شانِ صدیق اکبر

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان ………….شانِ صدیق اکبر
بمقام…………. لاہور
خطبہ مسنونہ :
الحمد للّٰہ !الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضلل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ و رسولہ۔
امابعد:فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ۔
سورۃ النساء آیت 69
عن عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اصحابی کالنجوم بایھم اقتدیتم اھتدیتم
مشکاۃ المصابیح جز 3ص 310
عن عبد الله بن بريدة عن أبيه قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ما من أحد من أصحابي يموت بأرض إلا بعث قائدا ونورا لهم يوم القيامة
مشکاۃ المصابیح جز 3 ص 309
عن أبي الدرداء قال قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول من سلك طريقا يطلب فيه علما سلك الله به طريقا إلى الجنة وإن الملائكة لتضع أجنحتها لطالب رضا بما يصنع وإنه ليستغفر له دواب البر حتى الحيتان في البحر وإن فضل العالم على العابد كفضل القمر ليلة البدر على الكواكب وإن العلماء ورثة الأنبياء وإن الأنبياء لم يدعوا دينارا ولا درهما ولكن ورثوا العلم فمن أخذ به فقد أخذ بحظ وافر۔
شعب الایمان بیہقی جز 2 ص 263
یا رب صل و سلم دائما ابدا
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلہم
ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ

لکل ھول من الاھوال مقتحم

درود شریف:
اللهم صل عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما صليت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد ، اللهم بارك عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما باركت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد
اشعار :
وہ درویش دربار شاہ رسولاں
وہ تصویر ایقان صدیق اکبر
گلستان آقا نے سینچا ہے دین کا
بہار گلستان صدیق اکبر
رسالت کی راہوں کا معصوم ساتھی
محمد کا ارمان صدیق اکبر
محمد تو سلطان ہیں انبیاء کے
صحابہ کا سلطان صدیق اکبر

