اقسام اعتکاف

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اقسام اعتکاف
اعتکاف کی تین قسمیں ہیں: واجب،سنت،نفل
1: اعتکافِ واجب
اعتکاف واجب وہ ہے جو منت ماننے سے واجب ہو گیا ہو یا کسی مسنون اعتکاف کے توڑ دینے سے اس کی قضا واجب ہو گئی ہو۔
اعتکافِ واجب کے مسائل
1: جس اعتکاف کی زبان سےمنت مان لی ہووہ منت کسی شرط پرموقوف ہو یا نہ ہودونوں صورتوں میں اعتکاف واجب ہوجاتاہے۔
2: صرف دل میں نیت کر لینے سے منت نہیں ہوتی بلکہ زبان سے الفاظ کا ادا کرنا ضروری ہے۔
3: منت والے اعتکاف میں روزہ رکھنا ضروری ہے، خواہ یہ روزہ رمضان کا ہو یا اس کے علاوہ کسی اور مہینہ کا، اور اعتکاف بھی رمضان میں ہویا اس کے علاوہ میں۔
4: ایک دن کا اعتکاف کرنے کی منت مانی ہو تو صرف دن کااعتکاف واجب ہوگا۔ اگر24گھنٹے کی نیت ساتھ کی ہو تب 24گھنٹے ہی کا اعتکاف واجب ہوگا۔
5: اگر کسی نے منت مانتے وقت یہ کہا کہ میں رات کا اعتکاف کروں گا اور دل میں نیت دن کی بھی تھی تویہ منت صحیح نہیں ہے۔اس پر اعتکاف واجب نہیں ہوگا،کیونکہ رات میں روزہ نہیں ہوتا۔
6: اگر ایک سے زائد دنوں کے اعتکاف کی نیت مانی تو اتنے دن اور رات دونوں کا اعتکاف کرنا پڑے گا اور اگرایک رات سے زیادہ راتوں کے اعتکاف کی منت مانی تب بھی دن اور رات دونوں کا اعتکاف کرنا ضروری ہے۔
7: اگر ایک سے زیادہ دنوں کے اعتکاف کی منت مانی ہواور نیت یہ کی کہ صرف دن کو اعتکاف کروں گا اور رات کومسجد سےباہرآجاؤں گا تو ایسی نیت درست ہے۔ لہٰذا ایسا شخص صبح صادق سے پہلے مسجد میں چلا جائے اور غروبِ آفتاب کے بعد واپس آجائے۔
8: جب ایک سے زیادہ دنوں کے اعتکاف کی منت مانی ہو تو ان دنوں میں پےدرپے روزانہ اعتکاف کرنا واجب ہے،درمیان میں وقفہ نہیں کرسکتا البتہ اگرمنت مانتے وقت زبان سے کہہ دے کہ میں اتنے دنوں میں متفرق طور پر اعتکاف کروں گا تو یہ بھی جائز ہے۔
9: جن کاموں کیلیے سنت اعتکاف میں نکلناجائز ہے،واجب اعتکاف میں بھی ان کاموں کیلیے نکلنا جائز ہےاورجن کاموں کیلیے اعتکافِ سنت میں نکلنا جائزنہیں تو ان کاموں کے لیےاعتکاف واجب میں بھی نکلنا جائزنہیں۔
2:اعتکافِ سنت
اعتکافِ سنت وہ ہے جوصرف رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں کیا جاتا ہے۔
مسائل اعتکافِ سنت
1: رمضان کے سنت اعتکاف کا وقت بیسواں روزہ پورا ہونے کے دن غروبِ آفتاب سےشروع ہوتاہےاورعید کا چاندنظر آنےتک رہتا ہے۔ معتکف کو چاہیے کہ وہ بیسویں دن غروبِ آفتاب سے پہلے اعتکاف والی جگہ پہنچ جائے۔
2: یہ اعتکاف سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے،یعنی بڑے شہروں کےمحلے کی کسی ایک مسجد میں اور گاؤں دیہات کی پوری بستی کی کسی ایک مسجد میں کوئی ایک آدمی بھی اعتکاف کرےگا توسنت سب کی طرف سے ادا ہو جائے گی۔اگر کوئی بھی اعتکاف نہ کرے تو سب گنہگار ہونگے۔
3: جس محلے یا بستی میں اعتکاف کیا گیا ہے،اس محلے اور بستی والوں کی طرف سے سنت ادا ہو جائے گی اگرچہ اعتکاف کرنے والا دوسرے محلے کا ہو۔
4: آخری عشرے کے چند دن کا اعتکاف، اعتکافِ نفل ہے،سنت نہیں۔
5: عورتوں کو مسجد کے بجائے اپنے گھر میں اعتکاف کرنا چاہیے۔
6: سنت اعتکاف کی دل میں اتنی نیت کافی ہے کہ میں اللہ تعالی کی رضا کیلیے رمضان کے آخری عشرے کا مسنون اعتکاف کرتا ہوں۔
7: کسی شخص کو اجرت دے کر اعتکاف بٹھانا جائز نہیں۔
8: مسجد میں ایک سے زائدلوگ اعتکاف کریں تو سب کو ثواب ملتا ہے۔
9: مسنون اعتکاف کی نیت بیس تاریخ کے غروبِ شمس سے پہلے کر لینی چاہیے، اگر کوئی شخص وقت پر مسجد میں داخل ہو گیا لیکن اس نے اعتکاف کی نیت نہیں کی اور سورج غروب ہو گیا تو پھر نیت کرنے سے اعتکاف سنت نہیں ہو گا۔
10: اعتکافِ مسنون کے صحیح ہونے کیلیے مندرجہ ذیل چیزیں ضروری ہیں

