امام کے پیچھے قراءۃ نہ کرنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
امام کے پیچھے قراءۃ نہ کرنا
بمقام: دارالعلوم شاہدرہ، لاہور
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم واذا قرء القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا لعلکم ترحمون۔
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
تمہید:
ہمارے آج کے مسئلے کا عنوان ہے ترک قراءۃ خلف الامام۔ امام کے پیچھے مقتدی قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے۔ عموما بعض حضرات اس مسئلہ کو خلط ملط کرنے اور عوام کی نگاہ سے اصل مسئلہ اوجھل کرنے کے لیے عنوان قائم یہ کرتے ہیں، فاتحہ خلف الامام کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنی چاہیے جبکہ عنوان
فاتحہ خلف الامام یا ترک الفاتحہ خلف الامام نہیں ہے اصل عنوان ترک القراءۃ خلف الامام یا القراءۃ خلف الامام
ہے۔ اصل عنوان یہ ہے کہ امام کے پیچھے قرآن کریم پڑھنا چاہیے یا امام کے پیچھے قرآن کریم نہیں پڑھنا چاہیے۔
عجیب بات یہ ہے آپ حضرات گھر جب تشریف لے جائیں کسی عالم سے رابطہ کرنے کے بعد کتب احادیث منگوائیں اور ان کا مطالعہ فرمائیں۔ کسی محدث نے کتب حدیث میں یہ عنوان قائم ہی نہیں کیا کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھیں یا فاتحہ نہ پڑھیں، عنوان یہی چلتا ہے ترک القراءۃ خلف الامام یا القراءۃ خلف الامام تو جو عنوان محدثین نے دیا ہے اور جو عنوان محدثین نے قائم کیا ہے اس کی ترتیب کے مطابق ہی گفتگو کرنی چاہیے۔ اس لیے ہم نے عنوان یہ نہیں رکھا کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھنی چاہیے بلکہ اہل السنۃ والجماعۃ احناف کا مؤقف یہ ہے کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے اور 114 سورتوں میں سے سورۃ فاتحہ بھی اسی طرح قرآن کریم کا حصہ ہے جس طرح الم سے لے کر والناس تک باقی 113 قرآن کا حصہ ہیں تو امام کے پیچھے قرآن کریم کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے۔
ترک قراءۃ خلف الامام اور قرآن
اس کے لیے میں نے سب سے پہلے قرآن کریم پارہ نمبر 9 سورۃ الاعراف آیۃ نمبر 204 تلاوت کی ہے جس میں اللہ رب العزت ارشاد فرمارہے ہیں:
ترجمہ: اور جب قرآن کریم کو پڑھا جائے اس کو سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر اللہ کی رحمت نازل ہو۔ تمہارے اوپر رحم کیا جائے }
اس آیۃ کریمہ کی تفسیر بیان کرنے کے لیے حسب وعدہ میں صحا بہ کرام کا تذکرہ کروں گا میں نے اس عنوان پر گفتگو شروع کرنے سے قبل آپ حضرات سے وعدہ کیا تھا کہ قرآن کریم کی آیت اپنے مسئلہ پر میں پیش کروں گا اس کی تفسیر اپنی طرف سے نہیں کروں گا بلکہ اس کی تفسیر اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی خدمت میں پیش کروں گا۔ قرآن کریم کی یہ جو آیت ہے واذا قرئ القرآن بظاہر اس آیت کو پڑھنے سے یہ محسوس ہوتا ہے ہر حال میں قرآن کریم کو جب بھی پڑھا جائے باقی لوگ سنیں، خواہ قرآن کریم نماز کے اندر پڑھا جائے یا نماز کے باہر پڑھا جائے جب کہ یہ حقیقت کی بات نہیں ہے اور جو بات میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی ہے۔بالکل یہی بات مشہور مفسر قرآن عبد اللہ بن احمد النسفی نے ذکر کی ہے جو بات میں نے آپکی خدمت میں نقل کی ہے۔ کہتے ہیں:
معنی ظاہرہ وجوب الاستماع والانصات وقت قراءۃ القرآن فی الصلوۃ وغیرھا
قرآن کریم کے ظاہر سے محسوس ہوتا ہےکہ قرآن کریم کی تلاوت نماز میں ہو یا نماز سے باہر کی جائے تو تلاوت سننے والے پر خاموش رہنا واجب ہے۔ جب کہ یہ معنی قرآن کریم کی آیت کا نہیں ہے اس آیت کا حکم کب ہے او رکس وقت کے لیے ہے اس کی تفسیر صحابہ کرام سے سماعت فرمائیں۔ امام عبد اللہ بن احمد النسفی جن کی وفات 710ھ میں ہے اپنی معروف کتاب” مدارک التنزیل وحقائق التاویل" میں تحریر فرماتے ہیں:
وجمہور الصحابۃ رضی اللہ عنہم علی انہ فی استماع المؤتم
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک دو نہیں اکثر اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے یہ تھی کہ یہ آیت مقتدی کے سننے کے بارے میں ہے کہ جب نماز کے اندر امام قرآن کی تلاوت کررہاہو تو مقتدی امام کا قرآن سنے او ر امام کے پیچھے قرآن کریم کی تلاوت نہ کرے۔
مدارک التنزیل وحقائق التاویل جلد نمبر1 صفحہ نمبر 458
علامہ ابن تیمیہ اور ترک قراءۃ خلف الامام
امام احمد ابن تیمیہ جن کی وفات728ھ میں ہے مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ میں تحریر فرماتے ہیں کہ قال احمد اجمع الناس علی انھا نزلت فی الصلوۃ اس بات پر امت کا اجتماع ہے کہ یہ آیت کریمہ نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ نماز کے بارے کا مطلب کیا ہے ایک امام نماز پڑھ رہاہے مقتدی اسی نماز کے اندر شامل ہے حکم یہ ہے امام قرآن پڑھے اور مقتدی اس کی سماعت کرے۔
مجموعہ فتاوی ابن تیمیہ جلد نمبر 22 صفحہ نمبر 295
