعد جو زیادتی کرے اس کے لیے دردناک عذاب ہے۔ اور اے عقل مندو! تمہارے لیے حکم قصاص ہی میں زندگی ہے کہ تاکہ تم خونزیری سے بچو۔
اسلام نے یہ حکم دے کر خون خرابہ کو ختم کر دیا۔ سطور ذیل میں سنت شریفہ کی روشنی میں اس بارے میں عدل و انصاف کے چند نمونے پیش کیے جاتے ہیں۔
غلام کو قتل کرنا
امام اوزاعی نے روایت کیا ہے کہ ایک آدمی نے اپنے غلام کو عمداً قتل کر دیا۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے سو کوڑے لگوا دئے اور ایک سال کے لیے اس کو شہر بدر کر دیا اور اس کو امر فرمایا کہ ایک غلام آزاد کرے اور اس سے قصاص نہیں لیا۔ لیکن امام احمد نے روایت کیا ہے۔
من قتل عبدہ قتلناہ
جو اپنے غلام کو قتل کرے گا ہم اس کو قتل کریں گے۔
یہ حدیث محفوظ ہے اور اس کو حضرت حسن نے حضرت سمرہ سے روایت کیا ہے اور یہ قتل تعزیراً ہے جو امام کی رائے پر موقوف ہے۔
زاد المعاد ابن قیم، بذل ج5 ص167
قاتل اور ولی مقتول
صحیح مسلم میں ہے کہ ایک آدمی نے دعویٰ کیا کہ فلاں آدمی نے اس کے بھائی کو قتل کر دیا ہے قاتل نے اعتراف بھی کر لیا۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا کہ تم اس کو پکڑ لو جب وہ اس کو پکڑ کر لے جانے لگا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا۔ اگر اس آدمی نے اس قاتل کو قتل کر دیا تو یہ بھی قاتل ہو جائے گا۔ وہ آدمی واپس ہوا اور بولا۔ میں نے صرف آپ کے فرمانے کی وجہ سے اس کو پکڑا ہے۔ آپ نے فرمایا کیا تیرا ارادہ اس کے قتل کا نہیں تھا؟ اس طرح تو اس کا اور اس کے مقتول کا دونوں کا گناہ سمیٹتا۔ اس کے بعد اس کو چھوڑ دیا۔
زاد المعاد اور ابو داود نے یہ واقعہ چند اسناد سے روایت کیا ہے
امام احمد نے اپنی مسند میں حدیث روایت کی ہے کہ ایک آدمی نے جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی کو قتل کر دیا۔ یہ معاملہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا گیا آپ نے قاتل کو ولی مقتول کے سپرد کر دیا۔ قاتل نے عرض کیا میں نے اس کو جان بوجھ کر قتل نہیں کیا تھا تب آپ نے ولی مقتول سے فرمایا اگر یہ سچا ہے اور پھر تو نے اس کو قتل کر دیا تو تو دوزخ میں جائے گا چنانچہ اس نے قاتل کو چھوڑ دیا۔
زاد المعاد رواہ ابو داود
باندی کا قتل
صحیحین میں ہے کہ ایک یہودی نے ایک انصاری کی باندی کو زیور کے لالچ میں دو پتھروں سے سر کچل کر مار ڈالا اور وہ پکڑا گیا۔ ابو داود نے روایت کیا ہے کہ وہ باندی ابھی زندہ تھی جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت فرمایا کیا تجھے فلاں نے قتل کیا ہے؟ اس نے سر کے اشارے سے انکار کر دیا۔ اسی طرح چند آدمیوں کا نام لیا جب اس یہودی کا نام لیا تو اقرار کیا ہاں نے اس نے مارا ہے۔ اس کے بعد اس یہودی نے بھی اعتراف کیا۔ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اس کا سر پتھر سے کچل کر قتل کرا دیا۔
اس حدیث میں دلیل ہے کہ مرد کو عورت کے بدلہ قتل کیا جائے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ جیسا مجرم نے کیا ہے ویسا ہی اس کے ساتھ بھی کیا جائے گا۔ اور یہ بھی ہے قتل ایک قانونی جرم ہے اولیائے مقتول کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے اور نہ اس کے سپرد کرنے کی ضرورت ہے کہ وہی انتقام لے اور یہ آپ نے نہیں فرمایا کہ چاہو اس کو معاف کر دو اور چاہے اس کو قتل کر دو، بلکہ آپ نے اس کو قتل کرا دیا۔ امام مالک اور امام شافعی کا یہی مسلک ہے اور اسی کو امام ابن تیمیہ نے اختیار کیا ہے۔
زاد المعاد رواہ ابو داود
امام ابوحنیفہ نے ارشاد فرمایا ہے کہ اب قتل کی سزا صرف تلوار کے ذریعہ قتل کرنا ہے اور دوسرے ظالمانہ طریقے اختیار نہیں کیے جائیں گے کیونکہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے۔
لا قود الا بالسیف قصاص صرف تلوار ہی سے لیا جائے گا۔
اس حدیث کو امام طحاوی اور ابوداود الطیالسی نے روایت کیا ہے۔
بذل ج5 ص173
اور بعض علماء نے فرمایا ہے کہ یہ قتل اس طرح پر یہودی کے نقض عہد کی بنا پر تھا لیکن علامہ ابن قیم نے فرمایا ہے کہ نقض عہد کی سزا بھی اس طرح نہیں دی جا سکتی اس کی سزا بھی تلوار ہی کے ذریعے دی جائے گی۔
زاد المعاد
حنفی حضرات نے فرمایا ہے کہ صحیح بات یہ ہے کہ پہلے یہ حکم تھا بعد میں منسوخ ہو گیا اور قتل کی سزا صرف تلوار ہی کے ذریعہ مقرر ہو گئی۔ ہمارے خیال میں یہ قول زیادہ قرین قیاس ہے کیونکہ مثلہ کا حکم 6ھ کے بعد منسوخ قرار دے دیا گیا تھا کیونکہ 6ھ میں اہل عرینہ کا واقعہ پیش آیا تھا اور اس باندی کے قتل کا واقعہ غزوہ احزاب کے قرب و جوار اور قتل بنی قریظہ سے قبل پیش آیا کیونکہ اس کے بعد تو یہودی مدینہ میں نہیں رہے بلکہ ان کو باہر نکال دیاگیا تھا۔
حاملہ عورت کا قتل
صحیحین میں ہے کہ قبیلہ ہذیل کی دو عورتوں میں لڑائی ہوئی ایک عورت نے دوسری کے پتھر مارا۔ وہ حاملہ تھی پتھر کی چوٹ سے ہلاک ہو گئی اور اس کے پیٹ سے بچہ نکلا وہ بھی مر گیا۔ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی خدمت میں یہ معاملہ پیش ہوا تو آپ نے بچہ کے بدلہ ایک غلام لڑکا یا لڑکی دلائی اور مقتول عورت کے بدلہ قاتلہ کے وارثوں سے دیت دلائی۔ اور نسائی میں ہے کہ آپ نے اس کو قتل کرا دیا۔ اور صحیح یہ ہے کہ قتل نہیں کرایا تھا۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ شبہ عمد میں قصاص نہیں ہے۔
رواہ ابو داود، زادا المعاد
اجتماعی جرمانہ یا قسامت
اگر کوئی قتل اس طرح پر ہو گیا کہ متعین طور پر قاتل کا پتہ نہیں چلا تو اس قبیلے پر دیت آئے گی۔ صحیحین میں مذکور ہے کہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود اور انصار کے درمیان ایک فیصلہ کیا۔ آپ نے خویصہ، محیصہ اور عبدالرحمن سے ایک قتل کے معاملہ میں فرمایا کہ کیا آپ لوگ قسم کھا سکتے ہیں کہ آپ لوگ اپنے مقتول کے خون کے واجبی حق دار ہیں؟ انہوں نے جواب دیا ہم نے نہ قاتل کو دیکھا ہے اور نہ اس کا مشاہدہ کیا ہے۔
تب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا پھر یہودیوں سے پچاس قسمیں لے کر چھوڑ دو۔ انہوں نے جواب دیا ہم ان کی قسموں کا اعتبار نہیں کرتے۔ پس جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی دیت اپنے پاس سے ادا کی۔ احادیث کے الفاظ میں اختلاف ہے۔ بعض میں ہے اپنے پاس سے دیت دی۔ اور بعض میں ہے کہ صدقہ کے اونٹوں سے دیت ادا کی اور ابوداود میں ہے کہ اس کی دیت یہود پر ڈالی گئی، کیونکہ مقتول ان کے محلہ ہی میں پایا گیا تھا اور مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ قسم لینے کی ابتدا آپ نے یہود سے کی تھی تو انہوں نے انکار کر دیا، پھر انصار سے فرمایا تو انہوں نے انکار کر دیا تو آپ نے یہ دیت یہود پر مقرر فرمائی اور اس میں کچھ اعانت بھی کی۔
یہ پورا قصہ موطا امام مالک میں مروی ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہواوجز المسالک جلد5 ص525
اس فیصلہ سے چند امور ثابت ہیں:
الف۔ قسامت یا اجتماعی جرمانہ کا حکم شرعی حکم ہے۔
ب۔ اہل ذمہ جب کسی حق کا انکار کریں تو عہد ذمہ ٹوٹ جائے گا۔
ج۔ اہل ذمہ (غیر مسلموں) کا فیصلہ بھی شریعت کے مطابق کیا جائے گا اگر وہ ہماری طرف رجوع کریں۔
کنویں میں ڈوبنے والے
چار آدمی ایک مرتبہ اس طرح گر کر ہلاک ہوئے کہ ایک نے دوسرے کو اور دوسرے نے تیسرے کو اور تیسرے نے چوتھے کو بچانے کی کوشش کی مگر یکے بعد دیگرے سب ہلاک ہو گئے۔ امام احمد نے روایت کیا ہے کہ ان لوگوں نے یمن میں ایک کنواں کھودا تھا، ان میں سے ایک آدمی کنویں میں گر گیا اور ایک دوسرے کو بچانے میں سب ہلاک ہو گئے۔
ان کے رشتہ داروں نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کی خدمت میں یہ معاملہ پیش کیا۔ (اس وقت حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ یمن میں قاضی تھے) حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے حکم دیا کہ جس نے کنواں کھودا وہ چوتھائی دیت دے اور اس کے بعد دوسرا ایک تہائی اور تیسرا آدھی دیت دے گا کیونکہ اس کے بعد صرف ایک ہی مرا ہے اور چوتھے کی پوری دیت ہو گی۔
آئندہ سال جب یہ لوگ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فیصلہ سنایا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اسی فیصلہ کو درست قرار دیا۔ بزار نے ایسے ہی روایت کیا ہے۔ لیکن مسند امام احمد میں اتنا اضافہ اور ہے کہ ان کے وارثوں نے پہلے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کے فیصلہ سے انکار کر دیا تھا اور پھر جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اس وقت حضور حجۃ الوداع میں مقام ابراہیم پر تھے۔
زاد المعاد ابن قیم
سوتیلی ماں سے نکاح
احمد اور نسائی نے روایت کیا ہے کہ حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں نے اپنے ماموں سے ملاقات کی ان کے پاس ایک جھنڈا تھا، انہوں نے کہا مجھے جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھیجا ہے۔ آپ اس آدمی کو بتلائیں جس نے اپنی ماں سے نکاح کر لیا ہے میں اس کو قتل کروں گا اور اس کے مال کوضبط کروں گا۔ اور تاریخ ابن خیثمہ میں ہے کہ اس آدمی کو قتل کر دیا گیا اور اس کے مال پر قبضہ کر کے اس میں سے خمس لیا گیا (وجہ اس کی یہ ہے یہ آدمی اس کو حلال جانتا تھا اور حرام کو حلال جاننے والا مرتد ہو جاتا ہے تو اس آدمی کو ارتداد کی وجہ سے قتل کیا گیا تھا۔
بذل ص150 ج5
اور ابن ماجہ میں ہے:
من وقع ذات محرم فاقتلوہ
جس نے اپنی محرم عورت سے زنا کیا اس کو قتل کر دو۔
اور جوزجانی نے ذکر کیا ہے کہ حجاج کے پاس ایک آدمی لایا گیا اس نے اپنی بہن سے نکاح کر لیا تھا۔ حجاج نے کہا اس کو بند کر دو اور صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں سے جو موجود ہوں ان سے دریافت کرو چنانچہ عبداﷲ بن مطرف رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ روایت بیان کی:
”جو مومنین کے محرمات میں سے گزرا اس کے درمیان سے تلوار نکال دو۔“
امام شافعی، امام مالک، امام ابوحنیفہ رحمہم اللہ تعالی نے فرمایا ایسے مجرم پر حدِ زنا جاری کی جائے گی۔
زاد المعاد ابن قیم
دانت کا قصاص
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ نے روایت کیا ہے کہ بنت نضر نے ایک باندی کے چپت لگائی تو اس کا دانت گر گیا۔ معاملہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا آپ نے قصاص کا حکم صادر فرمایا، اس کی ماں نے کہا حضور! آپ اس کا قصاص نہ لیں۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کتاب اﷲ کا حکم یہی ہے۔ اس کی ماں نے پھر عرض کیا حضور قصاص نہ لیں۔ اس اصرار پر اس باندی کی قوم نے بنت نضر کو معاف کر دیا اور وہ دیت پر راضی ہو گئے تب حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
ان من عباد اﷲ من لو اقسمو علی اﷲ لابرہ
ابو داود
اﷲ کے بندوں میں سے ایسے بھی ہیں کہ اگر وہ اﷲ پر قسم کھا لیں تو وہ پورا کرے گا۔
کاٹ لینا
ایک آدمی نے دوسرے کے ہاتھ میں کاٹ لیا۔ جب اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے نکالا تو اسکے سامنے کے دانت گر گئے۔ یہ معاملہ جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش ہوا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس پر کوئی دیت نہیں ہے۔ اس سے ثابت ہوا اگر کوئی آدمی ظالم کے ہاتھ سے اپنا مال یا جان چھڑائے اور اس میں ظالم کا نقصان ہو جائے تو وہ معاف ہے۔
جناب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ اور پیروں کی انگلیوں کی دیت دس دس اونٹ مقرر فرمائی اور ہر دانت کی دیت پانچ اونٹ اور دانتوں میں سب برابر ہیں اور اور اگر آنکھ پھوٹ جائے تو ایک تہائی دیت اور اگر ہاتھ کاٹا جائے تو ثلث دیت اور ناک کاٹنے پر پوری دیت ہے۔
اسلامی دستور کے بنیادی اور رہنما اصول ص115 تا 122
10… مولانا مجیب اﷲ ندوی حنفی لکھتے ہیں:
قصاص
انسان کی جان ہو یا اس کا مال یا عزت و آبرو ہو ان میں سے ہر چیز کو اسلامی شریعت نے محترم قرار دیا ہے۔ اس لیے اس کے نقصان پہنچانے والے فعل کو گناہ اور جرم قرار دیا ہے اور اس کی سزا مقرر کی ہے۔ حدود و قصاص کی اصلی روح یہی ہے اگر کوئی انسان کسی دوسرے انسان کو بغیر کسی شرعی سبب (شرعی سبب کا مطلب یہ ہے کہ جہاد کا موقع ہو یا کسی نے زنا کا ارتکاب کیا ہو یا قصاص وغیرہ کا موقع ہو تو اس موقع اور محل میں قتل جائز ہے) کے قتل کر دیتا ہے تو اسلامی شریعت مقتول کے بدلہ میں قاتل کو قتل کر دینے کا حکم دیتی ہے، اسی کو قصاص کہا جاتا ہے۔
اسی طرح اگر کوئی کسی آدمی کے عضو کو نقصان پہنچاتا ہے تو فقہائے کرام اس کا بدلہ لینے کو بھی قصاص سے تعبیر کرتے ہیں۔ اسی لیے عام طور پر فقہاء قتل اور اعضاء کو نقصان پہنچانے والے احکام کا ذکر جنایات (عربی میں ان زیادتیوں کو جنایات کہتے ہیں جو آدمی دوسرے پر کرتا ہے) کے لفظ سے کرتے ہیں جس میں ہر طرح کی زیادتی شامل ہے۔ اوپر ذکر آ چکا ہے کہ فقہائے کرام قصاص کا ذکر حدود کے ساتھ نہیں کرتے بلکہ حدود سے علیحدہ اس لیے کرتے ہیں کہ اس میں بندوں کا حق غالب ہوتا ہے یعنی مقتول کے ورثاء اسے معاف بھی کر سکتے ہیں مگر حدود میں جو جرائم آتے ہیں ان کا شمار حقوق اﷲ میں ہوتا ہے۔ اس میں اﷲ کا حق غالب ہوتا ہے ان کو کوئی آدمی معاف نہیں کر سکتا۔
گو کہ ایک حیثیت سے قصاص بھی حقوق اﷲ میں شامل ہے اس لیے کہ اﷲ نے جان کو محترم قرار کر دیا ہے اور قاتل اس احترام کو پامال کرتا ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ کو انتہائی ناپسند ہے، حدود میں جو جرائم آتے ہیں ان میں بھی کسی نہ کسی حیثیت سے بندے کی حق تلفی شامل ہوتی ہے۔ چوری، ڈاکہ زنی ہی نہیں بلکہ زنا، قذف بھی کسی نہ کسی حیثیت سے بندے کی حق تلفی ہے۔ مگر اس میں غالب اﷲ کا حق ہے اس لیے اس سزا کو کوئی معاف نہیں کر سکتا۔
قصاص کی شرعی تعریف
فقہاء نے اس کی اصطلاحی تعریف یہ کی ہے۔
انہ عقوبۃ مقدرۃ تجب حقًا للفرد
التعزیر فی الشریعۃ الاسلامیۃ ص25
یہ ایک متعین سزا ہے جو بندے کے حق سے متعلق ہے۔
اوپر ذکر آ چکا ہے کہ اس حیثیت سے قصاص بھی حدود میں شامل ہے کہ اس کی سزا بھی مقرر اور متعین ہے مگر اس حیثیت سے یہ عام جرائم سے الگ ہے کہ یہ خالص فرد کا حق ہے جسے وہ معاف کر سکتا ہے گویا قصاص اس سزا کو کہتے ہیں جو کسی قتل کے بدلہ میں قاتل کو دی جائے۔
قتل کی پانچ صورتیں ہوتی ہیں:
1۔ قتل عمد 2۔ شبہ عمد
3۔ قتل خطا 4۔ شبہ قتل خطا
5۔ قتل کا سبب بننا۔
1… قتل عَمد
قتل عمد یعنی کوئی شخص قصد و ارادہ کے ساتھ کسی کو قتل کر دے۔
اس کی تعریف صاحب ہدایہ نے یہ کی ہے:
فالعمد ما تعمد ضربہ بسلاح او ما اجری مجری السلاح
ہدایہ ج4 ص543
قتل عمد یہ ہے کہ جس نے کسی کو لوہے کے اسلحہ سے یا اس کے مشابہ کسی چیز سے قتل کرنے کی کوشش کی اور قتل کر دیا۔
علامہ کاسانی نے لوہے کے اسلحہ کی مثال میں تلوار، چھری، نیزہ، ستالی وغیرہ اور اسلحہ کے مشابہ یا اسی طرح زخمی کرنے والی چیزوں کی مثال میں آگ، شیشہ، نکل، بانس کی چھال یا تانبہ کی کسی چیز سے قتل کرنے کا ذکر کیا ہے۔ اس زمانے میں بندوق اور بم کا رواج نہیں تھا اس لیے اس کا ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ اس لیے بندوق، رائفل، پستول اور دستی بم وغیرہ بھی لوہے کے اسلحہ یا آگ میں شمار ہوں گے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے قتل عمد میں لوہے کے بننے والے اسلحہ کا اعتبار کیا ہے۔ اور صاحبین اور دوسرے ائمہ نے زخم کا اعتبار کیا ہے یعنی جس چیز یا جس طریقہ سے آدمی کو قصداً قتل کیا جا سکتا ہے اسی کا اعتبار کیا ہے۔ مثلاً کوئی کسی کا گلا گھونٹ دے یا کسی کو دھکا دے کر گرا دے اور اس کی موت ہو جائے یا کوئی اور صورت ہو۔ خلاصہ یہ ہے کہ قاتل اپنے ارادے سے جس طریقہ اور جس چیز سے مقتول پر وار کرے گا وہ قتل عمد میں شمار ہو گا۔
قتل عمد کا حکم
قتل عمد میں قاتل سے قصاص لیا جائے گا جیسا کہ قرآن پاک میں ہے۔
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی
تمہارے اوپر قتل کے جرم میں قصاص فرض کیا گیا ہے، آزاد آزاد کے بدلہ میں قتل کیا جائے گا، غلام غلام کے بدلہ اور عورت عورت کے بدلہ۔
البتہ اگر مقتول کے اولیاء اور ورثاء قصاص معاف کر دیں تو اس سے دیت لی جائے گی بشرطیکہ قاتل بھی دیت دینے پر راضی ہو جائے۔ معاف کرنے اور دیت کے واجب ہونے اور نہ ہونے کی کئی صورتیں ہیں۔
قاتل کی دوسری سزا یہ ہے کہ اگر مقتول اس کا مورث ہے تو وہ اس کی میراث سے محروم رہے گا اور تیسری سزا آخرت کے اعتبار سے ہے یعنی آخرت میں اس کو عذاب ہو گا۔
قارئین کرام! ہم نے فقہ حنفی کے دس حوالہ جات پیش کر دیے جن میں قصاص کا حکم صاف موجود ہے۔ ان دس کے علاوہ اور بے شمار حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں۔ طالب الرحمن صاحب نے جو لکھا ہے کہ حنفی قصاص کو نہیں مانتے وہ بالکل غلط ہے۔ غلط بیانی اور دھوکہ دہی کی جو سزا قرآن و سنت میں موجود ہے اس سے ڈرنا چاہیے۔
یہاں تک یہ بات تو ثابت ہو گئی کہ حنفی قصاص کے قائل ہیں۔ اور جو قصاص کا منکر ہے وہ کافر ہے۔
طالب الرحمن نے فقہ حنفی کے چند ایسے واقعات اور مخصوص مسائل ذکر کیے ہیں۔ جن میں اس جرم پر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی اور فقہ حنفی کے نزدیک قصاص عائد نہیں ہوتا۔ قصاص کے علاوہ دوسری سزائیں نافذ ہوتی ہیں یا دیت کا حکم دیا جاتا ہے۔ یا قاضی جرم کے مطابق تعزیراً اس جرم کی کوئی سزا دیتا ہے۔ ہم طالب الرحمن سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر ان میں ہمت ہے تو وہ ہر مسئلہ میں قصاص (قتل کا بدلہ قتل) کا حکم صرف قرآن سے ثابت کر دیں کیونکہ انہوں نے عنوان قائم کیا ہے فقہ حنفی کے قرآن کے خلاف مسائل اس لیے ہم نے سنت کا ذکر نہیں کیا۔ اگر مولانا ان تمام مسائل میں قصاص کا حکم صرف قرآن سے دکھا دیں تو ہم فقہ حنفی چھوڑ دیں گے اور قرآن پر عمل کریں گے۔ مگر مولانا اصول فقہ کے قانون یاد رکھیں کہ دعویٰ اور دلیل میں مطابقت کا ہونا ضروری ہے اور عام اور خاص میں کیا فرق ہے۔
اب ہم ترتیب وار ان مسائل کا ذکر کرتے ہیں۔
مسئلہ نمبر1
اگر قرآن میں اس جرم کی سزا قصاص ہے تو طالب الرحمن وہ آیت پیش کرے۔ ورنہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی پر اعتراض نہ کرے۔ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک اس جرم پر دیت آتی ہے۔ جس کا ذکر طالب الرحمن نے نہیں کیا۔ اور نہ ہدایہ کا پورا مسئلہ لکھا ہے۔ ہم ہدایہ سے پورا مسئلہ نقل کرتے ہیں:
امام محمد نے فرمایا اگر کسی شخص کسی بچہ یا بالغ کو دریا میں ڈبو دیا تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک قصاص نہیں ہے۔ اور صاحبین (امام ابو یوسف اور امام محمد) نے فرمایا کہ اس سے قصاص لیا جائے گا۔
اس عبارت سے کچھ آگے یہ عبارت تھی:
اور ابو حنیفہ کی دلیل فرمانِ نبی علیہ الصلوۃ والسلام ہے آگاہ ہو جاؤ شبہ عمد کا مقتول کوڑے اور عصا کا مقتول ہے اور اس میں (شبہ عمد میں) اور ہر قتل خطا میں دیت ہے۔
اشرف الہدایہ جلد15، ص38، 39، کتاب الجنایات
طالب الرحمن نے ہدایہ کے ص562 کا عکس دیا ہے اور ص563 کا عکس نہیں دیا جہاں پر امام ابو حنیفہ کی دلیل میں حدیث لکھی تھی۔یہ حدیث ابن حبان میں ہے اور کنز العمال اور جلد نمبر15، ص41 میں بھی ہے۔
شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی حنفی لکھتے ہیں:
قتل شبہ عمد میں قاتل گنہگار ہو گا اور اس پر کفارہ واجب ہے (ایک غلام کو آزاد کر ے یا دو ماہ کے مسلسل روزے رکھے) اور اس کے عصبات پر دیت مغلظہ (سو اونٹ) واجب ہے۔ جس کو وہ تین سال میں ادا کریں گے اور فاعل اگر وارث ہو تو اس میں مقتول کی میراث سے محروم ہو جاتا ہے۔
المبسوط سرخسی ج26 ص66 طبع بیروت
قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا کہ فقہ حنفی میں ایسے جرم کی سزا موجود ہے۔ بلکہ بعض فقہائے احناف نے یہ لکھا ہے کہ اس مسئلہ میں صاحبین کے قول پر فتویٰ ہے۔ اور صاحبین کا قول ہدایہ کے اسی ص562 پر موجود ہے جس کا عکس طالب الرحمن نے دیا ہے۔ مگر ترجمہ نہیں کیا۔
مسئلہ نمبر2
خود طالب الرحمن نے تسلیم کیا ہے کہ اس کے قبیلے والوں پر دیت ہو گی۔ طالب الرحمن کہتا ہے کہ یہ فتاویٰ عالمگیری کا مسئلہ قرآن کے خلاف ہے۔ اس مسئلہ میں قصاص ہونا چاہیےتھا تو ہم طالب الرحمن صاحب سے گزارش کرتے ہیں کہ وہ اس خاص صورت میں قرآن سے قصاص ثابت کرے کیونکہ طالب الرحمن نے عنوان قائم کیا ہے ” فقہ حنفی کے مسائل قرآن کے خلاف“ قرآن کی تو کوئی آیت پیش نہ کر سکا البتہ ایک متعارض حدیث نقل کی اور وہ بھی ابوداود کے مشہور اور مروجہ نسخے سے نہیں بلکہ ایک جدید نسخے سے۔ یہ حدیث مکمل ان الفاظ کے ساتھ عام درسی نسخے میں نہیں ملتی۔ طالب الرحمن کا فرض تھا کہ دونوں قسم کی احادیث نقل کرتا پھر دونوں کا تعارض ختم کرتا۔ پھر ثابت کرتا کہ ایسی صورت میں قصاص کا حکم دیا جائے گا یا دیت کا۔ ہم وہ احادیث نقل کرتے ہیں جن میں قصاص کا ذکر نہیں ہے۔
پہلی حدیث
انس بن مالک سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زہر ملی ہوئی بکری لائی آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کو کھالیا۔ پھر لوگ اس کو پکڑ کر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لائے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس سے پوچھاکہ تو نے زہر کیوں ملایا؟ وہ بولی میں نے آپ کے قتل کے واسطے ملایا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اﷲ کبھی تجھے یہ کام نہ کرنے دے گا یا اﷲ تجھ کو میرے اوپر مسلط نہ کرے گا۔ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے عرض کیا حکم ہو تو ہم اس کو مار ڈالیں؟ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا نہیں۔ انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں پھر اس زہر کا اثر میں ہمیشہ آپ کے مسوڑھوں میں دیکھا کرتا۔
ابوداود باب فیمن سقٰی رجلا
دوسری حدیث
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ ایک یہودی عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس زہر ملی ہوئی بکری بھیجی آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عورت سے کچھ تعرض نہ کیا۔
ابوداود باب فیمن سقٰی رجلا سما او اطعمہ فمات ایقاد منہ
تیسری حدیث
جابر بن عبداﷲ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ خیبر کی ایک یہودی عورت نے بھنی ہوئی بکری میں زہر ملایا اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تحفہ بھیجا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس میں سے دست لے کر کچھ گوشت تناول کیا اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے ساتھ چند صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم نے بھی اس کو کھایا۔ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے فرمایا بس اپنے ہاتھ اٹھا لو۔
آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس عورت کے پاس کسی کو بھیج کر اس کو بلا بھیجا پھر اس سے پوچھا کیا تو نے زہر ملایا تھا اس بکری میں؟ وہ بولی آپ سے کس نے کہا؟ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مجھ سے دست نے کہا جو میرے ہاتھ میں ہے (یعنی خود گوشت نے کہہ دیا کہ مجھ میں زہر ہے)۔
اس عورت نے کہا بے شک میں نے زہر ملایا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا پھر تیرا کیا ارادہ تھا؟ وہ بولی میں نے اپنے جی میں یہ کہا اگر آپ نبی ہیں تو زہر آپ کو نقصان نہ کرے گا اور اگر نبی نہیں ہیں تو ہمیں آپ کی طرف سے آرام ہو گا۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا قصور معاف کر دیااور اس کو کچھ سزا نہ دی۔ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے بعض لوگ جنہوں نے وہ گوشت کھایا تھا انتقال کر گئے۔
اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دونوں مونڈھوں کے بیچ میں پچھنے لگائے اسی زہر کی وجہ سے ابو ہند نے پچھنے دیے گائے کے سینگ اور چھری سے اور وہ مولیٰ (غلام آزاد) تھا بنی بیاضہ کا جو انصار میں سے ایک قبیلہ تھا۔
ابوداود مترجم جلد3 ص414 باب فیمن سقی رجلا سما او اطعمہ فمات ایقاد منہ
قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ طالب الرحمن نے ان احادیث کا ذکر تک نہیں کیا۔ جب ایسی صورت واقعہ ہو تو پھر قصاص کے بجائے دیت ہی نافذ کی جائے گی۔ جو فقہ حنفی میں موجود ہے اور فتاویٰ عالمگیری کا مسئلہ بالکل درست ہے۔
مسئلہ نمبر3
طالب الرحمن نے ترجمہ غلط کیا ہے۔ ہم فتاویٰ عالمگیری کے غیر مقلد مترجم سید امیر علی کا ترجمہ نقل کرتے ہیں:
اگر ایک شخص نے دوسرے کو پکڑ کر بیڑیاں ڈال کے ایک کوٹھری میں قید کیا یہاں تک کہ وہ بھوک سے مر گیا تو امام محمد رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں ایسے شخص کو سزا دے کر درد ناک کروں گا اور میت کی دیت اس کی مددگار برادری پر واجب ہو گی۔
مگر امام اعظم رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ قید کرنے والے پر کچھ نہ ہو گا۔ (کچھ نہ ہو گا کا یہ مطلب نہیں کہ اس پر تعزیر بھی نہیں لگے گی بلکہ مطلب یہ ہے کہ اس پر قصاص نہیں ہے۔) اور اسی پر فتویٰ ہے۔
فتاویٰ عالمگیری مترجم جلد9 ص300
نوٹ: عالمگیری میں تو یہ ہے کہ امام ابوحنیفہ کے قول پر فتویٰ ہے مگر فقہ حنفی کی بعض کتابوں میں ”فتویٰ امام محمد کے قول پر ہے“ نقل کیا گیا ہے یہ تو فقہ حنفی کا مسئلہ ہے۔
طالب الرحمن کے نزدیک ایسی صورت میں اگر قصاص لازمی ہے تو طالب الرحمن قرآن سے قصاص ثابت کر دے ہم مان لیں گے۔
مسئلہ نمبر4
طالب الرحمن نے یہ مسئلہ بھی پورا نہیں لکھا۔ پورا مسئلہ اس طرح ہے:
امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ امام اعظم رحمہ اللہ تعالی فرماتے تھے کہ اگر ایک شخص نے دوسرے کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ایک درندہ کے آگے ڈال دیا اور درندے نے اس کو ہلاک کیا تو ایسا کرنے والے پر قصاص اور دیت کچھ نہ ہو گی۔ لیکن اس کو (تعزیراً) سزا دی جائے گی اور مارا اور قید کیا جائے گا یہاں تک کہ توبہ کرے اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ میں شرح کے موافق یہ سمجھتا ہوں کہ برابر قید رکھا جاوے یہاں تک کہ مر جاوے۔ کذا فی المحیط۔
فتاویٰ عالمگیری اردو جلدنمبر9 ص300
طالب الرحمن کو چاہیے کہ اس مسئلہ میں قرآن سے قصاص ثابت کرے، ہم مان لیں گے۔ احناف پر بلاوجہ اعتراضات کرنا بہت آسان ہے، لیکن دلائل سے کچھ ثابت کرنا بہت مشکل ہے۔
مسئلہ نمبر5
اس مسئلہ میں بھی قابل اعتراض جملہ یہ ہے کہ” کچھ واجب نہ ہو گا“ جس کا ترجمہ طالب الرحمن نے یہ کیا ہے کہ ”اس پر کوئی سزا نہیں“ یہ ترجمہ غلط ہے” کچھ واجب نہ ہو گا“ کا مطلب ہے قصاص یا دیت واجب نہ ہو گی۔یہ مطلب نہیں کہ تعزیری سزا بھی نہیں۔ ایسی حرکت کرنے والے کو قاضی اپنی مرضی سے تعزیراً سزا دے گا۔ طالب الرحمن کے نزدیک چونکہ قصاص واجب ہے لہٰذا خاص ایسی صورت میں قصاص کا واجب ہونا قرآن سے ثابت کرے۔

اعتراض نمبر2: زنا کی سزا کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اسلام اور بدکاری (زنا) کی سزا
اﷲ تعالیٰ زنا کی سزا کے بارے میں یوں ارشاد فرماتا ہے۔
الزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ
النور:2
زانی مرد اور زانیہ عورت دونوں ہی کو سو کوڑے لگاؤ۔ اور یہ سزا غیر شادی شدہ کی ہے اور شادی شدہ کی سزا رجم ہے۔
فقہ حنفی اور بدکاری کی سزا
لیکن حنفی زنا کی یوں چھوٹ دے رہے ہیں۔
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
واذا زانی الصبی او المجنون بامرأۃ طاوعتہ فلا حد علیہ ولا علیھا
ہدایہ اولین ص:498
اگر کوئی عورت جس سے بچہ یا پاگل زنا کرے اور وہ عورت اس پر رضا مند بھی ہو تب بھی اس پر کوئی حد نہیں اور نہ ہی بچے اور پاگل پر حد ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص27
دوسرے اعتراض کا جواب
طالب الرحمن اس عبارت سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فقہ حنفی میں زنا کی سزا ہی نہیں۔ ہم پہلے یہ غلط فہمی دور کرنا چاہتے ہیں کہ فقہ حنفی میں زنا کی سزا ہے یا نہیں۔
1۔ فقہ حنفی کی مشہور کتاب قدوری میں ہے:
جب وہ ان سب باتوں کو بیان کر دے گا تو اس پر حد واجب ہو جائے گی۔ پس اگر زانی محصن ہے تو اسے سنگسار کیا جائے گا یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
اشراق نوری ترجمہ اردو قدوری کتاب الحدود ص298
صاحب قدوری آگے لکھتے ہیں:
اور اگر محصن نہیں ہے اور آزاد ہے تو اس کی حد سو کوڑے ہیں۔
2۔ کنز الدقائق میں ہے:
پس اگر زانی محصن ہے (یعنی اپنی نکاحتہ سے صحبت کر چکا ہے) تو اسے کھلے میدان میں سنگسار کرے یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
احسن المسائل اردو ترجمہ کنز الدقائق کتاب الحدود ص178
صاحب کنز آگے لکھتے ہیں:
اور اگر زانی محصن نہیں ہے تو اس کے سو کوڑے لگائے۔
3۔ شرح وقایہ میں ہے:
ورنہ حد لگایا جاوے پھر اگر وہ زانی محصن ہو یعنی آزاد مکلف مسلمان اور وطی کر چکا ہو نکاح صحیح سے اور مرد و عورت دونوں صفت احصان پر ہوں وقت وطی کے تو اس کو ایک میدان میں سنگسار کرے یہاں تک کہ مر جاوے……
اور اگر زانی محصن نہ ہو تو اس کی حد یہ ہے کہ آزاد ہو تو سو کوڑے اور مملوک ہو تو پچاس۔
نور الہدایہ ترجمہ اردو شرح وقایہ جلد ثانی کتاب الحدود، مطبع مجیدی کانپور
4۔ ہدایہ میں ہے:
اور جب حد واجب ہو گئی اور زانی محصن (شادی شدہ) ہے تو حاکم (یا قاضی) اسے پتھروں سے رجم (سنگسار) کرے حتی کہ موت واقع ہو جائے۔
ہدایہ کتاب الحدود، فصل فی کیفیتہ الحد و اقامتہ
صاحب ہدایہ مزید آگے لکھتے ہیں:
اور اگر وہ (زانی) محصن نہ ہو اور آزاد ہو تو اس کی حد سو/100 کوڑے ہے۔
ہدایہ کتاب الحدود، فصل فی کیفیتہ الحد و اقامتہ
5۔ در مختار میں ہے:
اور زانی محصن کو پتھر مارے جائیں میدان میں، یہاں تک کہ وہ مر جائے۔
در مختار مترجم جلد دوم ص463، مطبوعہ ایچ ایم سعید کراچی
در مختار میں اس سے کچھ آگے لکھا ہے:
اور زانی غیر محصن کو سو کوڑے مارے جائیں اگر وہ آزاد ہو۔
در مختار جلد دوم کتاب الحدود ص465
6۔ الفقہ الحنفی وادلتہ اردو میں ہے:
زانی اگر محصن ہو تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے پتھروں سے رجم کیا جائے حتی کہ وہ مر جائے۔ اس کی دلیل حدیث ماعز اسلمی رضی اللہ تعالی عنہ ہے۔
جلد دوم ص290، 291، ادارہ اسلامیات، انار کلی، لاہور
آگے مزید لکھا ہے:
اگر زانی غیر محصن ہو اس کی سزا سو کوڑے ہیں۔
جلد دوم ص294، ادارہ اسلامیات، انار کلی، لاہور
7۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
جب حد واجب ہو گئی اور مرد زانی محصن ہے تو اس کو پتھروں سے رجم کیا جاوے یہاں تک کہ وہ مر جاوے۔
فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیریہ جلد سوم کتاب الحدود باب دوم ص258
اور غیر محصن کے متعلق لکھا ہے:
اور اگر غیر محصن ہو تو اس کی حد سو کوڑے ہیں۔
فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیریہ جلد سوم کتاب الحدود باب دوم ص260
ہمارے حنفی علماء نے تو مستقل حدود پر اور تعزیر پر خاص کر حد رجم کے متعلق کئی کتابیں لکھی ہیں۔ اور فقہ حنفی کی تقریباً سبھی وہ کتابیں اور فتاویٰ جات جو تمام احکام پر حاوی ہیں ان میں کتاب الحدود موجود ہے۔ طالب الرحمن صرف مولانا محمد متین ہاشمی کی اسلامی حدود، اسلامی حدود اور ان کا فلسفہ، اسلام کا قانون شہادت جلد اول حصہ فوجداری وغیرہ دیکھ لیں۔ خوب تسلی ہو جائے گی۔
ہم نے یہاں پر سات کتابوں کے حوالہ جات نقل کر دیے ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ فقہ حنفی میں زنا کی سزا موجود ہے اوریہ وہی سزا ہے جو قرآن و سنت سے ثابت ہے۔
اب رہا ہدایہ کا مسئلہ جو طالب الرحمن نے نقل کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ نابالغ اور دیوانے پر تو سقوط حد ظاہر ہے کہ دونوں مکلف نہیں۔ رہی بات عورت کی تو اس پر حد اس لیے نہ ہو گی کہ زنا فعل مرد کا ہے۔ عورت فعل کا محل ہے۔ اسی لیے مرد کو واطی زانی کہتے ہیں اور عورت کو موطوہ مزنیہ۔ البتہ مجازاً عورت کو بھی زانیہ کہہ لیتے ہیں۔
زنا اس شخص کے فعل کو کہتے ہیں جو فعل سے بچنے کا مخاطب ہو اور کرنے سے عاصی۔ اور وہ عاقل بالغ ہو گا نہ کہ دیوانہ اور نابالغ۔ کیونکہ یہ دونوں احکام شرعیہ کے مکلف نہیں۔ عورت اگرچہ فعل زنا کا محل ہے لیکن اس کو حد اس وقت ہو گی جب وہ زنا کرنے پر ایسے مرد کو موقعہ دے جو اس سے بچنے کا مخاطب ہو اور کرنے پر آثم۔ صورت مذکورہ میں عورت نے جس لڑکے یا دیوانہ کو زنا کا موقعہ دیا ہے۔ وہ نہ عاقل ہے نہ بالغ۔ اس لیے عورت پر بھی حد نہیں۔
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
ولنا ان فعل الزنا یتحقق منہ وانما ہی محل الفعل و لہذا یسمٰی ہو واطأ وزانیا مجازا و المرأۃ موطؤۃ ومزنیا بھا الا انھا سمیت زانیۃ مجازا تسمیۃ المفعول باسم الفاعل الراضیۃ فی معنی المرضیۃ او لکونھا مسبۃ بالتمکین فیتعلق الحد فی حقہا بالتمکین من قبیح الزنا وہو فعل من ہو مخاطب بالکف عنہ و موثم علی مباشرتہٖ وفعل الصبی لیس بہذہ الصفۃ فلا یناط بہ الحد۔
الھدایۃ، ج2 ص 104
اگر اس مخصوص شکل میں قرآن کریم نے سنگسار یا سو کوڑوں کی سزا مقرر کی ہے تو طالب الرحمن پیش کرے۔

اعتراض نمبر3: چوری کی سزا کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اسلام اور چوری کی سزا
اﷲ تعالیٰ چوری کی سزا کے بارے میں یوں ارشاد فرماتا ہے۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ
چور مرد اور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو یہ سزا ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے ان کے جرم کی۔
فقہ حنفی اور چوری کی سزا
اور احناف چوروں کو چوری کرنے کا طریقہ یوں سمجھاتے ہیں:
1۔ واذا نقب اللص البیت فدخل واخذ المال وناولہ اخر خارج البیت فلا قطع علیھما
ہدایہ اولین ص525
کوئی چور نقب لگا کر گھر میں داخل ہو کر مال چوری کرے گھر سے باہر موجود شخص وہ مال لے لے تو دونوں کے ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے۔
اسی طرح صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
2۔ وکذلک ان حملہ علی حمار فساقہ واخرجہ
ہدایہ اولین ص526
اگر چور مال سمیٹ کر گدھے پر لاد کر ہانک کر لے جائے تو ہاتھ نہیں کٹیں گے۔
صاحب ہدایہ مزید فرماتے ہیں:
3۔ و من نقب البیت وادخل یدہ فیہ واخذ شیئًا لم یقطع
ہدایہ اولین ص526
جو گھر میں نقب لگائے یا باہر سے ہاتھ داخل کر کے کوئی چیز چرا لے تو اس کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص27، 28
تیسرے اعتراض کا جواب
ہم پہلے فقہ حنفی سے چوری کی سزا نقل کرتے ہیں اور پھر ان خاص واقعات کی وضاحت کرتے ہیں۔
فقہ حنفی میں چوری کی سزا
1۔ قدوری میں ہے:
جب کوئی عاقل بالغ کسی محفوظ جگہ سے دس درہم چرائے خواہ وہ سکہ دار ہوں یا بے سکہ ہوں یا دس درہم کی کوئی چیز ہو تو اس پر قطع (یعنی اس کا ہاتھ کاٹنا) واجب ہے۔
اشراق نوری ترجمہ قدوری کتاب السرقہ قطاع الطریق ص320
2۔ کنز الدقائق میں ہے:
شرع میں چوری اسے کہتے ہیں کہ کوئی عاقل بالغ آدمی دس درہم چہرہ شاہی کی مقدار (خواہ درم میں ہوں یا اتنی یا اس سے زیادہ قیمت کا مال ہو) کسی محفوظ جگہ سے یا پہرے میں سے پوشیدہ لے لے پس اگر اس طرح لینے کا وہ خود ایک دفعہ اقرار کر لے یا دو آدمی گواہی دے دیں تو اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔
احسن المسائل اردو ترجمہ کنز الدقائق کتاب السرقہ ص186
3۔ شرح وقایہ میں ہے:
چوری اس کو کہتے ہیں کہ عاقل بالغ شخص کسی کا مال مملوک جو دس درم سکہ دار یا زیادہ قیمت کا ہووے اور محفوظ جگہ میں رکھا ہو پوشیدہ لے لیوے۔ تو اگر مکلف یعنی عاقل بالغ نے اگرچہ غلام ہو، چرایا دس درم یا زیادہ کے مال کو اور وہ مال محفوظ ہو بلاشبہ مکان میں مانند گھر کے یا صندوق کے یا راہ میں کسی محافظ کے جو بیٹھا ہو یا مسجد میں اور مال اس کا اس کے پاس ہو۔ امام اعظم اور امام محمد کے نزدیک اور اس کے لینے کا وہ ایک بار اقرار کرے اور امام ابو یوسف کے نزدیک دو بار اقرار کرے یا دو مرد اس کی چوری پر گواہی دیں اور امام ان سے پوچھ لیوے کہ سرقہ کیسا ہے اور کیا ہے اور کب ہوا اور کس جگہ ہوا اور کتنے مال کا ہوا اور کس کے مال کا ہوا اور وہ گواہ بیان کریں ان سب باتوں کو تو ہاتھ اس کا کاٹا جاوے۔
شرح وقایہ اردو کتاب السرقہ
4۔ ہدایہ میں ہے:
فرمایا (صاحب قدوری نے) کہ اگر عاقل، بالغ نے دس درہم یا سکہ دار چیز جو اس (دس درہم) کی قیمت کو پہنچتی ہو محفوظ مقام (حرز) سے چرائی ہو۔ اس (مسروقہ چیز) میں شبہ نہ ہو تو اس (چور) پر قطع (ہاتھ کاٹنا) واجب ہو گا اور اس میں اصل دلیل اﷲ تعالیٰ کا فرمان ہے وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا اور چور مرد، چور عورت پس ان دونوں کے ہاتھ کاٹ دو الخ۔
اشرف الہدایہ ترجمہ اردو ہدایہ جلد نمبر6، ص754، کتاب السرقہ
5۔ التسہیل الضروری لمسائل القدوری میں ہے:
سوال:
چور کے لیے پاکیزہ شریعت میں کون سی سزا مقرر کی گئی ہے؟
جواب:
جب بالغ عاقل آزاد ہو یا غلام نر ہو یا مادہ، دس درہم یا دس درہم کی قیمت ایسے محفوظ مقام سے چرائے جس میں شبہ نہ ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے۔ وہ (دراہم) ٹھپہ دار ہوں یا غیر ٹھپہ دار۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ فرماتے ہیں
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ
اور چرانے والا مرد اور چرانے والی عورت تو ان کے داہنے ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے عوض میں اﷲ تعالیٰ کی طرف سے سزا کے طور پر۔
الفلاح الضروری اردو ترجمہ التسہیل الضروری ص407، سرقہ کا بیان
6۔ مفتی محمد شفیع صاحب حنفی لکھتے ہیں:
چوتھی آیت میں پھر جرائم کی سزاؤں کی طرف عود کیا گیا اور چوری کی سزائے شرعی کا بیان فرمایا گیا۔ شرعی سزاؤں کی تین قسمیں جو پہلے بیان ہو چکی ہیں چوری کی سزا ان کی قسم حدود میں داخل ہے کیونکہ قرآن کریم نے اس سزا کو خود متعین فرمایا حکام کی صوابدید پر نہیں چھوڑا اور بطور حق اﷲ کے متعین فرمایا ہے۔ اس لیے اس کو حد سرقہ کہا جاتا ہے۔ آیت میں ارشاد ہے
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ
یعنی چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت کا ہاتھ کاٹ دو ان کے کردار کے بدلہ میں، اور اﷲ زبردست حکمت والا ہے۔
دوسری بات اس جگہ قابل غور یہ ہے کہ لفظ سرقہ کا لغوی مفہوم اور شرعی تعریف کیا ہے۔
