قسط-34 ذکر اللہ ……حصہ سوم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط-34 ذکر اللہ ……حصہ سوم
اللہ تعالیٰ کا ذکر آسان ترین اور افضل ترین عبادت ہے ۔ گزشتہ دو قسطوں میں آپ نے آیاتِ قرآنیہ اور احادیثِ نبویہ کے حوالے سے ” ذکر اللہ“ کے فضائل و فوائد پڑھے۔ اس قسط میں ذکر اللہ کے متعلقہ 10 اہم باتیں ملاحظہ فرمائیں ۔

1.

ذکرا للہ کے لیے کوئی وقت متعین نہیں۔ دن ، رات ، صبح ، دوپہر ، شام ، چاشت ، زوال الغرض دن رات کے کسی بھی حصے میں کرنا چاہیں ، کریں ۔

2.

ذکرا للہ کے لیے جگہ متعین نہیں ۔ شہر ، دیہات ،مسجد ، گھر ،دفتر ،بازار ، کھیت ،ہوا ، فضاء ، سمندر یا صحراء الغرض جہاں بھی ہوں ، ذکر اللہ کرتے رہیں ۔

3.

ذکرا للہ کے لیے جہت متعین نہیں ۔ مشرق ، مغرب ، شمال ، جنوب ، فوق ، تحت ، قبلہ رو ہوں یا نہ ہوں ۔

4.

ذکرا للہ کے لیے الفاظ متعین نہیں ۔ اللہ اکبر ،سبحان اللہ ، الحمد للہ ، لا الہ الا اللہ ، استغفر اللہ اور تلاوت قرآن کریم وغیرہ ۔

5.

ذکر اللہ کی ہیئت متعین نہیں ۔کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ، چلتے ،پھرتے ، دوڑتے ، پیدل ، سوار )خواہ کوئی بھی سواری ہو سائیکل سے لے کر ہوائی جہاز اور آبدوز تک ) ہر طرح اللہ کا ذکر کرنا چاہیے ۔

6.

ذکراللہ کے لیے کوئی حالت متعین نہیں ۔خوشی ، غمی سکون ، پریشانی ، امن ، خوف یا جنگ یہاں تک کہ باوضو یا بغیر وضو کے ہر حالت میں اللہ کا ذکر کریں ۔

7.

ذکر اللہ کے لیے کوئی کیفیت متعین نہیں ۔ انفرادی ، اجتماعی ، خلوت ، جلوت ۔ جو موقع میسر ہو اس میں اللہ کا ذکر کریں ۔

8.

ذکر اللہ کے لیے جہر اور سر متعین نہیں ۔ زبان سے کریں یا دل سے کریں ، بعض افراد کے لیے جہراًافضل ہے اور بعض افراد کے لیے سراً افضل ہے جبکہ بعض افراد کے لیے قلب کی کیفیت افضل ہے ۔

9.

ذکراللہ کے لیے جنس اور عمر متعین نہیں ۔ مرد ، عورت ، خواجہ سرا، بڑے ، چھوٹے ، بالغ ، نابالغ سب کریں ۔ بڑوں کو تو کرنا ہی چاہیے ،بالخصوص بچوں کو بھی اس عبادت کی عادت ڈالنی چاہیے ۔

10.

ذکر اللہ کی تعداد متعین نہیں ۔ ایک بار ،دس بار ، سو بار ، ہزار بار ، لاکھ بار ،بار بار بلکہ جتنی بار بھی کیا جائے پھر بھی کم ہے ۔ ہاں بعض اذکار میں تعداد متعین بھی ہے۔ جیسے تسبیحاتِ فاطمہ وغیرہ ۔
فائدہ : مشائخِ سلوک و احسان اور پیرانِ طریقت کے تجویز کردہ متعینہ عدد کے اذکار اس لیے ہوتے ہیں کہ انسان میں کثرت سے ذکر اللہ کی عادت پیدا کی جائے ۔
آخری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ اصلاح احوال اور درستگی عقائد و اعمال کے لیے کسی متبعِ سنت شیخ طریقت سے بیعت کی جائے اور اذکار کو اپنے شیخ سے پوچھ کر کیا جائے اس کا فائدہ اور نفع زیادہ ہوگا ۔ اس کو ایک عام فہم مثال سے سمجھیں : جیسے جسم کو طاقت دینے والی مقویات تو بہت زیادہ ہوتی ہیں لیکن ان کا استعمال حکیم (جسمانی طبیب) سے پوچھ کر کیا جاتا ہے،وہ مریض کے حالت اور مزاج کے موافق مقویات تجویز کرتا ہے۔ ایسے ہی تمام اذکار نفع بخش ہیں شیخِ طریقت (روحانی طبیب) ہوتا ہے وہ مرید کے حالات کے موافق اذکارتجویز کرتا ہے۔ پھر آہستہ آہستہ اس کی تعداد میں اضافہ کرتا چلا جاتا ہے ۔ مقصد یہی ہوتا ہے کہ بہت زیادہ اذکار کرنے سے انسانی طبیعت اکتاہٹ اور غیر مستقل مزاجی کا شکار نہ ہو جائے ۔ کیونکہ شریعت میں ایسا عمل جو مقدار میں اگرچہ تھوڑا ہو لیکن اس پر باقاعدگی اور ہمیشگی ہو وہ اس عمل سے کہیں بہتر ہے جو زیادہ ہو لیکن عارضی اور جز وقتی ہو ۔
اس لیے جب کچھ دنوں تک کثرت سے ذکر اللہ کی عادت بن جاتی ہے تو شیخ زیادہ سے زیادہ ذکر کرنے کی تلقین کرتا ہے ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں ہر وقت، ہر جگہ اور ہر حال میں اپنا مبارک نام کثرت کے ساتھ لینے کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
پاکستان مسجد کوالالمپور ، ملائیشیا
جمعرات ، 27 جولائی ،2017ء