قسط-54 دینی میسجز میں احتیاط کی ضرورت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط54 دینی میسجز میں احتیاط کی ضرورت
اللہ تعالیٰ سچ بولنے کاتاکید کے ساتھ حکم دیتے ہیں اور جھوٹ بولنے سے سختی کے ساتھ منع فرماتے ہیں ، اسلامی تعلیمات میں جھوٹ گناہ کبیرہ ہے ، لیکن دلائل شریعت میں جھوٹ کی آمیزش کر دی جائے تو پھر یہ محض کبیرہ نہیں رہتا بلکہ اکبر الکبائر )کبیرہ گناہوں میں بہت بڑا گناہ(بن جاتا ہے ۔ دین اسلام کی بنیاد محکم ، مضبوط ، معتبر ، معتمد اور مستند ہے اس میں کمزور ، مشکوک ، اٹکل پچو ، تک بندی ، اندازے اور تخمینے نہیں چلتے ۔
اسلام پر ایمان اور اس کے احکامات پر عمل کا مدار قرآن کریم کے بعد احادیث مبارکہ ہیں ، قرآن کریم کے الفاظ ، معانی ، مفہوم ، تعیین ، مراد اور حقیقت احادیث مبارکہ سے سمجھی جا سکتی ہے اس لیےیہاں سخت احتیاط کاحکم دیا ہے۔ علمائے امت نے احادیث کے الفاظ ، معانی ، مفہوم ، متون ، اسناد ، رواۃ)نقل کرنے والے افراد(، صحت و ثقاہت ، اس کی ضرورت ، حجیت ، حفاظت ،جمع و تدوین کے ساتھ ساتھ اس کے اصول و قواعد ، اقسام و اسلوب اور روایت کرنے کے آداب و شرائط کو مکمل تفصیل ،خوب تحقیق اور عمدہ ترتیب کے ساتھ بیان کیا ہے ، اس کی حفاظت کے لیے اسماء الرجال اور جرح و تعدیل جیسے علوم کو ضروری قرار دیا تاکہ اسلام کی یہ بنیاد مضبوط ہی رہے ۔
چونکہ یہ اسلام کی بنیاد ہے اس لیے اس کی اشاعت ، حفاظت ، تعلیم و تبلیغ اور تفہیم میں علماء کرام نے بہت محنت سے کام کیا ہے ، محدثین اور کتب احادیث کے مختلف طبقات مقرر کیے گئے۔ یہ معاملہ اس قدر نازک اور حساس ہے کہ اگر کوئی شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات یا کام کی نسبت جھوٹ کے طور پر کردے ، یعنی بات واقعتا درست بھی ہو لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود ارشاد نہ فرمائی ہو یا کام بلکہ درست اور جائز ہو لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ فرمایا ہو اور کوئی شخص اپنی طرف سے اس بات یا کام کی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کر دے تو اس کا ٹھکانہ جہنم ہے ۔
عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قالَ: مَنْ كذَبَ علَيَّ مُتَعَمِّداً، فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ.
صحیح بخاری، باب اثم من کذب علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ، حدیث نمبر 74
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے )میری طرف کسی کام یا کسی بات کی جھوٹی نسبت کرے(تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے ۔
نوٹ : اس مفہوم کی حدیث حضرت علی المرتضی،حضرت انس ، حضرت مغیرہ بن شعبہ ، حضرت سلمہ بن اکوع ، حضرت سمرہ بن جندب اور دیگر بہت سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے مروی ہے ۔
ہاں سچی بات ضرور کہی جائے لیکن جو حدیث نہ ہو اسے زبردستی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بنا کر پیش نہ کیا جائے ۔ یہ طرز عمل جہنم جانے کا سبب ہے ۔ آج علمی زوال اور اخلاقی انحطاط اور عملی فقدان کا زمانہ ہے ، عقائد میں کمزوریاں اور توہمات دَر آئے ہیں ، اعمال میں بدعات و رواج گھس آئے ہیں ، اخلاق رسم محض اور اخلاص سے دل خالی ہو چکے ہیں ۔
بد دینی کا اندھا مسافر لادینی کی انجانی منزل کی طرف گامزن ہے ۔ ایسے میں دینی علم و عمل سے عاری اور اخلاق و اخلاص سے خالی جاہل طبقے نے اسلام کو مشق ستم بنا رکھا ہے ۔
موسم کے مطابق دین کے نام پر میسجز بناتے ہیں ، نہ کسی معتبر عالم دین سے اس کی رہنمائی لیتے ہیں اور نہ ہی معتبر کتب کی طرف مراجعت کرتے ہیں ، بس ایک شوشہ چھوڑتے ہیں اور لاعلمی کی بنیاد پر ایک جھوٹی بات کو حدیث بنا کر پیش کر دیتے ہیں اور اس کے بعد میسج بنا کر پھیلا دیتے ہیں ، پھر عوام ا س کو دھڑا دھڑ دین سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں ۔ مثال کے طور ان دنوں یہ میسج چلایا جارہا ہے :
