مرتبہ صحابیت ومقام شہادت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان………….مرتبہ صحابیت ومقام شہادت
مقام…………. جھنگ صدر
خطبہ مسنونہ:
الحمد للّٰہ !الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضلل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ و رسولہ۔امابعد:فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم ’’وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ‘‘
سورۃ النساء آیت 69
عن ابن عباس رضي الله عنهما عن النبي قال: قال صلى الله عليه وسلم من تمسك بسنتي عند فساد أمتي فله أجر مائة شهيد۔
کتاب الزھد للبیہقی جز 1 ص 221
عَنْ أَبِى أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ سَأَلَ اللَّهَ الشَّهَادَةَ صَادِقًا بَلَّغَهُ اللَّهُ مَنَازِلَ الشُّهَدَاءِ وَإِنْ مَّاتَ عَلَى فِرَاشِهِ
سنن ابی دائود جز 1 ص 560
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ ، وَلاَ نَصِيفَهُ
مصنف ابن ابی شیبہ جز 12 ص174
یا رب صل و سلم دائما ابدا
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلہم
ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ

لکل ھول من الاھوال مقتحم

 

کوئی

کہانی نہ افسانہ اچھا لگتا ہے
فقط صحابہ کا ترانہ اچھا لگتا ہے
تم ساحل پہ بیٹھ کے مسکراتے رہو

مجھ کو تو طوفانوں سے ٹکرانا اچھا لگتا ہے

تمہید :
میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو! مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے دوستو اور بھائیو! میں نے آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کریم پارہ نمبر پانچ سورہ النساء کی ایک آیت کریمہ تلاوت کی ہے… ذخیرہ احادیث میں سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تین مبارک احادیث تلاوت کی ہیں… اللہ رب العزت مجھے مسلک اہل السنت والجماعت کو دلائل کے ساتھ بیان کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… اور حق جل مجدہ اگر بات سمجھ آجائے تو قبول حق کی توفیق عطاء فرمائے۔
آپ حضرات تھوڑاسا خیال رکھنا میں اپنے جلسہ کے ایک ایک سامع پر نگاہ رکھتا ہوں چہرے کی نقل وحرکات پر بھی بڑی توجہ کے ساتھ غور کرتا ہوں… میں بیٹھ کر بیان کرسکتا تھا آپ حضرات کا تو پہلا جلسہ ہو گا میں توصبح لیہ… لیہ سے بھکر… بھکر سے فیصل آباد… فیصل آباد سے پھر جھنگ… تھکاوٹ کااحساس تو مجھے ہونا چاہیےلیکن میری عادت ہے کہ میں سامعین کا خیال کرتا ہوں اگر میں تقریر بیٹھ کر کرتا تو دور والے حضرات ایڑیاں اٹھا اٹھا کے دیکھتے میں نے کہا میں اکیلا ہی مشقت اٹھا لوں میں نے آپ حضرات کی راحت کے لئے کھڑے ہو کر بیان شروع کیا ہے… ورنہ خدا گواہ نہ مجھے کھڑے ہو کر بیان کرنے کا شوق ہے اور نہ ہی تسلسل کے ساتھ اتنے بیان کرنا آدمی کے بس میں ہوتے ہیں… میں محض اپنے ساتھیوں سے اس نیت کے ساتھ کہ زندگی اور موت کا تو پتہ نہیں اور کم ازکم آدمی کوشش کر ے کہ ہمارے وہ مسکین قسم کے ورکر جنہیں کو ئی نہیں پوچھتا آدمی ان کو تو خوش کرنے کی بھر پور کوشش کرے بڑوں بڑوں کے پاس تو ہر کوئی جاتا ہے لیکن چھوٹوں کے پاس جانے والا کوئی نہیں ہوتا
اصلاحِ نیت:
اس لیے میں دیہا توں…میں قصبوں میں… گوٹھوں میں… اور چھوٹے چھوٹے چکوک میں…میں جاتا ہوں… جنت تو چھوٹوں کا بھی مسئلہ ہے… بڑوں کا بھی مسئلہ ہے…عقیدہ شہر کا بھی ہے… عقیدہ دیہا ت کا بھی ہے… میں گزارش اس لئے کر رہا ہوں… میں کوئی تمہید باند ھ کر اپنے فضائل نہیں بیان کر رہا… عرض کرنے کا مقصد یہ ہے کہ میں کوشش کرتا ہوں… اپنے سامعین کی رعایت کروں… اور بات سمجھانے کی کوشش کروں میری معمول کی خطابت نہیں ہے ،نہ خطابت کو میں کاروبار اور بزنس سمجھ کے کرتا ہوں… اللہ رب العزت ہمیں آخرت اور قبر کے لئے دین حق کی خدمت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
انسانیت کے چار بلند مقامات :
میں نے قرآن کریم کی جو آیت کریمہ آپ حضرات کے سامنے تلاوت کی… اس آیت میں اللہ رب العزت نے… انسانیت کے بلند وبالاچار مقامات کا تذکرہ کیا ہے :
1…مقام نبوت 2…مقام صحابیت 3…مقام شہادت 4…مقام ولایت
فرق مرا تب :
ان میں سب سے زیادہ عظمت والا مقام نبوت کا ہے… اور اس کے بعد مقام صحابیت ہے…اس کے بعد مقام شہادت ہے… اور اس کے بعد مقام ولایت کا ہے۔لیکن ان چار مقامات میں فرق یہ ہے کہ مقام نبوت اور مقام صحابیت یہ وہبی ہے۔ اور مقام شہادت اور مقام ولایت یہ کسبی ہے۔
وہب اور کسب کا معنی:
وہب اور کسب کا معنی یہ ہے۔ کہ بعض مقامات اللہ نے وہ پیدا کئے ہیں کہ جن کو آدمی محنت سے حاصل کر سکتا ہے… اور بعض مقامات خالق نے وہ بنائے ہیں کہ جن کو آدمی محنت سے حاصل نہیں کر سکتا… محض اللہ کی عطا سے ہی سے ملتے ہیں…اگر اللہ عطا فرمادے تو مل جاتے ہیں… اللہ عطا نہ فرمائے تو نہیں ملتے… ان میں ایک مقام نبوت کا ہے…کہ یہ محنت سے نہیں ملتا… عبادت سے نہیں ملتا… ریاضت سے نہیں ملتا… مجاہدات سے نہیں ملتا…یہ محض اللہ کی عطا سے ملتا ہے… مقام نبوت اگر کوئی آدمی چاہیے کہ میں روزے رکھ کے… تلاوت کرکے… جہاد کر کے حاصل کر لوں گا۔ اللہ کی قسم یہ ممکن نہیں… اس طرح اگر کوئی بندہ چاہے کہ میں محنت کر کے صحابیت کے مقام کو پالوں گا…یہ بھی بندے کے اختیار میں نہیں… اللہ رب العزت نے جہاں نبوت کا دروازہ بند فرما دیا… وہاں صحابیت کا دروازہ بھی بند فرما دیا ہے… اب قیامت کی صبح تک نہ کوئی نیا نبی پیدا ہو سکتا ہے… نہ قیامت کی صبح تک نبی کی صحبت پا کے کوئی آدمی صحابیت کے مقام کو حاصل کر سکتا ہے… مقام نبوت بھی مقام وہب ہے… مقام صحابیت بھی مقام وہب ہے۔
ہر کلمہ گو اللہ کا ولی ہے :
لیکن مقام شہادت اور مقام ولایت یہ مقام کسب ہیں… کوئی بندہ بھی کلمہ پڑھنے کے بعد ولی بننا چاہے توبن سکتا ہے… بلکہ میں ایک جملہ اس سے بڑ ھ کے کہتا ہوں…ہر وہ بندہ جس نے کلمہ پڑھا ہے وہ اللہ کا ولی ہے… نماز پڑھے تب بھی ولی ہے… نماز نہ پڑھے تب بھی ولی ہے… حج کرے تب بھی ولی ہے… حج نہ کرے تب بھی ولی ہے… اس کے چہرے پہ سنت کے مطابق داڑھی ہو… وہ تب بھی ولی ہے… اگر خدا نہ کرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کوکٹوا تاہو… وہ تب بھی ولی ہے۔
آپ کہو گے کہ آپ نے عجیب بات کی ہے… عجیب بات میں نہیں کرتا آپ نے سنی ہی شاید پہلی بار ہو گی… اس پر دلیل اللہ کا قرآن بھی ہے… اور اس پر دلیل احناف کی کتاب’’ عقیدہ طحاویہ‘‘ بھی ہے… ہمارے عقیدہ کی کتاب میں یہ بات درج ہےقرآن کریم میں بھی یہ بات درج ہےقرآن کریم میں ہے۔
اللہ ولی الذین اٰمنوا
سورۃ بقرہ آیت نمبر 257
اللہ ولی ہے ہر اس شخص کا جو اللہ پر ایمان لایا… اللہ نے کلمہ پڑھنے والے کو اپنا ولی قرار دیا ہے…اب کلمہ گو اللہ کا ولی ہے ولایت کے مقامات اور مراتب ہیں…کوئی ولی چھوٹے درجے کا کوئی ولی بڑے درجے کا۔
ایک عام فہم مثال:
جیسے کوئی سکول میں داخل ہوجائے اس کو سکول اور مدرسے کا طالب علم کہتے ہیں۔ وہ سونمبر لے کر پاس ہو جائے تب بھی طالب علم ہے… اگر وہ بیس نمبر لے کر فیل ہو جائے تب بھی طالب علم ہے… اگر روزانہ حاضریاں دے تب بھی طالب علم ہے… اگر مہینہ میں دس ناغے کرکے اپنے ہیڈ ماسٹر سے جوتے کھائے… تب بھی طالب علم ہے… تو طالب علم میں یہ تو نہیں کہ نالائق کو طالب علم نہ کہو…اور لائق کو طالب علم کہو… سکول مدرسہ میں داخل ہو گیا… یہ طالب علم ہے… اگر محنت کی تو طالب علم اچھا ہے… اگر نہ محنت کی… تو طالب علم نکما ہے… تو جس آدمی نے کلمہ پڑھا ہے… وہ اللہ کا ولی ہے… اگر عبادات کے مقام بلند ہیں… تو ولی کامل درجہ کا… اور اگر عبادات اس کے نامہ اعمال میں کم یا نہیں ہیں… تو پھر بھی ولی چھوٹے درجہ کا ہے… لیکن ولی ضرور ہے… جوبھی کلمہ پڑھتا ہے… وہ کلمہ پڑھ کے ولایت کے مقام کو پا جاتا ہے…ولایت عامہ الگ ہے… ولایت خاصہ الگ ہے… یہ دعا کریں اللہ ہم سب کو ولایت کاملہ اور ولایت تامہ عطاء فرمائے… اور ہم ناقصین کو بھی اللہ کمال عطا فرمائے۔
شہادت ہر شخص پا سکتا ہے؟:
آپ کے ذہن میں سوال آیا ہو گا… اگر نہیں آیا تو سوال آنا چاہیے… میں سوال بھی اٹھا تا ہوں سوال کا جواب بھی دیتا ہوں… اگر آپ کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ مولانا آپ نے کہا… ہر بندہ شہادت کے مقام کو پا سکتا ہے… اس بات کو ہم نہیں مانتے…میں کہتا ہوں نہ ماننے کی وجہ کیا ہے… ؟کتنے ہم نے مجاہد دیکھے ہیں… پندرہ مرتبہ محاذپر گئے ہیں… بیسوں مرتبہ جہاد پہ گئے ہیں… لیکن وہ تو شہید نہیں ہوئے… اگر ہر بندہ شہادت حاصل کر سکتا… تو یہ پھر شہید نہ ہو جاتے۔
ہر محاذ کے جرنیل :
ہم نے تاریخ میں دیکھا ہے ممکن ہے چھوٹی موٹی مثال میں بھی رد کر دوں۔ لیکن اگر آپ تاریخ کی سب سے بہترین مثال دیں گے… حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبوت کے ہر غزوہ کے ساتھی ہیں… حضرت خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ کلمہ پڑھنے کے بعد… جب صحابی بنے ہیں تو ہر محاذ کے جرنیل ہیں… دو سو سے زیادہ جنگیں لڑی ہیں…بدن کے ہر حصہ کو زخمی کرایا ہے… لیکن خالد بن ولیدرضی اللہ تعالیٰ عنہ تو شہید نہیں ہوئے… ہم کیسے تمہاری بات مان لیں کہ ہر آدمی شہادت کو حاصل کر سکتا ہے… میں نے کہا یار… بات میری نہ مانو… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مانو… لیکن سمجھو گے تو بات تب مانو گے…اگر نہیں سمجھتا تو بات کومانے گا بھی نہیں۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’من سأل اللہ تعالیٰ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہدآء وان مات علیٰ فراشہ‘‘
جو آدمی صدق دل سے شہادت کو مانگتا ہے… اگر اس کی بسترپہ موت آئے تب بھی اللہ اس کو مقام شہادت عطا فرما دیتے ہیں… کیوں کہ صدق دل سے مانگنا تیرے اور میرے بس میں تھا… اور میدان جہاد میں کٹوانا… یہ میرے اور تیرے بس میں نہیں تھا ہم نے پیش کرنا تھا…اور اس کے ٹکڑے کروانا… میرے اللہ کے ذمہ تھا… اللہ چاہیں شہادت کی صورت دے دیں… اللہ نہ چاہیں شہادت کی صورت نہ دیں… ایک شہادت کی صورت ہے… ایک شہادت کی حقیقت ہے۔
حقیقت شہادت اور صورت شہادت:
حقیقت شہادت یہ ہے… بندہ خود کو شہادت کے لئے پیش کر دے… اسباب شہادت اختیار کر لے… اور اگر خود کو شہادت کےلئے پیش کر دیا…اس کا بدن نہیں کٹا… تو یہ تب بھی شہید ہے…لیکن اگر آدمی کا بدن کٹا…اس کو صورت ملی ہے… تو کون سا ایسا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی ہے کہ جو میدان جنگ میں نہ نکلا ہو… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا کون سا ایسا صحابی ہے… جس نے میدان جنگ میں نکل کے… اللہ سے شہادت نہ مانگی ہو… ہر صحابی شہادت مانگتا ہے… لیکن پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے صدق کی قید بھی لگائی ہے
’’ من سأل اللہ تعالیٰ الشہادۃ بصدق‘‘
صدق کسے کہتے ہیں :
صدق کا مطلب کیا ہے…؟ آپ کی مسجد میں تبلیغی جماعت آئی… انہوں نے کہا ہم نے تین دن یہاں گزارے ہیں… ہمیں تین دن کی جماعت چاہیے… آپ کھڑے ہو کر ارادہ کریں… کوئی آدمی کھڑے ہو کر ارادہ بھی نہیں کرتا… کہا بھائی پیسے برکت کے لیے جمع کرادیں… کوئی پیسے بھی جمع نہیں کرواتا… کہا بھائی بستر گھر سے لے کر آجائیں… بستر بھی گھر سے نہیں لا تا… اور پھر توجہ رکھنا! ایک آدمی نے نام بھی نہیں لکھوایا… ایک آدمی نے کرایہ بھی جمع نہیں کروایا… ایک آدمی نے بستر بھی نہیں لایا… تیرہ بندوں کی جماعت موجود ہے… جنہوں نے نام بھی لکھوا دیا… کرایہ بھی جمع کرا دیا… اور بستر بھی لے کر آ گئے۔
یہ جو آدمی زبان سے کہہ رہا تھا میں نے جانا ہے… نام بھی نہیں لکھوایا… اس نے اپنا کرایہ بھی جمع نہیں کروایا… اور اس نے بستر بھی نہیں لایا… اب ایمان سے بتاؤ اب یہ تیرہ بندوں کی جماعت جانے لگی… اور یہ بندہ گھر میں فوت ہو گیا…تو اس کو کیا قیامت کے دن ’’سہ روزے‘‘ میں نکلنے کا اجر ملے گا…؟ کبھی نہیں ملے گا… لیکن ان تیرہ بندوں میں سے جو نام بھی لکھوا چکے… بستر بھی لا چکے… کرایہ بھی جمع کروا چکے ہیں… ان میں سے کوئی بندہ گھر جائے… اور گھر جا کے فوت ہوجائے… اب تیرہ بندوں کی نہیں بارہ بندوں کی جماعت گئی ہے… لیکن جب قیامت کے دن آئیں گے… ان بارہ کو بھی ’’سہ روزے‘‘ کا اجر ملے گا… اور وہ جو تیرہواں گھر میں فوت ہوا… اس کو بھی سہ روزے کا اجر ؟(سامعین… ملے گا ) کیوں ا س لیے کہ اس نے صدق دل سے مانگا ہے… اسباب اختیار کر کے پھر خود کو اللہ کے حوالے کر دیا۔
ان شاء اللہ کا شرعی معنیٰ:
میں ایک بات ضمنا کہتا ہوں ایک ان شاء اللہ کا معنی شریعت کا ہے۔ ایک ان شاء اللہ کا معنی میرا اورتیرا ہے…شریعت نے ان شاء اللہ کا معنی کیا بیان کیا ہے… اپنانام بھی لکھوا دے… تیار ہو کے آبھی جا… اللہ چاہیں گے تو لے جائیں گے… اللہ چاہیں گے تو نہیں لے جائیں گے… اسبا ب جمع کر کے خود کو اللہ کے حوالے کر دے۔
ان شاء اللہ کا عرفی معنیٰ:
لیکن ہمارے ہاں ان شاء اللہ کا معنی کہ نام بھی نہیں لکھوائیں گے… اور خود بھی نہیں آئیں گے… اور کرایہ بھی جمع نہیں کروائیں گے… تو جانا ہے کہاجی ان شاء اللہ بھائی تو نے نام بھی نہیں لکھوایا… تو نے بستر بھی نہیں لا یا… کرایہ بھی جمع نہیں کروایا۔پھر ان شاء اللہ کا معنی کیا… ؟ اب ان شاء اللہ کا معنی یہ ہو گا کہ… میں تو پوری کوشش کروں گا کہ نہ جاؤں…اگر اللہ پھر بھی لے جائے تو اللہ کو کوئی روک نہیں سکتا… اب ہمارے ہاں ان شاء اللہ کا معنی یہ ہے… شریعت کے ہاں ان شاء اللہ کا معنی یہ نہیں ہے ہم اسباب جمع کئے بغیر کہتے ہیں میں نے یہ کام کرنا ہےیہ ان شاء اللہ کا مذاق ہے…اسباب جمع کر کے کہہ دے اللہ نے چاہا تو ہوگا یہ ان شاء اللہ کی حقیقت ہے۔
اسماعیلی ان شاء اللہ:
ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا… اے بیٹے اسماعیل علیہ السلام میں نے خواب میں دیکھا ہے میں تجھے ذبح کر رہا ہوں… کہا ابا جی… ! رب نے حکم دیا افعل ما تؤمر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کو لٹایا ہے… تو بیٹے نے اپنے باپ سے کہا۔
’’ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین ‘‘
سورۃ صافات پ 23 آیت نمبر102
لیٹنا میرا کام ہے… چھری چلانا آپ کا کام ہے… صبر دینا میرے اللہ کا کام ہے… لیکن یہ نہیں کہ آدمی لیٹنے کے لئے بھی تیار نہ ہو… چھری چلوانے کے لئے بھی تیار نہ ہو… اور پھر بھی کہہ دے ’’ستجدنی ان شاء اللہ من الصابرین ‘‘ نہیں نہیں اسباب اختیار کرنے کے بعد ستجدنی کہنایہ شریعت کی منشاء ہے… تو ان شاء اللہ کا معنی ایک وہ جو شریعت بیان کرے اور ان شاء اللہ کا ایک معنی وہ جو میں اور آپ بیان کریں… ہمارے بیان کردہ معنی کا نام شریعت نہیں… شریعت کے بیان کر دہ معنی کا نام شریعت ہے۔
صلائے عام ہے یارانِ نکتہ داں کے لیے :
’’من سأل اللہ تعالیٰ الشہادۃ بصدق بلغہ اللہ منازل الشہدآء وان مات علیٰ فراشہ‘‘
اب تم ایمان کے ساتھ بتاؤ ہر کلمہ گومومن… جہاد میں جانے کا ارادہ کر سکتا ہے کہ نہیں… میدان جہاد میں جا سکتا ہے یا نہیں… اپنے مال کو پیش کر سکتا ہے… کہ نہیں آگے چلیے ! اللہ چاہے گا بدن کٹوا دے گا… اللہ نہیں چاہیے گا بندے کا بدن نہیں کٹوائے گا… اگر بدن کٹ جائے شہادت کی صورت بھی ملی… حقیقت بھی ملی ہے… لیکن اگر بدن نہیں کٹا… یہ گھر پہ فوت بھی ہو جائے… شہادت کی صورت تو نہیں ملی… لیکن شہادت کی حقیقت تو مل گئی ہے… اگر یہ تیرے ذہن میں نقطہ آجائے ایک بہت بڑا اعتراض تیرا حل ہو گا… جس پر شاید تو نے کبھی توجہ نہیں کی۔
طالب علمانہ اشکال:
مجھے ایک طالب علم کہنے لگا ،کہتا ہے مولانا ہم نے شہادت کے فضائل علماء سے بڑے سنے ہیں… ہم تو یہ سنتے ہیں آدمی اگر شہید ہو جائے بغیر حساب کے جنت میں جاتا ہے… بڑی جلدی جنت میں جاتا ہے… خون کا قطرہ زمین پر بعد میں گرتا ہے اس کے سارے گناہ پہلے معاف ہو جاتے ہیں۔
لیکن ایک ہم نے حدیث پڑھی ہے جو ہمارے موقف کی تائید نہیں کرتی… میں نے کہا کون سی حدیث ہے… کہتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موجود گی میں… دوبندے اکھٹے آئے… انہوں نے کلمہ پڑھا اور وہ مسلمان ہو گے… اور وہ دونوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں رہے… ایک بندہ شہید ہو گیا… اور دوسرا ایک سال بعد فوت ہو ا…صحابی کہتے ہیں
’’فرایت الموخر منھما دخل الجنۃ قبل الشہید‘‘
اتحاف الخیرہ المھرۃ رقم الحدیث 6034کتاب الادب