قاموس میں ہے کہ کوئی شخص کسی دوسرے کا مال کسی محفوظ جگہ سے بغیر اس کی اجازت کے چھپ کر لے لے، اس کو سرقہ کہتے ہیں۔ یہی اس کی شرعی تعریف ہے۔
تفسیر معارف القرآن جلد نمبر3 ص129، 130، سورۃ مائدہ آیت نمبر38
7۔ مولانا مجیب اﷲ ندوی حنفی لکھتے ہیں:
یہ تمام شرائط اگر پائی جاتی ہوں تو چوری کرنے والے کو سارق (چور) اور اس مال کو مسروقہ قرار دے کر قرآن کے حکم کے مطابق قطع ید کا حکم دیا جائے گا۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ
چور مرد اور چور عورت کے (داہنے) ہاتھوں کو کاٹ دو یہ بدلہ ہے اس جرم کا جو انہوں نے نے کیا ہے یہ سزا ہے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے۔
اسلامی فقہ جلد3 ص78، باب حد سرقہ ناشر پروگریسو بکس لاہور
8۔ مفتی معاویہ حنفی لکھتے ہیں:
حد سرقہ، قرآن مجید میں ہے :
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا
خلاصہ مسند امام اعظم ص220، مکتبہ عمر فاروق کراچی
9۔ موطا امام محمد میں ہے:
اسی طرح چور آیا اور اس نے اتنی چوری کی جس کی قیمت ڈھال کے برابر ہو تو اس کا ہاتھ کاٹا جائے گا۔) اس زمانہ میں ڈھال کی قیمت دس درہم ہوتی تھی(۔ اس سے کم قیمت پر ہاتھ کاٹنے کی سزا نہ ہو گی۔ (بلکہ کوئی اورسزا ہو گی۔) یہی امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی اور ہمارے عام فقہاء کا قول ہے۔
موطا امام محمد کتاب الحدود فی السرقہ
10۔ مولانا ڈاکٹر محمد حبیب اﷲ مختار حنفی سابق مہتمم جامعۃ العلوم الاسلامیہ بنوری ٹاؤن کراچی کتاب الآثار امام محمد کی شرح میں لکھتے ہیں:
اگر کوئی عاقل بالغ دس درہم یا اس کی قیمت کے برابر کسی کی چیز محفوظ جگہ سے بلا کسی اشتباہ و شبہ کے اٹھاتا ہے تو اس کی وجہ سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔ چاہے آزاد انسان ہو یا غلام۔ اس لیے کہ ارشاد ربانی ہے۔
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَیْدِیَہُمَا جَزَآئً بِمَا کَسَبَا نَکَالاً مِّنَ اللّٰہِ
اور چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ ڈالو ان کے کرتوتوں کے عوض میں اﷲ کی طرف سے بطور عبرت ناک سزا ہے۔
کتاب الآثار باب حد من قطع الطریق وسرق ص466
قارئین کرام!ہم نے ہم صرف دس فقہائے احناف کے حوالہ جات پیش کیے ہیں۔ اس موضوع پر بے شمار حوالہ جات پیش کیے جا سکتے ہیں اور ہمارے نزدیک جو شخص چوری کی سزا جو قرآن میں موجود ہے نہیں مانتا وہ مسلمان نہیں ہے۔
یہاں تک تو بات تھی کہ فقہ حنفی میں چوری کی سزا موجود ہے اور ہے بھی وہی جو قرآن کریم میں ہے۔ طالب الرحمن نے جو فقہ حنفی کا تعارض قرآن سے ثابت کرنی کی جو ناکام کوشش کی تھی وہ پوری نہ ہو سکی۔ اور طالب الرحمن کی بات سو فیصد جھوٹ ثابت ہوئی۔ کیونکہ وہ کہتے ہیں کہ قرآن میں چوری کی سزا ہے اور فقہ حنفی میں نہیں ہے۔
احناف پر ایک اور الزام
طالب الرحمن نے لکھا ہے:
احناف چوروں کو چوری کرنے کا طریقے سمجھاتے ہیں۔
اس کے جواب میں ہم اتنا ہی کہتے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے :
لَعْنَۃُ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ
کسی حنفی عالم نے یہ بات نہیں کہی۔ اب رہی ان تین مخصوص واقعات کی بات جو طالب الرحمن نے ہدایہ سے نقل کیے ہیں تو ان کی وضاحت کرنے سے پہلے ہم ایک اصولی بات عرض کرتے ہیں۔ تاکہ ان مسائل کو سمجھنے میں آسانی ہو جائے۔
ایک اصولی بات:
جو بھی کسی کا مال ناجائز طریقے سے لے لے شریعت میں ضروری نہیں کہ اس کو سارق (چور) ہی کہا جائے۔ مثال کے طور پر جس آدمی نے امانت میں خیانت کی، اس نے بھی غیر کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کیا ہے مگر اسے نہ سارق (چور) کہا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے۔ جب کہ ایسا کرنا حرام ہے۔
مثال نمبر2:
جو سود سے دوسرے کا مال حاصل کرے اس نے بھی غیر کا مال ناجائز طریقے سے حاصل کیا ہے۔ مگر اس کا ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔ حالانکہ سود قطعی حرام ہے۔ ایسے ہی بہت سے مخصوص واقعات شریعت میں موجود ہیں جن پر ہاتھ نہیں کاٹا جاتا۔ مگر دوسری سزائیں ضرور دی جاتی ہیں۔ ان میں سے چند واقعات ہم یہاں پر نقل کرتے ہیں۔
حدیث نمبر1:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
لیس علی خائن ولا منتہب ولا مجتلس قطع
مشکوٰۃ باب قطع السرقۃ ترمذی کتاب الحدود ص187، ابوداود کتاب السرقۃ ج2 ص247، ابن حبان العلل ج1 ص450، نسائی سرقہ ج2 ص261، ابن ماجہ ج2 ص67
خیانت کرنے والے پر لٹیرا پن سے مال لینے والے پر اور جھپٹا مار کے مال لینے والے پر ہاتھ کاٹنا نہیں ہے۔
حدیث نمبر2:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ درخت پر لگے ہوئے پھل اور پہاڑوں پر چرنے والے جانوروں کی چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ ہاں اگر کوئی شخص کسی پہاڑی جانور کو جانوروں کے باندھنے کی جگہ (طویلہ میں) لا کر باندھ دے یا پھل (میوے) کو (خشک ہونے کے بعد) کھلیان میں جمع کر دے تو اس کی چوری پر ہاتھ کاٹا جائے گا بشرطیکہ اس چیز کی قیمت ڈھال کی قیمت کے برابر ہو۔
مشکوٰۃ باب قطع السرقۃ فصل دوة، موطا امام محمد کتاب الحدود فی السرقۃ
حدیث نمبر3:
حضرت بسر بن ابو ارطاۃ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا تقطع الایدی فی السفر سفر میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں۔
نسائی باب القطع فی السفر
حدیث نمبر4:
جنادہ بن ابی امیہ سے روایت ہے کہ ہم بسر بن ارطاۃ کے ساتھ دریا کے سفر میں تھے ان کے پاس ایک چور آیا جس کا نام مصدر تھا اس نے ایک اونٹ چرایا تھا۔ انہوں نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے سفر میں ہاتھ نہ کاٹے جائیں گے۔ اس وجہ سے میں اس کا ہاتھ نہیں کاٹتا ورنہ ضرور کاٹتا۔
ابوداود باب السارق یسرق فی الغزہ ایقطع
حدیث نمبر5:
بسر بن ارطاۃ کہتے ہیں: میں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے یہ سنا ہے کہ ہاتھ نہ کاٹے جائیں جہاد میں (یعنی چوروں کے)۔
ترمذی باب ما جاء ان لا یقطع الایدی فی الغزو
حدیث نمبر6:
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
لا قطع علی المختفی کہ کفن چور کا ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
نصب الرایہ جلد3 ص367
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعا لی عنہما کا اثر
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
لیس علی النباش قطع
کفن چور پر قطع ید نہیں۔
فتح القدیر شرح ہدایہ جلد نمبر5 ص137
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس جرم پر سزا ہی نہیں مطلب صرف یہ ہے کہ ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔ دوسری سزاؤں میں سے کوئی اور سزا دی جائے گی۔
حدیث نمبر7:
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لی عنہا فرماتی ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں گھٹیا چیز کی چوری کرنے پر ہاتھ نہ کاٹا جاتا تھا۔
مصنف ابن ابی شیبہ
حدیث نمبر8:
عبداﷲ بن یسار فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کے پاس ایک ایسا آدمی لایا گیا جس نے مرغی چرائی تھی۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی نے اس کا ہاتھ کاٹنے کا ارادہ کیا تو سلمہ بن عبدالرحمن نے ان سے فرمایا کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ہے کہ پرندہ چوری کرنے میں قطع ید (ہاتھ کاٹنا) نہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ
حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ قول مصنف عبدالرزاق میں بھی موجود ہے۔
حدیث نمبر9:
ابن ابی شیبہ نے السائب ابن یزید کے اس قول کو نقل کیا ہے کہ میں نے کسی کو نہیں دیکھا ہے کہ پرندوں کے عوض اس کا ہاتھ کاٹا گیا ہو۔
حدیث نمبر10:
امام بیہقی نے ابو الدرداء کے قول کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے کہ کبوتروں کی چوری پر قطع ید نہیں ہے۔
یہ قول نقل کرنے کے بعد امام بیہقی خود فرماتے ہیں کہ ابو الدرداء کا مطلب یہ ہے کہ وہ پرندے اور کبوتر جو محروز نہ ہوں۔
سنن الکبری بیہقی کتاب الحدود، نصب الرایہ کتاب الحدود ج3 ص360
ان آثار سے معلوم ہوا کہ پرندہ چوری کرنے میں چور کا ہاتھ نہ کاٹا جائے گا۔ اور حضرت عثمان کی رائے کا کوئی صحابی مخالف معلوم نہیں ہوتا۔
لیکن یہ یاد رکھیے کہ یہ جرم قابل سزا اور تعزیر ہے لہٰذا حاکم یا قاضی اپنی صوابدید سے اسے تعزیرا کوئی سزا دےسکتا ہے۔
حدیث نمبر11:
ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
پھلوں اور کھجوروں کے خوشوں کے چوری کرنے میں ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔
ابن ماجہ، باب لا یقطع فی ثمر ولا کثر
حدیث نمبر12:
حضرت عبد اللہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا :
ایک غلام جو خمس کے مال میں داخل تھا اس نے خمس کے مال میں سے چوری کی۔ یہ واقعہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کیا گیا۔ آپ نے فرمایا غلام بھی اﷲ کا ہے اور اس نے چوری بھی اﷲ کے مال سے کی ہے۔ حضور اکرم علیہ السلام نے اس کا ہاتھ نہیں کاٹا۔
ابن ماجہ، باب العبد یسرق
حدیث نمبر13:
حسن بصری سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں کھانے کی چوری کرنے پر ہاتھ نہ کاٹوں گا۔
مراسیل ابو داود
حدیث نمبر14:
حسن بصری سے مروی ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک ایسے آدمی کو لایا گیا جس نے کھانا چوری کیا تھا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کا ہاتھ نہ کاٹا۔ مصنف ابن ابی شیبہ اور مصنف عبدالرزاق کی روایت میں یہ الفاظ بھی ہیں کہ سفیان ثوری فرماتے ہیں کہ اس سے وہ کھانا مراد ہے جو اسی دن خراب ہو جائے جیسے ثرید اور گوشت وغیرہ۔
چونکہ گندم کی چوری میں بالاجماع ہاتھ کاٹا جائے گا۔ لہٰذا ان احادیث سے مراد وہ چیز ہے جو جلدی خراب ہو جائے اور یہ تفسیر خود حدیث میں حضرت سفیان ثوری سے بھی مروی ہے۔
حدیث نمبر15:
معروف بن سوید سے مروی ہے کہ افریقہ میں لوگ لوگوں کے غلاموں کو چرایا کرتے تھے تو علی بن رباح نے فرمایا کہ ان پر قطع ید نہیں ہے۔ یہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا زمانہ تھا اور وہ ان پر قطع ید کو روا نہیں رکھتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ یہ خلاب (نرم اور میٹھی میٹھی گفتگو کر کے فریفتہ کرنے والے) ہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ
تشریح:
یعنی بڑے عقل مند غلام کو چرانا شرعاً سرقہ نہیں بلکہ خداع (دھوکہ) اور غصب ہے اور یہ تعلیل خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے۔ لہٰذا جب شرعی سرقہ نہیں پایا گیا تو حد سرقہ بھی لاگو نہیں ہو گی۔
البتہ چھوٹے غلام کو جو اپنا اظہار نہ کر سکتا ہو اور اپنے آپ سے واقف نہ ہو اس کو چرانے میں سرقہ ہو گا۔ کیونکہ اس صورت میں سرقہ شرعی متحقق ہو گا۔ اور اسی صورت پر مصنف ابن ابی شیبہ کی دوسری حدیث محمول ہے جس میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس ایسا چور لایا گیا جس نے غلام چرایا تھا تو آپ نے اس چور کا ہاتھ کاٹا تھا۔
حدیث نمبر16:
قاسم سے مروی ہے کہ ایک شخص نے بیت المال سے چوری کی تو اس بارے میں سعد بن ابی وقاص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو لکھا کہ ایک شخص نے بیت المال سے چوری کی ہے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے (جواب میں) فرمایا کہ اس کا ہاتھ نہ کاٹا جائے کیونکہ ہر شخص کا بیت المال میں حق ہے۔
مصنف ابن ابی شیبہ
حدیث نمبر17:
شعبی سے مروی ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرمایا کرتے تھے کہ بیت المال سے چوری کرنے والے پر قطع ید نہیں۔
تلخیص الحبیر ج2 ص357
حدیث نمبر18:
سائب بن یزید سے مروی ہے کہ عبداﷲ بن عمرو بن الحضرمی اپنے غلام کو حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس لائے اور کہا کہ میرے اس غلام کا ہاتھ کاٹیں کیونکہ اس نے چوری کی ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ان سے فرمایا کہ کیا چیز اس نے چرائی ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میری بیوی کا شیشہ چرایا ہے جس کی قیمت ساٹھ درہم ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا کہ اسے چھوڑ دو اس پر قطع ید نہیں، کیونکہ تمہارے خادم نے تمہارا ہی مال چرایا ہے۔
موطا امام مالک باب ما لا قطع ید، موطا امام محمد کتاب الحدود فی السرقہ
حدیث نمبر19:
جبیر بن نفیر سے مروی ہے کہ ابو الدرداء سے حمام سے چوری کرنے والے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے فرمایا اس پر قطع ید نہیں۔
مصنف ابن ابی شیبہ
حدیث نمبر20:
ابو امامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے مرفوعاً مروی ہے کہ قحط کے زمانے میں چوری کرنے پر قطع ید نہیں ہے۔
تاریخ بغداد بحوالہ جامع صغیر2۔176
حدیث نمبر21:
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ ہاتھ نہ کاٹا جائے گا سوائے ایک دینار کے یا دس درہم کے۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج9 ص474، مصنف عبدالرزاق ج10 ص233
قارئین کرام ہم نے یہاں پر صرف اکیس احادیث و آثار نقل کیے ہیں جن میں بعض خاص صورتوں میں صرف ہاتھ کاٹنے کی سزا نہیں دی گئی۔ لیکن یہ کام یقیناجرم ہیں، ان پر ہاتھ کاٹنے کے علاوہ دوسری سزاؤں میں سے کوئی سزا ضرور دی جائے گی۔ منکرین حدیث ان روایات کے پیش نظر کہتے ہیں کہ یہ احادیث قرآن کے خلاف ہیں۔ ایسے ہی طالب الرحمن نے فقہ حنفی کا ایک مخصوص واقعہ نقل کر کے کہہ دیا کہ فقہ حنفی قرآن کے خلاف ہے۔
آپ نے دیکھ لیا کہ فقہ حنفی میں قرآن کے مطابق چور کی سزا موجود ہے۔ اور بعض مخصوص صورتوں میں احادیث و آثار میں ہاتھ کاٹنے کا حکم موجود نہیں ہے انہی دلائل کی بنا پر فقہ حنفی میں بھی بعض مخصوص صورتوں میں ہاتھ کاٹنے کا حکم نہیں دیا جاتا۔ طالب الرحمن نے جو تین واقعات ہدایہ سے نقل کیے ہیں ان میں کہیں قطع برید کی ہے اور کہیں ترجمہ غلط کیا ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
مسئلہ نمبر1:
مکمل نقل نہیں کیا، مکمل عبارت کا ترجمہ اس طرح ہے:
اور اگر چور نے کسی گھر کی نقب لگائی پھر داخل ہو کر مال اخذ کیا اور گھر سے باہر کھڑے ہونے والے دوسرے (چور) کو دے دیا تو ان دونوں پر قطع ید نہ ہوگا۔
اس عبارت کے آگے یہ عبارت تھی۔
کیونکہ پہلے (مال نکالنے والا) سے اخراج مال نہیں پایا گیا۔ بوجہ اس (مال) کے خروج سے قبل مالک کا قبضہ معتبرہ موجود ہونے کے اور دوسرے (وہ شخص جو باہر تھا) سے انقطاع حرز نہ پائے جانے کے۔ چنانچہ ہر دو میں سے کسی ایک پر سرقہ (چوری) تام نہ ہوا۔
اور امام ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی سے روایت ہے کہ اگر داخل ہونے والے نے اپنا ہاتھ نکال کر باہر والے کو دیا تو داخل ہونے والے پر قطع ید ہو گا۔
ہدایہ کتاب السرقہ، فضل فی الحرز والا خذ منہ
مسئلہ نمبر2:
اس کا ترجمہ غلط کیا ہے۔ صحیح ترجمہ یہ ہے۔ فرمایا (صاحب قدوری نے) کہ اور ایسے ہی اسے (مال کو) گدھے پر لاد کر اسے (گدھے) کو ہانکا اور اس (مال) کو باہر نکال کر لایا تو قطع ید واجب ہے۔ کیونکہ گدھے کا چلنا اسی (چور) کی طرف منسوب ہے۔ یہی سرقہ (چوری) کا سبب ہے۔
اشرف الہدایہ ترجمہ ہدایہ کتاب السرقہ، فصل فی الحرز والاخذمنہ جلد6 ص866
سید امیر علی غیر مقلد صاحب عین الہدایہ نے ترجمہ اس طرح کیا ہے:
اور اسی طرح اگر متاع کو ایک گدھے پر لاد کر اس کو ہانکا اور باہر نکال لایا تو بھی قطع واجب ہے کیونکہ گدھے کی رفتار اسی طرف منسوب ہے کیونکہ یہی اس کو ہانکتا تھا۔
عین الہدایہ جلد دوم ص599 کتاب السرقہ ناشر مکتبہ رحمانیہ لاہور
قارئین کرام آپ نے دیکھا کہ ہدایہ میں لکھا ہے کہ قطع ید واجب ہے اور طالب الرحمن صاحب ترجمہ غلط کر کے لکھتے ہیں کہ ہاتھ نہیں کٹیں گے۔
یہاں پر دو باتیں ہیں یا تو جان بوجھ کر ترجمہ غلط کیا یا ترجمہ کرنا نہیں آیا۔ اگر پہلی بات ہے تو اﷲ تعالیٰ سے اس فعل پر معافی مانگیں۔ اگر دوسری بات ہے تو پھر خیال کریں کہ جس آدمی کو ہدایہ کی عبارت سمجھنے کی صلاحیت نہیں ہے وہ امام ابو حنیفہ پر اعتراض کرتا ہے کہ وہ قرآن کے خلاف کرتے تھے۔
خدا کی قدرت دیکھیے کہ کلچڑی گنجی

حضور بلبل نوا کرے ہے نغمہ سنجی

مسئلہ نمبر3:
یہ مسئلہ بھی پورا نقل نہیں کیا۔ ہدایہ کی مکمل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
اور جس شخص نے گھر میں نقب لگائی اور اس میں اپنا ہاتھ ڈال کر چیز کو اخذ کیا تو قطع ید نہ ہو گا اور املاء (امالی ابو یوسف مراد ہے) میں امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ اس (چور) پر قطع ید ہو گا۔
اشرف الہدایہ جلد6 ص870
سید امیر علی غیر مقلد یوں ترجمہ کرتے ہیں:
جس نے کوٹھری میں نقب لگا کر ہاتھ ڈال کر مال لیا تو قطع ید نہیں ہے اور ابو یوسف سے املاء میں روایت ہے کہ قطع ید کیا جائے گا۔
عین الہدایہ جلد دوم کتاب السرقہ
ہم نے تینوں مسئلوں کی وضاحت کر دی ہے اب طالب الرحمن ان مخصوص صورتوں کا حکم قرآن سے ثابت کر دے کہ ان پر ہاتھ کاٹنا لازم آتا ہے۔

اعتراض نمبر4:شراب نوشی کی سزا کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اﷲ تعالیٰ نے شراب کی حرمت کا یوں اعلان کیا
اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطَانِ … فَہَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَہُوْنَ
المائدہ:90۔91
بے شک شراب، جوا، بت اور پانسے شیطانی اعمال میں سے ہیں اور پلید ہیں پھر فرمایا کیا تم شراب نوشی سے رکتے ہو۔
نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا آخری زمانے میں لوگ شراب پئیں گے مگر نام اور رکھیں گے۔
فقہ حنفی اور شراب نوشی کی سزا
اب احناف شراب نوشی کی یوں اجازت دیتے ہیں:
1۔ ان ما یتخذ من الحنطۃ والشعیر والعسل والذرۃ حلال عند ابی حنیفۃ ولا یحد شاربہ عندہ وان سکر منہ
ہدایہ اخیرین ص493
جو شراب گندم، جو، شہد اور مکئی سے بنائی جائے تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلال ہے اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے پینے والے کو حد نہیں لگائی جائے گی چاہے پینے والے کو نشہ آ جائے۔
2۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
ونبیذ التمر والزبیب اذا طبخ کل واحد منہما ادنی طبخۃ حلال وان اشتد
ہدایہ اخیرین ص493
اسی طرح کھجور اور منقے کی نبیذ کو پکانے کے بعد اگر اس میں نشہ بھی پیدا ہو جائے تو بھی امام ابو حنیفہ اور ابویوسف کے نزدیک وہ حلال ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عرب میں مروجہ شراب کا ذکر کرتے ہوئے خمر کی تعریف یوں بیان کرتے ہیں۔
قَامَ عُمَرُ عَلَی الْمِنْبَرِ فَقَالَ أَمَّا بَعْدُ نَزَلَ تَحْرِیمُ الْخَمْرِ وَہِیَ مِنْ خَمْسَۃٍ الْعِنَبِ وَالتَّمْرِ وَالْعَسَلِ وَالْحِنْطَۃِ وَالشَّعِیرِ وَالْخَمْرُ مَا خَامَرَ الْعَقْلَ
بخاری رقم 5581
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ منبر پر کھڑے ہوئے اور فرمایا شراب کی حرمت نازل ہوئی اور یہ پانچ چیزوں سے بنائی جاتی تھی۔ انگور، کھجور، شہد، گندم اور جو۔ اور شراب وہ ہے جو عقل کو ڈھانپ لے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعا لی عنہا فرماتی ہیں:
أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام سُئِلَ عَنْ الْبِتْعِ فَقَالَ کُلُّ شَرَابٍ أَسْکَرَ فَہُوَ حَرَامٌ
بخاری رقم 5585
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے ”بتع“ کے متعلق پوچھا گیا (جو کہ شہد سے بنائی گئی شراب ہے) تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: ہر وہ مشروب جو نشہ لائے وہ حرام ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص28، 29
چوتھے اعتراض کا جواب
ہم پہلے فقہ حنفی سے شراب کا حکم نقل کرتے ہیں پھر ہدایہ کی عبارات کی وضاحت کریں گے۔
فقہ حنفی میں خمر (شراب) کا حکم
1۔ مولانا خالد سیف اﷲ رحمانی حنفی لکھتے ہیں:
اشربہ شراب کی جمع ہے، شراب ہر بہتی ہوئی چیز کو کہتے ہیں جسے پیا جا سکے، خواہ حلال ہو یا حرام، لیکن شریعت کی اصطلاح میں ان مشروبات کو کہتے ہیں جو نشہ پیدا کرنے والی ہوں۔
والشراب لغۃ کل مائع یشرب واصطلاحا ما یسکر
در مختار ج5 ص288
وہ مشروبات جو شرعاً حرام ہیں چار طرح کے ہیں:
1… خمر:
خمر سے مراد انگور کا کچا رس ہے جس میں جوش پیدا ہو جائے اور جھاگ اٹھنے لگے۔ امام ابویوسف اور امام محمد کے نزدیک تمام حرام مشروبات میں جوش اور شدت کی کیفیت کا پیدا ہونا کافی ہے، جھاگ کا اٹھنا ضروری نہیں۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک جھاگ کا اٹھنا بھی ضروری ہے۔ حرمت شراب کے معاملہ میں بعض فقہاء احناف نے احتیاطاً صاحبین کی رائے پر فتویٰ دیا ہے۔
وقیل یؤخذ فی حرمۃ الشراب بمجرد الاشتداد احتیاطا۔
ہدایہ جلد چہارم ص477
اس کے علاوہ جن مشروبات پر خمر کا اطلاق کر دیا جاتا ہے وہ از راہ مجاز ہے۔
رد المحتار ج5 ص288
خمر کے احکام
خمر سے درج ذیل احکام متعلق ہیں:
1۔ حرام مشروبات میں سے اسی کو ”خمر“ سے موسوم کیا جائے گا پھر چونکہ خمر کی حرمت قرآن مجید میں مصرح ہے اس لیے اگر کوئی شخص اس کی حرمت کا منکر ہو اور اس کو حلال سمجھتا ہو تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا۔
یکفر مستحلھا لا نکارہ الدلیل القطعی
2۔ خمر بذاتہ حرام ہو گا چاہے اس کی وجہ سے نشہ پیدا ہو یا نہ ہو۔ اس لیے اس کی زیادہ اور کم مقدار میں کوئی فرق نہیں ہو گا۔
ان عینھا حرام غیر معلول بالسکر ولا موقوف علیہ۔
3۔ پیشاب کی طرح نجاست غلیظہ ہے۔
انھا نجسۃ نجاسۃ غلیظۃ کالبول۔
4۔ مسلمان کے حق میں یہ بے قیمت ہو جائے گا ا س کی خرید و فروخت جائز نہ ہو گی اگر کوئی شخص اس کو ضائع کر دے یا غصب کر لے تو اس پر تاوان واجب نہ ہو گا۔
حتی لا یضمن متلفھا وغاصبھا ولا یجوز بیعھا۔
5۔ اس سے کسی بھی طرح کا نفع اٹھانا مثلاً جانوروں کو پلانا، زمین کو اس کے ذریعہ تر کرنا جسم کے خارجی استعمال اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک دواء ً علاج وغیرہ جائز نہیں۔
وحرم الانتفاع بھا ولو یسقی دواب او الطین او انظر للتلھی ادنی دواء او دھن او طعام او غیر ذلک
6۔ اس کے پینے پر بہرحال حد جاری ہو گی چاہے نشہ کی کیفیت پیدا ہوئی ہو یا نہیں ہوئی ہو۔
یحد شاربھا وان لم یسکر منہا۔
7۔ خمر بننے کے بعد اگر اس کو پکایا جائے یہاں تک کہ نشہ کی کیفیت ختم ہو جائے تب بھی اس کی حرمت باقی رہے گی۔ البتہ اب جب تک نشہ پیدا نہ ہو جائے اس پر حد جاری نہ ہو گی۔
8۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کا سرکہ بنانا درست ہو گا۔
ہدایہ جلد چہارم ص478، 477، شامی ج5 ص89۔288
2… منصف و باذق:
انگور کے رس کو اس قدر پکایا جائے کہ اس کا نصف حصہ یا نصف سے زیادہ اور دو تہائی سے کم حصہ جل جائے اور نصف یا ایک تہائی سے زیادہ بچ رہے تو یہ بھی امام ابوحنیفہ کے نزدیک شدت پیدا ہو جانے اور جھاگ پھینکنے کی صورت میں اور صاحبین کے نزدیک محض شدت پیدا ہو جانے کی وجہ سے حرام ہو جائے گی۔ اگر پکانے کے بعد نصف مقدار باقی رہ جائے تو ”منصف“ اور تہائی سے زیادہ تو ”باذق“ کہلاتا ہے۔ امام اوزاعی کے نزدیک یہ دونوں مشروب حلال ہیں۔
3… سکر:
کھجور سے حاصل کیا جانے والا کچا مشروب ”سکر“ اور نقیع التمر“ کہلاتا ہے یہ بھی حرام ہے۔
فھو حرام مکروہ…
شریک بن عبداﷲ کے نزدیک یہ حلال ہے۔
4… نقیع زبیب:
کشمش سے حاصل کیا جانے والا کچا مشروب جس میں شدت اور جھاگ پیدا ہو جائے امام اوزاعی اس کو حلال قرار دیتے ہیں۔
حکم:
ان تینوں مشروبات اور خمر کے احکام میں فقہاء نے فرق کیا ہے۔ اس لیے کہ احناف کے نزدیک ان کی حرمت خمر سے کم تر ہے جن احکام میں فرق کیا گیا ہے وہ حسب ذیل ہیں۔
۱۔ ان مشروبات کی حرمت سے انکار کی وجہ سے تکفیر نہیں کی جائے گی۔ اس لیے کہ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا ان کی حرمت پر اتفاق نہیں ہے اس طرح ان کی حرمت قطعی باقی نہیں رہی بلکہ اس کی حیثیت ایک اجتہادی مسئلہ کی ہے۔
لان حرمتھا اجتہادیۃ وحرمۃ الخمر قطعیۃ
۲۔ ان مشروبات کے نجس ہونے پر فقہاء احناف متفق ہیں۔ تاہم بعض حضرات کے نزدیک یہ بھی نجاست غلیظہ ہیں اور بعض کے نزدیک نجاست خفیفہ، سرخسی اور صاحب نہر نے ان کے نجاست خفیفہ ہونے کو ترجیح دی ہے۔
۳۔ امام ابو حنیفہ اور قاضی ابو یوسف کے نزدیک یہ اس مقدار میں حرام ہوں گے جس سے نشہ پیدا ہو جائے چنانچہ اگر اتنی مقدار میں پی گئی کہ نشہ نہ پیدا ہونے پائے تو شراب کی سزا (حد) جاری نہیں ہو گی۔
لا یجب الحد بشربھا حتی یسکر و یجب یشرب قطرۃ من الخمر
۴۔ امام ابوحنیفہ کے نزدیک یہ مشروبات ذی قیمت (متقوم) ہوں گے چنانچہ ان کو فروخت کرنا امام صاحب کے نزدیک درست ہو گا اور اس کو ضائع کرنے والے کو تاوان ادا کرنا ہو گا البتہ یہ تاوان خود ان مشروبات کی شکل میں ادا نہیں کیا جا سکے گا، بلکہ قیمت ادا کرنی ہو گی۔ قاضی ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک یہ مشروبات بھی بے قیمت ہیں۔
۵۔ ان سے کسی طرح کا نفع اٹھانا جائز نہ ہو گا۔
الہدایہ چہارم ص78، 477، شامی ج5 ص89، 288
حلال مشروبات
اسی طرح جو مشروبات حلال ہیں وہ چار ہیں۔ چاہے ان میں شدت پیدا ہو جائے۔
۱۔ کھجور اور کشمش کی نبیذ جس کو تھوڑا سا پکا دیا جائے۔
ان طبخ ادنی طبخۃ
۲۔ کھجور اور کشمش کی مخلوط نبیذ جس کو تھوڑا پکا دیا جائے۔
۳۔ شہد، گیہوں وغیرہ کی نبیذ چاہے پکائی گئی ہو یا نہیں۔
۴۔ ”مثلث غبی“…… یعنی انگور کے رس کو اس قدر پکایا جائے کہ دو تہائی جل جائے اور ایک تہائی باقی رہ جائے۔
لیکن اس کے حلال ہونے کے لیے چند شرطیں ہیں:
اول یہ کہ ان مشروبات کے پینے کا مقصود لہو و لعب کا نہ ہو بلکہ قوت حاصل کرنا مقصود ہو، تاکہ نماز، روزہ، جہاد میں سہولت ہو، یا کسی بیماری میں اس سے فائدہ پہنچنے کا امکان ہو۔
التقوٰی فی اللیالی علی القیام فی الایام علی الصیام والقتال لاعداء الاسلام او التداوی لدفع الالام۔
اگر لہو و لعب مقصود ہو تو بالاتفاق حرام ہے۔
دوم یہ کہ اتنی مقدار نہ ہو کہ اس سے نشہ پیدا ہو۔ مالم یسکر… اگر غالب گمان ہو کہ اس کے پینے سے نشہ آجائے گا تو پھر اس کا پینا درست نہیں۔
لیکن امام محمد کو اس مسئلہ میں شیخین سے اختلاف ہے ان کے نزدیک ان مشروبات میں اگر شدت کی کیفیت پیدا ہو جائے تو یہ بھی حرام ہو جاتے ہیں چاہے مقدار کم ہو یا زیادہ، بہرحال وہ حرام ہوں گی۔ ان کے پینے پر شراب کی سزا نافذ کی جائے گی۔ اگر پی کر کوئی بحالت نشہ طلاق دے دے تو طلاق واقع ہو جائے گی نیز وہ نجس شمار ہو گا یہی رائے ائمہ ثلاثہ کی ہے اور اسی پر متاخرین احناف نے فتویٰ دیا ہے۔
دیکھیے رد المحتار ج5 ص292، 293، ماخوذ قاموس الفقہ ص339 تا 343
ہم نے یہاں تک حنفی مذہب کی وضاحت کر دی ہے جس سے معلوم ہوجاتا ہے کہ حنفی مذہب میں شراب حرام ہے۔ اب ہدایہ کی عبارات کی وضاحت کی جاتی ہے۔
ہدایہ کی پہلی عبارت کی وضاحت
علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی صاحب ہدایہ کو اس مقام پر امام محمد کی جامع صغیر کی عبارت سے وہم ہو گیا ہے۔ طالب الرحمن نے ہدایہ کی پوری عبارت نقل نہیں کی اگر پوری عبارت نقل کرتے تو معلوم ہو جاتا کہ اصل بات جامع صغیر کی ہے۔ ہدایہ کے بعد اکثر مصنفین نے صاحب ہدایہ پر اعتماد کرتے ہوئے اپنی اپنی تصانیف میں یہ مسئلہ بیان کر دیا ہے۔ ہدایہ کی پوری عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی لکھتے ہیں:
وقال فی الجامع الصغیر ما سوی ذلک من الاشربۃ فلا بأس بہ قالوا ہذا الجواب علی ہذا العموم والبیان لا یوجد فی غیرہ وہو نص علی ان ما یتخذ من الحنطۃ والشعیر والعسل والذرۃ حلال عند ابی حنیفۃ ولا یحد شاربہ عندہ وان سکر منہ ولا یقطع طلاق السکران منہ بمنزلۃ النائم
ہدایہ اولین ص495، 496، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ
امام محمد نے جامع الصغیر میں کہا ہے کہ ان چار شرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور مشروبات کے پینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (اس قول کی تفصیل کرتے ہوئے) فقہاء نے کہا جس طرح اس کتاب میں عموم ہے وہ (امام محمد کی) اور کسی کتاب میں نہیں ہے اور عبارت میں اس کی تصریح ہے کہ جو شراب گندم، جو، شہد اور جوار سے بنائی جائے وہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک حلال ہے اور اس کے پینے والے پر حد جاری نہیں ہو گی خواہ اس کو نشہ ہو جائے اور اس نشہ میں اس کی طلاق بھی واقع نہیں ہو گی جیسا کہ سونے والے کی طلاق واقع نہیں ہوتی۔
ہماری تحقیق یہ ہے کہ امام محمد نے جامع الصغیر میں جو یہ لکھا: ”وما سوی ذلک من الاشربۃ فلا بأس بہ“ ان چار شرابوں کے ما سوا اس قسم کا عموم مراد نہیں ہے جو اس عبارت کی تخریج کرنے والوں نے سمجھا ہے کہ جو شراب بھی نشہ آور ہو وہ حلال ہے۔ بلکہ ماسوا سے مراد وہ مشروبات ہیں جو نشہ آور نہ ہوں کیونکہ امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک نبیذ اور ہر نشہ آور مشروب حرام ہے، اس کے پینے سے حد لازم آتی ہے اگر وہ نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے طلاق ہو جاتی ہے۔ خود امام محمد نے یہ لکھا ہے کہ امام اعظم کا یہی قول ہے جیسا کہ ہم ان شاء اﷲ عنقریب کتاب الآثار کے حوالے سے نقل کریں گے۔ اس لیے جامع الصغیر کی اس عبارت میں ایسا عموم مراد نہیں ہے جو اس عبارت کی تخریج اور تفصیل کرنے والوں نے بیان کیا ہے اور امام ابوحنیفہ اس بات سے بری ہیں کہ وہ ان چار شرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور شرابوں کو حلال قرار دیں اس پر حد لازم نہ کریں اور اس کی طلاق واقع نہ کریں۔ اب ہم ٹھوس حوالہ جات کے ساتھ اس سلسلہ میں امام اعظم ابو حنیفہ کا موقف بیان کرتے ہیں۔
1۔ علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں:
فالنبیذ ہو ماء التمر اذا طبخ ادنی طبخۃ یحل شربہ فی قولہم مادام حلوا واذا غلا واشتد وقذف بالزبد، عن ابی حنیفۃ وابی یوسف یحل شربہ للتداوی والتقوی الا المحدی المسکر
بنایہ شرح ہدایہ جلد2 ص704، 705، مطبوعہ ملک سنز، فیصل آباد
کھجور کے پانی کو معمولی جوش دیا جائے تو یہ نبیذ ہے فقہاء احناف کے قول کے مطابق اس کا پینا جائز ہے بشرطیکہ یہ میٹھا ہو جائے اور جب یہ گاڑھا ہو جائے اور جھاگ چھوڑ دے۔ تو امام ابوحنیفہ اور امام ابو یوسف سے روایت ہے کہ دوا اور طاقت حاصل کرنے کے لیے اس کا پینا جائز ہے البتہ اگر یہ نشہ آور ہو تو اس کا پینا جائز نہیں ہے۔
نبیذ ان چار شرابوں کے علاوہ ہے اور اس عبارت میں تصریح ہے کہ جب وہ نشہ آور ہو تو امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کا پینا جائز نہیں ہے۔
2۔ علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
و روایۃ عبدالعزیز عن ابی حنیفۃ وسفیان انہما سئلا فیمن شرب البنج فارتفع الی راسہ وطلق امراتہ ہل یقع؟ قالا ان کان یعلمہ حین شربہ ما ہو یقع
فتح القدیر شرح ہدایہ ج5 ص82
عبدالعزیز نے بیان کیا ہے کہ امام ابوحنیفہ اور سفیان سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی شخص بھنگ کے نشہ میں اپنی بیوی کو طلاق دے تو کیا اس کی طلاق واقع ہو جائے گی؟ امام ابو حنیفہ اور سفیان نے کہا اگر بھنگ پیتے وقت اس کو بھنگ کا علم تھا تو اس کی طلاق ہو جائے گی۔
بھنگ بھی ان چار شرابوں کے علاوہ ہے اور اس عبارت میں تصریح ہے کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک بھنگ کے نشہ سے طلاق ہو جاتی ہے۔
3۔ امام محمد بن حسن شیبانی لکھتے ہیں:
نری الحد علی السکران من نبیذ کان او غیرہ ثمانین جلدۃ بالسوط الی قولہ وہو قول ابی حنیفۃ رحمہ اﷲ تعالٰی
کتاب الآثار ص137، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی
جس شخص کو نبیذ یا کسی اور مشروب سے نشہ ہو جائے تو ہماری رائے میں اس کو اسی کوڑے حد لگائی جائے گی۔ اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے۔
اس عبارت میں امام محمد نے صاف تصریح کی ہے کہ جس مشروب سے بھی نشہ ہو امام ابو حنیفہ کے نزدیک نشہ والے شخص پر اسی (80) کوڑے حد لگائی جائے گی۔
4۔ شمس الائمہ سرخسی حنفی لکھتے ہیں:
ان السکر من النبیذ موجب للحد کشرب الخمر
المبسوط سرخسی جلد24، ص29، مطبوعہ دار المعرفۃ بیروت
نبیذ سے نشہ ہو تو اس سے حد لگانا اس طرح واجب ہے جس طرح خمر پینے سے حد لگانا واجب ہے۔
5۔ علامہ ابو الحسن مرغینانی حنفی لکھتے ہیں:
ومن سکر من النبیذ حد
ہدایہ اولین ص506، مطبوعہ مکتبہ امدادیہ
جس شخص کو نبیذ سے نشہ ہو گیا اس کو حد لگائی جائے گی۔
6۔ علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں:
ای شراب کان غیر الخمر اذا شربہ لا یحد الا اذا سکر بہ
رد المحتار ج3 ص225 مطبوعہ عثمانیہ استنبول
خمر کے علاوہ کسی شراب کو بھی پیا جائے اس سے حد لازم نہیں ہو گی البتہ اگر اس سے نشہ ہو جائے تو حد لازم ہو گی۔
7۔ علامہ علاؤ الدین حصکفی لکھتے ہیں:
او سکر من نبیذ حد
در المختار ج3 ص225
نبیذ سے نشہ ہو جائے تو حد لگائی جائے گی۔
8۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے۔
من سکر من النبیذ حد
جس شخص کو نبیذ سے نشہ ہو جائے اس کو حد لگائی جائے گی۔
مبسوط سرخسی، ہدایہ، در مختار، رد المحتار اور عالمگیری سے ہم نے اس پر حوالہ جات پیش کیے ہیں کہ نبیذ یا خمر کے علاوہ کسی اور مشروب سے نشہ ہو جائے تو اس پر حد ہے۔ ان تمام حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ امام اعظم ابو حنیفہ کے نزدیک ہر وہ مشروب حرام ہے جس سے نشہ ہو اور اس کے پینے پر حد لازم ہو۔ اور اگر اس کے نشہ میں بیوی کو طلاق دے دی تو وہ طلاق واقع ہو جائے گی۔
امام ابو حنیفہ کے مذہب اور ان کے اقوال کو بیان کرنے والے امام محمد بن حسن شیبانی ہیں اور انہوں نے کہیں یہ نہیں لکھا کہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ان چار شرابوں کے علاوہ باقی نشہ آور شرابیں حلال ہیں اور ان کے پینے پر حد نہیں ہے۔ بلکہ اس کے برعکس کتاب الآثار میں یہ لکھا ہے کہ جس شخص کو نبیذ یا کسی اور چیز سے نشہ ہو جائے اس پر حد ہے اور یہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا قول ہے، اور جامع الصغیر کی عبارت کی جو اس کے خلاف تخریج اور تفصیل کی گئی ہے وہ صحیح نہیں ہے اور اس کی تخریج کی بنیاد پر ہدایہ، تبیین الحقائق یا بعض دوسری کتابوں میں جو صرف چار شرابوں کو حرام کہا گیا ہے اور باقی نشہ آور شرابوں کو حلال کہا گیا ہے یا ان پر حد لاز نہیں کی وہ سب صحیح نہیں ہے۔
8۔ مفسر قرآن حضرت مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں:
احناف نے خمر کے موضوع پر طویل طویل بحثیں کی ہیں لیکن ہمیں امام محمد کا یہ فیصلہ پسند ہے۔
ما اسکر کثیرہ فقلیلہ حرام
ہر وہ شراب جس کا کثیر مسکر ہو اس کا تھوڑا بھی حرام ہے۔ انگور، گیہوں، کھجور، انجیر، شہد سے تیار شدہ مشروب امام محمد کے نزدیک قطعاً حرام ہیں۔ صاحب در مختار کا یہ کہنا بہ یفتی کہ قانون حنفی میں اسی پر فتویٰ ہے اور صرف یہی نہیں کہ شراب جیسے قرآن نے خمر کہا ہے وہ حرام ہے بلکہ احناف نے اس معاملہ میں کچھ دوسروں سے زیادہ تشدد آمیز پالیسی اختیار کی ہے وہ اسے صرف حرام نہیں کہتے بلکہ ناپاک اور نجس العین بھی بتاتے ہیں اسے حلال بتانے والے کو دائرہ اسلام میں داخل نہیں سمجھتے۔ مسلمان کے حق میں اسے مالیت والی چیز نہیں مانتے۔ ہر طرح سے اس سے انتفاع پر قدغن قائم کرتے ہیں۔ دواء میں بھی اس کے استعمال کو ناجائز کہتے ہیں۔ یاد رہے فقہ حنفی میں قانون وہ ہے جس پر ان کے ہاں فتویٰ ہو۔ اقوال منتشرہ کا نام مذہب حنفی نہیں ہے بلکہ لکھنے والوں نے لکھا ہے کہ شراب پینے والے کا پسینہ بھی ناپاک ہوتا ہے اور پسینہ آنے سے اس کا وضو ٹوٹ جاتا ہے۔
بہرحال ہمیں احناف کی تفصیلی قانونی بحثوں سے ایک طرف ہو کر شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب کا یہ فیصلہ ہی مناسب معلوم ہوتا ہے کہ
نشہ آور ساری شرابیں ائمہ ثلاثہ اور امام محمد کے نزدیک حرام ہیں وہ سب کو خمر ہی قرار دیتے ہیں اور بغیر کسی تفصیل کے سب کو حرام قرار دیتے ہیں اور ائمہ ثلاثہ امام مالک، امام شافعی، اور امام احمد نے شراب کی ساری قسموں کو حرام قرار دیا ہے اور بلاشبہ اس دور کے مطابق اس رائے کو اپنانا ہی احتیاط کا تقاضا ہے۔
اوجز المسالک شرح موطا امام مالک
فقہ حنفی میں خمر (شراب) کا ایک قطرہ بھی حرام ہے۔
الف۔ علامہ ابن ہمام حنفی لکھتے ہیں:
خمر کے علاوہ باقی نبیذوں میں نشہ کی وجہ سے حد لازم ہوتی ہے اور خمر کا ایک قطرہ پینے سے بھی حد لازم آتی ہے خواہ نشہ ہو یا نہ ہو۔
فتح القدیر شرح ہدایہ ج5 ص79، 80
ب۔ امام محمد لکھتے ہیں:
محمد عن یعقوب عن ابی حنیفۃ رضی اﷲ عنہم قال الخمر قلیلھا وکثیرھا حرام
کتاب الآثار ص154
امام محمد، امام ابو یوسف سے روایت کرتے ہیں کہ امام ابوحنیفہ نے فرمایا خمر (شراب) مطلقاً حرام ہے خواہ قلیل ہو یا کثیر۔
فقہ حنفی میں شراب (خمر) نوشی کی سزا
1۔ علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں:
ای شراب کان غیر الخمر اذا شربہ لا یحد الا اذا سکر بہ
خمر کے علاوہ کسی شراب کو بھی پیا جائے اس سے حد لازم نہیں ہو گی البتہ اگر اس سے نشہ ہو جائے تو حد لازم ہو جائے گی۔
رد المحتار ج3 ص225، مطبوعہ عثمانیہ استنبول
2۔ قدوری مترجم ص318 مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی میں ہے:
شراب اور نشہ کی حد آزاد کے لیے اسی کوڑے ہیں۔
3۔ احسن المسائل ترجمہ کنز الدقائق مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ص182 میں ہے:
اور نشہ کی سزا (خواہ کوئی شراب پینے سے نشہ ہوا ہو) اور انگوری شراب پینے کی حد اگرچہ ایک ہی قطرہ پیا ہو (ہمارے نزدیک) اسی کوڑے ہیں۔
4۔ اشرف الوقایہ ترجمہ شرح وقایہ ص 331 جلد دوم مطبوعہ میر محمد کراچی میں ہے:
شراب کی حد حد قذف کی طرح ہے یعنی آزاد شخص کے واسطے اسی کوڑے اور غلام کے لیے نصف۔
5۔ ہدایہ میں ہے:
اور آزاد کے حق میں شراب نوشی کی سزا اسی کوڑے ہیں اور اس کی تعیین صحابہ کرام کے اجماع سے ثابت ہوئی ہے۔
6۔ فتاویٰ ہندیہ ترجمہ فتاویٰ عالمگیری جلد3 ص285 مترجم سید امیر علی غیر مقلد مطبوعہ حامد اینڈ کمپنی لاہور میں ہے:
سکر و خمر کی حد اگرچہ ایک ہی قطرہ پیا ہو اسی کوڑے ہیں یہ کنز میں۔
قارئین کرام!اب دوسری عبارت کی وضاحت الگ سے کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس کا جواب بھی اس میں آ گیا ہے۔ہم نے اکثر عبارات اردو کی شروحات سے نقل کی ہیں تاکہ طالب الرحمن صاحب کے لیے آسانی ہو۔