1)

مسلمان ہونا

2)

عاقل ہونا

3)

اعتکاف کی نیت کرنا

4)

مرد کا مسجد میں اعتکاف کرنا

5)

مرد اور عورت کا جنابت یعنی غسل واجب ہونے والی حالت سے پاک ہونا۔ یہ شرط اعتکاف کے جائز ہونے کیلیے ہے لہٰذا اگر کوئی شخص حالت جنابت میں اعتکاف شروع کر دےتو اعتکاف تو صحیح ہو جائے گا لیکن یہ شخص گناہگار ہو گا۔

6)

عورت کا حیض ونفاس سے خالی ہونا

7)

روزے سے ہونا۔ اگر اعتکاف کے دوران کوئی ایک روزہ نہ رکھ سکے یا کسی وجہ سے روزہ ٹوٹ جائے تو مسنون اعتکاف بھی ٹوٹ جائےگا۔
11: اگر کسی شخص نے پہلے دوعشروں میں روزے نہ رکھے ہوں یا تراویح نہ پڑھی ہو تو وہ بھی اعتکاف کر سکتا ہے۔
12: جس شخص کے بدن سے بدبو آتی ہو یا ایسا مرض ہو جس کی وجہ سے لوگ تنگ ہوتے ہوں تو ایسا شخص اعتکاف میں نہ بیٹھے البتہ اگر بدبو تھوڑی ہو جو خوشبو وغیرہ سے دور ہوجائے اور لوگوں کو تکلیف نہ ہو، تو جائز ہے۔
اعتکاف کی حالت میں جائز کام

1.

کھانا پینا بشرطیکہ مسجد کو گندا نہ کیاجائے

2.

سونا

3.

ضرورت کی بات کرنا

4.

اپنا یا دوسرے کا نکاح یا کوئی اور عقد کرنا

5.

کپڑے بدلنا

6.

خوشبو لگانا

7.

تیل لگانا

8.

کنگھی کرنابشرطیکہ مسجد کی چٹائی اورقالین وغیرہ خراب نہ ہوں 

9.

مسجد میں کسی مریض کا معائنہ کرنا نسخہ لکھنا یا دوا بتا دینا لیکن یہ کام بغیر اجرت کے کرے تو جائز ہیں ورنہ مکروہ ہیں۔

10.

برتن وغیرہ دھونا۔

11.

ضروریات زندگی کیلیے خرید و فروخت کرنا بشرطیکہ سودا مسجد میں نہ لایا جائے، کیونکہ مسجد کو باقاعدہ تجارت گاہ بنانا جائز نہیں۔

12.

عورت کا اعتکاف کی حالت میں بچوں کو دودھ پلانا۔

13.

معتکف کا اپنی نشست گاہ کے ارد گرد چادریں لگانا۔

14.

معتکف کامسجد میں اپنی جگہ بدلنا۔

15.

بقدر ضرورت بستر،صابن، کھانے پینے کے برتن، ہاتھ دھونے کے برتن اور مطالعہ کیلیے دینی کتب مسجد میں رکھنا۔
اعتکاف کے ممنوعات و مکروہات

1.

بلاضرورت باتیں کرنا۔

2.

اعتکاف کی حالت میں فحش یا بےکار اور جھوٹے قصے کہانیوں یا اسلام کے خلاف مضامین پر مشتمل لٹریچر تصویر دار اخبارات و رسائل یا اخبارات کی جھوٹی خبریں مسجد میں لانا،رکھنا،پڑھنا،سننا۔

3.

ضرورت سے زیادہ سامان مسجد میں لا کر بکھیر دینا۔

4.

مسجد کی بجلی،گیس اور پانی وغیرہ کا بےجا استعمال کرنا۔

5.

مسجدمیں سگریٹ، بیٹری وحقہ پینا۔

6.

اجرت کے ساتھ حجامت بنانا اور بنوانا، لیکن اگر کسی کو حجامت کی ضرورت ہے اور بغیر معاوضہ کے بنانے والا میسر نہ ہو تو ایسی صورت اختیار کی جا سکتی ہےکہ حجامت بنانے والا مسجد سے باہر رہے اور معتکف مسجد کے اندر۔
حاجاتِ طبعیہ
پیشاب،پاخانہ اوراستنجے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہے،جن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں

1.

پیشاب، پاخانہ کیلیے قریب ترین جگہ کا انتخاب کرنا چاہیے۔

2.

اگر مسجد سے متصل بیت الخلاء بنا ہوا ہے اور اسے استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے،تووہیں ضرورت پوری کرنی چاہیے اور اگر ایسا نہیں ہے تو دور جا سکتا ہے، چاہےکچھ دورجانا پڑے۔

3.

اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو انتظار کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے، البتہ فارغ ہونے کے بعد ایک لمحہ بھی وہاں ٹھہرنا جائز نہیں۔

4.

قضاء حاجت کیلیے جاتے وقت یا واپسی پر کسی سے مختصر بات چیت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ اس کیلیے ٹھہرنا نہ پڑے۔
واجب غسل کیلئے
اگر کسی معتکف پر غسل واجب ہو جائے تو غسل کرنے کی ضرورت کیلیے معتکف کو باہر نکلنا جائز ہےجن کے مسائل مندرجہ ذیل ہیں
1: معتکف کو دن یا رات میں احتلام ہوجائے تو اعتکاف پر کوئی اثر نہیں پڑتا
2: اگر مسجد کا کوئی غسل خانہ موجود ہے تو اس میں غسل کرنا چاہیے لیکن اگر مسجد کا غسل خانہ نہیں ہے یا اس میں غسل کرنا کسی وجہ سے ممکن نہیں مثلاً مسجدمیں پانی کے گرنے کا خطرہ ہے تو اس صورت میں باہر جانا جائز ہے۔
3: سردیوں میں احتلام ہو جائے،مسجد میں گرم پانی کا انتظام نہ ہو اور ٹھنڈے پانی سے نقصان کا اندیشہ ہو تو معتکف تیمم کرے،مسجدمیں رہے اور اپنے گھر اطلاع کرے تاکہ پانی گرم ہو جائے۔اگر قرب و جوار میں کوئی گرم حمام ہو تو وہاں جا سکتا ہے ہوسکے تو وہاں بھی پہلے اطلاع کردے اورفوراً غسل کرکےآجائے۔
وضو کرنے کیلئے
وضو کی ضرورت کیلیے معتکف باہر نکل سکتا ہےچند مسائل یہ ہیں
1: اگر مسجد میں وضو کرنے کی ایسی جگہ موجود ہے کہ معتکف تو مسجد میں رہے اور وضو کا پانی مسجد سے باہر گرے تو مسجد سے باہر نکلنا جائز نہیں اور اگر ایسی جگہ موجود نہیں ہےتب وضو کیلیے کسی قریبی جگہ جانا جائز ہے۔
2: نماز فرض، سنت،نفل،سجدہ تلاوت اورقرآن کریم کو چھونے کیلیے وضو کی غرض سے باہر جا سکتا ہے کیونکہ ان سب چیزوں کیلیے وضو ضروری ہے البتہ صرف تسبیح ذکر، درود شریف وغیرہ پڑھنے کی غرض سے وضو کرنے کیلیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں کیونکہ ان چیزوں کیلیے وضو ضروری نہیں۔
3:اگر پہلے سے وضو ہے توتازہ وضو کرنے کیلیے مسجد سے باہر جانا جائز نہیں۔
کھانے پینے کی ضروری اشیا باہر سے لانے کیلئے
1: کھانا پانی لانے کیلیےکوئی میسر نہ ہو تو اس غرض سے باہر جانا جائز ہے۔
2: ایسے وقت میں کھانا لینے کیلیے جائے جب اسے کھانا تیار مل جائےلیکن اگر گھر میں جا کر اسےمعلوم ہو کہ کھانے میں کچھ دیر ہے تو مختصر انتظار کر سکتا ہے۔
3: اگر کھانا لانے کی ذمہ کسی کی لگادی گئی ہے،لیکن اتفاق سے وہ نہیں آیا تب بھی کھانا لانے کیلیے باہر جا سکتا ہے۔
جمعہ کی نماز کیلئے
1: بہتر ہے کہ ایسی مسجد میں اعتکاف کیا جائے جس میں نمازِجمعہ ہوتی ہو، لیکن اگر کسی مسجد میں جمعہ نہیں ہوتا تو دوسری مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلیے جا سکتا ہے۔ البتہ اس غرض کیلیے ایسے وقت میں نکلے جب اسے اندازہ ہوکہ جمعہ کی جگہ پہنچ کر چار رکعت سنت ادا کرنے کے فوراً بعد خطبہ شروع ہوجائے گا۔
2: کسی مسجد میں جمعہ پڑھنے کیلیے گیا توفرض پڑھنے کے بعد سنتیں بھی وہیں پڑھ سکتا ہے لیکن اس کے بعد ٹھہرناجائز نہیں، تاہم اگر ضرورت سے زیادہ ٹھہرا تو چونکہ مسجد ہی میں ٹھہرا ہے اس لیے اعتکاف نہیں ٹوٹے گا۔
3: جمعہ کی نماز کےیہ احکام صرف مردوں کیلیے ہیں، عورتوں کیلیے نہیں کیونکہ عورتوں پر جمعہ واجب ہی نہیں۔لہٰذا ان کوجمعہ کیلیے جانے کی نہ ضرورت ہے اور نہ ان کیلیے جائز ہے۔
اذان دینے کیلئے
1: اگر کوئی مؤذن اعتکاف میں بیٹھے اور اسے اذان دینے کیلیے مسجد سے باہر جانا پڑے تو جا سکتا ہے، البتہ اذان کے بعد باہر نہ ٹھہرے۔
2: اگر اذان کی جگہ تک جانے کیلیے دو راستے ہوں ایک مسجد کی حد کے اندر سے اور دوسرا باہر سے تو اندر والے راستے سے جانا چاہیے۔
مزید چند مسائل
اگر شرعی ضرورت کی وجہ سے باہر گیا اور واپس آتے ہوئے کوئی بیمار مل گیا اس کی چلتے چلتے بیمار پرسی کرلی یا چلتے چلتے سلام کر لیا یا نمازِجنازہ بالکل تیارتھی اس میں شامل ہوگیا تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
3:اعتکاف نفل
اس کے لیے خاص مدت اور خاص زمانہ کا ہونا ضروری نہیں اور نہ ہی روزہ رکھنا ضروری ہے۔ اس کےمسائل مندرجہ ذیل ہیں۔
1: نفلی اعتکاف ہرمسجدمیں ہوتاہے،خواہ اس مسجد میں نماز باجماعت کا اہتمام ہو یا نہ ہو۔
2: اعتکاف کی نیت سے مسجد میں داخل ہوا یا نماز پڑھنے کیلیے یا کسی اور ضرورت کیلیے اور نیت کر لی تو ان سب صورتوں میں اعتکاف کا ثواب ہوگا۔
3: نفلی اعتکاف اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک آدمی مسجدمیں رہے باہر نکلنے سے اعتکاف ختم ہو جاتا ہے ٹوٹتا نہیں۔
4: نفلی اعتکاف میں بار بار اٹھ کر چلے جانا اور پھر آنا سب جائز ہے۔