متکلم اسلام سے چند باتیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
متکلم اسلام سے چند باتیں
روزنامہ اسلام، 7 فروری 2011ء
اسلام نے عقائد کی اصلاح پر بہت زور دیا ہے کیونکہ عقیدہ ہی وہ بنیادی چیز ہے جس کے درست ہونے پر اللہ تعالیٰ اپنی رضا اور خوشنودی کے فیصلے فرماتے ہیں اور دنیا آخرت میں کامیابیوں اور کامرانیوں سے نوازتے ہیں۔بد قسمتی سے بر صغیر میں انگریز کا بویا ہوا فرقہ واریت کا بیج آج تناور درخت بن کر سامنے آچکا ہے۔ پاکستانی فرقہ واریت کے ناسور میں جکڑی جا رہی ہے اور عقائد کی بگاڑ کے لیے نت نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں۔عقائد کی اصلاح کے لیے اور امت میں اتحاد کی راہ ہموار کرنے کے لیےمتکلم اسلام حضرت مولانا محمد الیاس گھمن ناظم اعلی اتحاد اہل سنت والجماعت انتہائی سر گرم ہیں۔ چند روز پہلے وہ جامعۃ الرشید تشریف لائے تو جامعہ کے صحافت کے شرکاء نے آپ سے خصوصی انٹرویو کیا جو نذر قارئین ہے۔
سوال: مولانا آپ کا مختصر تعارف کیا ہے ؟
جواب: 1969ء میں میری پیدائش ہے،پرائمری تک میں نے اپنے گاؤں میں پڑھا اور مڈل ساتھ والے گاؤں میں پڑھی۔ مڈل سے فراغت کے بعد میں نے اپنے والد صاحب سے حفظ قرآن کریم شروع کر دیا۔ سترہ پارے والد صاحب کے پاس پڑھے اس کے بعد تقریبا 1982ء کی بات ہو گی جب میں گکھڑ منڈی جامع مسجد بوہڑ والی ضلع گوجرانوالہ میں امام اہلسنت حضرت مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ کے ہاں چلا گیا۔ وہاں آزاد کشمیر کے قاری عبد اللہ صاحب تھے ان کے پاس قرآن کریم حفظ کیا۔
پھر درجہ اولی سے درجہ ثالثہ تک جامعہ بنوریہ سائٹ ٹاون کراچی میں پڑھا اور درجہ رابعہ، خامسہ اور سادسہ جامعہ امدادیہ فیصل آباد میں پڑھے۔ پھر جلالین والے سال افغان جہاد شروع ہو گیا۔ دو ماہ تک مشکوۃ والا سال جامعہ خیر المدارس ملتان میں پڑھا اور باقی سال جامعہ علوم شرعیہ ساہیوال میں مکمل کیا اور دورہ حدیث کے لیے جامعہ امدادیہ فیصل آباد چلا گیا اور وہیں دورہ حدیث شریف مکمل کیا۔
دورہ حدیث شریف کے بعد 1993ء میں میرا پہلا سفر جنوبی افریقہ کا تھا۔ زمبیا میں دوماہ تدریس کی اور مختلف اسباق پڑھائے پھر اپنے اسفار کی وجہ سے مجھے واپس آنا پڑا اور 1993ء سے 1996ء تک میری ساری سرگرمیاں تحریکی رہیں۔ 1994ء میں حرکۃ الجہادالاسلامی اور حرکۃ المجاہدین کا اتحاد ہوا حرکۃالانصار کے نام سے۔ مجھے پنجاب کا امیر مقرر کر دیا گیا۔ 5اگست 1994ء کو سرگودھا میں ایک قتل کے سلسلے میں مجھے گرفتار کیا گیا دو سال تک میں جیل میں رہا۔الحمد للہ، عدالت نے مجھے باضابطہ طور پر بری کیا۔