اعتراض نمبر5: مشرکین کے حرم میں داخلہ کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں: اﷲ تعالیٰ مشرکوں کے نجس ہونے اور مسجد حرام میں ان کے داخلے کو یوں منع فرماتا ہے۔
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ تَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ھٰذَا
النور:28
اے مومنو! بے شک مشرک نجس ہیں اس سال کے بعد وہ مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں۔
فقہ حنفی میں مشرکین کا حرم میں داخلہ
اور احناف ذمیوں (کافروں) کو مسجد حرام میں داخلے کی یوں اجازت دیتے ہیں:
ولا بأس بان یدخل اھل الذمۃ المسجد الحرام
ہدایہ اخرین ص472
ذمی کافر مسجد حرام میں داخل ہوں تو کوئی حرج نہیں۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص29، 30
پانچویں اعتراض کا جواب
بقول طالب الرحمن کے سورۃ النور میں ہے کہ مشرک حرم پاک کے قریب نہ پھٹکیں اور ہدایہ میں ہے کہ اہل ذمہ کے داخلہ میں کوئی مضائقہ نہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ طالب الرحمن کو نہ قرآن آتا ہے اور نہ ہی فقہ آتی ہے۔ طالب الرحمن نے جو آیت نقل کی ہے وہ سورہ توبہ کی ہے مگر طالب الرحمن نے سورۃ النور کے حوالہ سے اس کو لکھا ہے۔ قرآن پاک میں دو آیات ہیں۔
پہلی آیت:
اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَہُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْہَا اِلاَّ خَآئِفِیْنَ لہُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَلَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
البقرۃ: 114
ان کے لیے روا نہیں کہ ان مساجد میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے، ان کے لیے دنیا میں رسوائی (جزیہ دینے کی) اور آخرت میں عذاب ہے بڑا۔
علامہ آلوسی روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ امام صاحب نے اسی آیت سے ثابت کیا ہے کہ اہل ذمہ کا مساجد میں داخل ہونے میں کوئی مضائقہ نہیں جب کہ وہ مغلوب و مقہور ہوں۔
دوسری آیت:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے 9 ہجری میں حضرت ابو بکر اور حضرت علی رضی اللہ تعا لی عنہما سے اعلان کروایا جو خدا کی طرف سے تھا۔
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّمَا الْمُشْرِکُوْنَ نَجَسٌ فَلاَ یَقْرَبُوا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ بَعْدَ عَامِہِمْ ہٰذَا وَاِنْ خِفْتُمْ عَیْلَۃً فَسَوْفَ یُغْنِیْکُمُ اللّٰہُ
التوبہ:28
اے ایمان والو! مشرک (اعتقاداً) نرے مشرک ہیں (اور چونکہ اعتقادی ناپاکوں کی کوئی عبادت قبول نہیں اس لیے وہ حج کے لیے) مسجد حرام کے قریب بھی نہ پھٹکیں اس سال کے بعد (سال کا لفظ اس لیے فرمایا کہ حج کے لیے آنا سال کے بعد ہی ہوتا ہے) اور اگر تمہیں اے مسلمانو! مفلسی کا اندیشہ ہو (کیونکہ حج کے موقع پر کافر تاجر بھی سامان لاتے اور اسی تجارت سے روزی کا سامان بنتا ہے، تو اس کی پرواہ نہ کرو کہ اگر وہ حج کے لیے نہ آئیں گے تو تجارت ختم ہو جائے گی جو اقتصادیات کی جان ہے) تو اﷲ تعالیٰ تمہیں غنی فرما دیں گے۔ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یہ آیت سنائی تو حج کے اتنے بڑے مجمع میں یہی اعلان فرمایا:
الا لا یحج بعد عامنا ہذا مشرک
روح المعانی ج10 ص77
کہ اس سال کے بعد کوئی مشرک حج کے لیے نہ آئے۔
معلوم ہوا کہ اس آیت کا مقصد حج وعمرہ سے مشرکین کو روکنا ہے۔ آیت کا یہی مطلب صراحۃً ہدایہ میں مذکور ہے۔
صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
والایۃ محمولۃ علی الحضور استیلاء واستعلاء او طائفتین عراۃ کما کانت عادتہم فی الجاہلیۃ
ہدایہ ج4 ص472
یعنی اس آیت سورۃ التوبہ کا مطلب یہ ہے کہ وہ غلبہ و بلندی کے ساتھ اتراتے ہوئے حرم میں داخل نہ ہوں یا حج کے لیے ننگے طواف کرنے کے لیے داخل نہ ہوں۔ جیسا کہ جاہلیت میں ان کی عادت تھی۔
دیکھیے احناف نے اس آیت کا انکار نہیں کیا بلکہ اس کاوہی مطلب بیان کیا جو آیت کے سیاق و سباق سے ظاہر ہے اور جس کا اعلان حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ نے نزول آیت کے وقت مجمع حج میں فرمایا تھا۔
رسول اقدس علیہ الصلوۃ والسلام کا طرز عمل
حدیث نمبر1:
اس آیت سورہ توبہ کے نازل ہونے کے بعد وفد ثقیف حاضر ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مسجد میں ٹھہرایا۔
ابو داود، کتاب الخراج، باب خبر الطائف ج2 ص72
حدیث نمبر2:
طبرانی میں ہے کہ ”فضرب لہم قبۃ فی المسجد“ ان کے لیے مسجد میں قبہ نما خیمہ لگایا گیا۔
نصب الرایہ ج4 ص270
حدیث نمبر3:
اور مراسیل ابی داود میں امام حسن بصری رحمہ اللہ تعالی سے روایت ہے کہ جب اس وفد کو حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے مسجد میں ٹھہرایا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا گیا کہ آپ ان کو مسجد میں اتار رہے ہیں حالانکہ وہ مشرک ہیں تو آپ نے فرمایا زمین نجس نہیں ہوتی ہے بے شک ابن آدم نجس ہوتا ہے۔
نصب الرایہ ج4 ص270
اس حدیث سے بھی پتہ چلا کہ شرک کی نجاست دخول مسجد سے مانع نہیں ہے۔
آیت کی تفسیر نبی اقدس علیہ الصلوۃ والسلام سے
حضرت جابر بن عبداﷲ فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے قریب نہ جائے ہاں مگر کوئی غلام یا لونڈی جو کسی حاجت کے لیے جائیں۔
احکام القرآن ج3 ص89
صحابی سے تفسیر:
حضرت جابر عبداﷲ صحابی فرماتے ہیں:
بے شک مشرک نجس ہیں وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب نہ جائیں مگر کوئی غلام یا اہل ذمہ میں سے۔
تفسیر ابن جریر ج10 ص76
تابعی سے تفسیر:
حضرت قتادہ تابعی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
اس سال کے بعد کوئی مشرک مسجد حرام کے پاس نہ جائے مگر کوئی مشرک جو مسلمان کا غلام ہو یا جزیہ دینے والا ذمی ہو۔
تفسیر ابن جریر ج10 ص76
دورِ فاروقی میں نصرانی کا حرم میں داخلہ
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ خلافت میں ایک عیسائی بغرض تجارت آیا تو اس سے عشر لیا گیا وہ دوبارہ آیا تو پھر اس سے عشر کا مطالبہ کیا گیا اس نے عشر دینے سے انکار کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس گیا جو اس وقت مکہ مکرمہ حرم پاک میں تھے اور خطبہ میں فرما رہے تھے ان اﷲ جعل البیت مثابۃ للناس اس عیسائی نے کہا: امیر المومنین! زیادہ بن حدیر مجھ سے بار بار عشر مانگتے ہیں۔ حضرت عمر نے فرمایا کہ عشر سال میں تیرے مال پر صرف ایک دفعہ ہے۔
کتاب الخراج امام ابویوسف ص162
اب اگر امام صاحب نے فرما دیا کہ
لا بأس بان یدخل اہل الذمۃ المسجد الحرام
ہدایہ ج4 ص472
تو یہ قرآن کی آیت ”یدخلوھا الا خائفین“ کے موافق ہے۔ اﷲ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے فعل کے موافق ہے، اﷲ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کے مطابق ہے اور یہ داخلہ آیت توبہ کے خلاف نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانہ میں مجمع عام میں نصرانی حرم پاک میں داخل ہوا کسی ایک شخص نے بھی اٹھ کر آیت ”انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام“ پڑھ کر نہ سنائی۔ معلوم ہو گیا کہ ان سب صحابہ و تابعین کے نزدیک بھی کسی ذمی کا وقتی طور پر مسجد حرام میں داخلہ کسی آیت یا حدیث کے خلاف نہ تھا۔
جو مسئلہ ان صحابہ و تابعین کو سمجھ نہ آیا معلوم نہیں طالب الرحمن صاحب نے کس استاد سے سیکھ لیا؟
اعتراض نمبر6: قصاص صرف تلوار سے لینے کا مسئلہ
اسلام اور زیادتی کی سزا
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اﷲ تعالیٰ، جس شخص پر زیادتی کی گئی اسے اتنی ہی زیادتی کرنے کا اختیار دیتے ہوئے فرماتا ہے:
فَمَنِ اعْتَدَی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُواْ عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَی عَلَیْکُمْ
البقرہ:194
جو تم پر زیادتی کرے تو اس کے مثل تم بھی اس پر اتنی ہی زیادتی کرو۔
فقہ حنفی اور زیادتی کی سزا
اور احناف سزا کی نوعیت کا یوں تعین کرتے ہیں۔
ولا یستوفی القصاص الا بالسیف
ہدایہ اخیرین ص560
قصاص صرف تلوار سے لیا جائے۔
حالانکہ اﷲ کے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے قتل کا جو طریقہ یہودی نے اختیار کیا تھا قصاص میں اسے اسی طرح قتل کیا۔ جیسا کہ اس حدیث میں ہے۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہُ أَنَّ یَہُودِیًّا رَضَّ رَأْسَ جَارِیَۃٍ بَیْنَ حَجَرَیْنِ فَقِیلَ مَنْ فَعَلَ ہَذَا بِکِ أَفُلَانٌ أَوْ فُلَانٌ؟ حَتَّی سُمِّیَ الْیَہُودِیُّ فَأُتِی بِہِ النَّبِیُّ علیہ الصلوۃ والسلام فَلَمْ یَزَل بِہِ حَتَّی اَقَرَّ، فَرُضَّ رَأْسُہُ بَیْنَ بِالْحِجَارَۃِ
بخاری رقم:6876
انس بن مالک کہتے ہیں ایک یہودی نے ایک لڑکی کا سر دو پتھروں کے درمیان رکھ کر کچل دیا اس لڑکی سے پوچھا گیا کہ کس نے یہ کام کیا ہے کیا فلاں یا فلاں نے؟ یہاں تک کہ یہودی کا نام لیا گیا اس یہودی کو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا یہاں تک کہ اس نے اس جرم کا اقرار کر لیا اس کا سر بھی پتھروں سے کچل دیا گیا۔
اسی طرح قصاص کا ایک اور طریقہ بھی مندرجہ ذیل حدیث میں موجود ہے۔
عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ أَنَّ قَوْمًا مِنْ عُکْلٍ أَوْ قَالَ مِنْ عُرَیْنَۃَ قَدِمُوا عَلَی رَسُولِ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام فَاجْتَوَوْا الْمَدِینَۃَ فَأَمَرَ لَہُمْ رَسُولُ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام بِلِقَاحٍ وَأَمَرَہُمْ أَنْ یَشْرَبُوا مِنْ أَبْوَالِہَا وَأَلْبَانِہَا فَانْطَلَقُوا فَلَمَّا صَحُّوا قَتَلُوا رَاعِیَ رَسُولِ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام وَاسْتَاقُوا النَّعَمَ فَبَلَغَ النَّبِیَّ علیہ الصلوۃ والسلام خَبَرُہُمْ مِنْ أَوَّلِ النَّہَارِ فَأَرْسَلَ النَّبِیُّ علیہ الصلوۃ والسلام فِی آثَارِہِمْ فَمَا ارْتَفَعَ النَّہَارُ حَتَّی جِیئَ بِہِمْ فَأَمَرَ بِہِمْ فَقُطِعَتْ أَیْدِیہِمْ وَأَرْجُلُہُمْ وَسُمِرَ أَعْیُنُہُمْ وَأُلْقُوا فِی الْحَرَّۃِ یَسْتَسْقُونَ فَلَا یُسْقَوْنَ
ابوداود رقم: 4364
انس بن مالک سے روایت ہے کہ عکل یا عرینہ قبیلے کے لوگ مدینے آئے۔ انہیں مدینے کی آب و ہوا موافق نہ آئی انہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ سے باہر رہنے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ وہ لوگ اونٹوں کے دودھ اور پیشاب پئیں۔ وہ وہاں رہنے لگے جب صحت مند ہو گئے تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے چرواہے کو قتل کر کے اونٹ ہانک کر لے گئے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح کو خبر ملی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے پیچھے صحابہ کو بھیجا ابھی دن چڑھا نہ تھا کہ وہ پکڑ کر لائے گئے آپ نے حکم دیا ان کے ہاتھ اور پاؤں کاٹے جائیں آنکھوں میں گرم سلاخیں پھیری گئی اور انہیں میدان میں پھینک دیا گیا وہ پانی مانگتے تھے مگر ان کو پانی نہ دیا جاتا۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص30، 31
چھٹے اعتراض کا جوا ب
فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث سے ثابت ہے ملاحظہ فرمائیں:
حدیث نمبر1:
عن ابی بکرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لا قود الا بالسیف
سنن ابن ماجہ باب لا قود الا بالسیف، سنن دار قطنی ج3 ص106
حضرت ابو بکرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تلوار کے علاوہ کسی اور چیز سے قصاص نہ لیا جائے۔
حدیث نمبر2:
عن النعمان بن بشیر قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لکل شیء خطا الا بالسیف ولکل خطا ارش
مسند احمد ج4 ص272، مصنف ابن ابی شیبۃ ج9 ص342، طحاوی مترجم جلد3 ص263، ابن ماجہ حدیث نمبر443، باب لا قود الا بالسیف، سنن دار قطنی ج3 ص107، سنن الکبری بیہقی ج8 ص42، نصب الرایہ ج4 ص333
حضرت نعمان بن بشیر سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تلوار کے سوا ہر شے میں خطا ہے اور خطا میں دیت ہے۔
حدیث نمبر3:
عن علی علیہ السلام قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لا قود الا بحدیدۃ ولا قود فی النسف وغیرھا الا بحدیدۃ
سنن دار قطنی ج3 ص88
حدیث نمبر4:
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لا قود الا بالسیف
سنن دار قطنی ج3 ص88، 87
حدیث نمبر5:
عن عبد اﷲ بن مسعود ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال لا قود الا بالسلاح
سنن دار قطنی ج3 ص88
حدیث نمبر6:
عن عمرۃ بن شعیب عن ابیہ عن جدہ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لا قود فی شلل ولا عرج
سنن دار قطنی ج3 ص91
ہم نے یہاں پر چند روایات نقل کر دی ہیں ان کے علاوہ اورروایات و آثار بھی ہیں جن سے حنفی مسلک کی تائید ہوتی ہے۔
باقی جس آیت سے طالب الرحمن نے تعارض ثابت کیا ہے اس کا اس مسئلہ سے تعلق ہی نہیں ہے۔
غیر مقلدین کے مفسر صلاح الدین یوسف اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفار مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کر کے (گزشتہ سال کی طرح) تمہیں مکے جانے سے روکیں تو تم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کر کے ان سے بھر پور مقابلہ کرو۔ حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے۔ یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو، بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کر کے کفار کو عبرت ناک سبق سکھاؤ۔
ابن کثیر، تفسیر احسن البیان ص78، مطبوعہ سعودی عرب
اب رہی وہ دو روایتیں جو طالب الرحمن نے تعارض میں پیش کی ہیں تو ان کی وضاحت درج ذیل ہے:
پہلی روایت کا جواب
اس روایت کے محدثین نے کئی جواب دیے ہیں۔
جواب نمبر1:
اس یہودی کی عادت تھی کہ وہ راستہ میں چھوٹے چھوٹے بچوں کو قتل کر دیتا تھا گو وہ فساد کرنے والا اور ڈاکو تھا اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو سیاسۃً قتل کر دیا۔
جواب نمبر2:
یہ مثلہ کی تحریم سے پہلے کا عمل ہے اور جب مثلہ کو حرام کر دیا گیا تو صرف تلوار سے قصاص لینا مشروع رہا۔
خلاصہ عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری ج12، ص254، 255
دوسری روایت کا جواب
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جو یہ سزا دی ہے وہ اس لیے کہ ان کے جرم پانچ تھے۔
1۔ انہوں نے اسلام کے بعد کفر کیا اور مرتد ہو گئے۔
2۔ انہوں نے ڈاکہ ڈالا۔
3۔ انہوں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے محافظوں کو قتل کیا۔
4۔ ان کے ہاتھ پیر کاٹ ڈالے۔
5۔ ان کی آنکھوں میں کانٹے چبھوئے۔
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مسلمانوں کا بدلہ لیا اور ان پر یہ سزا نافذ کی۔ اور یہ سزا مجموعہ تھا ان پانچ جرائم کا۔ دوسرے آپ علیہ الصلوۃ والسلام امیر مملکت بھی تھے اور امیر جس طرح چاہے قتل کر سکتا ہے۔
جواب نمبر2:
یہ اس وقت کا واقعہ ہے جب مثلہ کرنا مباح تھا بعد میں اس سے منع کر دیا گیا۔ اور یہ منسوخ ہو گیا۔
تفصیل کے لیے عمدۃ القاری ج12، ص254، 255 و تکملہ فتح الملہم شرح صحیح مسلم
اعتراض نمبر7: درہم کے برابر نجاست کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اسلام اور پاکی
اﷲ تعالیٰ نے کپڑوں کو پاک رکھنے کا حکم دیا ہے۔
وثیابک فطہر )مدثر(
اے نبی اپنے کپڑوں کو پاک رکھیے۔
احناف نے بھی اسی آیت سے نماز میں کپڑوں کے پاک ہونے کو واجب قرار دیا۔ اور امام بخاری نے بھی ایک حدیث پر یوں باب باندھا۔
لاتقبل صلاۃ بغیر طہور
بخاری رقم: 135
بغیر پاکی کے نماز قبول نہیں ہوتی۔
فقہ حنفی اور پاکی
اب احناف کی سنیے۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
وقدر الدرہم وما دونہ من النجس المغلظ کالدم والبول والخمر وخرء الدجاج وبول الحمار جازت الصلوۃ معہ وان زاد لم تجز
ہدایہ اولین ص:58
ایک درہم کے برابر نجاست غلیظہ مثلاً خون پیشاب، شراب مرغی کی بیٹ یا گدھے کا پیشاب لگا ہوا ہو تو اس میں نماز پڑھنا جائز ہے اگر درہم سے زیادہ ہو تو ناجائز ہے۔
پھر اس مسئلے کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
وقدرناہ بقدر الدرہم اخذا عن موضع الاستنجائ
ہدایہ اولین ص58
ہم نے ایک درہم کے برابر (گندگی کی معافی) کو اس لیے مقرر کیا کہ دبر کا ڈائیا میٹر اتنا ہوتا ہے۔
حالانکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم گندگی کو یوں دھونے کا حکم فرما رہے ہیں:
عَنْ أَسْمَائَ بِنْتِ أَبِی بَکْرٍ الصِّدِّیقِ أَنَّہَا قَالَتْ سَأَلَتْ امْرَأَۃٌ رَسُولَ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام فَقَالَتْ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَرَأَیْتَ إِحْدَانَا إِذَا أَصَابَ ثَوْبَہَا الدَّمُ مِنْ الْحَیْضَۃِ کَیْفَ تَصْنَعُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام إِذَا أَصَابَ ثَوْبَ إِحْدَاکُنَّ الدَّمُ مِنْ الْحَیْضَۃِ فَلْتَقْرُصْہُ ثُمَّ لِتَنْضَحْہُ بِمَائٍ ثُمَّ لِتُصَلِّی فِیہِ
بخاری 307
اسماء بنت ابی بکر سے روایت ہے کہ ایک عورت نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر پوچھا کہ اگر ہمارے کپڑوں پر حیض کا خون لگ جائے تو ہم کیا کریں؟ تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: جب تمہارے کپڑے پر حیض کا خون لگ جائے تو اسے کھرچ دو پھر اسے پانی سے دھو ڈالو پھر ان کپڑوں میں نماز پڑھو۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو چاہیے تھا کہ آپ فرماتے ایک درہم کے برابر اگر خون لگا ہوا ہے تو اس میں نماز پڑھ لو اور اگر زائد ہے تو دھو لو۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص31 تا 33
ساتویں اعتراض کا جواب
بے شک فقہاء علیہم الرحمۃ نے ایسا لکھا ہے لیکن یہ معافی بہ نسبت صحت نماز ہے نہ بہ نسبت گناہ کے۔ یعنی اس کا یہ مطلب نہیں کہ ایسا کرنے والے کو گناہ بھی نہیں۔فقہاء علیہم الرحمۃ نے تصریح فرمائی ہے کہ ایسا کرنا مکروہ تحریمہ ہے۔
درمختار میں ہے:
عفا الشارع عن قدر درہم وان کرہ تحریما فیجب غسلہ
در مختار ج1 ص 316
شارع نے قدرِ درہم معاف کیا ہے اگرچہ مکروہ تحریمہ ہے۔ پس اس کا دھونا واجب ہے۔
معلوم ہوا کہ جس کپڑے کو بقدر درہم نجاست لگی ہو گی اس میں نماز پڑھنا ہمارے نزدیک مکروہ تحریمہ ہے۔ اس کا دھونا اور نماز کا اعادہ واجب ہے۔
کما قال الشیخ عبد الحئ لکھنوی
اشارۃ الی ان العفو عنہ بالنسبۃ الی صحۃ الصلٰوۃ بہ فلا ینافی الاثم
عمدۃ الرعایۃ ص150، ج1
کہ یہ معافی بنسبت صحت نماز ہے نہ یہ کہ اس کو گناہ نہیں۔
اوریہ اجازت ہی اس صورت میں ہے کہ دھونے کے لیے پانی یا دوسرا پاک کپڑا نہ ملے۔ اگر پانی میسر ہے اور وقت کی گنجائش بھی ہے تو اسے دھو نا ہی ضروری ہے۔
چنانچہ فتاویٰ غیاثیہ ص13 میں ہے:
دخل فی الصلٰوۃ فریٰ بہ ثوبہ نجاسۃ اقل من قدر الدرہم وکان فی الوقت سعۃ فالافضل ان یقطع او یغسل الثوب ویستقبلھا فی جماعۃ اخرٰی وان فاتتہ ہذہ لیکون موریا فرضہ علی الجواز بیقین فان کان عالما للماء اولم یکن فی الوقت سعۃ اولا یرجوا جماعۃ اخرٰی مضی علیہما و ہو الصحیح
یعنی نماز شروع کی تو دیکھا کہ کپڑے میں قدر درہم سے کم نجاست ہے اور وقت میں فراخی ہے تو افضل یہ ہے کہ نماز قطع کر کے کپڑا دھو ڈالے اور دوسری جماعت میں نئے سرے سے شروع کرے اگرچہ یہ جماعت اس کی فوت بھی کیوں نہ ہو جائے۔ تاکہ اس کے فرض یقینا ادا ہو جائیں اور اگر پانی نہیں یا وقت میں وسعت نہیں یا دوسری جماعت ملنے کی امید نہیں تو اسی کے ساتھ نماز پڑھ لے۔
طحطاوی فرماتے ہیں:
المراد عفا عن الفساد بہ والا فکراہۃ التحریم باقیۃ اجماعا ان بلغت الدرہم وتنزیھا ان لم تبلغ
طحطاوی علی مراقی الفلاح ص90
یعنی عفو سے مراد ہے کہ نماز فاسد نہیں ورنہ کراہت تحریمی اجماعاً باقی رہتی ہے اگر نجاست ایک درہم کی مقدارکو پہنچے۔ اور اگر درہم سے کم ہو تو کراہت تنزیہی رہتی ہے۔
معلوم ہوا کہ اگر بقدر درہم نجاست کے ساتھ نماز پڑھے گا تو نماز مکروہ تحریمی ہو گی۔ جس کا اعادہ واجب اور کپڑے کا دھونا واجب ہے۔پس دیانت کا تقاضا تو یہ تھا کہ طالب الرحمن ان تمام باتوں کو بھی لکھتا پھر اعتراض کرتا تاکہ قارئین کرام کو اصل مذہب کا پتہ لگ جاتا۔ مگر یہاں تو عوام کو صرف مغالطہ میں ڈال کر مذہب حنفی سے بے گانہ کرنا مقصود تھا۔ دیانت سے کیا کام؟
قارئین کرام! جب ہم اصل مسئلہ معلوم کر چکے تو اس معافی کا ماخذ بھی معلوم کر لینا چاہیے۔ یہ معافی فقہاء نے استنجاء بالاحجار سے اخذ کی ہے کیونکہ ظاہر ہے پتھر ڈھیلے مزیل نجاست نہیں ہیں بلکہ مخفف اور منشف ہیں تو موضع غائط کا نجس ہونا شریعت نے نماز کے لیے معاف کیا ہے اور وہ قدر درہم ہوتا ہے۔ اس لیے فقہاء نے نماز کے لیے بقدر درہم معاف لکھا ہے۔
امام نووی شرح صحیح مسلم میں حدیث اذا استیقظ احدکم من منامہ کے بعض فوائد میں سے لکھتے ہیں:
منھا ان موضع الاستنجاء لا یطہر بالاحجار بل یبقٰی نجسا معفوا عنہ فی حق الصلٰوۃ
نووی ص136
یعنی بعض فوائد میں سے یہ ہے کہ استنجاء کی جگہ پتھروں سے پاک نہیں ہوتی بلکہ نجس رہتی ہے جو نماز کے حق میں معاف ہے۔
اسی طرح حافظ ابن حجر فتح الباری پارہ نمبر1 میں لکھتے ہیں ہدایہ شریف میں ہے۔
قدرناہ بقدر الدرہم اخذ عن موضع الاستنجاء
ص58
کہ وہ قلیل نجاست جو کہ معاف ہے ہم نے اس کا اندازہ بقدر درہم رکھا اور اس کا ماخذ استنجاء کی جگہ (کا معاف ہونا( ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں:
قال فی شرح المنیۃ ان القلیل عفو اجماعًا اذا الاستنجاء بالحجر کاف بالاجماع وہو لا یستاصل النجاسۃ والتقدیر بالدرہم مروی عن عمر و علی وابن مسعود وہو مما لا یعرف بالرائی فیحمل علی السماع۔
وفی الحلیۃ القدیر بالدرہم وقع علٰی سبیل الکنایۃ عن موضع خروج الحدث من الدبر کما افادہ ابراہیم النخعی بقولہٖ انہم استکرہوا ذکر المقاعد فی مجالسہم فکنوا عنہ بالدرہم ویعضدہ ما ذکرہ المشائخ عن عمر انہ سئل عن القلیل من النجاسۃ فی الثوب فقال اذا کان مثل ظفری ہذا لا یمنع جواز الصلٰوۃ قالوا وظفرہ کان قریبا من کفنا۔
شامی ص231 ج1
شرح منیہ میں کہا ہے کہ نجاست قلیل اجماعاً معاف ہے کیونکہ پتھروں سے استنجاء کرنا بالاجماع کافی ہے اور وہ نجاست کو بالکل ختم نہیں کرتا۔ اور درہم کا اندازہ حضرت عمر و علی و ابن مسعود رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہے چونکہ اس میں رائے کا دخل نہیں اس لیے سماع پر محمول ہو گا۔
اور حلیہ میں ہے کہ درہم کا اندازہ بطور کنایہ ہے دبر سے جیسے کہ ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ لوگوں نے اپنی مجالس میں مقاعد کا ذکر برا سمجھا تو کنایۃً اسے درہم سے تعبیر کیا۔ اور اسی کی تائید کرتا ہے جو مشائخ نے ذکر کیا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہ جب آپ رضی اللہ عنہ سے قلیل نجاست کے متعلق پوچھا گیا تو فرمایا جب میرے ناخن کے مثل ہو تو نماز کے جواز کو منع نہیں کرتا۔ کہتے ہیں کہ آپ کا ناخن ہماری ہتھیلی (کے مقر) کے برابر تھا۔
اس تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہ قدر درہم بھی صحابہ سے مروی ہے۔ وﷲ الحمد۔
مرغی وغیرہ کی بیٹ کا مسئلہ
یہاں تک قدر درہم کی بحث تھی۔ اب ہم مرغی کی بیٹ وغیرہ کا جو مسئلہ ہے اس کی تھوڑی سی وضاحت کرتے ہیں۔
حرام جانوروں کی بیٹ امام صاحب کے نزدیک نجاست مخففہ ہے۔ اس لیے قدر درہم سے زیادہ لگ جانے پر بھی نماز ہو جائے گی۔ اگر معترض کے پاس کے اس کے مغلظ ہونے اور اس کے لگ جانے سے نماز کے ناجائز ہونے کی دلیل ہے تو پیش کرے۔ اگر نہیں اور یقینا نہیں تو ائمہ مجتہدین پر بے جا طعن سے توبہ لازم ہے۔
سنئے! فقہاء رحمہم اللہ تعالی نے ایک اصول لکھا ہے جو قرآن و حدیث سے مستنبط ہے وہ یہ ہے کہ المشقۃ تجلب التیسیر کہ مشقت آسانی کو کھینچتی ہے۔ یعنی تکلیف اور مشقت کے وقت شرعاً تخفیف ہو جاتی ہے۔ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یُرِیْدُ اللّہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَلاَ یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ
اﷲ تمہارے ساتھ آسانی کا ارادہ کرتا ہے تنگی کا نہیں
اور فرمایا:
مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَج
یعنی اﷲ تعالیٰ نے دین میں تم پر کوئی تنگی نہیں کی
حدیث پاک میں ہے:
احب الدین الی اﷲ الحنیفۃ المسحۃ
رواہ بخاری تعلیقًا
اﷲ تعالیٰ کا پسندیدہ ترین دین، سہولت پر مبنی دین حنیف ہے۔
بخاری شریف میں مرفوعاً آیا ہے کہ حضورعلیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا:
الدین یسر ”دین آسان ہے“
حافظ ابن حجر فتح الباری پارہ نمبر1 میں لکھتے ہیں:
وقد یستفاد من ہذہ الاشارۃ الی الاخذ بالرخصۃ الشرعیۃ
اس حدیث سےیہ اشارہ ملتا ہے کہ رخصت شرعیہ پر عمل کرنا درست ہے۔
الاشباہ و النظائر کے ص96 میں لکھا ہے:
عبادات میں اسباب تخفیف سات ہیں۔ سفر، مرض، خبر، نسیان، جہل، عسر اور عموم بلویٰ۔
معلوم ہوا کہ عموم بلوی اور عسر بھی اسباب تخفیف میں سے ہیں۔ اس کی مثال میں صاحب الاشباہ و النظائر فرماتے ہیں:
کالصلٰوۃ مع النجاسۃ المعفو عنہا کما دون ربع الثوب من مخففۃ وقدر الدرہم من المغلظۃ
جیسے نماز اس نجاست کے ساتھ جو معاف ہے۔ یعنی نجاست مخففہ سے ربع ثوب سے کم اور نجاست مغلظہ سے قدر درہم کے ساتھ۔
ہم نے حنفی مسلک کی وضاحت کر دی ہے اگر طالب الرحمن کے پاس خاص اس مسئلہ کی دلیل قرآن میں ہے تو وہ پیش کریں۔
اعتراض نمبر8: نجاست چاٹ کر پاک کرنے کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اسلام میں گندگی کا دھونا
اﷲ تعالیٰ نے نجاست دور کرنے کے لیے دو چیزیں بتلائیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَیُنَزِّلُ عَلَیْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَآئً لِّیُطَہِّرَکُمْ بِہِ
الانفال:11
ہم نے آسمان سے تم پر پانی اتارا تاکہ تمہیں پاک کر دیں۔ ایک جگہ یوں فرمایا:
فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا
المائدۃ:6
)اگر) پانی نہ پاؤ تو پاک مٹی سے تیمم کر لو۔
فقہ حنفی میں گندگی کا چاٹنا
لیکن احناف نے ایک نیا طریقہ ایجاد کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
اذا اصابت النجاسۃ بعض اعضائہ ولحسھا بلسانہ حتی ذہب اثرھا یطہر وکذا السکین اذا تنجس فلحسہ بلسانہ او مسحہ بریقہ ہکذا فی فتاوٰی قاضی خان۔ ولو لحس الثوب بلسانہ حتی ذہب الاثر فقد طہر کذا فی المحیط
1/45
اگر جسم کے کسی عضو پر نجاست لگ جائے تو اگر زبان سے اسے چاٹ لے یہاں تک کہ اس کا اثر زائل ہو جائے اسی طرح اگر چھری پر نجاست لگ جائے تو زبان سے اسے چاٹ لے یا تھوک سے صاف کر دے یا کپڑے پر لگی نجاست کو زبان سے چاٹ لے یہاں تک کہ اس کا اثر ختم ہو جائے تو پاک ہو جائے گا۔
طہارت کے نئے طریقے سے جسم کے اعضاء پاک کرنے کے لیے زبان چاہے ناپاک ہو جائے کوئی پرواہ نہیں۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن وہ حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص33، 34
آٹھویں اعتراض کا جواب
طالب الرحمن نے اپنی ناقص الفہمی کی بنا پر فتاویٰ عالمگیری کی عالمی حیثیت نہیں سمجھی یہ فتاویٰ بفضلہ تعالیٰ عالمی فتاویٰ ہے۔ اس میں وہ تمام مسائل حل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ جو عالم اسلام میں عموماً یا خصوصاً پیش آتے رہتے ہیں یا آ سکتے ہیں تاکہ مملکت اسلامیہ کے قاضی صاحبان ان سے استفادہ کر کے ان سے نادر سے نادر واقعات و مقدمات کا حل دریافت کر سکیں۔ دنیائے عالم میں جہاں عاقل بالغ آباد ہیں وہاں پاگل اور بچے بھی رہتے ہیں ان کی وجہ سے بھی کئی مسئلے جنم لیتے رہتے ہیں۔ مندرجہ بالا مسئلہ بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔
ہاتھ کی کسی انگلی پر اگر پیشاب یا شراب یا خون لگ جائے تو انگلی کو اس نجاست سے صاف کرنے کے لیے پانی ہی استعمال کیا جاتا ہے مگر بچوں اور پاگلوں سے یہ امید نہیں رکھی جا سکتی کہ وہ اس نجاست کو پانی سے ہی صاف کریں گے بلکہ یہاں ممکن ہے کہ بجائے انگلی دھونے کے اسے چاٹ لیں، العیاذ باﷲ اور چاٹنے کے بعد وہی انگلی کسی شخص کے پانی میں یا دودھ میں یا شربت میں یا اس قسم کی دوسری اشیاء میں ڈبو دیں اور وہ شخص اسلامی عدالت میں اس نوعیت کا مقدمہ دائر کر دے کہ میں پچاس روپے کا پانی خرید کر مٹکے میں ڈالا تھا، فلاں پاگل نے نجاست سے لبریز انگلی کو پہلے اچھی طرح چاٹا پھر اپنی انگلی میرے پانی میں ڈبو دی جس سے پانی پلید اور بے کار ہو گیا۔ لہٰذا مجھے پاگل کے مال سے پانی کی قیمت دلائی جائے تو جس قاضی نے فتاویٰ عالمگیری کا مندرجہ بالا مسئلہ پڑھا ہو گا وہ یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دے گا کہ جب مدعی خود تسلیم کرتا ہے کہ پاگل نے پہلے انگلی سے نجاست کو چاٹ کر زائل کر دیا تھا پھر پانی میں ڈبو دیا تھا تو پاگل کی انگلی کے سبب پانی پلید نہ ہوا کیوں کہ جب انگلی پر سے نجاست زائل کر دی گئی تو نہ انگلی پلید رہی نہ ہی پانی پلید ہوا۔
فتاویٰ عالمگیری کی عبارت کا یہ مطلب نہیں کہ معاذ اﷲ نجاست کو چاٹنا جائز ہے۔ یا یہ کہ فقہ حنفی میں انگلی پاک کرنے کا یہی طریقہ ہے یہ نجس فہمی صرف طالب الرحمن کی دماغی نجاست کا نتیجہ ہے بلکہ فتاویٰ عالمگیری میں تو یہاں تک نفاست پسندی فرمائی گئی ہے کہ جو حلال جانور نجاست کھاتا ہو اسے نہ کھائیں بلکہ کئی دن تک باندھ رکھیں کہ نجاست نہ کھانے پائے پھر جب اس کا گوشت نجاست کے اثر سے پاک ہو جائے تو ذبح کر کے کھائیں اونٹ چالیس دن تک باندھا جائے گا۔ گائے بیس دن تک، مرغی تین دن تک اور چڑیا بھی ایک دن۔
فتاویٰ عالمگیری ج5 ص298
باقی طالب الرحمن نے جو دو آیتیں نقل کی ہیں احناف کا ان پر عمل ہے وہ احناف کے خلاف نہیں ہیں۔
اعتراض نمبر9: مدت رضاعت کا مسئلہ
اسلام اور مدت رضاعت
اﷲ تعالیٰ نے مدت رضاعت دو سال مقرر کی جیسا کہ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ
البقرۃ: 233
اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں جن کا ارادہ رضاعت مکمل کرانے کا ہو۔
فقہ حنفی اور مدت رضاعت
لیکن حنفیوں کو یہاں بھی اﷲ کا حکم پسند نہ آیا، صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
ثم مدۃ الرضاع ثلاثون شہرا عند ابی حنیفۃ
ہدایہ اولین: 330
امام ابوحنیفہ کے نزدیک مدت رضاعت ڈھائی سال ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص34
نویں اعتراض کا جواب
احناف کا صحیح مذہب جس پر ہمارا فتویٰ اور عمل ہے وہ دو سال ہی ہے:
1۔ فقہ حنفی کی مشہور و معروف کتاب بہشتی زیور جو اردو میں ہے اور تقریباً ہر گھر میں موجود ہوتی ہے اس میں لکھا ہے:
زیادہ سے زیادہ دودھ پلانے کی مدت دو برس ہیں دو سال کے بعد دودھ پلانا حرام ہے بالکل درست نہیں۔
بہشتی زیور حصہ چہارم باب دودھ پینے اور پلانے کا بیان ص295
2۔ مفسر قرآن مولانا محمد علی صدیقی کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں:
دوسرا یہ کہ پوری مدت رضاعت دو سال ہے۔ جب تک کوئی عذر مانع نہ ہو بچہ کا حق ہے کہ یہ مدت پوری کی جائے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دودھ پلانے کی پوری مدت دو سال ہے۔
تفسیر معالم القرآن جلد دوم پارہ دوم ص676
3۔ مولانا مفتی محمد ظفیر الدین مفتاحی مرتب فتاویٰ دار العلوم دیوبند انڈیا لکھتے ہیں:
پرورش کے سلسلہ میں اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَعلَی الْمَوْلُودِ لَہُ رِزْقُہُنَّ وَکِسْوَتُہُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لاَ تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلاَّ وُسْعَہَا لاَ تُضَآرَّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِہَا وَلاَ مَوْلُودٌ لَّہُ بِوَلَدِہِ وَعَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِکَ
البقرۃ: 233
اور مائیں کامل دو سال اپنے بچوں کو دودھ پلایا کریں یہ مدت ان کے لیے جو شیر خوارگی کی تکمیل کرنا چاہیں۔ اور اس کے باپ کے ذمہ ہے ان ماؤں کا کھانا اور کپڑا قاعدہ کے موافق۔ کسی کو اس کی برداشت سے زیادہ حکم نہیں دیا جاتا۔ کسی ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے تکلیف نہ پہنچانا چاہیے اور نہ کسی باپ کو۔ اور باپ کے نہ ہونے کی صورت میں بچہ کی پرورش اسی طرح محرم قرابت دار کے ذمہ ہے۔
مفتی صاحب نے آگے حضرت تھانوی سے اس کی تفسیر نقل کی ہے۔ اس میں بھی دو سال کا ہی ذکر ہے۔
اسلام کا نظام تربیت ص90، ناشر مکتبہ رشیدیہ
مفتی صاحب کے اس حولہ سے معلوم ہوا کہ ہمارا حنفی مسلک اور عمل قرآن کے مطابق ہے۔ جس آیت کو طالب الرحمن نے تعارض میں پیش کیا ہے مفتی صاحب خود اس کو اپنے استدلال میں پیش کر رہے ہیں۔ یہ کتاب اردو میں ہے اور بچوں کے حقوق کے لیے لکھی گئی ہے۔
4۔ مولانا مجیب اﷲ ندوی حنفی لکھتے ہیں:
رضاعت کی مدت دو برس ہے جیسا کہ قرآن پاک میں ہے:
وَالْوَالِدَاتُ یُرْضِعْنَ أَوْلاَدَہُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ
مائیں اپنے بچوں کو پورے دو برس دودھ پلائیں یہ بات اس کے لیے ہے جو اس کی تکمیل چاہتا ہو۔
اسلامی فقہ جلد2 ص141، پروگریسو بکس
5۔ مولانا منہاج الدین مینائی لکھتے ہیں:
رضاعت کی مدت دو برس ہے، دو برس سے زیادہ دودھ پلانا جائز نہیں۔
اسلامی فقہ مکمل ص317، ناشر اسلامک پبلی کیشنر لاہور
6۔ مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
مدت رضاعت کی دو سال ہے علی الاصح المفتی بہ
تذکرۃ الرشیدج1 ص185
قارئین کرام!حوالہ جات تو بہت ہیں جن سے ہمارا مذہب دو سال ثابت ہوتا ہے۔ مگر ماننے والے کے لیے یہ حوالے کافی ہیں۔
طالب الرحمن نے جو ہدایہ سے عبارت نقل کی ہے اس کی وضاحت ہمارے علماء نے کئی بار کر دی ہے۔ تفصیل کے لیے فتح المبین ص196 تا 205 مطبوعہ میر محمد کتب خانہ آرام باغ کراچی میں دیکھ لیں۔
اعتراض نمبر 10: ایمان میں کمی زیادتی کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اﷲ تعالیٰ مومنوں کے ایمان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا
التوبہ: 124
پس مومنوں کا ایمان بڑھ جاتا ہے۔
ایک جگہ اﷲ تعالیٰ نے یوں فرمایا:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتُہُ زَادَتْہُمْ اِیْمَاناً
الانفال:2
مومن وہی ہیں کہ جن کے سامنے اﷲ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل لرز اٹھتے ہیں اور جب ان پر اس کی آیات کو پڑھا جائے تو ان کے ایمان بڑھ جاتے ہیں۔
لیکن احناف آسمان و زمین والوں کے ایمان میں زیادتی یا کمی کے قائل نہیں۔
ملاحظہ فرمائیے:
آسمان اور زمین والوں کے ایمان میں نہ زیادتی ہوتی اور نہ ہی کمی۔
فقہ الاکبر اردو ص16
قرآن مجید سے نمونے کے طور پر دس مسائل ذکر کر دیے ہیں جن میں احناف قرآن کی صریح آیات کا انکار کر رہے ہیں۔ اور اپنی فقہ پر عمل کرتے ہیں۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص34، 35
دسویں اعتراض کا جواب
اس اعتراض کے دو جواب ہیں ایک اجمالی دوسرا تفصیلی پہلے اجمالی نقل کیا جاتا ہے پھر تفصیلی۔
ایمان میں کمی اور زیادتی کا مسئلہ اور احناف کا نظریہ
پہلا اجمالی جواب
اصل اختلاف ایمان کی تعریف میں ہے کہ ایمان صرف تصدیق قلبی کا نام ہے یا تصدیق قلبی، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کے مجموعہ کا نام ہے؟ اور ایمان کی تعریف قرآن کریم کی کسی آیت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کسی حدیث سے صراحتاً ثابت نہیں ہے۔اس لیے حضرات فقہاء کرام اور محدثین عظام نے اپنے اپنے اجتہاد سے ایمان کی تعریف متعین کی اور پھر دلائل سے اپنے نظریہ کو راجح ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی اور شوافع میں سے امام غزالی رحمہ اللہ تعالی کے استاد ابو المعالی عبدالملک الجوینی رحمہ اللہ تعالی جن کو امام الحرمین کہا جاتا ہے یہ فرماتے ہیں کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے اقرار اور اعمال ایمان کے اجزاء حقیقیہ نہیں (بلکہ اجزا محسنہ و مزینہ ہیں) اس لیے جو زیادتی اور کمی کا ذکر آتا ہے تو اس سے ایمان میں حُسن کی زیادتی اور کمی مراد ہے۔ اور نیک اعمال والا کامل ہے۔
امام شافعی، امام احمد اور امام بخاری رحمہم اللہ تعالی وغیرہ فرماتے ہیں کہ ایمان تصدیق قلبی، اقرار باللسان اور عمل بالارکان کے مجموعہ کا نام ہے اور عمل میں کمی بیشی کے لحاظ سے ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔اور یہ تینوں ایمان کے اجزاء حقیقیہ ہیں۔
ان پر اعتراض ہوتا ہے کہ اگر تصدیق قلبی، اقرار باللسان اور عمل بالارکان تینوں کے مجموعہ کا نام ایمان ہے تو جس میں یہ تینوں چیزیں پائی جائیں گی اسی کو مومن کہا جائے گا حالانکہ صحیح احادیث سے ثابت ہے کہ کسی عمل کے بغیر صرف لا الٰہ الا اﷲ پڑھنے والے کو بھی جہنم سے نکال کر جنت میں داخل کیا جائے گا۔ اور ایسے لوگ بھی ہیں جن کو کلمہ پڑھنے کے بعد کسی عمل کا موقعہ ہی نہیں ملا اور وہ اس دنیا سے چلے گئے تو اس کے جواب میں ان حضرات کو مجبوراً یہ کہنا پڑا جیسا کہ سردار اہل حدیث مولانا ثناء اﷲ امرتسری نے اس نظریہ والوں کی جانب سے لکھا ہے کہ ایسے وقت میں اعمال کے بغیر بھی داخلہ جنت ہو جاتا ہے۔
ملاحظہ ہو فتاوی ثنائیہ جلد اول، ص389
اس سے واضح ہو گیا کہ اصل ایمان تصدیق قلبی ہی ہے۔
پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی جانب سے دلائل میں قرآن کریم کی وہ آیات اور وہ صحیح احادیث پیش کی گئی ہیں جن میں ایمان کا محل دل کو بتایا گیا ہے۔
1۔ قرآن کریم میں ہے:
اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ
النحل:106
یعنی مضطر آدمی کا دل جب ایمان کے ساتھ مطمئن ہو تو ظاہری طور پر کفر کا کلمہ زبان سے کہنے سے وہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
2۔ دوسری جگہ ارشاد ہے:
وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ
اور ابھی نہیں داخل ہوا ایمان تمہارے دلوں میں
الحجرات:14
3۔ اور ایک مقام میں ہے:
مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ
المائدہ:41
وہ لوگ جو اپنی زبانوں سے اٰمَنَّا کہتے ہیں اور ان کے دل مومن نہیں۔
حدیث نمبر1:
اور احادیث کے دلائل میں سے حدیث جبرائیل علیہ الصلوۃ والسلام بھی ہے جس میں آتا ہے کہ جبرائیل نے حضور علیہ الصلوۃ والسلام سے پوچھا کہ ایمان کیا ہے؟ تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا:
ان تومن باﷲ وملائکتہ وبلقائہ ورسلہ و تومن بالبعث