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو ، انکاری

ہے

اس کوہ طلب میں ہم نے بھی دل ونظر کیا جاں واری

ہے
کچھ اہل ستم کچھ اہل حشم میخانہ گرانے آئے تھے

دہلیز کو چوم کے چھوڑ دیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری

ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی تم اپنے شکستہ تیر گنو

خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

تمہید:
میرے واجب الاحترام !معزز علماء کرام ! اور طالب علم ساتھیو!آج انجمن اصلاح البیان کے زیر اہتمام آپ حضرات علمائے کرام کے خطابات کو سننے کے لیے حاضر ہوئے ہیں… میں بھی اپنے ساتھیوں کی خواہش پر چند ایک معروضات عرض کرنے کے لیے حاضر ہوا ہوں… آپ حضرات میں سے بہت سے لوگ ایسے ہیں ممکن ہے… جو مجھے پہلی بار سن رہے ہوں یا دیکھ رہے ہوں… اس لیے میں آپ کے مزاج سے واقف نہیں ہوں اور آپ میرے مزاج سے واقف نہیں… جب تک آدمی کو کسی کے مزاج سے واقفیت نہ ہو…عموماً اس کی علمی موشگافیوں پر بھی انسان کو ہنسی محسوس ہوتی ہے… لیکن کسی کے مزاج سے واقفیت ہواور تعلق اور محبت ہو تو… پھر اس کے بے ہودہ لطائف پر بھی… لوگ عش عش کرتے ہیں… اور اپنا سر دھنتے ہیں… واقفیت نہ ہو تو بہت سی باتیں عجیب لگتی ہیں… میری ایک عادت ہے کہ… میں تفصیلی اور لمبا بیان نہیں کرتا۔ مختصر کرتا ہوں… اپنے موضوع پہ عرض کرتا ہوں… میں کوشش کرتا ہوں کہ… اپنے مختصر وقت میں بات موضوع سے ادھر ادھر ہٹنے نہ پائے… مجھے جو میرے ساتھیوں نے حکم دیا… اس میں :
٭…ایک تو یہ تھا اصلا ح البیان کے حوالے سے میں گزارش کروں۔
٭…دوسرا یہ تھا کہ مقام صحابہ پہ گفتگو کروں۔
٭…تیسرا یہ تھا کہ خلافت صدیق اکبرکو بیان کروں۔
٭…چوتھا یہ تھا کہ طلباء کی ذمہ داریاں عرض کروں۔
آپ حضرات خود انصاف کے ساتھ ارشاد فرمائیں…اگر میں ان چار موضوعات پہ بولنا شروع کروں…تو کتنا وقت چاہیے ؟ میں مختصر وقت میں سمیٹنا چاہوں…تب بھی نہیں سمیٹ سکتا… میں نے اپنے عنوان کے مطابق ایک آیت پڑھی…اور تین حدیثیں تلاوت کی ہیں…ممکن ہے میری اس آیت سے آپ میں سے اکثر لوگوں کو…موضوع کی مناسبت سمجھ نہیں آئی ہو گی…کہ ہم نے کہا: مقام صحابہ بیان کر !… اس نے آیت کون سی انتخاب کی؟ہم نے کہا خلافت صدیق اکبر بیان کر ! اس نے آیت کون سی انتخاب کی؟اس آیت کو نہ ہم نے مقام صحابہ کے عنوان سے سنا… نہ ہی ہم نے اس آیت کو…کبھی طلباء کی ذمہ داریوں کے حوالے سے پڑھا۔
نہیں میرے دوستو!اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں… ان چاروں موضوعات کو بیان کیا… میرے اللہ نے توفیق عطاء فرمائی تو… میں تھوڑے سے وقت میں اپنے موضوع پر…گفتگو کر کے بات ختم کر دوں گا…اللہ مجھے حق اور سچ کہنے کی توفیق عطاء فرمائے… اللہ ہمیں صحیح معنوں میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا وارث بنائے… اور جو نبوت کے وارث ہیں… اللہ ہمیں ان کی فہرست میں شامل فرمالے… اور اللہ ہمیں اس وراثت کا حق ادا کر نے کی تو فیق عطاء فرما ئے۔ (آمین
انعام یافتہ طبقات :
اللہ رب العزت نے اس آیت میں ارشاد فرمایا:’’من یطع اللہ ورسولہ‘‘ جو انسان… اللہ اور اللہ کے پیغمبر کی… اطاعت کرتا ہے
’’فاولٓئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین والشہدآء والصالحین۔‘‘
اللہ تعالیٰ اس کا حشر ان لوگو ں کے ساتھ فرمائیں گے جو انبیاء تھے… ان لوگوں کے ساتھ حشر فرمائیں گے جو صدیقین تھے… اللہ ان کے ساتھ حشر فرمائے گا جو شہداء تھے اور جو صالحین تھے… اللہ تعالیٰ نے ان چار طبقوں کا ذکر کیا ہے۔
1…نبی 2…صدیق 3…شہید 4…صالح
اگر چہ تذکرہ چار طبقات کا ہے لیکن درحقیقت اللہ نے اس آیت میں دو چیزیں بیان کی ہیں۔
علم ا ورعمل:
حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جتنے بھی انبیائے کرام علیہم السلام ایک لاکھ چوبیس ہزار یا ایک لاکھ چوالیس ہزار آئے۔ تمام انبیاء بنیادی طور پر دو چیزیں لے کر آئے۔
1…پیغمبر علم لاتاہے۔
2…پیغمبرعمل اور اخلاق لاتاہے۔
اللہ نے ان دونوں چیزوں کو اس آیت میں بیان کیا… اگرچہ تذکرہ چار کا کیا… لیکن درحقیقت دو ہیں…کیوں ؟
نبی وصدیق:
نبی اور صدیق میں اللہ نے تذکرہ علوم نبوت کا کیا… اس لیے کہ نبی علم کو لا تا ہے نبی علم میں اصل ہوتا ہے… صدیق فرع اور تابع ہوتاہے… اس طرح اعمال جو پیغمبردے کر جاتا ہے… شہید اس میں اصل ہوتا ہے اور عام ولی اور صالح… اس کے تابع اور فرع ہوتے ہیں پیغمبرعلم کو لاتا ہے… صدیق اس کی تصدیق کرتا ہے۔ قرآن کریم نے کہا۔
’’ وَالَّذِي جَاءَ بِالصِّدْقِ وَصَدَّقَ بِهِ أُولَئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ‘‘
سورۃ زمر آیت نمبر 33
جو صداقت کو لے کر آیا وہ بھی متقی ہے… جس نے تصدیق کی وہ بھی متقی ہے… پیغمبر علم کو لانے والے… صدیق اس کی تصدیق کر نے والے… ایک علم میں اصل ہے… ایک علم میں فرع اورتابع ہے۔
مقامِ شہادت اورمقامِ ولایت :
اس طرح پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جو اعما ل دے کر جاتا ہے… شہید اس میں اصل ہوتا ہے…اور ولی عام یعنی وہ ولی جس کو…شہادت کا مرتبہ نہیں ملتا… وہ ولی فرع اور تابع ہوتا ہے…کیوں ؟ اس لیے کہ اعمال نبوت میں… شہید اپنی جان کی قربانی دیتا ہے…اور ولی اپنی خواہش کی قربانی دیتا ہے… خواہش قربان کر نی آسان ہے جان قربان کر نی مشکل ہے… جس نے مشکل زیادہ برداشت کی اللہ نے اسے بطور اصل کے ذکر کیا… اور جس نے قربانی کم دی ہے اللہ نے بطور فرع کے ذکر کیا… اللہ نے اعمال اور علوم کا ذکر اس آیت میں فرمایا… اب آگے چلیے! میں تھوڑی سی بات کرتا ہوں…اللہ نے فرمایا پہلے نبی ہے اور وہ علوم میں اصل ہے… صدیق اس کا تابع اور فرع ہے… شہید اعمال میں اصل ہے… ولی اس کا فرع اور تابع ہے۔
صحابہ جامع الصفات تھے :
لیکن اگر آپ صحابہ کی زندگی پر غور کریں نبی کو ایک طرف رکھ دیں… اللہ کی قسم ایک لاکھ چوبیس ہزار… یا ایک لاکھ چوالیس ہزار اصحاب رسول… یہ سارے صدیق بھی تھے… صحابہ سارے شہید بھی تھے… صحابہ صالح بھی تھے… کوئی ایسا صحابی نہیں ہے جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہو… اور صدیق نہ ہو…کیوں ؟ صدیق کا معنی یہ ہے کہ انسان پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی دے… بن دیکھے تصدیق کرے… غیب پہ ایمان لائے… لوگ تکذیب کریں وہ تائید کرے…کوئی ایساصحابی نہیں ہے جس نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق نہ کی ہو… سارے صحابہ کرام صدیق تھے…لیکن آپ یقینا کہیں گے ہم نے تو…ابوبکر کوصدیق سنا ہے…عمر کو کبھی کسی نے صدیق نہیں کہا… عثمان کوکسی نے صدیق نہیں کہا… علی المرتضی کو صدیق نہیں کہا۔
میرے طالب علم ساتھیو! اس کی وجہ یہ ہے ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق بھی تھے… ابوبکرشجاع بھی تھے…ابوبکرسخی بھی تھے… ابوبکر عالم بھی تھے… اور اگر میں اس پر دلائل دوں اسی پہ وقت گزر جائے گا۔
جامع اوصاف صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ :
میں اللہ کی قسم اٹھا کے ایک دعویٰ کرنا چاہتا ہوں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ میں… سب سے بڑے عالم ابوبکر صدیق تھے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے زیادہ سخی ابو بکر صدیق تھے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے زیادہ شجاع… اور بہادر ابوبکرصدیق تھے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سارے اوصاف کے جامع صدیق تھے… لیکن ہوا ایسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ کو اللہ نے سارے اوصاف دیے… کوئی ایسا صحابی نہیں ہے جو صدیق نہ ہو…سخی نہ ہو… عادل نہ ہو… بہادر نہ ہو…کیوں؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم اوصاف کو لے کر آئے تھے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اوصاف صحابہ میں تقسیم کیے۔اٹھائیے بخاری ! اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انماانا قاسم واللہ یعطی
بخاری ج 1 ص 16
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ’’قاسم ‘‘ہیں:
اللہ دیتا ہے؛ میں تقسیم کرتا ہوں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے کیا چیز دی تھی ؟ جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تقسیم کرنے کے لیے آئے… اگر کہو اللہ نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو اولاد دینے کی توفیق دی… توحضورکے اپنے گھر میں…بعض ازواج سے اولاد نہیں تھی… اگر آپ کہ دو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ رزق دینا تھا…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تو اپنے گھر میں فقر اور فاقے کاٹتے رہے… اگر کہ دو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اس لیے آئے تھے کہ لوگ مصائب وآلام میں مبتلا نہ ہوں… پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تو خود مشکلات جھیلتے رہے ہیں… بلکہ صحابی رسول نے عرض کیا… حضور ! مجھے محبت ہے… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا کہتے ہو؟کہا : مجھے محبت ہے… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… اگر مجھ سے محبت کرتے ہو… تو پھر مصائب کے لیے تیار ہو جاؤ… جو مجھ سے محبت کرے گا اس پر مصائب اس طرح آئیں گے… جیسے اونچی جگہ سے نیچے پانی گرتا ہے… معلوم ہوا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم دنیاوی مصائب کو دور کرنے کے لیے نہیں آئے۔
میرے دوستو !پھر تم بتاؤ وہ کون سی نعمت تھی… جو اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں…’’انما انا قاسم واللہ یعطی‘‘ اللہ دیتا ہے میں تقسیم کرتا ہوں۔
پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم بطور روحانی طبیب :
مجھے کہنے دیجئے !انسان دنیا میں آیا روح کو بھی لے کر آیا… جسم کو بھی لے کر آیا… اللہ نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو روحانیت کے اسباب دیے… روحانیت کے لیے مقویات دی ہیں… جسم کے لیے…جسم کی پرورش کے لیے اللہ نے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں بھیجا… حضورصلی اللہ علیہ وسلم طبیب بن کر آئے…مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طبیب نہیں تھے…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم روحانی طبیب تھے… میں دلیل کے طور پہ کہتا ہوں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طبیب ہوتے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پہ بخار نہ آتا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طبیب ہوتے… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی کمر میں درد نہ ہوتا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے رخسار سے…حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں مبارک سے خو ن نہ بہتا… کیوں جو خود امراض میں مبتلا ہو گا… امت کا اعلاج کیسے کرے گا…؟ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جسمانی طبیب ہوتے… جسمانی امراض میں مبتلا نہ ہوتے… پیغمبر جتنے بھی دنیا میں آئے… وہ روحانی معالج بن کر آئے تھے۔…اس کو میں بنیاد بنا کر کہتا ہوں۔
عصمت الانبیاء پر عقلی دلیل:
اللہ کی قسم !آدم علیہ السلام سے لے کر…رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک… جتنے انبیاء علیہم السلام تشریف لائے وہ معصوم تھے…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے کبھی گنا ہ کا صدور نہیں ہوا…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم روحانی معالج تھے…اللہ نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی روح کو اتنا مزَّکی… اتنا مصفیٰ اور مطیب کیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے کائنات میں آنے والے ہر فرد کی روح کو پاکیزہ کیا… کیوں؟ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم خود مصفیٰ تھے…جو شخص یہ بھونکتا ہے پیغمبرمعصوم نہیں تھے…پیغمبر سے یہ خطا ہوتی تھی… مجھے کہنے دیجئے وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا عاشق نہیں… وہ پیغمبر کا گستاخ ہے۔
میرے دوستو! پیغمبر معصوم تھے… کیوں؟ وہ روحانی معالج بن کر آئے تھے… اگر وہ خود روح کا مریض ہوتے… امت کا علاج کیسے کرتے… مجھے دکھ ہے ان بدبختوں پہ… جنہوں نے قرآن کی تفسیر لکھی… جس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تبرے کئے… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم نہیں مانا…ان کو اپنی تفسیر میں غور کرنا چاہیے… میں دعویٰ کے ساتھ کہتا ہوں… لاہور کے مسلمانوں میں چیلنج کر کے جاتا ہوں… جس کا جی چاہے میرے چیلنج کو قبول کرے…جس نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو معصوم نہیں مانا… اس نے تفسیر لکھی… مگر بسم اللہ الرحمن الرحیم ‘‘کی تفسیر بھی غلط کی ہے۔
اوصاف پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ :
اللہ نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو علوم دیے پیغمبر نے علوم کو تقسیم فرمایا…اللہ نے پیغمبر کو اخلاق دیے پیغمبر نے اخلاق تقسیم فرمائے…حضور نے علوم کن کو دیے اپنے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو… پیغمبر نے اخلاق کس کو دیے اپنے صحابہ کو… یہی وجہ ہے آپ اٹھائیے روایات کو آپ نے سنا ہو گا اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
أنا مدينة العلم وأبو بكر أساسها وعمر حيطانها وعثمان سقفها وعلي بابها
مرقاۃ جز 17 ص 444 باب مناقب علی، المقاصد الحسنہ للسخاوی جز 1ص 170
اب ذرا توجہ کیجئے !اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو… ا للہ نے دوچیزیں دیں تھیں… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… جس علم کا میں شہر ہو ں ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی بنیاد ہیں… جس علم کا میں شہر ہوں عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی دیوار ہیں…جس علم کا میں شہر ہوں عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کی چھت ہیں… جس علم کا میں شہر ہوں علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کا دروازہ ہیں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے علوم کا تذکرہ یوں فرمایا… تو مجھے کہنے دیجئے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لفظوں میں یوں فرما دیا… کہ اگر میرے علوم چاہییں صحابہ کے دروازے پہ آنا پڑے گا…میرے اخلاق چاہییں تومیرے صحابہ کے در پہ آنا پڑے گا… میرے صحابہ کے در پہ نہیں آؤ گے تمہیں میرے علوم بھی نہیں ملیں گے میرے اخلاق بھی نہیں ملیں گے۔
عنایات ربی اور تقسیم نبوی :
اٹھایئے بخاری ! میں روایت کی شرح کرتا ہوں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انمااناقاسم واللہ یعطی‘‘اللہ دیتا گیا میں تقسیم کرتا گیا… مجھے رب نے سخاوت دی میں نے ابوبکر صدیق کو دی… مجھے رب نے عدالت دی میں نے عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دی… مجھے رب نے حیاء دیا میں نے عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کودیا… مجھے رب نے علم دیا میں نے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیا… مجھے رب نے اخلاق دیے میں نے صحابہ میں تقسیم کر چھوڑے… علوم مجھے رب نے دیے میں نے صحابہ میں تقسیم کر چھوڑے… جس نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کو لینا ہووہ حضرت ابوبکر صدیق کے در پہ آئے… عدالت لینی ہو حضرت عمر کے در پہ آئے… حیاء لینی ہو حضرت عثمان کے در پہ آئے… علم لینا ہوحضرت علی کے در پہ آئے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے علوم چاہیے تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے دروازے پہ دستک دینی پڑے گی… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق چاہیے توصحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی چوکھٹ پہ جھکنا پڑے گا۔ اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کتنی چیزیں لے کر آئے؟دو چیزیں… نمبر ایک علوم…نمبر دو اخلاق…آپ توجہ رکھیں۔حضرت صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام قبو ل فرمایا تو نبوت سے دلیل مانگی تو وہ دلیل محبت تھی۔
پہلی مثال:
ایک آدمی مصر سے پڑھ کر آتا ہے لوگ کہتے ہیں ایوارڈیافتہ ہے… جناب تلاوت سنا دو…اگر وہ اس سے نفرت کرتے ہیں تو کہہ دیں گے… اس کو کس نے ایوارڈ دیا اور کہہ دیں گے پتہ نہیں کیسے مصر سے ایوارڈ لے کر آیا… انہوں نے مال لیا ہو گا… یا انہوں نے سفارش کروائی… اس کا تو قرآن ٹھیک نہیں… لہجہ ٹھیک نہیں… اب انہوں نے قاری سے رکوع سنا ایک طبقہ یہ تھا…ایک طبقہ اور آیا وہ خوشیاں منانے والے تھے سبحان اللہ !قاری صاحب ہمیں بڑی خوشی ہوئی ہے آپ جامع قاسمیہ کے استاد ہو آپ مصر سے ایوارڈ لے کر آئےآپ تو عربوں سے جیت گئے… ہمارا جی چاہتا ہے کہ ایک رکوع آپ سنا دیں اب دیکھیں رکوع کا مطالبہ دونوں نے کیا…لیکن پہلے والے کا مطالبہ حسد کی وجہ سے تھابغض کی وجہ سے تھا۔دوسرے طبقے کا مطالبہ محبت کی وجہ سے تھا۔
مطالبہ صدیق بوجہ محبت:
تو پھر مجھے کہنے دیجئے! صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ باقی لوگ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے در پہ آئے…مطالبے انہو ں نے بھی کیے…مطالبہ ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھی کیا… ان کے مطالبے ضد پہ مبنی تھے… حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مطالبہ محبت پہ مبنی تھا… دلیل انہوں نے بھی مانگی… دلیل اس نے بھی مانگی… وہ جل کے مانگتے رہے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ دلیل خوش ہو کر مانگتا رہا۔ میری بات سمجھے ہو؟ اب جو کہتے ہیں دلیل صدیق نے بھی مانگی… وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں کیوں ؟ صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دلیل محبت میں مانگی ہے… حضورصلی اللہ علیہ وسلم آپ نبوت کا دعویٰ کرتے ہیں… کوئی مجھے دلیل تو دیجئے! اب دلیل کا مطلب یہ نہیں تھا کہ وہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو آزمانا چاہتے ہیں… اللہ کی قسم آزمانے کی بات نہیں۔
دوسری مثال:
آپ کا بیٹا پڑھ کر آتا ہےآپ کہتے ہیں بیٹا آپ نے سبع عشرہ میں قرآن پڑھا ہے ایک رکوع تو سناؤآپ نے بیٹے کا امتحان نہیں لیاآپ نے محبت اور خوشی میں آ کے اس سے ایک رکوع سنااس نے ایک روایت پڑھ دی آپ نے کہا بیٹا دوسری روایت سناؤاس نے سنائی آپ نے ساتوں سنی یہ باپ خوشی میں سن رہا تھالیکن کوئی جلنے والا انداز بدل کر مطالبہ کر رہا تھا میں کہتا ہوں ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دعوی اپنی جگہ پہ قائم رہاکہ صدیق وہ واحد صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جس نے بغیر دلیل کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے کلمہ توحیدکوپڑھااور پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت پہ ایمان لایا۔
یار غار کا مزاج :
میرے دوستو! میں نے عرض کیا کہ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ وہ صحابی رسول تھے جن کو صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں… کیوں؟ ابھی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے نبوت کا اعلان نہیں کیا…ان کی ماں نے ان کا نام عبد اللہ رکھا…میں کہتا ہوں اس کی بات چھوڑیں… حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سب سے پہلا نکاح قتیلہ بنت سعد سے کیا… ان سے ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایک بیٹا پیدا ہوا…بیٹے کا نام عبداللہ رکھا… اور بیٹی کا نام اسماء تھا… اب دیکھے ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بیٹا بھی اور ابوبکررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیٹی بھی ہے بیٹے کانام ؟( عبداللہ) … ابوبکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دوسری بیوی ام رومان تھیں…ان کے ہاں بیٹا پیدا ہوا…ایک بیٹی پیدا ہوئی ،جو بیٹا پیدا ہوا…اس کا نام عبد الرحمٰن رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھا…بیٹی کا نام عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھا اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کیا فرماتے ہیں۔
’’احب الاسماء الی اللہ عز وجل عبد اللہ وعبد الرحمٰن ‘‘
الفصل فی الملل والاھواء والنحل باب الکلام فی الاسم والمسمی ٰ جز 5 ص23
حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے تو کئی سال بعد اعلان کیا… اللہ کو سب سے پیارا نام عبداللہ اور عبد الرحمٰن ہے… اور صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان کئے بغیر… پہلے بیٹے کانام عبد اللہ رکھا…یہ صدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مزاج تھاصدیق اکبررضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے مناسبت تھی کہ جو باتیں حضورصلی اللہ علیہ وسلم دس سال بعد کہتے… صدیق اس پہ دس سال پہلے عمل کرتا میں کہتا ہوں صدیق تو سار ے تھے مگرابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ صدیق اکبر
سارے صحابہ رضی اللہ عنہم شہید ہیں :
میرے دوستو !میں بات کو سمیٹتے ہوئے کہتا ہوں…صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سارے اوصاف تھے… صحابہ صدیق بھی تھے…صحابہ شہید بھی تھے صحابہ صالح بھی تھے… اس لیے آپ کے ذہن میں بات آئے گی بہت سے صحابہ کی وفات… تو بستروں پر ہوئی ہے… نہیں میرے دوستو! اللہ کی قسم سارے صحابہ شہید تھے… یہ میرا دعویٰ ہے… اس دعویٰ پہ دلیل لاتا ہوں… دلیل سے پہلے میں ایک اور مسئلہ بھی ضمناً کہہ دو ں۔
حدیث پر اشکال کا جواب:
آپ نے ایک روایت پڑھی ہو گی یہ روایت عموماًبیان کی جاتی ہے… ہمارے بہت سے کم عقل اور کم علم وہ لوگ جو جہاد سے دور ہیں… بعض روایات کو بنیاد بنا کر بلاوجہ جہاد کے رستے میں رکاوٹ کھڑی کریں گے… آپ نے روایت کو سنا ہو گا اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے دو صحابی دو شخص اکھٹے مسلمان ہوئے ایک شخص نے کلمہ پڑھا… دوسرے نے بھی کلمہ پڑھا دونوں کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو گئے… ان میں سے ایک آدمی شہید ہو گیا… دوسرا ایک سال تک زندہ رہا… اور ایک سال کے بعد فوت ہوا… ایک صحابی رسو ل رضی اللہ تعالیٰ عنہ فر ماتے ہیں میں نے رات کو خواب میں دیکھا ۔
’’رأیت الموخر منھما دخل الجنۃ قبل الشہید‘‘
شہید ایک سال پہلے ہوا… دوسرا ایک سال بعد فوت ہوا… لیکن میں نے دیکھا… جو شہید پہلے ہوا تھا وہ جنت میں بعد میں گیا… ’’فتعجبت ذلک‘‘مجھے دیکھ کر بڑا تعجب ہوا… ’’فذکرہ ذلک لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘میں نے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا…حضرت !یہ کیا معاملہ؟ شہید جنت میں بعد میں گیا… اور بغیر شہادت کے جانے والا جنت میں پہلے چلا گیا۔
اتحاف الخیرۃ المھرۃ رقم 6034 کتاب الادب
اس کو بنیاد بنا کر بہت سارے لوگوں نے کہا تم نماز پڑھ لو… تم روزہ رکھ لو اور دوسری عبادات کر لو… ارے تم پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کو نہیں دیکھتے… شہید تو جنت میں بعد میں گیا… دوسرا پہلے گیا۔
میرے دوستو! یہ اعتراض تمہیں اس لیے لگا… کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ساری روایات پہ نظر نہیں تھی… اللہ کی قسم… ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے طریقے پر چلتے ہوئے… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی ساری روایات پر نظر ہوتی… تو کبھی اس شبہ میں مبتلا نہ ہوتے!
توجہ رکھنا !پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ۔
’’من سأل اللہ تعالیٰ الشہادۃبصدق بلغہ اللہ منازل الشہدآئ۔
نسائی شریف رقم الحدیث 3162 ، صحیح ابن حبان رقم 3192
شہادت کی صورتیں :
شہادت کی دو صورتیں ہیں :
1…شہادت صوریہ 2…شہادت حقیقیہ
شہادت کی حقیقت:
شہادت حقیقیہ تو یہ ہے… کہ انسان اللہ کے رستہ میں اپنے آپ کو پیش کر دے اللہ چاہے اس کے جسم کو کٹوائے… اللہ نہ چاہے تو جسم کو ؟ (نہ کٹوائے) بندہ خود کو اللہ کے رستہ میں پیش کرے… یہ تو اس کے اختیار میں ہے… لیکن گولی کھانا یہ انسان کے اختیار میں نہیں… تلوار سے جسم کے ٹکڑے کروانا… یہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے… ایک انسان گیا اپنے آپ کو اللہ کے راستہ میں پیش کیا… شہادت ملے تب بھی اچھی بات… اس کے بس میں تھا پیش کرنا اس نے پیش کر دیا…یہ شہادت حقیقیہ ہے…کہ انسان اپنی جان کو لے کر اللہ کے سامنے پیش ہو جائے۔
شہادت کی صورت:
اب کبھی ایسے ہو گا اس کے بدن پہ تلوار چلے گی… اور کبھی ایسے ہو گا تلوار نہیں چلے گی…کسی کو شہادت کی صورت نصیب ہو گی…اور کسی کو شہادت کی صورت نصیب نہیں ہو گی… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
من سأل اللہ تعالیٰ شہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہدآئ‘
اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:جو صدق دل سے اللہ سے شہادت مانگتا ہے…اللہ اس کو شہید کے مرتبہ تک پہنچاتے ہیں…وان مات علیٰ فراشہ‘ اس کی موت بستر پہ آئے…اللہ تب بھی اس کو شہیدوں کی جگہ تک پہنچاتے ہیں۔
میرے دوستو! آپ بتاؤ صحابہ رضی اللہ عنہم میں کوئی ایسا شخص تھا… العیاذ باللہ جو دل سے شہادت کامتمنی نہ ہو؟ بولیں (سامعین…نہیں) جب سارے صحابہ شہادت کے متمنی تھے… کسی کوشہادت کی صورت نصیب ہوئی اور کسی کو نہ ہوئی… جن کو شہادت کی صورت ملی وہ بھی شہیدجن کو شہادت کی صورت نہیں ملی وہ بھی ؟ (شہید) شہادت کے متمنی تو سارے تھے… میں نے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کو بنیا د بنا کر کہا… کہ جو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میدان جنگ میں کٹے وہ بھی شہید تھے… جو میدان جنگ میں نہیں کٹے بستر پہ طبعی وفات پائی… وہ بھی؟(سامعین… شہید)صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم سارے شہید تھے سارے صدیق تھے۔
اشکال کا جواب :
اب میں اس حدیث کو تھوڑا سا حل کردوں…ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سال پہلے شہید ہوا…دوسراصحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سال بعد فوت ہوا…لیکن یہ دونوں شہید تھے… ایک کو شہادت کی صورت ملی… اور دوسرے کو شہادت کی صورت نہیں ملی…لیکن شہادت کی حقیقت تو دونوں کو ملی تھی… دونوں لڑ رہے تھے… دونوں جنگ میں جا رہے تھے… میرے دوستو! اب ہوا ایسے… ایک سال پہلے ایک شہادت کی حقیقت اور صورت پا گیا… دوسرا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سال بعد دنیا سے رخصت ہوا… شہادت کی حقیقت کو پا گیا… مگر شہادت کی صورت کو نہیں پا یا…اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے جواب کیا ارشاد فرمایا… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا…کیا اس نے ایک سال کے روزے نہیں رکھے…؟ کیا اس نے ایک سال کی نمازیں نہیں پڑھیں… کیا اس نے چھ ہزار یا ایک ہزار رکعتیں نہیں پڑھیں… اب اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے اعمال کا تذکرہ کیا۔
شہید تو دونوں تھے :
میں آپ سے سوال کرتا ہوں اگر دو مجاہد میدا ن جنگ میں چلے جائیں…اور دونوں میدان جنگ میں لڑتے رہیں… لیکن ایک مجھ جیسا کاہل اور سست ہو وہ تنہا لڑ رہا ہو… لیکن وہ ذکر نہ کرتا ہو…تسبیحات نہ پڑھتا ہو…وہ نفلی نمازیں نہ پڑھتا ہو… نفلی روزے نہ رکھتا ہو لیکن دوسرا مجاہد میدان جنگ میں لڑے بھی…قرآن کی تلاوت بھی کرے… وہ تسبیحات بھی پڑھے…وہ میدان جنگ میں روزے بھی رکھے… ایک میدان جنگ کا شہید تھا اس کے نامہ اعمال میں نفلی عبادات کم تھیں… اور ایک میدان جنگ کا دوسرا شہید تھا… اور اس کے نامہ اعمال میں اعمال زیادہ تھے… اب شہید تو دونوں تھے۔
لیکن اب جس کے نامہ اعمال میں… اعمال زیادہ ہوں گے پہلے وہ جائے گا… اس لیے اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے جواب کا خلاصہ یہ ہے… شہید تو دونوں تھے… ایک کو شہادت کی حقیقت اور صورت ملی…دوسرے کو صورت نہیں ملی حقیقت ملی…لیکن دوسرے کے پاس اعمال بھی تھے شہادت بھی تھی پہلے کے پاس شہادت تھی اعمال نہ تھے… اس لیے وہ پیچھے رہ گیا دوسرا آگے بڑھ گیا… شہید تو دونوں تھے… میں کہتا ہوں…سارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم صدیق بھی تھے… سارے صحابہ شہید بھی تھے… سارے صحابہ صالح بھی تھے۔
علم کسے کہتے ہیں ؟
اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے چلے گئے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم دنیا سے چلے گئے… اب حضورصلی اللہ علیہ وسلم علوم اور اعمال اس امت کو دے کر گئے ہیں… اگر ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے علم کو پڑھا… پھر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا وارث میں بھی ہوں… اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے وارث آپ بھی ہیں… علوم کا معنی یہ نہیں ہے کہ ہم الفاظ پہ غور کریں… علم عمل کے ساتھ لیا اس کو علم کہتے ہیں… اگر عمل کے بغیر لیا قرآن اس کوعلم نہیں کہتا… اللہ کی قسم قرآن اس کو علم کہتا ہے جس کے مطابق انسان عمل کرے… علم نافع تو وہ ہوا…علم حقیقی تو وہ ہوا… جو علم نافع نہیں اس علم کا ذرا بھی فائدہ نہیں…اللہ مجھے اور آپ کو علم نافع نصیب فرمائے اور دینی غیرت بھی نصیب فرمائے۔
امام بخاری رحمہ اللہ کی دینی غیرت:
عزیز طالب علم ساتھیو !توجہ رکھنا !امام بخاری رحمہ اللہ کی دینی غیرت کا اندازہ لگائیں… امیر بخارا خالد بن احمد نے امام بخاری رحمہ اللہ سے فرمائش کی کہ آپ میرے گھر آکے… میرے بچوں کو تاریخ اور جامع پڑھائیں…امام بخاری رحمہ اللہ نے انکار کیا… اس نے کہا میرے پاس نہیں آتے… میں اپنے اولادکو تمہارے پاس بھیجتا ہوں… ان کو الگ بیٹھ کے پڑھا دو… بخاری نے کہا : یہ بھی نہیں ہو سکتا نہ تیرے گھر آؤں گا نہ حلقہ الگ لگاؤ ں گا۔
الھدی الساری رقم 493
طالب علمو! میں آپ سے ہاتھ جو ڑ کے کہتا ہوں… اللہ کی قسم گھر گھر جا کر یہ ٹیوشن پڑھانا چھوڑ دو… رزق کا مالک اللہ ہے… وہ تمہیں ضرور رزق دے گا اس دین کو برباد مت کرو… ان مالداروں کے دروازے پہ جا کے جھکنا چھوڑ دو… ہمارے علماء نے کہا ”بئس الفقیر علیٰ باب الامیر‘‘بد ترین فقیر وہ ہے جو امیروں کے دروازے پر جا کے دستک دے… ان چیزوں کو چھوڑ دو… بخاری کی سنت کو زندہ کر دو خالد بن احمد مزنی نے بخاری کو بخارا سے نکا ل دیا…جلا وطنی قبول کر لی… لیکن کسی کے در پہ جا کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کو پیش نہیں کیا…
میرے دوستو! ہمارے اکابر کا طرز یہ تھا میں کس کس بزرگ کا نام لوں جس کو دیکھو وہ ایک ہیرا تھا… ہمارے اکابر ڈٹے ہیں مگر کبھی کسی کے سامنے جھکے نہیں…اللہ مجھے بھی توفیق دے اللہ آپ کو بھی توفیق دے۔
غیرت سیکھو :
ڈٹ جاؤ! غیرت سیکھو!پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کو پڑھو… اس پر عمل کرو… آج دنیا دیکھتی ہے طلباء کی تعداد کم نہیں ہے…جتنی تعدادآج ہے کبھی شاید ماضی میں نہ ہو… لیکن کوئی تم سے نہیں ڈرتا… کوئی تم سے خوف نہیں کھا تا…تمہارے سامنے جھکنے کے لیے تیار نہیں…کیوں ؟ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے علوم کو پڑھا… لیکن پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت کو چھوڑ دیا…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کو چھوڑ دیا…اے کاش ! اس پر تھوڑا سا عمل کر لیتے… میں نے آپ کو کہا تھا مجھے مضمون تو چار دیے گئے تھے … ان میں سے ایک مضمون پر بولوں گا تو گھنٹے چاہییں…میں گھنٹے کی تو بات نہیں کرتا گھنٹوں میں مضمون نہیں سمٹتا۔
حضرت عبد اللہ بن مبارک کی دینی غیرت :
میں آخری بات کہتا ہوں…حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ کا نام آپ نے سنا ہو گا… عبد اللہ بن مبارک کون تھے؟ آپ نے سنا ہے تذکرہ ان کا…؟ مجاہد بھی تھے… محدث بھی تھے… تاجر بھی تھے… حضرت عبداللہ ابن مبارک نوراللہ مرقدہ… اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے… (آمین)آپ توجہ کرنا…! میں ایک بات کہہ کر ختم کرتا ہوں… فرماتے تھے اے لوگو…! میری بات کو یاد رکھ لو…! اگر یہ پانچ اشخاص نہ ہوتے میں تجارت نہ کرتا… میں تجارت چارعلماء کی وجہ سے کرتا ہوں۔
1… سفیان ثوری رحمہ اللہ
2… سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ
3…فضیل بن سماک رحمہ اللہ
4…امام ابن علیہ رحمہ اللہ
ابن مبارک رحمہ اللہ فرماتے یہ چارنہ ہوتے میں تجارت نہ کرتا…عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ ان کی خدمت میں جاتے ان کو ھدایا دیتے…ان کے سال کے وظیفے برداشت کرتے…عبد اللہ بن مبارک کو پتہ چلا…کہ ان پانچ میں سے ابن علیہ رحمہ اللہ قاضی بن کر حکومت کی مرضی کے مطابق سٹیج پر بیٹھ گیا…وہ فیصلے بر حق کرتا ہو گا لیکن حکومت کا منصب جو قبول کر لیا…ابن مبارک رحمہ اللہ نے سنا پھر وہ دور آیا ابن علیہ رحمہ اللہ کی خدمت میں ابن مبار ک نہیں گئے…ابن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ نے ابن علیہ رحمہ اللہ کی خدمت میں وظیفہ نہیں بھیجا…ابن علیہ رحمہ اللہ ملنے کے لیے آئے… سلام کیا عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے… اوپر سر اٹھا کر جواب بھی نہیں دیا… انہوں نے کہا… حضرت کیا ہوا؟مجھ سے تم روٹھ گئے ہو…مجھ سے ناراض کیوں ہوئے؟ عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

یا جاعل العلم لہ بازیا یصطاد اموال

المساکین

احتلت للدنیا ولذاتہا

بحیلۃ تذھب بالدین

فصرت مجنونا بھا بعد ما

کنت دواء للمجانین
این روایاتک فی سردھا

عن ابی عون وابن

سیرین

این روایاتک فی ما

مضیٰ

فی ترک ابواب

السلاطین

ان قلت اکرھت فما ذا

کذا

زل حمار العلم فی الطین

سیر اعلام النبلاء ج 6 ص505
شاگرد ابو حنفیہ کا کلام :

یا جاعل العلم لہ بازیا

 
اے علم کو ایسا باز بنانے والے

یصطاد اموال المساکین

 
جو غریبوں کے مالوں کا شکا ر کرتا ہے

احتلت للدنیا ولذاتہا

 
تو نے دنیا اور اس کی لذتوں کے (حصول) کے لئے

بحیلۃ تذھب بالدین

 
ایسا حلیہ اختیار کیا جو دین کا خاتمہ کر دے گا۔

فصر ت مجنونا بھا بعد ما

 
پھرتو اس وجہ سے پاگل بن جائے گا

کنت دواء للمجانین

 
جبکہ تو پاگلوں کی دواء تھا (یعنی معالج تھا)

این روایاتک فی سردھا

 
کہاں ہیں تیری روایات کا

عن ابی عون وابن سیرین

 
ابن عون اور ابن سیرین سے بیان کرنا

این روایاتک فی ما مضیٰ

 
کہاں ہیں تیری زمانہ ماضی کی روایات

فی ترک ابواب السلاطین

 
بادشاہوں کے دروازوں پر نہ جانے کی

ان قلت اکرھت فما ذا کذا

 
اگر تو شکوہ کرے میں نے (تجھے) مجبور کیا پھر کیا ہے۔

زل حمار العلم فی الطین

 
جس وقت علم کا گدھا کیچڑ میں پھنس جائے۔
میں کہتا ہو علم کا گدھا تھا جو کیچڑ میں پھنس گیا… عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ میں نے اشعار میں نقل کیا… دعاکریں اللہ مجھے اور آپ کو علوم نبوت بھی عطاء فرمائے … اللہ اخلاق نبوت بھی دے… اور اللہ ہمیں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی غیرت میں سے بھی کچھ حصہ نصیب فرمائے (آمین)
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