میں نے اسی نماز کی بات کیوں کی ہے؟ عموما غیر مقلدین یہ اعتراض کر گزرتے ہیں کہ جب امام قرآن پڑھ رہا ہو اس کی تلاوت کو سننا واجب ہے تو احناف کے ہاں مسئلہ یہ ہے فجر کی نماز میں امام نماز پڑھا رہاہو بعد میں اگر کوئی شخص آئے گا تو اگر اتنی گنجائش موجود ہو کہ کوئی شخص سنتیں پڑھ کر جماعت کے ساتھ شریک ہوسکتا ہو تو سنتیں پڑھے اور جماعت کے ساتھ شریک ہو۔
کہتا ہے کہ جب سنتیں پڑھے گا تو امام قرآن کریم پڑھ رہا ہے تو یہ تو قرآن نہیں سنے گا پھر نہ سننے کی وجہ سے گناہ گار ہوگا ہم نے کہا اس آیت کا معنی یہ ہے امام نماز پڑھارہاہو اسی نماز میں مقتدی امام کے پیچھے موجود ہو اس وقت حکم یہ ہے کہ امام کی قراءۃ کو سننا واجب ہے۔ اگر امام نما ز پڑھارہاہو کوئی آدمی الگ سنتیں پڑھ رہاہوتو اس حکم کے اندر داخل نہیں۔ نماز کے بعد حفظ کی درس گاہ ہے دس طالب علم اکٹھے قرآن کریم پڑھ رہے ہیں ان کے لیے حکم نہیں ہے کہ ایک پڑھے اور باقی خاموشی سے سنیں بلکہ حکم اس صورت میں ہے جماعت کی نماز ہو امام قرآن پڑھ رہا ہو مقتدی امام کے پیچھے ہو اس مقتدی کے لیے امام کے پیچھے خاموش رہنا واجب ہے۔
اس آیت کریمہ کے بعد دوسری بات یہ سمجھیں کہ سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا بالکل اسی طرح قرآن کریم کا پڑھنا ہے جس طرح الحمد سے لے کر والناس تک قرآن کریم کا پڑھنا ہے۔ میں آسان لفظوں میں یوں کہتا ہوں کہ قراءۃ فاتحہ بھی قراءۃ قرآن ہے اور اس پر میں دلائل احادیث مبارکہ سے آپ کی خدمت میں عرض کرتاہوں۔
رسول اللہ کا سورۃ فاتحہ کو قراءۃ شمار کرنا
امام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ جن کی وفات 256ھ میں ہے صحیح بخاری میں یہ روایت نقل کرتے ہیں:
وبہ قال حدثنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یسکت بین التکبیر وبین القراءۃاسکاتۃ فقلت بابی انت وامی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسکاتک بین التکبیر وبین القراءۃ ما تقول
صحیح بخاری باب مایقرء بعد التکبیر جلد نمبر 1 صفحہ نمبر 103
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ اکبر فرماتے اور اس کے بعد کچھ دیر خاموش رہتے پھر قراءۃ شروع کرتے تو میں نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ درمیان میں جو آپ خاموشی اختیار کرتے ہیں یعنی تکبیر اور قراءۃ کے درمیان تو اس وقت آپ کیا فرماتے ہیں؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت میں دعا پڑھتا ہوں:
اللھم باعد بینی وبین خطایای کم باعدت بین المشرق والمغرب
ہم کہتے ہیں کہ نماز پڑحنے والا اس مقام پر
سبحانک اللھم وبحمدک
پڑھ لے یا اور ادعیہ ماثورہ جو اس مقام پر منقول ہیں وہ پڑھ لے۔ میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے سورۃ الفاتحہ کو قراءۃ سے تعبیر کیا ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ ابو ہریرہ سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا قراءۃ نہیں ہے۔
خلفاء راشدین اور قراءۃ سورۃ فاتحہ
امام محمد بن عیسی ترمذی جن کی وفات 279ھ میں ہے جامع ترمذی میں نقل کرتے ہیں:
عن انس رضی اللہ عنہ قال کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابوبکر وعمر وعثمان یفتتحون القراءۃ بالحمدللہ رب العالمین
حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہم قراءۃ کو
الحمد للہ رب العالمین
سے شروع فرماتے تھے۔
جامع ترمذی، باب فی افتتاح القراءۃ بالحمد للہ رب العالمین جلد 1صفحہ68
تو بخاری اور ترمذی کی روایت کے مطابق سورۃ الفاتحہ کا پڑھنا قراءۃ ہے۔
کیا امام کی قراءۃ مقتدی کو کافی ہے؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ جب فاتحہ کا پڑھنا قراءۃ ہے امام بھی قراءۃ کرے مقتدی بھی قراءۃ کرے کیا امام کی قراءۃ کرتے ہوئے مقتدی کے لیے الگ قراءۃ کرنا ضروری ہے یا امام کی قراءۃ مقتدی کے لیے کافی ہے اور مقتدی کو قراءۃ کرنے کی ضرورت نہیں؟
دلیل اول
اس کےلیے احادیث میں آپ کی خدمت میں پیش کرتا ہوں:
حضرت ابوبکر عبد اللہ بن محمد ابن ابی شیبہ جن کی وفات 235ھ میں ہے اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں تحریر فرماتے ہیں:
عن جابر رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال کل من کان لہ امام فقراءتہ لہ قراءۃ۔
مصنف ابن ابی شیبہ باب من کرہ القراءۃ خلف الامام جلد نمبر 1صفحہ414
دلیل ثانی
حضرت ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی جن کی وفات 321ھ میں ہے اپنی معروف کتاب شرح معانی الآثار میں فرماتے ہیں:
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ ا ن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ۔
شرح معانی الآثار،باب القرأخلف الامام جلد 1صفحہ 159
دلیل ثالث
حضرت احمد بن ابی بکر جن کی وفات 840ھ میں ہے اپنی کتاب
المطالب العالیۃ بزوائد المسانید الثمانیۃ
میں نقل فرماتے ہیں
عن جابر رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ
المطالب العالیہ بزوائد المسانید الثمانیۃ،باب ترک القراءۃ خلف الامام جلد 2 صفحہ 216
اور یہ حدیث امام بخاری اور مسلم رحمہ اللہ کی شرائط کے مطابق ہے۔
خلاصہ روایات
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں کہ ان روایا ت کا خلاصہ یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من کان لہ امام فقراءۃ الامام لہ قراءۃ جس کا امام موجود ہو اس کے امام کی قراءۃ اس مقتدی کی قراءۃ ہے گو یا امام کے ہوتے ہوئے اور امام کے قراءۃ کرتے ہوئے مقتدی کو قراءۃ کی ضرورت نہیں بلکہ امام کی قراءۃ مقتدی کی قراءۃ ہے اس میں الحمد ہو الم ہو اس میں قل اعوذ برب الناس ہو 114 سورتوں کا یہی حکم ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے کہ امام کی قراءۃ مقتدی کی قراءۃ ہے۔ اس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے۔
ترک قراءۃخلف الامام
سورۃ فاتحہ کے بارے میں بعض حضرات کو اشکال رہتاہے آپ نے ایسی احادیث پیش کی ہیں کہ اس میں مطلقاً امام کی قراءۃ کو مقتدی کی قراءۃ کہاگیا ہے کوئی ایسی حدیث پیش کریں جس میں صاف طورپر امام کے پیچھے سورۃ فاتحہ کی قراءۃ کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہو۔
دلیل اول
امام ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی جن کی وفات 321 ھ میں ہے شرح معانی الآثار میں فرماتے ہیں:
عن جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم انہ قال من صلی رکعۃ فلم یقرأفیھا بام القرآن فلم یصل الا وراء الامام
حضرت جابر فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے ایک رکعت نماز پڑھی اور اس میں ام القرآن یعنی فاتحہ کو نہیں پڑھا اس کی گویا نماز ہی نہیں۔ ہاں اگر امام کے پیچھے ہو تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ فرمایا کہ ہر شخص کو نماز میں ہر رکعت میں فاتحہ پڑھنی چاہیے لیکن اگر امام کے پیچھے ہو پھر اس شخص کو فاتحہ پڑھنے کی حاجت نہیں۔
شرح معانی الآثار باب قراءۃ خلف الامام جلد نمبر 1 صفحہ 159
دلیل ثانی
حضرت عبد الوہاب ابن مندہ وفات 475ھ اپنی کتاب الفوائد میں حضرت جابربن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں:
سمعت رسول اللہ وھو یقول من صلی صلاۃ لم یقرأفیہا بفاتحۃ الکتاب فلم یصل الا وراء الامام
جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں فاتحۃ الکتاب کو نہ پڑھا گویا اس نے نماز کو نہیں پڑھا الایہ کہ امام کے پیچھے ہو معلوم ہوا کہ امام کے پیچھے فاتحۃ الکتاب پڑھنا ضروری نہیں۔
الفوائد لابن مندہ جلد 2صفحہ 133
دلیل ثالث
احمد بن حسین بن علی البیہقی جن کی وفات 458ھ میں ہے، اپنی کتاب کتاب القراءۃ خلف الامام میں حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
من صلی صلاۃ لم یقراء فیہا بفاتحۃ الکتاب فلم یصل الا وراء الامام
کتاب القراءۃ خلف الامام صفحہ 136
جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوتی الا یہ کہ وہ شخص امام کے پیچھے ہو۔
یہ تین روایات جو میں نے حضرت جابر رضی اللہ کی نقل کی ہیں، ایک روایت میں صلوۃ کا لفظ ہے ایک میں رکعۃ کا لفظ ہے نماز پڑھی یا رکعت، اس نے پڑھی او رفاتحہ نہ پڑھی نماز نہیں ہوگی۔اگر امام کے پیچھے موجود ہو تو فاتحہ پڑھنے کی حاجت نہیں۔
دلیل رابع
حضرت محمد بن یزید قزوینی جن کی وفات 273 ھ میں ہے اپنی کتاب سنن ابن ماجہ میں حضرت ابو ہریرہ رضی عنہ سے نقل کرتے ہیں:
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انما جعل الامام لیؤتم بہ فاذا کبر فکبروا واذا قراء فانصتوا واذا قال غیر المغضوب علیہم ولا الضالین فقولوا اٰمین
سنن ابن ماجہ، باب اذا قراء الامام فانصتو ا جلد 1صفحہ 61
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امام اس لیے بنایا جاتا ہے کہ امام پر اعتماد کیا جائے۔ جب امام اللہ اکبر کہے تم بھی اللہ اکبر کہو اور جب امام قرآن شروع کرے تم خاموش ہو جاؤ اور جب امام غیر المغضوب علیہم ولاالضالین پڑھے تب تم آمین کہہ دو۔
تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تقسیم فرما دی ہے امام الحمد سےلے کر ولاالضالین تک پڑھے گا اور مقتدی نہیں پڑھے گا خاموش رہے گا جب امام ولاالضالین پڑھ چکے تو مقتدی آمین کہے گا یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک تھا کہ امام کے پیچھے مقتدی کو سورۃ فاتحہ پڑھنے کی حاجت نہیں ہے۔
فعل رسول اور ترک قراءۃ خلف الامام
دلیل اول
ترک قراءۃ خلف الامام پر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا عمل کیا ہے؟ امام محمد بن یزید قزوینی المعروف ابن ماجہ جن کی وفات 273ھ میں ہے اپنی کتاب سنن ابن ماجہ میں فرماتے ہیں:
قال ابن عباس واخذ النبی صلی اللہ علیہ وسلم من القراءۃ من حیث کان بلغ ابوبکر
سنن ابن ماجہ ج۱ص87
کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قراءۃ کو وہاں سے شروع فرمایا جہاں سے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے۔
دلیل دوم
حضرت امام احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ جن کی وفات 241ھ میں ہے اپنی کتاب مسند احمد میں نقل فرماتے ہیں:
قال ابن عباس واخذ النبی صلی اللہ علیہ وسلم من القراءۃ من حیث بلغ ابو بکر
مسند احمد بن حنبل ج1ص463
دلیل سوم
حضرت امام احمد حسین البیہقی وفات 458 ھ اپنی کتاب السنن الکبری میں نقل کرتے ہیں:
باب ماروی فی صلوۃ الماموم قائما فان صلی الامام جالسا عن علقمۃ بن شرحبیل قال سافرت مع ابن عباس الی ان قال فاستفتح النبی صلی اللہ علیہ وسلم من حیث انتہی ابوبکر من القرآن۔
السنن الکبری جلد 3 صفحہ 81
روایات کا خلاصہ
ان تین روایات کا خلاصہ یہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفات میں تھے اور حدیث مبارک میں تصریح موجود ہےکہ اسی مرض میں خاتم الانبیاء اس دنیا سے رخصت ہوئے۔ مرض الوفات میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کو حکم دیاقل ابا بکر یصلی بالناس ابوبکر سے کہو میرے مصلے پر جاکر نماز پڑھائے۔صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھانا شروع کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے سے تشریف لائے صحابہ کرام نے سبحان اللہ کہہ کر تسبیح کہی صدیق اکبر رضی اللہ عنہ پیچھے ہٹے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے صدیق دائیں جانب مقتدی بنے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بائیں جانب کھڑے ہوکر امام بنے باقی صحابہ پیچھے تھے تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ تلاوت شروع فرماچکے تھے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:
اخذ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم من القراءۃ من حیث کان بلغ ابوبکر
جہاں تک ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے قراءۃ فرمائی تھی اللہ کے پیغمبر نے وہاں سے شروع کی ہے دوبارہ سورۃ الفاتحہ نہیں پڑھی آج غیر مقلدین کہتے ہیں اگر امام قراءۃ شروع کرچکا ہو آپ حضرات امام کے پیچھے شریک ہوں پہلے فاتحہ پڑھیں پھر امام کے پیچھے باقی نماز پڑھیں۔ یہاں تک کہا گیا ہے اگر امام رکوع میں ہو اور آپ فاتحہ پڑھے بغیر رکوع میں چلے گئے آپ کی نماز نہیں ہوگی یہ کہنے کی باتیں ہیں لیکن دلائل نہیں دے سکتے۔
وہاڑی میں غیر مقلد کافرار
مجھے وہاڑی کے قریب ایک جگہ ہے ماجھی وال وہاں سے فون آیا مولانا اسلم صاحب کا چند دن قبل ایک سنی، حنفی، آدمی ،امام نماز پڑھا رہا تھا یہ رکوع میں جاکر شامل ہوا بعد میں اس نے امام کے ساتھ سلام پھیرا غیر مقلد نے کہا چونکہ تم نے فاتحہ نہیں پڑھی اس لیے تمہاری نماز نہیں ہوئی۔
تاریخ طے ہوگئی، یکم فروری مناظرے کا دن طے ہوا مجھے ان حضرات نے فون پر حکم دیا میں نے کہا ہم بھی ان شاء اللہ آپ کی خدمت میں پہنچیں گے مگر مجھے چڑھتے سورج کی طرح یقین ہے کہ غیر مقلد مناظرے کے اندر نہیں آئیں گے تاریخ موجود ہے یکم فروری کی تاریخ درج ہے مگر غیر مقلدین نےکہا ہم اس موضوع پر مناظرے کے لیے تیار نہیں ہیں، الحمد للہ میں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے کہتا ہوں میں خواہ مخواہ نہیں کہتا۔
عبد الحکیم میں غیر مقلدین کا مناظرہ سے فرار
اسی اتوار 4جنوری کوشہرعبد الحکیم ؛آپ رابطہ کریں؛ ہمارا مناظرہ طے تھا نماز مکمل کے عنوان پر تحریر درج تھی دستخط میرے اس پر موجود تھے یہاں تک لکھا کہ اگر کوئی مناظر نہ آئے یا ہار جائے تو مخالف فریق اپنا مسلک بدل دے گا، 4جنوری 11بجے جناح کالج عبد الحکیم میں پہنچا اور تولمبہ مدرسہ کے اساتذہ کرام اس کے اندر موجود تھے محمد مجتبی شاہ صاحب، مولانا ریاض صاحب، آپ ان تمام احباب سے رابطہ کریں ہم نے پونے گھنٹہ تک کھڑے ہوکر بیان کیا۔ عبد الحکیم شہر کا چکر لگایا مگر غیر مقلدین کو میدان مناظرہ میں آنے کی جرأت نہیں ہوئی اور ان شاء اللہ ثم انشاءاللہ آئندہ بھی نہیں آئیں گے۔
خیر میں عرض کررہاتھا کہتے ہیں اللہ کے پیغمبر نے ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی قراءۃ جہاں تک ہوئی تھی وہاں سے آگے قراءۃ کی ہے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بھی فاتحہ نہیں پڑھی بلکہ امام کی فاتحہ پر اعتبار کرلیا۔
تقریر رسول اور ترک قراءۃ خلف الامام
تقریر رسول فی ترک القراءۃ خلف الامام یعنی نبی کی موجودگی میں صحابی عمل کرے نبی خاموش رہے اس کا نام ہے تقریر پیغمبر، نبی عمل فرمائے اس کا نام ہے فعل پیغمبر، نبی ارشاد فرمائے اس کانام ہے قول پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، صحابی عمل کرے پیغمبر خاموش رہے اس کانام ہے تقریر پیغمبر، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں صحابی نے امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی پیغمبر خاموش رہے اس بات کی دلیل ہے کہ پیغمبر نے مہر تصدیق ثبت کردی ہے۔
دلیل اول
حضرت محمد بن اسماعیل بخاری جن کی وفات 256ھ میں ہے کتاب صحیح بخاری میں فرماتے ہیں
عن ابی بکرۃ انہ انتہی الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم وہوراکع فرکع قبل ان یصل الی الصف فذکر ذلک للنبی صلی اللہ علیہ وسلم فقال زادک اللہ حرصا ولاتعد
صحیح بخاری باب اذا رکع دون الصف جلد نمبر 1صفحہ 108
حضرت ابوبکرہ رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے اللہ کے پیغمبر نماز پڑھارہے تھے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم رکوع کے اندر تھے ابوبکرہ تشریف لائے پچھلی صف کے اندر ہی رکوع میں چلے گئے اور رکوع کی حالت میں آکر جماعت سے مل گئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز کے بعد بتایا گیا کہ ابوبکرہ نے عمل یوں کیا ہے کہ جماعت کھڑی تھی پچھلی صف میں آکر رکوع میں کھڑے ہوگئے اوراسی طرح چلتے ہوئے حالت رکوع میں نماز میں ملے ہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا زادک اللہ حرصا اللہ اس عبادت پہ تمہارے حرص میں اصافہ کرے ولاتعد آئندہ ایسا نہ کرنا کہ رکوع کی حالت میں چلتاہوا آگے آئے بلکہ صف کے اندر آکر رکوع میں شامل ہونا۔
اس کابعض محدثین نے معنی یہ کیا ہے ولا تعد اس نماز کا اعادہ نہ کرنا نماز لوٹانے کی ضرورت نہیں ہے اور ولاتعد کی دلیل یہ بھی ہے ابوبکرہ کا نماز کو دوبارہ پڑھنا ثابت نہیں ہے اگر نہ ہوتی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے نماز پڑھو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم نہیں دیا۔
دلیل دوم
اسی حدیث کو امام احمد بن شعیب النسائی جن کی وفات 303ھ میں ہے اپنی کتان سنن نسائی میں نقل کیا ہے۔
سنن النسائی باب الرکوع دون الصف جلد نمبر 1صفحہ 139
دلیل سوم
اور اسی حدیث مبارک حضرت امام احمد بن حسین بن علی البیہقی جن کی وفات 458ھ میں ہے اپنی کتاب سنن کبری میں نقل کیا ہے۔
باب من الرکوع دون الصف جلد 2صفحہ90
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا قول ہے امام کے پیچھے مقتدی کو فاتحہ کی حاجت نہیں پیغمبر کا اپنا عمل مقتدی کے لیے فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر یعنی صحابی کا عمل نبی کی موجودگی میں کہ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے۔
خلفائے راشدین اور ترک قراءۃ خلف الامام
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر پیغمبر کے فعل اور پیغمبر کے قول کے بعد خلفاء راشدین کا
ترک القراءۃ خلف الامام
کا عمل ملاحظہ فرمائیں۔
دلیل چہارم
حضرت امام عبد الرزاق ابن ہمام جن کی وفات 211ھ میں ہے اپنی کتاب مصنف عبدالرزاق میں نقل کرتے ہیں۔
قال عبدالرزاق واخبرنی موسی بن عقبۃ ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابوبکر وعمر وعثمان کانواینہون عن القراءۃ خلف الامام
کہتے ہیں کہ حضرت خاتم الانبیاء، ابوبکر وعمر وعثمان رضی اللہ عنہماامام کے پیچھے قراءۃ سے منع فرماتے تھے۔
مصنف عبد الرزاق باب القراءۃ خلف الامام جلد 2صفحہ 91
عبداللہ بن ہمام اپنی اسی کتاب میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حکم نقل کرتے ہیں۔
ان علیا کا ن ینھی عن القراءۃ خلف الامام۔
مصنف عبدالرزاق میں جلد 2صفحہ90
علی المرتضی رضی اللہ عنہ امام کے پیچھے قراءۃ سے منع فرماتے تھے۔
تابعین اور ترک قراءۃ خلف الامام
ان فتاوی کے بعد تابعین کرام رحمہم اللہ بھی
ترک القراءۃ خلف الامام
کے قائل نظر آتے ہیں۔
حضرت ابراھیم نخعی اور ترک قراءۃ خلف الامام
امام عبد اللہ بن محمد جن کی وفات 235ھ میں ہے اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں نقل کرتے ہیں:
عن ابراہیم انہ کان یکرہ القراءۃ خلف الامام
مشہور تابعی حضرت ابراہیم رحمہ اللہ امام کے پیچھے قرآن کریم پڑھنا مکروہ سمجھتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1صفحہ413
سوید بن غفلہ اور ترک قراءۃ
حضرت عبد اللہ بن محمد جن کی وفات 235ھ میں ہے اپنی کتاب مصنف ابن ابی شیبہ میں نقل کرتےہیں
عن ولید بن قیس قال سالت سوید بن غفلۃ اقراء خلف الامام فی الظہر والعصر قال لا
فرماتے ہیں میں نے سوید بن غفلہ سے پوچھا میں امام کے پیچھے ظہر اور عصر میں پڑھوں؟ فرمایا کہ امام کے پیچھے تونے قرآن کی تلاوت نہیں کرنی۔
مصنف ابن ابی شیبہ جلد 1صفحہ413
خلاصہ کلام
میں نےسب سے پہلے قرآن کریم کی آیت فاذا قرئ القرآن فاستمعوا لہ وانصتوا سے ثابت کیا اصحاب پیغمبر سے کہ یہ آیت حالت نماز میں امام کے پیچھے قرآن کریم سننے کے بارے میں نازل ہوئی۔ امام قرآن پڑھے اور مقتدی سنے، خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ سے کہ فاتحہ کا پڑھنا قراءۃ ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات سے امام کی قراءۃ مقتدی کی قراءۃ ہے۔خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل مبارک سے کہ امام کی قراءۃ پر اعتبار کیا، پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں تقریر پیغمبر سےصحابی نے امام کی قراءۃ پر اعتماد کیا ،خلفائے راشدین کا فتوی کہ امام کے پیچھے مقتدی کو قراءۃ نہیں کرنی چاہیے اور اسی طرح تابعین کا عمل اور تابعین کا فتوی کہ امام کے پیچھے قراءۃ مکروہ ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں قرآن کریم کی آیت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول وفعل اور تقریر پر عمل کی توفیق عطا فرمائے خلفائے راشدین کے فتوے کوماننے کی توفیق عطا فرمائے اور تابعین کے مبارک عمل اور تابعین کے فتوے کو قبول کرنے کی توفیق عطا فرمائے ان دلائل کی روشنی میں اہل السنت والجماعت احناف کا مسلک یہ ہے کہ مقتدی امام کے پیچھے قراءۃ نہ کرے نہ سورۃ فاتحہ نہ کوئی دیگر صورت بلکہ امام کی قراءۃ پر مقتدی کو اعتماد کرنا چاہیے۔ اللہ ہمیں ان دلائل پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
