چیلنج قبول ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
چیلنج قبول ہے
قافلہ حق ، اپریل، مئی، جون 2008ء
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد اور مسائل قرآن وسنت کے عین مطابق ہیں۔اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے کہ اکابرین علماء دیوبند سے اللہ تعالیٰ نے قرآن و سنت کی اشاعت ،تبلیغ اور مسائل کے دفاع کاپورے عالم میں عموما اور برصغیر میں خصوصاً وہ کام لیا ہے جس کی مثال کئی صدیوں میں نہیں ملتی۔
مگر بد قسمتی کہ جس طرح اہل السنۃ والجماعۃکے مسائل اجتہادیہ کو بعض اہل بدعت زیر بحث لا کر لوگوں کو اہل السنۃ والجماعۃ سے دور کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہے اور اب کچھ عرصہ سے بد عقیدہ لوگوں نے اہل السنۃ والجماعۃکے عقائد پر بحث شروع کر دی مگر اس کے لیے ایک نہایت غلط طریقہ یہ اختیار کیا کہ تصوف کی عبارا ت کو عقیدہ بنا کر پیش کیا اور اس کا مطلب اپنی طرف سے ایسا پیش کیا جو کہ قرآن،سنت کے خلاف تھا۔اب غلطی اہل السنۃ والجماعۃ کے کسی عقیدہ میں نہ تھی بلکہ غلطی اس فہم کی تھی جس سے سمجھنے میں غلطی لگی۔
اسی قسم کی غلطی اہل السنۃ والجماعۃ کے عقائد و مسائل کو صحیح سمجھنے والے علماء دیوبند کے مخالفین غیر مقلدین کو ہوئی اور ان بے چاروں نے علماء دیوبند کے خلاف منفی پروپیگنڈہ کیاکہ ”علماء دیوبند کے عقائد کفریہ و شرکیہ ہیں“ پہلے تو یہ پروپیگنڈہ ہی رہامگر بعد میں یہ پروپیگنڈہ باقاعدہ ایک چیلنج کی شکل اختیار کر گیااور غیر مقلدین کے علماء نے ویڈیو سی ڈیز کے ذریعہ یہ چیلنج بازی شروع کر دی۔ علماء دیو بند کے خدام نے اپنے اکابر کی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے چیلنج کو قبول کیااور میدان مناظرہ میں اتر کر جواب دینے کا فیصلہ کیا۔
چنانچہ رمضان المبارک 1427ھ دولت نگر ضلع گجرات میں راقم الحروف کی غیر مقلد مناظر حافظ عمر صدیق سے دو گھنٹے تفصیلی گفتگو ہوئی، جو کیمرہ کی آنکھ میں محفوظ ہےاور قابل دید ہے۔ حافظ عمر صدیق صاحب سے شرائط مناظرہ کے حوالہ سے ہی گفتگو ہوئی اور لاجواب گفتگو ہوئی جس کا اصل فائدہ تو وہ شخص محسوس کر سکتا ہےجو فن مناظرہ سے واقف ہو اور کچھ نہ کچھ فائدہ تو ہر شخص محسوس کر سکتا ہے۔
یکم جولائی 2007ء ماڈل ٹاؤن حافظ والا ضلع بہاولنگر میں عقائد علماء دیوبند کے عنوان پر مناظرہ طے ہوا جس کی ابتدائی گفتگو مفتی محمد آصف صاحب دامت بر کاتہم نے فرمائی مگر مناظرہ سے کچھ روز قبل جب بندہ شرائط مناطرہ طے کرنے کے لیے بہاولنگر پہنچا تو چوہدری صہیب بن صادق گجر صاحب؛ جو میزبان تھے؛ نے بندہ کو فون کر کے کہہ دیا کہ ہم مناظرہ نہیں کروانا چاہتے اور بعد میں چوہدری صہیب گجر کی اہلیہ محترمہ نے تحریر لکھ کر بھیج دی کہ ہم مناطرہ نہیں کروانا چاہتے۔
پھر ماموں کانجن کے غیر مقلدین کو جوش آیاتو انہوں نے معروف غیر مقلد مولوی رانا شمشاد سلفی کو دعوت دی جس نے دل کھول کر حضرات علماء دیوبند اور ائمہ احناف کے خلاف ایک گھنٹہ تک زبان درازی کی۔ جس کے جواب میں بندہ نے اڑھائی گھنٹہ تک مفصل ومدلل جواب دیا تو غیر مقلدین نے عقائد پر چیلنج کر دیا جو کہ اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ کے ذمہ داروں نے قبول کیا اور مناظرہ کے لیے فریقین کی رضا مندی سے 8اپریل 2008ءبروز منگل صبح 10 بجے طے ہوا۔ مگر پھر وہی ہوا کہ غیر مقلدین نے مناظرہ کے طے شدہ وقت سے قبل ہی پورے ملک میں مشہور کر دیا کہ دیوبندی دوڑ گئے،مناظرہ سے فرار ہوگئے۔ بلکہ ہمارے قافلہ حق کے قارئین حیران ہوں گے کہ ایک غیر مقلد مناظر سید طالب الرحمن شاہ صاحب نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ دیوبندی مناظر محمد الیاس گھمن نے تحریری معافی مانگ لی ہے۔طالب الرحمن صاحب کی یہ گفتگو میرے پاس ٹیپ ریکارڈر میں محفوظ ہے۔جب بندہ کو ان حالات کا علم ہوا تو بندہ نے 27 مارچ 2008ء کو ماموں کانجن کےقریب کلر والا میں جا کر جلسہ عام کیا اور لوگوں کو حالات سے باخبر کرتے ہوئے کہا:
”مناظرہ ہو گا اور دیو بندی مناظر ضرور آئیں گے۔“
مگر غیر مقلدین نے انتظامیہ اور سیاسی لوگوں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع کر دیا اور بالآخر بذریعہ ایس ایچ او ماموں کانجن ضلع فیصل آباد کے ذریعے مناظرہ منسوخ کروا دیا۔
قارئین قافلہ حق!اس مختصر سی گفتگو کا مطلب یہ بتلانا ہے کہ غیر مقلدین کے مناظرین نے علماء دیوبند کے عقائد پر جو کفر و شرک کا فتویٰ لگایا تھا اس کی حقیقت آپ حضرات پر واضح ہو جائے۔اور بذریعہ مجلہ قافلہ حق تمام قارئین کو اطلاع دی جاتی ہے کہ اگر کوئی غیر مقلد)اہلحدیث (علماء دیوبند کے عقائد پر کفرو شرک کا فتویٰ لگا کر چیلنج کرے تو آپ فرما دیں کہ ”چیلنج قبول ہے۔ “
والسلام
محمد الیاس گھمن