کہ تو اﷲ پر اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی ملاقات پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے اور قیامت کے دن پر ایمان لائے۔
بخاری ج1 ص12
اس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی حقیقت بتاتے ہوئے اعمال کا کوئی ذکر نہیں فرمایا بلکہ اعمال کا ذکر اسلام کے بارہ میں کیے گئے سوال کے جواب میں فرمایا۔
حدیث نمبر2:
اسی طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسامہ رضی اللہ تعالی عنہ سے فرمایا ہَلاَّ شَقَقْتَ قَلْبَہُ؟ تو نے اس کا دل چیر کر کیوں نہیں دیکھا تھا کہ وہ اظہار ایمان میں سچا تھایا جھوٹا؟ ان دلائل سے واضح ہو گیا کہ ایمان کا محل دل ہے۔
پھر قرآن کریم میں جگہ جگہ امنوا وعملوا الصلحت کہا گیا ہے۔ ایمان اور عمل کے درمیان حرف عطف لایا گیا ہے۔ اور عطف مغایرۃ کے لیے آتا ہے جس سے واضح ہو گیا کہ ایمان اور چیز ہے اور اعمال اس سے الگ ہیں۔
جب ایمان کا محل دل ہے اور دل میں تصدیق ہوتی ہے عمل اور اقرار نہیں ہوتا تو ان آیات و احادیث سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایمان اصل میں تصدیق قلبی ہی کا نام ہے۔ اور ایمان اس تصدیق کا نام ہے جو حدیقین و اذعان پر پہنچی ہو اور اس میں کمی و زیادتی نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے امام شافعی فرماتے ہیں کہ اگر ایمان سے تصدیق مراد لی جائے تو اس میں کمی بیشی کے درجات نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
طالب الرحمن کا جھوٹا دعویٰ
طالب الرحمن نے جو یہ کہا ہے کہ قرآن کا فیصلہ ہے کہ آدمی کے ایمان میں کمی و زیادتی ہوتی ہے تو یہ بالکل جھوٹا دعویٰ ہے۔ قرآن کریم میں صرف ایمان کی زیادتی کا ذکر ہے کمی کا کہیں بھی ذکر نہیں ہے اسی وجہ سے امام مالک قرآن کریم کے ظاہر کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایمان میں صرف زیادتی کے قائل ہیں اور امام بخاری نے بھی زیادتی پر وہ آیات پیش کی ہیں جن میں زیادتی کا ذکر ہے اور کمی کے بارہ میں کوئی آیت پیش نہیں کی۔
حسن و زینت کے اضافہ اور ایمان کے کمال کے قائل تو احناف بھی ہیں اس لیے ان کے نزدیک ایمان کے ساتھ جس کے عمل کا ذرہ برابر بھی وزن ہو گا اس کو جہنم سے نکالا جائے گا۔ اور اسی نظریہ کی تائید احادیث کرتی ہیں جیسا کہ بخاری کی روایت ہے کہ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی شفاعت سے اس کو بھی جہنم سے نکال دیا جائے گا جس کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر بھی ایمان ہو گا تو اس کے بعد حضور علیہ الصلوۃ والسلام رب تعالیٰ سے درخواست کریں گے کہ پروردگار جنہوں نے کلمہ توحید پڑھا ان کو نکالنے کی بھی مجھے اجازت دیں تو رب تعالیٰ فرمائے گا۔
وَعِزَّتِی وَجَلَالِی وَکِبْرِیَائِی وَعَظَمَتِی لَأُخْرِجَنَّ مِنْہَا مَنْ قَالَ لَا إِلَہَ إِلَّا اللَّہُ
بخاری ج2، 1118، 1119 ملخصاً
مجھے میری عزت و جلال و کبریائی اور عظمت کی قسم میں ضرور ان لوگوں کو اس جہنم سے نکالوں گا جنہوں نے کلمہ توحید پڑھا ہے۔
اور بخاری شریف کے حاشیہ میں ہے کہ موحد آدمی کو جہنم سے نکالا جائے گا اگرچہ اس کا کوئی نیک عمل نہ ہو گا۔
حاشیہ نمبر4، بخاری جلد دوم ص1119
اور مسند ابی یعلی جلد4/ صفحہ237 کی روایت میں ہے
فیقال لیس لک
کہ جب حضور علیہ الصلوۃ والسلام کلمہ پڑھنے والوں کو جہنم سے نکالنے کی اجازت مانگیں گے تو اﷲ تعالیٰ فرمائے گاکہ یہ آپ کے لائق نہیں بلکہ ایسے لوگوں کو میں خود نکالوں گا۔
جب نفس ایمان کے ساتھ اعمال ملنے کی وجہ سے بِحَسْبِ الْاَعْمَالِ ایمان کے حسن و قبیح اور قوت و ضعف کے احناف قائل ہیں۔ تو احناف کے نظریہ کو قرآن کے خلاف کہنا زیادتی ہے۔
اس ساری بحث سے ثابت ہوا کہ نفس ایمان میں کمی و زیادت کا مدار ایمان کی تعریف پر ہے۔اگر طالب الرحمن اور ان کا طبقہ امام اعظم ابوحنیفہ کے نظریہ کو قرآن و سنت کے خلاف سمجھتا ہے تو پہلے ایمان کی تعریف تو قرآن و سنت سے ثابت کریں کہ قرآن و سنت میں ایمان کی تعریف یہ کی گئی ہے اور امام صاحب نے اس کے خلاف تعریف کر کے قرآن و سنت کی مخالفت کی ہے۔
اگر طالب الرحمن قرآن و سنت سے ایمان کی تعریف اپنے نظریہ کے مطابق ثابت نہیں کر سکتے اورہمارا دعویٰ ہے کہ ہر گز ثابت نہیں کر سکتے تو اپنے نظریہ کے خلاف نظریہ رکھنے والوں کو قرآن و سنت کے خلاف قرار دینا غلط بات نہیں تو اور کیا ہے؟
شرح فقہ اکبر کی عبارت کی وضاحت
شرح فقہ اکبر میں ہے کہ زمین و آسمان والوں کا ایمان برابر ہے اس میں کمی بیشی نہیں ہوتی۔ اگر طالب الرحمن اس عبارت کا مفہوم کسی عالم سے دریافت کر لیتے تو اپنی جہالت کے اظہار سے بچ جاتے۔ اتنی بات تو ہر کوئی جانتا ہے کہ ہر چیز کی تعریف ہوتی ہے اور وہ تعریف جتنے افراد میں پائی جاتی ہے،ان میں برابر پائی جاتی ہے جیسے مخلوق ہر اس چیز کو کہتے ہیں جو اﷲ نے پیدا کی ہے اس لحاظ سے کائنات کی ہر چیز مخلوق ہے اور کائنات ساری کی ساری مخلوق ہونے میں برابر ہے (یہ عموم ہے)۔ کائنات مخلوق ہونے میں برابر ہونے کے باوجود اس کے افراد میں مراتب ہیں۔ اسی طرح نبی اس کو کہتے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے مکلف مخلوق کی راہنمائی کے لیے مبعوث ہو۔ اس لحاظ سے وصف نبوت میں تمام نبی برابر ہیں مگر مراتب ان کے جدا جدا ہیں۔
اسی طرح انسان سارے کے سارے انسان ہونے میں برابر ہیں کہ ان میں سے ہر ایک پر حیوان ناطق کی تعریف صادق آتی ہے مگر مراتب ان کے جدا جدا ہیں۔ اسی طرح ایمان کی تعریف جب یہ کی گئی کہ تصدیق کا وہ درجہ جو یقین اور اذعان کی حد تک ہو اور اس میں ذرا برابر شک اور تردد نہ ہو تو جتنے مومن ہیں خواہ وہ انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام ہوں یا ملائکہ یا عام مومنین ہوں ان میں ایمان کی یہی تعریف پائی جائے گی تو نفس ایمان میں یہ سب برابر ہیں، البتہ مراتب جدا جدا ہیں۔
اور اسی کی وضاحت ملا علی قاری نے فرمائی ہے کہ تصدیق اگر یقین و اذعان کی حد تک نہ ہو تو وہ ظن اور تردد کے درجہ میں ہوتی ہے اس کو ایمان نہیں کہا جا سکتا اس لیے نفس ایمان میں کمی اور زیادتی نہیں ہو سکتی۔ اس لحاظ سے کمی اور زیادتی کے الفاظ جو آتے ہیں ان سے مراد قوت اور ضعف ہے نفس ایمان میں برابر ہونے کے باوجود قوت اور ضعف میں سب برابر نہیں اسی لیے ہم یقینا جانتے ہیں کہ
اَنَّ اِیْمَانَ اَحَادِ الْاُمَّۃِ لَیْسَ کَاِیْمَانِ النَّبِیِّ علیہ الصلوۃ والسلام وَلاَ کَاِیْمَانِ اَبِیْ بَکْرِ الصِّدِّیْقِ رضی اللہ تعالی عنہ
بے شک امت میں سے کسی فرد کا ایمان جناب حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح نہیں ہو سکتا اور نہ ہی ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کے ایمان کی طرح ہو سکتا ہے۔
شرح فقہ اکبر ص105
اگر طالب الرحمن صاحب اور ان کے طبقہ کو اس نظریہ سے اختلاف ہے تو بتائیں کہ کیا تصدیق جو اذعان و یقین کے درجہ کی نہ ہو بلکہ اس میں کچھ شک و تردد ہو تو کیا اس کو ایمان کہا جا سکتا ہے؟ اور مومنین کے ایمان میں جو مراتب بیان کیے جاتے ہیں کیا یہ تصدیق کی کمی بیشی کی وجہ سے ہیں؟ کیا اعمال میں کمی بیشی کی وجہ سے مومنین پر احکام جاری کرنے کے لحاظ سے فرق کیا جا سکتا ہے؟ اس کا جواب دینے سے پہلے اپنے بزرگوں کی تحریر کو بھی دیکھ لیں کہ وہ کیا کہتے ہیں:
حافظ عبداﷲ روپڑی غیر مقلد کا فتویٰ
فتاویٰ اہل حدیث میں ہے:
یہ بھی یاد رہے کہ ایمان کی کمی بیشی کی بحث کا تعلق یوم آخرت اور خدائے تعالیٰ سے ہے کہ قیامت کے دن خداوند تعالیٰ ایمان میں کمی بیشی کے لحاظ سے فرق مراتب کریں گے ورنہ دنیا میں کسی کے ایمان میں فرق مراتب نہیں ہو سکتا۔ جو شخص بھی ایمانیات کا اقرار کرے گا اس کو ہم مومن ہی کہیں گے اور اس پر مومنوں کے احکام جاری ہوں گے تاوقتیکہ وہ کسی صریح عمل کفر کا ارتکاب نہ کرے مثلاً کسی بت کو سجدہ کرے۔
فتاویٰ اہل حدیث ج9، ص87، کتاب الایمان
دوسرا جواب تفصیلی
ایمان کی کمی بیشی تفسیر ایمان کی فرع ہے۔ امام صاحب فقہ اکبر میں تحریر فرماتے ہیں:
والایمان ہو الاقرار و التصدیق
یعنی ایمان اقرار زبان اور تصدیق قلب کا نام ہے۔ آیات قرآنی پر نظر ڈالنے سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمل نفس ایمان کا جزء نہیں۔
پہلی آیت:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اُولٰٓئِکَ اَصْحَابُ الْجَنَّۃِ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ
البقرہ:82
”اور جو لوگ ایمان لائیں اور نیک کام کریں وہ جنتی ہیں جو جنت میں ہمیشہ رہیں گے۔“
اس آیت کے تحت میں امام فخر رازی لکھتے ہیں:
وہہنا مسائل (المسئلۃ الاولٰی) العمل الصالح خارج عن مسمی الایمان لانہ تعالٰی قال والذین امنوا وعملوا الصلحت فلو دل الایمان علی العمل الصالح لکان ذکر العمل الصالح بعد الایمان تکرارا۔
اس مقام پر کئی مسئلے ہیں۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ عمل صالح ایمان کے مسمی سے خارج ہے کیونکہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ والذین امنوا وعملوا الصلحت پس اگر ایمان عمل صالح پر دلالت کرے تو ایمان کے بعد عمل صالح کا ذکر تکرار ہو گا۔
دوسری آیت:
وَاِنْ طَائِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَہُمَا
الحجرات:9
”اگر مسلمانوں کی دو جماعتیں آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں میل ملاپ کرا دیا کرو۔“
اس آیت میں باوجود قتال کے اﷲ تعالیٰ نے ہر دو فریق کو مومن فرمایا۔ پس معلوم ہوا کہ عمل صالح کے ترک سے مومن ایمان سے خارج نہیں ہوتا۔
علامہ عینی لکھتے ہیں:
ووجہ دلالتہ علی المطلوب انہ لا یجوز مقارنۃ الشیء بضد جزء ہ
یعنی مطلوب پر اس آیت کے دلالت کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کوئی بھی چیز اپنی ضد کے ساتھ جمع نہیں ہوتی۔
عمدۃ القاری جزء اول، ص125
تیسری آیت:
اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یَلْبِسُوْا اِیْمَانَہُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَہُمُ الْاَمْنُ وَہُمْ مُّہْتَدُوْنَ
انعام:82
”جو لوگ ایمان رکھتے ہیں اور اپنے ایمان کو شرک کے ساتھ مخلوط نہیں کرتے، ایسوں ہی کے لیے امن ہے اور وہی راہ راست پر چل رہے ہیں۔“
علامہ عینی فرماتے ہیں:
ولم یلبسوا ایمانہم بظلم ای لم یخلطوہ بارتکاب المحرمات ولو کانت الطاعۃ داخلۃ فی الایمان لکان الظلم منفیا عن الایمان لان ضد جزء الشیء یکون منفیا عنہ والا یلزم اجتماع الضدین فیکون عطف الاجتناب منہا علیہ تکرارا بلا فائدۃ
یعنی انہوں نے ایمان کو ارتکاب محرمات کے ساتھ نہیں ملایا۔ اگر طاعت ایمان میں داخل ہوتو ظلم ایمان سے علیحدہ چیز ہوئی کیونکہ کسی شی کے جزء کی ضد اس شے سے علیحدہ ہوتی ہے ورنہ اجتماع ضدین لازم آئے گا۔ پس اجتناب من المحرمات کا عطف ایمان پر بے فائدہ تکرار ہو گا۔
چوتھی آیت:
فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصَّالِحَاتِ وَہُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہِ وَاِنَّا لَہٗ کَاتِبُوْنَ
انبیاء :94
”پھر جو بھی نیک عمل کرے اور وہ مومن بھی ہو تو اس کی کوشش کی بے قدری نہیں کی جائے گی، ہم تو اس کے لکھنے والے ہیں۔“
اس آیت میں صحت عمل کے لیے ایمان کو شرط قرار دیا گیا ہے۔ اور شرط شے ماہیت شے سے خارج ہوتی ہے۔ لہٰذا عمل صالح ماہیت ایمان سے خارج ثابت ہوا۔
پانچویں آیت:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ
البقرہ:183
”اے ایمان والو تم پر روزے رکھنا فرض کیا گیا جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم تقویٰ اختیار کرو۔“
چھٹی آیت:
قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلاَۃَ وَیُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰہُمْ سِرًّا وَّعَلانِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّأْتِیَ یَوْمٌ لاَّ بَیْعٌ فِیْہِ وَلاَ خِلاَلٌ
ابراہیم:31
”میرے ایمان والے بندو سے کہہ دیجیے کہ نمازوں کو قائم رکھیں اور جو کچھ ہم نے انہیں دے رکھا ہے اس میں کچھ نہ کچھ پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں اس سے پہلے کہ وہ دن آ جائے جس میں نہ خرید و فروخت ہو گی نہ دوستی اور محبت“
ساتویں آیت:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ
المائدہ:6
”اے ایمان والو جب تم نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں کو ٹخنوں سمیت دھو لو۔“
ان تینوں آیتوں میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے ایمان کے ساتھ خطاب کیا۔ پھر اعمال کے ساتھ مکلف فرمایا۔ اس سے پایا جاتا ہے کہ عمل؛ مفہوم ایمان سے خارج ہے ورنہ تحصیل حاصل کے ساتھ مکلف کرنا لازم آئے گا۔ کذا قال العینی
آٹھویں آیت:
یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ تَوْبَۃً نَّصُوْحًا
التحریم:8
”اے ایمان والو تم اﷲ کے سامنے سچی خالص توبہ کرو۔“
نویں آیت:
وَتُوْبُوْا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَا الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ
النور:31
”اے مسلمانو تم سب کے سب اﷲ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ۔“
علامہ عینی لکھتے ہیں:
وہذا یدل علی صحۃ اجتماع الایمان مع المعصیۃ لان التوبۃ لا تکون الا من المعصیۃ والشیء لا یجتمع مع ضد جزئہ
یعنی اس سے پایا جاتا ہے کہ ایمان معصیت کے ساتھ جمع ہو سکتا ہے۔ کیونکہ توبہ معصیت ہی سے ہوتی ہے۔ اور کوئی شیء اپنے جزء کی ضد کے ساتھ جمع نہیں ہوتی۔
دسویں آیت:
یَا اَیُّہَا الرَّسُوْلُ لاَ یَحْزُنْکَ الَّذِیْنَ یُسَارِعُوْنَ فِی الْکُفْرِ مِنَ الَّذِیْنَ قَالُوْا اٰمَنَّا بِاَفْوَاہِہِمْ وَلَمْ تُؤْمِنْ قُلُوْبُہُمْ
المائدہ:41
”اے رسول آپ ان لوگوں کے پیچھے نہ کڑھیے جو کفر میں سبقت کر رہے ہیں خواہ وہ ان منافقوں میں سے ہوں جو زبانی تو ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن حقیقتاً ان کے دل باایمان نہیں۔“
اس آیت میں ایمان کو دل کا فعل بتایا گیا ہے۔
گیارہویں آیت:
مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْ بَعْدِ ایْمَانِہٖ اِلاَّ مَنْ اُکْرِہَ وَقَلْبُہُ مُطْمَئِنٌّ بِالْاِیْمَانِ
النحل:106
”جو شخص اپنے ایمان کے بعد اﷲ سے کفر کر لے بجز اس کے جس پر جبر کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر برقرار ہو۔“
بارہویں آیت:
قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ
الحجرات:14
”دیہاتی لوگ کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے۔ آپ کہہ دیجیے کہ درحقیقت تم ایمان نہیں لائے لیکن تم یوں کہو ہم اسلام لائے )مخالفت چھوڑ کر مطیع ہو گئے(حالانکہ ابھی تک تمہارے دلوں میں ایمان داخل ہی نہیں ہوا۔“
تیرہویں آیت:
اُولٰٓئِکَ کَتَبَ فِیْ قُلُوبِہِمُ الْاِیْمَانَ وَاَیَّدَہُمْ بِرُوْحٍ مِّنْہُ
المجادلہ22
”یہی لوگ ہیں جن کے دلوں میں اﷲ تعالیٰ نے ایمان کو رکھ دیا ہے اور جن کی تائید اپنی روح سے کی ہے۔“
ان آیتوں میں ایمان کا محل دل قرار دیا گیا ہے۔پس آیات مذکورہ بالا سے صاف ظاہر ہو گیا کہ ایمان تصدیق قلبی کا نام ہے۔ اسی تصدیق قلبی کی نسبت امام صاحب فرماتے ہیں کہ اس میں باعتبار کمیت زیادت و نقصان متصور نہیں۔ چنانچہ آپ کتاب الوصیۃ میں فرماتے ہیں:
ثم الایمان لا یزید ولا ینقص لانہ لا یتصور زیادۃ الایمان الا بنقصان الکفر ولا یتصور نقصان الایمان الا بزیادۃ الکفر فکیف یجوز ان یکون الشخص الواحد فی حالۃ واحدۃ مؤمنا وکافرا
شرح فقہ اکبر العلی القاری مطبوعہ لاہور ص99
”ایمان نہ تو بڑھتا ہے نہ کم ہوتا ہے، اس لیے کہ ایمان میں زیادتی تبھی ہوگی جب کفر میں کمی ہوگی اور ایمان میں کمی تبھی ہوگی جب کفر میں اضافہ ہوگا۔ تو یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ کوئی شخص ایک ہی وقت میں مسلمان بھی ہو اور کافر بھی۔“
اب ہم ان آیتوں کو ذکر کرتے ہیں جن میں زیادت ایمان مذکور ہے۔
پہلی آیت:
ہُوَ الَّذِیْ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ
الفتح:4
”وہی ہے جس نے مسلمانوں کے دلوں میں سکون اور اطمینان ڈال دیا تاکہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ساتھ اور بھی ایمان میں بڑھ جائیں۔“
اس آیت کے تحت میں تفسیر روح البیان میں ہے:
ای یقینًا متضمًا الی یقینہم الذی علیہ برسوخ العقیدۃ واطمئنان النفس علیہ ومن ثمہ قال علیہ السلام لو وزن ایمان ابی بکر مع الثقلین لرجح وکلمۃ مع فی ایمانہم لیست علی حقیقتھا لان الواقع فی الحقیقۃ لیس انضمام یقین الی یقین لامتناع اجتماع المثلین بل حصول نوع یقین اقوی من الاول فان لہ مراتب لا تحصی من اجلی البدیہیات الی اخفی النظریات ثم لاینفی الاول ما قلنا وذلک کما فی مراتب البیاض علی ما حقق فی مقامہ ففیہا استعارۃ او المعنی انزل فیہا السکون الی ما جاء بہ النبی علیہ السلام من الشرائع لیزدادوا ایمانا بہا مقرونا مع ایمانہم بالوحدانیۃ والیوم الاخر فکلمۃ القرآن علی حقیقتھا والقرآن فی الحقیقۃ لتعلق الایمان بزیادۃ متعلقۃ فلا یلزم اجتماع المثلین وعن ابن عباس رضی اﷲ عنہما ان اول ما اتاہم بہ النبی علیہ السلام التوحید ثم الصلاۃ والزکاۃ ثم الحج والجہاد حتی اکمل لہم دینہم کما قال الیوم اکملت لکم دینکم فازدادوا ایمانا مع ایمانہم فکان الایمان یزید فی ذلک الزمان بزیادۃ الشرائع والاحکام واما الان فلا یزید ولا ینقص بل یزید نورہ ویقوی بکثرۃ الاعمال وقوۃ الاحوال فہو کالجوہر الفرد فکما لا یتصور الزیادۃ والنقصان فی الجوہر الفرد من حیث ہو فکذا فی الایمان۔
یعنی اﷲ تعالیٰ نے مومنوں کے دلوں میں ثبات و طمانیت نازل کی تاکہ رسوخ عقیدہ و اطمینان نفس کے سبب ان کے پہلے یقین کے ساتھ اور یقین مل جائے۔ اسی وجہ سے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالی عنہ کا ایمان جن و انس کے ساتھ وزن کیا جاوے تو غالب نکلے۔ اور مع ایمانہم میں کلمہ مع اپنے حقیقی معنی پر نہیں کیونکہ حقیقت میں یقین کی زیادتی یقین پر واقع نہیں اس لیے کہ اجتماع مثلین ممتنع ہے، بلکہ نوع یقین کا حصول جو پہلے سے اقوی ہو۔ کیونکہ یقین کے مراتب اجلی البدیہات سے لے کر اخفی النظریات تک بے شمار ہیں۔ پھر ہمارا یہ قول اول کا منافی نہیں اور یہ اسی طرح ہے جیسا کہ مراتب بیاض جس کی تحقیق اپنے مقام پر مذکور ہے۔ پس اس میں استعارہ ہے یا معنی یہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے شرائع و احکام کے ساتھ مومنوں کے دلوں میں سکون نازل کر دیا تاکہ وہ وحدانیت و یوم آخر کے ایمان پر ان شرائع کے ایمان کو زائد کر لیں۔ پس کلمہ قرآن اپنے حقیقی معنی پر رہے گا اور قرآن حقیقت پر محمول ہو گا کیونکہ اس صورت میں ایمان کا تعلق اپنے متعلق کی زیادتی کے ساتھ ہو گا۔ پس اجتماع مثلین نہ لازم آئے گا۔
اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ پہلے جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام لائے ،وہ توحید تھی۔ پھر نماز و زکوٰۃ۔ پھر حج و جہاد یہاں تک کہ دین کو کامل کر دیا جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے الیوم اکملت لکم دینکم پس انہوں نے ایمان کے ساتھ ایمان کو زیادہ کیا۔ لہٰذا اس زمانے میں شرائع و احکام کی زیادتی کے ساتھ ایمان زائد ہوتا تھا۔ لیکن اب نہ زائد ہوتا ہے نہ ناقص۔ بلکہ اس کا نور زائد ہوتا ہے اور وہ کثرت اعمال اور قوت احوال سے قوی ہوتا ہے، پس وہ جو ہر فرد کی مانند ہے، جیسا کہ جوہر فرد میں من حیث ہو زیادت و نقصان متصور نہیں۔ اسی طرح ایمان میں بحیثیت ماہیت کمی بیشی متصور نہیں۔
دوسری آیت:
وَمَا جَعَلْنَآ اَصْحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰئِکَۃً وَّمَا جَعَلْنَا عِدَّتَہُمْ اِلَّا فِتْنَۃً لِّلَّذِیْنَ کَفَرُوْا لِیَسْتَیْقِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ وَیَزْدَادَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِیْمَانًا
المدثر31
”ہم نے دوزخ کے داروغے صرف فرشتے رکھے ہیں اور ہم نے ان کی تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے تاکہ اہل کتاب یقین کر لیں اور اہل ایمان کے ایمان میں اضافہ ہو جائے۔“
امام اسماعیل حقی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
ای یزداد ایمانہم کیفیۃ بما رأو امن تسلیم اہل الکتاب تصدیقہم انہ کذلک او کمیۃ بانضمام ایمانہم بذلک الی ایمانہم بسائر ما انزل
تفسیر روح البیان
یعنی مومنوں کا ایمان اہل کتاب کی تسلیم و تصدیق کو دیکھ کر کیفیت میں زیادہ ہو جائے۔ یا کمیت میں زیادہ ہو جائے۔ بدیں طور کہ اس عدد ملائک نار کے ساتھ باقی احکام و شرائع پر بھی ایمان لائیں۔
تیسری آیت:
اَلَّذِیْنَ قَالَ لَہُمُ النَّاسُ اِنَّ النَّاسَ قَدْ جَمَعُوْا لَکُمْ فَاخْشَوْہُمْ فَزَادَہُمْ اِیْمَانًا وَّقَالُوْا حَسْبُنَا اللّٰہُ وَنِعْمَ الْوَکِیْلُ
آل عمران:173
”وہ لوگ کہ جب ان سے لوگوں نے کہا کہ کافروں نے تمہارے مقابلے پر لشکر جمع کر لیے ہیں تم ان سے خوف کھاؤ تو اس بات نے انہیں ایمان میں اور بڑھا دیا اور کہنے لگے ہمیں اﷲ کافی ہے اور وہ بہت اچھا کارساز ہے۔“
اس آیت میں بھی ایمان سے مراد زیادت اطمینان نفس ہے۔ چنانچہ روح البیان میں ہے۔
والمعنی لم یلتفتوا الی ذلک بل ثبت بہ یقینہم وازداد اطمینانہم واظہروا حمیۃ الاسلام واخلصوا النیۃ عندہ
ج2 ص 104
چوتھی آیت:
وَاِذَا مَا اُنْزِلَتْ سُوْرَۃٌ فَمِنْہُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ اَیُّکُمْ زَادَتْہُ ہٰذِہِ اِیْمَانًا فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَہُمْ یَسْتَبْشِرُونَ
التوبہ:124
”اور جب کوئی سورت نازل کی جاتی ہے تو بعض منافقین کہتے ہیں کہ اس سورت نے تم میں سے کس کے ایمان کو زیادہ کیا ہے سو جو لوگ ایمان والے ہیں اس سورت نے ان کے ایمان کو زیادہ کیا ہے اور وہ خوش ہو رہے ہیں۔“
روح البیان میں فزادتہم ایمانا کے تحت میں ہے۔
ہذا بحسب المتعلق وہو مخصوص بزمان النبی علیہ السلام واما الان فالمذہب علی ان الایمان لا یزید ولا ینقص وانما تتفاوت درجاتہ قوۃ وضعفا فانہ لیس من یعرف الشیء اجمالا کمن یعرفہ تفصیلا کما ان من رای الشیء من بعید لیس کمن یراہ من قریب
ج 3 ص 407
یعنی یہ زیادت ایمان کے متعلق ایمان کے لحاظ سے ہے اور یہ خاص ہے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے کے ساتھ۔ لیکن اب مذہب یہ ہے کہ ایمان نہ زائد ہوتا ہے نہ ناقص۔ ہاں ایمان کے درجے قوت و ضعف کے لحاظ سے متفاوت ہیں۔ کیونکہ جو شخص کسی چیز کو بطریق اجمال جانتا ہو وہ اس کی مانند نہیں جو اس چیز کو بطریق تفصیل جانتا ہے، جیسا کہ جو شخص کسی چیز کو دور سے دیکھے وہ اس کی مانند نہیں جو اسے نزدیک سے دیکھتا ہے۔
پانچویں آیت:
وَلَمَّا رَاَی الْمُؤْمِنُوْنَ الْاَحْزَابَ قَالُوْا ہٰذَا مَا وَعَدَنَا اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ وَصَدَقَ اللّٰہُ وَرَسُوْلُہُ وَمَا زَادَہُمْ اِلَّا اِیْمَانًا وَّتَسْلِیْمًا
الاحزاب:22
اس آیت میں بھی زیادت ایمان سے مراد زیادت بحسب الکیفیت ہے۔
چھٹی آیت:
اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوبُہُمْ وَاِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیَاتُہُ زَادَتْہُمْ اِیْمَاناً وَّعَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ٭
الانفال:2
”بس ایمان والے تو ایسے ہوتے ہیں کہ جب اﷲ تعالیٰ کا ذکر آتا ہے تو ان کے قلوب ڈر جاتے ہیں اور جب اﷲ کی آیتیں ان کو پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو وہ آیتیں ان کے ایمان کو اور زیادہ کر دیتی ہیں اور وہ لوگ اپنے رب پر توکل کرتے ہیں۔“
علامہ علی القاری واذا تلیت علیہم ایاتہ زادتھم ایمانا کی نسبت لکھتے ہیں۔
فمعناہ ایقانا او مؤل بان المراد زیادۃ الایمان بزیادۃ نزول المومن بہ۔ ای القرآن
شرح فقہ اکبر ص100
یعنی زیادت ایمان کے معنی ایقان ہیں، یا اس کی یوں تاویل کی جائےگی کہ مومن بہ یعنی قرآن کے نزول کی زیادتی سے ایمان کی زیادتی مراد ہے۔
امام فخر رازی لکھتے ہیں:
وقولہ واذا تلیت علیہم ایاتہ زادتہم ایمانا معناہ انہم کلما سمعوا ایۃ جدیدۃ اتوا با اقرار جدید فکان ذلک زیادۃ فی الایمان والتصدیق
تفسیر کبیر۔ جزء رابع ص512
یعنی اس کے معنی یہ ہیں کہ جب انہوں نے کوئی نئی آیت سنی تو نیا اقرار کیا۔ پس یہ ایمان و تصدیق میں زیادتی ہوئی۔
پس آیات مذکورہ بالا میں زیادت ایمان کو اگر حقیقت پر محمول کریں تو یہ زیادت بحسب المتعلق ہو گی اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمان مبارک سے مخصوص ہو گی۔ اور اگر مجاز پر محمول کریں تو زیادت بحسب الکیفیۃ ثابت ہو گی۔ امام صاحب نے کہیں اس طرح کی زیادتی کی مخالفت نہیں کی۔ آپ کا مطلب تو یہ ہے کہ ہمارا ایمان بحسب الکمیۃ نہ زائد ہوتا ہے نہ ناقص۔ اور یہ قرآن کریم کی کسی آیت کے مخالف نہیں۔
شرح مواقف میں ماتن کے قول الاول القوۃ و الضعف پر ایک محشی نے کیا خوب لکھا ہے:
قیل ہذا مسلم لکن لا طائل تحتہ اذا النزاع انما ہو فی تفاوت الایمان بحسب الکمیۃ اعنی القلۃ والکثرۃ فان الزیادۃ اکثر ما یستعمل فی الاعداد واما التفاوت فی الکیفیۃ اعنی القوۃ والضعف فخارج عن محل النزاع
شرح مواقف، مطبوعہ استبنول، ج3، ص252
کہا گیا کہ یہ امر )یعنی زیادت و نقصان تصدیق بحیثیت قوت و ضعف) مسلم ہے۔ لیکن اس میں کچھ فائدہ نہیں کیونکہ نزاع تو اس میں ہے کہ آیا ایمان بحسب الکمیۃ یعنی قلت و کثرت میں متفاوت ہوتا ہے؟ کیونکہ لفظ زیادت اکثر عددوں میں مستعمل ہوتا ہے۔ رہا تفاوت کیفیت یعنی قوت و ضعف میں، تو وہ محل نزاع سے خارج ہے۔
علامہ علی القاری شرح فقہ اکبر ص95 میں لکھتے ہیں:
فالتحقیق ان الایمان کما قال الامام الرازی لا یقبل الزیادۃ والنقصان من حیثیۃ اصل التصدیق لا من جہۃ الیقین فان مراتب اہلہا مختلفۃ فی کمال الدین کما اشار الیہ سبحانہ یقولہ واذا قال ابراہیم رب ارنی کیف تحی الموتی قال اولم تومن قال بلی ولکن لیطمئن قلبی فان مرتبۃ عن الیقین فوق مرتبۃ علم الیقین ولذ اورد لیس الخبر کالمعائۃ
یعنی تحقیق یہ ہے کہ ایمان جیسا کہ امام رازی نے فرمایا بحیثیت اصل تصدیق زیادتی و نقصان کو قبول نہیں کرتا۔ ہاں بحیثیت یقین قبول کرتا ہے کیونکہ اہل یقین کے مراتب کمال دین میں مختلف ہوتے ہیں جیسا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا۔ اور جب کہا حضرت ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلام نے اے میرے پروردگار تو دکھا مجھ کو کیونکر زندہ کرتا ہے تو مردوں کو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہوا کیا تو ایمان نہیں لایا؟ آپ نے عرض کی ہاں لیکن اس لیے تاکہ میرا دل اطمینان پائے۔ کیونکہ مرتبہ عین الیقین کا بڑھ کر ہے مرتبہ علم الیقین سے اور اسی لیے آیا ہے کہ سنی ہوئی بات دیکھی ہوئی کی مانند نہیں۔
محدثین نے جو ایمان کی تفسیر میں یوں لکھا ہے۔ وہو قول وفعل ویزید و ینقصتو اس سے ان کی مراد ایمان کامل ہے جس میں اعمال صالحہ بھی داخل ہیں۔
علامہ عینی لکھتے ہیں:
وقال الامام ہذا البحث لفظی لان المراد بالایمان ان کان ہو التصدیق فلا یقبلھا وان کان الطاعات فیقبلھا ثم قال الطاعات مکملۃ للتصدیق فکل ما قام من الدلیل علی ان الایمان لا یقبل الزیادۃ والنقصان کان مصروفا الی اصل الایمان الذی ہو التصدیق وکل ما دل علی کون الایمان یقیل الزیادۃ والنقصان فہو مصروف الی الکامل وہو مقرون بالعمل
عمدۃ القاری جزء اول ص127
یعنی کہا امام رحمہ اللہ تعالی نے کہ یہ بحث لفظی ہے کیونکہ اگر ایمان سے مراد تصدیق ہو تو وہ زیادتی و نقصان کو قبول نہیں کرتا۔ اور اگر ایمان سے مراد طاعات ہوں تو وہ کمی بیشی کو قبول کرے گا۔ پھر فرمایا امام رحمہ اللہ تعالی نے کہ اعمال صالح تصدیق کے کامل بنانے والے ہیں۔ پس ہر ایک دلیل اس امر پر کہ ایمان زیادتی و نقصان کو قبول نہیں کرتا اصل ایمان یعنی تصدیق کی طرف راجع ہو گی اور ہر چیز جو دلالت کرے اس بات پر کہ ایمان زیادت و نقصان کو قبول کرتا ہے وہ ایمان کامل کی طرف راجع ہو گی اور ایمان کامل وہ ہے جو عمل سے مقرون ہو۔
نوٹ:
طالب الرحمن نے ص23 سے لے کر ص35 تک دس مسائل وہ ذکر کیے تھے جو ان کے خیال میں قرآن پاک کے صریح خلاف تھے ہم نے ان کے جوابات عرض کر دیے ہیں۔ اس کے بعد ص35 سے لے کر ص42 تک دس مسائل وہ ذکر کیے ہیں جو ان کے خیال کے مطابق بخاری شریف کے خلاف ہیں۔ قارئین کرام اب ترتیب وار ان اعتراضات کی حقیقت بھی معلوم کر لیں۔
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
آیئے بخاری کی ان احادیث کی طرف جن پر عمل کرنا احناف کو پسند نہیں۔ بلکہ وہ لوگ اپنے ائمہ کے اقوال کو ترجیح دیتے ہیں۔
اعتراض نمبر11: فجر اور عصر کے دوران
سورج کے طلوع و غروب کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
حدیث کے آدھے حصے کا اقرارـ آدھے کا انکار
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے۔
حَدَّثَنَا أَبُو نُعَیْمٍ قَالَ حَدَّثَنَا شَیْبَانُ عَنْ یَحْیَی عَنْ أَبِی سَلَمَۃَ عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اﷲُ عَنْہ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام إِذَا أَدْرَکَ أَحَدُکُمْ سَجْدَۃً مِنْ صَلَاۃِ الْعَصْرِ قَبْلَ أَنْ تَغْرُبَ الشَّمْسُ فَلْیُتِمَّ صَلَاتَہُ وَإِذَا أَدْرَکَ سَجْدَۃً مِنْ صَلَاۃِ الصُّبْحِ قَبْلَ أَنْ تَطْلُعَ الشَّمْسُ فَلْیُتِمَّ صَلَاتَہُ
بخاری رقم: 556
کہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب تم میں سے کوئی عصر کی نماز کی ایک رکعت سورج ڈوبنے سے پہلے پا لے تو اپنی نماز پوری کر لے اور جب فجر کی نماز کی ایک رکعت سورج طلوع ہونے سے پہلے پا لے تو اپنی نماز پوری کر لے۔
فقہ حنفی میں ہے:
اب احناف بخاری کی اس حدیث کے ایک حصے پر عمل کرتے ہیں اور ایک حصے کا انکار کرتے ہیں۔جیسا کہ امام زیلعی حنفی نصب الرایہ میں لکھتے ہیں:
وہذہ الاحادیث ایضا مشکلۃ عن مذہبنا فی القول ببطلان صلاۃ الصبح اذا طلعت علیہا الشمس
نصب الرایہ:1/229
”احادیث صحیحہ ہمارے مذہب کے اس قول میں اشکال پیدا کر رہی ہیں کہ اگر صبح کی نماز کے دوران سورج طلوع ہو جائے تو ایسی صورت میں پڑھی جانے والی نماز باطل ہو جاتی ہے۔“
دوران نماز سورج نکلنے کی وجہ سے صبح کی نماز باطل ہونے کا فتویٰ احسن الفتاویٰ 2/131، فتاویٰ دار العلوم دیوبند:4/47، اور ارشاد القاری:1/412 میں بھی موجود ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے ص35، 36
گیارہویں اعتراض کا جواب
یہ اعتراض طالب الرحمن نے شمع محمدی سے نقل کیا ہے اور جونا گڑھی نے ظفر المبین سے سرقہ کیا ہے۔ ہم فتح المبین فی کشف مکائد غیر المقلدین ص67 تا 72 سے اعتراض اور اس کا مکمل جواب نقل کرتے ہیں۔
اعتراض:
اور ایک مسئلہ امام اعظم کا مخالف پیغمبر علیہ الصلوۃ والسلام کی حدیث کے یہ ہے جو کہ ہدایہ اور شرح وقایہ اور کنز الدقائق اور رد المحتار شرح در المختار اور فتاویٰ عالمگیری اور فتاویٰ قاضی خان میں لکھا ہے۔
ولا صلٰوۃ جنازۃ لما روینا ولا سجدۃ تلاوۃ لانہا فی معنی الصلٰوۃ الا عصر یومہ عند الغروب
یعنی آفتاب کے طلوع کے وقت اور غروب کے وقت اور جس وقت عین دوپہر ہو نماز اور سجدہ تلاوت کا اور نماز جنازے کی جائز نہیں ہے مگر آفتاب کے غروب کے وقت فقط اس دن کی نماز عصر کی تو البتہ جائز ہے۔ الخ
جواب:
معنی اس حدیث کے امام نووی شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
اذا ادرک من لا یجب علیہ الصلٰوۃ رکعۃ من وقتھا لزمتہ تلک الصلٰوۃ وذلک فی الصبی یبلغ والمجنون والمعنی علیہ یفیقان والحائض والنفساء تطہران والکافر یسلم فمن ادرک من ہولاء رکعۃ قبل خروج الوقت لزمتہ تلک الصلٰوۃ
یعنی جس وقت پاوے وہ شخص کہ واجب نہیں نماز اس پر مقدار ایک رکعت کے اس کے وقت سے تو لازم ہے اس کو یہ نماز اور یہ صورت لڑکے میں ہے کہ بالغ ہو جاوے اور مجنون اور بے ہوش میں کہ افاقہ پا جائیں اور حائض اور نفاس میں کہ پاک ہو جائیں اور کافر میں کہ مسلمان ہو جاوے۔ پس جو شخص ان میں سے ایک رکعت پہلے خارج ہونے وقت کے پائے گا تو نماز اس پر واجب ہو جاوے گی۔ انتہٰی۔
یعنی یہ حکم کافر وغیرہ کے بارے میں ہے کہ ایسے وقت میں مسلمان ہو یا بالغ ہو کہ ایک رکعت کی مقدار کا وقت باقی ہو تو اس صورت میں نماز اس پر واجب ہو جائے گی اور پوری نماز پڑھنی لازم ہو گی۔ یا پھر اس حدیث کے معنی یہ ہوں گے جیسا کہ شرح مسلم میں لکھتے ہیں:
اذا ادرک المسبوق مع الامام رکعۃ کان مدرکا فضیلۃ الجماعۃ بلا خلاف
یعنی جو شخص کہ بعد آ کر ملے اور ایک رکعت امام کے ساتھ پائے تو وہ شخص جماعت کی فضیلت بلا خلاف پائے گا۔ انتہٰی۔
یعنی یا اس حدیث کو باعتبار فضیلت جماعت کے لیا جائے کہ جس کو ایک رکعت بھی جماعت کے ساتھ مل جائے گویا نماز پوری مل گئی اگر اس حدیث کے یہی معنی لیے جائیں گے کہ وقت طلوع آفتاب کے بھی نماز پڑھنی چاہیے تو یہ معنی دوسری حدیث کے جو مسلم میں آئی ہے مخالف ہو جائیں گے۔ اوروہ حدیث یہ ہے:
ووقت صلٰوۃ الصبح من طلوع الفجر ما لم تطلع الشمس فاذا طلعت الشمس فامسک عن الصلٰوۃ فانھا تطلع بین قرنی الشیطن
یعنی اور وقت نماز صبح کا طلوع فجر سے اس وقت تک ہے کہ جب تک آفتاب نے طلوع نہ کیا ہو پس وقت طلوع کرنے آفتاب کے ٹھہر جا تو نماز سے اس واسطے کہ تحقیق یہ آفتاب طلوع کرتا ہے درمیان دو قرنوں شیطان کے۔ انتہیٰ
دوسری حدیث مسلم و غیرہ کی جو عقبہ بن عامر سے فتح القدیر میں لکھی ہے یہ ہے:
ثلث ساعات کان رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نہانا ان نصلی فیہن او نقبر فیہن موتانا حین تطلع الشمس بازغۃ حتی ترتفع وحین تقوم قائم الظہیرۃ حتی تمیز الشمس وحین تضیف للغروب حتی تغرب وہو انما یفید عدم الحل فی جنس الصلٰوۃ دون عدم الصحۃ فی بعضھا بخصوصۃ والمفید لھا انما ہو قولہ علیہ السلام ان الشمس تطلع بین قرنی الشیطان فاذا ارتفعت فارقہا ثم اذا استوقت قارنہا فاذا زالت قارنہا وذا دنت للغروب قارنھا واذا غربت فارقھا ونہی عن الصلوۃ فی تلک الساعات رواہ مالک فی الموطا والنسائی
یعنی تین وقت رسول علیہ الصلوۃ والسلام ہم کو منع کرتے تھے نماز پڑھنے کو یا مردہ دفن کرنے کو۔ ایک تو وقت طلوع آفتاب کے یہاں تک کہ اونچا ہو اور دوسرے وقت ٹھیک دوپہر کے یہاں تک کہ آفتاب ڈھلے اور تیسرے غروب ہونے کو جس وقت مائل ہو یہاں تک کہ غروب ہو جاوے۔ اور یہ حدیث فائدہ دیتی ہے اس کا کہ جنس نماز کسی قسم کی ہو حلال نہیں نہ یہ کہ خاص بعضی نماز درست نہ ہو۔ اور اس کا فائدہ دیتا ہے قول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا کہ تحقیق آفتاب طلوع کرتا ہے درمیان دو قرنوں شیطان کے پس جس وقت خوب بلند ہو جاتا ہے الگ ہو جاتا ہے اس سے شیطان۔ پھر جس وقت برابر سر کے آ جاتا ہے تو نزدیک ہو جاتا ہے اس کے پھر جس وقت ڈھل جاتا ہے اور جس وقت قریب غروب کے ہوتا ہے پھر شیطان اس کے پاس آ جاتا ہے اور جب غروب ہو جاتا ہے جدا ہو جاتا ہے اور منع کیا ہے نماز سے ان وقتوں میں۔ روایت کیا اس کو مالک نے موطا میں اور روایت کیا نسائی نے۔ انتہیٰ
اور یہ حدیثیں اس حدیث کے بعد وارد ہوئی ہیں چنانچہ علامہ عینی نے شرح ہدایہ میں لکھا ہے:
وقال الحاوی ورود ہذا الحدیث ای حدیث من ادرک کان قبل نہیہ علیہ السلام من الصلوۃ فی الاوقات المکروہۃ
یعنی کہا امام طحاوی نے وارد ہونا اس حدیث کا؛ یعنی حدیث من ادرک کا؛ تھا پہلے ممانعت فرمانے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے اوقات مکروہ میں۔ انتہٰی۔
اس لیے امام طحاوی اس حدیث کے منسوخ ہونے کے قائل ہیں۔ چنانچہ رد المحتار میں لکھا ہے:
الا ان الامام الطحاوی قال الحدیث منسوخ بالنصوص الناہیۃ وادعی ان العصر یبطل ایضا کالفجر
یعنی علاوہ اس کے یہ بات ہے کہ امام طحاوی نے کہا ہے کہ تحقیق یہ حدیث منسوخ ہے ساتھ احادیث ممانعت کرنی والی کے اور دعویٰ کیا کہ اس کی عصر بھی باطل ہو جاوے گی مثل فجر کے۔ انتہی۔
اور برہان شرح مواہب الرحمن میں لکھا ہے:
وزاد الطحاوی مخالفا للامام وصاحبیہ عدم جواز عصر یومہ کالفجر وسائر الواجبات مدعیا انتساخ کلہا بالنصوص الناہیۃ والا یلزم العمل ببعض الحدیث وترک بعضہ
یعنی اور زیادہ کیا امام طحاوی نے در انحالیکہ وہ خلاف کرنے والے تھے امام صاحب و صاحبین کے نہ جائز ہونا اس روز کی عصر کا مثل فجر کے اور باقی واجبات کے اس حال میں کہ دعویٰ کرتے ہیں وہ کل ان احادیث کے منسوخ ہونے کا بسبب احادیث نہی کے ورنہ لازم آ جائے گا عمل ساتھ بعض حدیث کے اور ترک بعض حدیث کا۔ انتہی
اگر بالفرض منسوخ ہونے کو تسلیم نہ کیا جائے تو تعارض سے خالی نہیں اس لیے کہ بعض حدیث میں نماز پڑھ لینا آیا ہے اور بعض میں ممانعت آئی ہے پس وقت تعارض کے دونوں حدیثوں پر عمل کرنا محال ہے اس لیے قیاس جس حدیث کو ترجیح دے گا اس حدیث پر عمل کیا جاوے گا۔
لمعات التنقیح شرح مشکوٰۃ المصابیح از شیخ عبدالحق محدث دہلوی میں ہے:
والجواب انہ قد وقع التعارض بین ہذا الحدیث وبین الاحادیث الواردۃ فی النہی عن الصلوۃ فی الاوقات الثلثۃ فانہا تعم الفرض والنفل ولیست مخصوصۃ بالنفل کما زعمت الشافعیۃ وحکم التعارض بین الحدیثین الرجوع الی القیاس والقیاس رجع حکم ہذا الحدیث فی صلوۃ العصر وحکم النہی فی صلوۃ الفجر کما ذکرنا و لیست الاحادیث فی النہی عن الثلثۃ مخصوصۃ بالنفل کالنہی عن الصلوۃ بعد الفجر والعصر کما زعمت الشافعیۃ لقولہ صلی اﷲ علیہ وسلم من نام عن الصلٰوۃ او نسیہا فلیصلھا اذا ذکرہا فان ذلک وقتھا ای اولہ وبہ یوفقون بین ہذا الحدیث وتلک الاحادیث لان التخصیص خلاف الظاہر وظاہر الاحادیث النہی عن الفرائض والنوافل
یعنی اور جواب یہ ہے کہ تحقیق تعارض واقع ہوا اس حدیث میں اور ان احادیث میں جن میں تین وقتوں میں نماز کی ممانعت وارد ہے۔ کیونکہ وہ شامل ہیں فرض اور نفل کو اور نہیں خاص ہیں نفل کے ساتھ جیسا کہ گمان کیا ہے شافعیہ نے۔ اور حکم تعارض کا درمیان دو حدیثوں کے رجوع کرنا ہے طرف قیاس کے اور قیاس نے اس حدیث کے حکم کو صلوٰۃ عصر کے جواز میں ترجیح دی اور حکم نہی کو نماز فجر کے عدم جواز میں ترجیح دی جیسا کہ ذکر کیا ہم نے۔
اور تین وقتوں میں نماز کی ممانعت کی حدیثیں نقل کے ساتھ خاص نہیں مثل حدیث ممانعت کے بعد فجر اور عصر کے جیسا کہ گمان کیا اس کا شافعیہ نے بوجہ ارشاد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے کہ جو شخص سو جاوے نماز سے یا بھول جاوے اس کو پس چاہیے کہ پڑھے اس کو جب یاد آوے۔ اس واسطے کہ تحقیق یہی وقت اس کا ہے یعنی اول وقت ہے اور اسی سے موافقت دیتے ہیں فقہائے محدثین درمیان اس حدیث کے اور ان احادیث کے، اس وجہ سے تخصیص کرنا ساتھ نفل کے خلاف ظاہر کے ہے اور ظاہر احادیث کا نہی ہے فرائض اور نوافل سے۔ انتہیٰ