1999ء میں دوبارہ گرفتار ہو گیا ایک پرانے کیس میں۔ تین سال قید کاٹ کر الحمد للہ اس کیس سے بھی باعزت طور پر بری ہو۔ا پھر میں نے اپنی علمی تحریکی زندگی کا آغاز 7 اکتوبر 2002ء سے کیا۔ میں جیل سے یہ فیصلہ کر کے آیا تھا کہ باہر جاکر عقائد و مسائل کی اصلاح کے لیے تحریکی صورت میں تجدیدی قسم کا کام کرنا ہے۔سب سے پہلے میں نے اس کے لیے اپنے گاؤں کا انتخاب کیا۔ اپنے گاؤں میں صراط مستقیم کورس شروع کیا اسکول و کالج کے طلباء کے لیے۔ انہی دنوں میں جامعۃ الرشید میں اسی قسم کا سمر کورس شروع ہو رہا تھا اس لیے میں باقاعدہ طور پر حضرت مفتی محمد صاحب سے رابطہ میں رہتا تھا۔ میرے ذہن میں تھا کہ پانچ پانچ سال کی بچیوں اور بچوں کی ذہنی اور فکری تربیت کروں گا اور چھوٹے بھائی کو اپنے گاؤں کے حفظ کے بچے دے دیے۔ میں نے بالکل ابتداء سے کام شروع کیا۔
اللہ رب العزت کو منظور یہی تھا کہ کام آگے بڑھے گا۔ پھر مدارس کے طلبا کے لیے شعبان اور رمضان میں دورہ تفسیر پڑھانے کے لیے میں نے امام اہلسنت حضرت مولانا شیخ سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ اور وکیل اہلسنت حضرت مولانا قاضی مظہر حسین صاحب رحمہ اللہ سے مشورہ کیا۔ ان دونوں حضرات نے مجھے فرمایا کہ دورہ تفسیر کے لیے جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا کے استاذ الحدیث حضرت مولانا منیر احمد منور صاحب بہت مناسب رہیں گے۔
دو سال تک مولانا منیر احمد منور صاحب دورہ تفسیر پڑھاتے رہے۔ دو سال بعد مجھے فرمایا کہ مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمۃاللہ علیہ نے اتحاد اہل سنت قائم کی تھی عقائد و مسائل اہل سنت کے دفاع کے لیے، آپ کا تحریکی مزاج ہے اور آپ نے باقاعدہ تحریکی جماعت چھوڑ دی ہے اس لیے بہتر یہی ہے کہ آپ اس طرف توجہ دیں۔ ان کی دعوت کو رد کرنا میں نے مناسب نہیں سمجھا۔تو 2005ء میں انہوں نے مجھے شوریٰ کے مشورہ کے ساتھ باقاعدہ طور پر اتحاد اہل السنت والجماعت کا ناظم اعلی مقرر کر دیا۔
اس کے بعد ہماری زندگی مستقل عقائد کی اصلاح کے لیے شروع ہو گئی اس دوران ہم نے ایک ادارہ ،مرکز اہل السنۃ والجماعۃ کے نام سے قائم کیا۔میرا ارادہ تھا کہ عقائد ومسائل کے اثبات اور ان پر ہونے والے اعتراضات کے بارے میں کام کرنے کا۔مشورہ کے ساتھ یہ طے ہوا کہ وہاں مرکز میں درس نظامی نہ پڑھائی جائے کیونکہ پورے پاکستان میں الحمد للہ اس عنوان پر بہت کام جاری ہے۔ اس کے بجائےدورہ حدیث کے فارغ التحصیل فضلاء کے لیے ایک سالہ کورس رکھا جائے تاکہ وہ بھی ہمارے ساتھ مل کر کام کریں۔ اس وقت الحمد للہ پینسٹھ علماء اس کورس میں شریک ہیں یہ پانچواں سال ہے۔
سوال: حضرت اچانک جہادی راستہ کو چھوڑ کر یہ راستہ اختیار کرنے کی وجہ کیا ہے۔