جو ایک سال بعد فوت ہوا… میں نے دیکھا وہ جنت میں پہلے گیا… ’’فتعجبت لذلک‘‘مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا…فذکرت لذٰلک لرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلممیں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا… حضورصلی اللہ علیہ وسلم! یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی… ہم یہ سمجھتے تھے کہ شہید جنت میں پہلے جائے گا… لیکن میں نے خواب میں یہ دیکھا ہے… اپنے گھر میں فوت ہونے والا یہ جنت میں پہلے گیا ہے۔
میرے دوستو توجہ رکھنا! صحابی کے جملہ پر غور کرنا کہتے ہیں ’’فتعجبت لذالک‘‘ مجھے تعجب ہوا ہے… صحابی کا تعجب کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ ان کا ذہن یہ تھا کہ… شہید جنت میں پہلے جاتا ہے… صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاں یہ مسئلہ مسلم تھا اگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاں یہ مسئلہ طے شدہ نہ ہوتا… اس پہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کبھی تعجب نہ کرتا… میں سمجھانے کے لئے ایک مثال دیتا ہوں۔
مسئلہ ترک قرأۃ خلف الامام :
صحیح مسلم میں حدیث موجود ہے… نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نقل کیا ہے… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ… جو آدمی سورۃ الفاتحہ نماز میں نہ پڑھے اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’فہی خداج خداج خداج غیرتمام
صحیح مسلم ج 1 ص169
اس آدمی کی نماز نامکمل ہے… نامکمل ہے… نماز نا مکمل ہے… اب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب یہ بات فرمائی…اگر آدمی فاتحہ نہ پڑھے نماز نا مکمل ہے…ایک تابعی رحمہ اللہ تعالیٰ کہنے لگے…انہوں نے کہا ’’یا اباھریرۃ انا نکون وراء الامام ‘‘ہم کبھی کبھی امام کے پیچھے بھی ہوتے ہیں…اب توجہ رکھنا !جب حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا… کہ جو آدمی فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی… تو بندے نے سوال کیا…کہاہم کبھی امام کے پیچھے ہوتے ہیں…اس کا معنی ان کے ذہن میں یہ تھا کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے…جبھی تو انہوں نے کہا نا…ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں… ورنہ کہنے کی ضرورت ہی کیا تھی؟
پہلی مثال:
ابھی میں بیان سے فارغ ہوا آپ پوچھیں مولاناکہاں جا نا ہے…؟ میں کہتا ہوں میں نے سرگودھا جانا ہے… ایک آدمی کہتا ہے ہمارا آدمی بھی ساتھ بٹھا لیں… میں کہتا ہوں میرے ساتھ گھر والے ہیں… اب میں کیا بتانا چاہتا ہوں کہ گھروالے ساتھ ہوں… تو نامحرم کو گاڑی میں نہیں بٹھایا جاتا… یہی بتاناچاہتا ہوں نا… لیکن میں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نہیں بٹھاتا… میں نے کہا میرے ساتھ جی گھر والے ہیں… اس کا معنی گھر والے ساتھ ہوں… تو دوسرا بندہ گاڑی میں بٹھایا نہیں جاتا… میں نے عذر بیان کیا ہے نا
دوسری مثال:
میں مثال دے کر کہتاہوں اگر عصر کے بعد کا وقت ہو…یازوال کاوقت ہو…تو میں آپ سے پوچھو ں جو مسئلہ میں نے بیان کیا آپ کو سمجھ آگیا ؟آپ کہتے ہیں جی سمجھ آگیا… میں کہتا ہو ں جی سمجھ آگیا تو چلو دورکعات شکرانے کے نفل پڑھ لو آپ کہتے ہیں مولانا یہ تو زوال کا وقت ہے… آپ کیا کہتے ہیں کہ اب کون ساوقت ہے ؟ (سامعین… زوال کا ) آپ کیا بتانا چاہتے ہیں کہ زوال کے وقت میں نفل (سامعین… نہیں ہوتے ) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا… جوفاتحہ نہ پڑھے تو نماز اس کی ناقص ہے… تو تابعی نے کیا… کہا ہم امام کے پیچھے ہوتے ہیں… یعنی ان کا ذہن یہ تھا کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی جاتی… حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا اقرأبہا فی نفسکمیں نے کب کہا… کہ جب امام کے پیچھے ہو تو پڑھا کرو… میں نے تو کہا فی نفسککہ جب تو اکیلا ہو تو فاتحہ پڑھ لیا کر…تو میں نے امام کی بات ہی نہیں کی۔
آمدم بر سر مطلب :
اب میں کہہ رہا تھا۔ توجہ رکھنا! جب صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خواب دیکھی کہ میں نے دیکھا… شہید جنت میں بعد میں گیا… ایک سال بعد فوت ہونے والا… جنت میں پہلے گیا ’’فتعجبت ‘‘ مجھے تعجب ہوا۔
تعجب ہوناا س بات کی دلیل ہے کہ یہ بات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے ہاں مسلم تھی کہ جو آدمی فوت ہو جائے… وہ جنت میں بعد میں جاتا ہے… اور جو شہید ہو جائے وہ جنت میں پہلے جاتا ہے… ذرا دلیل کا جواب سمجھنا میں نے اس کے لئے پہلے تمہید باندھی تھی۔
اشکال کا جواب:
اب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’الیس ھو قد صام ‘‘کیا اس نے رمضان کے روزے نہیں رکھے… کیا اس نے ایک سال کی نمازیں نہیں پڑھیں… صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا حضورصلی اللہ علیہ وسلم نمازیں بھی پڑھی ہیں… رمضان کے روزے بھی رکھے ہیں… تو فرمایا جنت میں پہلے تو جائے گا… اب جس آدمی نے شہادت کو نہیں سمجھا… وہ کہتا ہے جی دیکھو میدان جنگ میں شہید ہونے والا یہ جنت میں بعد میں جاتا ہے… نماز اور روزے رکھنے والا یہ جنت میں پہلے جاتا ہے… اگر تم شہید ہو جاؤ گے تو جنت میں پہلے تم نہیں جاؤ گے… میں دس سال تک زندہ رہ کر نمازیں پڑھتا رہا تو میں جنت میں کیا بعد میں جاؤ ں گا۔
جنت میں پہلے جانے کی وجہ:
میں نے کہا میرا دوست تو نے توجہ نہیں کی… نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو صدق دل سے شہادت کو مانگتا ہےاللہ اس کو شہادت کا مقام عطا ؟ (سامعین۔ فرماتے ہیں ) توجہ رکھنا !اللہ اس کو شہادت کا مقام عطا فرما دیتے ہیں… اب جو صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک سال پہلے شہید ہو ا…شہادت تو وہ بھی مانگتا تھا نا… اور جو ایک سال بعد فوت ہوا… وہ شہادت نہیں مانگتا تھا… ؟ (سامعین… مانگتا تھا )وہ میدان جنگ میں نہیں جاتا تھا… یہ دونوں میدان جنگ کے غازی تھے… دونوں میدان جنگ کے مجاہد تھے… دونوں شہادت کو مانگتے تھے… فرق کیا ہوا…؟ ایک کو شہادت کی صورت ملی ہے… اور دوسرے کو شہادت کی صورت ؟(سامعین… نہیں ملی)
لیکن شہادت کی حقیقت تو دونوں کو ملی ہے… جو صدق دل سے شہادت کو مانگے اللہ اس کو شہادت کا مقام دیتے ہیں… اور شہادت کی صورت پہلے کو بھی ملی… اور دوسرے کو شہادت کی حقیقت ملی… اب دونوں شہادت کے مقام پر فائز ہیں… گھر میں فوت ہونے والا بھی… اور میدان جنگ میں کٹ جانے والا بھی۔
ایک اور مثال سمجھیں:
اب تم مجھے بتاؤ آپ کے شہر میں دونوجوان شہید ہوں… ان میں سے ایک تہجد پڑھتا ہو… اور دوسراتہجد نہ پڑھتا ہو…تو جہاں شہادت اور تہجد جمع ہو جائیں تو جنت میں پہلے کون جائے گا جہاںشہادت بھی ہے اور تہجد؟ (بھی ہے)… وہاں صرف شہادت ہے ساتھ تہجد نہیں… ایک آدمی کے پاس شہادت بھی ہو… اور ایک لاکھ روپے کی سخاوت بھی ہو… ایک کے پاس شہادت ہے اور دوسرے کے پاس شہادت بھی ہے… اور روزانہ ایک ہزار مرتبہ اللہ اللہ کہنے کا ذکر بھی ہے… اب آگے کون بڑھے گا… جہاں شہادت بھی ہے اور اللہ اللہ کہنے کا ذکر بھی ہے… تو میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں حدیثیں ملاؤ گے تو نتیجہ نکلے گا۔
ایک آدمی جو پہلے گیا ہے… وہ بھی شہید
’بلغہ اللہ منازل الشہدآء ‘‘اور جو بعد میں گیا ہے… وہ بھی شہید بلغہ اللہ منازل الشہدآء وان مات علیٰ فراشہ ‘
‘ دونوں کو مقام شہادت ملا ہے… لیکن ایک کو مقام شہادت کے ساتھ رمضان کے روزے بھی ملے ہیں… شہادت کے ساتھ ایک سال کی نمازیں بھی ملی ہیں… تو شہادت تو دونوں کو ملی ہے… ایک کے پاس اضافی نماز اور روزے ہیں… لہٰذا جنت میں پہلے اس نے جانا ہے نا… اور ہمیں اعتراض کہا ںہوتا ہے… ہم سمجھتے ہیں العیاذ باللہ صحابہ ہماری طرح تھے… یعنی جو جہاد میں جاتا ہے وہ تو جاتا ہے… جو نہیں جاتا وہ صرف نمازیں پڑھتا ہے… صحابہ میںہربندہ نمازی بھی تھا… ہر بندہ مجاہد بھی تھا۔ صحابہ میں ہر بندہ مبلغ بھی تھا… ان کی زندگی کجا اور تیری اور میری زندگی کجا… میرے دوستو !یوں غلط فہمیاں پیدا نہ کیا کرو!