اسی طرح کہا علامہ عینی اور علامہ ابن ہمام نے اور حدیث میں بھی جو علت بیان کی ہے عام معلوم ہوتی ہے چنانچہ فتح القدیر کی عبارت میں ذکر اس کا ہو چکا ہے اس کے بعد لمعات میں لکھا ہے:
وقال بعض اصحابنا احادیث النہی ناسخۃ لہذا الحدیث وکان ورودہ قبل النہی ومقتضاہ ان یبطل العصر ایضا بما ذکرنا فجوزنا فی العصر ہذا وقد روی عن ابی یوسف ان الفجر لا یفسد بطلوع الشمس
یعنی کہا ہمارے بعض اصحاب نے حدیثیں نہی کی ناسخ ہیں اس حدیث کی اور تھا تھا ورود اس حدیث کا قبل وارد ہونے نہی کے اور مقتضی اس قول کا یہ ہے کہ نماز عصر بھی باطل ہو جائے لیکن ہم نے اس کی علت بیان کر دی پس جائز رکھا ہم نے عصر میں اس کو اور تحقیق روایت کی گئی ہے امام ابو یوسف سے یہ کہ بے شک نماز فجر نہیں فاسد ہوتی طلوع آفتاب سے۔ انتہی
اور فتح المنان میں لکھا ہے کہ فجر کا کل وقت کامل ہے پس جب نماز اس وقت میں شروع کرے گا کامل ہی واجب ہو گی پس جب کہ طلوع سے نقصان عارض ہوا تو جیسی نماز واجب ہوئی تھی ویسی ادا نہیں ہوئی بخلاف عصر کے اس لیے کہ آخر وقت اس کا ناقص ہے کیونکہ وقت مکروہ ہے پس جب کہ شروع کرے گا اس وقت میں تو ناقص واجب ہو گی پھر جب کہ غروب سے نقصان عارض ہو گا تو وہ جیسے واجب ہوئی تھی ادا ہو جائے گی۔ انتہی۔
اس کے بعد چند دلائل اور بیان کیے ہیں پھر اخیر بحث میں لکھا ہے :
وبما ذکرنا علم ان مذہب الحنفیۃ بنی علی التحقیق والتدقیق وان قیاساتہم ودلائلہم العقلیۃ لیست فی مقابلۃ النصوص بل لترجیح بعض الاحادیث علی بعض کما اشرنا الیہ فی مواضع
یعنی وجہ مذکور سے جانا گیا کہ بے شک مذہب حنفیہ کا تحقیق اور تدقیق پر بنا کیا گیا ہے اور یہ کہ قیاسات ان کے اور دلائل عقلیہ ان کے احادیث کے مقابل نہیں بلکہ واسطے ترجیح دینے بعض احادیث کے ہیں اوپر بعض کے چنانچہ اس کا اشارہ ہم بہت جگہ کر چکے ہیں۔ انتہی
اور شرح وقایہ میں ہے
فالقیاس رجع ہذا الحدیث فی صلٰوۃ العصر وحدیث النہی فی صلوۃ الفجر وما سائر الصلوۃ فلا یجوز فی الاوقات الثلث لحدیث النہی اذ لا معارض لحدیث النہی فیہا
یعنی پس قیاس نے ترجیح دی اس حدیث کو نماز عصر میں اور حدیث نہی کو نماز فجر میں اور لیکن تمام نمازیں پس نہیں جائز ہیں اوقات ثلاثہ میں بوجہ حدیث نہی کے اس واسطے کہ حدیث نہی کا ان وقتوں میں کوئی معارض نہیں۔ انتہی
اور مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں لکھا ہے کہ جز مقارن ادا کا سبب ہے وجوب نماز کا اور آخر وقت عصر کا ناقص ہے اس لیے کہ وقت ہے پرستش آفتاب کا پس واجب ہو گی نماز ناقص جب ادا کرے گا تو جیسا کہ نماز واجب ہوئی ہے ویسے ہی ادا کرے گا۔ پس فساد بسبب غروب کے آ جائے گا تو فاسد نہ ہو گی اور فجر کا کل وقت کامل ہے اسی لیے کہ آفتاب قبل طلوع کے پرستش نہیں کیا جاتا پس کامل واجب ہو گی پس جب طلوع سے فساد طاری ہو گا تو فاسد ہو جائے گی اس لیے کہ جیسے واجب ہوئی تھی ادا نہیں ہوئی۔ پس اگر کہا جائے کہ یہ علت مقابل حدیث کے ہے تو کہوں گا میں کہ جب احادیث میں تعارض واقع ہوا پس قیاس نے اس حدیث کو نماز عصر میں ترجیع دی اور حدیث نہی کو نماز فجر میں ترجیع دی لیکن اور نمازیں پس نہیں جائز ہیں اوقات ثلاثہ میں بسبب حدیث ممانعت کے اس واسطے کہ حدیث نہی کا اور نمازوں میں کوئی معارض نہیں۔ انتہی
حاصل کلام یہ ہے کہ یا تو اس احادیث سے وہ معنی لیے جائیں جو شرح مسلم سے نقل ہوئے یا ان کو منسوخ کہا جاوے چنانچہ یہی مذہب امام طحاوی کا ہے یا بوجہ تعارض کے بعض کو بعض پر ترجیح دی جائے۔ چنانچہ یہ مذہب امام صاحب کا ہے غرض مخالفت حدیث کسی صورت سے لازم نہیں آتی۔
فتح المبین ص72

اعتراض نمبر12: زبردستی نکاح و طلاق کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں زبردستی کا طلاق و نکاح
زبردستی کی طلاق یا نکاح اسلام میں جائز نہیں اسی بارے میں ایک حدیث جس پر امام بخاری یہ بات باندھ کر نقل فرما رہے ہیں:
باب اذا زوج الرجل ابنتہ وہی کارہۃ فنکاحہ مردود۔ عن خنساء بنت خداج الانصاریۃ ان اباہا زوجھا وہی ثیب فکرہت ذلک، فاتت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فرد نکاحہ
انظر رقم 5138
جب باپ اپنی بیٹی کا نکاح کر دے اور وہ ناپسند کرتی ہو تو اس کا نکاح مردود ہے۔ حضرت خنساء جو کہ بیوہ تھیں ان کے والد نے زبردستی ان کا نکاح کر دیا وہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آئیں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان کے نکاح کو مردود (باطل) قرار دیا۔
فقہ حنفی میں زبردستی کی طلاق و نکاح
اب احناف کی بھی سن لیجیے فرماتے ہیں:
رجل ادعی علی امراۃ نکاحا وہی تجحد وأقام علیہا شاہدی زور وقضی القاضی بالنکاح بینہما حل للرجل وطیھا وحل للمرأۃ التمکین منہ عند أبی حنیفۃ وأبی یوسف الأول
فتاویٰ عالمگیری: 3/350،351
اگر کوئی شخص کسی عورت پر یہ دعویٰ کر دے کہ یہ میری بیوی ہے اور وہ عورت انکار کرے پھر یہ شخص جھوٹے گواہ پیش کر کے اپنے حق میں قاضی سے فیصلہ لے لے تو ایسی صورت میں اس کے لیے اس عورت سے جماع جائز ہو گا اور اس عورت کا اپنے آپ کو اس کے قابو میں کر دینا جائز ہو گا امام ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز ہے اور ابو یوسف کے ایک قول کے مطابق بھی جائز ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص36، 37
بارہویں اعتراض کا جواب:
امام ابو حنیفہ کے نزدیک عقود، نسوخ، طلاق اور عتاق میں چند شرائط کے ساتھ جھوٹے گواہوں سے بھی قاضی کا فیصلہ ظاہراً اور باطناً نافذ ہو جاتا ہے۔
امام ابو حنیفہ کے مسلک کے دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل نمبر1
علامہ شامی امام محمد کی کتاب الاصل کے حوالہ سے نقل کرتے ہیں:
قال محمد فی الاصل بلغنا عن علی کرم اﷲ وجہہ ان رجلا اقام عندہ بینۃ علی امراۃ انہ تزوجھا فانکرت فقضی لہ بالبینۃ فقالت انہ لم یتزوجنی فاما اذا قضیت علی فجدد نکاحی فقال لا اجدد نکاحک الشاہدان زوجاک وقال وبھذا ناخذ
رد المحتار ج4 ص516
امام محمد نے مبسوط (الاصل) میں ذکر کیا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے انہیں یہ روایت پہنچی ہے کہ ایک شخص نے ان کے پاس ایک عورت کے نکاح پر (جھوٹے) گواہ پیش کر دیے۔ مگر عورت نے اپنے ساتھ اس کا نکاح تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر حضرت علی نے عورت کو مرد کے پاس جانے کا حکم دے دیا۔ عورت بولی اس مرد نے مجھ سے نکاح نہیں کیا اب اگر آپ نے یہ حکم دے ہی دیا ہے تو پھر اس سے میرا نکاح تو پڑھوا دیجیے۔ حضرت علی نے فرمایا میں تجدید نکاح نہیں کرتا تیرا نکاح تو دونوں گواہوں نے پڑھایا ہوا ہے۔
دلیل نمبر2:
علامہ ابو بکر جصاص حنفی المتوفٰی 370ھ) لکھتے ہیں:
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما اور امام شعبی رحمہ اللہ تعالی کا بھی اس مسئلہ میں ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی طرح موقف ہے۔ امام ابو یوسف نے عمرو بن مقدام سے روایت کیا ہے کہ کسی قبیلہ کے ایک شخص نے ایک ایسی عورت کو نکاح کا پیغام دیا جو شرف اور مرتبہ میں اس سے زیادہ تھی اس عورت نے اس شخص سے نکاح کرنے سے انکار کر دیا۔ اس شخص نے یہ دعوی کر دیا کہ اس کا عورت سے نکاح ہو چکا ہے۔ اور حضرت علی کی عدالت میں اس پر دو گواہ پیش کر دیے۔ اس عورت نے کہا میرا اس شخص سے نکاح نہیں ہوا۔ حضرت علی نے فرمایا ان دو گواہوں نے تمہارا نکاح کر دیا۔
دلیل نمبر3:
امام ابو یوسف کہتے ہیں کہ شعبہ بن حجاج، زید سے روایت کرتے ہیں کہ دو آدمیوں نے ایک شخص کے خلاف جھوٹی گواہی دی کہ اس نے اپنی عورت کو طلاق دے دی ہے۔ قاضی نے ان کے درمیان تفریق کر دی پھر ان گواہوں میں سے ایک شخص نے اس عورت سے نکاح کر لیا۔ شعبی نے کہا یہ جائز ہے۔
دلیل نمبر4:
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما نے ایک غلام کو عیب سے مبرا قرار دے کر فروخت کر دیا۔ خریدار اس غلام کو حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کی عدالت میں لے گیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما سے کہا کیا تم اﷲ کی قسم کھا کر یہ کہہ سکتے ہو کہ جب تم نے اس کو فروخت کیا تھا تو تم نے اس کی بیماری کو نہیں چھپایا تھا، حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما نے قسم کھانے سے انکار کیا، حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے وہ غلام ان کو واپس کر دیا اور بعد میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما نے وہ غلام زیادہ نفع کے ساتھ فروخت کر دیا۔
موطا امام مالک مترجم ص534
اس مسئلہ میں حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما نے غلام کی بیع کو جائز قرار دیا حالانکہ ان کو علم تھا کہ باطن میں ایسا نہیں ہے اور باطن کا حکم ظاہر کے خلاف ہے (کیونکہ انہوں نے بری الذمہ ہو کر غلام کو فروخت کیا تھا اس وجہ سے باطن میں اس غلام کو واپس کرنا صحیح نہیں تھا) اگر حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کو بھی حضرت ابن عمر کی طرح اس بات کا علم ہوتا تو وہ بیع کو رد نہ کرتے۔ اس واقعہ سے معلوم ہوا کہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما کا بھی یہ مذہب تھا کہ اگر حاکم کسی عقد کو فسخ کر دے تو وہ بائع کی ملک میں آ جاتا ہے۔ اگرچہ باطن میں حقیقت اس کے برعکس ہو۔
دلیل نمبر5:
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول کی صحت پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی یہ روایت بھی دلیل ہے کہ:
نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ہلال بن امیہ اور اس کی بیوی کے درمیان لعان کرایا پھر فرمایا اگر اس عورت کے ہاں اس طرح کا بچہ ہوا تو وہ ہلال بن امیہ کا ہے اور اگر دوسری شکل و صورت کا ہو تو شریک بن سمحاء کا ہو گا جس کے ساتھ ہلال بن امیہ کی بیوی کو متّہم کیا گیا تھا۔ پھر اس عورت کے ہاں ناپسندیدہ صفت پر بچہ پیدا ہوا تو نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اگر ان کے درمیان لعان نہ ہو چکا ہوتا تو پھر میں اس عورت کو دیکھتا۔
مظاہر حق شرح مشکوٰۃ ج3 ص415
ہلال بن امیہ کا صدق اور اس کی بیوی کا کذب ظاہر ہو گیا۔ اس کے باوجود نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے اس تفریق کو باطل نہیں کیا جو لعان کی وجہ سے ہوئی تھی اور یہ اس کی دلیل ہے کہ حاکم جب کسی عقد کو فسخ کر دے تو وہ ظاہراً و باطناً نافذ ہو جاتی ہے۔
دلیل نمبر6:
امام ابو حنیفہ کے قول پر اس سے بھی استدلال کیا جاتا ہے کہ جب حاکم کے پاس ایسے گواہ گواہی دیں جن کا ظاہر حال صدق ہو تو حاکم پر واجب ہے کہ ان کی گواہی کے اعتبار سے فیصلہ کرے۔ اور اگر اس نے گواہی کے بعد فیصلہ کرنے میں توقف کیا تو وہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کا تارک اور گنہگار ہو گا کیونکہ اس کو ظاہر کا مکلف کیا گیا ہے اور اس کو اس علم باطن کا مکلف نہیں کیا گیا جو اﷲ تعالیٰ کا غیب ہے۔
دلیل نمبر7:
عن سعید بن جبیر قال قلت لابن عمر رجل قذف امراتہ فقال فرق نبی صلی اﷲ علیہ وسلم بین اخوی بنی العجلان وقال اﷲ یعلم ان احدکما کاذب فہل منکما تائب فابیا فقال اﷲ یعلم ان احدکما کاذب فہل منکما تائب فابیا ففرق بینہما
بخاری مع شرح تیسیر الباری ج5 ص258
سعید بن جبیر سے روایت ہے انہوں نے کہا میں نے ابن عمر سے یہ مسئلہ پوچھا اگر مرد نے اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگایا (تو کیا حکم ہے( انہوں نے کہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بنی عجلان کے خاوند بیوی کو جدا کر دیا اور فرمایا اﷲ خوب جانتا ہے جو تم دونوں میں جھوٹا ہے۔ پھر کوئی تم میں سے جو جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے؟ لیکن دونوں نے (توبہ سے) انکار کیا۔آپ نے پھر فرمایا اﷲ خوب جانتا ہے جو تم دونوں میں سے جھوٹا ہے وہ توبہ کرتا ہے یا نہیں؟ لیکن دونوں نے (توبہ سے) انکار کیا تو آخر آپ نے ان دونوں کو جدا کر دیا۔
اس اعتراض کا جو جواب مولانا منصور علی خان مراد آبادی نے دیا تھا وہ ہم مکمل یہاں پر عوام کے فائدہ کے لیے نقل کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
قال
ایک مسئلہ امام اعظم کا مخالف حدیث کے یہ ہے کہ حکم قاضی کا تمام عقود اور نسوخ مثل نکاح اور طلاق اور بیع اور اقالہ میں امام اعظم کے نزدیک نافذ ہے۔ ظاہراً وباطناً۔ الخ
اقول
آپ کو بھی خوب غتربود اور خلط کلام آتا ہے عام کو خاص اور خاص کو عام کرنا آپ ہی کا کام ہے۔ یہ حدیث کہ جس کے مخالف قول امام صاحب کا آپ سمجھتے ہیں خاص اموال میں ہے۔ چنانچہ خاتم المحدثین جناب حافظ الحدیث مولانا مولوی احمد علی صاحب لکھتے ہیں:
واحتجوا ای الحنفیہ بان الحاکم قضی بحجۃ شرعیۃ فیمالہ ولایۃ الانشاء فیہ فیجعل انشاء تحرزا عن الحرام والحدیث صریح فی المال ولیس النزاع فیہ فان القاضی لایملک دفع مال احد الی اخر ویملک انشاء العقود والفسوخ
یعنی اور حجت لائے حنفیہ بایں طور کہ حاکم حکم کرتا ہے حجت شرعیہ سے اس چیز میں کہ اس کو ولایت انشاء کی اس میں ہے۔ پس گردانا جاوے گا حکم اس انشاء کا واسطے بچنے کے حرام سے اور یہ حدیث مال میں صریح ہے اور نہیں ہے گفتگو مال میں۔ اس واسطے کہ قاضی نہیں مالک ہوتا ایک کے مال دینے کا دوسرے کو اور مالک ہوتا ہے انشاء سے عقد نکاح وغیرہ و فسخ نکاح وغیرہ کا۔ انتہی
اور امام طحاوی لکھتے ہیں:
وذہب اخرون الی ان الحکم ان کان فی مال وکان الامر فی الباطن بخلاف ماسند الیہ الحاکم من الظاہر لم یکن ذلک موجبا لحلہ للمحکوم لہ وان کان فی نکاح او طلاق فانہ ینفذ ظاہرا و باطنا وحملوا حدیث الباب الذی قبل ہذا الباب علی ما ورد فیہ وہو المال
یعنی اور گئے ہیں دوسرے فقہاء طرف اس کے کہ حکم اگر مال میں ہو اور واقع میں امر خلاف ہو اس لیے کہ حکم دیا ہے کہ حاکم نے ظاہر کو تو نہ ہو گا یہ حکم واجب کرنے والا اس کے حلال ہونے کا واسطے اس شخص کے کہ حکم کیا گیا ہے اس کے لیے۔ اور اگر ہو گا حکم نکاح میں یا طلاق میں تو تحقیق جاری ہو گا ظاہر اور باطن میں اور حمل کیا انہوں نے حدیث باب کو جو کہ پہلے اس باب کے ہے اوپر اس کے وارد ہوئی ہے اس میں یہ حدیث او روہ مال ہے۔ انتہی
اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ حدیث خاص مال میں وارد ہوئی ہے چنانچہ لفظ من حق اخیہ اور اقطع لہ قطعۃ من النار اس پر دلالت کرتا ہے دوسرا جواب یہ ہے کہ ظاہر اس حدیث کا دلالت کرتا ہے اس پر کہ یہ حدیث خاص ہے اس حکم میں کہ متعلق ہوتا ہے کلام خصم کے سننے سے اور گواہ اور قسم وہاں نہ ہوں سو اس میں نزاع نہیں کیونکہ نزاع تو اس حکم میں ہے جو گواہی پر مرتب ہوا۔ انتہیٰ
کیونکہ الحن لحجتہ جس کے معنی خوب گفتگو کرنے والے کے ہیں جو جھوٹی بات کو بھی سچی کر دے۔ اس میں گواہ اور قسم کا کہیں ذکر نہیں جس میں اختلاف ہے۔ البتہ اگر فقط ان کی گفتگو پر کفایت کی جائے گی جیسا کہ ظاہر الفاظ حدیث کے اس پر دال ہیں تو اس وقت ظاہراً قضا واقع ہو گی اور امام صاحب بھی اس کے خلاف نہیں کہتے۔ البتہ جس میں گواہ اور قسم ہو اور اس میں امام صاحب فرماتے ہیں کہ قضا قاضی کی ظاہر اور باطن میں نافذ ہو گی۔ سو یہ بیان ہر گز حدیث سے نہیں نکلتا جو مخالفت ہو۔ علاوہ اس کے اگر اس حدیث کو عام رکھا جاوے تو پھر جمہور کی مخالفت لازم آتی ہے اس لیے کہ اس پر سب متفق ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے احکام میں خطا نہیں ہو سکتی اور اگر ایسا ہوا تو خدا کی طرف سے اطلاع ہو گئی۔
چنانچہ امام نووی جو محدثین میں سے ہیں اس بات کو تسلیم کرتے ہیں بلکہ اس کو خاص کرتے ہیں ساتھ غیر اجتہاد کےیعنی جس میں گواہ اور قسم ہو۔ پس معلوم ہوا کہ یہ حدیث جمہور کے نزدیک خاص ہے عام نہیں البتہ فرق اتنا ہے کہ محدثین بینۃ اور یمین غیر اجتہاد کے ساتھ خاص کرتے ہیں اور امام صاحب اموال میں خاص کرتے ہیں۔ غرض کہ طرفین یعنی امام اعظم اور امام محمد اس کو مقید کرتے ہیں۔ اب ظاہر الفاظ حدیث سے اہل انصاف خود سمجھ لیں گے کہ قرینہ اموال کا ہے یا غیر اجتہاد کا۔ علاوہ اس کے حدیث حضرت علی کی جس کو آپ موقوف بتلاتے ہیں اور قابل حجت نہیں کہتے چنانچہ خلاصۃ الخلاصہ میں لکھا ہے وہو لیس بحجۃ عند الشافعی یعنی اور موقوف نہیں ہے حجت نزدیک شافعی کے۔ انتہی
اور حنفیہ کے یہاں بے شک حجت ہے چنانچہ لمعات میں ہے:
ومن مذہب ابی حنیفۃ وجوب تقلید الصحابی فیما قال
یعنی اور مذہب امام صاحب کا واجب ہونا تقلید کا ہے اس چیز میں کہ کیا انہوں نے)ٍصحابہ نے(۔ انتہی
اور اتقانی میں لکھا ہے:
اعلم ان تقلید الصحابی واجب
یعنی جان تو کہ تحقیق تقلید صحابی کی واجب ہے۔ انتہی
اوریہ جو آپ لکھتے ہیں کہ حدیث معلق ضعیف اور مردود شمار کی جاتی ہے سو جناب من! ہر معلق کا یہ حکم نہیں کہ بعضے اقسام معلق کے مقبول ہوتے ہیں۔ چنانچہ تصریح اس کی نخبۃ الفکر میں آپ کی عبارت منقول کے بعد موجود ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو تعلیقات بخاری میں قبل تصریح ابن حجر وغیرہ کے ضرور ضعف ہوتا حالانکہ تعلیقات بخاری حکم میں اتصال کے ہیں۔ کچھ ان کی تصریح پر اس کی صحت موقوف نہیں۔ البتہ بعضوں نے یہ فرق کیا ہے کہ جس میں امام بخاری صیغہ معروف لائے ہیں جیسے کہ قال فلان یا اذکر فلان وہ تو صحیح ہے اور جس میں صیغہ مجہول لائے ہیں جیسے قیل یا یقال اس کی صحت میں البتہ کلام ہے لیکن چونکہ اس کتاب میں مروی ہے لہٰذا کوئی اصل اس کی ضرور ہو گی۔ پس ایسے شخصوں کے تعلیقات کو ضعیف کہنا خالی از تعصب نہیں حالانکہ عادت مصنفین کی کبھی یہ بھی رہی ہے کہ کل سند کو حذف کر دیتے ہیں اور فقط قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کہتے ہیں چنانچہ تصریح اس کی مقدمہ مشکوۃ میں موجود ہے خصوصا متقدمین کا تو یہی دستور تھا کہ وہ سند بیان نہیں کرتے تھے اور وجہ اس کی یہ تھی کہ جب تک کذب نہ تھا سچے لوگ تھے۔ موافق اس حدیث کے خیر القرون قرنی الی مال ثم یفشو الکذب یعنی فرمایا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ سب قرنوں سے بہتر میرا قرن ہے پھر جو اس کے متصل ہے پھر اس کے متصل ہے پھر پھیل جائے گا جھوٹ۔ انتہی
اور ظاہر ہے کہ آپ کا زمانہ اور صحابہ کا ایک تھا اس کے بعد تابعین کا زمانہ ہوا پھر تبع تابعین کا پھر ان کے بعد ایسا جھوٹ پھیلا کہ لوگوں نے حدیثیں وضع کرنی شروع کیں۔ اسی لیے امام بخاری نے شروط لگائے ورنہ حدیث سے کہیں ان شروط کی تصریح نہیں۔یہ شروط فقط احتیاطاًتھے اور اس غرض سے کہ اب جو کوئی حدیث نقل کرے اس میں اتنی باتیں دیکھ لی جائیں جب اس سے اخذ کیا جائے۔ اس کے یہ معنی نہ تھے کہ پہلے؛ استاذ الاستاذہ امام بخاری کی جو حدیثیں بیان کر گئے ہیں ان میں بھی سند اتصال ضرور ہے۔ حاشا و کلا یہ فقط فرقہ ظاہریہ کی ایجاد تازہ سے ہے۔ بے شک امام محمد کے تعلیقات حکم میں اتصال کے ہیں مثل امام بخاری کے۔ چنانچہ اتفاق جمہور علمائے حنفیہ و مصنفین شافعیہ کا اس پر دلیل بدیہی ہے اور تنقیح الاصول میں بحث شرائط راوی میں مرسلات امام محمد کو حجت لکھا ہے اور جو قواعد بعد اس کے کسی مصلحت کے واسطے جاری کیے گئے وہ پہلوں پر کیونکر حجت ہو سکتے ہیں یا پچھلے لوگ اس کے پابند ہو کر تحقیقات سابق کس طرح ترک کر سکتے ہیں؟ البتہ اتنی بات ہم کو ضروری ہے کہ اگر کہیں مخالفت دیکھیں تو اس میں تطبیق کر دیں اس لیے کہ جب صحابہ ہی نعوذ باﷲ مخالفت کریں گے تو پھر موافقت کرنے والا کون آئے گا؟
پس ضروری ہوا کہ افعال صحابہ میں اور احادیث مرفوعہ میں حتی الامکان تطبیق دیں خصوصاً خلفائے راشدین کے فعل اور قول میں جن کے حق میں حدیث علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین یعنی لازم پکڑو تم طریقہ میرے خلفائے راشدین کا، وارد ہے کیونکہ ان کا قول تو ضرور ہی سند ہو گا علی الخصوص حضرت علی کے حق میں اقضاہم علی وارد ہے۔ یعنی سب صحابہ میں زیادہ اور عمدہ فیصلہ کرنے والے علی ہیں۔ پھر یہ فرمانا حضرت علی کا کہ تیرے گواہوں نے تیرا نکاح کرا دیا صاف دلالت کرتا ہے کہ ایسے معاملات میں جو عقود سے تعلق رکھتے ہیں ظاہر اور باطن میں قضا نافذ ہو جاتی ہے اور حدیث صحیحین کی جس کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ اموال میں وارد ہوئی ہے چنانچہ سند بھی اس کی ہم بیان کر چکے مطابق ہے پھر باوجود ایسی ظاہر تطبیق کے انکار کرنا آپ کو یوں سمجھنا ہے کہ جیسے فرقہ ظاہریہ سمجھے ایسا حدیث کو حضرت علی بھی نہیں سمجھے! اﷲ ایسے عقیدہ فاسد سے محفوظ رکھے۔
یہ لوگ یوں سمجھتے ہیں کہ قول پیغمبر کے معنی جو ہم کہتے ہیں وہی مراد ہیں اور مرغے کی ایک ہی ٹانگ کہے جاتے ہیں ان کے اعتقاد میں صحابہ مرفوع حدیث کے بالکل مخالف تھے اسی لیے صحابہ کا قول نہیں مانتے نؤمن ببعض ونکفر ببعض یعنی بعض کے ساتھ ایمان لاتے ہیں ہم اور بعض سے ہم انکار کرتے انہیں کے حق میں صادق ہے چونکہ صاف صاف سب و شتم صحابہ پر کرتے ہوئے ڈرتے ہیں اس لیے حدیث مرفوع کے پردے میں بہت کچھ بے ادبی صحابہ کی شان میں کر جاتے ہیں فی الواقع ان کو صحابہ سے عداوت ہے جو صحابہ کے خلاف قرآن و حدیث کے عمل کرنے پر قائل ہیں اور انصاف مطلق نہیں کرتے اپنی رائے کو مقدم سمجھتے ہیں۔ یوں نہیں تصور کرتے کہ ہم ہی سے کچھ حدیث کے معنی سمجھنے میں قصور ہوا ہو گا صحابہ نے جو کچھ کیا موافق کیا، اس میں تطبیق دیں، کیا امکان ہے یا دوسرے کی بات مانیں،یہ تو دور تک پہنچتے ہیں۔
اور ہم کوئی بات الزاماً بھی کہیں تو کہتے ہیں توبہ توبہ ایسی بات نہ کہنا کیوں نہ کہیں کہ ہم کو بھی تو اﷲ تعالیٰ نے یہ حکم نہیں دیا کہ اس فرقے کے معنی حدیث اور قرآن کے لیے ہوئے پر عمل کرنا بلکہ ہم خوب جانتے ہیں کہ اگر امام صاحب سے قرآن اور حدیث کے معنی لینے میں ایک ہزار میں سو غلطیاں ہوں گی تو دوسروں سے ہزار میں نو سو غلطیاں ہوں گی اور چند احادیث معین جو بعض صحابہ کو معلوم نہ تھے ان کو سندا ہر جگہ پیش کر دیتے ہیں اب جو حدیث آئی اپنی طرف سے معنی معین کر دیے اور یوں سمجھے کہ پیغمبر خدا علیہ الصلوۃ والسلام نے یوں ہی سمجھا ہے پھر جواب دینے کو مستعد ہو گئے کہ اس حدیث کے مخالف دوسری حدیث صحابہ کی اس وجہ سے ہوئی کہ ان کو بہت حدیثیں نہیں پہنچی تھیں یا صحابہ کا قول قرآن اور حدیث کے مخالف نہیں ماننا چاہیے۔ قرآن اور حدیث ان لوگوں نے نام اپنے فہم کا رکھا ہے۔
بریں عقل و دانش بباید گریست
بلکہ امام اعظم کا مسلک تطبیق نہایت درست معلوم ہوتا ہے۔ ہم کو کہیں خدا اور رسول نے حکم نہیں دیا کہ قرآن اور احادیث میں باوجود تطبیق اور موافقت عقل کے خواہ مخواہ خلاف عقل کرنا ہاں جہاں تطبیق نہ ہو سکتی ہو گو خلاف عقل ہو ہم اس کو قبول کر لیں گے اور اس میں اپنا قصور سمجھیں گے۔ اور فقط ایک لفظ کو لے لینا اور دوسرے لفظ پر غور نہ کرنا بلکہ اپنی عقل کو محض معطل سمجھنا فرقہ ظاہریہ کا کام ہے۔ عمدہ معنی موافق عقل کے چھوڑ کر خلاف عقل جاننا انہی کا شیوہ ہے عقل کو یوں سمجھتے ہیں کہ محض دنیا کے واسطے عنایت ہوئی ہے دین میں اس سے مطلق کوئی کام لینا نہ چاہیے بلکہ دوسرا کہے تو اس پر طعن کرتے ہیں۔
چنانچہ ایک ظاہری کی نقل ہے کہ معقولیوں پر بہت طعن کیا کرتے تھے اور کہتے تھے کہ ان کم بختوں نے قرآن اور حدیث کے بالکل خلاف کیا ہے اکثر باتیں خلاف بیان کر گئے ہیں ایک روز ایک شخص نے دریافت کیا کہ جناب وہ کون سا قول ہے جو مخالف ہے کہا ایک ہو تو بتاؤں سینکڑوں ہیں مگر مشتے نمونہ از خروارے ایک بتلائے دیتا ہوں دیکھیے یہ سب منطقی متفق ہیں کہ اجتماع نقیصین محال ہے اور اثبات اور نفی جمع نہیں ہو سکتی حالانکہ صریح مخالف ہے قرآن اور حدیث کے، کیونکر؟ دیکھیے! لا الہ نفی ہوئی اور الا اﷲ اثبات ہے ان کو کلمہ بھی تو یاد نہیں ورنہ ایسی صریح مخالفت نہ کرتے۔
حاصل کلام یہ ہے کہ آدمی کو یوں سمجھنا کہ جو میں سمجھا ہوں دوسرا نہیں سمجھا بلکہ صریح مخالف قرآن اور حدیث کے سمجھا ہے عین خطا ہے تمام کتابیں ائمہ اربعہ کے اختلافیات کی مع دلائل موجود ہیں دیکھ لیجیے اور یہ نہ کیجیے کہ آنکھ پر پٹی باندھ کے ایک طرف کی بات لکھ دی اور دوسری طرف کو چھوڑ گئے اور بے سمجھے بوجھے حکم لگا دیا کہ یہ دیکھو یہ مخالف حدیث کے ہے اور قول قاضی شوکانی کا کہ جن کے اقوال جمہور کے مخالف نیل الاوطار میں موجود ہیں پیش کر دینا اور اقوال ان کے مقلدین کے نقل کر دینا سراسرہٹ دھرمی اور کج بحثی ہے۔ بلکہ اس میں قول ان کا چاہیے تھا کہ جن کو طرفین تسلیم کرتے ہیں جیسے کہ شاہ ولی اﷲ صاحب چنانچہ وہ عقد الجید اور انصاف فی بیان سبب الاختلاف میں لکھتے ہیں:
جان تو کہ تحقیق امت نے اجماع کیا ہے اس پر کہ اعتماد کریں وہ سلف پر شریعت کے پہچاننے میں۔ پس تابعین نے اعتماد کیا اس میں صحابہ پر اور تبع تابعین نے تابعین پر اور اسی طرح ہر طبقے میں پچھلے علماء نے اگلے علماء پر اعتماد کیا۔ اور عقل اس کی خوبی پر دلالت کرتی ہے اس لیے کہ شریعت نہیں پہچانی جاتی مگر ساتھ نقل اور استنباط کے اور نقل نہیں معتبر ہوتی مگر بایں طور کہ اخذ کرے ہر طبقہ متقدمین سے۔ تاکہ خارج نہ جاوے ان کے اقوال سے والا خارق اجماع ہو جاوے گا۔ اور چاہیے کہ بنا کریں اس پر اور استعانت کرے اس میں ان سے جو پہلے اس کے ہیں اور جب کہ اعتماد سلف پر متعین ہو گیا تو ضرور ہے اسے کہ ہوں اقوال ان کے کہ جن پر اعتماد کیا جاتا ہے، روایت کی گئی اسناد صحیح سے یا ان کی مشہور کتابوں میں مجتمع ہوں۔ اور یہ کہ ہوں محذومہ یعنی بیان کیا جائے راجح ان کے محتملات سے اور خاص کیا جائے اور عموم ان کا بعض مواقع میں اور مقید کیا جاوے مطلق ان کا بعض جا۔ پس جمع کیا جائے مختلف اور بیان کیے جائیں سبب ان کے احکام کے۔ اور نہیں تو صحیح نہ ہو گا ان پر نہیں ہے کوئی مذہب اس زمانہ اخیر میں اس صفت کا مگر یہ چار مذہب یا اﷲ مگر مذہب امامیہ اور زیدیہ کو وہ اہل بدعت ہیں نہیں جائز ہے اعتماد اس پر۔ انتہی
باقی تحقیق اس کتاب کے اول میں گزر چکی اگر جی چاہے ملاحظہ فرما لیجیے۔ اب امام صاحب کی طرف سے بعض دلائل اس کے کہ قضا ظاہر اور باطن میں سوا مال کے جاری ہو جاتی ہے شروع کرتے ہیں۔
فتح القدیر میں ہے کہ امام صاحب کے نزدیک ظاہر اور باطن میں قضا نافذ ہو گی کہ جس میں قاضی کو انشائے عقد ممکن ہو پس اگر دوسرے کی عدت میں ہو گی یا مطلقۃ الثلث غیر کی ہو گی تو اس صورت میں قاضی کو انشائی عقد کا اختیار نہ ہو گا کیونکہ قاضی دوسرے کے مال کی تملیک کا بغیر عوض کے مالک نہیں ہوتا۔ اور مقصود قضا سے قطع منازعت ہے اور اس صورت میں جھگڑا طے نہیں ہو سکتا۔ مگر جب قضا باطن میں نافذ ہو اس واسطے کہ اگر حرمت باقی رہے گی تو پھر منازعت وطی کی طلب میں مکرر ہو گی اور دوسرا منع کرے گا کیونکہ حقیقت حال جانتا ہے۔ پس ضرور ہوا پہلے ہونا انشاء کا پس گویا قاضی نے کہہ دیا کہ میں نے تمہارا نکاح کیا اور اس کے ساتھ حکم دیا اس کے بعد لکھا ہے وقول ابی حنیفہ اوجہ یعنی اور قول امام صاحب کا زیادہ مدلل ہے۔ انتہی
اور امام طحاوی لکھتے ہیں:
فیثبت الحل عند اﷲ تعالٰی وان اثم المدعی اثم اقدامہ علی الدعوی الکاذبۃ
یعنی پس ثابت ہو گی حلت نزدیک اﷲ تعالیٰ کے اگرچہ گنہگار ہو گا مدعی گناہ پیش قدمی کرنے اپنے کا اوپر جھوٹے دعوے کے۔ انتہی
اس عبارت سے معلوم ہوا کہ گناہ اس کو بے شک ہو گا۔ ایسے ہی بحر الرائق کی اس عبارت سے واضح ہوتا ہے
لا یلزم من القول بحل الوطیء عدم اثمہ فانہ اثم بسبب اقدامہ علی الدعوی الباطلۃ وان کان لا اثم علیہ بسبب الوطی
یعنی نہیں لازم آتا قائل ہونے حلت وطی سے نہ گنہگار ہونا اس کا اس لیے کہ وہ گنہگار ہے بسبب پیش قدمی کرنے اس کے کے اوپر دعویٰ باطل کے اگرچہ نہیں گناہ ہے اس پر بسبب وطی کے۔ انتہی
اس عبارت سے بھی معلوم ہوا کہ گناہ اس کے ذمے پر رہے گا پر اس کے واسطے جو کچھ وعید آئی ہے اسی کذب کا بدلہ ہو گا اس وجہ سے بھی قول امام صاحب کا حدیث کے مخالف نہ ہوا بلکہ عین موافق ہو گیا اور طحطاوی میں لکھا ہے کہ امام صاحب کی ایک یہ بھی دلیل ہے کہ اس میں سب کا اجماع ہے کہ جو شخص کسی لونڈی کو خریدے پھر جھوٹا دعوی کرے فسخ بیع کا اور وہ گواہ لاوے پس قاضی حکم کر دے تو بائع کو وطی اس کنیز کی حلال ہو گی اور اس سے خدمت لینا بھی حلال ہو گا باوجود جاننے اس کہ کہ دعویٰ مشتری کا جھوٹا ہے حالانکہ اس میں تو آزاد کر کے بھی خلاصی پا سکتا ہے گو اس کے مال کا تلف ہے۔ انتہی
اسی طرح امام صاحب کہتے ہیں یہاں مابہ الفرق کون سی شی ہے جس سے یہاں وطی جائز ہو اور وہاں جائز نہ ہو اور بہت دلائل امام صاحب کے بوجہ اختصار کے یہاں بیان نہیں ہوئے ورنہ اس بحث کو ایک دفتر چاہیے مگر حیف ہے کہ باوجود ایسے عمدہ دلائل اور براہین کے آپ کا مخالف قرآن و حدیث کے بتلانا دو حال سے خالی نہیں یا تو حدیث کا مطلب آپ خود نہیں سمجھے یا دانستہ یہ شیوہ اختیار کیا ہے مگر یہ احتمال تو ہم نہیں لے سکتے کیونکہ کون سا مسلمان ہے جو ایسی باتیں دانستہ کر کے اپنے تئیں گنہگار بنائے گا ہاں آپ کے فہم میں خطا واقع ہوئی خیر یہ خطائے اجتہادی ہے اس میں آپ معذور ہیں خدائے تعالیٰ آپ کو ذہن رسا اور طبع سلیم عنایت فرماوے آمین ثم آمین۔
اعتراض نمبر13:مدینہ منورہ کے حرم ہونے کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں مدینہ حرم ہے
نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے بقول مدینہ حرم ہے۔
جیسا کہ بخاری میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
المدینۃ حرم من کذا الی کذا لا یقطع شجرھا، ولا یحدث فیھا حدث من احدث فیھا حدثا فعلیہ لعنۃ اﷲ والملائکۃ والناس اجمعین
بخاری، رقم:1867
مدینہ حرم ہے یہاں سے وہاں تک نہ اس کے درخت کاٹے جائیں گے نہ اس میں بدعت کی جائے جس نے مدینہ میں بدعت کی تو اس پر اﷲ اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہو۔
فقہ حنفی میں مدینہ حرم نہیں
اب احناف کی بھی سن لیجیے۔
ابن عابدین فرماتے ہیں:
لا حرم للمدینۃ عندنا
رد المحتار:2/256
ہمارے نزدیک مدینہ حرم نہیں ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص37
تیرہویں اعتراض کا جواب
جواب نمبر1:
یہ مسئلہ اختلافی ہے محدثین کا اس میں اختلاف ہے جیسا کہ علامہ عبدالرحمن الدمشقی الشافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ
وقتل صید حرم المدینۃ حرام وکذا قطع شجرہ وہل یضمن؟ للشافعی قولان، الجدید الراجع منہما لا یضمن وہو مذہب ابی حنیفۃ والقدیم المختار انہ یضمن بسلب القاتل والقاطع وہو مذہب مالک واحمد
رحمۃ الامۃ ص140
یعنی حرم مدینہ میں شکار اور قطع شجر کے بارے میں اختلاف ہے، امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کے ایک قول کے مطابق (جو راجح بھی ہے اور امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول کے موافق بھی) اس پر ضمان نہیں ہے اور دوسرے قول کے مطابق (جو امام مالک و امام احمد کے موافق ہے) اس پر ضمان ہے۔
علامہ نور الدین علی بن احمد سمہودی فرماتے ہیں:
اتفق الشافعی ومالک واحمد رحمہم اللہ تعالی علی تحریم الصید حرم المدینۃ واصطیادہ وقطع شجرہ وقال ابو حنیفۃ لا یحرم شیء من ذلک
وفاء الوفاء باخبار دار المصطفی ج1 ص105
یعنی امام شافعی، امام مالک اور امام احمد رحمہم اللہ تعالی متفق ہیں کہ حرم مدینہ میں شکار اور قطع شجر حرام ہے اور امام ابو حنیفہ کے نزدیک حرام نہیں ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس مسئلہ میں مختلف مسالک ہیں، پہلا مسلک امام ابو حنیفہ، امام سفیان ثوری اور امام عبد اﷲ بن مبارک رحمہم اللہ تعالی وغیرہ کے نزدیک مدینہ منورہ مکہ مکرمہ کی طرح حرم نہیں، اس بارے میں جو فرمانِ نبوی علیہ الصلوۃ والسلام موجود ہے اس میں امر تعظیمی ہے امر حکمی نہیں۔ اسی لیے وہاں شکار اور قطع شجر جائز ہے جیسا کہ رد المحتار ج2 ص278 میں ہے کہ حرم مدینہ میں شکار اور قطع شجر کی حرمت کے لیے دلیل قطعی چاہیے جو یہاں موجود نہیں دوسرا مسلک، امام زہری، امام شافعی، امام مالک، امام احمد اور امام اسحاق رحمہم اللہ تعالی وغیرہ فرماتے ہیں کہ حرم مدینہ منورہ حرم مکہ کی طرح ہے، جہاں نہ شکار درست ہے اور نہ قطع شجر البتہ اگر کسی نے شکار کر لیا یا درخت کاٹ لیا تو اس پر صرف استغفار ہے، ضمان کوئی نہیں۔
اعلاء السنن ج10 ص484
علامہ سمہودی فرماتے ہیں:
وقد اختلف القائلون بالتحریم فی حرم المدینۃ بالنسبۃ الی الضمان بالجزاء فعن احمد روایتان وللشافعی ایضا قولان الجدید منہما عدم الضمان وہو قول مالک
وفاء الوفاء ج1 ص208
یعنی مدینہ منورہ کو مکہ مکرمہ کی طرح حرم قرار دینے والوں میں بھی قطع شجر اور شکار کے ضمان و جزاء میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ امام احمد و امام شافعی سے دو دو قول منقول ہیں، قول جدید عدم ضمان کا ہے اور یہی قول امام مالک کا بھی ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں:
امام مالک، امام شافعی اور جمہور علماء کا مذہب یہ ہے کہ حرم مدینہ میں شکار اور قطع شجر بغیر ضمان کے حرام ہے۔
اشعۃ اللمعات ج2 ص388
تیسرا مسلک امام محمد بن ابی ذئب کے نزدیک حرم مدینہ میں شکار اور قطع شجر سے ضمان لازم آئے گا۔ اس اختلاف سے صاف ظاہر ہے کہ یہ خالص ایک اجتہادی مسئلہ ہے۔
جواب نمبر 2:
علامہ تور پشتی فرماتے ہیں:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمانا کہ مدینہ کو میں نے حرم کیا اس سے حرمت تعظیمی مراد ہے، دلیل اس کی یہ ہے کہ حدیث مسلم میں آپ نے فرمایا کہ مدینہ کے درختوں کے پتے نہ جھاڑے جائیں سوائے جانوروں کے کھلانے کے لیے حالانکہ حرم مکہ کے درختوں کے پتے کسی صورت بھی جھاڑنے جائز نہیں، باقی رہا شکار مدینہ کا تو اگرچہ چند صحابہ نے اس کو حرام کہا ہے، لیکن جمہور صحابہ نے اسے حرام نہیں کہا، اور شکار مدینہ کی حرمت پر کوئی قابل اعتماد حدیث بھی ثابت نہیں۔
مرقات
اعتراض نمبر14: فرض نمازوں کی
آخری دو رکعتوں میں قرأت کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
سورہ فاتحہ اور نماز
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لا صلاۃ لمن لم یقرأ بفاتحۃ الکتاب
بخاری 756
جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہیں پڑھتا اس کی نماز نہیں ہوتی۔
فقہ حنفی اور سورہ فاتحہ
احناف اس حدیث کا یہ جواب دیتے ہیں کہ یہ منفرد کے لیے ہے۔ مقتدی کے لیے نہیں۔ اب لیجیے احناف منفرد کے لیے بھی رعایت دیتے ہیں۔
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
والقرأۃ فی الفرض واجبۃ فی الرکعتین
قرأت فرض نمازوں میں دو رکعتوں میں واجب ہے۔
و ہو مخیر فی الاخریین معناہ ان شاء سکت وان شاء قرأ وان شاء سبح کذا روی عن ابی حنیفۃ
ہدایہ اولین ص128
دوسری رکعتوں میں نمازی کو اختیار ہے چاہے تو خاموش رہے، چاہے قرأت کرے اور اگر چاہے تو تسبیح کہہ لے۔ امام ابوحنیفہ سے اسی طرح روایت کیا گیا ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص37، 38
چودہویں اعتراض کا جواب
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:
یقرء فی الاولین ویسبح فی الاخریین
مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص372
”پہلی دو رکعتوں میں قرأت کی جائے اور آخری دو رکعتوں میں تسبیح کی جائے۔“
حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ دونوں سے منقول ہے:
قالا یقرء فی الاولین ویسبح فی الاخریین
مصنف ابن ابی شیبۃ ج1 ص372
”ان دونوں حضرات نے فرمایا پہلی دو رکعتوں میں قرأت کرو اور آخری دو رکعتوں میں تسبیح پڑھو۔“
مصنف ابن ابی شیبہ میں تو پورا ایک باب ”باب من کان یقول یسبح فی الاخریین ولا یقرئ“ اس بارے میں ہے جس میں ایسے آثار کو مع الاسناد جمع کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر کسی کو اعتراض ہے تو یہ حضرت علی اور حضرت عبداﷲ بن مسعود پر اعتراض ہو گا۔ فقہ حنفی پر نہیں۔ اور ان حضرات پر اعتراض کرنا صحیح نہیں۔ اس لیے کہ وہ سید عالم علیہ الصلوۃ والسلام کے افعال کو قریب سے دیکھنے والے اور محفوظ کرنے والے اور ان پر عمل پیرا ہونے والے تھے۔
باقی جہاں تک مذہب حنفی ہے، اس میں احادیث اور تمام آثار کا لحاظ رکھتے ہوئے آخری دو رکعتوں میں فاتحہ پڑھنے کو سنت قرار دیا گیا ہے اور یہی ظاہر الروایۃ ہے۔ جس طرح کہ طحطاوی علی مراقی الفلاح ص147 میں ہے:
اور فقہ حنفی کا یہ اصول ہے جب ظاہر الروایۃ اور غیر ظاہر الروایۃ میں تعارض آ جائے تو ترجیح ظاہر الروایہ کے مسئلہ کو ہوتی ہے۔ لہٰذا فقہ حنفی میں بھی ترجیح آخری دو رکعت میں فاتحہ کے سنت ہونے کو ہے اور ہدایہ کی عبارت جو کہ غیر ظاہر الروایۃ ہے، اس کی وجہ حضرت علی اور حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ تعا لی عنہما کے اقوال ہیں۔
اعتراض نمبر15: نماز کو اطمینان سے پڑھنے کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام اور اطمینان نماز
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس شخص کو نماز دہرانے کا حکم دیتے ہیں جو رکوع اطمینان سے ادا نہ کر رہا تھا اس حدیث کو امام بخاری یوں روایت کرتے ہیں:
عَنْ أَبِی ہُرَیْرَۃَ أَنَّ النَّبِیَّ علیہ الصلوۃ والسلام دَخَلَ الْمَسْجِدَ فَدَخَلَ رَجُلٌ فَصَلَّی ثُمَّ جَائَ فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ علیہ الصلوۃ والسلام فَرَدَّ النَّبِیُّ علیہ الصلوۃ والسلام عَلَیْہِ السَّلَامَ فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ فَصَلَّی ثُمَّ جَائَ فَسَلَّمَ عَلَی النَّبِیِّ علیہ الصلوۃ والسلام فَقَالَ ارْجِعْ فَصَلِّ فَإِنَّکَ لَمْ تُصَلِّ ثَلَاثًا فَقَالَ وَالَّذِی بَعَثَکَ بِالْحَقِّ فَمَا أُحْسِنُ غَیْرَہُ فَعَلِّمْنِی قَالَ إِذَا قُمْتَ إِلَی الصَّلَاۃِ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَأْ مَا تَیَسَّرَ مَعَکَ مِنْ الْقُرْآنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ جَالِسًا ثُمَّ اسْجُدْ حَتَّی تَطْمَئِنَّ سَاجِدًا ثُمَّ افْعَلْ ذَلِکَ فِی صَلَاتِکَ کُلِّہَا
بخاری:793