جواب: میرے ذہن میں یہ تھا کہ ہمارے ہاں جمیعت علماء اسلام کے پلیٹ فارم پر سیاسی کام بھی ہو رہا ہے۔ جہادی تنظیموں کے پلیٹ فارم پر جہادی کام ہو رہا ہے۔ تبلیغی جماعت کے پلیٹ فارم پر دعوتی اور تبلیغی کام بھی جاری ہے۔لیکن باقاعدہ طور پر عام الناس میں عقائد و مسائل کی اصلاح کے عنوان پر کام نہیں تھا۔ حالانکہ عقیدہ ایسی چیز ہے جو تمام لوگوں کے لیے ضروری ہے۔اس لیے ایسا کام کرنا چاہئے جس کی سب کو شدید ضرورت ہے۔ تو اس کے لیے میں نے خود فیصلہ نہیں کیا بلکہ بہت سارے پاکستان کے علماء ومشائخ سے مشاورت کی ہے تو مشورہ کے بعد یہ طے ہوا کہ بہتر ہے اسی کام کو شروع کیا جائے۔
سوال: آپ نے ایک زندگی کو چھوڑ کر دوسری نئی زندگی میں قدم رکھا ہے تو کیا اس میں آپ کو مشکلات اور کچھ اپنے لوگوں کے طعنے برداشت کرنے پڑے یا نہیں؟
جواب: ایسا نہیں ہے کسی طرف سے بھی طعن و تشنیع نہیں کی گئی ہمارے مسلک کے جو قد آور لوگ ہیں شیخ الاسلام مولانا مفتی تقی عثانی ،مولانا فضل الرحمن ،وفاق المدارس العربیہ کے صدر حضرت مولانا شیخ سلیم اللہ خان صاحب اور ناظم اعلیٰ مولانا قاری حنیف جالندھری،خانقاہی مشائخ میں حضرت مولانا حکیم اختر صاحب اور دیگر مشائخ یہ جتنے بھی لوگ ہیں مجھے کسی بھی طرف سے مخالفت کا سامنا نہیں کرنا پڑا یہ سب لوگ ہمارے کام کی تائید و حمایت کرتے ہیں۔
سوال: آپ نے جو عقائد ومسائل کی محنت کا کام شروع کیا اس کو عوام میں کتنی پذییرائی ملی ؟
جواب: اس بات کا اندازہ آپ اس سے لگائیں کہ اس وقت ہمارے ہاں لائبریریوں کا جال بچھا ہوا ہے۔اس سال تقریبا اسکول و کالج کے طلباء کے لیے چھٹیوں میں صراط مستقیم کورس آٹھ سو سے زیادہ مقامات پر ہوا ہے اور صراط مستقیم کورس کی کتاب اس سال بارہ ہزار چھپی ہے جو عوام نے خریدی ہے۔ اس کے علاوہ جو ہمارے کام کی عوام میں جو مقبولیت اور پذیرائی ہے اس کا اندازہ ا س سے لگائیں کہ تقریبا اپریل سے ڈے ٹو ڈے میرے پروگرام ہیں اور ایک دن میں کئی کئی پروگرام بھی ہوتے ہیں۔ عوام سنتی ہے تو پروگرام رکھتی ہے ناں! اگر عوام ہمارے مشن کو نہ سنتی تو پروگرام اتنے زیادہ کیوں ہوتے؟الحمد للہ، اللہ کا بڑا فضل ہے عوام نے خصوصا اہل علم طبقہ نے اس کام کو بڑا قبول کیا ہے۔
سوال: آپ کی جماعت میں دوسرے لوگوں پر تنقید بھی ہوتی ہے؟
جواب: اگر ہماری جماعت کا اصولی مؤقف کا مطالعہ کرلیا جائے اور کام کی نوعیت کو دیکھ لیا جائے تو یہ سوال پیدا نہ ہو۔ ہمارا اصولی مؤقف یہ ہے کہ پوری امت کو فقہاء کے ساتھ جوڑ دیا جائے۔فقہاء سے جوڑیں گے تو امت جڑ جائے گی۔ فقہاء سے توڑیں گے تو امت فرقہ واریت کا شکار ہو جائے گی۔ پوری دنیا میں دیکھیں سب جگہ ائمہ اربعہ کی تقلید ہو رہی ہے اگر آپ امت کو ان چار فقہاء سے دور کر دیں گے اور تقلید کا دامن چھڑا لیں گے تو آج جو چار فرقے نظر آرہے ہیں کل ہزاروں ہوں گے۔ جب ہر بندہ اپنی رائے دے گا اور اپنا اصول بیان کرے گا تو اس سے فرقہ در فرقہ کا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔تو بہتر ہے کہ ہم امت کو ان چاروں فقہاء کے ساتھ جوڑ دیں جن کے مجتہد ہونے پرپوری امت کا اجماع ہے اس سے امت جڑے گی انشاء اللہ ٹوٹے گی نہیں۔
سوال: جب حکمرانوں سے پاکستان میں نفاذ اسلام کا مطالبہ کیا جاتا ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم کس کا اسلام نافذ کریں ،بریلوی کا ،دیوبندیوں ،شیعوں کا یا اہل حدیثوں کا اسلام ؟ہر فرقہ کا اسلام الگ الگ ہے آپ اس بارے میں کیا کہیں گے؟
جواب: حکمران طبقے سے ہمارا مطالبہ ہے کہ وہ صرف وہ اسلام نافذ کریں جس پر سارے متفق ہیں۔قرآن کریم میں تمام فرقے متحد و متفق ہیں۔قرآن سنت ایسی چیز ہے جس پر تمام فرقے متحد ہیں اور اسے ہی برتری حاصل ہےتو اس کو نافذ کردیں۔
سوال: آپ نے کہا کہ ہمارا مقصد امت کو جوڑنا ہے لیکن بعض مقامات پر جن لوگوں کے خلاف آپ کام کر رہے ہیں ان کے خلاف تو بہت کام ہے اور بعض مقامات پر ان کے ساتھ سیاسی اتحاد کیا ہوا ہے کیا یہ آپ کی پالیسی کے خلاف نہیں ؟
جواب: ہماری جماعت کی پالیسی یہ ہے کہ بین الاقوامی مسائل میں یا قومی ایشوز میں ہم تمام جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنے کے خواہاں ہیں لیکن ان کو ساتھ رکھتے ہوئے جہاں تک عقیدہ و اختلاف کا مسئلہ ہے تو ہم ان اختلافات کو باقی رکھتے ہوئے ان لوگوں کو ساتھ رکھتے ہیں۔
مثلا ناموس رسالت کامسئلہ ہے اس میں ہم دیوبندی ،بریلوی ،اہلحدیثوں کی بحث نہیں چھیڑیں گے۔بلکہ سب متحد ہو کر اپنی آواز بلند کریں گے۔ فروعی اختلافات اپنی جگہ پر ہیں اور اصولی اختلاف اپنی جگہ پر ہیں۔ قومی مسائل میں، جن میں سب کا اکٹھا ہونا ضروری ہے ہم ان میں الگ ہونے کے قائل نہیں ہیں۔ جس طرح اب قانون توہین رسالت کے حوالہ سے عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت نے تمام جماعتوں کو اکٹھا کیا ہے ہم بھی انہی کے ساتھ ہیں ،ہم ان کی تائید کرتے ہیں اور اپنے پروگراموں میں ان کی کھل کر حمایت کرتے ہیں۔
سوال: آپ جس مشن کو لے کر کام کر رہے ہیں کیا یہ ملکی سطح تک محدود ہے یا عالم اسلام اور دیگر ممالک میں بھی یہ کام ہے؟
جواب: یہ مشن پاکستان سمیت دیگر اسلامی ممالک اور دیگرملکوں میں بھی ہے اور وہاں یہ کام شروع ہے۔ورلڈ لیول پر لوگوں نے ہمیں سنا ہے اور ہمیں بتلا رہے ہیں۔ یورپی اور عرب ممالک میں ہمارا ایک وسیع نیٹ ورک ہے۔ لوگ انٹر نیٹ اور یو ٹیوب کے ذریعہ سے ہمارا پیغام سن رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ ہے کہ گزشتہ سال میں نے سعودی عرب کے تمام بڑے شہروں کا دورہ کیا ہے۔
سوال: آپ نے تاجروں کے وفد کے ساتھ سعودی عرب کا دورہ کیا اور اب دبئی کے لیے جا رہے ہیں ،اس کے کیا مقاصد ہیں؟
جواب: مجھے سعودی عرب کا بزنس ویزا مطلوب تھا اور ابھی جو دبئی کا سفر ہے اس میں ہماری نجی ملاقاتیں ہیں بہت سارے حضرات کی خواہش تھی کہ میں دبئی آؤں اور میں نے وہاں علماء اور مشائخ سے بھی ملاقاتیں کرنی ہیں۔
سوال: ہم پاکستانی قوم مختلف فرقوں میں بٹے ہوئے ہیں اس کا فائدہ یورپ اور دیگر غیر مسلموں نے اٹھایا ہے اور قانون توہین رسالت میں تبدیلی کا حکومت سے مطالبہ کر دیا ہے۔ہم تمام کوئی لائحہ عمل طے کیوں نہیں کرتے تاکہ دوسرے لوگ ہماری داخلی امور میں تو دخل اندازی نہ دیں ؟
جواب: آج پاکستان میں جو مختلف فرقے ہیں یہ فرقے انہوں نے ہی یعنی انگریزوں نے بنائے ہیں۔ فرقہ واریت کا بیج انگریز نے ہی بویا ہے۔ہم اس فرقہ واریت کو ختم کرنا چاہتے ہیں۔ ختم کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ امت کو اصولوں پر لایا جائے اور اسلام کے طرز حیات پر انہیں اکٹھا کیا جائے۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو بدگمانیاں اور دوریاں ختم ہوں گی اگر اسلاف سے ہٹیں گے تو بدگمانیاں اور بد کلامیاں پیدا ہوں گی۔
سوال: آج کل چار سو ڈھنڈورا پیٹا جا رہا ہے کہ قانون توہین رسالت غلط استعمال ہو رہا ہے اور یہ صرف اقلیتوں کے خلاف ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
جواب:توہین رسالت کے جتنے بھی کیس بنے ہیں ابھی تک کوئی ایک بھی ایسا کیس نہیں ہے جس پر سزا دی گئی ہو۔ اور یہ قانون عیسائیوں،یہودیوں اوردیگر غیر مسلموں کے خلاف تو ہی ہے لیکن مسلمانوں کے خلاف بھی ہے،جو بھی یہ جرم کرے گا اسے سزا ملنے گی۔ اس میں سب برابر ہیں۔ نبی علیہ السلام کی توہین اگر جرم ہے تو حضرت عیسی علیہ السلام کی تو ہین بھی جرم ہے وہ بھی سچے نبی ہیں اور مسلمانوں کے ہاں مقدس و محترم ہیں۔ہم تو اس قانون کی بات کرتے ہیں جس میں تمام انبیاء علیہم السلام کے تحفظ کی بات ہو یہ بات تو عیسائیت کو بھی قبول کرنی چاہئے کیونکہ اس میں حضرت عیسی علیہ السلام کی ذات کا بھی تحفظ ہوتا ہے۔
سوال: آج یہ کہا جا رہا ہے کہ عہد رسالت کے مسلمانوں کے فرقے نہیں ہوتے تھے وہ لوگ صرف مسلمان تھے،آج کے فرقے یہ علماءنے پیدا کیے ہیں؟
جواب: جو لو گ ایسی بات کرتے ہیں وہ اپنی کم علمی کی وجہ سے کرتے ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی صحابہ رضی اللہ عنہم کا اجتہادی مسائل میں اختلاف تھا۔مثلا نبی علیہ السلام جب غزوہ احزاب سے فارغ ہوئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فرمایا کہ عصر کی نماز تم بنو قریظہ کے محلے میں جا کر پڑھنا۔ اب سورج غروب ہو رہا تھا اور عصر ابھی پڑھی نہیں تھی تو بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے فرمایا چونکہ سورج غروب ہونے والا ہے لہذا عصر کی نماز یہیں پڑھ لی جائے۔ دوسرے بعض حضرات کا مؤقف یہ تھا کہ ہم تو عصر کی نماز بنو قریظہ کے محلے میں ہی جا کر پڑھیں گے کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ عصر کی نماز وہیں جا کر پڑھنا۔
پہلے گروہ نے یہ دلیل دی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد یہ تھا کہ جلدی جانا۔لہذا نماز عصر یہیں ادا کر لینی چاہئے کیونکہ دیر ہو رہی ہے۔ تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں دو گروہ بن گئے۔ایک نے نماز قضا ء پڑھی دوسرے نے ادا پڑھی لیکن چونکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سمجھتے تھے کہ یہ مسئلہ اجتہادی امور میں سے ہے اس لیے دونوں درست ہیں۔ وہ لڑتے نہیں تھے۔ ہم بھی آج یہی کہتے ہیں کہ چاروں ائمہ فقہاء بر حق ہیں۔ ان چاروں میں سے کسی ایک کی تقلید ضرور کی جائے۔ ان کو گالیاں نہ دی جائیں اور نہ ہی ان پر کسی قسم کا فتویٰ لگایا جائے۔
سوال: رائے کا اختلاف تو ہوتا ہی ہے اور یہ تمام ادوار میں رہا ہے صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں بھی رائے کا اختلاف تھا ،بلکہ رائے کا اختلاف تو سابقہ انبیاء علیہم السلام کے دور میں تھا مثلا حضرت سلیمان علیہ السلام اور حضرت داوؤد علیہ السلام کے درمیان رائے کا اختلاف تھا اور دونوں کی ایک خاص مسئلہ کے بارے میں الگ الگ رائے تھی مدارس کے فضلاء میں ایسی کون سی کمی ہے کہ یہ لوگ معاشرہ میں جاکر اس انداز اور تیزی کے ساتھ کام نہیں کر سکتے جس انداز اور تیزی کے ساتھ اہل باطل کام کرتے ہیں؟
جواب: اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ جتنے بھی اہل باطل ہیں ان کے مخصوص ایک دو مسائل ہوتے ہیں جو ان کی محنت کے مرکز و محور ہوتے ہیں اور وہ انہوں نے رٹے ہوئے ہوتے ہیں۔علماء حق اور فضلاء کے پیش نظر چند مسائل نہیں ہوتے بلکہ پورا دین ان کی محنت کا مرکز ہوتاہے۔مدارس اسلامیہ میں بارہ سال میں حفط سے لے کر دورہ حدیث شریف تک پورا دن پڑحانے کی کوشش کی جاتی ہے اوراہل باطل پورا دین نہیں پڑھتے بلکہ وہ چندمخصوص مسائل پڑھتے ہیں جن پر ان کے گروہ کی بنیاد ہوتی ہے۔
اس لیے وہ چند مسائل پڑھ کر معاشرہ میں کام کرنے کے لیے نکل جاتے ہیں اور عوام میں وہی مسائل و عقائد پھیلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور مدارس کے فضلاء پورا دین پڑھ کر جاتے ہیں اور پورے دین کی محنت کرتے ہیں۔ ان لوگوں کا ایجنڈا ہے فتنہ پھیلانا،فرقہ واریت کو ہوا دینا اور امت کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا ،اس لیے انہوں نے ایک ہی کام کرنا ہوتا ہے اور علماء وفضلاء کے ذمہ کئی کام ہیں۔ اس لیے ہم اہل مدارس سے یہی گزارش کرتے ہیں کہ باطل گروہوں کے رد میں طلباء کو ضرور تیاری کروائیں۔
سوال: آپ اپنے کام کا مستقبل کیسا دیکھتے ہیں ؟
جواب: ہمارے کام کا ماضی بھی انتہائی شاندار تھا ،حال بھی زبردست ہے اور مستقبل بھی روشن نظر آرہا ہے۔ ہمیں اللہ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔
سوال: جامعۃالرشید نے حالات حاضرہ کے چیلجنز کا مقابلہ کرنے کے لیے فضلاء کے لیے مختلف کو رس شروع کر رکھتے ہیں ان کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے ؟
جواب: جامعۃ الرشید کے تمام اسپیشل کورسز جامعہ کا انتہائی احسن اقدام ہے ،جامعہ کی جو موجودہ ٹیم ہے یہ نئی ہے۔ میرا تو جامعۃ الرشید سے اس وقت سے تعلق ہے جب جامعۃ الرشید کی ابھی تک جگہ بھی نہیں خریدی تھی۔ دارالافتاءبالکل چھوٹا سا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے جب میں ثالثہ والے سال جامعہ بنوریہ سائٹ ٹاون کراچی میں تھا تو چھٹیوں میں حضرت والا کے پاس آیا تو حضرت والا نے حضرت استاد صاحب سے فرمایا کہ اسے تخصص کی تیاری کرواؤ۔ تو جو تخصص والوں کے لیے حضرت کا ریکارڈ شدہ درس تھا میں نے وہ سنا اور کنز والے سال ہی میں نے سورہ فاتحہ اور سورہ بقرہ کے دو رکوع کی ترکیب حضرت استاد صاحب کو سنائی تھی اور اسی سال ہدایہ رابع کے سبق میں بیٹھا تھا۔ میرا جامعۃ الرشید سے بہت پرانا اور گہرا تعلق ہے میں ان تمام کورسز پر بہت خوش ہوں اور جامعہ کے منتظمین کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔میں جامعۃالرشید کا وکیل بلا توکیل ہوں۔اپنے اجتماعات میں جامعہ کا تعارف کرواتا ہوں۔ جامعہ نے جو اسپیشل کو رسز شروع کر رکھے ہیں ان کی معاشرہ میں بڑی ڈیمانڈ ہے۔ ایسا آدمی جو عربی بھی جانتا ہو، انگلش بھی جانتا ہو،درس نظامی کا فاضل ہو اور ایم اے بھی ہو تو یہ سونے پہ سہاگہ ہے۔یہ وقت کی انتہائی اہم ضرورت ہے۔
سوال: علماء کاسرکاری اداروں میں جانا کیسا ہے ؟
جواب: میں تو مفتی نہیں ہوں اگر مفتی ہوتا تو علماء کے سرکاری اداروں میں جانے کو فرض قرار دیتا کیونکہ جب علماء سرکاری اداروں میں نہیں جائیں گے تو نتائج کیا ہوں گے؟وہ آپ کے سامنے ہیں جب پاکستان کا بیورو کریٹ طبقہ سو فیصد صالح مسلمان ہو تو معاشرہ میں انقلاب کی راہیں کھلیں گی۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا بھی یہی مؤقف تھا کہ علماء کو سرکاری مشینری کا حصہ بننا چاہئے۔
سوال: وہ فضلاء جو معاشرے میں مستقل بنیادوں پر کام کر نا چاہتے ہیں اور معاشرہ میں انقلاب کے راستے ہموار کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے کام کرنے کا کیا طریقہ کار ہو؟اور آپ انہیں کیا نصائح فرمائیں گے؟
جواب: میں فضلاء کرام سے تین گزارشیں کرتا ہوں۔ گناہوں سے بچیں۔مسلک کا کام کریں۔ اپنے اکابر کے ساتھ وابستہ رہیں۔گناہوں سے بچیں گے تو اللہ راضی ہو گا۔مسلک کا کام کریں گے تو صحیح عقیدہ پھیلے گا۔اکابر کے ساتھ وابستہ رہیں گے تو صحیح رخ پر چلتے رہیں گے۔فضلاء ان تین کاموں کا اہتمام فرمائیں تو انشاء اللہ بہت تیزی کے ساتھ کام پھیلے گا۔عقیدہ صحیح ہوا اور کام اکابر کی سرپرستی میں کیا جائے تو اس کا معاشرہ پر بڑا اثر پڑتا ہے اور انقلاب کی راہیں کھلتی ہیں

۔