”دو دسمبر اتوار کو ربیع الاول شروع ہونے والا ہے ۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس نے سب سے پہلے کسی کو ربیع الاول کی مبارک دی اس پر جنت واجب ہوگئی ۔ “
جس مہینے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کی پیدائش ہوئی یقینا وہ مہینا محترم ہے ، لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس مہینے کی فضیلت بیان کرنے کے لیے جھوٹی اور بے بنیاد بات کو حدیث بنا کر پیش کیا جائے ۔ پھر ستم یہ ہے کہ سادہ لوح مسلمان اسے دین کا حکم سمجھ کر آگے پھیلاتے ہیں ، میسج کے آخر یا شروع میں یہ بھی اضافہ کیا جاتا ہے کہ یہ میسج اور پوسٹ اتنے لوگوں کو سینڈ کریں ، مسلمان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے اسے لائک اور شئیر ضرور کریں ، اتنے لوگوں کو فاروڈ کریں گے تو خوشی ملے گی ، اور اگر اس کو آگے نہ پھیلایا تو کوئی ناگہانی آفت اور صدمہ پیش آئے گا ۔
یاد رکھیں!شریعت اسلامیہ کی یہ تعلیمات ہرگز نہیں ۔ دین اسلام کو پھیلانے کا حکم محض دس بارہ افراد تک محدود نہیں ، بلکہ جہاں تک انسان کی دسترس ہے وہاں تک دین کی صحیح ،ثابت شدہ اور اہل اسلام میں قابل عمل بات پر خود بھی عمل کرے کسی معتبر کتب سے دین کا مسئلہ خود پڑھے دوسرے کو بھی پڑھائے ، خود کسی معتبر عالم دین سے مسئلہ سیکھے دوسرے کو بھی سکھائے ، اس میں قباحت نہیں لیکن نہ تو دین کی معتبر کتب کا کچھ پتہ ہو اور نہ ہی اسلام کی مقتدر شخصیات سے رہنمائی لے بلکہ سوشل میڈیا پر چلتے پھرتے جھوٹے اور غیر ثابت شدہ میسجز کو دین سمجھ کر آگے پھیلاتا رہنا انجام کے اعتبار سے خسارہ والی بات ہے ۔
اسلامی مہینوں میں ربیع الاول ، رمضان المبارک ، محرم الحرام ، صفر المظفر، رجب المرجب اور شعبان المعظم میں بے بنیاد اور جھوٹے میسجز بہت پھیلائے جاتے ہیں ، اس سے بچنے کا آسان سا طریقہ یہ ہے کہ وہ میسج چند علما دین کی اس غرض سے سینڈ کریں کہ وہ اس بارے آپ کی رہنمائی فرمائیں۔
یہ درست ہے کہ بعض علماء کی تعلیمی، تدریسی، تصنیفی، تبلیغی اور تحریکی مصروفیات ہوتی ہیں ان کی علمی و عملی مشغولیت کا احترام کریں ، انہیں مجبور نہ کریں ، بلکہ ایسے علماء جن کے بارے اآپ کو معلوم ہو کہ وہ اس وقت اس قدر مصروف نہیں ہوں گے اور اس سے علیک سلیک بھی ہو تو ان سے فون کر کے پوچھ لیں ، میل کر کے پوچھ لیں ، ڈاک کے ذریعے پوچھ لیں ، واٹس ایپ ، فیس بک ، ٹوئٹر اور سوشل میڈیا پ کے ذریعے پوچھ لیں، باجماعت نماز کے بعد ، جمعہ والے دن نماز جمعہ کے بعد یا پھر کسی بھی ٹائم ان سے وقت لے کر ملیں اور سائل بن کر پوچھ لیں ۔
بعض لوگوں کی یہ عادت بہت بری ہوتی ہے کہ وہ علماء پر اپنا علم باور کرانا چاہتے ہیں ، یا علماء سے مقابلہ کی صورت پیدا کر لیتے ہیں ۔ ایسے شخص کے بارے حدیث مبارک میں بہت سخت وعید آئی ہے ۔
حَدَّثَنِي ابْنُ كَعْبِ بْنِ مَالِكٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ مَنْ طَلَبَ الْعِلْمَ لِيُجَارِيَ بِهِ الْعُلَمَاءَ……… أَدْخَلَهُ اللَّهُ النَّارَ۔
جامع الترمذی ، باب ما جاء فی من یطلب بعلمہ الدنیا ، حدیث نمبر 2578
ترجمہ: سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : جو شخص علم )دین(اس لیے سیکھے تاکہ اس کے ذریعے سے علماء سے جھگڑا کر سکے…….تو اللہ تعالی ایسے شخص کوجہنم کی آگ میں ڈالے گا۔
اس لیے سائل بن کر سچی طلب کے ساتھ پوچھنے میں قباحت نہیں لیکن بلاوجہ ان کو تنگ کرنا قطعاً درست نہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو علماء سے پوچھ پوچھ کر دین پر چلنے اور گمراہیوں سے بچنے کی توفیق دے ۔بے بنیاد اور جھوٹے میسجز پھیلانے سے ہماری حفاظت فرمائے۔
آمین بجاہ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
جامعہ مدینۃ العلم ، فیصل آباد
جمعرات ، 16 نومبر،2017ء