سو شہید وں کا اجر :
توجہ رکھنا !میں منزل شہادت پر بات کر رہاہوں۔اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’ من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید‘‘
کتاب الزھد للبیہقی جز 1 ص 221
جو آدمی میری ایک مردہ سنت کو زندہ کرے گا… اللہ اس کو سو شہید کا ثواب دیں گے… جو آدمی میری ایک سنت کو زندہ کرے گا… اللہ اسے سو شہیدوں کا اجر عطاء فرمائیں گے… اچھا بھائی اگر میں میدان جنگ میں جا کر شہید ہوتا ہوں… تو ایک شہید ہوا… اور اگر یہاں پر لوگ داڑھی نہیں رکھتے… سنت کو زندہ کر دیں تو کتنے شہیدوں کا اجر ؟ (سامعین… سوشہیدوں کا) نکاح شریعت کے مطابق نہیں ہے… اگر کوئی شریعت کے مطابق نکاح کرے کتنے شہیدوں کا اجر ؟(سامعین… 100کا )اب ایک بندہ کہتا ہے مولانا!آپ پاگلوں والی بات کرتے ہیں…میدان میں جا کر کٹو گے تو ایک شہید کا ثواب ہو گا… اور یہاں جھنگ میں رہ کر روزانہ دس سنتوں کو زندہ کریں گے… تو روزانہ ہزاروں شہیدوں کا ثواب ملے گا… ایک شہید کی بات نہ کرو… ہمیں ہزار شہید کا ثواب کمانے دو… لوگ کہتے ہیں دلیل تو بڑی زبر دست ہے… تو یہ بے وقوف ہیں جو میدان میں نکل کے شہادت لیتے ہیں… تو لوگوں کے ذہن میں سوال آتا ہے نا۔
تنخواہ… اور… پروٹوکول:
میں نے کہا نہیں میرے دوست…! پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کو سمجھو… رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے الفاظ پہ غور کرو…الفاظ نبوت کو شرح اپنی مت دو… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید ‘‘
جو آدمی ایک مردہ سنت کو زندہ کرتا ہے… اللہ اس کو سو شہیدکا اجر دیتا ہے… ارے ایک اجر ہے اور ایک مقام ہے… مقام الگ چیز ہے… اجر الگ چیز ہے میں آج کی زبان میں کہنا چاہتا ہوں مقام کو پروٹوکول کہتے ہیں… اور اجر کو تنخواہ اور مزدوری کہتے ہیں… ارے تنخواہ الگ ہے… اور پروٹوکول الگ ہے…اگرآدمی کے پروٹوکو ل کو دیکھو تو بات الگ ہے… اگر اجرت اور تنخواہ کو دیکھو تو بات الگ ہے۔
تیرے پنجاب کا وزیر اعلیٰ آپ اس کی تنخواہ کو دیکھ لیں… ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں ہے… مگر تیرے جھنگ میں ایک فیکٹری ہے… اس فیکٹری کے جی۔ ایم کو دیکھ لے تو جنرل منیجر کی تنخواہ دو لاکھ سے کم نہیں ہے… تو میرے دوستو! بات تو بڑی عجیب ہے تیرے پنجاب کا وزیر اعلیٰ وہ تنخواہ ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ نہیں لیتا… اور فیکٹری کا جی۔ ایم دو لاکھ سے کم نہیں لیتا…تنخواہ جی۔ ایم کی زیادہ ہے… اور وزیر اعلیٰ کی کم ہے… لیکن میں دعوی کے ساتھ کہتا ہوں… تو سارے پنجاب کے جی۔ ایم ملا لے ارے جی ایم کو چھوڑ دے تو فیکٹریوں کے مالکان کو ملا لے… مالکان کو دیکھ لے جن کی روزانہ دس لاکھ کی آمدن ہے… ایک طرف وزریر اعلیٰ کی تنخواہ ہے… ایک طرف فیکٹریوں کے مالکان کی دس لاکھ یومیہ آمدن ہے… اگر آمدن دیکھے تو اس کی زیادہ ہے… اگر تنخواہ دیکھے تو اس کی زیادہ ہے… پروٹوکول دیکھیں تو اس کا زیادہ ہے۔
تو صبح جھنگ میں سڑک پہ نکلا… اشارے دیکھے بند ہیں پوچھا جی کیا ہوا… کہا جی آج وزیر اعلیٰ کا دورہ ہے… مولوی صاحب !سڑک پہ نہیں جانا… جی ایم صاحب سڑک پہ نہیں جانا… ملک صاحب آپ نے نہیں جانا… آج آپ نے نہیں جانا… آپ فیکٹری کے مالک ہو نگے ٹھیک ہے… آپ روزانہ دس لاکھ کمائیں تو ٹھیک ہے… لیکن وزیر اعلیٰ جس روڈ پہ آئے… اس روڈ پر آپ نہیں جا سکتے… آپ پوچھیں کیوں یار…؟ تنخواہ میری زیادہ ہے… سڑک پہ میں نہیں آسکتا… تو وہ کہیں گے جناب تنخواہ الگ بات ہے… پاکستان کے پنجاب کے ہزار جی۔ ایم ملا لے… ایک وزیر اعلیٰ کے پروٹوکول کے برابر نہیں… پروٹوکول کا مسئلہ الگ ہے… ارے اجر اور مزدوری کا مسئلہ الگ ہے… جہاں شہادت کے اجر کی بات ہے… یہ بات الگ ہے… جہاں شہادت کے پروٹوکول کی بات ہے یہ بات الگ ہے۔
امت مرحومہ کے شہداء کا اعزاز :
حدیث پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہے… نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا احادیث کا مطالعہ کر کے دیکھ… فرمایا قیامت کے دن جب میری امت کا شہید آئے گا… اگر رستے میں ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام اللہ کے پیغمبر بھی کھڑے ہوں گے تو فرشتہ کہے کا… حضرت آپ ذرا رستہ چھوڑ دیں… فرمایا کیوں…؟ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کا شہید آ رہا ہے… میرے دوست! شہید کے پروٹوکول کی بات ہے… اگر تو نے ہزار سنت کو زندہ کیا ہے… لیکن اگر تیری موت گھر پر آئی ہے۔
تو میرا دوست تیرے کپڑوں کو اتار کے تجھے غسل دیا جائے گا… لیکن میدان جنگ میں کٹنے والے کے چہرے پہ داڑھی بھی نہیں ہے… میدان جنگ میں کٹنے والا وہ نماز بھی نہیں پڑھتا… لیکن شریعت کہے گی… نہ نہ اس کے بدن کے کپڑے بھی نہیں اتارنے… ارے وجہ کیا ہے…؟ یہ اس کا پروٹوکول ہے… ہمیں انہی کپڑوں میں اچھا لگتا ہے… اس کے کپڑے تم نے کا ٹنے نہیں… اسی کپڑے کو کفن بنا دو… قیامت والے دن کفن والے آئیں گے… لیکن یہ انہی کپڑوں میں آئے گا… میں ان کپڑوں کو دیکھ کر داد دیتا ہوں۔
ارے یہ تو گھر میں فوت ہوا… نماز کی حالت میں بیت اللہ میں فوت ہوا… کہا جی اس کو غسل دے دو…اچھا جی… کہا شہید کو نہیں دینا… اللہ کیوں نہیں دینا… اس کے بدن پہ تو خون ہے… خون تو ناپاک ہوتا ہے… اسے تو پاک کرنا چاہیے… اور یہ طواف کرنے والا غسل کر کے گیا تھا… نئے کپڑے پہن کے گیا تھا… فرمایا نہیں نہیں… آج مسئلہ اجر کا نہیں آج مسئلہ پروٹوکول کا ہے… ارے اس کو کفن دینا ہے… لیکن اس کو انہی کپڑوں میں دفن کرنا… یہ اس کے خون کا پروٹوکول ہے… اس کے کپڑوں کا پروٹو کول ہے۔
روز قیامت شہید کا پروٹوکول:
اگر یہ قیامت کے دن آئے گا… نماز والا پریشان ہو گا… اللہ میرا کیا بنے گا شہید پریشان نہیں ہے… وہ کہتا ہے اللہ اس کا کیا بنے گا… نمازی کہتا ہے میرا کیا بنے گا شہید کہتا ہے ان کا کیا بنے گا… اللہ فرماتے ہیں کیوں…؟ شہید کہے گا اللہ تنہا نہیں جاتا میرے استاد بھی جائیں گے… تنہا نہیں جاتا میرے دوست بھی جائیں گے… ارے سفارش پروٹوکول سے چلتی ہے… تنخواہوں سے کبھی سفارشیں نہیں چلا کرتیں… ارے سو شہید کا اجر تو ملے گا مگر ایک شہید کا پروٹوکو ل نہیں ملے گا… اللہ جنت میں تو جانا ہے۔
شہید کا جنازہ:
جنازہ آگیا فرمایا غسل بھی نہیں دینا… امام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا جنازہ بھی نہیں پڑھنا… امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا… ’’اللھم اغفرلحینا ومیتنایہ تو اس کی معافی کے لئے ہے…ارے اس کی معافی کا تو خالق نے اعلان کیا ’’یغفرک فی اول دفعۃ من الدم ‘‘یہ تو بخشا گیا… اس کا جنازہ کیا پڑھنا… لیکن قربان جاؤں… امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی فقاہت پر… فرمایا جنازہ کیوں نہ پڑھیں… یں اپنی زبان میں کہتا ہوں میرے امام نے سمجھایا ہے… کہ میت دو قسم کی ہوتی ہے۔
1… ایک میت وہ ہوتی ہے کہ جنازہ پڑھیں گے… چالیس بندے شریک ہو جائیں گے تو یہ میت بخشی جائے گی۔
2…اور ایک میت وہ ہوتی ہے کہ ہم جنازہ پڑھیں گے… اس کی وجہ سے ہم بخشے جائیں گے اس کا جنازہ یوں نہ پڑھ… کہ یہ تیرے جنازے کا محتاج ہے… بلکہ اس لئے پڑھنا کہ اس کے جنازے سے میں بخشا جاؤں گا… کبھی تو نے سوچا کہ لوگ شہیدوں کے جنازے میں کیوں دوڑتے ہیں… یہ شہادت کا پروٹوکول ہے۔
وقت شہادت اور پروٹوکول :
من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید
یہ سنت کو زندہ کرنے والا… اللہ سب کو توفیق عطاء فرمائے… اللہ مجھے اور تجھے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر مرمٹنے کی توفیق دے… اور بدعت کو مٹانے کی توفیق دے دے… اگر سنت کو زندہ کرنے والا قیامت والے دن جنت میں گیا ہے… میرا اللہ پوچھے گا کچھ چاہیے اللہ سب کچھ مل گیا ہے… اللہ فرمائیں گے چاہیے تو مانگ لو… اللہ کچھ نہیں مانگنا… دنیا کی مشقت سے جنت میں آیا ہوں… اللہ مجھے اور کیا چاہیے… اللہ اس پروٹوکول والے سے پوچھے گا… کچھ تجھے بھی چاہیے… کہے گا اللہ کچھ مجھے بھی چاہیے کچھ مجھے بھی عطا کر دے نا… اللہ فرمائیں گے کیا چاہیے… اللہ ایک مرتبہ دنیا میں بھیج دے نا… کیوں میری جنت میں نعمتیں کم ہیں… میری جنت تجھے پسند نہیں ہے… یہ حور و غلمان تیرے لئے ہیں… ارے تیری خدمت کے لئے ہیں۔
کہا نہیں اللہ مجھے ایک مرتبہ بھیج دے نا… فرمایا کیوں…؟ جنت سے جانا چاہتا ہے… اللہ تیری جنت میں سارے مزے ہیں… تیری جنت مزدوری کا نام ہے۔ تیری جنت اجر کا نام ہے… اللہ میں اجر کی بات نہیں کرتا… جب تیری راہ میں کٹا تھا… اس وقت جو فرشتے اترے تھے… جو پروٹوکول وہ لائے تھے… اللہ وہ پروٹوکول جنت میں تو نہیں ہے نا… ایک مرتبہ مجھے پھر بھیج دے… ارے پروٹوکول کا مسئلہ الگ ہے… اجرت کا مسئلہ الگ ہے۔
اجر اور قدر میں فرق :
من تمسک بسنتی عند فسا د امتی فلہ اجر مائۃ شہید
جو میری ایک مردہ سنت کو زندہ کرے گا اللہ سو شہید کا اجر دیتا ہے… ارے اجر الگ ہے… قدر الگ ہے… بات اجر کی نہیں بات قدر کی ہے… بات اجرت کی نہیں بات پروٹوکول کی ہے…بات مزدوری کی نہیں مسئلہ مقام کا ہے… میدان جنگ میں جانے سے جو پروٹوکول ملتا ہے نا…وہ شہادت پہ گھر رہ کے صدق دل سے مانگنے پر وہ پروٹوکول نہیں ملا کرتے… پروٹوکول الگ ہے اجر الگ ہے… تو بات میں یہ سمجھانا چاہتا ہوں کہ کوئی آدمی بھی شہید ہونا چاہے… اب بتاؤ ہو سکتا ہے یا نہیں… اگر صدق دل سے مانگے گا اللہ شہادت کے مرتبہ تک پہنچادے گا۔
