قسط -5 فکرِآخرت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط -5 فکرِآخرت
اللہ تعالیٰ کا خوف اور فکرِآخرت کوانسانی زندگی کی کامیابی اور سنورنے میں بنیادی حیثیت حاصل ہے اور اسے حقیقی اسلامی تصوف کی بنیاد و اساس قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت میں ان دو صفات کو پیدا کرنے کے لیے بہت محنت فرمائی، کبھی تو ان صفات کے فضائل و فوائد بیان فرمائے اور کبھی اللہ تعالیٰ کے جلال و قہر اور آخرت کے سخت ترین حالات کا تذکرہ فرمایا تاکہ دلوں میں اللہ کا خوف اور فکرِآخرت پیدا ہو۔
جب یہ صفات دل میں آجائیں تو انسان کی ساری زندگی بدل جاتی ہے ، خواہشات و شہوات کی اتباع سے جان چھوٹ جاتی ہے اور انسان کے لیے دین اسلام پر عمل کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نےوعظ و نصیحت کے ذریعے لوگوں میں اللہ کا خوف اور فکر آخرت کو پیدا کیا جس کے اثرات یہ تھے کہ وہ معاشرہ جو ساری دنیا میں بدتہذیبی کی مثال بنا ہوا تھا وہی معاشرہ ساری دنیا کے سامنے مثالی معاشرہ کے طور پر رونما ہوا۔آج بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انہی تعلیمات پر عمل کی ضرورت ہے تاکہ اسلامی معاشرہ اپنی کھوئی ہوئی اقدار حاصل کر سکے اس حوالے سے چند احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں ۔
1: عَنِ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ كَانَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا ذَهَبَ ثُلُثَا اللَّيْلِ قَامَ فَقَالَ يَا أَيُّهَا النَّاسُ اذْكُرُوا اللَّهَ اذْكُرُوا اللّهَ جَاءَتْ الرَّاجِفَةُ تَتْبَعُهَا الرَّادِفَةُ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ جَاءَ الْمَوْتُ بِمَا فِيهِ.
جامع الترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق، باب منہ، حدیث نمبر2457
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا جب دو تہائی رات گزر جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اٹھتے اور فرماتے: لوگو!اللہ کو یاد کرو ، اللہ کو یاد کرو ، قریب آ گیا ہے )کائنات کے نظام کو (ہلا ڈالنے والا قیامت کا بھونچال)یعنی جب اللہ کے حکم سے حضرت اسرافیل علیہ السلام پہلی مرتبہ صور پھونکیں گے( اور اس کے بعدآ رہا ہے دوسرا )یعنی جب دوسری مرتبہ حضرت اسرافیل علیہ السلام صور پھونکیں گے(، موت اُن سب احوال کو لے کر ساتھ لے کرسر پر آ چکی ہے ، موت اپنے احوال کے ساتھ سر پر آ چکی ہے ۔
2: عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللّهِ.
جامع الترمذی، باب حدیث الکیس من دان نفسہ، حدیث نمبر2459
ترجمہ: حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سمجھ دار وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو پہچانے اور مرنے کے بعد کام آنے والے نیک اعمال کرےاوربے وقوف وہ شخص ہے جو اپنے آپ کو نفسانی خواہشات کا تابع بنائے )یعنی اللہ کے احکامات پر عمل کے بجائے اپنی خواہشات کے مطابق زندگی بسر کرے (اور اللہ سے امیدیں بھی باندھے۔
3: عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَزُولُ قَدَمُ ابْنِ آدَمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مِنْ عِنْدِ رَبِّهِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ خَمْسٍ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَ أَفْنَاهُ وَعَنْ شَبَابِهِ فِيمَ أَبْلَاهُ وَمَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَ أَنْفَقَهُ وَمَاذَا عَمِلَ فِيمَا عَلِمَ.
جامع الترمذی ،کتاب صفۃ القیامۃ والرقائق ،حدیث نمبر2416
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:قیامت کے دن اس وقت تک کوئی شخص پاؤں نہیں اٹھا سکے گا یہاں تک کہ اس سے پانچ سوالات نہ پوچھ لیے جائیں : اس نے عمر کیسے گزاری ؟ جوانی کہاں کھپائی؟ مال کیسے کمایا ؟اور کہاں خرچ کیا؟ اور اپنے علم پر عمل کتنا کیا ؟
4: عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَى شَابٍّ وَهُوَ فِي الْمَوْتِ فَقَالَ كَيْفَ تَجِدُكَ قَالَ وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنِّي أَرْجُو اللّهَ وَإِنِّي أَخَافُ ذُنُوبِي فَقَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَجْتَمِعَانِ فِي قَلْبِ عَبْدٍ فِي مِثْلِ هَذَا الْمَوْطِنِ إِلَّا أَعْطَاهُ اللّهُ مَا يَرْجُو وَآمَنَهُ مِمَّا يَخَافُ.
جامع الترمذی، باب الرجاء باللہ والخوف بالذنب عند الموت، حدیث نمبر983
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک نوجوان کے پاس اس وقت تشریف لے گئے جب وہ دنیا سے رخصت ہونے کے قریب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کہ تمہاری دلی کیفیت کیسی ہے ؟ اس شخص نے عرض کی : یا رسول اللہ !اس وقت میری کیفیت یہ ہے کہ میں اللہ تعالیٰ سے رحمت کی امید بھی رکھتا ہوں اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے اپنے گناہوں کی سزا اور عذاب کا ڈر بھی ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس دل میں ایسے )موت کے ( وقت میں بھی یہ دو کیفیتیں جمع ہوں تو اللہ تعالیٰ اس کو وہ ضرور عطا فرمائیں گے جس کی اسے امید ہے یعنی اپنی رحمت ۔ اور اس چیز سے اس کو ضرور محفوظ رکھیں گے جس کا اس کے دل میں خوف ہے ۔ یعنی سزا اور عذاب سے ۔
5: عَنْ عَائِشَةَرَضِيَ اللهُ عَنْهَا قَالَتْ: قَالَ لِي رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا عَائِشَةُ إِيَّاكِ وَمُحَقَّرَاتِ الْأَعْمَالِ، فَإِنَّ لَهَا مِنَ اللَّهِ طَالِبًا .
سنن ابن ماجہ، باب ذکر الذنوب ،حدیث نمبر4243
ترجمہ: حضرت ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عائشہ اپنے آپ کو اُن گناہوں سے بچانے کی خاص طور پر فکر کرو جن کو معمولی سمجھا جاتا ہے کیونکہ اللہ تعالی کی طرف سے ان گناہوں کی بھی پوچھ تاچھ ہو گی ۔
6: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍرَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤْمِنٍ يَخْرُجُ مِنْ عَيْنَيْهِ دُمُوعٌ، وَإِنْ كَانَ مِثْلَ رَأْسِ الذُّبَابِ، مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ، ثُمَّ تُصِيبُ شَيْئًا مِنْ حُرِّ وَجْهِهِ، إِلَّا حَرَّمَهُ اللّهُ عَلَى النَّارِ.
سنن ابن ماجہ، باب الحزن والبکاء، حدیث نمبر 4197
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس بندے کی آنکھوں سے اللہ کے خوف اور ہیبت کی وجہ سے آنسو نکل آئیں اگرچہ وہ بہت معمولی مقدار میں ہوں مثلاً مکھی کے سر کے برابر ہی ہوں پھر وہ آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ جائیں تو اللہ تعالیٰ اس چہرے کو جہنم کی آگ کے لیے حرام کر دیتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنا خوف اور آخرت کی فکر کرنے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
کراچی ، پاکستان
جمعرات، 9فروری، 2017ء