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام مسجد میں داخل ہوئے ایک اور شخص بھی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھی پھر وہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور آپ کو سلام کیا آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اس کے سلام کا جواب دیا اور فرمایا واپس لوٹ جا نماز پھر پڑھ کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی اس نے پھر نماز پڑھی اور آپ کے پاس آ کر آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو سلام کیا آپ نے فرمایا واپس لوٹ جا نماز پھر پڑھ کیوں کہ تو نے نماز نہیں پڑھی تین مرتبہ اسی طرح ہوا پھر اس آدمی نے کہا اﷲ کی قسم جس نے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا ہے میں اس سے بہتر نماز نہیں پڑھ سکتا پس آپ مجھے نماز کا طریقہ سکھایئے آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ پھر تجھے جتنا میسر ہو قرآن پڑھ پھر رکوع کر اطمینان کے ساتھ پھر کھڑا ہو اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ اطمینان سے کر پھر جلسہ اطمینان سے کر پھر سجدہ اطمینان سے کر اور اسی طرح نماز ادا کر۔
فقہ حنفی اور اطمینان نماز
اب احناف کا فتویٰ بھی سن لیں۔ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
اجمعوا علی ان الاعتدال فی قومۃ الرکوع لیس بواجب عند ابی حنیفۃ ومحمد رحمھما اﷲ تعالٰی وکذا الطمانیۃ فی الجلسۃ ہکذا فی الکافی
1/71
حنفی فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ رکوع کے قومہ میں اعتدال و سکون اختیار کرنا امام ابو حنیفہ اور محمد کے نزدیک واجب نہیں اور اسی طرح جلسہ میں اطمینان بھی واجب نہیں۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص38، 39
پندہرویں اعتراض کا جواب
احناف کے نزدیک رکوع اور سجدہ میں اطمینان واجب ہے۔طمانیت کی تین حالتیں ہیں۔ ایک وہ طمانیت ہے جس سے رکوع اور سجدہ مکمل ہوتا ہے اور اس کے بغیر رکوع اور سجدہ ہوتا ہی نہیں اور وہ یہ ہے کہ پہلی حرکت ختم ہو جائے۔ اور یہ امام ابوحنیفہ اور امام محمد رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک واجب ہے اور امام ابو یوسف اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالی کے نزدیک فرض ہے یعنی رکوع کی جانب جھکنے کی حرکت مکمل ہو جائے اور رکوع کی حالت شروع ہو جائے۔اسی طرح سجدہ کی جانب جھکنے کی حرکت مکمل ہو جائے اور سجدہ کی حالت شروع ہو جائے اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب کہ ہر جوڑ اپنی جگہ پر آ جائے۔جیسا کہ علامہ برکلی نے معدل الصلوٰۃ میں لکھا ہے۔
اور طمانیت کی دوسری حالت یہ ہے کہ رکوع و سجدہ کی حالت مکمل ہونے کے بعد ایک تسبیح کی مقدار اسی حالت میں رہنا یہ باقی حضرات کے نزدیک واجب ہے اور امام ابوحنیفہ سے روایت یہ ہے کہ سنت ہے اور طمانیت کی تیسری حالت یہ ہے کہ رکوع و سجدہ کی حالت مکمل ہونے کے بعد تین تسبیحات کی مقدار تک اسی حالت میں رہنا تو یہ سنت ہے۔ اسی کو علامہ ابن حجر نے امام طحاوی سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے کہ بعض حضرات نے یہ کہا ہے کہ تین تسبیحات کی مقدار تک رکوع اور سجدہ میں رہنا یہ رکوع اور سجدہ کی مقدار ہے۔
”وخالفہم اخرون فقالوا اذا استوی راکعا واطمان ساجدا اجزاء ثم قال وہذا قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمد
فتح الباری جلد اول ص422
اور دوسرے لوگوں نے اس نظریہ کی مخالفت کی اور کہا کہ جب آدمی رکوع میں برابر ہو جائے اور سجدہ میں اطمینان کر لے تو یہ جائز ہے اور یہ قول امام ابوحنیفہ، ابو یوسف اور امام محمد کا ہے۔
غیر مقلد عالم علامہ وحید الزمان صاحب فرماتے ہیں کہ رکوع کا کم از کم اطلاق اس پر ہو گا کہ کھڑا آدمی اس انداز کا جھک جائے کہ وہ اپنی ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں سے لگا لے طمانیت کے ساتھ۔ پس اگر اس نے جھکنے کی حرکت اور اٹھنے کی حرکت کے درمیان فاصلہ نہ کیا تو اس کی نماز جائز ہو گی۔
نزل الابرار ج1 ص78
احناف کے نزدیک جس حدیث میں جس صحابی کو اطمینان سے نماز پڑھنے کی تعلیم دی گئی ہے اس میں رکوع اور سجدہ کو مکمل کرنے کا اطمینان بھی مراد ہو سکتا ہے اور اس سے زائد بھی۔ اگر اس سے وہ اطمینان مراد ہے جس سے سجدہ اور رکوع مکمل ہوتا ہے تو یہ احناف کے نزدیک بھی فرض ہے اور جو شخص اس کو ترک کرتا ہے اس کا رکوع اور سجدہ نہ ہونے کی وجہ سے نماز ہی نہ ہوگی۔
اور امام بخاری کے انداز سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ ان کے نزدیک بھی یہی اطمینان مراد ہے جس کے بغیر رکوع اور سجدہ پورا نہیں ہوتا۔ چنانچہ وہ باب قائم کرتے ہیں ”باب اذا لم یتم الرکوع اور باب امر النبی علیہ الصلوۃ والسلام الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ“ پھر آگے وہی نماز کی تعلیم والی روایت ذکر کی ہے۔
بخاری ج1 ص109
جب آدمی رکوع پورا نہ کرے تو اس کے بیان میں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اس آدمی کو نماز دوبارہ پڑھنے کا حکم جس نے رکوع پورا نہیں کیا تھا اس کے بیان میں باب۔ اور رکوع اور سجدہ کے مکمل ہونے کے بارہ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد یہ ہے۔
لا تجزیٔ صلٰوۃ الرجل حتی یقیم ظہرہ فی الرکوع والسجود
ابوداود، ج1 ص124
آدمی کی نماز اس وقت تک جائز نہیں ہوتی جب تک رکوع اور سجدہ میں اپنی پشت کو برابر نہ کرے۔
اور اگر حدیث میں رکوع اور سجدہ کی حالت میں پہنچ جانے کے بعد اس سے زائد اطمینان مراد ہے تو مختلف فیہ مسئلہ ہے۔ امام صاحب نے اس کو سنت اور باقی احناف نے واجب اور شوافع نے اس کو فرض کہا ہے۔ فرض نہ ہونے کے دلیل یہ ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے تعدیل میں نقص کو نماز کا نقصان بتایا ہے۔
اور نماز میں سنت کو چھوڑ دینے سے نماز مع الکراہت ہو جاتی ہے اسی وجہ سے فتاویٰ عالمگیری میں امام صاحب اور امام محمد کے نزدیک مسئلہ کی جو صورت تھی اس کو بیان کیا کہ
فان ترک الطمانیۃ تجوز صلوتہ عند ابی حنیفۃ ومحمد
عالمگیری ج1 ص74
پس اگر نمازی نے طمانیت کو چھوڑ دیا تو اس کی نماز امام ابوحنیفہ اور امام محمد کے نزدیک ہو جائے گی۔ اور اس طمانیت سے مراد بقدر تسبیح یا اس سے زائد اطمینان ہے اور اس سے پہلے عالمگیری میں ہے کہ اگر کسی نے صرف ایک دفعہ تسبیح کہی تو یہ جائز تو ہے مگر مکروہ ہے۔
عالمگیری کا مطلب صرف یہ ہے کہ اس کا درجہ فرض واجب نہیں بلکہ اس سے کم کا ہے اسی لیے امام صاحب سے روایت اس کے سنت ہونے کی ہے جب کہ احناف کا مفتی بہ قول اس کے وجوب کا ہے۔ جس کے بھول کر چھوڑنے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم آتا ہے۔ اور جان بوجھ کر چھوڑنے سے نماز کا اعادہ لازم آتا ہے۔
ملاحظہ ہو البحر الرائق ج1 ص299، 300، بہشتی زیور ص119
اعتراض نمبر16: سات اعضاء پرسجدہ کرنے کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں سجدے کا طریقہ
أُمِرْتُ أَنْ أَسْجُدَ عَلَی سَبْعَۃِ أَعْظُمٍ عَلَی الْجَبْہَۃِ وَأَشَارَ بِیَدِہِ عَلَی أَنْفِہِ وَالْیَدَیْنِ وَالرُّکْبَتَیْنِ وَأَطْرَافِ الْقَدَمَیْنِ وَلَا نَکْفِتَ الثِّیَابَ وَالشَّعْرَ
بخاری رقم: 812
مجھے یہ حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں پیشانی پر اور آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے اپنے ہاتھ سے ناک کی طرف اشارہ کیا دونوں ہاتھوں پر دونوں گھٹنوں پر اور دونوں قدموں کی انگلیوں پر اور یہ کہ کپڑے اور بال نہ سمیٹوں۔
فقہ حنفی میں سجدے کا طریقہ
سوچیے یہ حکم دینے والا رب کے علاوہ بھی کوئی ہو سکتا ہے؟ اﷲ تعالیٰ کے اس حکم پر احناف کس طرح عمل کرتے ہیں ملاحظہ فرمایئے۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
ولو ترک وضع الیدین والرکبتین جازت صلاتہ بالاجماع کذا فی السراج الوہاج
1/70
اگر سجدے میں ہاتھوں اور گھٹنوں کو زمین پر رکھنا چھوڑ دے تب بھی نماز جائز ہو گی اس پر اجماع ہے۔ سوچیے کیا اس طریقے سے سجدہ کرنا ممکن بھی ہے؟
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص39، 40
سولہویں اعتراض کا جواب
ہمارا حنفی مذہب اس حدیث کے مطابق ہے جو طالب الرحمن نے تعارض ثابت کرنے کے لیے نقل کی ہے۔ عالمگیری کا مسئلہ مجبور شخص کے لیے ہے۔
حنفی مذہب میں سات ہڈیوں پر سجدہ کرنے کا حکم ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ مولانا مفتی جمیل احمد نذیری حنفی لکھتے ہیں:
عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں، پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنوں اور دو قدموں کے کناروں اور نہ سمیٹیں ہم کپڑوں اور بالوں کو۔
بخاری ص112، مسلم ج1 ص193
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز ص193
نوٹ ہم نے صرف حدیث کا ترجمہ نقل کیا ہے عربی عبارت چھوڑ دی ہے۔
2۔ مولانا الشیخ محمد الیاس فیصل حنفی لکھتے ہیں:
سجدہ سات اعضاء کو زمین پر لگا دینے کا نام ہے، اگر کوئی عضو بھی زمین سے بلند رہے گا تو اسی درجہ میں سجدہ ناقص شمار ہو گا۔ اعضاء سجدہ کا ذکر حدیث میں ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں، پیشانی اور آپ نے ناک کی طرف بھی اشارہ کیا۔ دونوں ہاتھوں پر اور دونوں گھٹنوں پر، دونوں پاؤں کی انگلیوں پر اور (ہمیں یہ بھی حکم دیا کہ) ہم نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔ (بخاری باب السجود علی الانف) ہم نے صرف ترجمہ نقل کیا ہے عربی نہیں لکھی۔
نماز پیمبر ص150، سنی پبلی کیشنر لاہور
3۔ مولانا مفتی محمد ارشاد قاسمی حنفی مدظلہ لکھتے ہیں:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ نبی پاک علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مجھے سات ہڈیوں کے ساتھ سجدہ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ پیشانی کے ساتھ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے ناک کی جانب اشارہ کیا (یعنی پیشانی اور ناک کو ایک عضو فرمایا) اور دونوں ہاتھوں سے اور گھٹنوں سے اور دونوں پیروں کی انگلیوں کے سروں سے اور یہ کہ کپڑے اور بالوں کو نہ سمیٹیں۔
سجدہ میں 7 اعضاء کا استعمال ضروری ہے۔ پیشانی اور ناک کا شمار ایک ہی عضو میں ہے۔ ابن ماجہ نے طاؤس کا قول نقل کیا ہے کہ آپ دونوں کو ایک شمار کرتے تھے۔
ابن ماجہ ص63
سنت کے مطابق نماز پڑھیے ص67، 68
4۔ حضرت مولانا فیض احمد حنفی لکھتے ہیں:
حضرت ابن عباس فرماتے ہیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں اس بات کا مامور ہوں کہ سات اعضاء پر سجدہ کروں۔ پیشانی،اور دونوں ہاتھ اور دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے اطراف یعنی سجدہ اس طرح کیا جائے کہ یہ سات عضو زمین پر رکھے ہوں۔
بخاری ج1، ص112، مسلم ج1 ص193، مشکوٰۃ ص83 عربی نقل نہیں کی۔
نماز مدلل ص114
5۔ مفسر قرآن حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان اختر سواتی لکھتے ہیں:
سجدہ کرتے وقت سات اعضاء کو زمین پر ٹکائے۔ دونوں گھٹنے، دونوں ہاتھ، دونوں پاؤں اور پیشانی بمع ناک۔
ہدایہ ج1 ص70 شرح نقایہ ج1 ص78، کبیری ص321
حضرت عبداﷲ بن عباس کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے حکم دیا گیا ہے میں سات اعضاء (سات ہڈیوں) پر سجدہ کروں پیشانی بمع ناک، دو ہاتھ، دو گھٹنے، دو پاؤں اور یہ بھی حکم ہے کہ ہم نماز میں کپڑوں اور بالوں کو نہ سمیٹا کریں۔
بخاری ج1 ص112، مسلم ج1 ص193
نماز مسنون کلاں ص361، ناشر مکتبہ دروس القرآن فاروق گنج گوجرانوالہ
6۔ مولانا ارشاد احمد فاروقی مدظلہ حنفی لکھتے ہیں:
ابن عباس کی روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ میں مامور ہوں کہ سات ہڈیوں پر سجدہ کروں اور اشارہ فرمایا اپنی انگلیوں سے پیشانی ناک دونوں ہاتھوں دونوں پیروں دونوں قدم کی طرف۔
مسلم ص193 ج1، اعلاء السنن ص19 ج2
احکام و آداب طہارت وضو اور نماز ص111
قارئین کرام! ہم نے چھ کتابوں کے حوالہ جات نقل کر دئیے ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ حنفی مذہب حدیث کے مطابق ہے۔ طالب الرحمن ویسے ہی اس کو مخالف حدیث بتا رہا ہے۔
عالمگیری کے مسئلہ کی وضاحت
اب ضرورت تو نہیں تھی کیونکہ حنفی مذہب تو آپ کو معلوم ہو گیا۔ لازمی بات ہے کہ یہ مسئلہ کسی مجبور کے لیے ہو گا۔ مگر ہم پہلے سجدہ کے متعلق عالمگیری سے حکم لکھتے ہیں پھر وضاحت کرتے ہیں۔
فتاویٰ عالمگیری میں لکھا ہے:چوتھا باب نماز کی صفت میں۔ اس باب میں پانچ فصلیں ہیں پہلی فصل نماز کے فرضوں میں۔ پھر الگ الگ ہر فرض کا حکم لکھا ہے۔ سجدے کو فرضوں میں شمار کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اور من جملہ ان کے سجدہ ہے دوسرا سجدہ بھی مثل پہلے سجدہ کے باجماع امت فرض ہے۔ یہ زاہدی میں لکھا ہے۔
فتاویٰ عالمگیری اردو ج1 ص109
پھر سجدہ کرنے کا سنت طریقہ لکھتے ہیں:
اور سجدہ کا مکمل سنت طریقہ یہ ہے کہ پیشانی اور ناک دونوں سجدہ میں لگاوے۔
پھر کچھ آگے چل کر یہ مسئلہ لکھا ہے:
حجۃ میں ہے کہ اگر سجدہ کی جگہ پر بہت سے کانٹے یا شیشے کے ٹکڑے ہوں اور وہاں سے سر اٹھا کر دوسری جگہ رکھ لے تو جائز ہے اور یہ دوسرا سجدہ نہ ہو گا بلکہ کل ایک ہی سجدہ ہو گا۔ یہ تاتار خانیہ میں لکھا ہے۔
پھر وہ مسئلہ لکھا ہے جو طالب الرحمن نے نقل کیا ہے۔ طالب الرحمن نے ترجمہ بالکل غلط کیا ہے جس سے مسئلہ کی صورت ہی بدل جاتی ہے۔ عالمگیری میں بحث چلی آ رہی ہے کانٹوں اور شیشے کی یعنی اگر سجدہ کرنے کی جگہ پر کانٹے ہوں یا شیشے کے ٹکڑے وہاں پڑے ہوں تو نمازی کیا کرے؟ ایسے نمازی کے لیے جو مجبور ہے یہ مسئلہ لکھا ہے کہ وہ اگر ہاتھوں اور گھٹنوں کو نہ رکھے تو بالاجماع نماز جائز ہو گی یہ سراج الوہاج میں لکھا ہے۔ یعنی کھڑے کھڑے اشارے سے سجدہ کر لے۔
فتاویٰ عالمگیری جلد اول اردو ص109، 110
اعتراض نمبر17: کتے اور گدھے
کے گوشت کی تجارت کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں درندوں کی تجارت
ابو مسعود سے روایت ہے کہ
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نہی عن ثمن الکلب و مھر البغی وحلوانۃ الکاہن
بخاری رقم 2237
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتے کی قیمت لونڈی اور جادو گر کی کمائی سے منع فرمایا ہے۔
فقہ حنفی میں درندوں کی تجارت
اب احناف کی بھی سن لیجیے۔
صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
1۔ ویجوز بیع الکلب والفہد والسباع المعلم وغیر المعلم فی ذلک سوائ
ہدایہ اخرین ص103
کتے، شیر اور درندے چاہے سدھائے ہوئے ہوں یا غیر سدھائے ہوئے ان کی تجارت جائز ہے۔
فتاویٰ عالمگیری میں یہ بھی ہے:
2۔ اذا ذبح کلبہ وباع لحمہ جاز و کذا اذا ذبح حمارہ و باع لحمہ… ویجوز بیع لحوم السباع والحمر المذبوحۃ فی الروایۃ الصحیحۃ
3/115
اگر اپنے کتے کو ذبح کر لے اس کا گوشت بیچے اسی طرح اپنے گدھے کو ذبح کرے اور اس کا گوشت بیچے صحیح روایت کے مطابق درندوں کا گوشت اور ذبح شدہ گدھے کا گوشت فروخت کرنا جائز ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص40، 41
سترہویں اعتراض کا جواب:
امام ابو حنیفہ کا موقف یہ ہے کہ احادیث میں مذکور نہی اس زمانے سے متعلق ہے جب کتوں کے بارے میں شریعت کے احکام بہت سخت تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کہ اہل عرب میں کتوں کے ساتھ غیر معمولی انس اور محبت پائی جاتی تھی اور ان کے گھروں میں کتوں کو شوقیہ پالنے کا بکثرت رواج تھا۔ یہ انس و محبت اور تعلق ان کے دل سے نکالنے کے لیے ابتداء میں بہت سخت احکام دیے گئے جو کہ بعد میں بتدریج نرم ہوتے گئے اور آخر میں یہ حکم ٹھہر گیا کہ کسی ضرورت کی غرض سے تو کتے کو پال لینے کی اجازت ہے لیکن شوقیہ طور پر کتا رکھنے کی اجازت نہیں ہے۔ احادیث ملاحظہ فرمائیں:
عن عبداﷲ عن ابن المغفل قال امر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بقتل الکلاب ثم قال ما بالہم وبال الکلاب ثم رخص فی کلب الصید وکلب الغنم
مسلم شریف جلد2 ص25
حضرت ابن مغفل رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے (ابتدا میں) کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا پھر فرمایا کتے لوگوں کو کیا تکلیف دیتے ہیں پھر آپ نے شکاری کتے اور بکریوں (کی حفاظت) کے (لیے) کتوں کو پالنے کی اجازت دے دی۔
اس حدیث میں تین باتوں کا ذکر ہے۔
1۔ پہلے کتے کو قتل کرنے کا حکم تھا۔
2۔ پھر قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو گیا۔
3۔ پھر شکاری کتے اور بکریوں کی حفاظت کے لیے پالنے کی اجازت بھی دے دی گئی۔ چنانچہ شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لیے کتے کو پانے کی اجازت کی صریح روایات حضرت عبداﷲ بن عمر، حضرت ابوہریرہ اور سفیان بن زبیر رضی اللہ تعالی عنہم سے مروی ہیں۔
صحیح مسلم کتاب المساقات والمزراعہ
عن ابی ہریرۃ عن رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال من اقتنی کلبا لیس بکلب صید ولا ماشیۃ ولا ارض فانہ ینقص من اجرہ قیراطان کل یوم
مسلم مترجم ج4 ص306 حدیث: 8193
حضرت ابوہریرہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس شخص نے شکار، مویشی اور زمین کے علاوہ کتا پالا یا رکھا) اس کے اجر میں سے ہر روز دو قیراط کم ہوتے رہیں گے۔
اس حدیث سے بھی ثابت ہوا کہ ان تین وجہوں سے کتا پالنے کی اجازت ہے۔ یہ اجازت بعد کے زمانے ہی کی ہے۔ جس وقت کتوں کو قتل کرنے کا حکم منسوخ ہو چکا تھا۔
قرآن پاک میں بھی کتے کے شکار کا ذکر ملتا ہے:
فَکُلُوْا مِمَّا اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ
المائدہ:4
تو کھاؤ اس شکار میں سے جو وہ (شکاری کتے وغیرہ) مار کر تمہارے لیے رہنے دیں اور اس پر اﷲ کا نام لو۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عدی بن حاتم سے فرمایا کہ
اذا ارسلت الکلب المعلم وذکرت اسم اﷲ علیہ فاخذ فکل
جب تو اﷲ تعالیٰ کا نام لے کر سدھایا ہوا کتا شکار پر چھوڑے اور کتا اسے پکڑ لے تو ایسے شکار کا کھانا تیرے لیے جائز ہے۔
نسائی ج2 ص192
ان روایات کے پیش نظر امام ابوحنیفہ فرماتے ہیں کہ جب کسی جائز ضروریات کے لیے کتے کو پالنا اور اس سے فائدہ اٹھانا درست ہے تو ظاہر بات ہے کہ اس کی خرید و فروخت کرنا بھی درست ہو گا۔ اسی وجہ سے جن بعض روایات میں کتوں کی خرید و فروخت سے ممانعت آئی ہے۔ خود انہی روایات میں یہ استثناء بھی ثابت ہے چنانچہ دیکھئے مندرجہ ذیل روایات۔
عن جابر ان النبی علیہ الصلوۃ والسلام نہی عن ثمن السنور والکلب الا کلب صید
نسائی کتاب الصید ج2 ص195، دار قطنی ج3 ص73
سنن الکبریٰ بیہقی ج6، ص6، مسند احمد ج3 ص317
حضرت جابر بن عبداﷲ سے روایت ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے بلی اور کتے کی بیع سے منع فرمایا۔ مگر شکاری کتے کی بیع سے۔
عن ابی ہریرۃ قال نھی عن ثمن الکلب الا کلب الصید
ترمذی ج1 ص154، سنن دار قطنی ج3 ص73، سنن الکبری بیہقی ج2 ص6
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہا انہوں نے منع کیا (حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے) کتے کی قیمت سے۔ مگر شکاری کتے کی قیمت کو یعنی اس کو منع نہیں کیا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے :
رخص رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم فی ثمن الکلب الصید
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے شکاری کتے کی قیمت لینے کی اجازت دی۔
مسند امام اعظم ص169، نصب الرایہ ج4 ص54
اس کے علاوہ طحاوی اور سنن الکبریٰ بیہقی میں عبداﷲ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہ اور سنن بیہقی میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ کے بارے میں مروی ہے کہ ایک دفعہ ایک شخص نے کسی کے شکاری کتے کو قتل کر دیا تو حضرت عبداﷲ بن عمرو بن العاص نے قضی فی کلب صید قتلہ رجل باربعین درہما فیصلہ فرمایا کہ کتے کا قاتل اس کے مالک کو چالیس درہم اور بیس اونٹوں کا تاوان ادا کرے۔
بیہقی ص8 ج6، طحاوی ج2 ص228
اگر شکاری کتے کی کوئی قدر و قیمت نہ ہوتی تو مندرجہ بالا فیصلہ ہر گز نہ فرمایا جاتا۔
ان روایات میں شکاری کتے کی بیع کی اجازت مذکور ہے جب کہ کھیتی اور ریوڑ کے محافظ کتے کی خرید و فروخت کی اجازت اس پر قیاس کرنے سے ثابت ہو گی اور جو روایت طالب الرحمن نے نقل کی ہے۔ وہ پہلے زمانے کی ہے جب کتوں کو قتل کرنے کا حکم تھا جب شکار اور کھیتی اور ریوڑ کی حفاظت کے لیے کتا رکھنے کی اجازت ہو گئی تو شکاری کتے کی بیع کی اجازت بھی بعد میں ہو گئی تھی۔
فتاویٰ عالمگیری کے حوالہ کی وضاحت
طالب الرحمن نے عالمگیری سے جو مسئلہ نقل کیا ہے اس کا جواب ہماری طرف سے مولانا محمد ایوب نے بڑی تفصیل سے مولانا عبدالعزیز نورستانی غیر مقلد کو دیا ہے ہم وہ بھی یہاں پر نقل کرتے ہیں قارئین کرام کے فائدہ کے لیے۔یہ سوال عبد العزیز نورستانی نے اپنے رسالہ میں احناف سے کیا تھا۔ مولانا ابو ایوب صاحب اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
جس طرح احادیث کی کتابوں میں بعض احادیث صحیح، بعض منسوخ اور بعض ضعیف و متروک ہوتی ہیں۔ اسی طرح کتب فقہ اور اس کے شروح اور فتاویٰ میں بھی بعض اقوال مفتی بہا اور معمول بہا ہوتے ہیں۔ مذہب حنفی اسی سے عبارت ہے۔ اسی طرح بعض غیر مفتی بہا مرجوح اور شاذ اقوال ہوتے ہیں۔
لہٰذا مرجوح اور غیر مفتی بہا اقوال کو بہانہ بنا کر مذہب حنفی پر اعتراضات کرنا یہ منکرین حدیث کا شیوہ ہے، مسلمان کا نہیں کیونکہ منکرین حدیث بھی ضعیف اور موضوع احادیث کو بہانہ بنا کر ذخیرہ احادیث سے انکار کرتے ہیں اور اسلام پر کئی قسم کے اعتراضات کرتے ہیں۔ اصل مسئلہ اسی طرح ہے کہ کتے اور گدھے کو شرعی طریقہ سے ذبح کر کے اس کا گوشت فروخت کیا جائے تو کیا یہ جائز ہے یا ناجائز؟ اس میں فقہائے احناف کے درمیان اختلاف ہے۔ بعض جواز کے قائل ہیں۔ اکثر محققین احناف عدم جواز کے قائل ہیں۔جو جائز سمجھتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ذبح کرنے کے بعد اس کے گوشت سے نجاست زائل ہوتی ہے اور جن کے نزدیک فروخت کرنا جائز نہیں ہے وہ کہتے ہیں کہ ذبح کرنے سے گوشت سے نجاست زائل نہیں ہوتی یہی قول مفتی بہ اور راجح ہے۔ غیر مقلدین قول اول پر اعتراض کرتے ہیں۔
غیر مقلدین کی خیانت
غیر مقلدین فتاویٰ عالمگیری سے آدھی عبارت نقل کرتے ہیں اور اس مسئلہ میں عالمگیری میں جو اختلاف بیان کیا ہے اس سے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر دیتے ہیں۔ عالمگیری میں مسئلہ مذکورہ کے بعد لکھا ہے:
وہذا فصل اختلف المشائخ فیہ بناہ علی اختلافہم فی طہارۃ ہذا اللحم بعد الذبح
فتاویٰ عالمگیری ج3 ص115
”یہ فصل ہے اس میں مشائخ نے اختلاف کیا ہے اختلاف کی بنا ذبح ہونے کے بعد اس گوشت کی طہارت میں اختلاف پر ہے۔“
اسی طرح علامہ ابن نجیم مصری لکھتے ہیں:
فالظاہر منہما ان ہذا الحکم علی القول بطہارۃ عینہ
البحر الرائق ج1 ص103
”ظاہر یہ ہے کہ یہ حکم (بیع کا جواز اور عدم جواز) متفرع ہے اس کی ذات کے طاہر ہونے پر۔“
یعنی جو ذبح کرنے کے بعد بھی گوشت کو نجس کہتے ہیں تو ان کے نزدیک اس کی بیع ناجائز ہے اور جو کہتے ہیں کہ ذبح کرنے کے بعد گوشت سے نجاست زائل ہوتی ہے۔ ان کے نزدیک اس کی بیع جائز ہے۔ اگرچہ عالمگیری وغیرہ میں لکھا ہے کہ ”مذکورہ گوشت کے جواز بیع کا ثبوت روایت صحیحہ میں ہے۔“
فتاویٰ عالمگیری ج3 ص115
لیکن فتویٰ نجاست اور عدم جواز بیع پر ہے جیسے امام بخاری نے صحیح بخاری میں دو روایتیں ران کی ستر کے متعلق نقل کی ہیں۔
انس رضی اللہ تعالی عنہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرہ کی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ ران ستر میں داخل ہے۔دونوں روایات صحیح ہیں لیکن انس کی روایت کے متعلق امام بخاری لکھتے ہیں:
وحدیث انس اسند
بخاری ج1 ص53
انس کی روایت کو زیادہ صحیح کہہ کر معلوم ہوا کہ امام بخاری کا رجحان بھی اس طرف ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں ہے لہٰذا ان کے نزدیک مفتی بہ قول یہ ہے کہ ران ستر میں داخل نہیں۔
حنفی مذہب کا مفتی بہ قول
احناف کا مفتی بہ مذہب یہ ہے کہ ذبح کرنے کے بعد کتے اور گدھے کے گوشت سے نجاست زائل نہیں ہوتی تو ان کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں۔
چنانچہ صاحب بحر الرائق لکھتے ہیں:
وصح فی الاسرار والکفایۃ والتبیین نجاسۃ
البحر الرائق ج1 ص106
صاحب اسرار صاحب کفایہ اور صاحب تبین نے مذکورہ گوشت کی نجاست کو صحیح قرار دیا ہے۔ بحرالرائق ہی میں ہے:
وفی المعراج انہ قول محققین من اصحابنا
البحر الرائق ج1 ص106
کتاب معراج میں ہے کہ مذکورہ گوشت کی نجاست محققین احناف کا قول ہے۔
صاحب بحر الرائق مزید لکھتے ہیں:
وفی الخلاصۃ وہو القول المختار واختارہ قاضی خان فی التبیین انہ قول اکثر المشائخ۔
البحر الرائق ج1 ص106
خلاصہ میں ہے کہ (مذکورہ گوشت کی نجاست) قول مختار ہے اور اسی کو قاضی خان نے اختیار کیا ہے تبیین میں ہے کہ یہ اکثر مشائخ کا قول ہے۔
صاحب بحر نے خود بھی نجاست والے قول کے متعلق فرمایا کہ وہو الصحیح
البحر الرائق ج1 ص106
”یہ صحیح قول ہے۔“
صاحب در مختار لکھتے ہیں:
لا یطھر لحمہ ہذا صح ما یفتی بہ
اس کا گوشت پاک نہیں ہوتا یہ اصح قول ہے جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔
مولانا عبدالحئی حنفی لکھتے ہیں:
قال کثیر من المشائخ انہ یطہر جلدہ لا لحمہ وہو الاصح
حاشیہ ہدایہ ج1 ص24
بہت سے مشائخ نے کہا ہے کہ (ذبح کرنے کے بعد) اس کا چمڑا پاک ہو جاتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا اور یہی سب سے صحیح قول ہے۔
علامہ ابن ہمام لکھتے ہیں:
قال کثیر من المشائخ انہ یطہر جلدہ لا لحمہ وہو الاصح واختارہ الشارحون
فتح القدیر ج1 ص84
بہت سے مشائخ نے کہا ہے (ذبح کرنے کے بعد) اس کا چمڑا پاک ہوتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا اور یہی سب سے صحیح قول ہے اسی کو شارحین نے اختیار کیا ہے۔
علامہ شرنبلالی لکھتے ہیں:
وتطہر الذکدۃ الشرعیۃ جلد غیر الماکول دون لحمہ علی اصح ما یغی بہ
شرعی ذبح غیر ماکول اللحم کے چمڑے کو پاک کرتا ہے گوشت کو پاک نہیں کرتا اصح قول کے مطابق جس پر فتویٰ دیا جاتا ہے۔
صاحب خلاصہ لکھتے ہیں:
وہو المختار وبہ اخذ الفقیہ ذکرہ صدر الشہید فی صید الفتاوٰی
خلاصۃ الفتاوٰی ص43
یہی قول مختار ہے فقہاء نے اس کو لیا ہے۔ صاحب مراقی الفلاح لکھتے ہیں:
دون لحمہ فلا یطہر علی اصح ما یفتی بہ۔
مراقی الفلاح
اصح مفتی بہ مذہب میں ذبح کرنے سے حرام گوشت پاک نہیں ہوتا۔
صاحب کبیری لکھتے ہیں:
الصحیح ان اللحم لا یطہر بالذکاۃ۔
کبیری ص144
صحیح یہ ہے کہ حرام جانوروں کا گوشت ذبح کرنے سے پاک نہیں ہوتا۔
ملا علی القاری حنفی قائلین بالطہارۃ کے اسماء ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
وقال کثیر من المشائخ یطہرہ جلدہ بھا ولا یطہر لحمہ کما لا یطھر بالدباغ قال شارح الکنز وہو الصحیح واختیارہ صاحب الغایۃ والنہایۃ
شرح النقایۃ ج1 ص20
بہت سے مشائخ نے کہا ہے کہ ذبح کرنے سے چمڑا پاک ہوتا ہے گوشت پاک نہیں ہوتا جیسا کہ دباغت سے پاک نہیں ہوتا شارح کنز نے کہا ہے کہ یہی صحیح ہے اسے صاحب غایہ اور صاحب نہایہ نے اختیار کیا ہے۔
ان حوالہ جات سے ثابت ہوا ہے کہ مذہب حنفی میں اصح اور مفتی بہ قول یہی ہے کہ ذبح کرنے سے حرام جانوروں کا گوشت پاک نہیں ہوتا تو اس کا فروخت کرنا بھی جائز نہیں لیکن یاد رہے کہ غیر مقلدین کے علماء کہتے ہیں کہ شرعی ذبح کے بعد گوشت پاک ہو جاتا ہے۔ چنانچہ غیر مقلد مولانا وحید الزمان لکھتے ہیں:
ما یطہر بالدباغۃ یطہر بالذکاۃ الا لحم الخنزیر فانہ رجس۔
نزل الابرار ج1 ص30
جو دباغت سے پاک ہو جاتا ہے ذبح سے بھی پاک ہو جاتا ہے خنزیر کے گوشت کے ماسو کہ وہ رجس ہے۔
غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان نے کتے کے گوشت، ہڈی، خون، بال اور پسینے کو نجس نہیں کہا۔
بدور الاہلہ ص16
صدیق حسن خان کے بیٹے غیر مقلد نور الحسن لکھتے ہیں کہ کتے اور خنزیر کے نجس کے ہونے کا دعویٰ شراب اور دم مسفوح کے پلید ہونے کا دعویٰ اور مرے ہوئے جانور کے ناپاک ہونے کا دعویٰ صحیح نہیں ہے۔
عرف الجادی
نور ستانی کے دلائل کا تحقیقی جائزہ
نورستانی نے جن روایات سے مذبوح کتے اور گدھے کے گوشت کو فروخت کرنا حرام ثابت کیا ہے (بزم خویش) ان کا مشاہدہ بھی کیجیے کہ واقعی وہ دلائل ان کے مدعی کے مطابق ہے یا صرف اپنے حمایتی اور اپنے مریدین کو خوش کرنے کے لیے یہ ناکام کوشش کی ہے۔
1۔ ابو ثعلبہ خشنی فرماتے ہیں کہ بے شک رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے درندوں میں سے ہر داڑ والے درندے کا گوشت کھانے سے منع فرمایا ہے۔
بخاری
2۔ رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک آواز دینے والے کو حکم دیا تو اس نے لوگوں میں منادی کرائی کہ اﷲ اور اﷲ کے رسول تمہیں گھریلو گدھوں کے گوشت سے منع فرماتے ہیں۔
بخاری
3۔ رسول علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں اﷲ تعالیٰ یہود کو ہلاک کرے ان پر چربی حرام کر دی گئی تو انہوں نے پگھلا کر فروخت کیا پھر اس کے پیسے کو کھایا۔
بخاری و مسلم
4۔ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں جس ذات نے اس (شراب) کے پینے کو حرام قرار دیا ہے اس ذات نے اس کے فروخت کرنے کو بھی حرام قرار دیا ہے۔
مسلم
المبنی للفاعل 4۔5
مشہور ہے ”لن یصلح العطار ما افسدہ الدہر“ بظاہر تو قوم نے ان کے ان علمی جوابات سے خبردار ہو کر خراج تحسین ادا کیا ہو گا بھوکے کو باسی روٹی مل جائے تو خوشی مناتا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے قوم کو اندھیرے میں رکھا ہے۔ کیوں جناب! ان چار روایت میں سے کسی ایک روایت میں بھی ذبح کا لفظ ہے؟ حضرت مولانا صاحب دامت برکاتہم نے تو مذبوح کتے اور گدھے کا گوشت فروخت کرنے کی حرمت پر دلیل مانگی تھی جناب نورستانی صاحب نے غیر مذبوح حرام جانوروں کا گوشت اور شراب کی فروخت کے حرام ہونے پر دلائل پیش کردیے۔
جناب من! آپ نے حرام جانوروں کی حرمت پر دلائل پیش کیے اگر جانور حلال بھی ہو لیکن شرعی ذبح کے بغیر مر جائے احناف وغیرہم تو ان کی حرمت کے بھی قائل ہیں۔ چہ جائیکہ حرام جانور۔
البتہ بات شرعی طریقہ پر ذبح کرنے میں ہے کہ ذبح کرنے سے عند البعض حرام جانور کی نجاست زائل ہوتی ہے جیسا کہ مرا ہوا حلال جانور کا کھانا حرام ہے لیکن ان کے چمڑے کو اگر دباغت دی جائے تو وہ پاک ہو جاتا ہے اور ان کا فروخت کرنا بھی جائز ہے چنانچہ ایک مرتبہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک برتن سے وضو کا ارادہ کیا کسی نے کہا کہ یہ برتن مرے ہوئے جانور کے چمڑے سے بنا ہے تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس چمڑے کی دباغت اس کے نجاست کو زائل کر دیتی ہے۔
مسند احمد، ابن خزیمہ، حاکم بیہقی، قال الحافظ واسنادہ صحیح تلخیص الحبیر 2/190
بہرحال یہ غیر مفتی بہ اور مرجوح بھی دلائل سے مبرہن ہے لیکن دیگر دلائل کی بنا پر محققین احناف نجاست اور حرمت والے قول کو راجح اور مفتی بہ قرار دیتے ہیں۔ کما مر۔
عاشق حق ص8 تا 18، ترمیم و اضافہ کے ساتھ
اعتراض نمبر18: عمامہ پر مسح کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں عمامہ پر مسح
جعفر بن عمرو اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں کہ
رأیت النبی علیہ الصلوۃ والسلام یمسح علی عمامتہ وخفیہ
بخاری رقم: 205
میں نے نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو عمامے اور موزوں پر مسح کرتے ہوئے دیکھا۔
فقہ حنفی میں عمامے پر مسح
چونکہ احناف کا باوا آدم ہی نرالا ہے، صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
ولا یجوز المسح علی العمامۃ
ہدایہ اولین ص44
عمامہ پر مسح کرنا جائز نہیں۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص41
اٹھارہویں اعتراض کا جواب
طالب الرحمن کا یہ کہنا کہ حنفی مذہب اس حدیث کا منکر ہے یہ بالکل جھوٹ ہے۔ احناف کسی بھی حدیث کا انکار نہیں کرتے۔ بلکہ کسی مسئلے میں وارد ہونے والے تمام دلائل کو سامنے رکھ کر تمام روایات میں تطبیق دیتے ہیں۔ اور جو زیادہ بہتر اور زیادہ صحیح بات معلوم ہو اس پر عمل کرتے ہیں۔قرآن و سنت کی روشنی میں سر پر مسح فرائض الوضوء میں شامل ہے اس لیے صرف پگڑی (عمامہ) پر مسح صحیح نہیں۔
دلائل احناف؛ پہلی دلیل:
یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُواْ اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلاۃِ فاغْسِلُوْا وُجُوْہَکُمْ وَاَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوْا بِرُؤُوْسِکُمْ وَاَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ
المائدہ:6
اے ایمان والو جب تم نماز کے لیے اٹھنے لگو تو اپنے چہروں کو دھوؤ اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھوؤ اور اپنے سر پر مسح کرو اور اپنے پیروں کو بھی ٹخنے سمیت دھوؤ۔
دوسری دلیل:
عن انس بن مالک قال رأیت رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم یتوضا و علیہ عمامۃ قطریۃ فادخل یدہ من تحت العمامۃ فمسح مقدم راسہ ولم ینقص العمامۃ
ابوداود ج1 ص19
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو فرماتے ہوئے دیکھا آپ کے سر مبارک پر قطری پگڑی تھی۔ آپ نے پگڑی کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سر کے اگلے حصے پر مسح فرمایا اور پگڑی کو کھولا نہیں۔
تیسری دلیل:
قال الشافعی اخبرنا مسلم عن ابن جریج عن عطاء ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم توضاء فحسر العمامۃ عن راسہ ومسح مقدم راسہ او قال ناصیتہ بالماء
کتاب الام ج1 ص26
حضرت عطاء بن ابی رباح رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پگڑی کو سر سے اوپر کیا اور سر کے اگلے حصے پر مسح فرمایا۔ یا حضرت عطاء نے فرمایا کہ آپ نے اپنی ناصیۃ ) پیشانی جتنی جگہ پر( پر مسح فرمایا پانی سے۔
چوتھی دلیل:
عن ابن عمر انہ کان اذا مسح رأسہ رفع القلنسوۃ ومسح مقدم رأسہ
رواہ الدار قطنی ج1 ص107، وفی التعلیق المغنی سندہ صحیح
حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما جب سر پر مسح فرماتے تو ٹوپی سر سے ہٹا لیتے اور سر کے اگلے حصہ پر مسح فرماتے۔
پانچویں دلیل:
مالک انہ بلغہ ان جابر بن عبداﷲ الانصاری سئل عن المسح علی العمامۃ فقال لا حتی یمسح العشر بالماء
موطا امام مالک ص23
حضرت امام مالک سے مروی ہے کہ انہیں یہ حدیث پہنچی ہے کہ حضرت جابر بن عبداﷲ انصاری سے پگڑی پر مسح کرنے کے متعلق سوال کیا گیا آپ نے فرمایا جائز نہیں ہے جب تک بالوں کا پانی سے مسح نہ کرے۔
چھٹی دلیل:
مالک عن ہشام بن عروۃ عن ابیہ عروۃ بن الزبیر کان ینزع العمامۃ ویمسح راسہ بالمائ
موطا امام مالک ص23
حضرت عروہ بن زبیر سے مروی ہے کہ وہ سر سے پگڑی ہٹا کر پانی سے پر سر مسح فرماتے تھے۔
ساتویں دلیل:
عن نافع انہ ر أی صفیۃ بنت ابی عبید امرأۃ عبداﷲ بن عمر تنزع خمارھا تمسح علی راسھا بالماء ونافع یومئذ صغیر قال یحیٰی وسئل مالک عن المسح علی العمامۃ والخمار فقال یا ینبغی ان یمسح الرجل ولا المرأۃ علی العمامۃ ولا خمار ولیمسھا علی رؤسھا
موطا امام مالک ص23
امام نافع سے مروی ہے کہ انہوں نے ابو عبید کی صاحبزادی اور حضرت عبداﷲ بن عمر کی اہلیہ کو دیکھا کہ انہوں نے دوپٹہ سر سے ہٹا کر پانی سے سر پر مسح کیا نافع ان دنوں بچے تھے۔ یحییٰ فرماتے ہیں کہ امام مالک سے پگڑی اور دوپٹہ پر مسح کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ مرد و عورت کے لیے مناسب نہیں ہے کہ وہ پگڑی اور دوپٹے پر مسح کریں انہیں چاہیے کہ سر پر مسح کریں۔
خلاصہ کلام
آیت کریمہ سے معلوم ہو رہا ہے کہ دوران وضو سر پر مسح کرنا فرض ہے، اﷲ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہے لہٰذا جو شخص دوران وضو سر پر مسح نہیں کرے گا اس کا وضو نہیں ہو گا۔
مندرجہ بالا احادیث و آثار سے معلوم ہو رہا ہے کہ اگر کسی کے سر پر پگڑی یا ٹوپی ہو تو دوران وضو یا تو اس کے نیچے سے ہاتھ ڈال کر سر پر مسح کرے یا سر سے پگڑی یا ٹوپی اتار کر مسح کرے۔ حضورحضور صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے۔ صحابہ کرام کا بھی یہی معمول تھا۔
آپ نے دیکھ لیا کہ احناف کا مسلک قرآن اور حدیث کے عین مطابق ہے۔ طالب الرحمن احناف کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈہ کرتے ہیں۔
رہی وہ روایت جو طالب الرحمن نے نقل کی ہے اس کے کئی جواب ہیں۔ آپ نے اصل میں پگڑی کے نیچے یعنی اندر ہاتھ کر کے مسح فرمایا جیسا کہ احادیث میں اوپر گزرا ہے۔ راوی نے سمجھا کہ عمامہ پر مسح کیا ہے۔ راوی آپ سے دور ہو گا۔ ہماری یہ تطبیق حدیث کے مطابق ہے جیسا کہ اوپر احادیث گزر چکی ہیں۔ احناف آپ علیہ الصلوۃ والسلام کا حکم کیسے چھوڑ سکتے ہیں؟
اللہ تعالی فرقہ اہلحدیث کو ہدایت عطا فرمائیں جو بلاوجہ احناف پر اعتراضات کرتے رہتے ہیں۔
اعتراض نمبر19:میت کی طرف سے
وارث کے روزے رکھنے کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں وارث پر روزے
امام بخاری اپنی صحیح میں یہ باب باندھتے ہیں: باب من مات وعلیہ صومجو مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں۔ اور حضرت عائشہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے روایت بیان کرتے ہیں:
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من مات وعلیہ صیام صام عنہ ولیہ
بخاری رقم:1952
کہ رسول علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جو شخص مر جائے اور اس کے ذمہ روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے۔
فقہ حنفی میں وارث کو آزادی
صاحب ہدایہ اس کا جواب یوں دیتے ہیں
ولا یصوم عنہ الولی
ہدایہ اولین ص203
فوت شدہ کی طرف سے اس کا ولی روزے نہ رکھے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص41
انیسویں اعتراض کا جواب
امام ابوحنیفہ کا مسلک اس مسئلہ میں یہ ہے کہ ایسی عبادات جو محض بدنی ہیں جیسے نماز اور روزہ ان میں کسی دوسرے آدمی کی نیابت کرنے سے یہ عبادتیں ادا نہیں ہوتیں۔ البتہ جو عبادات محض بدنی نہیں بلکہ مالی بھی ہیں۔ جیسے حج ان میں اگر اصل شخص عاجز ہو جائے تو دوسرا شخص اس کا نائب بن کر اس کی طرف سے عبادات ادا کر سکتا ہے۔ رہیں وہ عبادات جو محض مالی ہیں جیسے زکوٰۃ اور صدقہ فطر تو ان میں مطلقاً نیابت درست ہے۔
اس تفصیل سے واضح ہے کہ امام صاحب کے نزدیک نماز یا روزہ کوئی شخص دوسرے کی طرف سے نائب بن کر ادا نہیں کر سکتا البتہ روزے کا فدیہ دوسرے شخص کی طرف سے ادا کیا جا سکتا ہے۔ یہی مسلک امام شافعی امام مالک اور جمہور اہل علم کا ہے اور اس پر صریح اور واضح دلائل ملاحظہ فرمائیں۔
1۔ حضرت عبداﷲ بن رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں۔ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز نہ پڑھے اور نہ کوئی آدمی کسی دوسرے آدمی کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ ہر روزے کے بدلے میں ایک مد کھانا کھلا دے۔