میں اس لئے کہتا ہوں حضرت ابو بکر صدیق کو…صورتاً شہادت نہ ملے… تب بھی شہید ہیں… حضرت پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے… اگر کسی کو شہادت کی صورت نہ ملے… وہ تب بھی شہید ہے… وہ شہادت تو مانگتے تھے… ارے ایک مقام نبوت کا ہے… ایک مقام صحابیت کا ہے… ایک مقام شہادت کا ہے… ایک مقام ولایت کا ہے… مقام نبوت تو وہب ہے… مقام صحابیت تو وہب ہے… لیکن مقام شہادت اور مقام ولایت یہ کسب ہے… جو تیرے بس میں نہیں اس کی تمنا بھی نہ کرنا… جو تیرے اختیا ر میں ہے… اس کی تمنا بھی کرنی ہے… اور کوشش بھی کرنی ہے۔
خدائی انتخاب… انتخاب لاجواب :
میرے دوستو تو جہ رکھنا !میں کہتا ہوں ایک مسئلہ نبوت کا ہے… ایک مسئلہ صحابیت کا ہے… نبوت بھی انتخاب میرے اللہ کا ہے… صحابیت بھی انتخاب میرے اللہ کا ہے… لیکن شہادت اور ولا یت یہ تو رب نے تجھے اختیا ر دیا… تیری مسجد میں امام موجود ہے… اس کا انتخاب تیری مسجد کی کمیٹی کا ہے… تیرے مدرسے کا مدرس اس کا انتخاب تیرے مہتمم کا ہے… انتخاب کالج کے پروفیسر کا یا پرنسپل کا ہو گا… لیکن نبوت تو انتخاب میرے اللہ کا ہے…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’ان اللہ اختارنی واختارلی اصحابی‘‘
معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم ج 4 ص 2117، الجامع لاخلاق الراوی ج 4 ص 71
اور ایک روایت میں اصحابی کی بجائے ’’اصحابا‘‘ آتا ہے
معجم الاوسط ص 144 ، مستدرک حاکم ج 2 ص632
پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ نے میرے سر کو تاج نبوت کے لئے چنا میرے شاگردوں کے سروں کو تاج صحابیت کے لئے چنا… نبوت انتخاب بھی اللہ کا ہے صحابیت انتخاب بھی اللہ کا ہے… اگر اس امام پہ تنقید کرے گا تنقید مسجد کی کمیٹی پر ہو گی اگر تنقید مدرس پہ کرے گا تنقید مہتمم کے انتخاب پرہو گی… اگر تنقید پروفیسر پر کرے گا تو تنقید کالج کے پروفیسر پہ ہو گی… اگر تنقید نبوت پر کرے گا تو تنقید انتخاب خداوندی پہ ہو گی… اگر تنقید صحابی پر کرے گا… تو تنقید انتخاب خداوندی پہ ہو گی۔
میرے دوستو! بندے کے انتخاب پہ تنقید کر لینا… خدا کے انتخاب پر کبھی تنقید نہ کرنا کیوں… ؟نبوت مقام انتخاب خداوندی کا نام ہے… صحابیت مقام انتخاب خداوندی کا نام ہے… میں اگلی بات کہتا ہوں… جس طرح نبوت بھی عمل سے نہیں ملتی صحابیت بھی عمل سے نہیں ملتی… اس پر میں دلیل دینا چاہتا ہوں… تو نے حدیث کئی بار سنی ہو گی۔
پہلے تو نے خطیب سے سنا ہو گا اپنے مسلک کے وکیل سے بھی سن… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَوَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ ، وَلاَ نَصِيفَهُ۔
مصنف ابن ابی شیبہ جز 12 ص174
فرمایا میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو کبھی نازیبا جملہ نہ کہنا۔
تسبواکا معنی:
تسبوا کا معنی یہ گالی دینا نہیں… عربی زبان میں گالی دینے کے لئے لفظ شتم آتا ہے… عر بی زبان میں نازیبا جملے کے لیے لفظ ’’سب ‘‘ آتا ہے… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا ’’لا تشتموا اصحابی‘‘ میرے صحابہ کو گا لی نہ دینا… ارے گالی تو دینا بلا وجہ کافر کو بھی جائز نہیں ہے… صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گالی دینے کا کیا معنی ہوا… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’لا تسبوا اصحابی‘‘ ان کو نازیبا جملے نہ کہنا… ان کے بارے میں نازیبا خیال نہ لا نا… کیا معنی ؟توجہ رکھنا ! میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا صحابی کو برا نہ کہنا… ہاں ہا ں! ارے ایک مسئلہ ہے کا فر کا… ایک مسئلہ ہے متبع کا… ایک مسئلہ ہے مبتدع کا… ایک مسئلہ مومن کا ہے۔
مقام صحابہ بلند ترہے:
کوئی آئے گا وہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پہ الزام لگائے گا… کوئی آئے گا صحابہ پہ اعتراض کرے گا… فرمایا ’’لاتسبوااصحابی‘‘اعتراض بھی نہیں کرنا… انتخاب خداوندی ہے… لیکن ممکن ہے کوئی مومن ہی کہہ دے… اللہ ہم اعتراض تو نہیں کرتے ہم الزام تو نہیں لگاتے… ہم تو صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو ماننے والے ہیں… لیکن ہم ایک بات کہنا چاہتے ہیں… میں نے کہا تو بات کیا کہنا چاہتا ہے… ممکن ہے کوئی مومن کہہ دے فلا ں صحابی قرآن کا حافظ تھا… میں نے کہا نہیں ہے… کہنے لگا میرا باپ تو حافظ تھااچھا تو پھر کیا ہوا… صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اولاد تو حافظ نہیں ہے… میرے باپ کے دس بیٹے دس قرآ ن کے حافظ… فلاں صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کتنے کئے؟میں نے کہا جی ایک کیا تھا… کہتا ہے میرے ابو نے پچاس کیے ہیں… صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عمرے کتنے کیے؟ میں نے کہا بھائی دو کیے… کہتا ہے میرے باپ نے تو سو کیے۔
اب کسی کے دل میں خیال نہ آئے… میرے باپ نے حج اتنے کیے… میرے باپ نے عمرے اتنے کیے… میرا باپ تو قرآن کاحافظ ہے… میرے بیٹے قرآن کے حافظ ہیں… تو تمہارے دل میں یہ خیال نہ آئے… کہ یہ عمل کی وجہ سے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑھ جائے گا… فرمایا ’’لاتسبوااصحابی‘‘اے ایمان والو ! تم بھی میرے صحابی کے بارے میں نازیبا جملہ نہ کہنا… ارے وجہ کیا ہے… اگر تم حفظ کرو گے… تو ایک قرآن پڑھ لو گے… کتنی مرتبہ پڑھ لو گے… دس ہزار مرتبہ پڑھ لو گے ارے نمازیں پڑھو گے تو کتنی پڑھ لو گے…؟ ارے صدقے دو گے تو کتنے دو گے… ؟ ارے قرآن کا پڑھنا تو آسان ہے وہ اللہ نے بھیجا ہے… قرآن پڑھنا تو آسان ہے اس پہ لگتا جو کچھ نہیں… روزہ رکھنا تو آسان ہے اس پہ کچھ بچ جاتا ہے… سب سے زیادہ مشکل تو خرچ کرنا تھا نا۔
خرچ میں قیمتی چیز:
ارے خرچ کرنے میں مال بھی نہیں ہے… چاندی بھی نہیں ہے… ارے دنیا میں قیمتی مال سب سے زیادہ سونا ہے نا… سونا ایک ذرہ بھی کوئی نہیں دیتا… ارے مال موجود ہو لوگ زکوٰۃ بھی نہیں دیتے… عورت کے پاس زیور ہو… عورت زیور پہ مرتی ہے… ارے اصلی نہ ہو تو نقلی زیور بناتی ہے… تمہارے ہاں تو سب سے قیمتی سونا ہی ہے نا… فرمایا کتنا خرچ کر لو گے… ؟ ارے ایک من خرچ کرو گے اتنا تو کوئی خرچ نہیں کرتا… دس من صدقہ کر لو گے یہ تو کوئی نہیں کرتا… اچھا تم کتنا خرچ کر لو گے… اس دور میں مدینہ منورہ میں سب سے بڑی مثال احد پہاڑ کی تھی… کیونکہ قرب وجوار میں بلندی احد پہاڑ کی تھی… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… ارے چاندی تو کم قیمت ہے… جو تو کم قیمت ہے باقی اعمال تو آسان ہیں… مشکل تو خرچ ہے… اس میں بھی سونا… یہ سب سے مشکل ہے… احد پہاڑ کے برابر سونا یہ کتنا بڑا عمل ہے۔
فرمایا اگر تم احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر لو… اور میرا صحابی ایک مٹھی جو آدھی مٹھی جو کی دے… یہ تمہارا حد پہاڑ کے برابر سونا میرے صحابی کی مٹھی بھرجو کے برابر بھی نہیں ہے… ارے تم نے قرآن پڑھا تو کیا ہوا… تیرا باپ حافظ ہوا تو کیا ہوا پچاس حج کئے تو کیا ہوا… ارے تیرے باپ نے سو عمرے کیے تو کیا ہوا… میرے صحابی کو عمرے پہ نہ تو لنا… میرے صحابی کو اعمال پہ نہ پرکھنا… ارے وجہ یہ ہے حاجی کو عظمت حج کی وجہ سے ملتی ہے… قاری کو عظمت قرآن کی وجہ سے ملتی ہے… نمازی کو عظمت نماز کی وجہ سے ملتی ہے… مجاہد کو عظمت جہاد کی وجہ سے ملتی ہے… ارے مصدق کو عظمت صدقے کی وجہ سے ملتی ہے… مبلغ کو عظمت تبلیغ کی وجہ سے ملتی ہے۔
آپ نے خرید کر انمول کر دیا :
ارے میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم پہ غور کرنا صحابی کو عظمت ملتی ہے صحبت نبوت کی وجہ سے ملتی ہے…ارے نماز کا مقام مانا وہ کم ہے… روزے کا مقام مانا وہ کم ہے… حج کا مقام مانا وہ کم ہے… صحبت نبوت کا مقام تو رب کعبہ کی قسم عرش سے بھی زیادہ ہے۔
اہل السنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ:
میرا عقیدہ ہے…اہل السنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ یہ ہے…کہ زمین پرعظمت والی جگہ یہ مسجد ہے… آگے جائیں تو بیت القدس ہے… آگے جائیں تو حرم مکہ ہے…آگے جائیں تو بیت اللہ ہے…آگے جائیں تواللہ کی کرسی ہے… آگے جائیں تو لوح محفوظ ہے… آگے جائیں تو عرش معلیٰ ہے…کیا یہ عقیدہ تیرا نہیں ہے…
میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کی مٹی کے ذرے…جن میں شعور بھی نہیں ہے… جن میں دیکھنے والی آنکھ بھی نہیں ہے… جن کے سننے والے کان بھی نہیں ہیں…
میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مٹی مبار ک کے ذرے۔ ارے مٹی کو تو لوگ بے جان کہتے ہیں مٹی کو تو لوگ بے شعور کہتے ہیں…
ہمارا عقیدہ یہ ہے مٹی کے قبر مبارک کے وہ ذرےجو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے ساتھ ملے ہیں… وہ مسجد نبوی سے بھی اعلیٰ ہیں… وہ مسجد القدس سے بھی اعلیٰ ہیں وہ بیت اللہ سے بھی اعلیٰ ہیں…
پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی مٹی کے ذرے جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ملے ہیں… وہ لوح محفوظ سے بھی اعلیٰ ہے… وہ اللہ کی کرسی سے بھی اعلیٰ ہیں… عرش معلیٰ سے بھی اعلیٰ ہیں۔
المہند ص 11
پھر میرے جھنگ کے سنی تو بتا… قبر مبارک کی مٹی کے وہ ذرے جن میں شعور بھی نہیں…جو لاشعور ہو کے اللہ کے عرش سے اعلیٰ ہیں۔
٭…صدیق تو شعور والا ہے۔ ٭…عمر تو عقل والا ہے۔
٭…عثمان تو علم والا ہے۔ ٭…علی تو عقل والا ہے۔
جس میں شعور نہیں ہے وہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ملتا ہے… وہ عرش سے بھی بڑھ جاتا ہے… اور صدیق کے کندھے پہ توخود پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سوار ہو تا ہے…ارے مٹی کے ذروں اور صحابی میں فرق کیا ہے… ؟ ارے مٹی میں تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم خود گئے ہیں…صحابی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہے… وہا ں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم گیا ہے تو مٹی کے ذروں کو وجود ملا ہے… یہاں صحابی خود چل کے آیا ہے… اس لئے میں کہتا ہوں میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… میرے صحابی کو نماز میں نہ دیکھنا… ارے روزے میں نہ دیکھنا۔
یہ رتبہ بلند ملا جسے مل گیا:
رمضان المبارک میں مدینہ منورہ میں تھا… میرے دوستوں نے فون کیا… کہتا ہے مولاناکہاں بیٹھے ہو… میں نے کہا مسجد نبوی میں… کہتا ہے کون سی جگہ… میں نے کہا یہ مسجد نبوی کا صحن ہے… جہاں پر چھتریاں بنی ہوئی ہیں…مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس طرف منہ کر لے جو قبلہ کی مخالف سمت ہے… اس میں دوسرا ستون ہے میں اس کے نیچے بیٹھا ہوں… وہ آگئے اس میں ایک میرا عقیدت مندسنی نوجوان تھا…اور ایک میرا مریض بھی تھا… جہاں ڈاکٹر جاتے ہیں تو مریض تو آیا کرتے ہیں… کبھی دوائی لینے اور کبھی شرارت کرنے… میرا مریض کہنے لگا یہاں کیوں بیٹھے ہو … ؟
میں نے کہا میری مرضی کہتا ہے… وجہ میں نے کہا نہیں بیٹا … میں تجھے وجہ بتاتا نہیں بلکہ دکھا تا ہوں… بتانا اور ہے دکھانا اور ہے… کیا معنی…؟میں نے کہا اٹھاؤ نظر یہ ستون ہے… جہاں پہ ڈاٹ ختم ہوتی ہے… کیا لکھا ہوا ہے… کہتا ہے نعمان بن ثابت رحمہ اللہ تعالیٰ (سامعین… سبحان اللہ )میں نے کہا یہاں کیا لکھا ہے…؟ کہتا ہے نعمان بن ثابت میں نے کہا… ادھر قبلہ کی طرف آ…ادھر کیا لکھا ہے ؟کہتا ہے ابو بکر رضی اللہ عنہ میں نے کہا ادھر… کہتا ہے عمر رضی اللہ عنہ… میں نے کہا ادھر کہتا ہے… عثمان میں نے کہا بائیں طرف… کہتا ہے علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ … میں نے کہا دائیں طرف کہتا ہے عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ … میں نے کہا بائیں طرف کہتا ہے حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ… اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں نے کہا آگے کیا ہے… کہتا ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا روضہ… میں نے کہا یہاں آگے کیا لکھا ہے… کہتا ہے نعمان بن ثابت۔
میں نے کہا پھر میں یہ بات کہہ سکتا ہوں نا۔کہ اللہ سے علم وعمل اس روضے والے کو ملا… اس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے اصحاب پیغمبر کو ملا… اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے نعمان بن ثابت کو ملا… میں کہہ سکتا ہوں میں شکریہ ادا کرتا ہوں نعمان بن ثابت کا… اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے لیتا ہے… میں شکریہ ادا کرتا ہوں وہ اس روضے والے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے لیتے ہیں… میں کہتا ہوں ارے ہاں ہاں ’’موتوابغیضکم‘‘ غیض غضب میں جل جا…مر جا… مرجا… جا میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کا رنگ بھی تو نہیں مٹا سکتا… اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے نام چمکتے رہیں گے یہ بھی تو روضے سے کھرچ نہیں سکتا… میرا نعمان بن ثابت بھی دمکتا رہے گا… اس کو بھی تونہیں کھرچ سکتا…ارے میں نعمان بن ثابت سے اصحاب تک پہنچا ہوں… اور اصحاب سے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچا ہوں۔
اس لئے کہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میری منزل کا نام ہے… ابو حنیفہ راستے کا نام ہے… میں کہتا ہوں ہم نے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو راستہ مان کے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو منزل مانا ہے… میرا مریض کہنے لگا بات سمجھ آگئی… میں نے کہا ارے مان بھی لے نا میں آج جھنگ میں بھی کہتا ہوں… اگر کوئی غیر مقلد ماں نے جنا ہو… ارے کوئی انگریز کا ایجنٹ موجود ہو… ارے جس مولوی کو تو نے مانا ہے… اس مولوی کانام مدینہ منورہ کی مسجد کی بیت الخلاء میں بھی نہیں ہے… اور جس کو امام میں نے مانا ہے… اس کا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کے سامنے… مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے ستون پر موجود ہے تو بتا میں تیرے ملا کو مانوں… یا اپنے امام نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کو مانوں…جو آج بھی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کے سامنے ہے… قیامت کے دن نبوت کے ساتھ حوض کوثر پر ہو گا۔
مسئلہ توسل :
مجھے کہتا ہے مجھے یہ بتاؤ اس میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مدفون ہیں… میں نے کہا جی ہاں کہتا ہے… اگر کوئی بندہ دعا مانگے اللہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی برکت سے میرا فلاں کام کر دے… اللہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے وسیلہ سے میرے گناہ معاف کر دے… اللہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے طفیل سے مجھے اولا د عطا کر دے… کیا یہ دعا مانگ سکتے ہیں… میں نے کہا تو بتا ؟ کہتا ہے جی نہیں… مانگ سکتے ہیں…؟ میں نے کہا تیرا یہ عقیدہ ہے کہتا ہے میرا ذہن یہ ہے… دعایہ مانگیں اللہ نماز کے وسیلہ سے… اللہ روزے کے وسیلہ سے… اللہ تلاوت کے وسیلہ سے… میں نے کہا کیا معنی… ؟عمل کے وسیلہ سے مانگیں تو ٹھیک ہے… کہتا ہے ٹھیک ہے… میں نے کہا روضہ والے کے وسیلہ سے مانگیں تو… ؟ کہتا ہے ٹھیک نہیں ہے… میں نے کہا میرے دوست یہ بتا… یہ روزہ خود آیا ہے یا کوئی لے کر آیا ہے… نماز خود آئی ہے یا کو ئی لے کر آیا ہے… کہتا ہے لے کر آیا ہے… میں نے کہا لے آنے والے کانام بتا دے… کہتا ہے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم… میں نے کہا روزے کا وسیلہ دیا جا سکتا ہے… تو لانے والے کا وسیلہ بھی دیا جا سکتا ہے… اگر جہاد کا دیا جا سکتا ہے… تو جہا د لانے والے کا دیا جا سکتا ہے۔
صحبت نبوی اور قرب خداوندی:
میں نے کہا تو یہ بتا تو نے نماز کا وسیلہ کیوں مانا… کہتا ہے نماز سے اللہ کا قرب ملتا ہے… میں نے کہا روزے کا وسیلہ کیوں مانا… کہتا ہے جی اللہ کا قرب ملتا ہے… میں نے کہا عمل کا وسیلہ کیوں مانا… کہتا ہے اللہ کا قرب ملتا ہے… میں نے کہا ایک عقیدہ تیرا ہے ایک عقیدہ میرا ہے… میرا عقیدہ یہ ہے نماز سے قرب ملتا ہے ضرور ملتا ہے۔ روزے سے قرب ملتا ہے ضرور ملتا ہے… لیکن ایمان کے بعد خدا کی قسم جو قرب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ملتا ہے وہ نماز سے بھی نہیں ملتا… وہ روزے سے بھی نہیں ملتا۔بلند آواز سے ملتا ہے کہ نہیں…؟ (سامعین ملتا ہے ) لیکن کجا نماز کجا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود…ارے کہاں روزہ کہاں…؟ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود… کہاں تلا وت کہاں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا وجود…میں نے کہا میرا دوست قرب ملتا ہے… لیکن جو قرب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے وجود سے ملتا ہے… وہ نماز اور روزے سے نہیں ملتامیں نے یوں بات نہیں سنائی میں اپنی دلیل دے کر تجھے بات سمجھا نے لگا ہوں۔
میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ لا تسبوا اصحابی‘‘ارے اپنے عمل پہ ناز کر کے کبھی میرے صحابہ کے بار ے میں غلط خیال نہ لانا… ارے وجہ یہ ہے تجھے قرب نماز سے ملے گا… صدقے سے ملے گا… ان کو تو قرب میری صحبت کی وجہ سے ملا ہے… ارے نماز کا قرب کجا میری صحبت کا قرب کجا… صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرب ملا ہے تو میرے وجود سے ملا ہے… عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ کو قرب ملا ہے میرے وجود سے ملا ہے…ارے یہ ساری اضافی چیزیں ہیں… اگر نماز نہ ہوتی یہ تب بھی صدیق تھا… روزہ نہ ہوتا یہ تب بھی صدیق تھا… اس کے لئے تو میری صحبت ہی کا فی تھی… بقیہ اعمال کئے تو بہت اچھا۔
اصحاب پیغمبر اعتراض سے مبراء ہیں :
اس لئے ہم کہتے ہیں کبھی توصحابی رسو ل پر اعتراض نہیں کر سکتا… اس لئے کہ تو اعتراض کرے گا… یا عقیدہ کی وجہ سے کرے گا… یا عمل کی وجہ سے کرے گا… عقیدہ کی وجہ سے بھی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی پر اعتراض نہیں ہے… عمل کی وجہ سے بھی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اعتراض نہیں ہے… لوگ پوچھتے ہیں کیوں؟ میں نے کہا وجہ یہ ہے…؟ اگر تو نے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مانا ہے… تو عقیدہ پر اعتراض نہیں… اس کی وجہ…؟ ارے عقیدہ میں خلل آجائے وہ صحابی رہتا ہی نہیں… اب صحابی مان لیا اب عقیدہ کی بحث ہی ختم ہے…ارے عقیدہ میں خلل آیا وہ صحابی نہیں رہا عمل پہ اعتراض نہ کر نا… اس کی وجہ ہم نے عمل کی وجہ سے صحابی مانا ہی نہیں ہے… نہیں سمجھے… !ہم نے عمل کی وجہ سے صحابی مانا ہی نہیں۔
افق نبوت پر نمودار روشن ستارے:
آپ نے کہا بھائی یہ بہت بڑے عالم ہیں… آپ نے مسئلہ پوچھا اس کو مسئلہ نہ آئے لوگ کہتے ہیں کیسا مولوی ہے اس کو مسئلہ نہیں آتا… یہ بہت بڑا قرآن کا حافظ ہے۔ یہ سورۃ فاتحہ میں بھول جاتا ہے یہ کیا قرآن کا حافظ ہے… ارے حافظ تو تب ہوتا جب ہم اس کو قرآن کا حافظ ہونے کی وجہ سے مانتے… یہ تو تب ہو تا جب ہم نماز کی وجہ سے مانتے… ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو مانا ہے… حج اضافی چیز ہے…روزہ اضافی چیز ہے… ہم نے تو صحبت نبوت کی وجہ سے مانا ہے… عقیدہ پر اعتراض کرے گا صحابی رہتا ہی نہیں ہے… عمل کی وجہ سے اعتراض کرے گا ہم نے عمل کی وجہ سے مانا ہی نہیں ہے… ہم نے اس لئے کہا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ معیار حق ہیں… یہ تو صحبت نبوت سے صحابی یوں چمکتا ہے جیسا کہ آسمان کا ستارہ ہے… ارے آسمان پہ ستارہ بھی ہے… چاند بھی ہے… ستارہ چاند کی وجہ سے چمکتا ہے… صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبوت کی صحبت کی وجہ سے چمکتا ہے… ارے نبوت کی صحبت ہٹا دے چمک ختم ہے۔
تو میرے دوستو!مجھے یہ بات کہنے دو… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیسی مثال دی ہے… ارے اگر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ھدایت ہے… تو صحابہ رضی اللہ عنہم نجوم ہدایت ہیں…یہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے مثال کیوں دی ہے… ارے ستاروں کو نور ملتا ہے وہ چاند سے ملتا ہے…تو میں یہ بات کہنے لگا ہوں… میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اگر چاند ہے… تو میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم یہ ستارے ہیں… ارے چاند اور ستارے میں فرق کیا ہے…؟ ارے اس بات کا خیال رکھنا ہمارا عقیدہ یہ تھا… ہرصحابی مومن ہے… ہمارا عقیدہ یہ تھا… ہر صحابی عادل ہے… ہمارا عقیدہ یہ تھا ہر صحابی حجت ہے… ہمارا عقیدہ یہ تھا ہر صحابی محفوط ہے… لیکن اگلی بات پر غور کرنا… ہر صحابی اکیلا معصوم نہیں ہے… نبی اکیلا معصوم ہے… ہر صحابی الگ الگ معصوم نہیں ہے… اگر یہ سارے کسی مسئلے پرجمع ہو جائیں… تو ایسے ہی معصوم ہیں جیسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم خود معصوم ہیں۔
مسئلہ سمجھ! پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ہدایت ہے… بولیں نا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم آفتاب ہدایت ہے صحابی ؟ (سامعین…نجوم ہدایت ہیں ) اس لئے نبوت معصوم ہے… صحابہ جمع ہو جائیں تو معصوم ہیں… جس طرح نبوت کے فیصلے کا انکار یہ عصمت فیصلے کا انکار ہے… ارے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جمع ہو جائیں تو عصمت نبوت کی طرح یہ بھی عصمت کا انکار ہے۔
توہین رسالت کی سزا سزائے موت کیوں؟ :
تو جہ رکھنا !ارے ایک مسئلہ نبوت کا ہے… ایک مسئلہ اصحاب نبوت کاہے … صحبت نبوت کی وجہ سے میرے اللہ نے وہ مقام وہب عطا ء کیا ہے… ہم اس لئے کہتے ہیں میرے دوستو! اس دلیل پہ غور کرنا… یہ جو ہم نے کہا ہے نبوت کی تو ہین کرے ارے سزائے موت دے دے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کی توہین کرے سزا ، سزائے عمر قید دے دے… لوگ پوچھتے ہیں ارے دونوں میں مناسبت کیا ہے؟ نبی کی توہین پہ سزائے موت کہتے ہو… صحابی کی تو ہین پہ سزائے عمر قید کہتے ہو… ارے یہاں تم سزائے موت تو نہیں کہتے۔
میں نے کہا ارے وجہ یہ ہے… نبوت کی توہین پہ سزائے موت اس وجہ سے کہ نبوت دینے والا تو میرا اللہ ہے… نبوت اللہ کا انتخاب ہے… انتخاب خداوندی کو دیکھ کر اس نے خالق کے انتخاب کا انکا ر کیا ہے… اس ظالم کو زندہ رہنے کا حق ہی نہیں ہے… اس کو سزائے موت دے دے… جو صحابہ کا گستاخ تھا… عمر قید کی بات کیوں کی ہے۔ میں نے کہا ارے ہاں ہاں! نبوت براہِ راست اللہ کا انتخاب ہے… اور صحابی بالواسطہ اللہ کا انتخاب ہے… نبوت انتخاب بلا واسطہ ہے صحابی بالواسطہ ہے…جب بالواسطہ ہو گا سزا کم ہو گی… بلا واسطہ ہو گا سزا بڑھ جائے گی… اگر بلاواسطہ کا انکار کیا تو سزا؛ سزائے موت ہے… بالواسطہ کا انکار کیا تو سزا؛ سزائے عمر قید ہے۔
صحبت نبوت کی اہمیت :
پھر لوگ پوچھتے ہیں تم اتنی سخت بات کیوں کہتے ہو؟ میں نے کہا نہیں نہیں ! میرے دوست ارے تو نے توجہ ہی نہیں کی… وجہ یہ ہے ارے دنیا میں نمازی بڑے نیک لوگ ہیں… روزے دار بڑے نیک لوگ ہیں… لیکن کبھی تم نے غور کیا… ارے یہ نیک آدمی ہے کیوں… ؟ ارے یہ نمازپڑھتا ہے… یہ نیک آدمی ہے کیوں… ؟ مخصوص ایام کے روزے رکھتا ہے…ارے یہ نیک آدمی ہے کیوں… ؟ا س نے تبلیغی جماعت میں سال لگا یا ہے… ہر سال چلہ لگا تا ہے… یہ نیک آدمی ہے اس نے دس مرتبہ جہاد کیا ہے… اس نے کہا پھر کیا ہوا… اس کی توہین کرتا ہے قرأت کی وجہ سے اس کو عظمت ملی ہے… یہ توہین قرأت کی ہے… روزے دار کی توہین کر تا ہے اس کو عظمت روزے کی وجہ سے ملی ہے یہ توہین روزے کی ہے… نمازی کی توہین کرتا ہے تو توہین نماز کی ہے… اس کی توہین کرتا ہے تونماز کی وجہ سے عظمت ملی ہے توہین نماز کی ہے… ارے اس کی توہین کرتا ہے توہین تبلیغ کی ہے کہ تبلیغ کی وجہ سے اس کو عظمت ملی ہے… یہ مجاہد ہے اس کی توہین کرتا ہے تو جہاد کی توہین ہے کیوں اس کو عظمت جہاد کی وجہ سے ملی ہے… میرے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا معاملہ جو جدا ہے۔
اگر تو نے صحابی کی توہین کی ہے توہین نماز کی نہیں ہے… اگر صحابی کی توہین کی ہے تو میرا دوست یہ روزے کی توہین نہیں ہے… یہ توہین صحبت نبوت کی ہے… ایک توہین صحبت نبوت کی ہے… ایک توہین نبوت کی ہےاگر توہین نبوت کی کرے تو سزا ، سزائے موت ہے… اگر توہین صحبت نبوت کی کرے تو تھوڑا سا نیچے آ کے سزا، سزائے عمر قید ہے… اس لیے ہم نے کہا صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے مقام پہ تو غور کر نا۔ ایک مقام نبوت کا ہے ایک مقام صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا ہے مقام نبوت بھی وہب ہے… مقام صحابیت بھی وہب ہے… اور ایک مقام شہادت ہے یہ مقام کسب ہے اور ایک مقام ولایت ہے یہ بھی مقام کسب ہے۔
تین طبقے:
1…ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن
2…صحابہ کرام رضی اللہ عنہم
3…اہل بیت رضی اللہ عنہم
1:ازواج مطہرات :
توجہ رکھنا !ایک ذوق کی بات کہنا چاہتا ہوں… نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جب توحید کا اعلان کیا… میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب رسالت کا اعلان کیا… میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ملنے والے… ارے تین طبقات آئے… ایک طبقہ وہ ہے جس نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت کو دیکھا… اسے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج کہتے ہیں… اسے پیغمبر کا حرم کہتے ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنھن… اسے امہات المومنین کہتے ہیں… یہ تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی خلوت کے مسئلے باہر پہنچا ئیں گی… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کیوں… ؟ فرما یا میں تو ہر آدمی کا نبی ہو… میں نے گھر کے مسئلے بھی دینے ہیں… میں نے باہر کے مسئلے بھی دینے ہیں۔
لیکن بہت سارے مسئلے ایسے ہیں جن کا تعلق حجاب سے ہوتا ہےمیں براہ ِراست مسئلہ دوں گا ہو سکتا ہے لوگ عجیب سمجھیں مسئلہ بیوی کو دو ں گا بیوی عورتوں کو دے گی عورت اپنے خاوند کو دے گی خاوند اپنے شاگردوں کو دے گا تو اس طرح مسئلہ بڑے ادب کے ساتھ دنیا میں پھیل جائے گا… اللہ اس کے لئے مجھے ازواج دے دے نا… جو میری خلوت کے مسئلوں کو باہر لے جائیں… فرمایا میرا محمد صلی اللہ علیہ وسلم میں تجھے ایک نہیں گیا رہ دوں گا… اس لیے کہ تیری خلوت کے مسئلے زیادہ ہیں ممکن ہے ایک سمیٹ نہ سکے… میں گیا رہ دیتا ہوں… اللہ نے گیا رہ ازواج دیں ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنھن انہوں نے خلوت کے مسئلے امت کو جلوت میں دیے ہیں۔
2…صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم :
اللہ تو نے مجھے دنیا میں بھیجا
’’ وما ارسلنک الا رحمۃ للعالمین ‘‘
سورۃ الانبیاء پ 17 آیت نمبر 107
رحمت بنا کے بھیجا… میں نے پوری دنیا میں دین دینا ہے… میں تو مدینہ میں ہوں…میں تو تبوک تک گیا ہو ں… میں کتنے سفر اکیلے کروں گا… میرا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تو رحمۃ للعالمین ہے… تو اکیلا نہیں جا سکتا میں نے تجھے جماعت دی ہے… یہ جماعت پوری دنیا میں جائے گی… پھر ہو گا کیا…؟ فرمایا پھر ہو گا کیا…؟ حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں ترمذ ی کی ر وایت ہے… حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مکہ میں گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں ہیں فرماتے ہیں۔
’’کان عثمان رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم‘‘
ترمذی ج 2ص 211
ارے زمین پہ اللہ کا رسول یہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہیں عثمان مکہ میں یہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا رسول ہے حضرت معاذ یمن میں گئے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
’’ الحمد للہ الذی وفق رسول رسولہ لما یحب ویر ضی رسول اللہ‘‘
ترمذی ج 1 ص379
ارے لوگو! مدینہ میں میں اللہ کا رسول ہوں… اور معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ یمن میں میرا رسول ہے… میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم آپ تو میرے نمائندے… میں کچھ نمائندے تجھے دوں گا… تو میری بات میں بد دیانتی العیاذ باللہ نہیں کرتا… وہ تیرے معاملہ میں دیانت کا معاملہ رکھیں گے… اللہ تو نے مجھے صحابہ دیے جو دین کو دنیا میں پھیلا دیں گے لیکن میں تو صرف پھیلا نے کے لئے نہیں ناآیا۔
ھو الذی ارسل رسولہ بالھدیٰ ودین الحق لیظہرہ علی الدین کلہ ‘‘
سورۃ التوبۃ پ 10 آیت 33
اللہ میں تو دین غالب کرنے کے لئے آیا ہوں… صرف پھیلا نے کے لئے تو نہیں آ یا…غالب بھی کرنا ہے فرما یا کیا ہو ا…؟میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم گھبرا نہیں۔
٭…میں تجھے صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوں گا… 1100000گیارہ لاکھ مربع میل پہ دین غالب کر دے گا۔
٭… میں تجھے عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوں گا… 2200000بائیس لاکھ مربع میل پہ دین غالب کر دے گا۔
٭…میں عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوں گا… 4400000چوالیس لا کھ مربع میل پہ دین غالب کر دے گا۔
