”ستی“ اور ہم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

">”ستی“ اور ہم

ماہنامہ فقیہ، مئی 2012ء
اسلام نے جاہلانہ رسوم ورواج کو جس طرح کچل کر ختم کیا ہے اس طرح کی تاریخ کا حامل کوئی اور مذہب نہیں ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر ارشاد فرمایا تھا:
كل شيء من أمر الجاهلية تحت قدمي موضوع
صحیح مسلم: رقم 1218
جاہلیت والا ہر کام میر ے پاؤ ں کے نیچے ہے۔
لیکن افسوس آج ہم نے دوبار ہ انہی جا ہلانہ رسوم کو گلے لگا لیا ہے۔ چونکہ ہم بہت عرصہ سے ہند وانہ معاشرہ میں جی رہے ہیں ،اس لئے ہندؤوں کی ایک عادت کہ بیوہ عورت سے نکاح نہ کرنا ہمارے اندر سرایت کر گئی ہے۔ ہندو لوگ اپنی عورتوں کو بیوہ ہونے کے بعد خاوند کے ساتھ ہی جلا دیتے تھے ، عورتیں جل مرنے کو تیار اسی لئے ہو جاتیں تھی کہ زمانے کے تلخ حقائق کا سامنا اپنی بیوگی کے ساتھ کیسے کریں گی۔
عورتوں کی جل مرنے کی اس رسم کو" ستی کی رسم" کہتے ہیں، مگر اسلام نے نکاح بیو گان پر زور دیا ہےکہ معاشرہ بے راہ روی سے محفوظ بھی رہے اور عورت جیسی صنف نازک بھی اپنی عفت کا آبگینہ گناہ کی نحوست سے بچا سکے۔ لیکن ہم لوگوں نے بیوہ سے نکا ح کرنے کو اہمیت نہ دی ،نتیجہ یہ نکلا کہ حالات سے دو چار ہو کر بیوہ زندہ رہتے ہوئے بھی بے رحم معاشرے کی آگ میں جل کر ستی ہو گئی۔
علماء کرام نے دامے درمے سخنےاس لا پر واہی کی طرف قوم کو متوجہ تو کیا ہے مگر عملاً معا ملہ سست روی کا شکار رہا۔بندہ نے پانچ اپریل 2012ء کو حضرت مولانا مفتی زین العابدین رحمہ اللہ کی بیوہ بیٹی سے عقد ثالث کر کے اس رسم کو توڑاہے۔ آپ بھی قدم بڑھائیں تاکہ ان مروجہ رسومات کی بیخ کنی ہو سکے اور اسلامی معاشرہ پاکیزگی کا نمونہ بن سکے۔
آمین بجاہ النبی الکریم
والسلام
محمد الیاس گھمن
متجددین کی غلط فہمی
ماہنامہ فقیہ، جون 2012ء
اللہ تعالیٰ نے علم کی پہچان خدا کا خوف قرار دی ہے اور فرمایاہے کہ اللہ سے صحیح معنیٰ میں ڈرنے والے علماء کرام ہیں۔جب تک علم کے ساتھ خدا کا خوف نہ ہو اس وقت تک اسے معلومات کا ذخیرہ تو کہہ سکتے ہیں مگر علم نہیں کہہ سکتے ہمارے موجودہ دور کے بعض روشن خیال کو متجددین یہ غلط فہمی ہوگئی ہے کہ ہم جو زبان مروڑ مروڑ کر باتیں کر لیتے ہیں شاید ہم علم میں اسلاف سے بھی بڑھ گئے ہیں کیمرے کی چمک اور مجمع کی توجہ نے ان کو اس کی حقیقت سے بے خبر کردیا ہے اور اپنے چند لفظی معلومات پر تکبر کرنے لگ گئے ہیں۔
اپنے کمپیوٹر یا ہارڈ ڈسک میں موجود لاکھوں کتب کے ڈیٹا کے سامنے انہیں وقت کے جلیل القدر ائمہ کا علم بے حیثیت نظر آتاہے اور بڑی بے باکی سے کہتے ہیں ابوحنیفہ ہوں یا شافعی ،مالک ہوں یا ابن حنبل ان بے چاروں کے پاس اتنی سہولیات نہیں تھی کہ سارا علم ان کے پاس جمع ہوجاتا ہماری کثرت کتب اور نیٹ اور انٹر نیٹ کے پروگرامز میں موجود معلومات ان حضرات سے زیادہ ہیں۔
جو اکابرین قرون اولیٰ کے علم سفینہ ہے ،سفینہ کا علم بالآخر کر ختم ہوسکتاہے مگر ہمارے ائمہ اسلام کا علم جو ان کے سینوں میں محفوظ تھا اس پر آنچ نہیں آسکتی کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ایسے ناداں لوگوں کے بارے میں جو چند کتب دیکھ کر ہی اسلاف کی علمی خدمات سے بدگمان ہوجاتے ہیں۔
ان پر عربی کا یہ شعر صاق آتا ہے

وکم للشیخ من کتب

کبار

ولکن لیس یدری ما دھاھا

 
ترجمہ:
شیخ کے پاس کتنی ہی بڑی بڑی کتابیں ہیں لیکن وہ نہیں جانتا کہ ان میں کیا کیا مضامین موجود ہیں۔
علامہ ابن حزم نے کیا خوب کہا ہے۔

فان تحرقوا القرطاس لاتحرقوا

الذی

تضمنتہ القرطاس بل ہو فی

صدری

یسیر معی جئت استقلت

رکائتی

ینزل ان انزل ویدفن فی قبری

 
ترجمہ:
اگر تم کاغذ جلا بھی دو گے تو کاغذ کے مضمون کو نہیں جلا سکتے اس لیے کہ وہ میرے سینے میں ہے وہ میرے ساتھ چلتا ہے جہاں میرے اونٹ مجھے لے کر چلیں اور اگر میں نیچے اتروں تو وہ بھی اتر تاہے اور میرے ساتھ میری قبر میں دفن ہوگا۔
اسی لیے الحمدللہ اہل حق اہل السنۃ والجماعۃ کبھی ان مسمی متجددین کی ہوائی گپوں سے متاثر نہیں ہوئے بلکہ ہر دور میں اپنے ائمہ اسلاف کی عظمت کے گُن گائے۔
داستان لہو لہو:
گزشتہ ماہ مئی میں پے درپے شہادتوں کا ایسا تسلسل ہوا کہ عقل دنگ تھی کہ یہ ظالم آخر چاہتے کیا ہیں جو علماء کے مقدس خون سے اپنی عاقبت برباد کررہے ہیں۔
جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے استاد الحدیث مولانا نصیب خان صاحب رحمہ اللہ کی المناک مظلومانہ شہادت اور پھر داعی قرآن استاد محترم مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمہ اللہ کا سانحہ جاں گزار پر صدمہ ایسا ہے کلیجہ چاک کیے دیتاہے۔ راقم نے استاد محترم مولانا شیخوپوری شہید سے شرح مائۃ عامل اور نحومیر پڑھی ہے۔ انداز تدریس سب سے الگ اور عام فہم اتنا کہ ہر طبقے کے طالب علم کی سمجھ میں بآسانی آجائے۔
غم کی اس عظیم گھڑی میں راقم اپنی ٹیم کے تمام افراد کے ساتھ پسماندگان کے غم میں برابر کا شریک ہے اللہ تعالیٰ مرحومین کی مغفرت فرمائے اور ان کے درجات کو بلند فرمائے۔
آمین ثم آمین
والسلام
محمد الیاس گھمن