مشکل الآثار ج3 ص141
ابن حجر نے تلخیص الحبیر ج2 ص209 میں اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
2۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا جو شخص مرجائے اور اس کے ذمے مہینے کے روزے لازم ہوں تو اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا کھلایا جائے۔
ترمذی ج1 ص152
عمدۃ القاری میں اس کی سند کو امام قرطبی کے حوالے سے حسن قرار دیا گیا ہے۔
3۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے عمرہ بنت عبد الرحمن نے پوچھا کہ میری والدہ وفات پا گئی ہیں اور ان کے ذمہ رمضان کے روزے باقی تھے۔ تو کیا میں ان کی طرف سے قضا کر لوں؟
حضرت عائشہ نے فرمایا نہیں بلکہ اس کی طرف سے ہر روزے کے بدلے میں ایک مسکین پر صدقہ کرو۔ یہ تمہارے روزے رکھنے سے بہتر ہے۔
مشکل الآثار ج3 ص142، المحلی ابن حزم ج7 ص4
علامہ مار دینی نے اس کی سند کو صحیح قرار دیا ہے۔
الجوہر النقی ج4 ص25
4۔ حضرت عبداﷲ بن عباس فرماتے ہیں کہ جس شخص کے ذمے رمضان کے روزے باقی ہوں اور وہ مر جائے تو اس کی طرف سے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلایا جائے۔
مصنف عبدالرزاق ج4 ص237
5۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر فرماتے ہیں کوئی آدمی دوسرے آدمی کی طرف سے ہر گز نماز نہ پڑھے اور نہ دوسرے کی طرف سے روزہ رکھے بلکہ اگر تم کرنا ہی چاہتے ہو تو اس کی طرف سے صدقہ کر دو یا ہدیہ دے دو۔
مصنف عبد الرزاق ج9 ص61، سنن الکبریٰ ج4 ص254، موطا مالک ص245
6۔ علاوہ ازیں صحابہ کرام کے دور میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی جس میں کسی دوسرے آدمی کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کو جائز قرار دیا گیا ہو۔ چنانچہ امام مالک فرماتے ہیں میں نے مدینہ منورہ میں صحابہ کرام یا تابعین میں سے کسی کے بارے میں یہ نہیں سنا کہ انہوں نے کسی دوسرے شخص کی طرف سے نماز یا روزہ ادا کرنے کا حکم دیا ہو بلکہ وہ سب اپنا عمل اپنے ہی لیے کرتے ہیں اور کوئی شخص بھی دوسرے کی طرف سے عمل نہیں کرتا۔
نصب الرایہ ج2 ص463
رہی وہ روایت جو طالب الرحمن نے نقل کی ہے اس کا مندرجہ بالا قوی اور صحیح دلائل کی روشنی میں ایسا مفہوم مراد لینا ضروری ہے جو مذکورہ احادیث کے خلاف نہ ہو۔ بالخصوص جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات میں بظاہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نیابتاً روزہ رکھنے کی اجازت دی ہے۔ ان کو روایت کرنے والے صحابہ کرام میں حضرت عائشہ اور عبداﷲ بن عباس رضی اللہ تعالی عنہم بھی شامل ہیں۔ لیکن ان دونوں کا فتویٰ اس کے خلاف ہے، جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے۔
چنانچہ اس روایت کی ایک توجیہ یہ کی گئی ہے کہ پہلے نیابتاً روزہ رکھنے کی اجازت تھی جو کہ بعد میں منسوخ ہو گئی اور اس کے منسوخ ہونے کا قرینہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ اور حضرت عبداﷲ بن رضی اللہ عنہما جو کہ اجازت کی روایات کے راوی ہیں۔ ان کا فتویٰ اس کے خلاف موجود ہے۔ ظاہر ہے کہ اگر اجازت منسوخ نہ ہو گئی ہوتی تو یہ دونوں حضرات اس کے خلاف فتویٰ نہ دیتے۔
دوسری توجیہ یہ ہے کہ اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ میت کی طرف سے نائب بن کر روزہ رکھا جائے بلکہ مطلب یہ ہے کہ آدمی اپنی طرف سے نفلی روزہ رکھ کر اس کا ثواب میت کی روح کو پہنچا دے۔
تیسری توجیہ یہ بھی ہو سکتی ہے یعنی اس کی طرف سے روزہ رکھنے کا مطلب ہے کھانے سے اس کا تدارک کر دینا۔ پس جب مساکین کو کھانا دینے سے وہ میت روزے سے بری ہو گی تو گویا اس شخص نے اس کی طرف سے روزے ادا کیے۔
ظاہر ہے اگر میت کے طرف سے روزے رکھنا جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس کے خلاف فتوی کیوں دیتے؟
اعتراض نمبر20: آخری تشہد میں
جان بوجھ کر وضو توڑنے کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں وضو کا مقام
امام بخاری اپنی صحیح میں یہ باب باندھتے ہیں:
باب لا تقبل صلاۃ بغیر طہور
بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کی جاتی۔ پھر حضرت ابو ہریرہ سے روایت بیان کرتے ہیں کہ:
قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم لا تقبل صلاۃ من احدث حتی یتوضأ قال رجل من حضر موت ما الحدث یا ابا ہریرۃ؟ قال فساء او ضراط
بخاری رقم:135
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ حدث کرنے والے کی نماز قبول نہیں ہوتی جب تک کہ وہ وضو نہ کر لے۔ حضر موت سے آئے ہوئے شخص نے حضرت ابوہریرہ سے پوچھا کہ حدث کیا ہے؟ فرمایا ہوا خارج کرنا یا پاد مارنا ہے۔
فقہ حنفی میں پاد سلام کا قائم مقام
اب احناف کی بھی سنئے۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
وان سبقہ الحدث بعد التشہد توضأ وسلم لان التسلیم واجب فلا بد من التوضی لیاتی بہ وان تعمد الحدث فی ہذہ الحالۃ او تکلم او عمل عملا ینافی الصلٰوۃ تمت صلاتہ
ہدایہ اولین ص110
اگر تشہد میں ہوا سبقت لے جائے تو دوبارہ وضو کرے پھر سلام پھیرے کیونکہ سلام پھیرنا واجب ہے اور سلام پھیرنے کے لیے وضو ضروری ہے لیکن اگر اس حالت میں جان بوجھ کر ہوا خارج کر دے یا گفتگو شروع کر دے یا نماز کے منافی کام کرے تو اس کی نماز مکمل ہو گی۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص42
بیسویں اعتراض کا جواب
یہ اعتراض رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے کیونکہ اس کی سند حدیث میں موجود ہے مگر معترض کا یہ کہنا کہ ہوا نکال دینا فقہاء کے نزدیک سلام کے قائم مقام ہے۔ بہتان ہے۔ نعوذ باﷲ من سوء الفہم بلکہ ایسا کرنے والا گنہگار ہے اگر قصداً ایسا کرے تو نماز اس کی مکروہ تحریمہ ہے۔ جس کا پھر دوبارہ پڑھنا اس پر واجب یہ اس لیے کہ اس نے سلام کہہ کر نماز سے باہر آنا تھا اور یہ سلام اس پر واجب تھا، چونکہ اس نے سلام کو جو شرعاً واجب تھا، ترک کیا، اس لیے گنہگار بھی ہوا، اور نماز کا اعادہ بھی لازم ہوا، اور یہ خیال کہ حنفیہ ایسی نماز کو بلا کراہت تحریمی جائز رکھتے ہیں یا اس فعل کو جائز رکھتے ہیں، حنفیوں پرصریح افتراء ہے۔
خود غیر مقلدین کے نواب صدیق حسن خان صاحب نے کشف الالتباس میں اس اعتراض کا خوب رد کیا ہے۔ طالب الرحمن وہاں پر بھی ملاحظہ فرمائیں۔
امام ابو داود،ترمذی اور طحاوی نے روایت کیا ہے کہ جس وقت امام قعدہ میں بیٹھ گیا اور سلام سے پہلے اس نے حدث کیا تو حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں کہ اس کی اور جو لوگ اس کے پیچھے تھے سب کی نماز پوری ہو گئی۔ علامہ علی قاری نے رسالہ تشیع الفقاء الحنفیہ میں کتنی حدیثیں اس بارہ میں لکھی ہیں۔ جو دیکھنا چاہے وہ عمدۃ الرعایہ حاشیہ شرح وقایہ کا ص185 دیکھ لے۔معترض کو اپنے ایمان کی فکر کرنا چاہیے، احناف کے ہاں قعدتین میں تشہد پڑھنا واجب ہے۔
دیکھیے منیہ ص86
جواب نمبر2:
نماز کے آخر میں سلام کے حکم کے بارہ میں ائمہ کا اختلاف ہے، نووی شرح مسلم ج1 ص195 میں ہے کہ امام مالک، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک سلام فرض ہے اس کے بغیر نماز درست نہیں، امام ابوحنیفہ، امام سفیان ثوری اور امام اوزاعی وغیرہ کے نزدیک یہ سنت ہے اگر اس کو ترک بھی کر دیا جائے تو نماز ہو جاتی ہے۔ مگر ترک نہیں کرنا چاہیے۔
جواب نمبر3:
شامی ج1 ص145 وغیرہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ لفظ سلام کہنا واجب ہے اگر کسی اور طریقہ سے نماز سے نکلے گا تو گنہگار ہو گا۔
جواب نمبر4:
مندرجہ ذیل احادیث میں مذکور ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ایسے شخص کی نماز کو مکمل قرار دیا ہے۔ ابوداود ج1 ص91 میں ہے :
عن عبداﷲ بن عمرو ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا قضی الامام الصلاۃ وقعد فاحدث قبل ان یتکلم فقد تمت صلاتہ ومن کان خلفہ ممن اتم اصلاۃ
یعنی جس شخص نے آخری قعدہ پڑھ لیا اور پھر جان بوجھ کر ہوا خارج کر دی، اس کی نماز پوری ہو گئی اور اس کے پیچھے پڑھنے والوں کی نماز بھی پوری ہو گئی۔
اور طحاوی ج1 ص189 میں اسی روایت میں فلا یعود فیھا کے الفاظ بھی ہیں۔ یعنی اسے نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
حلیۃ الاولیاء ج5 ص117 میں ہے :
کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں تشہد سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہوتے اور فرماتے :
من احدث حدثا بعد ما یفرغ من التشہد فقد تمت صلاتہ
ان مذکورہ روایات و احادیث کی روشنی میں دیانت داری کے ساتھ فیصلہ کیجیے کہ آپ کا اعتراض فقہ پر ہے یا حدیث پر؟
جواب نمبر5:
آپ کے مسلک کے محسن اعظم اور مترجم صحاح ستہ نواب وحید الزمان خان کنز الدقائق ص24 میں لکھتے ہیں کہ اگر ایک شخص نے نماز پڑھائی اور سلام کے بعد اعلان کیا کہ میں نے نماز بے وضو پڑھائی ہے تو نماز ہو گئی لوٹانے کی ضرورت نہیں۔
نوٹ:
اعتراض نمبر11 تا 20 تک یہ دس اعتراض وہ ہیں جو طالب الرحمن نے بخاری شریف سے فقہ حنفی کا تضاد ثابت کرنے کے لیے نقل کیے ہیں۔ آگے مسلم شریف اور حدیث کی دیگر کتابوں سے فقہ حنفی کا تضاد ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اعتراض نمبر21: شرائط امامت کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں امامت کی شرائط
لیجیے اب مسلم اور دوسری احادیث کی کتابوں کے کچھ مسائل جس کی احناف مخالفت کرتے ہیں۔امامت کا حق دار کون ہے اس بارے میں ابو مسعود رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
قَالَ رَسُولُ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام یَؤُمُّ الْقَوْمَ أَقْرَؤُہُمْ لِکِتَابِ اللَّہِ فَإِنْ کَانُوا فِی الْقِرَاء َۃِ سَوَائً فَأَعْلَمُہُمْ بِالسُّنَّۃِ فَإِنْ کَانُوا فِی السُّنَّۃِ سَوَائً فَأَقْدَمُہُمْ ہِجْرَۃً فَإِنْ کَانُوا فِی الْہِجْرَۃِ سَوَائً فَأَقْدَمُہُمْ سِلْمًا قَالَ الْأَشَجُّ فِی رِوَایَتِہِ مَکَانَ سِلْمًا سِنًّا ثُمَّ لَیَؤُمَّکُمْ اَکْبَرُکُمْ
مسلم رقم:674
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امامت قرآن کو سب سے زیادہ پڑھنے والا کرائے )جو قرأت میں ماہر ہو) اگر قرأت میں سب برابر ہوں تو سب سے زیادہ سنت کو جانتا ہو اگر اس میں بھی سب برابر ہوں تو سب سے پہلے ہجرت کرنے والا کرائے اگر اس میں بھی برابر ہوں تو سب پہلے اسلام لانے والا (اور ایک روایت میں ہے کہ جو عمر میں سب سے بڑا ہو) امامت کرائے۔
فقہ حنفی میں امامت کی شرائط
اب احناف کی امامت کی شرائط بھی سن لیں۔ ابن عابدین شامی فرماتے ہیں:
ثم الاحسن خلقا ثم الاحسن وجہا ثم الاشرف نسبا، ثم الاحسن صوتا، ثم الاحسن زوجۃ، ثم الاکثر مالا، ثم الاکثر جاہا، ثم الانطف ثوبا، ثم الاکبر رأسا والاصغر عضوا
رد المحتار: 1/375
امام وہ بنے جو اچھے خلق والا پھر وہ جو خوبصورت ہو پھر وہ جو بڑے حسب نسب والا ہو پھر وہ جو اچھی آواز والا ہو پھر وہ جو خوبصورت بیوی والا ہو پھر وہ جو زیادہ مال دار ہو پھر وہ جو بڑے مرتبے والا ہو پھر وہ جو نظیف کپڑوں والا ہو پھر وہ جو بڑے سر والا اور چھوٹے عضو والا ہو۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص42، 43
اکیسویں اعتراض کا جواب
اس اعتراض کا جواب بھی ہم تلاش حق سے نقل کرتے ہیں جو عبدالعزیز نورستانی غیر مقلد کے سوالات اور اعتراضات کے جواب میں ہمارے دوست محمد ایوب نے لکھی ہے۔ سوال جواب ملاحظہ فرمائیں۔
سوال:
اشتہار میں تیسرا سوال یہ کیا ہے کہ حنفی مذہب میں امامت کے شرائط میں ایک شرط یہ بھی ہے کہ جس کی بیوی خوب صورت ہو اس کو امام بناؤ اگر اس میں برابر ہو جس کا سر بڑا ہو اور عضو چھوٹا ہو تو اس کو امام بناؤ۔
جواب:
غیر مقلدین خیانت جیسے جرم عظیم کو گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ در مختار میں بیوی کا خوبصورت ہونا، اعضاء کا چھوٹا ہونا امامت کے شرائط میں سے نہیں بلکہ احقیت امام کے لیے صفات بیان کیے ہیں۔ شرط تو وہ ہوتی ہے جس کے فوت ہونے سے مشروط بھی فوت ہو جائے حالانکہ اگر امام میں یہ صفات نہ بھی ہوں تو نماز میں کوئی خلل نہیں آتا۔ صرف بہتری کے لیے ان صفات کا ذکر کیا ہے احادیث میں امامت کے لیے جو صفات بیان کی گئی ہیں اگر ان صفات میں مساوی ہوں تو فقہائے کرام نے احقیت امامت کے لیے چند صفات بیان کیے ہیں ان صفات میں سے غیر مقلدین نے اشتہار مذکور میں دو صفت نقل کر کے اعتراض کیا ہے کہ انہیں قرآن و سنت سے ثابت کریں ہم نے پہلے بھی عرض کیا ہے کہ غیر مقلدین کا یہ انداز غلط ہے کیونکہ اہل السنت والجماعت کے چار دلائل ہیں لہٰذا فقہائے کرام نے احادیث کو مدنظر رکھتے ہوئے قیاس کر کے مذکورہ صفات ذکر کیے یہ صفات قیاس ہی سے نہیں بلکہ بعض احادیث سے بھی ثابت ہیں۔
حدیث نمبر1:
جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
ان سرکم ان تقبل صلاتکم فلیؤمکم خیارکم فانہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم
طبرانی کبیر ج20 ص328، دار قطنی، مستدرک حاکم، مرقاۃ ج3 ص196
اگر تمہیں اچھا لگتا ہے کہ تمہاری نماز قبول ہو تو چاہیے کہ تمہاری امامت وہ لوگ کریں جو تم میں سے بہتر ہوں کیونکہ امام تمہارے نمائندے ہوتے ہیں تمہارے اور خدا کے درمیان۔
حدیث نمبر2:
اسی طرح حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ تعا لی عنہما حضرت محمد علیہ الصلوۃ والسلام سے روایت کرتے ہیں:
اجعلوا ائمتکم خیارکم فانہم وفدکم فیما بینکم وبین ربکم
سنن الکبریٰ ج3 ص90
اپنے امام اپنے سے بہترین لوگوں کو بناؤ کیونکہ امام تمہارے نمائندے ہوتے ہیں تمہارے اور تمہارے خدا کے درمیان۔
قارئین کرام! اس بات سے ہمیں انکار نہیں کہ حضرات محدثین کرام نے ان دونوں روایتوں کی صحت میں کچھ کلام کیا ہے لیکن یہ بات بھی قابل انکار نہیں کہ محدثین نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں قابل حجت ہے۔
شرح النقایہ ج1 ص9، مستدرک ج1 ص490، فتح المغیث ص120، فتاویٰ لابن تیمیہ ج1 ص39، فتاویٰ نذیریہ ج1 ص265
ان احادیث سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ امام اسے بنایا جائے جو سب سے بہتر ہو اب بہترین لوگ کون سے ہیں ملاحظہ فرمائیں۔
احقیت امامت کے لیے پہلی صفت
حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں:
خیارکم خیارکم لنسائہم
مشکوٰۃ ج2 ص289
تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیویوں کے حق میں بہتر ہو۔
شریعت مطہرہ میں تو کالے گورے خوبصورت اور بدصورت کا تو کوئی امتیار نہیں ہے لیکن دل غیر اختیاری طور پر خوبصورت بیوی کی طرف مائل ہو جاتا ہے اور یہ بھی تجربہ شدہ بات ہے کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو عام طور پر وہ اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی فرماتے ہیں کہ مومن بندہ اﷲ تعالیٰ کے تقویٰ کے بعد جو سب سے بہتر چیز اپنے لیے پسند کرتا ہے وہ نیک بخت بیوی ہے۔
ان امرہا اطاعۃ وان نظر الیہا سرۃ
مشکوٰۃ ج2 ص268
اگر اس کو کوئی حکم دیتا ہے تو وہ اس کی تعمیل کرتی ہے جب وہ شوہر) اس کی طرف دیکھتا ہے تو وہ اس کا دل خوش کرتی ہے۔ ملا علی قاری اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں
”ای جعلتہ مسرورا بحسن صورتھا و سیرتھا
مرقاۃ ج2 ص274
یعنی اگر شوہر اس عورت کو دیکھے تو یہ عورت اپنے صورت و سیرت کے حسن سے اسے خوش کرتی ہے۔ اسی طرح جس آدمی کی بیوی خوبصورت ہو وہ عموماً بد نظری، بے حیائی اور فحش کاموں سے محفوظ رہتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے بیوی کو شوہر کے لیے لباس ٹھہرایا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نکاح کرنا نظر کو بہت چھپاتا ہے اور شرم گاہ کو بہت محفوظ رکھتا ہے۔
بخاری و مسلم و مشکوٰۃ ج2 ص267
یعنی جو شادی شدہ ہو تو اس کی اجنبی عورت کی طرف نظر مائل نہیں ہوتی اور حرام کاری سے بچتا ہے مشفق انسانیت پیغمبر اسلام علیہ الصلوۃ والسلام نے بے حیائی اور حرام کاری سے روکنے کا ذریعہ نکاح ٹھہرایا ہے اب آپ خود سوچیے کہ جس کی بیوی خوبصورت ہو تو کیا وہ بطریق اولیٰ حرام کاری سے نہیں رکے گا؟ فقہاء کی ان ساری باتوں پر نظر تھی اس لیے کہا کہ اگر کسی کی بیوی خوبصورت ہو تو اسے امام بنایا جائے گا۔ اور یہ بات کہ امام کی بیوی کیسے معلوم کی جائے تو ہمسایہ اور رشتہ دار لوگوں کو اپنی عورتوں کے ذریعے معلوم ہو جاتا ہے جیسا کہ کوئی آدمی نکاح کرتا ہے تو لڑکی کی حالت اپنی عورتوں سے معلوم کرتا ہے۔
احقیت امامت کے لیے دوسری صفت
رہی یہ بات کہ امام اسے بنایا جائے جس کا سر بڑا ہو دوسرے اعضا چھوٹے ہوں اس کا مطلب یہ ہے کہ سر کا بڑا ہوتا دوسرے اعضاء کا مناسب ہونا کمال عقل کی دلیل ہے اور یہ بات بھی تجربہ سے ثابت ہے کہ جس کا سر بڑا ہو دوسرے اعضاء چھوٹے ہوں تو وہ نہایت سمجھ دار ہوتا ہے اور چھوٹے سر والا کم عقل والا ہوتا ہے اور اس بات سے بھی کسی کو انکار نہیں کہ عقل مند کم عقل والے سے بہتر ہوتا ہے اور حدیث میں بھی بہتر شخص کو امام بنانے کی ترغیب دی گئی ہے۔ قارئین کرام غور فرمائیے کہ فقہ حنفی کا یہ مسئلہ حدیث کے مخالف ہے یا موافق؟
فقہائے احناف پر عظیم بہتان
نام نہاد شیر سرحد، تاج غیر مقلدین جناب نورستانی صاحب لکھتے ہیں کہ ”الاصغر عضوًا“ یعنی جس کا عضو چھوٹا ہو سے مراد آلہ تناسل کا چھوٹا ہو جانا ہے یعنی امام اسے بنایا جائے جس کا سر بڑا اور آلہ تناسل چھوٹا ہو یہ دلیل یہ پیش کی ہے کہ لفظ ”عضو“ واحد ہے اور سارے بدن میں واحد عضو صرف آلہ تناسل ہی ہے۔
المبنی للفاعل 19
جواب:
کفار کی یہی کوشش ہے کہ مسلمانوں کو کیسے بدنام کیا جائے باطل فرقے قادیانی، پرویزی وغیرہ اس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ اہل اسلام کی کتابوں میں لفظی اور معنوی تحریف کریں غلط مطلب بیان کریں کمی اور زیادتی کریں۔ ان کے آلہ کار غیر مقلدین کی بھی یہی کوشش ہے کہ فقہائے احناف کی کتابوں سے مرجوح اور مرجوح عنہ اقوال اچھال اچھال کر لوگوں میں مفت تقسیم کریں ان کی عبارات کا غلط ترجمہ کر کے اہل باطل کی خوشی اور مسلمانوں کو اپنے دین سے بد ظن کریں۔ پتہ نہیں نورستانی اور ان کے ہمنوا ”عضو“ سے آلہ تناسل کیوں مراد لیتے ہیں۔
بے حیا باش دہرچہ خواہی کن
جناب من! آپ کا یہ مطلب جو آپ نے لیا ہے شائد آپ کی جماعت والے قبول کر لیں باوجود غیر مقلد ہونے کے آپ کی عقیدت کی وجہ سے آپ کی تقلید کریں یا اور کوئی عقل مند دشمن اس سے یہی مراد لے جو آپ نے لی ہے مگر ہم تو کہتے ہیں کہ زہر آلود لقمہ ہے جو ناواقف لوگوں کو کھلایا گیا ہے۔
”عضو“ سے آلہ تناسل مراد لینا محض بہتان ہے:
چنانچہ علامہ ابن عابدین شامی حنفی نے خود اس بات کی تردید کی ہے کہ عضو سے مراد آلہ تناسل ہے۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
وفی حاشیۃ ابن السعود ونقل عن بعضہم فی ہذا المقام مالا یلیق ان یذکر فضلا عن ان یکتب وکانہ یشیر الی ما قیل ان المراد بالعضو الذکر
رد المحتار ج1 ص412
ابو السعود کے حاشیہ میں اس مقام میں بعض سے ایسی بات منقول ہے جو اس قابل نہیں کہ اسے ذکر کیا جائے چہ جائے کہ لکھا جائے گویا اس طرف اشارہ ہے جو کہا گیا ہے کہ مراد عضو سے آلہ تناسل ہے۔
اور منحۃ الخالق ج1 ص348 پر بھی اس بات کی تردید کی ہے کہ عضو سے مراد آلہ تناسل ہے۔
غور فرما لیجیے کہ فقہائے احناف یہ کہہ رہے ہیں کہ عضو سے آلہ تناسل مراد نہیں بلکہ بدن کے اندام مراد ہیں لیکن ہمارا مہربان اس بات پر ڈٹ کر کھڑا ہے کہ مراد عضو سے آلہ تناسل ہے۔ من چہ گویم و طب نور من چہ گوید والی بات ہے۔ دانش مندوں کا مقولہ ہے
کل اناء یترشح بما فیہ
ثانیاً بدن میں واحد عضو ناک بھی ہے شیر سرحد کو صرف آلہ تناسل کیوں نظر آیا؟ مشہور ہے کسی بھوکے سے کسی نے پوچھا کہ دو اور دو کتنے ہو گئے؟ کہا چار روٹیاں۔
ثالثاً انسان کے جسم میں جو ایک سے زائد اعضاء ہیں کبھی کبھار بطور جنس واحد کا صیغہ بھی ان پر بولا جاتا ہے لیکن مراد واحد نہ ہو۔
جیسا کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے
من رای منکم منکرا فلیغیرہ بیدہ
یہاں پر واحد کا صیغہ ہے لیکن مراد صرف ایک نہیں بلکہ دونوں ہاتھ مراد ہیں بقول نورستانی لفظ ید واحد کا صیغہ ہے تو دونوں ہاتھوں سے برائی کا روکنا حدیث کا خلاف ہو گا۔
اسی طرح حضور علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے ہیں :
المسلم من سلم المسلمون من لسانہ ویدہ
یعنی مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ سے مسلمان محفوظ ہوں یہاں بھی لفظ واحد ہے لیکن نورستانی کے نزدیک یہ معنی بنتا ہے کہ جس کے ایک ہاتھ سے مسلمان محفوظ نہ ہوں تو وہ مسلمان نہیں ہے لیکن اگر دونوں ہاتھ کے ضرر سے محفوظ نہ ہوں تو مسلمان ہے۔
حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے:
جعلت قرۃ عینی فی الصلاۃ
میری آنکھ ٹھنڈک نماز میں ہے۔
اب جناب کے نزدیک یہ مطلب ہو گا کہ نماز میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کی صرف ایک آنکھ کی ٹھنڈک ہو گی دونوں کی نہیں یہی مطلب جناب نے ”اصغر عضوا“ سے لیا ہے کہ لفظ عضو واحد کا صیغہ ہے اور بدن میں واحد آلہ تناسل ہے تف ہو ایسی اہل حدیثیت پر لیکن یہ بات یا جان بوجھ کر کہہ رہا ہے یا ان میں جہالت بطریق اکمل پائی جاتی ہے۔
رابعاغیر مقلدین کے مایہ ناز عالم علامہ وحید الزمان کا احناف مذہب بیان کر کے لکھتے ہیں۔
وقال الاحناف… ثم الاکبر راسا والاصغر قدما
نزل الابرار ج2 ص96
احناف کہتے ہیں… پھر امام اسے بنایا جائے جس کا سر بڑا ہو قدم چھوٹے ہوں۔
یعنی عضو سے وہ مراد نہیں جو ان حضرات نے سمجھا ہے بلکہ قدم وغیرہ مراد ہیں۔
خامساً عضو بدن کے ایسے اندام کو کہتے ہیں جس میں ہڈی ہو اور آلہ تناسل میں تو ہڈی نہیں ہوتی۔ چنانچہ صاحب قاموس لکھتے ہیں:
1۔ والعضو بالضم والکسر کل لحم وافر بعظمہ
القاموس ج1 ص1720
عضو ضمہ اور کسرہ کے ساتھ ہر وہ گوشت جو ہڈی سے ملا ہوا ہو۔
2۔ وقیل ہو کل عظم وافر لحمہ وجمعہا اعضاء
لسان العرب ج5 ص68
کہا گیا ہے کہ عضو) ہر اس ہڈی کو کہتے ہیں جس سے گوشت ملا ہوا ہو اس کا جمع اعضاء ہے۔
3۔ کل عظم وافر من الجسم بلحمہ
المنجد عربی 512
جسم کی ہر وہ ہڈی جس سے گوشت ملا ہوا ہو۔
4۔ ولا یسمی القلب والکبد عضوا الا لنحو تغلیب ذکرہ ابن حجر فی شرح العباب۔
ھامش قاموس ج1 ص1720
دل اور جگر کو عضو نہیں کہا جاتا (کیونکہ اس میں ہڈی نہیں ہوتی) مگر تغلیبًا حافظ ابن حجر نے اسے شرح عباب میں ذکر کیا ہے۔
5۔ ہر گوشت جو ہڈی میں جڑا ہوا ہو۔
مفتاح القرآن 536
معلوم ہوا کہ ان حضرات کا عضو سے آلہ تناسل مراد لینا فقہائے احناف پر عظیم بہتا ن ہے اور یہ
توجیہ القول بما لا یرضی بہ قائلہ
اور مدعی سست گواہ چست والی بات ہے۔
ماخوذ تلاش حق ص31، 36، ترمیم و اضافہ کے ساتھ
جواب نمبر2:
صاحب در مختار نے امامت کا حق دار سب سے پہلے احکام نماز کو زیادہ جاننے والے کو اور اگر احکام صلاۃ کے علم میں سب برابر ہوں تو پھر نمبر دو اچھی تلاوت والے کو، پھر نمبر تین شبہات سے زیادہ بچنے والے کو اگر اس میں بھی برابر ہوں تو پھر معمر کو، پھر اچھے اخلاق والے کو، پھر زیادہ تہجد پڑھنے والے کو، پھر خاندانی خوبیوں والے کو، پھر نسبی شرافت رکھنے والے کو، پھر اچھی آواز والے کو، اگر ان تمام خصلتوں میں برابر ہوں تو پھر اسے جس کی بیوی خوبصورت ہے۔
کیونکہ خوبصورت بیوی کی وجہ سے یہ شخص اجنبی عورتوں سے تعلق نہیں رکھے گا اور زیادہ پاک دامن ہو گا اور علامہ شامی نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ بات ساتھیوں یا رشتہ داروں یا پڑوسیوں کے ذریعے معلوم ہو سکتی ہے۔ اس سے مراد یہ ہر گز نہیں کہ ہر آدمی اپنی بیوی کی صفات بیان کرے تاکہ اس کی بیوی کا خوبصورت ہونا معلوم ہو۔ غیر مقلدوں کو اگر اس پر اعتراض ہے تو اپنی خوبصورت بیویوں کو طلاق دے دیں اور یہ بات نزل الابرار میں وحید الزماں نے ثم الاحسن زوجۃ کے الفاظ سے صفحہ96 میں ذکر کی ہے۔
تو ہم یہ اعتراض عطائے تو بلقائے تو کہہ کر غیر مقلدین کو واپس کرتے ہیں اس کے بعد زیادہ مال دار، پھر زیادہ مرتبہ والے، پھر زیادہ صاف کپڑے والے کو امامت کا زیادہ حق دار قرار دیا ہے۔ اگر ان تمام صفات میں برابر ہوں تو پھر نزل الابرار کے قول کے مطابق بڑے سر اور چھوٹے قدموں والا زیادہ حق دار ہے جس کی بنا اس مشہور پنجابی مثل پر ہے۔
”سر وڈے سرداراں دے، پیر وڈے گنواراں دے“
یعنی سر کا بڑا ہونا سرداری کی علامت اور پاؤں کا بڑا ہونا گنوار پن کی علامت ہے۔ لیکن در مختار میں قدما کی جگہ الاصغر عضوا کے لفظ ہیں۔ عضو کا معنی جوڑ ہے۔ علامہ شامی فرماتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اعضاء متناسب ہوں، اس کے لیے سر کا بڑا ہونا اور دوسرے اعضاء کا چھوٹا ہونا یہ اس کے ترکیب مزاج کے خلل کی دلیل ہے جس کو عدم اعتدال عقل لازم ہے۔ تو خلاصہ یہ نکلا کہ امام معتدل عقل والا ہونا چاہیے۔
غیر مقلدین کو اگر یہ چیز اچھی نہیں لگتی تو ان کو پاگل امام مبارک ہوں۔ داؤد ارشد نے در مختار کی شرح کے جس صفحہ کا حوالہ دے کر یہ لکھا ہے کہ شارح فرماتے ہیں کہ مراد اس سے ذکر ہے یہ علامہ شامی پر جھوٹ ہے۔ علامہ شامی نے حاشیہ ابو سعود سے اس کی تردید نقل کی ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں:
حاشیہ ابو سعود میں ہے کہ بعض لوگوں سے اس مقام میں وہ بات نقل کی گئی ہے جو ذکر کے لائق نہیں چہ جائے کہ اس کو کتاب میں لکھا جائے۔ علامہ فرماتے ہیں کہ گویا ابوسعود اس بات کی طرف اشارہ کر رہےہیں جو بیان کی جاتی ہے کہ عضو سے مراد ذکر ہے۔
شامی ص558
تو شارح در مختار تو اس بات کی تردید کر رہے ہیں لیکن غیر مقلد نے اس تردید کی ہوئی بات کو شارح شامی کی طرف بحوالہ صفحہ منسوب کر دیا۔
نوٹ:
انسان کے اندر تین سو ساٹھ جوڑ ہیں معلوم نہیں داؤد ارشد تین سو انسٹھ جوڑوں کو چھوڑ کر اسی ایک عضو سے کیسے چمٹ گئے۔
فائدہ:
اگر اس عضو سے عضو مخصوص ہی مراد لیا جائے تو اصغر عضوا کا مجازی معنی مراد ہو گا۔ یعنی اجنبی عورتوں کے پیچھے پھرنے والا نہ ہو، اپنی شرم گاہ کو اپنے کنٹرول میں رکھنے والا، پھر جیسے لمبا ہاتھ سخاوت سے اور چھوٹا ہاتھ کنجوسی سے کنایہ ہوتا ہے۔ اب بھی اس کے مراد معنی پاک دامن ہو کا کیا جائے گا۔
تجلیات انور ج1 ص145 تا 147
اعتراض نمبر22:بادشاہ وقت پر حد کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام اور حدود
اﷲ کی حدوں میں سے کسی حد کو ختم کر دینا کسی کے بس کی بات نہیں۔ مسلم کی ایک روایت سے اس بات کی وضاحت ہوتی ہے جسے حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں:
أَنَّ قُرَیْشًا أَہَمَّہُمْ شَأْنُ الْمَرْأَۃِ الْمَخْزُومِیَّۃِ الَّتِی سَرَقَتْ فَقَالُوا مَنْ یُکَلِّمُ فِیہَا رَسُولَ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام فَقَالُوا وَمَنْ یَجْتَرِئُ عَلَیْہِ إِلَّا أُسَامَۃُ حِبُّ رَسُولِ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام فَکَلَّمَہُ أُسَامَۃُ فَقَالَ رَسُولُ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام أَتَشْفَعُ فِی حَدٍّ مِنْ حُدُودِ اللَّہِ ثُمَّ قَامَ فَاخْتَطَبَ فَقَالَ أَیُّہَا النَّاسُ إِنَّمَا أَہْلَکَ الَّذِینَ قَبْلَکُمْ أَنَّہُمْ کَانُوا إِذَا سَرَقَ فِیہِمْ الشَّرِیفُ تَرَکُوہُ وَإِذَا سَرَقَ فِیہِمْ الضَّعِیفُ أَقَامُوا عَلَیْہِ الْحَدَّ وَایْمُ اللَّہِ لَوْ أَنَّ فَاطِمَۃَ بِنْتَ مُحَمَّدٍ سَرَقَتْ لَقَطَعْتُ یَدَہَا
مسلم رقم: 688
کہ بنی مخزوم قبیلے کی ایک عورت نے چوری کی لوگوں نے کہا کہ کون اس کی سفارش نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس کرے کہا اس کام کی جرأت اسامہ کے علاوہ کس کو ہے کیونکہ وہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کا محبوب ہے۔ حضرت اسامہ نے جب نبی علیہ الصلوۃ والسلام سے اس بارے میں گفتگو کی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے اسامہ کیا اﷲ کی قائم کردہ حدوں میں سے ایک حد میں سفارش کرتے ہو؟ پھر آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے خطبہ دیا کہ اے لوگو! تم سے پہلے لوگ اسی لیے ہلاک ہوئے کہ جب ان میں کوئی بڑا چوری کرتا تھا تو اسے چھوڑ دیتے تھے اور اگر کوئی غریب یہ کام کرتا تو سزا دیتے اﷲ کی قسم ہے کہ اگر فاطمہ بنت محمدصلی اللہ علیہ وسلم بھی چوری کرتی تو میں اس کے بھی ہاتھ کاٹ ڈالتا۔
فقہ حنفی اور حدود
اب احناف بادشاہ اور خلیفہ کو کتنی چھوٹ دے رہے ہیں۔صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
وکل شیء صنعہ الامام الذی لیس فوقہ امام لا حد علیہ الا القصاص فانہ یؤخذبہ وبالاموال
ہدایہ اولین: 500
خلیفہ جو چاہے کرے اس پر کوئی حد نہیں سوائے قصاص کے اور وہ اس سے اور اس کے مال میں سے لیا جائے گا۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص43، 44
بائیسویں اعتراض کا جواب
چونکہ قصاص حقوق العباد میں سے ہے اور اس کا مدعی صاحب حق ہے۔ اس لیے صاحب حق کے طلب کرنے پر قصاص لیا جائے گا۔ لیکن حدود حقوق اﷲ میں سے ہے اور حدود کا اجراء و اقامت خلیفہ وقت سے متعلق ہےاگر خلیفہ پر اقامت حد کی جائے گی تو خلافت اور امت مسلمہ کی وحدت کا کیا بنے گا؟ اور یہ حد قائم کون کرے گا؟ ہاں ایسا مسئلہ ہو تو ایسے خلیفہ کو امت مسلمہ کے صاحب حل و عقد معزول کرکے اس پر حد لگائیں گے اور ظاہر ہے کہ ا س وقت وہ خلیفہ نہیں ہوگا۔ یہی دلیل صاحب ہدایہ نے لکھی ہے۔
اعتراض نمبر23:شراب سے سرکہ بنانے کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں شراب سے سرکہ بنانے کی ممانعت
حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ:
اَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنِ الْخَمْرِ تَتَخذ خلا فقال لا
مسلم: 3/1573
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے شراب کو سرکہ بنانے سے متعلق پوچھا گیا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا: نہیں (یعنی شراب کا سرکہ نہیں بنایا جا سکتا(
فقہ حنفی میں شراب سے سرکہ بنانے کی اجازت
آئیے اب حنفیوں سے پوچھیں۔ صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
واذا تخللت الخمر حلت سواء صارت خلا بنفسھا او بشیء یطرح فیھا ولا یکرہ تخلیلھا
ہدایہ اخیرین: ص496
اگر شراب خود بخود سرکہ بن جائے یا اس میں کوئی چیز ملا کر اسے سرکہ بنا لیا جائے تو کوئی کراہت نہیں۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص44
تئیسویں اعتراض کا جواب
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ حکم (یعنی سرکہ بنانے سے منع کرنا) ابتدائی دور کا ہے جب شراب کی حرمت کا حکم نیا نیا اترا تھا اور لوگوں کے دلوں سے شراب کی محبت بالکل ختم کرنے کے لیے اس قدر سختی کی گئی تھی کہ شراب کے لیے استعمال ہونے والے برتنوں کا استعمال بھی ممنوع قرار دیا گیا۔ بعد میں جب لوگوں کے دلوں میں شراب کی نفرت اچھی طرح جا گزیں ہو گئی تو برتنوں کے استعمال اور شراب کو سرکہ بنا لینے سے ممانعت بھی ختم کر دی گئی۔ برتنوں کے استعمال کی اجازت کی احادیث کتب حدیث میں معروف ہیں۔ یہاں شراب کا سرکہ بنا لینے کی اجازت کی روایات و آثار کا ذکر کیا جاتا ہے۔
حدیث نمبر1:
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
خير خلكم خل خمركم
سنن الکبریٰ بیہقی، رقم الحدیث 11723
تمہارے سرکوں میں سے بہترین شراب کا بنا ہوا سرکہ ہے۔
حدیث نمبر2:
ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعا لی عنہا فرماتی ہیں کہ ہمارے یہاں ایک بکری تھی جس کا ہم دودھ دوہا کرتے تھے پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو نہ پایا تو پوچھا کہ وہ بکری کیا ہوئی لوگوں نے عرض کیا کہ وہ مر گئی تو فرمایا کہ تم نے اس کی کھال سے انتفاع کیوں نہیں لیا تو ہم نے عرض کیا کہ وہ تو مردار تھی تو آپ نے فرمایا:
فإن دباغها يحل كما يحل الخل الخمر
دار قطنی ج4 ص266، الہدایہ ج4 ص404
دباغت سے وہ حلال ہو جاتی ہے جیسے خمر (شراب) کو سرکہ حلال کر دیتا ہے۔
حدیث نمبر3:
عبد الرزاق عن معمر عن سلیمان التیمی قال حدثنی امرأۃ یقال ام حراش انہا رأت علیا یصطبخ بخل خمر
مصنف عبد الرزاق ج9 ص252، مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13
ام حراش کہتی ہیں کہ انہوں نے حضرت علی کو شراب سے بنے ہوئے سرکے کو بطور سالن استعمال کرتے ہوئے دیکھا۔
حدیث نمبر4:
عن جبیر بن نفیر قال اختلف رجلان من اصحاب معاذ فی خل الخمر فسالاہ ابا الدرداء فقال لا بأس بہ
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص12
جبیر بن نفیر کہتے ہیں کہ حضرت معاذ کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کا شراب کے سرکے کے بارے میں اختلاف ہوا تو انہوں نے حضرت ابوالدرداء سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث نمبر5:
عبدالرزاق عن سعید بن عبد العزیز التنوخی عن عطیۃ بن قیس قال مر رجل اصحاب ابی الدرداء ورجل یتغدی فدعاء الی طعامہ فقال و ما طعامک؟ قال خبز ومری و زیت قال المری الذی یصنع من الخمر قال نعم قال ہو خمر فتواعدا الی ابی الدرداء فسألاہ فقال ذبحت خمرھا الشمس والملح والحیتان یقول لابأس بہ
مصنف عبدالرزاق ج9 ص253
عطیہ بن قیس کہتے ہیں کہ حضرت ابوالدرداء کے اصحاب میں سے ایک آدمی ایک دوسرے آدمی کے پاس سے گزرا جو کھانا کھا رہا تھا۔ اس نے اسے کھانے کی دعوت دی اس نے پوچھا کیا کھانا ہے؟ اس نے کہا روٹی اور مری اور تیل اس نے پوچھا وہ مری جو شراب سے بنائی جاتی ہے؟ اس نے کہا ہاں اس نے کہا یہ شراب ہی ہے۔ پھر دونوں ابو الدرداء کے پاس گئے اور ان سے (اس کے متعلق) دریافت کیا انہوں نے فرمایا کہ اس کے نشے کو دھوپ اور نمک اور مچھلی کی آمیزش نے ختم کر دیا ہے یعنی اس (کے کھانے) میں کوئی حرج نہیں۔
حدیث نمبر6:
عبدالرزاق عن ابن جریج قال قلت لعطاء ایجعل الخمر خلا؟ قال نعم وقال لی ذلک عمرو بن دینار مثلہ
مصنف عبد الرزاق ج9 ص253
ابن جریج کہتے ہیں میں نے عطاء سے پوچھا کہ کیا شراب کو سرکہ بنایا جا سکتا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں اور اسی طرح مجھ سے عمرو بن دینا نے کہا۔
حدیث نمبر7:
عبدالرزاق عن معمر عن ایوب قال رأیت ابن سیرین اصطنع خل خمر او قال مسا خل خمر
مصنف عبد الرزاق ج9 ص253
ایوب کہتے ہیں کہ میں نے ابن سیرین کو دیکھا کہ انہوں نے شراب سے سرکہ بنایا یا یہ کہا کہ شراب کے سرکے۔
حدیث نمبر8:
حدثنا ابو بکر حدثنا قال ابن مہدی عن حماد بن زید عن یحیی بن عتیق عن ابن سیرین انہ کان لا یری بأسا بخل الخمر
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13
یحییٰ بن عتیق کہتے ہیں کہ ابن سیرین شراب کے سرکے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
حدیث نمبر9:
حدثنا ابو بکر قال حدثنا ازہر عن ابن عون قال کان محمد لا یقول خل خمر و یقول خل العنب وکان یصطبخ فیہ۔
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13، کتاب الاموال مترجم جلد اول ص241، 242
ابن عون کہتے ہیں کہ محمد بن سیرین ”شراب کے سرکہ“ کہنے کے بجائے ”انگور کا سرکہ“ کہتے تھے اور اس کو سالن کے طور پر استعمال کرتے تھے۔
حدیث نمبر10:
حدثنا ابو بکر قال حدثنا وکیع عن عبد اﷲ بن نافع اعن ابیہ عن ابن عمر انہ کان لا یری بأسا ان یاکل مما کان خمرا فصار خلا
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13
نافع کہتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمر شراب سے بنے ہوئے سرکے کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
حدیث نمبر11:
حدثنا ابو بکر قال حدثنا حمید بن عبد الرحمٰن عن ابیہ عن مسربل العبدی عن امہ قالت سالت عائشۃ عن خل الخمر قالت لا بأس بہ ہو ادام
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13
مسربل عبدی کی والدہ کہتی ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ سے شراب کے سرکے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کوئی حرج نہیں یہ بھی ایک سالن ہے۔
حدیث نمبر12:
حدثنا ابو بکر قال حدثنا ابو اسامۃ عن اسماعیل بن عبد الملک قال رأیت سعید بن جبیر یصطبغ بخل خمر
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13
سعید بن جبیر شراب سے بنے ہوئے سرکے کو بطور سالن استعمال کرتے تھے۔
حدیث نمبر13:
حدثنا ابو بکر قال حدثنا ابن مہدی عن مبارک عن الحسن قال لا بأس بخل بخمر
مصنف ابن ابی شیبہ ج8 ص13
حسن بصری کہتے ہیں کہ شراب سے بنے ہوئے سرکے میں کوئی حرج نہیں۔
حارث عکلی کا حوالہ
شبرمہ راوی ہیں کہ حارث عکلی نے اس شخص کے بارے میں جس نے میراث میں شراب پائی تھی کہا تھا وہ اس میں نمک ڈال لے تاکہ وہ سرکہ بن جائے۔
کتاب الاموال مترجم ص242
حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کا حوالہ
مثنیٰ بن سعید کہتے ہیں کہ عمر بن عبدالعزیز نے اپنے کوفہ کے عامل عبد الحمید بن عبدالرحمن کو لکھا شراب ایک بستی سے دوسری بستی میں نہ منتقل کی جائے اور تمہیں جو شراب کشتیوں پر لدی ہوئی ملے اسے سرکہ میں تبدیل کر دو۔ چنانچہ عبدالحمید نے یہ حکم اپنے واسط کے نمائندہ محمد بن منتشر کو لکھا انہوں نے خود پہنچ کر کشتیوں کا معائنہ کیا اور ہر شراب کے ڈرم میں نمک اور پانی ڈال کر اسے سرکہ بنادیا۔
کتاب الاموال مترجم ص238
خلاصہ کلام
چونکہ اللہ تعالی نے سرکہ کو حلال قرار دیا ہے اور شراب کو حرام۔ اس لیے ہم بھی اسی پر عمل پیرا ہیں کہ شراب حرام ہے اور سرکہ حلال، اور سرکہ خواہ شراب سے بنے یا کسی اور چیز سے جائز اور حلال ہے۔ اور اس کی دلیل میں ہم بہت سی احادیث مرفوعہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین کے فتاوی نقل کرچکے ہیں۔ اس کے باوجود طالب الرحمن صاحب کی طرف سے یہ بہتان طرازی اور بازاری زبان ان کے اندر کے بغض کا پتہ دے رہی ہے۔
اعتراض نمبر24:درندہ کی کھال کے استعمال کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام اور درندہ کی کھال
ابو الملیح بن اسامہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ
ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نھی عن جلود السباع
ابوداود رقم: 4132
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے درندوں کی کھال کے استعمال سے منع فرمایا۔
فقہ حنفی اور کتے کی کھال
اب احناف کی رائے سن لیں۔ صاحب ہدایہ لکھتے ہیں:
1۔ وکل اھاب دبغ فقد طہر جازت الصلٰوۃ فیہ والوضوء منہ الا جلد الخنزیر
ہدایہ اولین ص24
ہر کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اس پر نماز اور اس کے ذریعے وضو کرنا جائز ہے سوائے آدمی اور خنزیر کی کھال کے۔
پھر مزید فرماتے ہیں:
2۔ ما یطہر جلدہ بالدباغ یطہر بالذکاۃ لانہ یعمل عمل الدباغ فی ازالۃ الرطوبات النجسۃ وکذلک یطہر لحمہ وہو الصحیح
ہدایہ اولین ص24
جس جانور کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے اسے ذبح کرنے سے بھی پاک ہو جاتی ہے اسی طرح اس کا گوشت بھی پاک ہو جاتا ہے اور یہ صحیح ہے۔
اسی طرح رد المحتار میں ہے
3۔ قال مشایخنا من صلی وفی کمہ جرو تجوز صلاتہ وقیدہ الفقیہ ابو جعفر الہندوانی بکونہ مشدود الفم
1/139
ہمارے مشائخ نے فرمایا ہے جو اس حالت میں نماز پڑھے کہ اس کی آستین میں کتے کا پلا ہو تو ایسی صوت میں نماز پڑھنا جائز ہے فقیہ ابو جعفر ہندوانی نے یہ شرط لگائی ہے کہ کتے کا منہ بندھا ہونا چاہیے۔
اسی طرح در مختار میں ہے:
4۔ لیس الکلب بنجس العین عند الامام وعلیہ الفتوی وان رجع بعضہم النجاسۃ کما بسطہ ابن الشحنۃ فیباع ویؤجر ویضمن ویتخذ جلدہ مصلی ودلوا ولو اخرج حیا ولم یصب فیہ الماء لا یفسد ماء البئر ولا الثوب بانتفاضہ ولا بعضہ ما لم یر ریقہ ولا صلاۃ حاملہ ولو کبیرا
رد المحتار: 1/139
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک کتا نجس العین نہیں اور اسی پر فتویٰ ہے۔ اور اگرچہ بعض نے اس کی نجاست کو ترجیح دی ہے جیسا کہ ابن الشحنہ نے ذکر کیا لہٰذا کتا فروخت کیا جا سکتا ہے اجرت پر دیا جا سکتا ہے۔ اسے ضمانت کے طور پر رکھا جا سکتا ہے اس کی کھال کی جائے نماز بنائی جا سکتی ہے اور پانی نکالنے کا ڈول بھی۔ اسی طرح کنویں سے کتے کو باہر زندہ نکالا اور اگر اس کا منہ باہر ہو تو پانی پاک ہے اور کپڑے بھی پاک ہیں جب تک کہ اس کا لعاب کپڑوں پر نہ لگے اور اس کو اٹھا کر نماز پڑھنے والے کی نماز ہو جاتی ہے چاہے کتا بڑا ہی کیوں نہ ہو۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص45، 46
چوبیسویں اعتراض کا جواب
ہم پہلے یہ ثابت کریں گے کہ دباغت دینے کے بعد کھال پاک ہو جاتی ہے پھر ہدایہ اور رد المحتار کی عبارات کی وضاحت کریں گے۔
دباغت دینے سے کھال پاک ہو جاتی ہے
امام مسلم نے مسلم شریف کتاب الحیض میں ایک باب قائم کیا ہے۔باب طہارۃ جلود المیتۃ بالدباغ یہ باب اس بارہ میں ہے کہ مردہ جانور کی کھال دباغت سے پاک ہو جاتی ہے۔اس باب میں امام مسلم نے آٹھ احادیث نقل کی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دباغت سے کھال پاک ہو جاتی ہے۔
حدیث نمبر1:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعا لی عنہا کی لونڈی کو کسی نے ایک بکری صدقہ میں دی وہ مر گئی۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو پڑا ہوا دیکھا تو فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہ لی۔ دباغت کر کے کام میں لاتے۔ لوگوں نے کہا یا رسول اﷲ وہ مردار تھی۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا مردار کا کھانا حرام ہے۔
حدیث نمبر2:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضرت میمونہ رضی اللہ تعا لی عنہا نے ان سے بیان کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بی بی رضی اللہ تعا لی عنہا کے گھر میں ایک جانور پالا تھا وہ مر گیا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اس کی کھال کیوں نہ لی اس کو کام میں لاتے۔
حدیث نمبر3:
عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے۔ جب کھال پر دباغت ہو گئی تو وہ پاک ہے۔
حدیث نمبر4:
ابو الخیر سے روایت ہے میں نے ابن وعلہ کو ایک پوستین (چمڑے کی قمیص یا کوٹ) پہنے دیکھا میں نے اس کوچھوا۔ انہوں نے کہا کیوں چھوتے ہو (کیا اس کو نجس جانتے ہو؟) میں نے عبداﷲ سے کہا کہ ہم مغرب کے ملک میں رہتے ہیں وہاں بربر کے کافر اور آتش پرست بہت ہیں وہ بکری لاتے ہیں ذبح کر کے ہم تو ان کا ذبح کیا ہوا جانور نہیں کھاتے اور مشکیں لاتے ہیں ان میں چربی ڈال کر۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا۔ ہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کو پوچھا۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا دباغت سے پاک ہو جاتی ہے (یعنی چمڑے پر جب دباغت ہو گئی تو وہ پاک ہے اگرچہ کافر نے دباغت دی کی ہو۔
حدیث نمبر5:
ابن وعلہ سبئی سے روایت ہے میں نے عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا ہم مغرب کے ملک میں رہتے ہیں۔ وہاں مجوسی (آتش پرست) مشکیں لے کر آتے ہیں پانی کی، ان میں چربی پڑی ہوتی ہے تو انہوں نے کہا کھا پی لو۔ میں کہا کیا تم اپنی رائے سے کہتے ہو؟ انہوں نے کہا میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ علیہ الصلوۃ والسلام فرماتے تھے کہ دباغت سے کھال پاک ہو جاتی ہے۔
قارئین کرام ہم نے صرف مسلم شریف ہی کی پانچ روایات نقل کی ہیں۔ اس مسئلہ پر بے شمار احادیث کتب احادیث میں موجود ہیں۔ جن سے ثابت ہوتا ہے کہ دباغت سے کھال پاک ہو جاتی ہے۔
حدیث نمبر6:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مردار کا صرف گوشت (کھانا) حرام فرمایا ہے اور باقی کھال اور بال اور اون ان (کے استعمال) کا کچھ حرج نہیں ہے۔
دار قطنی باب الدباغ
حدیث نمبر7:
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے جو مولیٰ (غلام آزاد) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم جب کہیں سفر کا ارادہ فرماتے تو گھر کے سب آدمیوں میں حضرت فاطمہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے آپ کی آخری بات چیت ہوتی اور جب آپ علیہ الصلوۃ والسلام سفر سے تشریف لاتے تو (سب سے) پہلے فاطمہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے ملاقات کرتے۔
آپ علیہ الصلوۃ والسلام ایک جنگ سے واپس تشریف لائے اور حضرت فاطمہ رضی اللہ تعا لی عنہا نے اپنے دروازہ پر پردہ یا ٹاٹ لٹکایا تھا اور حضرت حسن و حسین رضی اللہ تعا لی عنہما دونوں کو چاندی کے دو کنگن پہنائے تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو تشریف لا کر دیکھا تو گھر میں آپ علیہ الصلوۃ والسلام نہ آئے (یعنی جیسے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی عادت تھی) تو حضرت فاطمہ رضی اللہ تعا لی عنہا نے گمان کیا کہ آپ کو گھر میں تشریف لانے سے ان چیزوں نے روکا، دریافت کیا تو یہی معلوم ہوا۔
حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالی عنہا نے دروازہ سے پردہ نکالا پھر دونوں صاحبزادوں سے اس زیور کو بھی اتار لیا اور کاٹ کر ان کے سامنے ڈال دیا۔ دونوں کے دونوں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس روتے ہوئے چلے گئے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے ان سے وہ کٹے ہوئے ٹکڑے لے کر فرمایا اے ثوبان یہ جا کر فلاں گھر والوں کو دے آؤ۔پھر فرمایا یہ لوگ میرے اہل بیت ہیں (یعنی فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ تعالی عنہم( میں برا جانتا ہوں کہ یہ اپنے مزے دنیا ہی میں لوٹ لیں، اے ثوبان فاطمہ کے لیے ایک ہار پٹھوں کا خرید لے اور دو کنگن ہاتھی دانت کے۔
ابوداود، باب فی الانتفاع بالعاج، کتاب الترجل
علامہ وحید الزمان غیر مقلد اس کے فائدہ میں لکھتے ہیں اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ہاتھی دانت پاک ہے اور اس کا استعمال درست ہے۔ بخاری میں ہے علمائے سلف اس سے کنگھی کرتے تھے اور اس میں تیل رکھتے تھے۔
ابو داود مترجم جلد سوم ص298
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ مردار کی ہڈی پاک ہے۔
حدیث نمبر8:
سیدہ حضرت سودہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے روایت ہے کہ ہماری ایک بکری مر گئی۔ تو ہم نے اس کی کھال کو رنگا پھر ہم اس میں ہمیشہ نبیذ بناتے حتی کہ وہ پرانی ہو گئی۔
نسائی باب جلود المیتہ
حدیث نمبر9:
سلمہ بن محبق سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک میں ایک عورت سے پانی منگوایا۔ اس عورت نے عرض کیا کہ میرے پاس پانی تو مردہ جانور کی مشک میں بھرا ہوا ہے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے دریافت فرمایا کیا تو نے اس کی دباغت کی تھی؟ اس عورت نے عرض کیا ہاں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو یہ دباغت سے پاک ہو گئی۔
نسائی باب جلود المیتہ
ایک مسئلہ کی وضاحت:
اب مسئلہ یہ رہ جاتا ہے کہ دباغت کس کس چیز کے ساتھ دی جا سکتی ہے اور اس کا طریقہ کیا ہے۔اس کا عام فہم اور آسان جواب یہ ہے کہ جس چیز سے بھی دباغت حاصل ہو جائے اس سے دباغت دینا درست ہے اور جس طرح آسانی ہو وہ طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ اصل چیز دباغت دینا ہے۔
احادیث میں بعض اشیاء کا ذکر بھی ملتا ہے۔ جیسا کہ امام نسائی نے ایک باب باندھا ہے ما یدبغ بہ جلود المیتۃ مردار کی کھال کو کس چیز سے پاک کیا جائے۔ پھر حضرت میمونہ رضی اللہ تعا لی عنہا کی حدیث نقل کی ہے:
حدیث نمبر10:
حضرت میمونہ رضی اللہ تعا لی عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے قریش کے بعض لوگ نکلے اور وہ ایک بکری کو گدھے کی طرح گھسیٹ رہے تھے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کی کھال اتار لیتے تو اچھا ہوتا۔ انہوں نے عرض کیا یہ مردار ہے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا اسے پانی اور قرظ پاک و صاف کر دیتا ہے۔
نوٹ:
قرظ ایک گھاس یا چھال ہے جس سے چمڑا کو دباغت دیتے ہیں۔
نسائی، باب ما یدبغ بہ جلود المیتۃ
حدیث نمبر11:
امام بخاری نقل کرتے ہیں:
وقال حماد لا بأس بریش المیتۃ
اور حماد نے کہا مردار پرندے کے پر میں کوئی حرج نہیں۔
بخاری، باب ما یقع من النجاسات فی السمن والماء، کتاب الوضوء
حدیث نمبر12:
حماد سے روایت ہے کہ مردار کی اون استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کو دھویا جائے گا اور مردار کے پر میں کوئی حرج نہیں۔
مصنف عبد الرزاق ص206
حدیث نمبر13:
امام بخاری نقل کرتے ہیں:
وقال الزہری فی عظام الموتٰی نحو الفیل وغیرہ ادرکت ناسا من سلف العلماء یمشطون بھا ویدھنون فیھا لا یرون بہ بأسا
اور زہری نے مردار مثلاً ہاتھی وغیرہ کی ہڈیوں کے متعلق کہا میں نے متقدمین علماء کو پایا وہ اس سے کنگھی کرتے تھے اور اس میں تیل رکھتے تھے اور اس میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔
بخاری، کتاب الوضوء الطہارۃ، باب ما یقع من النجاسات
حدیث نمبر14:
امام بخاری نقل کرتے ہیں:
وقال ابن سیرین وابراہیم ولا بأس بتجارۃ العاج
اور ابن سیرین اور ابراہیم نے کہا: ہاتھی کے دانت کی تجارت میں کوئی حرج نہیں ہے۔
بخاری، باب ما یقع من النجاسات، مصنف عبد الرزاق ص211
حدیث نمبر15:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مشکیزہ سے وضو کرنے کا ارادہ فرمایا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے کہا گیا کہ یہ مردار جانور کا ہے۔ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اس کو دباغت دینے سے اس کی گندگی، نجاست اور پلیدی دور ہو جاتی ہے۔
ابن خزیمۃ رقم 114، السنن الکبرٰی للبیہقی رقم51 4، مسند احمد رقم 2117
تعجب ہے طالب الرحمن صاحب کو یہ خیال نہیں آیا کہ میں یہ اعتراض فقہ حنفی پر کر رہا ہوں یا رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر؟ فقہ حنفی نے وہی کہا ہے جو حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا ہے پھر اگر یہ گندا مسئلہ ہے تو شرم کرو کہ اس کی نوبت کہاں تک پہنچی ہے؟آپ کے علامہ وحید الزماں نے کتے، درندے، بھیڑئیے تو ایک طرف خنزیر کے چمڑے کو بھی دباغت سے پاک لکھا ہے۔
فقہاء احناف رحمہم اللہ تعالی نے تو انسان اور خنزیر کو مستثنیٰ کیا ہے مگر یہ حضرت تو اس کو بھی مستثنیٰ نہیں کرتے۔
چنانچہ لکھتے ہیں:
ایما اہاب دبغ فقد طہر ومثلہ المثانۃ والکرش واستثنٰی بعض اصحابنا جلد الخنزیر والادمی والصحیح عدم الاستثنائ
نزل الابرار ج1 ص29
کہ جس چمڑے کو دباغت دی جائے پاک ہو جاتا ہے مثانہ اور اوجری میں بھی اسی طرح ہے۔ ہمارے بعض اصحاب نے خنزیر اور آدمی کو مستثنیٰ کیا ہے۔ حالانکہ صحیح یہ ہے کہ یہ بھی مستثنیٰ نہیں۔
رد المحتار کی عبارت کی وضاحت
یہ بات پہلے گزر چکی ہے کہ خنزیر کی کھال کسی حال میں بھی پاک نہیں ہوتی چاہے اسے دباغت دیں یا نہ دیں کیونکہ خنزیر نجس العین ہے۔ یعنی وہ پیشاب و پاخانہ کی طرح اندر باہر سے نجس ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے حرام جانور نجس الغیر ہیں کہ ان کی ذات بول و بزار کی طرح نجس نہیں۔ بلکہ ان کی ذات اوپر سے پاک ہے۔ البتہ ان کی اندرونی رطوبات نجس ہیں۔ اور اس اعتبار سے انسانوں اور حلال جانوروں کا بھی یہی حکم ہے۔ ان کا اوپر والا جسم پاک ہے مگر اندر کی رطوبات نجس ہیں۔ اور جب تک اندر والی نجس رطوبت کا اثر جسم کے اوپر ظاہر نہ ہو وہ جسم پاک شمار ہوتا ہے اور اندرونی نجس رطوبت کا اثر جسم کے اوپر دو صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے۔
موت کے بعد کیونکہ موت کے بعد انسان ہو یا حیوان سب کا جسم نجس شمار ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حوض و کنواں جیسے کتے کے مرنے سے نجس ہو جاتا ہے اسی طرح اگر اس میں کوئی آدمی گر کر مر جائے تب بھی نجس ہو جاتا ہے۔
اندرونی نجاست جسم سے باہر نکل آئے تو وہ جس چیز پر لگ جائے وہ چیز نجس ہو جائے گی۔ جیسا کہ غلاظت انسان کے اندر موجود ہے۔ مگر انسان پاک شمار ہوتا ہے۔ لیکن جب وہی نجاست انسان کے جسم سے نکل کر اس کے اپنے جسم پر یا کسی دوسری چیز پر لگ جائے تو وہ چیز ناپاک ہو جاتی ہے۔
یہی حال حلال و حرام جانوروں کا ہے کہ اگر اندرونی نجاست ان کے جسم کے اوپر لگ جائے تو وہ جسم نجس ہو گا ورنہ پاک ہے۔ رہی ان جانوروں سے طبعی کراہت تو وہ دوسری چیز ہے۔
یہ نکتہ ملحوظ خاطر رہے کہ حرام جانوروں کی رطوبات میں سے بول و بزار، خون پسینہ، تھوک، لعاب (رال) نجس ہیں۔ جب کہ انسانوں اور حلال جانوروں کی رطوبات میں سے صرف بول و بزار اور خون نجس ہیں باقی پاک ہیں۔
اس اصولی گفتگو کے بعد زیر غور مسئلہ کا سمجھنا کوئی دشوار نہیں کہ کتا زندہ ہو اور اس کے جسم کے اوپر کوئی دوسری نجاست لگی ہوئی نہ ہو اور اس پر پسینہ بھی نہ ہو تو اس کا جسم اوپر سے پاک ہے۔ رہی اندرونی نجاست تو جب تک وہ اندر ہو اس کا اثر جسم کے اوپر ظاہر نہیں ہوتا۔
اس لیے اگر کوئی شخص نماز میں کتے کا پلا (چھوٹا بچہ) اٹھا لے بشرطیکہ اس کے جسم کے اوپر نجاست نہ لگی ہو اور اس کا منہ باندھا ہوا ہو تاکہ اس کا تھوک و لعاب نہ لگے اور نماز سے فارغ ہونے تک اس کی کوئی رطوبت کپڑے اور بدن وغیرہ کو نہ لگے تو نماز جائز ہے۔ کیونکہ کوئی چیز مفسد نماز پیش نہیں آئی اور پاک چیز عمل کثیر کے بغیر اٹھانا نماز کے لیے مفسد نہیں جیسا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی نواسی امامہ کو اٹھا کر نماز پڑھی۔
بخاری ج1 ص74
طالب الرحمن کی جہالت یا خیانت
طالب الرحمن کو نجس العین اور نجس الغیر کا فرق معلوم نہیں نیز یہ کہ کتا نجس الغیر ہے اور نجس الغیر جانوروں کا جسم پاک ہوتا ہے جب تک کوئی نجاست نہ لگے تو یہ ان کی جہالت ہے اور اگر یہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود محض فقہ دشمنی کی وجہ سے اعتراض ہے تو یہ خیانت ہے۔
غیر مقلدین سے سوالات
1۔ اگر کوئی شخص کتے کا پلا اٹھا کر نماز پڑھے جس کے جسم پر کوئی نجاست نہیں نہ نماز کے درمیان کوئی کتے کی نجاست نمازی کے بدن و کپڑوں پر لگی نہ عمل کثیر ہوا تو یہ نماز صحیح ہے یا فاسد ہے؟ صریح آیت یا حدیث سے جواب دیں۔
2۔ اگر کوئی شخص گھوڑی، گائے یا بجو کے بچے کو اٹھا کر نماز پڑھے تو نماز جائز ہے یا ناجائز؟ صریح آیت یا حدیث سے جواب دیں۔
3۔ بچے کو اٹھا کر نماز شروع کی بچے نے اوپر پیشاب کر دیا نماز صحیح یا فاسد؟ صریح آیت یا حدیث سے جواب دیں۔
4۔ کتے نے مصلیٰ کے اوپر پیشاب یا پاخانہ کر دیا تو بغیر دھوئے اس پر نماز جائز ہے یا ناجائز؟ صریح آیت یا حدیث سے جواب دیں۔
5۔ کتے نے مسجد میں پیشاب کر دیا تو مسجد کا دھونا ضروری ہے یا نہیں؟ قرآن و حدیث کی صریح دلیل سے جواب دیں۔
غیر مقلدین کا مذہب:
غیر مقلدین کے مذہب میں نجاست اٹھا کر اور نجس کپڑوں میں نماز جائز ہے۔
بدور الاہلہ ص39 مصنف نواب صدیق حسن خان غیر مقلد
اعتراض نمبر25: زبردستی کی طلاق کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں زبردستی کی طلاق
لیجیے ایک اور مسئلہ جس میں احناف حدیث کی مخالف کرتے ہیں:
عن ابی ہریرۃ قال قال رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان ﷲ تجاوز لامتی عما توسوس بہ صدورھا مالم تعمل بہ او تتکلم بہ و ما استکرہوا علیہ
ابن ماجہ رقم:2044
ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اﷲ تعالیٰ نے میری امت کے دلوں میں پیدا ہونے والے وسوسوں کو معاف کر دیا ہے جب تک کہ وہ اس کے مطابق عمل یا کلام نہ کر لیں اور یہ بھی معاف کر دیا کہ جب کسی کو مجبور کر دیا جائے۔
ایک اور حدیث میں الفاظ یوں ہیں:
عن ابن عباس عن النبی علیہ الصلوۃ والسلام قال ان اﷲ وضع عن امتی الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ
ابن ماجہ رقم:2045
ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے میری امت پر سے خطا، بھول اور جس پر انہیں مجبور کر دیا جائے، معاف کر دیا ہے۔
فقہ حنفی میں زبردستی کی طلاق
اس کے مقابلے میں صاحب ہدایہ فرماتے ہیں:
وطلاق المکرہ واقع
ہدایہ اولین ص338
زبردستی کی طلاق ہو جاتی ہے۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص46، 47
پچیسویں اعتراض کا جواب
زبردستی کی طلاق کے واقع ہوجانے کا دعوی احناف کا اپنا نہیں، اس بات پر احناف کے پاس دلائل موجود ہیں۔ اگر طالب الرحمن صاحب کے نزدیک یہ مسئلہ غلط ہے تو دیکھیں یہ فتوی کہاں تک پہنچتا ہے اور کون کون سے صحابہ و تابعین رضی اللہ عنہم اس کی زد میں آتے ہیں۔
طلاق مکرہ کے واقع ہو جانے پر دلائل
دلیل نمبر1:
عن الاعمش عن ابراہیم قالا طلاق الکرہ جائز انما افتدی بہ نفسہ
مصنف عبدالرزاق، باب طلاق الکرہ، ج 6، ص317، نمبر11463، مصنف ابن ابی شیبہ، باب من کان یری طلاق المکرہ جائزا، ج 4، ص85، نمبر18035
اس اثر میں ہے کہ زبردستی کی طلاق واقع ہو جاتی ہے۔
دلیل نمبر2:
عن ابن عمر قال طلاق الکرہ جائز
مصنف عبدالرزاق، باب طلاق الکرہ، ج سادس، ص317، نمبر11465
اس اثر میں ہے کہ زبردستی کی طلاق واقع ہو جائے گی۔ یہی بات حضرت شعبی، قاضی شریح، سعید بن مسیب، ابن سیرین اور حضرت عبداﷲ بن عمر فرماتے ہیں۔
دلیل نمبر3:
عن ابی ہریرۃ ان رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم قال ثلاث جدہن جد وہزلہن جد، النکاح، والطلاق، والرجعۃ
ابوداود شریف، باب فی الطلاق علی الھزل، ص317، نمبر2194، ترمذی شریف، باب ما جاء فی الجد والہزل فی الطلاق، ص288، نمبر1184
ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین چیزیں ہیں ان کو قصداً کرے یا ہنسی سے کرے وہ صحیح ہو جائیں گی۔ ایک نکاح، دوسری طلاق، تیسری رجعت (اپنی طلاق کے بعد رجوع کرنا) جب مذاق میں طلاق واقع ہو سکتی ہے تو زبردستی میں بدرجہ اولیٰ طلاق واقع ہو گی۔
دلیل نمبر4:
حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ مخبوط الحواس کے علاوہ ہر ایک (بالغ) کی طلاق جائز ہے (یعنی واقع ہو جاتی ہے(
بخاری تعلیقًا، باب الطلاق فی الاعلاق والکرہ، ج2 ص794
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نشہ والے اور مجبور کی طلاق نافذ ہو جاتی ہے یہی احناف کا مسلک ہے۔
دلیل نمبر5:
صفوان بن عمران الطائی سے روایت ہے کہ ایک آدمی سو رہا تھا کہ اس کی بیوی چھری لے کر آئی اور چھری اس کے سینے پر رکھ کر کہا کہ مجھے طلاق دے دے ورنہ میں تجھے ذبح کر دوں گی۔ پس اس نے مرعوب ہو کر طلاق دے دی پھر وہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کے پاس آیا اور قصہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام سے بیان کیا تو آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا لا قیلولۃ فی الطلاق یعنی طلاق واقع ہو گئی ہے۔
احیاء السنن ج3 ص349
دلیل نمبر6:
مصنف عبدالرزاق میں ابن عمر کے بارے میں مروی ہے کہ انہوں نے مجبور کیے جانے والے کی طلاق کو نافذ کر دیا۔
دلیل نمبر7:
اس طرح شعبی، نخعی، زہری، قتادہ اور ابو قلابہ کے بارے میں بھی کتب احادیث میں مروی ہے کہ انہوں نے مکرہ (مجبور کیے گئے) کی طلاق کو نافذ کر دیا۔
احیاء السنن ج3 ص349
اعتراض نمبر26: گستاخ رسول کی سزا کا مسئلہ
طالب الرحمن لکھتے ہیں:
اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینا کفر
امام ابوداود نے اپنی سنن میں یہ باب باندھا ہے باب الحکم فیمن سب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم جو شخص نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالی دیتا ہے اس کا کیا حکم ہے۔ پھر مندرجہ ذیل حدیث ذکر کی:
عَن ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ أَعْمَی کَانَتْ لَہُ أُمُّ وَلَدٍ تَشْتُمُ النَّبِیَّ علیہ الصلوۃ والسلام وَتَقَعُ فِیہِ فَیَنْہَاہَا فَلَا تَنْتَہِی وَیَزْجُرُہَا فَلَا تَنْزَجِرُ قَالَ فَلَمَّا کَانَتْ ذَاتَ لَیْلَۃٍ جَعَلَتْ تَقَعُ فِی النَّبِیِّ علیہ الصلوۃ والسلام وَتَشْتُمُہُ فَأَخَذَ الْمِغْوَلَ فَوَضَعَہُ فِی بَطْنِہَا وَاتَّکَأَ عَلَیْہَا فَقَتَلَہَا فَوَقَعَ بَیْنَ رِجْلَیْہَا طِفْلٌ فَلَطَّخَتْ مَا ہُنَاکَ بِالدَّمِ فَلَمَّا أَصْبَحَ ذُکِرَ ذَلِکَ لِرَسُولِ اللَّہِ علیہ الصلوۃ والسلام فَجَمَعَ النَّاسَ فَقَالَ أَنْشُدُ اللَّہَ رَجُلًا فَعَلَ مَا فَعَلَ لِی عَلَیْہِ حَقٌّ إِلَّا قَامَ فَقَامَ الْأَعْمَی یَتَخَطَّی النَّاسَ وَہُوَ یَتَزَلْزَلُ حَتَّی قَعَدَ بَیْنَ یَدَیْ النَّبِیِّ علیہ الصلوۃ والسلام فَقَالَ یَا رَسُولَ اللَّہِ أَنَا صَاحِبُہَا کَانَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیکَ فَأَنْہَاہَا فَلَا تَنْتَہِی وَأَزْجُرُہَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَلِی مِنْہَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَیْنِ وَکَانَتْ بِی رَفِیقَۃً فَلَمَّا کَانَ الْبَارِحَۃَ جَعَلَتْ تَشْتُمُکَ وَتَقَعُ فِیکَ فَأَخَذْتُ الْمِغْوَلَ فَوَضَعْتُہُ فِی بَطْنِہَا وَاتَّکَأْتُ عَلَیْہَا حَتَّی قَتَلْتُہَا فَقَالَ النَّبِیُّ علیہ الصلوۃ والسلام أَلَا اشْہَدُوا أَنَّ دَمَہَا ہَدَرٌ
ابوداود رقم:4361
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک اندھے کی بیوی تھی جو نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالیاں دیتی وہ اسے روکتا اور ڈانٹتا مگر وہ باز نہ آتی ایک رات اس نے پھر نبی علیہ الصلوۃ والسلام کی ہجو کی گالیاں دیں تو اس کے خاوند نے خنجر نکال کر اس کے پیٹ پر رکھا اور اسے دبایا اور اسے قتل کر دیا اس کے پاؤں کے درمیان بچہ خون میں لت پت ہو گیا۔ صبح رسول علیہ الصلوۃ والسلام سے ذکر کیا گیا۔ لوگ اکٹھے ہوئے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا جس شخص نے یہ کام کیا ہے اسے میں اﷲ کی قسم دیتا ہوں اور میرا جو اس پر حق ہے وہ کھڑا ہو جائے تو ایک نابینا کھڑا ہوا جو لوگوں کو پھلانگ رہا تھا اور ڈگمگا رہا تھا یہاں تک کہ وہ نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا اے اﷲے رسول میں اس کا خاوند ہوں میری بیوی آپ کو گالیاں نکالتی، ہجو کرتی میں اسے روکتا وہ نہ رکتی میں اسے ڈانٹتا اور وہ منع نہ ہوتی میرے اس کے بطن سے دو موتیوں جیسے بچے ہیں وہ میری رفیقہ حیات تھی پچھلی رات اس نے آپ کی ہجو کرنی شروع کی اور گالیاں نکالنے لگی میں نے خنجر لے کر اس کے پیٹ پر رکھا اور اس پر زور دیا یہاں تک کہ میں نے اس کو قتل کر دیا نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا لوگو گواہ رہنا کہ اس کا خون رائیگاں گیا۔
فقہ حنفی میں نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالی دینا
اب احناف کا مسلک بھی سن لیجیے۔ فرماتے ہیں:
ومن امتنع من الجزیۃ او قتل مسلمًا او سب النبی علیہ السلام او زنی بمسلمۃٍ لم ینتقص عہدہ
ہدایہ اولین:578
جو ذمی جزیہ دینے سے انکار کر دے یا کسی مسلمان کو قتل کرے یا نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو گالی دے یا کسی مسلمان عورت سے زنا کرے تب بھی اس کا عہد (ذمہ) نہیں ٹوٹے گا۔
کیا فقہ حنفیہ قرآن و حدیث کا نچوڑ ہے؟ ص47، 48
چھبیسویں اعتراض کا جواب
قرآن کریم، احادیث مبارکہ، آثار صحابہ، اور اجماع امت کے مطابق گستاخ رسول کی سزا قتل ہے۔ اسی بنا پر فقہ حنفی میں بھی گستاخ رسول کی سزا موجود ہے اور وہ قتل ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:
فقہ حنفی کے محقق علی الاطلاق ابن ہمام حنفی فرماتے ہیں:
كل من أبغض رسول الله صلى الله عليه وسلم بقلبه كان مرتدا فالسباب بطريق أولى ثم يقتل حدا عندنا فلا تعمل توبته في إسقاط القتل قالوا هذا مذهب أهل الكوفة ومالك ونقل عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه
شرح فتح القدیر ج5 ص 98
جو آدمی دل میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض رکھے گا وہ مرتد ہو جائے گا تو سب و شتم سے بطریق اولیٰ مرتد ہو جائے گا۔ پھر وہ ہمارے نزدیک قتل کر دیا جائے گا اور اسقاط قتل میں اس کی توبہ کام نہیں آئے گی۔ یہ مذہب ہے اہل کوفہ کا اور امام مالک کا اور حضرت ابو بکر صدیق سے یہی نقل کیا گیا ہے۔
علامہ شامی فرماتے ہیں:
أفتى أكثرهم بقتل من أكثر من سب النبي من أهل الذمة وإن أسلم بعد أخذه
رد المحتار، ج 4 ص 215
اکثر احناف ایسے ذمی کے قتل کا فتوی دیتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے۔ اگرچہ وہ پکڑے جانے کے بعد اسلام بھی لے آئے تب بھی اسے قتل کیا جائے گا۔
در مختار میں ہے:
والحق أنه يقتل عندنا إذا أعلن بشتمه عليه الصلاة والسلام
در مختار، ج4 ص 2146
حق بات یہ ہے کہ جب وہ اعلانیہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو برا بھلا کہے تو اسے قتل کیا جائے گا۔
علامہ ظفر احمد عثمانی فرماتے ہیں:
وبالجملۃ فلا خلاف بین العلماء فی قتل الذمی او الذمیۃ اذا اعلن بشتم الرسول او طعن فی دین الاسلام طعنا ظاہرا
اعلاء السنن، ج 12 ص 539
علمائے اسلام کے اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں کہ اگر ذمی مرد یا عورت نبی علیہ السلام کی شان میں اعلانیہ گستاخی کرے یا اسلام میں عیب نکالے تو اسے قتل کردیا جائے گا۔
مولانا عبدالمالک کاندھلوی حنفی لکھتے ہیں:
امت کے تمام فقہاء اور ائمہ مفسرین اور محدثین کا فیصلہ ہے کہ توہین رسول علیہ الصلوۃ والسلام کی سزا موت ہے۔
ناموس رسول ص 210
ان حنفی علماء کی عبارات سے معلوم ہوا کہ حنفی مسلک میں گستاخ رسول کی سزا موجود ہے اور وہ قتل ہے۔ آخر میں ایک حوالہ غیر احناف سے بھی اس بات کے ثبوت میں پیش خدمت ہے کہ احناف کے یہاں گستاخ رسول کی سزا قتل ہے۔
قاضی عیاض فرماتے ہیں:
أجمع عوام أهلى العلم على أن من سب النبي صلى الله عليه وسلم يقتل وممن قال ذلك مالك بن أنس والليث وأحمد وإسحاق وهو مذهب الشافعي قال القاضى أبو الفضل وهو مقتضى قول أبى بكر الصديق رضى الله عنه ولا تقبل توبته عند هؤلاء، وبمثله قال أبو حنيفة وأصحابه
الشفابتعریف حقوق المصطفی ج2 ص 215
تمام اہل علم کا اتفاق ہے کہ جو بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے، اسے قتل کردیا جائے گا۔ امام مالک بن انس، امام لیث، امام احمد، امام اسحاق، اور امام شافعی رحمہم اللہ تعالی کا یہی مسلک ہے۔ قاضی ابو الفضل فرماتے ہیں کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے قول سے یہی مراد ہے اور ان تمام ائمہ کے نزدیک ایسے شخص کی توبہ بھی قبول نہیں کی جائے گی۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے ساتھیوں کا بھی یہی مسلک ہے۔
اب ہم ہدایہ کی عبارت کی وضاحت کرتے ہیں:
ہدایہ کی عبارت کی وضاحت
یہ مسئلہ ہدایہ کے علاوہ فقہ حنفی کی دیگر کتب مثلاً فتاویٰ عالمگیری، در مختار وغیرہ میں بھی ہے مگر اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر حاکم اسلام کسی ملک کفار کو فتح کرے اور پھر ان سے عہد و پیمان لے کر ان کو اپنے ظل حمایت میں جگہ دیوے تو تاوقتیکہ وہ اپنے عہد و پیمان کا خلاف نہ کریں تو مسلمانوں پر لازم ہے کہ ان کا معاہدہ بدستور قائم رکھیں ہاں اگر منکراتِ شرعیہ میں سے کسی جرم کا ارتکاب کریں تو حسب قانون شرع اس پر حد جاری کریں سو اگر کسی مسلمان عورت سے کوئی ذمی زنا کرے یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرے اور اس کے عہد نامہ میں اس قسم کی شرائط کا کچھ ذکر نہ تھا تو اس کا معاملہ معاہدہ جوں کا توں باقی ہے البتہ ان دونوں جرموں کی سزا اس کو دی جائے گی یعنی زنا کی صورت میں حد زنا اس پر جاری ہو گی۔
چنانچہ در محتار میں ہے:
قولہ ولا بالزنا بمسلمۃ بل یقام علیہ موجبہ وہو الحد
یعنی زنا مسلمہ سے عہد تو نہ ٹوٹے گا پر اس پر زنا کی حد جاری کی جائے گی اور نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے برا کہنے میں اگر خفیہ طور سے ایک دو دفعہ اپنی جماعت کے آدمیوں میں برا کہا ہے اور عہد نامہ میں اس قسم کی شرائط کا کچھ ذکر نہ ہو تب بھی اگرچہ معاہدہ اس کا بدستور باقی ہے لیکن تعزیراً اور زجراً سزا دی جائے گی۔ اور احناف کے نزدیک تعزیراً قتل بھی کیا جاسکتا ہے اور ایسے شاتم کو قتل ہی کیا جائے گا۔
چنانچہ در مختار میں ہے:
ویودب الذی ویعاقب علی سبہ دین الاسلام والقران او النبی صلی اﷲ علیہ وسلم قال العینی واختیاری فی السب ان یقتل وتبعہ ابن الہمام قلت وبہ افتی شیخنا الخیر الرملی وہو قول الشافعی
یعنی ذمی دین اسلام یا قرآن یا نبی علیہ الصلوۃ والسلام کے برا کہنے میں تادیب و تعزیر دیا جائے۔ علامہ عینی نے فرمایا ہے کہ میرا مذہب یہ ہے کہ وہ قتل کیا جائے۔ اسی مذہب کے ابن ہمام تابع ہوئے ہیں اور شیخ رملی نے بھی اسی کا فتویٰ دیا ہے اور یہی امام شافعی کا قول ہے۔
پھر یہ بھی جب ہے کہ اس قسم کی شرائط وقت عہد اس سے نہ کی گئی ہوں۔ اور اگر اس سے شرط کی گئی ہو کہ مذہب اسلام اور قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو برا نہ کہے یا فلاں فلاں کام نہ کرے اور وہ پھر اس نے اس کا خلاف کیا تو اس کا معاہدہ بھی باقی نہ رہے گا۔ بلکہ مباح الدم ہو جائے گا۔
چنانچہ رد محتار میں ہے:
اقول ہٰذا ان لم یشرط انتقاضہ بہ اما اذا شرط انتقض بہ کما ہو ظاہر
یعنی عہد کا نہ ٹوٹنا جب ہے کہ اس قسم کی شرط نہ کی گئی ہو ورنہ برا کہنے سے اس کا عہد ٹوٹ جائے گا۔
علی ہذا اگرچہ معاہدہ میں ایسی شرائط نہ کی گئی ہوں پر وہ کھلم کھلا نبی علیہ الصلوۃ والسلام کو برا کہتا پھرتا ہے تب بھی اس کا عہد ٹوٹ جائے گا۔ اور اس کے صلہ میں قتل کیا جائے گا۔
چنانچہ رد محتار میں ہے:
قولہ وسب النبی صلی اﷲ علیہ وسلم ای اذ لم یعلن فلوا علن بشتمہ او اعتادہ قتل و لو امرأۃ وبہ یفتی الیوم
یعنی عہد کا نہ ٹوٹنا اس وقت ہے کہ علی الاعلان برا نہ کہا ہو اور اگر کھلم کھلا برا کہا ہے یا اس کی عادت کر لی ہے تو قتل کر دیا جائے گا اگرچہ عورت ہی کیوں نہ ہو۔ اور احناف کے ہاں اب اسی پرفتویٰ ہے۔
قارئین کرام! آپ نے ملاحظہ فرما لیا کہ احناف کے یہاں گستاخ کی سزا قتل ہے۔ لیکن طالب الرحمن صاحب کو معلوم نہیں کیوں اس حساس مسئلہ میں بھی احناف پر الزام تراشی کرتے ہوئے شرم محسوس نہیں ہوئی۔
اعتراض نمبر27: محرّمات سے نکاح پر حد کا مسئلہ
طالب الرحمن صاحب لکھتے ہیں:
اسلام میں محرمات سے نکاح حرام
امام ابوداود نے اپنی سنن میں یہ باب باندھا باب فی الرجل یزنی بحریمہ کہ جو شخص اپنی محرمات سے نکاح کرتا ہے۔ پھر مندرجہ ذیل حدیث نقل کی:
عن البراء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ قال بینا انا اطوف، علی ابل لی ضلت اذ اقبل رکب، او فوارس، معہم لوائ، فعجل الاعراب یطیفون بی، لمنزلتی من النبی صلی اﷲ علیہ وسلم اذ اتواقبۃ، فاستخرجوا منہا رجلا فضربوا عنقہ، فسألت عنہ؟ فذکروا انہ أعرس بامرأۃ أبیہ
ابوداود:4456
براء بن عازب رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں دوران طواف میں ایک قافلے والوں سے ملا جب وہ اپنے ٹھکانے پر پہنچے تو اس میں سے ایک شخص کو باہر نکالا اور اس کی گردن کو جدا کر دیا میں نے اس کے متعلق پوچھا تو بتایا گیا کہ اس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کیا تھا۔
دوسری حدیث کے الفاظ یوں ہیں:
عن البرائ رضی اللہ تعالی عنہ قال لقیت عمی ومعہ رایۃ، فقلت: أین ترید؟ قال: بعثنی رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم إلی رجل نکح إمرأۃ أبیہ، فأمرنی أن أضرب عنقہ، وآخذ مالہ
ابوداود:4457
حضرت براء رضی اللہ تعالی عنہ کہتے ہیں میں اپنے چچا کو ملا اور اس کے پاس جھنڈا تھا میں نے پوچھا کہاں کا ارادہ ہے؟ اس نے کہا مجھے نبی علیہ الصلوۃ والسلام نے ایک شخص کی طرف بھیجا ہے جس نے اپنے باپ کی بیوی سے نکاح کر لیا ہے اور آپ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس کو قتل کر دوں اور اس کا مال چھین لوں۔
فقہ حنفی میں محرمات سے نکاح
اب حنفیوں کا فتویٰ بھی دیکھ لیں، فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
وکذلک لو تزوج بذات رحم محرم نحو البنت والاخت والأم والعمۃ والخالۃ وجامعہا لاحد علیہ فی قول ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی وان قال علمت أنھا علی حرام
3/468
اسی طرح اگر کوئی محرمات ابدیہ سے نکاح کر لے مثلاً بیٹی، بہن، ماں، پھوپھی یا خالہ اور پھر ان سے جماع بھی کر لے تو امام ابو حنیفہ کے قول کے مطابق اس پر کوئی حد نہیں ہے چاہے وہ یہ جانتا بھی ہو کہ یہ کام مجھ پر حرام ہے۔
ستائیسویں اعتراض کا جواب
اس اعتراض کے کئی جواب ہیں۔
جواب نمبر1:
شریعت نے زانی کے لیے جو حد مقرر کی ہے وہ رجم (سنگسار) یا جَلد (کوڑے) ہے۔ کسی بھی حدیث میں یہ نہیں آیا کہ جو شخص محرمات ابدیہ (ہمیشہ کے لیے حرام) سے نکاح کر کے وطی کرے اس کو رجم کیا جائے یا کوڑے مارے جائیں۔ اس لیے امام اعظم ابو حنیفہ نے ایسے شخص کے لیے یہ حد (رجم یا جلد) نہیں فرمائی۔ امام اعظم ابو حنیفہ کے اس مسئلہ کو اگر طالب الرحمن حدیث کے خلاف سمجھتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ کوئی ایسی حدیث نقل کریں جس میں ایسے شخص کے لیے حد آئی ہو۔ البتہ احادیث میں قتل کا حکم آیا ہے جس سے امام اعظم ابو حنیفہ کا مسلک و مذہب ہی ثابت ہوتا ہے کیونکہ قتل کرنا یا مال ضبط کرنا زنا کی ان دونوں حدوں سے کوئی حد نہیں ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ فرماتے ہیں ایسے شخص کو جو بھی سزا دی جائے کم ہے لہٰذا حاکم اس کو سخت سے سخت سزا دے فتح القدیر کے اندر تصریح ہے کہ
الا ترٰی ان ابا حنیفۃ الزم عقوبۃ باشد ما یکون وانما لم ثبت عقوبۃ ہی الحد فعرف انہ زنا محض عندہ الا ان فیہ شبہۃ
کیا آپ نہیں دیکھتے کہ امام ابوحنیفہ اس کے لیے سخت سے سخت سزا تجویز کرتے ہیں؟ (البتہ نکاح کے سبب) حد ثابت نہیں۔ پس وہ اس کو زنا ہی سمجھتے ہیں مگر نکاح کے سبب اس میں شبہ پیدا ہو گیا۔
اس لیے حد مقرر رجم یا جلد اس سے ساقط ہو گئی اس عبارت کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ اس پر کوئی سزا ہی نہیں۔ بلکہ اسے سخت سزا دی جائے گی قتل کی صورت میں۔
جواب نمبر2:
طحاوی ج2 ص73 میں ہے سوتیلی ماں سے نکاح کی وجہ سے مرتد ہو گیا، کیونکہ اس نے حرام کو حلال سمجھا، لہٰذا اس پر ارتداد کی سزا نافذ ہو گی اور یہ صرف عقدِ نکاح ہی سے نافذ ہو جائے گی، اس کے لیے مباشرت شرط نہیں اور اگر اس نے یہ نکاح حرام سمجھ کر کیا تو مباشرت و وطی کی صورت میں حد نافذ ہو گی، اسی طرح محرم سے بلا نکاح وطی کی تو بھی حد نافذ ہو گی یہی امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کا مذہب ہے۔
محترم! ذرا غور فرمایئے کہ مسئلہ کی تین صورتیں ہیں:
اول محرمات میں سے کسی کے ساتھ نکاح کیا، اگر حلال اور جائز سمجھ کر کیا تو کافر و مرتد ہو گیا، لہٰذا اس پر ارتداد کی شرعی سزا نافذ ہو گی اور اگر نکاح حرام و ناجائز سمجھ کر کیا تو اس کے لیے شرعاً کوئی حد مقرر نہیں ہے، البتہ قاضی اپنی مرضی سے جو سزا تجویز کر لے وہ دی جائے گی اور یہ قتل بھی ہوسکتی ہے۔
دوم نکاح کے بعد اگر اس نے وطی و مباشرت بھی کر لی تو تعزیراً اس کو قتل کیا جائے گا یا قاضی جو سزا دے۔
سوم بغیر نکاح کے اگر کسی نے محرمات میں سے کسی کے ساتھ زنا کر لیا تو اس پر بھی زنا کی حد جاری ہو گی۔
جواب نمبر3:
باقی رہا مسئلہ یہ کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے شخص کے لیے قتل کی سزا کا حکم دیا ہے تو اس کے بارے میں قاضی شوکانی فرماتے ہیں کہ اس نے فعل حرام کو حلال سمجھا جو کفر کے لوازمات میں سے ہے، اس لیے اسے قتل کیا گیا۔
نیل الاوطار ج7 ص122
گویا یہ قتل کی سزا حد نہیں بلکہ ارتداد کی سزا تھی۔ امام حافظ ابن الہمام الحنفی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ یہ قتل کی سزا بطور سیاست و تعزیر تھی۔
فتح القدیر ص148
اس سے صاف ظاہر ہے کہ اختلاف قتل کی سزا میں نہیں ہے، بلکہ اس میں ہے کہ یہ قتل کی سزا حد ہے یا تعزیر؟ در مختار ج3 ص179 میں ہے اسے تعزیراً قتل کیا جائے گا۔ عالمگیری ج2 ص148 میں ہے‘ اسے عبرت ناک سزا دی جائے گی، طحاوی ج2 ص97 میں ہے یہ زنا سے بڑا گناہ ہے:
ولٰکن یجب فیہ التعزیر والعقوبۃ البلیغۃ
اس پر تعزیراً سخت ترین سزا واجب ہے۔ حافظ ابن ہمام رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اگر کسی نے کہا: ماں بیٹی وغیرہ سے نکاح جائز ہے وہ کافر، مرتد اور واجب القتل ہے۔
فتح القدیر ج5 ص42، طحاوی ج2 ص96
جواب نمبر4:
آپ کے نامور بزرگ نواب نور الحسن خان رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ زنا کی بیٹی سے نکاح جائز ہے۔
عرف الجادی ص113
سردار اہل حدیث ثناء اﷲ امرتسری فرماتے ہیں کہ دادی کے ساتھ پوتے کا نکاح جائز ہے اس کی حرمت منصوص نہیں۔
اخبارِ اہل حدیث رمضان 1388ھ بحوالہ معین الفقہ ص95
محترم! ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے تو نہ اس نکاح کو جائز قرار دیا، نہ اس کی حرمت منصوصہ سے انکار کیا اور نہ اس کی سزا سے انکار کیا، صرف اس سزا کا نام حد کی بجائے تعزیر رکھ دیا تو آپ نے آسمان سر اپر اٹھا لیا، لیکن یہاں تو سب کچھ قرآن و حدیث کے نام پر ہو رہا ہے، اس کے بارے میں بھی کچھ وضاحت فرما دیجیے۔