گذشتہ نشست میں میں نے آپ کی خدمت میں عرض کیا تھا کہ آپ حضرات چٹیں لکھیں وہ چٹیں جو مجھ سے متعلقہ نہیں ہوتیں ان کو ایک طرف رکھ دیتے ہیں۔ چٹیں آئی ہیں میں نے جواب دیا اس میں ایک چٹ آئی ہے تین طلاق کے موضوع پر اسے کہتے ہیں سوال گندم جواب چنا سوال کیا ہے اور جواب کیا دیا جارہاہے میں نے گزارش کی جن مسائل کی گفتگو ہے ان مسائل کی چٹیں لکھیں جب تین طلاق کی باری آئے گی تو آپ حضرات اس پر چٹیں لکھیں گے ان شاء اللہ اور پھر جواب دیں گے آپ حضرات دعا فرمائیں یہ جو ہمارا سلسلہ چلا ہے اللہ اس کو آگے تک چلانے کی توفیق عطا فرمائے اب اسی طرح مسائل چلتے رہیں گے انشاءاللہ۔
غیر مقلدین کے دلائل کا جواب
حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے عبادہ بن صامت رضی اللہ سے ایک حدیث نقل کی ہے
لاصلوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتاب
غیر مقلدین اس حدیث مبارکہ کو پیش کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ جو شخص فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔ اس میں امام بھی ہے مقتدی بھی اور منفرد بھی ہے یہ سب کو شامل ہے لہذا سب کے لیے یہ حکم ہے سب کو فاتحہ پڑھنا ضروری ہے۔ فاتحہ نہیں پڑھیں گے تو نماز نہیں ہوگی۔
جواب دلیل اول
اب اس حدیث مبارک کا ایک معنی وہ ہے جو غیر مقلد کرتے ہیں اور ایک معنی وہ ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی کرے۔ ایک معنی وہ جو چودہ سو سال کے بعد غیر مقلد کرے اور ایک معنی وہ جو اس حدیث کا مرکزی راوی کرے۔ فرق یہ ہے کہ ہم صحابی کا معنی مانتے ہیں اور غیر مقلد وہابی کا معنی مانتے ہیں تو اختلاف تو فہم وہابی اور فہم صحابی میں ہوگا ناں! اختلاف اس میں نہیں کہ فاتحہ قراءۃ نہیں۔ اب ایک معنی انہوں نے کیا ایک معنی ہم نے کیا۔
حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ جامع ترمذی جلد1صفحہ 86 پر ارشاد فرماتے ہیں حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ نے فرمایا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ پیغمبر کے صحابی ہیں وہ اس حدیث کا معنی کرتے ہیں ان ھذا اذا کان وحدہ یہ حدیث مبارک اس وقت ہے کہ جب آدمی تنہا نماز پڑھ رہا ہو اور ہم بھی کہتے ہیں کہ جب آدمی تنہا نماز پڑھ رہاہو تو اس کے لیے فاتحہ پڑھنا ضروری ہے مسئلہ یہ تھا کہ مقتدی کے لیے ضروری ہے یا نہیں اس حدیث کا تعلق مقتدی کے ساتھ نہیں ہے صحابی رسول کے مطابق اس کا تعلق منفرد اور اکیلے آدمی کی نماز کے ساتھ ہے۔
حضرت سلیمان بن اشعث جن کی وفات 275ھ میں ہے اپنی کتاب سنن ابو داؤد جلد نمبر 1صفحہ 126 پر نقل فرماتے ہیں سفیان بن عیینہ نے اس روایت کا معنی بیان کیا لمن یصلی وحدہ،اور ایک بات یہ ذہن نشین فرمالیں۔ کہ سفیان بن عیینہ ہی سے امام بخاری رحمہ اللہ روایت کرتے ہیں سفیان بن عیینہ سے امام ابو داود لاتے ہیں، فرق یہ ہے کہ امام بخاری نے روایت کو پیش کیا
لاصلوۃ لمن لم یقراء بفاتحۃ الکتابتک نقل کیا فصاعدا
کا لفظ صحیح بخاری میں نہیں ہے سنن ابی داود میں فصاعدا کا لفظ بھی ہے۔ اور سفیان بن عیینہ سے معنی بھی ہے گویا امام ابوداود فرمانا چاہتے ہیں پوری حدیث یہ ہے اس شخص کی نماز نہیں ہوگی جو سورۃ الفاتحہ اور فاتحہ کے ساتھ کچھ اور نہ پڑھے۔ یعنی فاتحہ بھی پڑھے اور فاتحہ کےساتھ اور بھی پڑھے فرمایا کہ اس کا تعلق مقتدی کے ساتھ نہیں ہے بلکہ لمن یصلی وحدہ یہ منفرد کے لیے ہے کہ فاتحہ بھی پڑھے اور اس کے ساتھ ایک اور سورۃ کی تلاوت بھی کرے محض فاتحہ پڑھنا اس کے لیے کافی نہیں۔
دوسری دلیل اور اس کا جواب
ایک بڑی مشہور حدیث پیش کی جاتی ہے صحیح مسلم میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں:
من صلی صلوۃ لم یقراء فیھا بام القرآن فھی خداج غیر تمام فقیل لابی ہریرہ انا نکون احیاء وراءالامام فقال اقرٲ بھا فی نفسک
مسلم صفحہ169
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس شخص نے نماز پڑھی اور اس میں سورۃ الفاتحہ نہ پڑھی تو اس کی نماز ناقص ہے کسی شخص نے عرض کیا کہ حضرت ہم تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں تو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے اقرٲبھا فی نفسک اس کا معنی غیر مقلدین یہ کرتے ہیں کہ اقرٲ بھا فی نفسک کا مطلب یہ ہے کہ تو امام کے پیچھے آہستہ پڑھ لیا کر کہتے ہیں دیکھو حدیث موجود ہے کہ فاتحہ کے بغیر نماز ناقص اور نامکمل ہوتی ہے۔
ایک اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اپنا جملہ ہے لہذا یہ حدیث بیان کرکے یہ کہنا کہ اللہ کے نبی فرماتے ہیں امام کے پیچھے فاتحہ آہستہ پڑھا کرو یہ اللہ کے پیغمبر پر بہتان ہے اور الزام ہے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں فرمایا بلکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتےہیں۔
غیر مقلدین انکار کرنے پر آئیں تو کہتے ہیں جی صحابہ کا قول حجت نہیں ہے اورماننے پر آئیں تو صحابی کے قول کو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔
تو اقرٲ بھا فی نفسک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد نہیں ہے بلکہ صحابی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے اور اقرٲ بھا فی نفسک کا یہ معنی کرنا درست نہیں کہ آہستہ پڑھا کرو اقرٲ بھا فی نفسک کا معنی قرآن کریم کی روشنی میں پوچھیں احادیث پیغمبر کی روشنی میں پوچھیں اگر نفس پر فی داخل ہو تو فی نفس کا معنی الگ ہوتا ہے یا فی نفسک کا معنی آہستہ ہوتا ہے؟ فی نفس کا معنی کیا ہے؟
قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے فرمایا
وقل لھم فی انفسھم قولا بلیغا
کہ وہ بڑے بڑے لوگ جو مجمع میں دعوت قبول کرنے میں اپنی سبکی محسوس کرتے ہیں تو میرے پیغمبر ان کو دعوت دو لیکن کیسے؟ فی انفسھم اب فی انفسھم کا معنی کریں کہ آہستہ دعوت دو تو آہستہ اتنی پڑھو جس کو وہ سنیں ہی نہیں اس دعوت دینے کا کیا فائدہ؟ قل لھم فی انفسھم کا معنی یہ ہےکہ ان کو دعوت علیحدہ دو جب اکیلے ہوں تو دعوت دو تو فی انفسھم کا معنی ہوا اس کا تعلق آہستہ کے ساتھ نہیں ہے بلکہ الگ ہونے کے ساتھ ہے اور ہم بھی کہتے ہیں کہ الگ ہونے کا مسئلہ اور ہے اور آہستہ ہونے کا مسئلہ اور ہے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے حدیث مبارک نقل کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا من ذکرنی فی نفسہ ذکرتہ فی نفسجو آدمی مجھ کو فی نفسہ یادکرے گا اب اس کا معنی محدثین نے یہ نہیں کیا جو مجھے آہستہ یاد کرے گا میں آہستہ یاد کروں گا بلند آواز سے یاد کرے گا بلند آواز سے یاد کروں گا۔ فرمایا جو مجھے خلوت میں یاد کرےگا میں اسے خلوت میں یاد کروں گا اور جو مجھے مجمع میں یاد کرے گا میں اس کو مجمع میں یاد کروں گا من ذکرنی فی ملأذکرتہ فی ملأخیرا منہ ملأکا تذکرہ کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ فی نفس سے مراد خلوت ہے آہستہ نہیں۔
صحیح بخاری جلد 2صفحہ1101
امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قال قتادۃ اذا طلق فی نفسہ فلیس بشئی
اگر کوئی آدمی اپنے نفس میں اپنے جی میں طلاق دے تو یہ طلاق شمار نہیں ہوگی اپنے دل میں پڑھی جانے والی فاتحہ بھی قراءۃ شمار نہیں ہوگی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرمانا چاہتے ہیں اس کے وسوسے کو دور کرنے کے لیے اقرٲ بھا فی نفسک یعنی تو قرآن کریم آہستہ نہیں بلکہ اپنے دل میں یعنی تو امام کی پڑھی جانے والی قراءۃ کا تصور کرلیا کر کہ جو امام قرآن پڑھ رہا ہے اپنے دل میں اس تلاوت کا تو بھی تصور کرلیا کر تو یہ نہیں فرمایا کہ تو آہستہ قرآن امام کے پیچھے پڑھ لیا کر۔
اور سب سے اہم ایک بات اور سمجھیں۔ اس شخص کا سوال کرنا اس بات کی دلیل ہے اس وقت عموما مزاج امام کے پیچھے قراءۃ کرنے کا نہیں تھا کیوں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے جب فرمایا اقرا بھا فی نفسک تو اس نے کہا جی ہم بسا اوقات امام کے پیچھے ہوتے ہیں، تو یہ سوال کیوں کیا؟
مثال
مثال کے طور پر اس درس سے فراغت کے بعد مجھے آپ پوچھتے ہیں کہ مولانا آپ کہا ں جارہے ہیں؟ میں نے کہا جی سرگودھا جارہاہوں تو مجھے آپ کہیں جی یہ ہمارا ساتھی ہے اس کو بھی ساتھ لے جائیں میں کہتا ہوں جی میرے ساتھ گھر والے بھی ہیں۔ اب اس کا مطلب یہ ہے کہ میں آپ کو ساتھ نہیں لے جاسکتا عذر پیش کررہاہوں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ فاتحہ نہ پڑھو نماز ناقص ہے آدمی نے کہا جی ہم تو امام کے پیچھے ہوتے ہیں۔ یعنی اس کا ذہن یہی تھا کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھی جاتی آپ کہتے ہیں ناقص ہوتی ہے امام کے پیچھے ہوں تو پھر کیا کریں؟ تو اس سوال کا انداز بتارہاہے اس وقت عموماًً مزاج امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے کا تھا حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے جس طرح حدیث مبارکہ نقل کی گئی ہے یہ حدیث مبارک بھی ہے۔
اور حدیث مبارک مکمل حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے حضرت امام بیہقی نے کتاب القراءۃ میں نقل کی ہے وہ روایت آپ کے سامنے بیان نہیں کریں گے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
کل صلوۃ لا یقرا فیھا بام الکتاب فھی خداج الا صلوۃ خلف امام۔
کتاب القراءۃ صفحہ 171
ہر وہ نماز جس میں فاتحہ نہ پڑھی جائے وہ نماز ناقص ہے مگر وہ نماز جو امام کے پیچھے ہے۔ تو حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ تو خود فرمارہے ہیں کہ نماز ناقص اس وقت ہوتی ہے جب آدمی فاتحہ نہ پڑھے اور اکیلا ہو لیکن اگر امام کے پیچھے موجود ہوتو اس آدمی کو فاتحہ پڑھنے کی حاجت نہیں ہے بلکہ اس آدمی کی نماز کامل اور مکمل ہے۔
تیسری دلیل اور اس کاجواب
جامع ترمذی سے ایک حدیث مبارک پیش کی جاتی ہے حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی
صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علیہم الصبح فثقلت علیہ القراءۃ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قراءۃ فرمارہے تھے اور بوجھ محسوس فرمارہے تھے فلما انصرف اللہ کے پیغمبر نماز سے فارغ ہوئے فرمایا انی اراکم تقرؤن وراء امامکم تم امام کے پیچھے قراءۃ کرتے ہو؟ ہم نے کہا یا رسول اللہ ای واللہ جی ہاں اللہ کی قسم ہم امام کے پیچھے قراءۃ کرتے ہیں فرمایا کہ