٭… میں تجھے امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوں گا64,65,000چونسٹھ لاکھ پینسٹھ ہزارمربع میل پہ دین غالب کر دے گا… میں غلبہ دین کے لئے تجھے اصحاب دو ں گا… یہ بات تو ٹھیک ہے میری خلوت کے مسئلے باہر بھی چلے گئے… میرا دین دنیا میں پھیل بھی جائے گا… میرا دین غالب بھی ہو جائے گا۔
3…اہل بیت :
میری ایک تمنا بھی ہے یہ تو میرا مشن تھا نا… کہ دین دنیا پہ غالب ہو جائے۔ اللہ میری ایک تمنا بھی ہے کیا وہ پوری ہو سکتی ہے۔
’’والذی نفسی بیدہ لوددت انی اقتل فی سبیل اللہ‘‘
نسائی ج 2ص 60
کہا اللہ میں قسم اٹھا کر کہتا ہوں… میں قسم نہ بھی اٹھا تا تو میں تو تیرا سچا نبی ہوں… میں تو تیرا سچا رسول ہوں… اللہ میری تمنا یہ ہے… میرے جسم کے ٹکڑے کے دیے جائیں… اللہ میری تمنا پوری کر دے نا…اللہ نے قرآن میں فرمایا
’’ واللہ یعصمک من الناس ‘‘
سورۃ المائدۃ پ 6 آیت 67
میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم یہ تو میں پہلے اعلان کر چکا ہوں کہ… تجھے کا فر قتل نہیں کر سکتا… اللہ تیرا اعلان بھی ٹھیک ہے… لیکن میری تمنا بھی پوری کر دے نا… اللہ تیرا اعلان بھی برحق ہے… لیکن میری تمنا کا کیا بنے گا… ؟ اللہ نے فرمایا ٹھیک ہے… میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پھر میں تجھے یوں نہیں یوں دوں گا… اگر میں تجھے کٹوا دوں… کافر کہے گا میں نے نبی کو کاٹ دیا… محمدصلی اللہ علیہ وسلم یہ تو مجھ سے گوارا نہیں ہے… کہ لوگ تجھے کاٹ دیں… لیکن میں تیری تمنا پوری کر دوں گا… اللہ وہ کیسے…؟ حضرت ام فضل رضی اللہ تعالیٰ عنہا؛ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی ہیں… حضرت خدیجۃ الکبریٰ کے بعد… دوسرے نمبر پر کلمہ پڑھنے والی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیہ ہیں۔
مدینہ منورہ میں آئی بڑی پریشان تھیں… حضور مجھے دکھ ہوا ہے… فرمایا ہوا کیا فرمایا میں نے رات خواب دیکھا… ہوا کیا آپ کے بدن کا ایک ٹکڑا کٹا ہے… اور کٹنے کے بعد میری گود میں گرا ہے… میں تو بڑی غم زدہ ہوں… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی… فرمایا تجھے مبارک ہو… فرمایا کس بات کی… فرمایا میرا لخت جگر پیدا (حسین ) ہو گا… لیکن تیری گود میں پرورش پائے گا… تجھے مبارک ہو… حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے جگر کا ٹکڑا ہے…میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے بدن کا حصہ ہے۔
نبی کی تمنا کو اللہ نے پوراکردیا…مگرکیسے؟ :
جب قاتل آجائے تو باپ کہتا ہے… ارے میرے بیٹے کو نہ مارنا… مجھے مار دے ارے یہ میری نشانی ہے… دنیا میری نشانی کو دیکھ لے… یہ میرے جسم کا حصہ ہے ارے بیٹے کا کٹ جانا یہ باپ کا کٹ جانا ہے… بیٹے کا قتل ہو جا نا یہ باپ کا قتل ہوجا نا ہے میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے تمنا کی ہے
والذی نفسی محمد بیدہ لوددت ان اقتل فی سبیل اللہ
اللہ میرا جی چاہتا ہے مجھے کاٹ دیا جائے… تو نے اعلان فرمایا تھا نا… کہ میں تجھے نہیں کٹنے دو ں گا…میرے اللہ تمنا کا کیا کریں فرمایا میں نے تجھے حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ دیا ہے تیر ا مشن تھا نا کہ میری خلوت کے مسئلے باہر جائیں تجھے ازواج دیں ہیں۔ تیرا مشن تھا کہ میرا دین دنیا پہ غالب آجائے میں نے تجھے اصحاب دیے… تیری تمنا ہے مجھے دین کے لئے کاٹ دیا جا ئے… میں نے اس کے لیے تجھے آل دی ہے۔
تو میرے دوستو! ایک کام ازواج پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ہے… ایک کام اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ہے… ایک کا م آل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ہے… ازواج پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے خلوت کے مسئلے باہر دیے… اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے نبی کے دین کو غالب کیا ہے… آل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے خود کٹ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا کو پورا کیا ہے۔
جوچلے تو جاں سے گزر گئے:
پھر میں دوسرے لفظوں میں کہتا ہوں ایک ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ایک ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا… دنیا پہ دین غالب ر ہنا یہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا مشن ہے… دین پہ کٹ جانا یہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا ہے… حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یکم محرم کو… خود کو کٹوا کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کیا ہے… اور حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دس محرم کو… خود کو کٹوا کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تمنا کو پورا کیا ہے… پھر تیرے ذہن میں سوال آئے گا… نہیں آیا تو آنا چاہیے۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا دن یکم محرم ہے… حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ بھی شہید ہیں… شہادت کا دن دس محرم ہے… تیرے ذہن میں سوال آنا چاہیے… یہ یکم کو کیوں؟ وہ دس کو کیوں ہے…؟ اگر تو تاریخ پہ غور کرے تو اسلامی تاریخ میں پہلا وہ شخص جس کو امت نے امیر المومنین کا لقب دیا… وہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ…؟ ارے امیر المومنین کے لقب کا آغاز بھی عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ہے… اسلامی مہینوں کے اعتبار سے… شہادت کی داستاں چلی تو یکم محرم کو پہلے شہید عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں… ارے وجہ یہ ہے یکم محرم پہلے ہے دس محرم بعد میں ہے… ارے پہلے شہید ،شہید مشن پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہے… اور دوسرا شہید وہ شہید تمنا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہے… مشن مقدم ہو تا ہے… تمنا موخر ہوتی ہے… مشن پہلے ہوتا ہے… تمنا بعد میں ہوتی ہے… مشن پہ کٹنے والا پہلے کٹا… تمنا پہ کٹنے والا بعد میں کٹا (نعرے) مشن اور ہے… تمنا اور ہے… بولیں نا مشن اور ہے تمنا ؟
مشن مقدم ہوتا ہے اور تمنامؤخر:
یہ جامعہ محمودیہ بنا ہے پوچھو مولانا سے ’’محمودیہ ‘‘کیوں بنا ہے…؟ تو فرماتے ہوں گے میرا جی چاہتا ہے جھنگ کا ہر بچہ قرآن کا حافظ بنے… ہر بچہ نمازی بنے… مولانا دنیا سے چلے گئے… اللہ حضرت جھنگوی رحمہ اللہ کے درجات کو بلند فرمائے… اللہ ان کے مشن کو دنیا میں عام کرے… مولانا عبد الرحیم صاحب دامت برکاتہم (شیخ الحدیث جامعہ محمودیہ ) موجود ہیں… میں نے آپ سے پہلے کہا تھا میں بلا وجہ کسی کی مدح نہیں کرتا… میں کماؤ قسم کا خطیب نہیں ہوں… آپ میرے ساری سی ڈیز سن لیں… میرے سارے بیان ریکا رڈ پر موجود ہیں… میں سوچ سوچ کے کسی کے بارے میں جملہ کہتا ہوں… ہم وہ جملے نہیں کہتے کہ بعد میں ہمیں پشیمانی اٹھا نی پڑے۔
لیکن دکھ یہ ہے ہم زندگی میں قدر نہیں کرتے… لیکن جب بندہ آنکھوں سے اوجھل ہو جا تا ہے… پھر اس کے جنا زے پہ کھڑے ہو کے لوگ آنسو بہاتے ہیں… ارے آنسو بہانے سے قبل دنیا میں قدر کر لونا… جو بات سمجھنا چاہتا ہوں مولانا جھنگوی رحمہ اللہ سےپوچھوحضرت مدرسہ کیوں بنا یا…؟ وہ فرماتے ہوں گے میری تمنا ہر بچہ قرآن کا حافظ بن جائے…یہ مولانا کا مشن ہو گا… یہ محمودیہ کا مشن ہے… اچھا مولاناسے پوچھو حضرت آپ کیا چاہتے ہیں… ؟ یہ فرمائیں گے دورہ حدیث تک درجے چلے گئے… یہ ہمارا مشن تھا سارے درجے آگئے… یہ ہمارا مشن تھا… قرآن کی کلاس چل پڑی یہ ہمارا مشن تھااچھاآپ چاہتے کیا ہیں…؟ کہا میرا دل چاہتا ہے یہ مسجد دو منزلہ بن جائے… یہ دارالاقامہ دو منزلہ بن جائے… میری تمنا ہے اب دورہ تک طلباء بھی ہیں حافظ بھی ہیں۔
اب دیکھو دورے تک لے جانا یہ مشن تھا نا… حفظ قرآن کو عام کرنا یہ مشن تھا۔ اور مسجد کوکئی منزلہ لے جانا یہ تمنا تھی… مشن مقدم ہے اور تمنا موخر ہوتی ہے… میں کہتا ہوں ایک کا م ازواج پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا… ایک کام اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا… ایک کام آل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے کیا… اصحاب پیغمبر نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو پورا کیا اور جان دے کر پورا کیا… آل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے تمنا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو پورا کیا اور جان دے کر پورا کیا… تو مشن پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم والا اول ہے… تمنا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم والا بعد میں ہے… اس میں کوئی گستاخی کی بات نہیں ہے۔
اس لئے ہم اہل السنت والجماعت اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانتے ہیں…آل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو بھی مانتے ہیں…تو میں کہہ رہا تھا اس قرآن کریم کی آیت کی روشنی میں بلند وبالا مقام کتنے ہیں؟ (چار)
1… مقام نبوت 2… مقام صحابیت 3… مقام شہادت 4… مقام ولایت
یہ چار مقام میرے ا للہ نے بیان کئے ہیں لیکن ان سے محبت کرنا تو ہمارے ذمہ میں ہے ان سے محبت کرے گا تو پھر مقام شہادت بھی مل جائے گا ان دو سے محبت کرے گا تو پھر مقام ولایت بھی مل جائے گا اگر ان دو سے نفرت کرے گا نا تو تیرا ایمان بھی چھن جائے گااگر ان سے پیار کرے گا تو اگلے مقام بھی تجھے مل جائیں گے ان سے بغض کرے گا تو خدشہ ہے جو تھوڑا بہت ایمان ہے وہ بھی سلب ہو جائے تو دعا یہ کر اللہ مجھے اور تجھے مقام نبوت اور مقام صحابیت کو سمجھ کر ان سے محبت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اللہ مجھے اور تجھے مقام شہادت اور مقام ولایت عطا فرمائے۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین