ختم نبوت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان…………ختم نبوت خطبہ مسنونہ :
الحمد للہ وحدہ لاشریک لہ والصلٰوۃ والسلام علیٰ من لا نبی بعدہ امابعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ماکان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبین وکان اللہ بکل شئی علیما۔
سورۃ احزاب آیت نمبر 40
درود شریف :
اللهم صل عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما صليت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد ، اللهم بارك عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما باركت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد۔
جا زندگی! مدینے سے جھونکے ہوا کے لا
شاید کہ حضور ہم سے خفا ہیں ، منا کے لا
کچھ ہم بھی اپنا چہرہ باطن سنوار لیں
ابوبکر سے وہ آئینے عشق و وفا کے لا
دنیا مسلماں پر بہت ہی تنگ ہو گئی
دور ِفاروقی کے وہ نقشے اٹھا کے لا
جن سے محروم کر دیا ہمیں نگاہ نے
عثماں سے زاویے شرم و حیاء کے لا
مغرب میں مارا مارا نہ پھر اے گدائے علم

دروازہ علی سے خیرات جا کے لا

 

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری

ہے

اس کوہ طلب میں ہم نے بھی دل نذر کیا جاں واری

ہے

کچھ اہل ستم کچھ اہل حشم میخانہ گرانے آئے

تھے

دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری

ہے

زخموں سے بدن گلزار سہی تم اپنے شکستہ تیر

گِنو

خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

تمہید:
میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو !مسلک اہلسنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوان دوستو اور بھائیو! میں نے آج کی اس نشست میں آپ حضرات کی خدمت میں دو باتیں عرض کرنی ہیں… اور دونوں باتیں دلائل کے ساتھ پیش کروں گا… حق جل مجدہ مجھے اپنے مسلک اور موقف کو دلائل کے ساتھ بیان کرنے کی توفیق عطا فرمائے…آج جو ہم اس اسٹیڈیم میں جہلم شہر میں رات کے وقت بیٹھے ہیں… میں آپ کی خدمت میں گزارش یہ کرنا چاہوں گا… آپ حضرات کے علم میں ہو کہ آپ کون ہیں؟اور مجھے بات سمجھنی چاہیے کہ میں کون ہوں؟جملہ تو صرف ایک ہو گا… اس جملہ کو سمجھانے کے لئے میں تھوڑی سی تمہید آپ حضرات کی خدمت میں عرض کروں گا… تاکہ مجھے بات سمجھانے میں آسانی ہو۔
مشن نبوی اورمشرکین مکہ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق جل مجدہ نے نرینہ اولاد عطا فرمائی ہے… اور اللہ رب العزت نے پیغمبر کی نرینہ اولاد واپس لی ہے… پیغمبر کی اولاد ابھی بالغ نہیں ہوئی کہ دنیا سے چلی گئی…تو مشرکین مکہ نے اپنے ماحول کے مطابق گفتگوکرتے ہوئے خاتم الانبیاء کے بارے میں یہ نازیبا جملے کہے تھے… انہوں نے کہا کہ یہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم پوری دنیا کے آفاقی انقلاب کی بات کرتا ہے…یہ بین الاقوامی مشن اور پروگرام کی بات کرتا ہے…یہ تو کہہ رہا ہے کہ جو آواز میں نے مکے میں لگائی ہے اس آواز کو میں پوری دنیاتک لے کے جاؤں گا… لیکن اس کا تو ایک بیٹا تھا وہ بھی دنیاسے چلا گیاہے…اس کی آواز کو لے جانے والاکون ہوگا؟مشرکین مکہ اپنے رواج کی بات کررہے تھے… کہ جب باپ کوئی بات لے کر نکلتاہے تو وارث اس کی اولاد ہوتی ہے…جو اس کے مشن کو آگے پہنچایا کرتی ہے… جب اس کی اولاد ہی نہیں رہی… اس کے مشن کو لے کر جانے والا کون ہوگا؟انہوں نے دوباتیں کہی تھیں…ایک ان کا دعویٰ یہ تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد بالغ نہیں ہوئی…اور دنیا سے چلی گئی ہے… ان کاپہلا دعویٰ یہ تھا کہ اب اس کے مشن کو آگے لے جانے والا کوئی نہیں ہوگا۔
جوبات مشرکین مکہ نے ٹھیک کی ہے… خدانے اس کی تائید فرمائی ہے… اور جو بات غلط کی ہے خدانے اس کی تردید فرمائی ہے…ہمار ےاسلاف کا موقف یہ ہے جو بات ٹھیک ہو…تائید کرتے ہیں…جو بات غلط ہو تردید کرتے ہیں۔
جواب ربانی:
ان کی بات بجا تھی… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی نرینہ جسمانی اولاد وفات پاگئی خدا نے فرمایایہ بات تو تم ٹھیک کہتے ہو’’ما کان محمد ابااحد من رجالکم‘‘کہ میرے پیغمبر کی نرینہ نابالغ اولاد تو فوت ہوگئی ہے…لیکن تم نے جو دوسری بات کہی ہے… کہ اس کا مشن پھیلانے والا کوئی نہیں ہوگا…یہ تم نے جھوٹ بولاہے ولٰکن رسول اللہ دیکھو…میرے پیغمبر کا مقام کیاہے…میرا محمد محمد بن عبداللہ ہی نہیں ہے… میرا محمد…محمدرسول اللہ بھی ہے…ایک دنیا میں اولاد جسم سے چلتی ہے…ایک دنیامیں اولادایمان سے چلتی ہے۔
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی روحانی اولاد:
ایک دنیا میں اولاد کا باپ وہ ہوتاہے جسے جسمانی باپ کہتے ہیں…ایک باپ وہ ہوتاہے جسے روحانی باپ کہتے ہیں… پہلے محمد بن عبداللہ تھا…تو پھر مسئلہ اس کے بیٹے قاسم کا تھا… لیکن اب یہ محمد بن عبداللہ کی حیثیت سے بات نہیں کرتا…یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہونے کی حیثیت سے بات کرتا ہے…اب اس کے بیٹے کا نام صرف قاسم ہی نہیں ہے…اس کے بیٹے کا نام حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے…اس کے بیٹے کا نام قاسم ہی نہیں ہے… اس کے بیٹے کانام حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے اس کے بیٹے کا نام محض قاسم ہی نہیں ہے اس کے بیٹے کانام حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے… اس کے بیٹے کانام قاسم ہی نہیں ہے… اس کے بیٹے کا نا م حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔
جب یہ محمد بن عبداللہ تھا… تو اولاد کانام محض قاسم ہے… جب یہ محمد بن عبداللہ تھا تو اولاد کانام محض فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا ہے…لیکن جب اس کانام محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے تو اولاد کے زاویے بدل گئے ہیں…اگر یہ محمد بن عبداللہ ،بَن کے بات کرتا تومشن کو لے کر قاسم چلتا…لیکن اب یہ محمد بن عبداللہ بَن کے بات نہیں کرتا اب تو یہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بَن کے بات کرتاہے… اب اس کے مشن کو لے جانے والا قاسم نہیں صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوگا…ابراہیم نہیں فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہوگا۔ عثمان وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہما ہوں گے…پھر خدا نے یہاں تک بات ختم نہیں کی لوگ کہہ سکتے تھے… کہ ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دنیا سے چلے جائیں گے…حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی دنیا سے چلے جائیں گئے… حضرت عثمان وعلی رضی اللہ تعالیٰ عنہما بھی دنیا سے چلے جائیں گے… اب ان کے مشن کو لے کر کون جائے گا…اس کے کام کو آگے کون چلائے گا؟
خدا نے فرمایا ایک رسول ہوتاہے…ایک آخری رسول ہوتا ہے…حضرت آدم علیہ السلام نبی تھے…ان کے ماننے والے ان کے دَور تک تھے… حضرت ابراہیم علیہ السلام نبی تھے… ان کے ماننے والے ان کے دور تک تھے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نبی اور رسول تھے ان کے ماننے والے ان کے دور تک تھے… لیکن میرا پیغمبر محض رسول نہیں ہے یہ تو خاتم الرسل ہے… میرا پیغمبر محض نبی نہیں ہے یہ تو خاتم النبیین ہے… خدانے فرمایایہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے… کہ میرے پیغمبر کی نرینہ اولاد نہیں ہے…لیکن یہ تو رسول اللہ ہے…جس کی اولاد ایک لاکھ چوبیس ہزار اصحاب پیغمبر ہیں… میراپیغمبر محض رسول اللہ نہیں ہے…یہ تو خاتم الانبیاء ہے۔
پھر میں یوں کہوں گا…کہ جب صرف رسول کہتے ہیں تو اولاد ایک لاکھ چوبیس ہزار اصحاب پیغمبر بنتی ہے…جب انہیں آخری رسول کہتے ہیں…تو پھر ان کی اولاد میں قیامت تک آنے والا ہر کلمہ گو مسلمان بنتا ہے۔
دلیل:
میری دلیل پہ توجہ کرنا!حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ کو نبی کہتے ہیں میرے پیغمبر کو نبی بھی کہتے ہیں اورآخری نبی بھی کہتے ہیں…بلکہ میں یوں کہوں گا کہ جب مسئلے کی ضرورت پیش آتی ہے تو نبی دیتا ہے…لیکن جب اصول کی حاجت پیش آتی ہے تو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم دیتا ہے… ہمیں بحیثیت نبی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے مسائل دیے ہیں… بحیثیت آخری نبی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے اصول دیے ہیں… ہمیں مسائل دینے والا نبی ملا ہے… اور ہمیں اصول دینے والا آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ملا ہے… ہم مسائل میں بھی کسی کے محتاج نہیں ہیں…اصول میں بھی کسی کے محتاج نہیں ہیں…ہمیں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اصول دیتے ہیں بحیثیت آخری نبی ہو نے کے۔ مسائل دیتے ہیں بحیثیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہو نے کے… اب میں یہ بات بتانے لگا ہو ں کہ مجھے کیا کہتے ہیں… تجھے کیا کہتے ہیں…میں اور تو کون ہیں؟
اس تمہید کے بعد میں کہنے لگا ہوں مشرکین مکہ نے کہاتھا کہ ان کی نرینہ اولاد نہیں ہے…خدا نے کہا یہ بات تو تمہاری ٹھیک ہے…لیکن اب یہ محمد بن عبداللہ نہیں ہے اب یہ محمدرسول اللہ ہے…محمد بن عبداللہ کی حیثیت اور تھی…لیکن محمد بن عبداللہ کے بعد جب محمد رسول اللہ کا اعلان ہوتاہے…حیثیت بدل جاتی ہے…تم ایک بیٹے کی بات کرتے ہو جب یہ رسول اللہ ہے تو ایک لاکھ چوبیس ہزار بیٹے بنے ہیں… صرف رسول اللہ نہیں ہے یہ تو خاتم الرسل ہے… یہ تو خاتم النبیین ہے… قیامت تک آنے والے اس کے روحانی بیٹے ہوں گے…’’وازواجہ امھاتہم‘‘ اس پیغمبر کی گیارہ بیویاں ان کی مائیں بن جائیں گی۔
اپنی حیثیت پہچانو!
میری دلیل پر توجہ کرنا! جس کا باپ ایک ہوتاہے اسے حلالی بیٹاکہتے ہیں۔ جب باپ بدل جائے بیٹا حلالی نہیں حرامی بن جاتاہے…ہم نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوآخری نبی ماناہے ہم نبی کی روحانی اولاد ہیں… اگر اس کے بعد کوئی اور نبی مانیں گے پھر حلال زادے نہیں حرام زادے بن جائیں گے…مجھے کوئی بندہ کہے تیرے والد کانام کیاہے…آج تک میں شیر بہادر کہتارہا…اگلے سال مجھ کوئی پوچھے باپ کانام کیاہے میں اگر نام بدل دوں…تو لوگ کہیں گے تو حلال زادہ ہے یا حرام زادہ؟…کل باپ کا نام اور بتارہاتھا… آج باپ کا نام اور بتارہاہے… جب ہمارے باپ کا نام محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہے… ہمیں حلالی بیٹاکہتے ہیں۔
جب بعد میں غلام احمد بھی کہیں گے… تو ہمیں حلالی کوئی نہیں کہے گا…حرامی کہے گا… میں کہتاہوں قیامت تک آنے والا ہر مسلمان حلالی ہونے پر فخر کرتاہے… حلالی ہونا کمال ہے حرامی ہونا کمال نہیں عیب ہے…جس نے آخری نبی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو مانا ہے وہ حلالی بیٹاہے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اور نبی مانتاہے اس کامعنیٰ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی اور کو باپ مانتاہے…اسی طرح ازواج مطہرات کے بعد کسی اور کوماں مانتاہے…اگرماں بدل دے اسے بھی حرامی کہتے ہیں… لیکن ماں تو بدلی نہیں جاتی باپ کے بارے میں کہہ دے گا… میرایہ بھی تھا میراوہ بھی تھا…ہم حلال زادے ہیں…کیونکہ ہمار ایک باپ ہے… جسے محمدرسول اللہ کہتے ہیں…نبی کے بدلنے سے نسبت بدل جایاکرتی ہے۔
میں یوں کہوں گا… تم بھی حلال زادے ہو…میں بھی حلال زادہ ہوں کیونکہ ہمارے باپ کا نام ایک ہے…محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے روحانی باپ ہیں۔ اگر نبی کو بدلا ہے حلا ل زادے نہیں حرام زادے ہیں… اور جو حلال زادہ ہوتاہے وہ باپ پہ کٹ جاتاہے… باپ پہ آنچ نہیں آنے دیتا…پھر ہم بھی یہ کہیں گے… اگر نبی پہ آنچ آنے دیں تو ہمیں بھی حلال زادہ نہیں حرام زادہ کہیں گے…اگر پیغمبر کے دفاع کی جنگ لڑیں گے ہمیں حرام زادہ نہیں حلال زادہ کہیں گے…ہم حلالی بن کے زندہ رہنا چاہتے ہیں… حرامی بن کے زندہ رہنے کو ہم خدا کی قسم موت سمجھتے ہیں… تو میری اور تیری حیثیت ایک حلال زادے کی ہے…نبی کے بعد کسی اور نبی ماننے والے کی حیثیت حرام زادے کی ہے… پھر دنیا بھر کے لوگو تمہاری مرضی ہے… اگر حلال زادہ بن کے رہنا چاہتے ہو…توقیامت تک ایک نبی مانناپڑے گا… نبی بدل دوگے حلال زادے کی بجائے حرام زادے بن جاؤ گے۔
یہاں فرق نہیں :
یہی وجہ ہے وہ یورپ والا بدل دے فرق کوئی نہیں پڑتا… اس کے تو نطفے میں شک ہے… لیکن مشرق والا کیوں بدلتا ہے… وہ نبی بدل دے کوئی فرق نہیں پڑتا… وہ تو روزانہ باپ بھی بدلتا ہے…وہ خاوند بھی بدلتی ہے…وہ تو نسلیں بدلتے ہیں…کوئی فرق نہیں پڑتا…لیکن اگر ہم یورپ والے نبی کو مانیں گے تو حرام زادے بن جائیں گے اور اگر مدینہ والے کو آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم مانیں گے تو حلال زادے رہیں گے…میں نے کہا تھا۔
’’ماکان محمد ابااحدمن رجالکم ولکن رسول اللہ خاتم النبیین‘‘
جب پیغمبر رسول ہیں توایک لاکھ چوبیس ہزار صحابہ حلالی بیٹے نظر آتے ہیں جب یہ آخری رسول ہیں تو قیامت تک پیغمبر کے اربوں بیٹے نظر آتے ہیں…خدا نے کہا مشرکو تم نے کہا تھا قاسم دنیا سے چلا گیا…کوئی فرق نہیں پڑتا… اس کے مشن کو آگے لے جانے والے کبھی جان نبوت پہ دیں گے۔
شہید نبوت اور شہید ختم نبوت:
اس کے مشن کو پھیلانے والے کبھی جان ختم نبوت پہ دیں گے۔ میرے ان جملوں پر غور کرنا… ایک شہید نبوت ہوتا ہے اور ایک شہید ختم نبوت ہوتاہے۔ نبی بدر میں گئے ہیں تومشرکین مکہ نے کہاتھا ہم نبی نہیں مانتے… جس نے وہاں جان دی اسے شہید نبوت کہتے ہیں… میرے پیغمبر احد میں گئے ہیں…انہوں نے کہا ہم نبی نہیں مانتے جس نے وہاں جان دی ہے اسے شہید نبوت کہتے ہیں…میرے پیغمبر خیبر میں گئے ہیں… انہوں نے کہا ہم نبی نہیں مانتے…جس نے وہاں جان دی ہے اسے شہید نبوت کہتے ہیں… میرے پیغمبر تبوک میں گئے…انہوں نے کہا ہم نبی نہیں مانتے جس نے وہاں جان دی ہے…اسے شہید نبوت کہتے ہیں۔
ادھر یمامہ میں گئے ہیں۔انہوں نے کہا ہم نبی تو مانتے ہیں لیکن آخری نبی نہیں مانتے…جس نے وہاں جان دی ہے اسے شہید ختم نبوت کہتے ہیں… بدر والے شہداء نبوت تھے…احد والے شہداء نبوت تھے… خیبر والے شہداء نبوت تھے…یمامہ کی جنگ لڑنے والے شہداء ختم نبوت تھے…ہم نبوت بھی مانتے ہیں ختم نبوت بھی مانتے ہیں… شہید نبوت بھی ہمارا ہے شہید ختم نبوت بھی ہماراہے…شہید نبوت کو حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں۔ شہید ختم نبوت کو سعید رحمہ اللہ کہتے ہیں…ایک حبیب وہ تھا جو یمامہ کے میدان میں گیاہے مسیلمہ کذاب نے گرفتار کروایا ہے…اس نے کہا مجھے بھی نبی مانو…انہیں بھی مانو…میں تمہیں نہیں کہتا کہ محمد کونبی نہ مانو…اسے بھی مانو مجھے بھی مانو… حبیب نے کہانہیں نہیں قرآن نے دو اعلان کیے ہیں۔
قرآن رسول اللہ بھی کہتا ہے… قرآن خاتم النبیین بھی کہتاہے… میں اسے نبی بھی مانتا ہوں آخری نبی بھی مانتا ہوں…مسیلمہ کذاب نے کہا… اس کے دائیں ہاتھ کو کاٹ دو…ہاتھ کاٹا گیا…کہا تجھے اب بھی نہیں مانتا… بائیں ہاتھ کوکاٹ دو…کہا اب بھی نہیں مانتا…دائیں پاؤں کو کاٹ دو…کہا اب بھی نہیں مانتا…بائیں پاؤں کوکاٹ دو کہا اب بھی نہیں مانتا… کہا اس کی گردن کاٹ دو… وہ اشارے سے کہتاہے اب بھی نہیں مانتا… مدینہ میں خبر پہنچی۔
عظیم ماں کے عظیم جملے:
اُم حبیب رضی اللہ تعالیٰ عنھانے پوچھا میرا بیٹاگیاتھا…بتاؤ میرے بیٹے کا کیابنا ہے ؟اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا… اس کا دایاں ہاتھ کٹا ہے اس کا بایاں ہاتھ کٹاہے…دایاں پاؤں کٹاہے… بایاں پاؤں کٹاہے…اس کی زبان کٹی ہے۔ ام حبیب نے عجیب تاریخی جملہ کہاتھا… جسے تاریخ نے اپنے سینے میں محفوظ کیاہے… ام حبیب نے کہ ’’لہذا الیوم ارضعتہ‘‘ میں نے آج کے دن کے لیے اپنے بیٹے کو دودھ پلا کے جوان کیاتھا۔
میں نے کہا یہ شہید ختم نبوت تھا… جسے حبیب کہتے ہیں…ادھر کراچی میں گولیاں چلی ہیں… حضرت سعید شہید ہوئے ہیں…جسے جلالپوری کہتے ہیں…یہ شہید ختم نبوت تھا… بدر والوں کو شہداء نبوت کہتے ہیں…آج کے لوگوں کو شہداء ختم نبوت کہتے ہیں… بدروالا حفاظت نبوت کی کررہاتھا…یمامہ والا حفاظت ختم نبوت کی کر رہاتھا…
مسئلہ نبوت کا نہیں ہے…مسئلہ ختم نبوت کا ہے… نبی تو قادیانی بھی مانتاہے لیکن آخری نبی نہیں مانتا…ہم نبی بھی مانتے ہیں…آخری نبی بھی مانتے ہیں… مسئلہ حلال زادے اور حرام زادے کا ہے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی ماننا بھی ٹھیک ہے۔ صرف نبی نہیں آخری نبی ماننا ہے… جو آخری نبی مانے اسے حلال زادہ کہتے ہیں… جو اس کے بعد اور نبی مانے اسے حرام زادہ کہتے ہیں۔
ہم جیئں گے تو حلال زادے بن کے جئیں گے…حرام زادے بن کے جینے سے خدا کی قسم مر جانا بہتر ہے۔ میں نے دو باتیں کہنی ہیں… بتا! تو حلال زادہ یا حرام زادہ… ؟(حلال زادہ) بلند آواز سے (حلال زادہ) آخری نبی ماننے والے کو حلال زادہ کہتے ہیں… نبی بدلنے والے کو حرام زادہ کہتے ہیں ارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تو وہ ہیں…جو امت کے روحانی باپ ہو تے ہیں…ہم اپنے باپ کے ہو تے ہو ئے دوسرے باپ کا انتخاب کیسے کریں…؟ نمبر دو میں جو بات تجھے سمجھا نے لگا ہوں۔
گستاخی پیغمبر پر سزائے موت کیوں؟
آج گستاخ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ چلا ہے… کئی لوگ کہتے ہیں گستاخ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے لیے تم نے سزائے موت کی بات کیسے کی ہے…میں نے کہا تم نے اس کی حیثیت کو جا نا ہی نہیں ہے…کہ وہ کتنا بڑا مجرم ہے…بتدریج انسان کو تین چیزیں ملتی ہیں :
1…انسان کو وجود ملتا ہے۔
2…ایمان ملتا ہے۔
3…اخلاق ملتے ہیں۔
پہلے تجھے اور مجھے وجود ملا ہے پھر ماں کے بطن سے باہر آئے ہیں… پھر ہم کلمہ پڑھ کے مومن بنے ہیں…پھر استاد نے تربیت دی اخلاق سیکھائے…اگر تو پوری روایت پہ روشنی ڈالے گا… تو تجھے دلائل بتائیں گے کہ مجھے اور تجھے وجود ملا…خاتم الانبیاء کے صدقے میں…اگر ایمان ملا ہے تو خاتم الانبیاء کے صدقے میں… اگر اخلاق ملے تو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے میں…وجود ملا ہے اس کی دلیل کیا ہے۔
اہل السنت والجماعت کا عقیدہ … عصمت انبیاء علیہم السلام :
احادیث میں موجود ہے…حضرت آدم علیہ السلام کے بھولنے کی وجہ سے جب خدا نے یوں کہا ہے آدم تجھے بھول کر بھی یہ جرم نہیں کرنا چاہیے تھا…حضرت آدم نے خدا سے معافی مانگی ہے… میں ایک جملہ کہتا ہوں اہلسنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہیں… نبی سے خدا کبھی بھی گناہ ہو نے نہیں دیتا…میں کہتا ہوں یہ جملہ ہم نہیں کہتے کہ نبی گناہ کرتا نہیں…بلکہ خدا نبی سے گناہ ہونے ہی نہیں دیتا گناہ نہ کرنا اور ہے…گناہ سے بچانا اور ہے۔
مثال:
میں مثال دے کے یوں سمجھاتا ہوں۔ جیسے بیٹا ماں کے بدن سے وجود لے کر آتا ہے…یہ چھ ماہ یا ایک سال کا ہے اس کو گرمی سے بھی بچانا ہے…سردی سے بھی بچانا ہے… یہ گرمی سردی سے بچنے کا خود اہتمام نہیں کرتا… کیوں کہ خود آیا جو نہیں… اس کو بچانے کا اہتمام ماں کرتی ہے… کیوں کہ اس نے جنا ہے…اگر یہ خود آجا تا تو گرمی اور سردی سے بچنا اس کے ذمے تھا… یہ آیا نہیں اس کو ماں نے جنا ہے… تو جس ماں نے جنا ہے بچانا بھی اس کے ذمے ہے…نبی اعلان نبوت خود نہیں کرتا خدا اعلان نبوت کرواتا ہے…اگر نبی خود اعلان نبوت کرتا… تو گناہوں سے بچنا خود نبی کے ذمہ تھا…جس خدا نے اعلان نبوت کروایا ہے…اس خدا نے گناہوں سے بچایا ہے… میں اس لئے کہتا ہوں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم معصوم ہے۔
قیادت کے فیصلے:
ایک بندہ کہہ رہا تھا مولانا مجھے سمجھ نہیں آتی جس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو گا لی دی ہے… وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تو خاموش بیٹھے ہیں…اور آپ کے پیٹ میں مروڑ اٹھتی ہے… تم احتجاج بھی کرتے ہو… تم جلوس بھی نکالتے ہو…تم خون دینے کی بات بھی کرتے ہو…میں نے کہا ہاں ہاں میں اس لیے خون دینے کی بات کرتا ہوں…کہ میری قیادت نے جوخون دینے کی بات کی ہے… اگر ان کا فیصلہ خون لینے کا ہوتا… ہم خون لینے کی بات کرتے… میں خدا کی قسم اٹھا کے کہتا… ہوں میرا مزاج نہیں ہے میں اسٹیج پر اکابر کے سامنے معذرت کے ساتھ بات کروں… میں تو بات کرتا ہی وہ ہوں جو میرے اکابر کا مزاج ہو… کبھی لوگوں کو غلط فہمی ہوتی ہے… جب ہم یہ بات کہتے ہیں کہ میں اکابر سے معذرت کے ساتھ کہتا ہوں… اس کا معنیٰ یہ تھا کہ میرے اکابر کی وہ سوچ نہیں جو میری ہے… میں نے کہا نہ۔ نہ اگر میں خون کی بات کرتا ہو ں… تو میرے اکابر نے خون دیا ہے… اگر میں جیل کی بات کرتا ہوں… میرے اکابر نے جیل کاٹی ہے… ان سے معذرت کیا کرنی انہوں نے تو یہ درس دیا ہے… ان سے معذرت کیا کرنی درس تو یہ دیتا ہے۔
اکابر کے نرم فیصلے کی وجہ:
ہاں ہا ں !کبھی یہ منع کرتا ہے کہ جیل کی بات نہیں کرنی قتل کی بات نہیں کرنی اس کی وجہ یہ نہیں کہ یہ ڈر گیا ہےاس کی وجہ تو سمجھا ہی نہیں۔ ارے اللہ نے خود قرآن میں فرمایا۔
وَاعْلَمُوا أَنَّ فِيكُمْ رَسُولَ اللَّهِ لَوْ يُطِيعُكُمْ فِي كَثِيرٍ مِنَ الْأَمْرِ لَعَنِتُّمْ ‘‘
سورۃ حجرات آیت 7
اے میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضوان اللہ علہیم اجمعین میرا نبی جو نرم فیصلے کرتا ہے… اس کی وجہ یہ نہیں کہ العیاذباللہ کہ میرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم ڈر جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے لیے نرم فیصلے کرتا ہے…اگر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا جانشین کبھی نرم فیصلے کرتا ہے… تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ڈر جا تا ہے یہ میری اور تیری کمزوری کی وجہ سے فیصلے نرم کرتا ہے…تو نے سمجھا یہ ڈرا ہے نہ،نہ یہ نہیں ڈرتے… یہ کل بھی نہیں ڈرے تھے… یہ آج بھی نہیں ڈرتے… یہ میرا خیال کرتے ہیں کہ شاید بیچارہ کمزور ہے ہتھکڑی سے ڈر نہ جائے… یہ میرا خیال کرتے ہیں کہ کہیں جیل سے ڈر نہ جائے… یہ میرا خیال کرتے ہیں اپنا خیال تو کبھی نہیں کرتے… میں بات اس لیے سمجھا رہا ہوں کہ تیرے ذہن میں کبھی غلط بات نہ آئے… بات یہ کہہ رہا تھا کہ میری قیادت کا فیصلہ ہے کہ ابھی جان دینی ہے… اگر قیادت کا فیصلہ ہو کہ جان لینی ہے ہم جان لینے سے بھی دریغ نہیں کرتے… لیکن ہمارے ذمہ پالیسی نہیں ہے ہمارے ذمہ فیصلے نہیں ہیں… میری حیثیت مبلغ اور خطیب کی ہے… ہمارے ذمہ موقف کو بیان کر نا ہے۔ فیصلہ تو قیادت نے کرنا ہے۔
میں بار ہا یہ اسٹیج پہ کہتا ہوں کہ ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کو اسٹیج پہ بیان کیا جائے گا… کب جان دینی ہے فیصلہ انہوں نے کرنا ہے… کب جان لینی ہے فیصلہ انہوں نے کرنا ہے… احتجاج کی بات کریں گے ہم احتجاج کی بات کریں گے… یہ روڈ بلاک کی بات کریں گے ہم روڈبلاک کی بات کریں گے… یہ جان دینے کی بات کریں گے ہم جان دینے کی بات کریں گے… یہ جان لینے کی بات کریں گے ہم جان لینے کی بات کریں گے۔
میرے دوستو!اب آپ بتاؤ ہماری حیثیت قیادت کی ہے یا کارکن کی… ؟ (کارکن کی ) بھائی قیادت ایک ہوتی ہے… کارکن ہزاروں ہوتے ہیں… ہر اسٹیج کا بندہ قائد بن جائے گا ان کو قیادت کون کہے گا… میں کہتا ہوں ہمارے ذمے فیصلے کرنے نہیں فیصلے ماننے ہیں… فیصلے کرنا ان کا کام ہے… فیصلہ ماننا ہمارا کام ہے۔ کبھی فیصلہ سمجھ نہیں آتا تب بھی ماننا پڑتا ہے۔
حدیبیہ کا معاہدہ:
حدیبیہ کے موقع پر کون نہیں جانتا ادھر مکہ والے آئے تھے… انہوں نے کہا جی معاہدہ کرنے لگے ہیں… یہ معاہدہ ہوا عروہ بن مسعود ثقفی کے درمیان… عروہ نے کہا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کیسی بات کرتے ہو معاذاللہ یہی تو جھگڑ اہے… کہ ہم محمد رسول اللہ نہیں مانتے مان لیتے تو جھگڑا کون سا تھا… محمد بن عبد اللہ لکھو… حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا علی! تو لکھ دے… فرمایا… یارسول اللہ میں نہیں لکھ سکتا… محمد رسول اللہ کو کاٹنا کتنا مشکل کام تھا… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا علی بتا کہاں لکھا ہے میں کاٹ دیتا ہوں… محمد بن عبد اللہ لکھ دے… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہیں چاہتے تھے فیصلہ تب بھی مانا۔
جذبات کی قربانی :
میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ارے واپس جانا ہے… ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا یہ کیسے جائیں گے… حضرت ام سلمہ نے پوچھا حضورصلی اللہ علیہ وسلم کوئی پریشانی ہے آج آپ کے چہرہ مبار ک پہ ملال ہے… فرمایا یہ چودہ سو میرے جانثار ہیں مدینے سے چل کے آئے ہیں… احرام باندھا ہے… یہ جذبات میں ہیں واپس کیسے جائیں گے… ام المومنین ام سلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عجیب ترکیب فرمائی ، عرض کیا یارسول اللہ ان کو کہنے کی ضرورت نہیں ہے… آپ باہر تشریف لے جائیں اور حلق کروا دیں… یہ تو آپ پہ جان دینے والے ہیں… صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علیہم جذبات میں تھے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے پر جذبات قربان کر دیے ارے کارکن کا کام اپنے فیصلے قیادت کو دینا نہیں… قیادت کے فیصلے ماننا ہےآج میں اور آپ یہ بات طے کر لیں جو فیصلہ قیادت دے گی ہم اس کو ضرور مان کے جائیں گے۔
کانگریس سے اتحاد :
کن کو ساتھ ملانا ہے کن کوا لگ کرنا ہے… یہ میرا اور آپ کا کام نہیں ہے۔ اور ایک بات کان کھول کے سن لو… کسی کے گھر جانا یہ اور بات ہے… اور کسی کا گھر آ جانا یہ اور بات ہے… میرے اکابر نے کانگرس کے دور میں اتحاد کانگرس سے کیا تھا… لیکن ان کے پاس گئے نہیں تھے… وہ آئے تھے… ان کا آنا اور ہے… میں صرف یہ کہتا ہوں ہر بات پہ الزام نہ دو… مجھے کبھی تعجب ہو تا ہے کبھی ان پہ الزام… کبھی مولانا اللہ وسایا دامت برکاتہم پہ الزام… میں نے کہا بھائی الزام کس بات کا ہے… جب قیادت مان لیا ہے تنقید کرنا چھوڑ دو… اگر تنقید کرنی ہے پھر قیادت ماننی چھوڑ دو…اللہ مجھے اور آپ کو بات سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔
دفاع خود خدا کرتا ہے .. کیوں ؟:
کسی نے کہا مولانا تم عجیب لوگ ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی نے گالی دی ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم توخوش بیٹھے ہیں…تمہیں غصہ آرہا ہے…میں نے کہا نہ یار تو بات سمجھا ہی نہیں… ابھی میں جہلم اسٹیج پہ کھڑا ہوں… ابھی کوئی یہاں بندہ کھڑا ہو کے مجھے گالی دے… میں تو برداشت کر جاؤں گا… میں تو تسلی سے سنتا رہوں گا… جوش ان کو آئے گا… لوگ ان سے پوچھیں گے مولانا عبد الحق خان بشیر قبلہ صاحب… اس کو تو غصہ نہیں آتا تمہیں کیوں آتا ہے… تو مولانافوراً فرمائیں گے بھائی الیاس گھمن خود نہیں آیا میں نے بلا یا ہے… اس کی توہین میری توہین ہے… میں بھی یہ بات کہتا ہوں کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اعلان نبوت خود نہیں کرتا…رب کرواتا ہے…جب پیغمبر کی توہین ہو تی ہے نبی خاموش رہتا ہے…تو خدا جواب دیتا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے اعلان کیا نہیں ہے اعلان کروایا ہے…اگر نبی کی توہین پہ خدا بھی نہ بولا تو پھر تیری بات ٹھیک ہے… جس خدا نے نبی سے اعلان کروایا ہے اس خدا نے جواب بھی دیا ہے…اور ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مانا ہے… تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع بھی کرنا ہے… نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر الزام لگے گا جواب دینا ہمارا ایمان ہے۔ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراض لگے گا… تو جواب دینا میرا اور تیرا ایمان ہے… میں بات یہ سمجھا رہا تھا۔
عقیدہ عصمت انبیاء:
حضرت آدم سے کہ نبی معصوم ہیں… آدم نبی تھے پیغمبر سے گناہ نہیں ہوتا لیکن نبی بھول گئے ہیں… بھول کر کھائیں تو روزہ نہیں ٹوٹتا…بھول کر پی لیں تب بھی روزہ نہیں ٹوٹتا… ہمارا عقیدہ تویہی ہے کہ حضرت آدم علیہ السلام بھول گئے تھے… اور بھول کر کام کرنے کو گناہ نہیں کہتے… پھر آپ کے ذہن میں سوال تو آنا چاہیے… کہ حضرت آدم جب بھول گئے تھے تو خدا نے ڈانٹا کیوں ہے…ربنا ظلمنا دعائیں کیوں مانگی ہیں چالیس سال تک روتے کیوں رہے ہیں۔ اس کا جواب یہ ہوگا… امتی کا بھول جانا اور ہے… نبی کا بھول جانااورہے۔ آدمی بھول کر کھاپی لے تو روزہ نہیں ٹوٹتا… اگر بھول کر نماز میں بات کرے تو نماز ٹوٹ جاتی ہے… میں کہتا ہوں نبی کا بھول جانایوں ہے کہ جیسے نمازی نمازمیں بھول کر بات کرلیتاہے… اور امتی کا بھول جانا یوں ہے کہ جیسے روزہ داربھول کر کھاپی لیتاہے۔ روزے میں بھولے تو مسئلہ اور ہے… اور نمازمیں بھولے تو مسئلہ اور ہے۔
حبیبِ خدا کے صدقے :
حضرت آدم علیہ السلام بھولے تھے تو خدا نےتنبیہ کی ہے… اورآدم علیہ السلام نے دعا مانگی ہے ایک کاتذکرہ قرآن میں ہے… ایک کاحدیث میں ہے… حضرت آدم علیہ السلام نے دعا مانگی’’یارب اساَلک بحق محمد لما غفرت لی‘‘اللہ تجھے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ دے کے دعا مانگتا ہوں مجھے معاف کردے… اللہ نے فرمایاآدم تجھے کیسے پتا چلا کہ میں محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو پیداکیاہے…
حضرت آدم علیہ السلام نے عرض کیاتھا
’’ لما خلقتنی بیدک‘‘جب آپ نے مجھے پیدافرمایا’’ فنفخت فیی من روحک‘‘
میرے بدن میں روح ڈالی ہے ’’رفعت راسی‘‘ میں نے سراٹھاکے دیکھا… تیرے عرش پہ لکھاہواتھا”لاالہ الااللہ محمد رسول اللہ‘‘ میں نے یقین کرلیاکہ پوری کائنات میں تجھے سب سے زیادہ حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم محبوب ہیں۔
اللہ رب العزت نے فرمایا’’صدقت یاآدم ‘‘آدم تو نے بالکل ٹھیک کہاہے تو نے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کاوسیلہ دے کر مجھ سے معافی مانگی ’’قدغفرت لک‘‘ تحقیق میں نے تجھے معاف کردیا…
آگے حدیث کے الفاظ یہ ہیں’’لولا محمد لما خلقتک‘‘کہ آدم میں نے اگر حضرت محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا نہ کرنا ہوتا تومیں تجھے وجود ہی نہ دیتا۔
مستدرک حاکم ج3 ص216
میں یہ دلیل دے رہاتھا مجھے اور تجھے وجود ملا ہے حضرت آدم علیہ السلام کی وجہ سے حضرت آدم کو وجود ملاہے…ہمارے پیارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی وجہ سے…ہمیں جو وجود ملتاہے وہ بھی نبی کی وجہ سے…ہمیں جو ایمان ملتاہے… وہ بھی نبی کی وجہ سے ملتاہے۔
ترجمانِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم :
وہ اس طرح کہ میرے اور تیرے ایمان کی بات نہیں ہے… حضرت آدم سے لے کر حضرت عیسیٰ تک کے ایمان کی بات ہے… قرآن کریم میں ہے
’’واذ اخذ ربک من بنی آدم من ظہورھم‘‘
اللہ نے حضرت آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکال کے پوچھا ہے ’’الست بربکم‘‘بتاؤمیں تمہارا خداہوں یا نہیں… حکیم الاسلام قاری محمد طیب نوراللہ مرقدہ نے لکھاہے… سارے انبیاء علیھم السلام بھی خاموش تھے… سب سے پہلے حضورصلی اللہ علیہ وسلم بولے ہیں…خدا تو ہی ہمارارب ہے… پیغمبر کے بولنے کی وجہ سے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء بولے ہیں… نبی کے بولنے کی وجہ سے ساری امتیں بولی ہیں۔
خطبات حکیم الاسلام
پھر میں یوں کہوں گا… انبیاء کو جووجود ملاہے میرے پیغمبر کی وجہ سے ملاہے اگر ایمان ملاہے میں امت کی بات نہیں کرتا میں تو انبیاء کی بات کرتاہوں… حضرات انبیاء کو بھی اخلاق ملتے ہیں… تو ہمارے پیغمبر کی وجہ سے ملتے ہیں اس کی دلیل یہ ہے۔
زنان مصر اور زلیخا :
حضرت یوسف علیہ السلام پر جب زلیخا فریفتہ ہوئی تو مصر کی عورتوں نے طعنہ دیا کہ زلیخا تجھے کیا ہوگیا؟ توغلام پر فریفتہ ہوگئی ہے… زلیخا نے کہا تھا تم نے غلام کو دیکھا ہی نہیں…ایک بار غلام کو دیکھو تو سہی…اس نے محل میں دسترخوان سجایا…ا ور اوپر چھریاں اور پھل رکھ دیے… حضرت یوسف علیہ السلام کو بلایاگیا… جب مصرکی عورتوں نے حضرت یوسف کو دیکھا…قرآن کہتا ہے ’’وقطعن ایدیھن‘‘ انہوں نے اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا۔
لواحی زلیخا لو راین جبینہ۔۔۔ لاثرن بالقطع القلوب علی الایدی
روح المعانی جز 13ص 77
جنہوں نے حضرت یوسف کودیکھا انگلیاں کاٹ ڈالیں اگرمیرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیتیں دل کاٹ لیتیں…حضرت امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کیوں فرمایا…؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ میرے پیغمبر سے حسن نکلا ہے…اور حضرت یوسف کو ملا ہے میرے پیغمبر کو مرکز حسن کہتے ہیں… حضرت یوسف کو شاخ حسن کہتے ہیں… میرے پیغمبر سے اخلاق نکلتے ہیں… وہ مرکز اخلاق ہیں انبیاء کو ملتے ہیں… وہ شاخ اخلاق ہیں آپ کے بدن میں دل کو مرکز بدن کہتے ہیں… اور ہاتھ کو شاخ بدن کہتے ہیں۔
امی عائشہ نے سمجھایا کہ جس نے شاخ حسن کو دیکھا ہے… اس نے شاخ بدن کو کاٹاہے…اگرمرکزحسن کو دیکھ لیتی تو مرکز بدن کو کاٹ ڈالتیں… اس دلیل کے بعد میں یہ کہنا چاہوں گا…جومیرے پیغمبرکی توہین کرتا ہے وجود پیغمبر کی وجہ سے ملاہے اس کے وجود کو زندہ رہنے کا حق حاصل نہیں…جو میرے پیغمبر کی توہین کرتاہے ایمان جس کی وجہ سے ملا ہے…تواس پر کفر کا فتویٰ نہ لگائیں تو بتاؤ کون سالگے گا۔ جو پیغمبر کی توہین کرنے والا ہے وہ وجود سے بھی ہاتھ دھوبیٹھتاہے…ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے…اخلاق سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتاہے۔ اسے زندہ رہنے کابھی حق نہیں ہے… ایمان کا بھی حق نہیں ہے لوگ کہتے ہیں اگر وہ توبہ کرے تو معاف کردینا چاہیے… میں نے کہا بالکل نہیں گستاخ پیغمبر توبہ بھی کرے معافی تب بھی نہیں ہے… عدالت تب بھی اسے سزائے موت دے گی… میں بات قتل کی نہیں کرتا… عدالتی سزائے موت کی کرتا ہوں … یہ میرے اکابر کا فیصلہ ہے عدالت سزائے موت نہیں دے گی تو عام مسلمان قتل کرے گا… ملک کا امن برباد ہوگا ہم کہتے ہیں امن بھی رہ جائے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ناموس بھی رہ جائے۔
گستاخ رسول کو معافی نہیں:
اگرچہ معافی مانگ بھی لے تب بھی معافی نہیں ہوگی… پھر بھی قتل کیاجائے گا مجھ سے کسی نے سوال کیا… مولانا ہمیں بات سمجھ نہیں آئی کہ ایک بندہ زنا کرکے توبہ کرے معافی مل جاتی ہے… خدا کو گالی دے کرتوبہ کرے معافی پھر بھی مل جاتی ہے… تو پھر پیغمبر کی توہین کرنے والا توبہ کرے تو معافی کیوں نہیں ملتی…؟میں نے کہا اگر کسی بندے نے کسی کو قتل کیا… اس نے دو جرم کیے نمبر ایک خدانے منع کیا تھا ناحق قتل نہ کرنا اس نے قتل کرکے خداکے حکم کوتوڑا ہے… اس نے جب بندے کی جان لی ہے تو اس کے حق کو ضائع کیا ہے… اب اس کے ذمہ دو چیزیں آگئیں۔
1… بندے کو قتل کرنے کی وجہ سے دنیا میں قصاصاً قتل کیا جائے گا۔
2…خدا کے حکم کو توڑا ہے اس لئے جہنم میں جائے گا۔
اب اس نے ایک معافی خدا سے مانگی ہے… اور ایک معافی ورثاء سے اگر ورثا معاف کردیں یہ قصاص میں بچ جائے گا… اگرتوبہ کرےگا تو جہنم سے بچ جائے گا اور اگر ورثا معاف کرد یں تو یہ توبہ نہیں کرتا… قصاص میں تو بچ جائے گا لیکن جہنم میں تو تب بھی جائے گا… جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دیتا ہے تو جرم دو کرتا ہے
1… خد اکے حکم کو توڑتا ہے۔
2…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا ہے۔
خدا تو اب بھی ہے… اگر خدا سے معافی مانگے گا خداتو شاید معاف کر دے گا جہنم سے نکال دیں… لیکن جس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تو ہین کی ہے… وہ تو دنیا سے جا چکے ہیں… اب یہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے معافی مانگے گا کیسے ؟ اور پتا چلے گا کیسے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے معاف فرما دیا ہے… ارے جس کی توہین کی ہے معاف تو وہ کرے گا… پھرہی معاف ہو گا۔
ہماری توہین تو نہیں کی کہ ہم معاف کر دیں… توہین پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ہے… ہمارے معاف کرنے سے معاف نہیں ہو تی… اس کو قصاص میں توہین کی وجہ سے قتل کیا جا ئے گا… ہاں جب میدان محشر میں آئے گا نبی صلی اللہ علیہ وسلم چاہیں گے تو معاف فرما دیں گےاگر نبی نہ چاہیں تو بالکل معاف نہیں کریں گے… لیکن مجھے اور تجھے تومعاف کرنے کا حق حاصل ہی نہیں ہے… ہم کون ہو تے ہیں معاف کرنے والے اس لئے گستاخ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی سزا ہے… یہ توبہ کرے گا تب بھی اس کو قتل کیاجا ئے گا اگر تہہ دل سے توبہ کرتا ہے تو معاملہ اس کا اور اس کے خدا کا ہے۔
حلال زادے یا حرام زادے؟:
1…میں اور آپ حلال زادے ہیں…ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی مانا ہے نبی بدلنے کا معنی حلال زادے نہیں… حرام زادے ہے۔
2…جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرتا ہے… اس کا وجود بھی نہیں رہتا… ایمان بھی نہیں رہتا… اخلاق بھی نہیں رہتے۔
پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے والے کی سزا سزائے موت ہے… اگر توبہ کر لے تب بھی عدالت کو چاہیے کہ اسے سزائے موت دے کے عبرت کا نشان بنا دے۔ کہ آئندہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنے کی کوئی جرأت نہ کرے… حق جل مجدہ مجھے اور آپ کوقبول فرمائے… میں آخر میں یہی گزارش کروں گا کہ ہم طے کرلیں کہ ختم نبوت کے مسئلہ میں ہم نے کارکن بَن کے رہنا ہے… قائدین بَن کے نہیں رہنا… پالیسیاں قائدین کی ہو ں گی…عمل ہم کریں گے… فیصلے قائدین کے ہو ں گے عمل ہم کریں گے…فیصلے قائدین کے ہوں گے… مانیں گے ہم… فیصلہ پسند آئے تو بھی مان لیں نہ پسند آئے تو بھی مان لیں… ختم نبو ت صلی اللہ علیہ وسلم کے مسئلہ میں پوری امت ایک ہے…اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔
وما علینا الا البلاغ