لا تفعلوا الا بام القرآن فانہ لا صلوۃ لمن لم یقرا بھا،
فرمایا کہ ٹھیک ہے تم قراءۃ کیا کرو مگر تم امام کے پیچھے قراءۃ نہ کیا کروسوائے سورۃ فاتحہ کے فاتحہ پڑھ لو باقی قراءۃ نہ کرو کیونکہ فاتحہ کے بغیر نماز مکمل نہیں ہوتی۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث مبارک یہ جامع ترمذی میں ہے۔ یہ بات ذہن نشین فرمالیں حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس حدیث مبارک کو نقل کیا ہے لیکن یہ کوئی نہیں بیان کرتا امام ترمذی نےکس مقام پر بیان کیا ہے۔ حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ کی خوبی یہ ہے ایک مسئلہ پر دو قسم کی روایا ت لاتےہیں اور دونوں پر پھر باب قائم کرتے ہیں پہلے امام ترمذی رحمہ اللہ نے باب قائم کیا باب ماجاء فی القراءۃ خلف الامام امام کے پیچھے قراءۃ کرنی چاہیے پھر امام ترمذ ی نے ایک باب قائم کیا ہے باب ترک القراءۃ خلف الامامکہ امام کے پیچھے قراءۃ نہیں کرنی چاہیے امام ترمذی حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث کو باب قراءۃ خلف الامام کے تحت لائے ہیں۔
اور اس کے بعد پھر باب قائم کیا
ترک القراءۃ خلف الامام
تو گویا امام ترمذی ثابت کرنا چاہتے ہیں حدیث عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ متروک ہے پہلے باب قائم کیا امام کے پیچھے قراءۃ کرنے کا کچھ احادیث اس کے تحت لائے پھرباب قائم کیا امام کے پیچھے قراءۃ نہ کرنے کا پھر احادیث اس کے تحت لائے ہیں امام ترمذی رحمہ اللہ جس کو پہلے باب کے تحت لائے ہیں اس کے بعد باب ترک کا قائم کرکے امام ترمذی رحمہ اللہ نے ثابت کردیا کہ یہ حدیث متروک ہے اس پر ہمیں بھی کوئی اشکال نہیں ہے یہ پہلے مسئلہ تھا اب یہ مسئلہ نہیں ہے۔
ترمذی جلد 1صفحہ 85
جواب دوم
اس حدیث مبارک کےرواۃ کو دیکھیں اس حدیث کا ایک راوی ہے محمد بن اسحاق اس کے بارے میں امام ذہبی فرماتے ہیں امام مالک رحمہ اللہ نے کہا یہ دجال تھا،
میزان الاعتدال جلد3صفحہ 453
ابن حجر عسقلانی نے تہذیب التھذیب میں فرمایا ہے کہ محمد بن اسحاق کذاب ہے۔
تہذیب التہذیب جلد5صفحہ 29
طبقات المدلسین میں ابن حجر فرماتے ہیں اس کا ایک راوی مکحول مدلس ہے۔
طبقات المدلسین صفحہ 64
ذہبی زماں یا کذاب دوراں
غیر مقلدین کا موجودہ وقت کا ایک مولوی جو غیر مقلدین کے نزدیک حجت ہے زبیر علی زئی ، غیر مقلدین اس کو ذہبی زمان کہتےہیں ہمارے اتحاد اہل السنت والجماعت کے سہ ماہی رسالہ قافلہ حق میں مسلسل اس کذاب اور دجال کے جھوٹ لکھے جا رہے ہیں۔ آج تک اپنے جھوٹوں کو وہ سچ ثابت نہیں کر سکا۔ جو تمہارا ذہبی ہے ابھی تک کسی ایک جھوٹ پر وہ یہ نہیں کہہ سکا کہ جی میں جھوٹ نہیں بولتا میں سچ کہتا ہوں۔ ہمارے ہاں کذاب ہے تمہارے ہاں ذہبی زمان ہے، اس ذہبی کذاب نے اپنی کتاب نور العینین میں لکھا ہے کہتا ہے مدلس کی روایت قابل قبول نہیں۔
نور العینین صفحہ 138
حالات رواۃ
ایک راوی محمد بن اسحاق جو کذاب ہے ایک راوی مکحول جو مدلس ہے اور تم نے خود کہا کہ مدلس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی امام ترمذی رحمہ اللہ نے اس کو متروک کہا ہے راوی دجال کذاب تھا ایسی روایت پیش کرو کہ جس کے راوی دجال اور کذاب بھی نہ ہوں اور اس روایت کو محدثین متروک نہ سمجھیں بلکہ اس کو معمول سمجھیں اس لیے اس روایت کو ہم حجت نہیں سمجھتے۔
امام ترمذی کے نزدیک متشدد کون
اسے کہتے ہیں الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے، کہتے ہیں یہ جو مسئلہ ہے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے اور نہ پڑھنے کا یہ تو اجتہادی مسئلہ ہے اور آپ لوگ اس میں بہت تشدد کرتے ہیں آپ نے اس پر مسلسل بیانات کیے ہیں مناظرے کیے ہیں تو یہ تشدد کررہے ہیں میں کہا چلو یہ فیصلہ ہم نہیں کرتے یہ فیصلہ محدثین سے کروالیتے ہیں متشدد کون ہے
امام ترمذی رحمہ اللہ اپنی کتاب میں کیا فرماتے ہیں ؟ فتوی سماعت فرمائیں:
شدد القوم من اہل العلم فی ترک القراءۃ فاتحۃ الکتاب وان کان خلف الامام فقالوا لاترجع الصلوۃ الا بقراءۃفاتحۃ الکتاب وحدہ کان او خلف الامام۔
امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں جو یہ فتوی دے کہ امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھے تو نماز نہیں ہوتی تو یہ فتوی دینے والا متشدد ہے۔
جامع الترمذی جلد 1 صفحہ 86
تو یہ فتوی امام ترمذی نے دیا ناں! اب جو لوگ امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کو ضروری سمجھتے ہیں اور ساتھ یہ کہتے ہیں کہ جو امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھے ا س کی نماز نہیں ہوتی اس کو محدث نہیں کہتے اس کو متشدد کہتے ہیں۔ محدثین نے متشدد تمہیں شمار کیا ہے اور تم الٹا متشدد ہمیں کہہ رہے ہو۔ اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں امام پر اعتماد کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور امام کی قراءۃ کو اپنی قراءۃ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین}
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین